ہفتہ، 11 جنوری، 2025

امریکی تاریخ کی بدترین آگ

 

امریکی  تاریخ میں  لگنے  والی  آگ  جس نے شہر لاس اینجلس  کے ایک بڑے رقبے کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا 10 ہزار عمارتیں  اپنا وجود کھو بیٹھیں لوگوں کو اپنی عمر بھر کی کمائ سے محروم ہوجا نا پڑا ، اموات بڑھ گئیں امریکی صدر جو بائیڈن نے لاس اینجلس میں آگ لگنے سے ہونے والی تباہی پر اگلے چھ ماہ تک 100 فیصد اخراجات اٹھانے کا اعلان کردیا۔ انہوں نے آتشزدگی کو موسمیاتی تبدیلی کی وجہ قرار دیا ہے۔آتشزدگی پر بریفنگ کے دوران صدر جو بائیڈن نے کہا کہ فنڈنگ کی رقم سے متاثرہ علاقوں سے ​​ملبہ ہٹایا جائے گا اور عارضی پناہ گاہیں قائم کی جائیں گی۔ان کا کہنا تھا کہ ریسکیو ورکرز کی تنخواہوں سمیت جان و مال کے تحفظ کے لیے تمام اقدامات پورے کیے جائیں گے۔صدر جو بائیڈن نے مزید کہا کہ تعمیراتی کام کے لیے اضافی فنڈز پاس کرنے کی ضرورت پڑسکتی ہے جس کے لیے وہ کانگریس سے اپیل کریں گے۔


دوسری جانب نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گورنر کیلیفورنیا سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ امریکا کے خوبصورت ترین علاقوں میں سے ایک جل کر راکھ ہوگیا جس کے زمہ دار ڈیموکریٹ گورنر نیوسم ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ لاس اینجلس پورا مٹ گیا، تین دن میں آگ پر زرہ برابر بھی قابو نہیں پایا گیا،رپورٹ کے مطابق خوفناک آگ نے 32 ہزار سے زائد ایکڑ کا رقبہ اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ متاثرہ علاقوں میں جھلس کر 10 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے، اموات میں اضافے کا خدشہ ہے۔ خشک اور تیز ہوا سے آگ میں خطرناک اضافے کا خدشہ برقرار ہے۔امریکی حکام کے مطابق اس وقت ہالی ووڈ ہلز، پاساڈیٹا سمیت 6 مقامات پر تاحال آگ لگی ہوئی ہے۔امریکہ کا  خوبصورت  ترین شہر  بھڑکتی آگ کی لپیٹ میں چار  دن سے جل رہا ہے-


کئی ہالی ووڈ شخصیات کے گھر بھی جل کر تباہ ہوگئے۔ آگ سے نقصانات کا ابتدائی تخمینہ پچاس ارب ڈالر سے زائد ہوگیا۔امریکی جنگلات میں لگی آگ بے قابو، 5 افراد ہلاک، ایک لاکھ سے زائد افراد علاقہ چھوڑنے پر مجبور-واضح رہے کہ لاس اینجلس کے جنگلات میں منگل کو لگنے والی آگ پر اب تک مکمل قابو نہیں پایا جا سکا۔ متاثرہ علاقوں میں سے 2 لاکھ شہریوں کو انخلا کا حکم دیدیا گیا ۔ ملک میں ہزاروں صارفین بجلی سے محروم ہو کر رہ گئے۔لاس اینجلس میں لگنے والی آگ کی وجہ کیا ہے؟لاس اینجلس کے جنگلات میں لگنے والی آگ میں اب کم از کم 10 افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہو گئی ہے۔ شہر میں گھروں اور عبادت گاہوں سے لے کر ہر قسم کی 10 ہزار سے زیادہ عمارتیں جل کر خاک ہو گئی ہیں۔فائر فائٹرز آگ کے پھیلاؤ پر قابو پانے کی کوششیں کر رہے ہیں جبکہ پولیس اس بات کی تحقیقات کر رہی ہے کہ کہیں آگ جان بوجھ کر تو نہیں لگائی گئی۔


 میری والدہ کی وفات ہو گئی تھی اور میں نے ان کی کچھ یادیں گھر میں سنبھال کر رکھی تھی، میری شادی کے جوڑے اور تصویروں والے البم سے لے کر گھر میں سب کچھ جل کر خاک ہو گیا ہے۔ ہمارے پاس بس یہ ایک ایک جوڑا ہی بچا ہے جو ہم پچھلے دو دنوں سے پہنے ہوئے ہیں۔'یہ الفاظ اس جوڑے کے ہیں جو لاس اینجلس میں لگنے والی آگ کے بعد آج اپنا جلا ہوا گھر دیکھنے پہنچے جس میں عمارت سمیت سب کچھ جل کر خاکستر ہو چکا تھا۔جنگل کی آگ سے متاثرہ علاقوں سے اپنے گھر باہر چھوڑ کر جانے والے رہائشی آب جب واپس لوٹے تو انھیں ہر طرف تباہی کے مناظر ملے ہیں۔ ان کے گھر اور کاروبار راکھ کا ڈھیر بن گئے ہیں۔پاؤل بیرن 12 سال سے لاس اینجلس میں رہ رہے ہیں۔ انھیں اپنی پارٹنر اور پالتو جانوروں کے ساتھ گھر اور علاقہ چھوڑنا پڑا۔


پولیس نے آتشزنی کے شبہ میں ایک شخص کو گرفتار کیا ہے جبکہ خالی کرائی گئی املاک لوٹنے کے الزام میں بھی 20 افراد کو پکڑا گیا ہے۔فائر فائٹرز کی کوششوں کے باوجود سب سے بڑی آگ اب تک بے قابو ہے۔ موسمی حالات اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے سبب خیال کیا جا رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں تیز ہوا شعلوں کو مزید بھڑکائے گی۔۔یلیسیڈزَ میں منگل کو بھڑکنے والی پہلی اور خطے کی سب سے بڑی آگ ہے جو ریاستی تاریخ کی سب سے تباہ کن   ہے۔ اس آگ نے زمین کا ایک بڑا حصہ جھلسا دیا ہے جو تقریباً 20 ہزار ایکڑ پر محیط ہے۔ایٹن: اس آگ نے لاس اینجلس کے شمالی حصے کو تباہ کیا ہے اور اس وقت بھی الٹاڈینا جیسے شہروں میں آگ بھڑک رہی ہے۔  

جمعہ، 10 جنوری، 2025

نفس انسانی کا نفیس سرمایہ ''متعہ''از روئے قران

  بِسْمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَحیِمِْ۝

 فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہ مِنْہُنَّ فَآتُوْہُنَّ أُجُوْرَہُنَّ فَرِیْضَۃ وَلَاجُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا تَرَاضَیْتُمْ بِہ مِنْم بَعْدِ الْفَرِیْضَۃ إِنَّ اللہ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا-"پھر جن عورتوں سے تم نے متعہ کیا ہے ان کا طے شدہ مہر بطور فرض ادا کرو البتہ طے کرنے کے بعد آپس میں رضا مندی سے مہر میں کمی بیشی کرو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے یقیناً اللہ بڑا جاننے والا حکمت والا ہے۔" (سورہ نساء :۲۴)انسان ہر زمانے میں اپنے سماج  سے اپنی ضروریات  پوری کرتا چلا آیا ہے سب سے پہلی احتیاج  بھوک لے لیجئے 'پیدائش سے لے کر اپنی موت تک وہ اپنی اس احتیاج کو کسی نا کسی زریعہ سے پوری کرتا ہے-پھر  جوانی کی عمر آنے پر اس کو ایک شریک حیات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے   لیکن اگر وہ اتنا مجبور ہے کہ شادی کے اخراجات  پورے کرنے سے قاصر ہے تو اللہ نے اس کی اس شدید احتیاج کو پورا کرنے لئے اپنے کلام بلاغت قران کریم میں واضح لفظوں میں اس کو سمجھا دیا کہ تم حلال اور جائز راستہ  ا ختیار کر کے  اپنی زندگی کو بارونق بنا سکتے ہوٍاب یہاں میں قبلہ آیئۃ اللہ مکارم شیرازی کا فرما ن دے رہی ہوں     


١۔ضرورت اور احتیاج 
 بہت سے لوگ مخصوصا ًجوانوں کا طبقہ دائمی شادی کرنے سے معذور ہے ، اس لئے کہ دائمی شادی میں ، مختلف ذمہ داریوں کو قبول کرنا اور دیگر آمادگیوں کی ضرورت ہوتی ہے کہ جو بعض جوانوں کے لئے بہت مشکل ہے بعنوان مثال:١۔ بہت سے جوان پڑھائی کے دوران مخصوصا ہمارے دور میں تعلیم کا سلسلہ چونکہ طولانی ہوتاہے لہذا دائمی شادی سے معذور ہوتے ہیں اسلئے کہ ان کے پاس نہ مناسب  کمائ کا زریعہ ہوتاہے نہ ہی کوئی مکان اور نہ ہی شادی کے اخراجات کا انتظام ہوتا ہے، وہ اپنی شادیوں میں جس حدتک بھی اخراجات کو کم کرنے کی کوشش کریں گے پھر بھی ضروری سامان مہیا کرنے سے بھی معذوررہتے ہیں۔٢۔ کچھ شادی شدہ لوگ ہیں جو بیرون ملک طولانی سفر کی وجہ سے ایک طرف نہ تو اپنی بیویوں کو ساتھ لے جاسکتے ہیں اور نہ ہی دوسری شادی کر سکتے ہیں ، جس کی وجہ سےجنسی محرومیت کا شکارہوجاتے ہیں۔

٣۔ کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جن کی بیویاں ایسی بیماریوں میں گرفتار ہوگئی ہیں کہ جن سے جنسی خواہش کو پورا نہیں کیا جاسکتا ۔٤۔ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں کہ جو فوج میں کام کرتے ہیں جنہیں سرحدوں کی حفاظت اور دیگر ملاز متوں پر طولانی مدت کے لئے بھیج دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ جنسی محرومیت کا شکارہوجاتے ہیں اور اگر ہم صدر اسلام کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ مشکل متعہ کی تشریع کا باعث بنی تھی ۔٥۔ کبھی بیوی کے حاملہ ہونے کی وجہ سے ،شوہر اپنی جنسی خواہش کو پورا نہیں کرسکتا یاایسی ہی دوسری مشکلات جو جوانوں کے لئے درپیش ہیں۔ایسی اجتماعی ضرورتیں اور مشکلات ہمیشہ سے تھیں اور رہیں گی جو نہ صرف   پیغمبر اعظم حضرت محمد مصطفےٰ صلے اللہ علیہ واٰ لہ وسلم کےدور سے مخصوص تھیں بلکہ ہمارے دور میں شدید ہوگئی ہیں۔


انسان ایسی مشکلات کے سامنے اپنے آپ کو دوراہے پر دیکھتا ہے ؛ وہ یا تو فحشاء میں مبتلا ہوجائے ) العیاذ باللہ ( یا ایک قسم کاوقتی نکاح کرے کہ جس میں ایک طرف دائمی شادی کی مشکلات نہ ہوں اوردوسری طرف جنسی خواہش بھی پوری ہوجائے۔دونوں طریقوں سے چشم پوشی کا مشورہ اچھاضرور ہے لیکن بہت سے لوگوں کے لئے ممکن نہیں ہے بلکہ بعض لوگ اسے محض خیال باطل سمجھتے ہیں کہ جس پر عمل محال ہے۔نکاح کی دو قسمیں ہیں نکاح دائمی و -نکاح وقتی یعنی متعہ ۔ مذہب جعفریہ کے علماء کا اجماع ہے کہ نکاح متعہ جائز ہے۔ نکاح دائمی و متعہ میں چند چیز مشترک ہیں۔
۱) عورت عاقلہ بالغہ راشدہ اور تمام موانع سے خالی ہو۔
۲) آپس کی رضا کافی نہیں بلکہ صیغہ شرعی پڑھنا ضروری ہے۔
۳) نکاح سے جو چیزیں عورت پر حرام ہو جاتی ہیں ان میں دونوں شریک ہیں
۴) اولاد کے سلسلہ میں دونوں برابر دائمی کی طرح متعہ میں بھی اولاد شوہر کی ہوتی ہے
۵ مہر دونوں میں ضروری ہے متعہ میں مہر کا ذکر نہ ہو تو نکا ح نہیں ہو گا۔
 ۶) نکاح میں طلاق کے بعد اور متعہ میں مقررہ مدت کے اختتام کے بعد عدت ضروری ہے۔
عقدِ متعہ اور عقدِ نکاح میں فرق
۱) نکاح متعہ میں مدت کا ذکر کرنا ضروری ہے۔
۲) مہر۔ نکاح متعہ کا رکن ہے اس کے ذکر کے بغیر نکاح نہیں ہو گا
۳) نکاح دائمی میں نفقہ دینا واجب ہے اور نکاح متعہ میں اگر شرط کر لی جائے تو واجب ہے۔
۴ ) نکاح دائمی۔ طلاق کے بغیر ختم نہیں ہو تا متعہ۔مدت کے اختتام پر ختم ہو جاتا ہے۔ بہرَ حال دونوں ہی نکاح ہیں دونوں ہی شرعی ہیں-غلط فائدہ لینا صحیح چیزوں سے غلط فائدہ اٹھانے سے دشمنوں کی زبانیں کھل جاتی ہیں اور ان کے ہاتھوں میں بہانے آجاتے ہیں تاکہ اسے سندبناکر اس کے خلاف پروپیگنڈہ اور اس پر اپنے اعتراضات کی بوچھار کرسکیں۔متعہ انہیں بحثوں کا ایک حصہ ہے ۔نہایت افسوس کے ساتھ یہ حقیقت قبول کرنے پر مجبور ہیں کہ بعض ہوس رانوں نے متعہ جو اجتماعی مشکلات کو حل کرنے کے لئے تھا، اسے اپنے ہاتھوں کا کھلونا بناکر کچھ بے خبر لوگوں کو فرصت دے دی کہ وہ ایسے حکیمانہ حکم پر اپنے اعتراضات کی بارش کریں۔لیکن یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ ا س متعہ کے علاوہ کون سا حکم ہے کہ جس سے غلط فائدہ نہ اٹھایا گیا ہو اور کون سا ایسا نفیس سرمایہ ہے کہ جسے نااہلوں نے بے جا استعمال نہ کیا ہو ؟!اگر ایک دن قرآن کو نیزوں پر بلند کر کے ظالموں کی حکومت کی توجیہ کی جانے لگے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کو ترک کردیا جائے؟


یا اگر منافقوں نے مسجد ضرار کی بنیاد ڈالی اور پیغمبر ۖ نے اسے منہدم یا جلا دینے کا حکم دیا تو کیا اس کا مطلب ہے کہ مسجد سے کنارہ کشی کرلی جائے؟بہرحال ہم اس بات کے معترف ہیں کہ بعض اسلامی احکامات سے غلط فائدہ اٹھایا گیا ہےلیکن کبھی بھی ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم چند بے نمازوں کی وجہ سے مسجد کے دروازوں کو بند کردیں یا ایک رومال کی وجہ سے پورے قیصریہ میں آگ لگادیں۔ہمیں ہوسرانوں کے سامنے دیوار کھڑی کرنی ہوگی اور متعہ کے لئے صحیح تدبیر سوچنی ہوگی ۔مخصوصاًہمارے زمانے میں کسی صحیح تدبیر کے بغیر امکان پذیرنہیں ہے لہذا اس ہدف کےلئے ضروری ہے کہ چند دانشمند حضرات اکٹھاہوں اور اس کے لئے ایک دستور العمل مرتب کریں تاکہ شیطان صفت لوگوں کے ہاتھ کٹ جائیں اور اس حکم الہی کی خوبیاں سامنے ابھر کرآئیں تاکہ اس طرح ہوسرانوں اور کینہ 
توزوں کے لئے راستہ مسدود ہوجائے۔
 

جمعرات، 9 جنوری، 2025

سری نگر میں فیض احمد فیض اور ایلس فیض کے نکاح کا پس منظر

  



 حقیقت میں یہ روایت مغلیہ دور سے چلی آ رہی ہے کہ موسم گرما میں کشمیر اکثر بادشاہوں یا مہاراجوں کا مسکن بنتا تھا بادشاہوں یا ان کے بعد راجے مہاراجوں نے اپنے زمانے میں باغات اور محل قائم کر کے خود بھی لطف اٹھایا اور عوام کی تفریح کے لیے بھی خوبصورت وراثت چھوڑ گئے ہیں جن سے وہاں کے عوام آج بھی فیض یاب ہو رہے ہیں جب سری نگر میں فیض احمد فیض کا 'ایلس جارج' سے نکاح ہوا-یہ 28 اکتوبر 1941 کی بات ہے۔فیض احمد فیض اور ایلس فیض کے رومان  پرور دن اپنے عروج پر تھے اور انہوں نے اپنے اس رومان کو دائمی رشتے میں بدلنے کا فیصلہ کر  لیا تھا -اس دن کشمیر کے دارالحکومت سری نگر میں موسم خوشگوار تھا   اور ڈوگرہ حکومت کے خلاف تحریک کے چوٹی کے رہنما تاریخی پری محل میں منعقدہ ایک تقریب میں جمع تھے۔دنیا بھر میں اپنے منفرد حسن و جمال کے لیے مشہور خطہ کشمیر میں یہ نکاح انجام پایا تھا۔فیض احمد فیض کا ایلس جارج (جن کا بعد میں نام  کلثوم رکھا گیا لیکن وہ ایلس فیض کے نام سے ہی یاد کی جاتی رہی ہیں) سے نکاح ڈوگرہ راج کے خلاف تحریک آزادی کے روح رواں اور قدآور سیاسی رہنما شیخ محمد عبداللہ نے پڑھا۔ نکاح نامے پر دستخط کرنے والوں میں غلام محمد صادق اور بخشی غلام محمد بھی تھے۔یہ دونوں (صادق اور بخشی) بعد ازاں کشمیر کے وزیر اعظم بن گئے اور فیض احمد فیض کے گہرے دوست بھی تھے۔


نکاح خوانی کی تقریب میں ڈاکٹر نور حسین، خورشید حسن خورشید اور ایلس جارج کے بہنوئی ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر بھی شریک تھے۔فیض احمد فیض کے نکاح کا خطبہ کس نے پڑھا اور کس نے پڑھوایا اس بارے میں مورخین میں اختلاف رائے ہے۔ تاہم شیخ محمد عبداللہ کے قریبی ساتھی اور مورخ محمد یوسف ٹینگ کا  کہنا ہے کہ فیض کا نکاح شیخ عبداللہ نے کشمیر کے اس وقت کے بلند پایہ عالم دین مولانا سید احمد اللہ ہمدانی سے پڑھوایا تھا۔محمد یوسف ٹینگ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں اس نکاح کے بارے میں کہا: 'شیخ محمد عبداللہ نے فیض احمد فیض کا ایلس سے نکاح کا خطبہ خود نہیں پڑھا تھا بلکہ مولانا سید احمد اللہ ہمدانی سے پڑھوایا تھا۔'یہ پوچھے جانے پر کہ نکاح خوانی کی تقریب سری نگر میں منعقد کیوں ہوئی تو ان کا کہنا تھا: 'فیض احمد فیض ہر سال پنجاب سے موسم گرما گزارنے کے لیے کشمیر آیا کرتے تھے۔ جب انہیں محسوس ہوا کہ یہاں موسم خوشگوار ہے تو وہ نکاح خوانی کی تقریب انجام دینے کے لیے یہاں آئے۔ اُن دنوں     پنجاب سے   اکثر لوگ گرمیوں میں یہاں براستہ چناب ویلی آیا کرتے تھے۔'محمد یوسف ٹینگ کو فیض احمد فیض کے  ساتھ لاہور میں واقع ان کی رہائش گاہ پر 14 مارچ 1983 کو ملاقات کرنے کا شرف بھی حاصل ہوا ہے تاہم یہ ملاقات اس وقت ہوئی جب شیخ محمد عبداللہ راہی ملک عدم ہوچکے تھے۔

چالیس برس پہلے ان کی بارات سری نگر محلہ میں آئی تھی۔ ایلس کہتی ہیں کہ''شادی پر فیض تو وہی روزمرہ کے گرم سوٹ میں تھے،کوئی خاص اہتمام نہیں تھا بس گلے میں گوٹے کا ایک موٹا ہار ڈال رکھا تھا، جو اُن کی والدہ نے لاہور سے بھیجا تھا۔ سہرے وغیرہ کا دور دور تک پتا نہ تھا۔ اس گوٹے کے ہار کو میں نے عمر بھر اس توجہ سے محفوظ رکھا کہ ان کی دونوں بیٹیوں کی شادی میں دلہوں کے گلوں میں باری باری یہی ہار بطور تبرک ڈالا گیا تھا۔''ایلس نے مزید لکھا ہے کہ '' اس موقعے پر میں نے لال رنگ کی بہت خوبصورت ساڑی پہنی تھی جس پر سنہرے تاروں کا شاندارکام کیا گیا تھا۔ یہ ساڑی فیض نے چند ماہ قبل شملہ سے میرے لیے خریدی تھی۔ شاہی محل میں یوں تو سب انتظام تھا، بس مہمان گنتی کے تھے۔ عورتیں محض چند ایک ہی تھیں۔ ان میں سب سے زیادہ پُرجوش تو تاثیر اورکرس کی چھوٹی بیٹی سلمیٰ تھی جو حیرت سے کبھی مجھے دیکھتی تھی اورکبھی فیض اور دوسرے لوگوں کو۔ اس کے لیے یہ سب کچھ عجیب اور عام زندگی سے کتنا مختلف تھا۔ ادھر تاثیرکی خوبصورت پرکشش اور ہنس مکھ والدہ تھیں جو الگ تھلگ بیٹھی اپنا چھوٹا سا حقہ گڑگڑا رہی تھیں۔ رفیع پیرکی بہن اور اس کی لڑکیاں بھی تھیں۔


عورتوں میں تو بس ایک ہی سرگوشی جاری تھی کہ لو بھلا یہ کیا شادی ہوئی؟ فیض اور ایلس کی شادی اور ایسی روکھی پھیکی ' نہ کوئی بارات ہے، نہ بینڈ باجا، نہ کہیں ڈھولک بجی ہے، نہ سہاگ کے گیت گائے گئے ہیں۔ اتنے میں کمرے کا دروازہ کھلا۔ دروازے میں شیخ عبداللہ کھڑے تھے۔ چھریرے بدن کے قدر آور، اسمارٹ، چاق و چوبند اور جاذب نظر شیخ عبد اللہ نپے تُلے قدموں سے پہلے تاثیرکی والدہ کی طرف بڑھے اور بہت ادب سے جھک کر انھیں سلام عرض کیا۔انھوں نے بھی سر جھکا کر شیخ عبداللہ کے سلام کا جواب دیا۔ پھر وہ میری طرف آئے اور مجھے بھی جھک کر تعظیم دی اور پھر بہت نرمی سے انگلش اور اردو میں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ '' اسلام میں شادی کا بندھن دراصل ایک طرح کا باہمی معاہدہ ہوتا ہے، دلہا دلہن کے درمیان جس کی دونوں فریقوں کو لازماً پابندی کرنی ہوتی ہے۔ آپ کی شادی کی سب شرائط تحریری طور پر نکاح نامے میں شامل کرلی گئی ہیں اور اسلامی طریق کار کے مطابق اس نکاح کی کارروائی کو شروع کرنے سے پہلے مجھے آپ کی باقاعدہ اجازت کی ضرورت ہے۔ پھر انھوں نے نکاح کی جملہ شرائط مجھے انگلش میں سمجھائیں اور کہا کہ آپ کا نکاح نامہ آپ کی بہن کرس اور ایم ڈی تاثیرکے نکاح نامے کی بنیاد پر ہی تیار کیا گیا ہے جسے علامہ اقبال نے مرتب کیا تھا۔''


یوں ایلس اور فیض کی شادی پایہ تکمیل کو پہنچی۔ تاثیر اورکرس نے براتیوں اور مہمانوں کے لیے کشمیری کھانوں کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ دو ایک دن سری نگر میں قیام کیا گیا۔ دلہا دلہن نے ڈل جھیل پر بوٹ میں ہنی مون منایا ۔ دونوں بھائی اور بعض دوسرے لوگ شادی کے دوسرے ہی دن لاہورکے لیے روانہ ہوچکے تھے کہ یہاں پہنچ کر انھیں ولیمے کی دعوت کا اہتمام کرنا تھا ۔ واپسی میں فیض، ایلس، جوش اور مجاز بس کے ذریعے راولپنڈی کے لیے روانہ ہوئے اور وہاں سے بذریعہ ریل لاہورکا سفر اختیارکیا۔ جیب میں بس اتنی ہی رقم تھی جس میں تین انٹرکلاس کے ٹکٹ اور ایک سلیپر میرے لیے مخصوص کرائی جاسکی۔ سلیپرکا اہتمام اس لیے کیا گیا کہ مجھے راستے میں لیٹنے کی سہولت رہے۔یہ بھی نئی نویلی دلہن کا اعزاز تھا ورنہ پورا سفر ہی بیٹھے بیٹھے طے کرنا پڑتا۔ جیسا کہ فیض، جوش اور مجاز نے کیا۔ پروگرام کے مطابق ایلس کو راولپنڈی کے ویٹنگ روم میں گھس کر روزمرہ لباس کی جگہ دلہن کا شادی والا جوڑا بدلنا پڑا، کیونکہ یہاں سے روانہ ہوکر ٹرین کو لاہور ہی پہنچنا تھا جہاں پروگرام کے مطابق بارات کے خیر مقدم کا اہتمام تھا، وہاں فیض کے گھر والے، عورتیں اور بچے بھی جمع ہوں گے۔ ویٹنگ روم میں موجود عورتوں نے ایک گوری میم کو ہندوستانی دلہن کے روپ میں حیرت سے دیکھا اور ان میں سے جو ایک دو اسمارٹ اور نوجوان لڑکیاں تھیں،انھوں نے ایلس کے سنگھار میں اس کی خوب مدد بھی کی۔ انھیں بہرحال اس بات پر بہت حیرت تھی کہ یہ کیسی دلہن ہے جس نے نہ تو کوئی زیور پہنا ہے اور نہ کوئی بھڑ ک دار جھمکے وغیرہ، نہ میک اپ کی چمک دمک ہے، نہ سر پر دلہنوں والا گھونگھٹ ہے 'لیکن وہ دونوں دنیاوی رسومات سے آزاد ہو کر  اللہ کی شریعت کا راستہ اختیار کر کے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام چکے تھے 

فیض احمد فیض شعرو ادب کی دنیا کے بادشاہ

  

فیض احمد فیض    شعرو ادب کی دنیا میں اس طرح وارد ہوئے کہ اپنے تمام ہم عصروں کو کہیں پیچھے چھوڑ تے ہوئے کہیں آگےایسے  آ نکلے کہ ان کے ہم عصر شعراء  کے چہرے وقت کی دبیز دھند میں کہیں پیچھے  دھندلا گئے -  ان کو ویسے  تو  کئ زبانوں میں  مہارت حاصل تھی   ، لیکن  اردو کی رومانوی شاعری نے ان کو شہرت دوام  کے بام پر بٹھا دیا  اور ۔پھر ملک کے حالات دیکھتے ہوئے وہ جب  دل گرفتہ ہوئے  ان کی سوچ اور فکر نے سماج کو جگانے کے لئے جو شاعری کی اس شاعری نے ان کو  شاعر انقلاب  کے لقب سے سرفراز کیا  اردو ادب کے بہت سے ناقدین کے نزدیک آپ غالب اور اقبال کے بعد اردو کے سب سے بڑے شاعر تھے۔ میرزا غالب اور اقبال کے بعد جو داد و تحسین اور مقبولیت انکے حصے میں آئی وہ شاید ہی کسی دوسرے کے نصیب میں آئی ہو۔ وہ ایک بے مثال شاعر ہی نہیں بلکہ انکی نثر بھی باکمال اور منفرد اسلوب کی حامل ہے۔انہوں نے جب شاعری شروع کی تو اس وقت بہت سے قد آور شعراءموجود تھے، جنکے درمیان خود کو منوانا آسان کام نہ تھا۔ جگر مراد آبادی، فراق گورکھپوری اور جوش ملیح آبادی کے سامنے کسی کا چراغ نہ جلتا تھا۔ لیکن فیض کے منفرد انداز نے انھیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ انکی شعری تصانیف میں نقش فریادی، میرے دل میرے مسافر ، دست تہ سنگ -دست  صبا، زنداں نامہ، ، شام شہریاراں،سرِوادی سینا، اور نسخہ ہائے وفا شامل ہیں۔


 فیض نے اپنی ابتدائی مذہبی تعلیم مولوی محمد ابراہیم میر سیالکوٹی سے حاصل کی۔ بعد ازاں 1921ءمیں سکاچ مشن سکول سیالکوٹ میں داخلہ لیااویہاں میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ میٹرک کے بعد ایف اے مرے کالج سیالکوٹ ہی سے پاس کیا۔(سکاچ مشن سکول ہی کا نام تبدیل کر کے بعد میں مرے کالج رکھ دیا گیا تھا)انہوں نے سکول میں فارسی اور عربی زبان سیکھی۔ بی اے گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا اور پھر وہیں سے 1932 ءمیں انگریزی میں ایم اے کیا۔ آپ کے اساتذہ میں میر مولوی شمس الحق ( جو علامہ اقبال کے بھی استاد تھے) بھی شامل تھے۔ان کے علاوہ آپ کے اساتذہ میں شمس العلماءپروفیسر مولوی میر حسن کا نام بھی لیا جاتا ہے ، یہ بھی علامہ اقبال کے استاد رہے ہیں۔ بعد میں اورینٹل کالج لاہور سے عربی میں بھی ایم اے کیا۔ 1935ءمیں آپ نے ایم اے او کالج علی گڑھ میں انگریزی و برطانوی ادب کے لیکچرر کی حیثیت سے ملازمت کی اورپھر ہیلے کالج لاہور میں۔ 1936ءمیں آپ نے سجاد ظہیر اور صاحبزادہ محمودالظفر کے ساتھ مل کر انجمن ترقی پسند مصنفین تحریک کی بنیاد ڈالی۔

فیض انگریزی، اردو اور پنجابی کے ساتھ ساتھ فارسی اورعربی پر بھی عبور رکھتے تھے۔ انہوں نے ان زبانوں کی کلاسیکی شاعری سے براہ راست استفادہ کیا۔ اردو کی کلاسیکی شاعری پر بھی انکی گہری نگاہ تھی۔ کلاسیکی شعراءکی گہری چھاپ انکے ہاںنظر آتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ترقی پسندی کی تند و تیز آندھی میں بھی انکی شاعری کا معیار برقرار رہا۔فیض پر یہ حقیقت واضح تھی کہ روٹی، کپڑا، مکان وغیرہ کے مطالبات انسان کے جسم سے متعلق ہیں، اسکی روح کی طلب روٹی کپڑے کے بجائے روحانی تسکین کی متلاشی نظر آتی ہے، اور جسکی تسکین انہیں رومان ہی میں نظر آتی ہے۔ انکے ہاں  سطحی رومانیت نہیں ملتی، بلکہ انہوں نے بڑی خوبصورت تشبیہات کے ذریعے اپنے محبوب کا ذکر کیا ہے 
رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے
جیسے صحراﺅں میں ہولے سے چلے باد نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے
جہاں تک ”دست صبا“ کا تعلق ہے تو یہ ایک خاص عہد کی عکاسی کرتا ہے یہ فیض کے ایک خاص عہد کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ دست صبا کی نظموں میں فیض نے حقائق کو غم جاناں بنا کر پیش کیا ہے۔ فیض کے یہاں عشق ایک مسلسل رنگ ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے مقصد کو بھی اس سے ہم آہنگ کر دیا ہے۔ دوسرے شعراء، جوش، اختر شیرانی، حفیظ جالندھری، مجاز، ساحر کے ہاں ہمیں ایک طرف خالص عشقیہ شاعری نظر آتی ہے اور دوسر ی طرف خالص انقلابی شاعری۔ یہ شعراءجب اپنے محبوب کا ذکر کرتے ہیں تو دنیا و مافہیا سے بے خبر ہو جاتے ہیں۔ اپنے گرد حسن و کیف و سرور کی دنیا میں کھو جاتے ہیں۔ اور جب اس ماحول سے نکل کر تلخ حقیقتوں کی جانب رجوع کرتے ہیں تو پھر صاف بغاوت، انقلاب اور رجز کے علاوہ کوئی دوسرا ذکر انکے لبوں پر نہیں آتا۔ اس سے ظاہر ہوا کہ ان شعراءکے ہاں عشق اور انقلاب دو متضاد عناصر ہیں۔ شاعر جب ایک کا دامن پکڑتا ہے تو دوسرے کو بھول جاتا ہے۔ مگر فیض کے یہاں ایسا نہیں ہے۔ وہ دونوں کو اپنے دامن میں سمیٹ کر چلتے ہیں اور جب ایک پر نظر پڑتی ہے تو دوسرا خود بخود نظر آجاتا ہے۔ فیض کا یہی انداز انکو اپنے ہم عصروں میں منفرد بناتا ہے :فیض اپنے کلام سے اپنے خشک زاہد اور ناصح ہونے کا تصور نہیں دیتے، بلکہ پھول اور تلوار کے ساتھ ساتھ چشم و لب کی کاٹ کی باتیں بھی کرتے ہیں۔ انکی افتاد طبع رومانی ہے- انکے سینے میں پیار بھرا دل دھڑکتا ہے، انکے کلام میں لطافت اور نزاکت کی روحانی فضاءچھائی رہتی ہے، وہ تصور جاناں پر سب کچھ نچھاور کرتے نظر آتے ہیں :
تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی و رخسار و ہونٹ
زندگی جنکے تصور میں لٹا دی ہم نے 
1941ءمیں آپ نے لبنانی نژاد برطانوی خاتون ایلس جارج سے شادی کی۔ 1942 ءمیں فوج میں کیپٹن کی حیثیت سے شامل ہو گئے اور محکمہ تعلقات عامہ میں کام کیا۔ 1943 ءمیں میجر اور پھر 1944 ءمیں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی پا گئے۔7 194 ءمیں فوج سے مستعفی ہو کر واپس لاہور میں سکونت اختیار کر لی ۔1947ءمیں آپ لاہور کے انگریزی روزنامہ ”پاکستان ٹائمز“ کے ایڈیٹر مقرر ہوئے ، 9مارچ 1951ءکو حکومت وقت نے آپ کو راولپنڈی سازش کیس میں معاونت کے الزام میں گرفتار کر لیا، 4سال سرگودھا، ساہیوال، حیدرآباد اور کراچی کی جیلوں میں گزارنے کے بعد 2اپریل 1955ءکو رہا ہوئے۔ رہائی کے بعد آپ نے جلا وطنی اختیار کی اور اپنے خاندان سمیت لندن میں رہائش پذیر ہو گئے۔ آپ 1959ءمیں پاکستان آرٹس کونسل میں بطور سیکرٹری تعینات ہوئے اور 1962ءتک وہیں پر کام کیا۔ 1964ءمیں لندن سے واپسی پرآپ عبداللہ ہارون کالج کراچی میں پرنسپل کے عہدے پر فائز ہوئے۔وہ اپنے زمانے کے معروف اشترکیت پسند کمیونسٹ تھے۔ فوج میں ملازمت اختیار کی اور لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے تک پہنچ کر مستعفی ہو گئے۔ ان کی شاعری اپنے دور کی آمریت کے خلاف آوازہے۔ 13فروری 1911ءکو سیالکوٹ میں پید اہوئے۔ ا  نتقال 20نومبر1984ءکو لاہور میں ہوا۔جلاوطنی کے زمانے میں دلی کرب میں ڈوبی  ہوئ شاعری 
تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں 
کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں 
-
حدیثِ یار کے عنواں نکھرنے لگتے ہیں 
تو  ہر حریم میں گیسو سنورنے لگتے ہیں 
-
ہر اجنبی ہمیں محرم دکھائی دیتا ہے 
جو اب بھی تیری گلی سے گزرنے لگتے ہیں 
-
صبا سے کرتے ہیں غربت نصیب ذکرِ وطن 
تو چشمِ صبح میں آنسو ابھرنے لگتے ہیں 
-
وہ جب بھی کرتے ہیں اس نطق و لب کی بخیہ گری 
فضا میں اور بھی نغمے بکھرنے لگتے ہیں 
-
درِقفس پہ اندھیرے کی مہر لگتی ہے 
تو فیضؔ دل میں ستارے اترنے لگتے ہیں 
شاعر: فیض احمد فیض
اور پھر یہ سچا محب وطن فرزند بالآخر  اپنے وطن کی مٹی میں آ کر دفن ہو گیا 

بدھ، 8 جنوری، 2025

الکھ نگری کا مسا فر ''ممتاز مفتی''

 گیارہ ستمبر 1905کو بٹالہ ضلع گرداسپورمشرقی پنجاب میں  پیدا ہونے والے ممتاز مفتی نے میانوالی،اور ڈیرہ غازی میں ابتدائی تعلیم حاصل کی پھر 1929میں اسلامیہ کالج لاہور سے بی اےاور1933 میں سنٹرل کالج لاہور سے ایس اے وی کا امتحان پاس کیا۔ پھر  آل انڈیا ریڈیو اور ممبئی فلم انڈسٹری میں ملازمت کرتے  رہے۔ 1947میں پاکستان چلے گئے۔وہاں حکومت پاکستان کے مختلف عہدوں پر فائز رہےپاکستان کے جید لکھاریوں میں صف اول کے لکھاری مانے جاتے ہیں ۔ان  کے افسانوی مجموعے ان کہی ، گہماگہمی،چپ، گڑیاگھر،روغنی پتلے، کے نام سے شائع ہوئے۔ انہوں نے انشائیے بھی لکھے جو بہت مشہور ہوئے اور شوق سے پڑھے گئے ۔ ’غبارے ‘ کے نام سے انشائیوں کا مجموعہ شائع ہوا۔’ کیسے کیسے لوگ‘  اور ’پیاز کے چھلکے‘ کے نام سے خاکوں کے دو مجموعے شائع ہوئے۔عمر کے آخری برسوں میں ممتاز مفتی سفر حج پر گئے اور واپسی پر’لبیک‘  کے نام سے سفر حج کی رودار  لکھی جو بے پناہ مقبول ہوئی اور ان کی کہانیوں کی طرح دلچسپی کے ساتھ پڑھی گئی۔ممتاز مفتی اردو افسانے کی روایت میں ایک اہم افسانہ نگار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے موضوع، مواد اور تکنیک کی سطح پر کئی تجربے کیے۔ ان کے افسانے خاص طور پر گھمبیر نفسیاتی مسائل کو  موضوع بناتے ہیں۔ ممتاز مفتی نے ’علی پور کا ایلی ‘ کے نام سے ایک ضخیم ناول بھی لکھا ۔   اشاعت کے بعد اس کا شمار اردو کے بہترین ناولوں میں کیا گیا۔


 انہوں نے  روحانی طور پر سماج اور معاشرے کا جائزہ خارجی عوامل کی بنیادوں پر نہیں بلکہ ان کے داخلی عناصر کی بنیادوں پر لیا ہے۔انہوں نے  انسانی زندگی کا مشاہدہ اس کی گہرائی میں اتر کر کیا ہے اور زندگی کے نشیب و فراز کو سمجھنے کے لیے فرد کی ان داخلی کیفیات کی طرف رجوع کیا ہے جو خارجی عوامل کے دبائو کے تحت اظہار سے قاصر رہتی ہیں یا دب جاتی ہیں ۔ممتاز مفتی کے موضوعات کا کینوس بہت وسیع ہے لیکن جنس ، عورت اور انسانی نفسیات کو ان کے یہاں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔انسانی نفسیات کے مطالعے سے ان کو ہمیشہ گہرا شغف رہا۔ان کی بیشتر تخلیقات انسانی نفسیات کی بہترین عکاس ہیں ۔انھوں نے اپنی تحریروں میں انسانی نفسیات کے مختلف پہلوئوں کو جس سادگی اور بے تکلفی سے واضح کیا ہے اس کی مثال اردو کے دوسرے نثر نگاروں کے یہاں بہت کم ملتی ہیں۔انھوں نے سیاسی ،سماجی ، تہذیبی ،معاشرتی ،مذہبی اورقومی مسائل پر بھی قلم اٹھایا ہے لیکن جنس، عورت اور انسانی نفسیات ان کے پسندیدہ اور بنیادی موضوعات ہیں۔

نھوں نے ہمیشہ اپنے گہرے اور سنجیدہ تجربات و مشاہدات کی روشنی میں ہر چیز کو معمول سے ہٹ کر دیکھنے اور پرکھنے کی کوشش کی ہے۔انہیں انسانی نفسیات اور اس کی فطرت کے ان سربستہ اسرار ورموز کی تلاش نے ہمیشہ محو سفر رکھاجو زمانۂ ازل سے ایک عام انسان کی فکر و نظر سے پوشیدہ ہیں ۔وہ ظاہر کی دنیا کے بجائے باطن کی دنیا کو دیکھنے کے تمنائی تھے اور اس کی وسعتوں کا اندازہ لگانے کا گہرا اشتیاق رکھتے تھے ۔

ممتاز مفتی کی ادبی خدمات ایک طویل عرصے پر محیط ہے۔انھوں نے اپنی ادبی زندگی کے سفر کا آغاز ء1936سے کیا اور انتھک محنت کرتے ہوئے اپنے قلم کی روانی کو تادم حیات برقرار رکھا- ۔اس دوران ان کے قلم سے آٹھ افسانوی مجموعے، دو حصوں پر مشتمل ایک سوانح ناول،دو سفرنامے،خاکوں کے چار مجموعے،دو ڈرامے اور ایک رپورتاژ کے ساتھ ساتھ مضامین کے دو مجموعے بھی شائع ہوئے۔ ممتاز مفتی کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں اپنے وقت کے کئی بڑے اعزازات و انعامات سے بھی نوازا گیا ہے۔ان کو سب سے بڑاادبی ایوارڈ’’ستارہ امتیاز‘‘ 1987میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے ملا۔اس کے بعد ان کو1987ءمیں’’نقوش ادبی ایوارڈ‘‘ ، 1988ءمیں ’’پریم چندایوارڈ‘‘اور1989میں ’’طفیل ادبی ایوارڈ‘‘جیسے اعزازی انعامات سے بھی نوازا گیا۔ممتاز مفتی نے سفرنامے بھی لکھے ہیں ۔ان کا شمار اردو کے بہترین سفرنامہ نگاروں میں ہوتا ہے ۔انہوں نے دو سفرنامے یاد گار چھوڑے ہیں ۔’’لبیک ‘‘اور ’’ہند یاترا ‘‘۔

یہ دونوں سفر نامے اردو کے بہترین سفرنامے تصور کیے جاتے ہیں۔ممتاز مفتی نے 1968 ء میں قدرت اللہ شہاب کے ہمراہ حج کیا ۔اس کے سات سال بعدانہوں نے اپنے سفرِ حج کی روداد کو ’ ’لبیک‘‘ کے عنوان سے1975ء میں التحریر ،لاہور سے شائع کیا۔اشاعت سے پہلے یہ سفرنامہ سیارہ ڈائجسٹ،لاہور میں قسط وارشائع ہواتھا۔اردو میں حج کے سفرناموں میں ’’لبیک ‘‘ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔اس نے حج کے سفر پر لکھے گئے سفرناموں میں جو شہر ت و مقبولیت حاصل کی وہ اس موضوع سے متعلق کسی سفرنامے کو نصیب نہیں ہوسکی ۔اس کی مقبولیت کا عالم دیکھ کر ممتاز مفتی نے اسے کاپی رائٹ کی پابندیوں سے یہ کہہ کر آزاد کردیا کہ انہیں اس کی رائلٹی کھانے کا کوئی حق نہیں ہے اس لیے جس کا جی چاہے ،جب چاہے،جیسے چاہے ،جہاں سے چاہے اور جتنی بار چاہے اسے چھاپ سکتا ہے 

پیر، 6 جنوری، 2025

بندر گاہ کیٹی بندر کے مکین کہاں جائیں ؟

  

کیٹی بندر ماضی میں درآمد و برآمد کا مرکز رہا ہے-کیٹی بندر سے کراچی اور گجرات تک اناج جاتا تھا-اب یہاں بیوپار کا کوئی جہاز نہیں آتا، بس مچھلیوں کے پکڑنے کی کشتیاں ہیں جن پر بادبانوں کی جگہ رنگین جھنڈے لہراتے ہیں اور شور کرتے انجن ہیں جو دریا کے پانی پر چنگھاڑتے پھرتے ہیں۔ اگر آپ ان میں کبھی بیٹھے ہیں تو آپ کو ضرور اندازہ ہوگا کہ آپ وہاں آپس میں بات نہیں کرسکتے۔ البتہ چیخ و پکار کے بعد بھی جو بات کریں گے وہ آدھی ادھوری ہی سمجھ میں آئے گی۔ایمرجنسی سینٹر کی چھت پر میرے ساتھ اس علاقے ’جھالُو‘ کے مشہور زمیندار محترم عثمان شاہ صاحب بھی کھڑے ہیں۔ 65 سال کی حیات میں انہوں نے ڈیلٹا کے اس مشہور مرکزی علاقے کے بہت سارے مناظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ انہیں ابھی تک کیکر کے گھنے جنگل یاد ہیں۔ ان کیکر کے درختوں پر سردی کے دنوں میں پیلے پھول لگتے اور ہلکے پیلے سونے کے رنگ جیسا ان کیکروں میں سے گوند نکلتا جس کو طاقت کے لیے مختلف طریقوں سے پکا کر کھایا جاتا۔ ان درختوں پر لگی پھلیاں دودھ دینے والے جانوروں کے لیے ایک طاقتور خوراک ہوتی تھی۔ ان جنگلوں میں دن کو تیتر بولتے اور صبح کو سورج اگنے کے ساتھ فاختائیں بیٹھ کر اپنی مخصوص آواز میں بولتیں اور جب تیز ہواؤں کے دن آتے تو درختوں سے گزرتی ہوئی ہوا سیٹیاں بجانے لگتی۔کیکر کا وہ گھنا جنگل وہاں تھا، میلوں میں پھیلا ہوا‘، عثمان شاہ نے شمال مشرق کی طرف اشارہ کیا۔ ’اس چھت سے وہ فاصلہ کوئی 2 میل سے زیادہ نہیں تھا۔ اس جنگل کے قریب سے کبھی ’اوچتو دریا‘ بہہ کر کیٹی بندر کے قریب سمندر کی کھاڑی میں گرتا تھا مگر اب وہاں کچھ تمر کی جھاڑیوں کے سوا کچھ نہیں ہے اور زمین کی سطح پر نمک کی سفید تہہ جمتی ہے


کیٹی بندر شاہ بندر کے زمین میں دھنس جانے اور دریائے سندھ کا رخ تبدیل ہونے کی وجہ سے تعمیر کیا گیا تھا، ’سندھ کے بندر اور بازار‘ کے مصنف دادا سندھی لکھتے ہیں کہ شاہ بندر کی تعمیر حیدرآباد شہر کے بانی میاں غلام شاہ کلہوڑو نے 1659 میں کی تھی اس سے قبل ارونگ بندر کے ذریعے تجارت ہوتی تھی جس کی تعمیر اورنگزیب عالمگیر نے کرائی تھی، شاہ بندر کی تعمیر کے بعد ارونگ بندرگاہ کی اہمیت ختم ہوگئی اور لوگ نقل مکانی کرکے شاہ بندر آگئے جہاں قلعہ بھی تعمیر کرایا جس کے نشانات آج بھی موجود ہیں۔شاہ بندر 1819 میں اجڑنا شروع ہوا تھا جس کے بعد کیٹی بندر قائم کیا گیا تھا، جہاں سے بمبئی، مدراس، خلیج فارس اور سون میانی و مکران سے تجارت ہوتی تھی، نائو مل اپنی یادداشتوں کی کتاب میں لکھتے ہیں کہ اس بندر سے کچھ بہج اور کاٹھیاواڑ سے یہ عمارتی لکڑی اور بھاری اشیا کی تجارت ہوتی تھیی۔


 کیٹی بندر تو دھان کی وجہ سے مشہور تھا مگر ہمارا گاؤں جھالو جو کیٹی بندر  میں آج سے 15 برس پہلے کیلے، خربوزے اور کھیرے کی اتنی شاندار فصل ہوتی تھی کہ، ہماری زمین سے ان اشیا سے لدے 11 ٹرک روز نکلتے تھے۔ کراچی، ملتان، فیصل آباد، لاہور اور پشاور تک ہماری فصلوں کی مارکیٹ ہوتی تھی، بلکہ یہاں تک کہ بیوپاری جھالو کے کھیرے اور خربوزے کے آنے کا انتظار کرتے تھے۔ان دنوں ہماری 200 ایکڑ زمین آباد ہوتی تھی مگر اب نہروں میں میٹھے پانی کی بہت کمی ہے، ، جس کی وجہ سے سیم و تھور کا مسئلہ انتہائی پیچیدہ ہوگیا ہے۔ جہاں پہلے 200 ایکڑ پر فصلیں ہوتی تھیں اب 20 ایکڑ بھی مشکل سے کر پاتے ہیں۔ اب یہاں نہ کیلا ہوتا ہے، نہ خربوزے اور نہ کھیرے۔ بس دھان ہوتی ہے جس کے لیے بھی کھاد اور اسپرے پر اتنی رقم لگ جاتے ہے کہ نام کا ہی منافع کما پاتے ہیں۔ پھر جس زمین میں 2 برس دھان لگاتے ہیں تو ان 2 برسوں میں میٹھا پانی سمندری پانی کو نیچے دھکیل دیتا ہے یوں تیسرے برس پھر کپاس یا سورج مکھی لگاتے ہیں تو دو پیسے ہاتھ میں آجاتے ہیں۔ اس ڈیلٹائی بیلٹ کا ہر کاشتکار اور عام آدمی اجڑتی زمینوں کے ساتھ مہنگائی اور غربت کی وجہ سے سخت پریشان ہے-اگر کاشتکار کو میٹھا پانی اتنا ملے جتنی ہماری زمینیں ہیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا اور جو زمینیں ہیں ہم ان کو بچا لیں گے۔ کیونکہ میٹھے پانی کی نہروں میں پانی کی موجودگی اور فصلوں کے لیے پھرپور پانی ہونا اس حقیقت کو یقینی بناتا ہے کہ سمندر کا پانی میٹھے پانی کی وجہ سے اوپر نہیں آئے۔دوسرا یہ کہ دریا میں جو پانی ہر برس چھوڑنے کو کہا گیا ہے وہ آنا چاہیے۔ اگر ایسا ہوتا رہے تو مجھے نہیں لگتا کہ سمندر کی بربادی اتنی تیزی سے آگے بڑھ سکتی ہے۔ مگر آب پاشی نظام میں رشوت خوری اپنے عروج پر ہے۔ یہاں سب برباد کرنے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔


 یہاں سے نقل مکانی کرنے والے خاندانوں سے بھی میں ملا ہوں، یہاں کیلے اور کھیروں کی شاندار فصلوں کو بھی میں نے دیکھا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو 15 یا 18 برس اتنے زیادہ نہیں ہوتے۔ مگر ان برسوں میں، میں نے جو سمندر کی بربادی دیکھی ہے وہ ان لوگوں نے بھی ضرور دیکھی ہوگی جو مسلسل یہاں آتے رہے ہیں۔ میٹھے پانی کے لیے اتنی چیخ و پکار کے بعد بھی یہاں کچھ بہتری نہیں آئی۔انڈس ڈیلٹا فقط سمندر کا نام نہیں ہے، بلکہ اس میں آب گاہیں، قدرتی جنگل اور زراعت بھی شامل ہے۔ 1980ء تک ریوینیو ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ کے مطابق 12 لاکھ ایکڑ زرعی زمین سمندر کے نذر ہوگئی تھی اور اب 2020ء تک ڈیلٹا کی 41 لاکھ ایکڑ زرعی زمین یا تو سمندر نگل گیا ہے یا سمندر کے شوریدہ پانی کی وجہ سے زمینوں نے اپنی زرخیزی گنوادی ہے۔ یہاں تک کہ گھاس کا ایک تنکا تک نہیں اگتا۔ ساتھ میں لاکھوں لوگوں کو انتہائی مجبوری کی حالت میں نقل مکانی کرنی پڑی ہے سندھ کا ڈیلٹا شاید دنیا کی جہازرانی والی بندرگاہوں میں سب سے بڑا دفن ہونے والا ڈیلٹا ہے۔ یہ ڈیلٹا سندھ کی تہذیب کی ابتدا سے گزشتہ صدی کے آخر تک وادئ سندھ اور دور دراز ملکوں مصر، عرب، سمیر، ایران، مشرقی افریقا، مہاراشٹر، سری لنکا اور چین کے باہمی بیوپار کا مرکز رہا ہے۔  دریا کا میٹھا پانی اُس دھرتی سے کبھی بیوفائی نہیں کرتا جس پر سے وہ گاتا گنگناتا، زمین کو مالا مال اور خوشحالی کے پھول بانٹتا بہتا سمندر کی گود میں تو سما جاتا ہے۔جہاں جہاں سے سمندر سے ملتا ہے وہاں اپنے ساتھ لائی ہوئی مٹی اور ریت سے زمین بُننا شروع کردیتا ہے بالکل ایسے جیسے ننھی منی چڑیائیں گھاس کے تنکوں سے گھونسلے بُنتی ہیں


۔ دریا اور سمندر مل کر جو زمین بناتے ہیں اُس زمین کو ’ڈیلٹائی زمین‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔انڈس ڈیلٹا کی موجودہ زمینی پٹی جو 16,000 مربع میل یعنی 41,440 مربع کلومیٹرز کے رقبے پر پھیلی ہوئی ہے، اس پٹی کی زمین سمندر کے ساتھ 130 میل یعنی 210 کلومیٹرز تک ساتھ چلتی ہے۔دریائے سندھ 3000 کلومیٹر کا سفر کرتا یہاں جنوبی سندھ تک آتا ہے، یہ دوسری بات ہے کہ اب برائے نام پانی آتا ہے اس شہنشاہ دریا میں وہ زمانہ کب کا گزر گیا جب 350 ملین ایکڑ فٹ (ایم اے ایف) پانی آتا تھا اور سمندر سے مل کر ڈیلٹا کی اس زرخیز زمین کی تخلیق کرتا۔ ساتھ میں جنم دیا اُس کلچر کو جو اپنی الگ، خوبصورت اور حیاتیاتی تنوع سے بھرپور پہچان رکھتا ہے۔آپ کوہستان، کاچھو یا تھر جائیں، وہاں کے لوگ اس ڈیلٹائی پٹی کو 'سندھ' کے نام سے جانتے ہیں۔ خشک سالی میں جب تھر سے یہاں کی طرف نقل مکانی زیادہ ہوتی ہے۔ ان دنوں میں آپ اگر تھر جائیں اور اُن کے خالی گھروں کو دیکھ کر مقامی لوگوں سے پوچھیں کہ، ’یہ لوگ کہاں گئے ہیں؟‘ تو فوری جواب ملے گا ’سندھ‘  ۔ان کے سامنے سندھ کی زمین وہ ہے جسے دریائے سندھ کی مٹی اور ریت نے بنایا ہے۔ جہاں کا منظر نامہ اور ساری سندھ سے مختلف ہے کہ یہاں جھیلوں کی بہتات ہے اور کیوں نہ ہو آخر دریائے سندھ کا ہزاروں کلومیٹرز کا سفر یہاں اس ساحلی پٹی پر آکر جو ختم ہوتا۔


 


میں نے یہ مضمون جناب ابوبکر شیخ کے مضامین سے تیار کیا ہے

اتوار، 5 جنوری، 2025

آنکھیں خالق کائنات کی بہت بڑی نعمت ہیں

 

یوں تو انسان کے لئے حواس خمسہ  خالق کائنات کی بہت بڑی نعمت ہیں لیکن ان تمام اعضا میں آنکھوں کو خصوصی اہمیت حاصل ہے ، بلاشبہ  اگر انسان بینائی سے محروم ہو جائے تو زندگی  ہی بے معنی لگنے لگتی ہے-آس مضمون میں آپ کو ایک ایسے باہمت بچے کی  علمی کاوش پڑھنے کو ملے گی جو اپنے بچپن میں اپنی بینائ کی نعمت سے محروم ہو گیا تھا - یہ 1812 کی بات ہے۔ ایک دن فرانس کے شہر پیرس کے قریب کوپورے میں ننھا لوئس بریل ورکشاپ میں کھیل رہاتھا جہاں اس کے والد نے ’زِین‘ بناتے تھے۔ (زِین یعنی چمڑے کی وہ بیلٹ جس سے گھوڑے یا کسی بھی اور جانور کو قابو میں رکھنے کے لیے اُس کے چہرے کو بندھا جاتا تھا)۔تین سال کی عمر میں اس کے لیے چمڑے کے کام کے لیے استعمال ہونے والے اوزاروں کی طرف راغب ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی کیونکہ وہ یہ سب دیکھتارہتا تھا کہ اسکے والد کیسے اس کی مدد سے زِین بناتے تھے۔ بس ایک دن اس نے اپنے والد کی نقل کرتے ہوئے ورکشاپ میں سے چمڑے میں سوراخ کرنے والا ایک انتہائی تیز دھار اوزار اْٹھایا اور اْس سے کھیلا شروع کر دیا۔شاید یہ پہلی بار نہیں تھا جب وہ ایسا کر رہاتھالوئس بریل ابھی اس سب میں مشغول ہی تھا کہ اچانک ایک ایسا حادثہ پیش آیا کہ جس نے اس کی زندگی بدل دی۔جیسے لوئس نے اس تیز دھار اوزار سے چمڑے میں سوراخ کرنے کی کوشش کی، اس کے ہاتھ سے وہ اوزار پھسل گیا اور اس نے آنکھ پر گہری ضرب لگائی۔آنکھ متاثر ہوئی اور انفیکشن نے نہ صرف زخمی ہونے والی آنکھ کو متاثر کیا بلکہ یہ انفیکشن دوسری آنکھ تک پھیل گیا۔لوئس پانچ سال کا ہواتو وہ مکمل طور پر نابینا ہو چکاتھا


اگرچہ مقامی سکول میں نابینا افراد کے لیے کوئی خاص پروگرام موجود نہیں تھا لیکن اس کے والدین کی یہ کوشش تھی کہ وہ تعلیم سے محروم نہ ہواور اسے پڑھنے کا موقع ملنا چاہیے، لہٰذا انھوں نے اسے مقامی تعلیمی ادارے میں داخل کروا دیا۔ اب بریل 7 سال کاہو چکا تھا اور اس نے باقاعدہ طور پر کلاسز لینا شروع کر دیں تھیں۔اگرچہ اس کا تعلیم حاصل کرنے کا انداز مختلف تھا یعنی وہ بس سن کر تعلیم حاصل کر رہاتھا، لیکن وہ ایک ہونہار شاگرد ثابت ہوا۔ تاہم جو مشکل اس کی راہ میں حائل رہی وہ یہ تھی کہ وہ پڑھنے یا لکھنے کے قابل نہ ہو سکے جس کی وجہ سے اسے نقصان اٹھانا پڑتا تھا۔آخر کاراس کی یہ تمام مشکلات تب ختم ہوئیں کہ جب اسے فرانس کے رائل انسٹی ٹیوٹ فار بلائنڈ یوتھ (آر آئی جے سی) میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے سکالرشپ مل گئی۔بریل 10 سال کاتھا جب وہ پیرس اور آر آئی جے سی پہنچا۔اس وقت، اس ادارے میں بھی پڑھنے کا جو نظام استعمال کیا جاتا تھا وہ بہت بنیادی تھا، ان چند کتابوں کو ابھرے ہوئے حروف کے ساتھ چھاپا گیا تھا، ایک ایسا نظام جسے سکول کے بانی ویلنٹین ہائے نے ایجاد کیا تھا۔اس کا مطلب یہ تھا کہ طالب علموں کو ہر حرف میں آہستہ آہستہ اپنی انگلیاں چلانی پڑتی تھیں تاکہ الفاظ کی بناوٹ کو وہ سمجھ سکیں مگر ایک جملہ بنانے میں اور لفظ کی بناوٹ سمجھنے میں اْنھیں خاصی مْشکل ہوتی تھی۔


1821 میں فرانسیسی فوج کے ایک کیپٹن چارلس باربیئر انسٹی ٹیوٹ میں ایک چھونے والے ریڈنگ سسٹم کو شیئر کرنے کے لیے آئے تاکہ فوجی اندھیرے میں میدان جنگ میں فلیش لائٹس آن کر کے دشمن کو خبردار کیے بغیر پیغامات پڑھ سکیں۔لوئس کے ذہن میں یہ خیال آیا تھا کہ ان کی ’’نائٹ رائٹنگ‘‘، شاید بینائی سے محروم ان افراد کے لیے فائدہ مند ثابت ہو۔ایمبوسڈ خطوط استعمال کرنے کے بجائے، ابھرے ہوئے حروف والی تحریر، نقطوں اور دھبوں کا استعمال کیا گیا تھا۔طالب علموں نے تجربات کیے لیکن جلد ہی جوش و خروش کھو دیا کیونکہ اس نظام میں نہ صرف سرمایہ کاری اور نہ ہی نشانات شامل تھے، بلکہ الفاظ معیاری فرانسیسی ہجے کے بجائے اس طرح لکھے گئے تھے جیسے وہ بولے گئے تھے۔تاہم لوئس بریل نے اصرار کیا۔اس نے کوڈ کو ایک بنیاد کے طور پر لیا اور اسے بہتر بنایا۔تین سال بعد جب وہ 15 سال کاتھا تو اس نے اپنا نیا نظام مکمل کر لیا تھا۔اس کی تحریر کے نظام کا پہلا شمارہ 1829 میں شائع ہوا۔اس میں حروف کے ساتھ نقطوں کے ساتھ اشارے دیے گئے تھے۔بریل نے بابیئر کے نظام کو آسان بنایا تھا اور ابھرے ہوئے نقطوں کو کم کیا تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ یہ اس مناسب سائز کے ہوں تاکہ آپ انھیں اپنی انگلی کے پور سے ایک ہی بار میں چھو کر محسوس کر سکیں۔


اس نے کاغذ پر ابھرے ہوئے نقطے بنانے کے لیے اسی ستالی (سوراخ کرنے کے لیے نوکدار اوزار) کا استعمال کیا جس سے اس کی بینائی متاثر ہوئی تھی۔اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ یہ لکیریں سیدھی اور درست ہیں اس نے ایک ہموار گرڈ کا استعمال کیا۔جیسا کہ لوئس بریل کو موسیقی پسند تھی لہٰذا اس نے موسیقی کے نوٹس لکھنے کے لیے بھی ایک طریقہ متعارف کروایاوقت گزرتا گیا۔طب کی دنیا بریل کی ایجاد کو اپنانے میں بہت قدامت پسند اور سست تھی۔ یہاں تک کہ اس کی موت کے دو سال بعد بینائی سے محروم افراد کو اس طریقہ کار کے ذریعے پڑھایا جانے لگا۔ اور اس کا آغاز بھی اسے ادارے میں ہوا جہاں سے اس نے تعلیم حاصل کی تھی۔وہ 43 برس کی عمر میں تپ دق کے باعث اس دنیا سے رخصت ہو اتھا۔


یہ حقیقت ہے کہ خدا کی طرف سے سب سے قیمتی تحفہ اس رنگین اور خوبصورت دنیا کو دیکھنے کی صلاحیت ہے! افسوس کی بات ہے کہ ہر کوئی اسے نہیں دیکھ سکتا۔ تاہم 1829 میں لوئس بریل نے بریل ایجاد کر کے اپنے نابینا معاشرے کو ایک عظیم تحفہ دیا۔ ہر سال 4 جنوری کو بریل کا عالمی دن اپنے موجد لوئس بریل کی پیدائش کی یاد میں منایا جاتا ہے(جو گزشتہ روز منایا گیا)۔ لوئس نے اپنی زندگی میں حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ اس رسم الخط کو نابینا افراد کی زبان کے طور پر منظوری دی جائے لیکن اس وقت اسے منظوری نہ دی گئی۔یہ لوئس کی بدقسمتی رہی کہ اس کی کوششوں کو کامیابی نہیں مل سکی اور معاصر ماہرین تعلیم نے اسے زبان کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔لوئس کی موت کے بعد 2 برس ماہرین تعلیم نے اسے اس وقت سنجیدگی سے دیکھنا شروع کیا جب اس کی مقبولیت نابینا افراد کے درمیان میں مسلسل بڑھتی رہی، یہ دیکھ کر اسے منظوری دینے پر غور و فکر ہونے لگا۔ 1854 میں اسے صرف پیرس تک مقبولیت حاصل ہوئی پھر آہستہ آہستہ 1965 تک اسے دنیا کے دیگر ممالک میں کافی غور و فکر اور تبدیلیکےبعد اسے تسلیم کر لیا گیا -یہ طریقہ ء تعلیم نابینا افراد کے لئے  علمی کائنات کا درجہ رکھتا ہے

 یہ مضمون   میں نے انٹرنیٹ سے لے کر  یہاں  کاپی پیسٹ کیا ہے

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر