یہ جزائر کیچڑ سے بھرے تھے۔ یہاں مچھر، خطرناک سانپ بچھووں، جونکوں اور بے شمار اقسام کے زہریلے کیڑوں اور چھپکلیوں کی بھرمار تھی۔سب سے پہلےفوجی ڈاکٹر اور آگرہ جیل کے وارڈن جے پی واکر اور جیلر ڈیوڈ بیری کی نگرانی میں ’ 200باغیوں‘ کو لے کر پہلا قافلہ 10 مارچ سنہ 1858 کو ایک چھوٹے جنگی جہاز میں وہاں پہنچا۔ پھر کراچی سے مزید 733 قیدی یہاں لائے گئے اور پھر یہ سلسلہ جاری رہا۔ ۔ اس وقت یہ جزائر گھنے جنگلات کے علاوہ کچھ نہیں تھے۔ جزائر انڈمان نکو بار بحرِ ہند میں واقع ہیں۔ ہندوستان سے جزائر انڈمان نکو بار کی غیر معمولی دُوری کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ انڈومان کی جنوبی سرحد سے ملیشیا صرف ایک سو کلومیٹر دور ہے ،اسی طرح اس کی سرحد کی لمبائی کا اندازہ صرف اس سے ہوتاہے کہ اس کی شمالی سرحد سے برما صرف ایک سو بیس کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے ،ا
نڈومان پوری دنیا میں اس اعتبار سے اپنی الگ پہچان رکھتا ہے کہ وسطی انڈومان میں تقریباً ساڑھے چھ سو مربع کلومیٹر کے جزیروں میں پتھروں اور فولاد کے زمانہ کے تہذیب وتمدن سے عاری وحشی قسم کے لوگ آج بھی موجود ہیں جو ہمیشہ برہنہ رہتے ہیں ،پوری دنیامیں ان کی زبان کوئی نہیں سمجھ سکتا ،وہ مہذب انسانوں سے دور بھاگتے ہیں ،زندگی بھر جنگلوں سے باہر نہیں نکلتے ،ان کے سر گول ہیں اور آنکھیں باہر نکلی ہوئی،لیکن ان کے دانت نہایت چمکیلے وسفید اور بال گھنگریالے ہیں ،ان کی غذا کیڑے مکوڑے ، سمندری کیچوے اور جنگلی پھل ہیں،آج بھی وہ ماچس کے بجائے پتھر رگڑ کر آگ جلاتے ہیں ،ان کے مکانات اور رہن سہن کو دیکھ کر ہر کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ حضرت آدم کے زمانہ کے قرن اول کے لوگ ہیں ۔ اس زمانہ میں رونما ہونے والے کسی بھی واقعہ یا زمین پر ہونے والے کسی بھی حادثہ کا نہ ان کو علم ہے نہ اس سے کوئی واسطہ ،حکومت کا کوئی قانون ان پر نافذ نہیں ہوتا، یہ لوگ شہری اور مہذب انسانوں سے وحشت کرتے ہیں اور ان سے دور بھاگتے ہیں یا پھر ان پر حملہ کرتے ہیں ،ان کے علاقوں کو حکومت نے محفوظ قرار دے کر اس کے آس پاس پہرہ بٹھا دیا ہے ،سرکاری اجازت کے بغیر کوئی وہاں نہیں جاسکتا،آج بھی ان وحشی انسانوں کی تعداد کا صحیح علم نہ حکومت کو ہے اور نہ کسی اور کو۔
انڈومان کے یہ جزائر یوں تو صدیوں سے آباد ہیں اور وہاں کے قریب سے ہمیشہ تجارتی وسیاحتی قافلے گزرتے رہے لیکن وہاں رک کر مستقل آباد ہونے کی ان وحشی انسانوں سے ڈر کی وجہ سے کسی کی ہمت نہیں ہوئی پہلی دفعہ 1759 ء میں سبز قدم انگریز قیدیوں کی مستقل کالونی بنانے کے لیے اس کالونی پر وارد ہوئے تو یہاں کے غیرمہذب وحشیوں نے ان پر حملہ کر دیا۔ اور ایک خوں ریز جنگ کے بعد یہاں کے کچھ علاقوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس وقت فرنگی لشکری یہاں اپنے200قیدیوں کو لے کر اس زمین پر قابض ہونے آئے تھے۔کالے پانی کی جیل بنانے کے لئے آئ لینڈ کا رقبہ محض صفر اعشاریہ تین سکوائر کلومیٹر تھا۔ اس کو تعزیری جزیرے کے لی سب سے پہلے چنا گیا کیونکہ یہاں پر پانی موجود تھا۔ اس جزیرے پر گھنے جنگل کو صاف کرنے کا مشکل کام سزا یافتہ باغیوں کے حوالے کیا گیا جبکہ برطانوی آفیسر بحری جہازوں ہی پر رہے۔آبادکاری کے کھنڈر-ان جزیروں میں سے ایک جزیرہ روس آئی لینڈ ہے۔ یہ ماضی میں ایک قصبہ تھا جہاں 19 ویں صدی کے برطانوی آبادکاری کے نشانیاں اب کھنڈرات میں تبدیل ہو گئی ہیں۔ اس جزیرے کو 40 کی دہائی میں ترک کیا گیا ۔ شاندار مکانات، بڑا چرچ اورقبرستان ٹوٹ پھوٹ کے قریب ہیں۔
خلیج بنگال میں واقع انڈیا کے انڈمان اور نکوبار جزائر 572 جزیروں پرمشتمل ہیں جن میں سے صرف 38 پر آبادی ہے۔ یہ کلکتہ سے 780 میل جنوب میں تقریباً ایک ہزار جزیروں کا مجموعہ جزائر انڈمان نکوبار کہلاتا تھا اور جزیرے فاصلے کے حساب سے انڈیا کی بہ نسبت جنوب مشرقی ایشیا کے زیادہ قریب ہیں۔یہ جزیرے شاندار ساحلوں، سمندری حیات، ساحلی خوبصورتی اور جنگلات کے حوالے سے مشہور ہیں لیکن دلکش نظاروں کے علاوہ ان کا سیاہ ماضی ہے۔انڈمان و نکوبار بھارت کی مرکزی زیرِ انتظام علاقہ جات ہیں۔ یہ جزیروں پر مشتمل ہے اور خلیج بنگال میں واقع ہے۔ ان کا شمار جنوبی ہند میں کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر تامل،ملیالم اور انڈمانی زبانیں بولے جاتے ہیں۔1995ء میں ہوائی جہاز سے لی گئی تصویر جس میں انڈمان کے بیرن جزیرے میں موجود آتش فشاں سے دھواں نکل رہا ہے-جنوبی ایشیا میں صرف انڈمان وہ جگہ ہے جہاں زندہ آتش فشاں پایا جاتا ہے۔ماضی کی بدنام ترین جیل کالا پانی انڈمان میں ہی واقع ہے اور برطانوی استعمار کی یاد تازہ کرتی ہے۔ان جزائر میں ملیریا بہت عام ہے-
تعزیری کالونی کے وسیع ہونے کے ساتھ سزا یافتہ باغیوں کو قریبی جزیروں پر تعمیر کیے گئے جیلوں اور بیرکس میں رکھا گیا۔ روس آئی لینڈ پر انتظامی ہیڈ کوارٹر کے ساتھ ساتھ اعلیٰ افسران اور ان کے اہل خانہ کی رہائش گاہیں بھی بنائی گئی تھیں۔کیونکہ پانی کی وجہ سے پھیلنے والی بیماریوں کے باعث شرح اموات بہت زیادہ تھی اس لیے ہر ممکن کوشش کی گئی کہ روس آئی لینڈ کو رہنے کے لیے اچھا جگہ بنایا جائے۔ اعلیٰ فرنیچر سے سجے ہوئے شاندار محلات، بڑے باغیچے اور ٹینس کورٹس بنائے گئے۔اس کے علاوہ چرچ، پانی صاف کرنے کا پلانٹ، فوجی بیرکس اور ہسپتال بنایا گیااس وقت ’کالا پانی ایک ایسا قید خانہ تھا جس کے درودیوار کا بھی وجود نہ تھا۔ اگر چار دیواری یا حدود کی بات کیجیے تو ساحل سمندر تھا اور اگر فصیل کی بات کیجیے تب بھی ٹھاٹھیں
-مارتا ہوا ناقابل عبور سمندر ہی تھا۔ قیدی قید ہونے کے باوجود آزاد تھے لیکن فرار کے سارے راستے مسدود (بند) جاری ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں