بِسْمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَحیِمِْ
فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہ مِنْہُنَّ فَآتُوْہُنَّ أُجُوْرَہُنَّ فَرِیْضَۃ وَلَاجُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا تَرَاضَیْتُمْ بِہ مِنْم بَعْدِ الْفَرِیْضَۃ إِنَّ اللہ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا-"پھر جن عورتوں سے تم نے متعہ کیا ہے ان کا طے شدہ مہر بطور فرض ادا کرو البتہ طے کرنے کے بعد آپس میں رضا مندی سے مہر میں کمی بیشی کرو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے یقیناً اللہ بڑا جاننے والا حکمت والا ہے۔" (سورہ نساء :۲۴)انسان ہر زمانے میں اپنے سماج سے اپنی ضروریات پوری کرتا چلا آیا ہے سب سے پہلی احتیاج بھوک لے لیجئے 'پیدائش سے لے کر اپنی موت تک وہ اپنی اس احتیاج کو کسی نا کسی زریعہ سے پوری کرتا ہے-پھر جوانی کی عمر آنے پر اس کو ایک شریک حیات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے لیکن اگر وہ اتنا مجبور ہے کہ شادی کے اخراجات پورے کرنے سے قاصر ہے تو اللہ نے اس کی اس شدید احتیاج کو پورا کرنے لئے اپنے کلام بلاغت قران کریم میں واضح لفظوں میں اس کو سمجھا دیا کہ تم حلال اور جائز راستہ ا ختیار کر کے اپنی زندگی کو بارونق بنا سکتے ہوٍاب یہاں میں قبلہ آیئۃ اللہ مکارم شیرازی کا فرما ن دے رہی ہوں
١۔ضرورت اور احتیاج
بہت سے لوگ مخصوصا ًجوانوں کا طبقہ دائمی شادی کرنے سے معذور ہے ، اس لئے کہ دائمی شادی میں ، مختلف ذمہ داریوں کو قبول کرنا اور دیگر آمادگیوں کی ضرورت ہوتی ہے کہ جو بعض جوانوں کے لئے بہت مشکل ہے بعنوان مثال:١۔ بہت سے جوان پڑھائی کے دوران مخصوصا ہمارے دور میں تعلیم کا سلسلہ چونکہ طولانی ہوتاہے لہذا دائمی شادی سے معذور ہوتے ہیں اسلئے کہ ان کے پاس نہ مناسب کمائ کا زریعہ ہوتاہے نہ ہی کوئی مکان اور نہ ہی شادی کے اخراجات کا انتظام ہوتا ہے، وہ اپنی شادیوں میں جس حدتک بھی اخراجات کو کم کرنے کی کوشش کریں گے پھر بھی ضروری سامان مہیا کرنے سے بھی معذوررہتے ہیں۔٢۔ کچھ شادی شدہ لوگ ہیں جو بیرون ملک طولانی سفر کی وجہ سے ایک طرف نہ تو اپنی بیویوں کو ساتھ لے جاسکتے ہیں اور نہ ہی دوسری شادی کر سکتے ہیں ، جس کی وجہ سےجنسی محرومیت کا شکارہوجاتے ہیں۔
٣۔ کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جن کی بیویاں ایسی بیماریوں میں گرفتار ہوگئی ہیں کہ جن سے جنسی خواہش کو پورا نہیں کیا جاسکتا ۔٤۔ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں کہ جو فوج میں کام کرتے ہیں جنہیں سرحدوں کی حفاظت اور دیگر ملاز متوں پر طولانی مدت کے لئے بھیج دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ جنسی محرومیت کا شکارہوجاتے ہیں اور اگر ہم صدر اسلام کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ مشکل متعہ کی تشریع کا باعث بنی تھی ۔٥۔ کبھی بیوی کے حاملہ ہونے کی وجہ سے ،شوہر اپنی جنسی خواہش کو پورا نہیں کرسکتا یاایسی ہی دوسری مشکلات جو جوانوں کے لئے درپیش ہیں۔ایسی اجتماعی ضرورتیں اور مشکلات ہمیشہ سے تھیں اور رہیں گی جو نہ صرف پیغمبر اعظم حضرت محمد مصطفےٰ صلے اللہ علیہ واٰ لہ وسلم کےدور سے مخصوص تھیں بلکہ ہمارے دور میں شدید ہوگئی ہیں۔
انسان ایسی مشکلات کے سامنے اپنے آپ کو دوراہے پر دیکھتا ہے ؛ وہ یا تو فحشاء میں مبتلا ہوجائے ) العیاذ باللہ ( یا ایک قسم کاوقتی نکاح کرے کہ جس میں ایک طرف دائمی شادی کی مشکلات نہ ہوں اوردوسری طرف جنسی خواہش بھی پوری ہوجائے۔دونوں طریقوں سے چشم پوشی کا مشورہ اچھاضرور ہے لیکن بہت سے لوگوں کے لئے ممکن نہیں ہے بلکہ بعض لوگ اسے محض خیال باطل سمجھتے ہیں کہ جس پر عمل محال ہے۔نکاح کی دو قسمیں ہیں نکاح دائمی و -نکاح وقتی یعنی متعہ ۔ مذہب جعفریہ کے علماء کا اجماع ہے کہ نکاح متعہ جائز ہے۔ نکاح دائمی و متعہ میں چند چیز مشترک ہیں۔
۱) عورت عاقلہ بالغہ راشدہ اور تمام موانع سے خالی ہو۔
۲) آپس کی رضا کافی نہیں بلکہ صیغہ شرعی پڑھنا ضروری ہے۔
۳) نکاح سے جو چیزیں عورت پر حرام ہو جاتی ہیں ان میں دونوں شریک ہیں
۴) اولاد کے سلسلہ میں دونوں برابر دائمی کی طرح متعہ میں بھی اولاد شوہر کی ہوتی ہے
۵ مہر دونوں میں ضروری ہے متعہ میں مہر کا ذکر نہ ہو تو نکا ح نہیں ہو گا۔
۶) نکاح میں طلاق کے بعد اور متعہ میں مقررہ مدت کے اختتام کے بعد عدت ضروری ہے۔
عقدِ متعہ اور عقدِ نکاح میں فرق
۱) نکاح متعہ میں مدت کا ذکر کرنا ضروری ہے۔
۲) مہر۔ نکاح متعہ کا رکن ہے اس کے ذکر کے بغیر نکاح نہیں ہو گا
۳) نکاح دائمی میں نفقہ دینا واجب ہے اور نکاح متعہ میں اگر شرط کر لی جائے تو واجب ہے۔
۴ ) نکاح دائمی۔ طلاق کے بغیر ختم نہیں ہو تا متعہ۔مدت کے اختتام پر ختم ہو جاتا ہے۔ بہرَ حال دونوں ہی نکاح ہیں دونوں ہی شرعی ہیں-غلط فائدہ لینا صحیح چیزوں سے غلط فائدہ اٹھانے سے دشمنوں کی زبانیں کھل جاتی ہیں اور ان کے ہاتھوں میں بہانے آجاتے ہیں تاکہ اسے سندبناکر اس کے خلاف پروپیگنڈہ اور اس پر اپنے اعتراضات کی بوچھار کرسکیں۔متعہ انہیں بحثوں کا ایک حصہ ہے ۔نہایت افسوس کے ساتھ یہ حقیقت قبول کرنے پر مجبور ہیں کہ بعض ہوس رانوں نے متعہ جو اجتماعی مشکلات کو حل کرنے کے لئے تھا، اسے اپنے ہاتھوں کا کھلونا بناکر کچھ بے خبر لوگوں کو فرصت دے دی کہ وہ ایسے حکیمانہ حکم پر اپنے اعتراضات کی بارش کریں۔لیکن یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ ا س متعہ کے علاوہ کون سا حکم ہے کہ جس سے غلط فائدہ نہ اٹھایا گیا ہو اور کون سا ایسا نفیس سرمایہ ہے کہ جسے نااہلوں نے بے جا استعمال نہ کیا ہو ؟!اگر ایک دن قرآن کو نیزوں پر بلند کر کے ظالموں کی حکومت کی توجیہ کی جانے لگے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کو ترک کردیا جائے؟
یا اگر منافقوں نے مسجد ضرار کی بنیاد ڈالی اور پیغمبر ۖ نے اسے منہدم یا جلا دینے کا حکم دیا تو کیا اس کا مطلب ہے کہ مسجد سے کنارہ کشی کرلی جائے؟بہرحال ہم اس بات کے معترف ہیں کہ بعض اسلامی احکامات سے غلط فائدہ اٹھایا گیا ہےلیکن کبھی بھی ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم چند بے نمازوں کی وجہ سے مسجد کے دروازوں کو بند کردیں یا ایک رومال کی وجہ سے پورے قیصریہ میں آگ لگادیں۔ہمیں ہوسرانوں کے سامنے دیوار کھڑی کرنی ہوگی اور متعہ کے لئے صحیح تدبیر سوچنی ہوگی ۔مخصوصاًہمارے زمانے میں کسی صحیح تدبیر کے بغیر امکان پذیرنہیں ہے لہذا اس ہدف کےلئے ضروری ہے کہ چند دانشمند حضرات اکٹھاہوں اور اس کے لئے ایک دستور العمل مرتب کریں تاکہ شیطان صفت لوگوں کے ہاتھ کٹ جائیں اور اس حکم الہی کی خوبیاں سامنے ابھر کرآئیں تاکہ اس طرح ہوسرانوں اور کینہ
توزوں کے لئے راستہ مسدود ہوجائے۔
جواب دیںحذف کریںاور شوہر دار عورتیں بھی (تم پر حرام ہیں) مگر جو تمہاری ملکیت میں آ جائیں، (یہ) تم پر اللہ کا فرض ہے اور ان کے علاوہ باقی عورتیں تم پر حلال ہیں ان عورتوں کو تم مال خرچ کر کے اپنے عقد میں لا سکتے ہو بشرطیکہ (نکاح کا مقصد) عفت قائم رکھنا ہو بے عفتی نہ ہو، پھر جن عورتوں سے تم نے متعہ کیا ہے ان کا طے شدہ مہر بطور فرض ادا کرو البتہ طے کرنے کے بعد آپس کی رضا مندی سے (مہر میں کمی بیشی) کرو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، یقینا اللہ بڑا جاننے والا، حکمت والا ہے۔