حقیقت میں یہ روایت مغلیہ دور سے چلی آ رہی ہے کہ موسم گرما میں کشمیر اکثر بادشاہوں یا مہاراجوں کا مسکن بنتا تھا بادشاہوں یا ان کے بعد راجے مہاراجوں نے اپنے زمانے میں باغات اور محل قائم کر کے خود بھی لطف اٹھایا اور عوام کی تفریح کے لیے بھی خوبصورت وراثت چھوڑ گئے ہیں جن سے وہاں کے عوام آج بھی فیض یاب ہو رہے ہیں جب سری نگر میں فیض احمد فیض کا 'ایلس جارج' سے نکاح ہوا-یہ 28 اکتوبر 1941 کی بات ہے۔فیض احمد فیض اور ایلس فیض کے رومان پرور دن اپنے عروج پر تھے اور انہوں نے اپنے اس رومان کو دائمی رشتے میں بدلنے کا فیصلہ کر لیا تھا -اس دن کشمیر کے دارالحکومت سری نگر میں موسم خوشگوار تھا اور ڈوگرہ حکومت کے خلاف تحریک کے چوٹی کے رہنما تاریخی پری محل میں منعقدہ ایک تقریب میں جمع تھے۔دنیا بھر میں اپنے منفرد حسن و جمال کے لیے مشہور خطہ کشمیر میں یہ نکاح انجام پایا تھا۔فیض احمد فیض کا ایلس جارج (جن کا بعد میں نام کلثوم رکھا گیا لیکن وہ ایلس فیض کے نام سے ہی یاد کی جاتی رہی ہیں) سے نکاح ڈوگرہ راج کے خلاف تحریک آزادی کے روح رواں اور قدآور سیاسی رہنما شیخ محمد عبداللہ نے پڑھا۔ نکاح نامے پر دستخط کرنے والوں میں غلام محمد صادق اور بخشی غلام محمد بھی تھے۔یہ دونوں (صادق اور بخشی) بعد ازاں کشمیر کے وزیر اعظم بن گئے اور فیض احمد فیض کے گہرے دوست بھی تھے۔
نکاح خوانی کی تقریب میں ڈاکٹر نور حسین، خورشید حسن خورشید اور ایلس جارج کے بہنوئی ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر بھی شریک تھے۔فیض احمد فیض کے نکاح کا خطبہ کس نے پڑھا اور کس نے پڑھوایا اس بارے میں مورخین میں اختلاف رائے ہے۔ تاہم شیخ محمد عبداللہ کے قریبی ساتھی اور مورخ محمد یوسف ٹینگ کا کہنا ہے کہ فیض کا نکاح شیخ عبداللہ نے کشمیر کے اس وقت کے بلند پایہ عالم دین مولانا سید احمد اللہ ہمدانی سے پڑھوایا تھا۔محمد یوسف ٹینگ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں اس نکاح کے بارے میں کہا: 'شیخ محمد عبداللہ نے فیض احمد فیض کا ایلس سے نکاح کا خطبہ خود نہیں پڑھا تھا بلکہ مولانا سید احمد اللہ ہمدانی سے پڑھوایا تھا۔'یہ پوچھے جانے پر کہ نکاح خوانی کی تقریب سری نگر میں منعقد کیوں ہوئی تو ان کا کہنا تھا: 'فیض احمد فیض ہر سال پنجاب سے موسم گرما گزارنے کے لیے کشمیر آیا کرتے تھے۔ جب انہیں محسوس ہوا کہ یہاں موسم خوشگوار ہے تو وہ نکاح خوانی کی تقریب انجام دینے کے لیے یہاں آئے۔ اُن دنوں پنجاب سے اکثر لوگ گرمیوں میں یہاں براستہ چناب ویلی آیا کرتے تھے۔'محمد یوسف ٹینگ کو فیض احمد فیض کے ساتھ لاہور میں واقع ان کی رہائش گاہ پر 14 مارچ 1983 کو ملاقات کرنے کا شرف بھی حاصل ہوا ہے تاہم یہ ملاقات اس وقت ہوئی جب شیخ محمد عبداللہ راہی ملک عدم ہوچکے تھے۔
چالیس برس پہلے ان کی بارات سری نگر محلہ میں آئی تھی۔ ایلس کہتی ہیں کہ''شادی پر فیض تو وہی روزمرہ کے گرم سوٹ میں تھے،کوئی خاص اہتمام نہیں تھا بس گلے میں گوٹے کا ایک موٹا ہار ڈال رکھا تھا، جو اُن کی والدہ نے لاہور سے بھیجا تھا۔ سہرے وغیرہ کا دور دور تک پتا نہ تھا۔ اس گوٹے کے ہار کو میں نے عمر بھر اس توجہ سے محفوظ رکھا کہ ان کی دونوں بیٹیوں کی شادی میں دلہوں کے گلوں میں باری باری یہی ہار بطور تبرک ڈالا گیا تھا۔''ایلس نے مزید لکھا ہے کہ '' اس موقعے پر میں نے لال رنگ کی بہت خوبصورت ساڑی پہنی تھی جس پر سنہرے تاروں کا شاندارکام کیا گیا تھا۔ یہ ساڑی فیض نے چند ماہ قبل شملہ سے میرے لیے خریدی تھی۔ شاہی محل میں یوں تو سب انتظام تھا، بس مہمان گنتی کے تھے۔ عورتیں محض چند ایک ہی تھیں۔ ان میں سب سے زیادہ پُرجوش تو تاثیر اورکرس کی چھوٹی بیٹی سلمیٰ تھی جو حیرت سے کبھی مجھے دیکھتی تھی اورکبھی فیض اور دوسرے لوگوں کو۔ اس کے لیے یہ سب کچھ عجیب اور عام زندگی سے کتنا مختلف تھا۔ ادھر تاثیرکی خوبصورت پرکشش اور ہنس مکھ والدہ تھیں جو الگ تھلگ بیٹھی اپنا چھوٹا سا حقہ گڑگڑا رہی تھیں۔ رفیع پیرکی بہن اور اس کی لڑکیاں بھی تھیں۔
عورتوں میں تو بس ایک ہی سرگوشی جاری تھی کہ لو بھلا یہ کیا شادی ہوئی؟ فیض اور ایلس کی شادی اور ایسی روکھی پھیکی ' نہ کوئی بارات ہے، نہ بینڈ باجا، نہ کہیں ڈھولک بجی ہے، نہ سہاگ کے گیت گائے گئے ہیں۔ اتنے میں کمرے کا دروازہ کھلا۔ دروازے میں شیخ عبداللہ کھڑے تھے۔ چھریرے بدن کے قدر آور، اسمارٹ، چاق و چوبند اور جاذب نظر شیخ عبد اللہ نپے تُلے قدموں سے پہلے تاثیرکی والدہ کی طرف بڑھے اور بہت ادب سے جھک کر انھیں سلام عرض کیا۔انھوں نے بھی سر جھکا کر شیخ عبداللہ کے سلام کا جواب دیا۔ پھر وہ میری طرف آئے اور مجھے بھی جھک کر تعظیم دی اور پھر بہت نرمی سے انگلش اور اردو میں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ '' اسلام میں شادی کا بندھن دراصل ایک طرح کا باہمی معاہدہ ہوتا ہے، دلہا دلہن کے درمیان جس کی دونوں فریقوں کو لازماً پابندی کرنی ہوتی ہے۔ آپ کی شادی کی سب شرائط تحریری طور پر نکاح نامے میں شامل کرلی گئی ہیں اور اسلامی طریق کار کے مطابق اس نکاح کی کارروائی کو شروع کرنے سے پہلے مجھے آپ کی باقاعدہ اجازت کی ضرورت ہے۔ پھر انھوں نے نکاح کی جملہ شرائط مجھے انگلش میں سمجھائیں اور کہا کہ آپ کا نکاح نامہ آپ کی بہن کرس اور ایم ڈی تاثیرکے نکاح نامے کی بنیاد پر ہی تیار کیا گیا ہے جسے علامہ اقبال نے مرتب کیا تھا۔''
یوں ایلس اور فیض کی شادی پایہ تکمیل کو پہنچی۔ تاثیر اورکرس نے براتیوں اور مہمانوں کے لیے کشمیری کھانوں کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ دو ایک دن سری نگر میں قیام کیا گیا۔ دلہا دلہن نے ڈل جھیل پر بوٹ میں ہنی مون منایا ۔ دونوں بھائی اور بعض دوسرے لوگ شادی کے دوسرے ہی دن لاہورکے لیے روانہ ہوچکے تھے کہ یہاں پہنچ کر انھیں ولیمے کی دعوت کا اہتمام کرنا تھا ۔ واپسی میں فیض، ایلس، جوش اور مجاز بس کے ذریعے راولپنڈی کے لیے روانہ ہوئے اور وہاں سے بذریعہ ریل لاہورکا سفر اختیارکیا۔ جیب میں بس اتنی ہی رقم تھی جس میں تین انٹرکلاس کے ٹکٹ اور ایک سلیپر میرے لیے مخصوص کرائی جاسکی۔ سلیپرکا اہتمام اس لیے کیا گیا کہ مجھے راستے میں لیٹنے کی سہولت رہے۔یہ بھی نئی نویلی دلہن کا اعزاز تھا ورنہ پورا سفر ہی بیٹھے بیٹھے طے کرنا پڑتا۔ جیسا کہ فیض، جوش اور مجاز نے کیا۔ پروگرام کے مطابق ایلس کو راولپنڈی کے ویٹنگ روم میں گھس کر روزمرہ لباس کی جگہ دلہن کا شادی والا جوڑا بدلنا پڑا، کیونکہ یہاں سے روانہ ہوکر ٹرین کو لاہور ہی پہنچنا تھا جہاں پروگرام کے مطابق بارات کے خیر مقدم کا اہتمام تھا، وہاں فیض کے گھر والے، عورتیں اور بچے بھی جمع ہوں گے۔ ویٹنگ روم میں موجود عورتوں نے ایک گوری میم کو ہندوستانی دلہن کے روپ میں حیرت سے دیکھا اور ان میں سے جو ایک دو اسمارٹ اور نوجوان لڑکیاں تھیں،انھوں نے ایلس کے سنگھار میں اس کی خوب مدد بھی کی۔ انھیں بہرحال اس بات پر بہت حیرت تھی کہ یہ کیسی دلہن ہے جس نے نہ تو کوئی زیور پہنا ہے اور نہ کوئی بھڑ ک دار جھمکے وغیرہ، نہ میک اپ کی چمک دمک ہے، نہ سر پر دلہنوں والا گھونگھٹ ہے 'لیکن وہ دونوں دنیاوی رسومات سے آزاد ہو کر اللہ کی شریعت کا راستہ اختیار کر کے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام چکے تھے
میں یہاں پر ایلس فیض کی وفا اور محبت کو داد 'دینا چاہوں گی جنہوں نے عمر کی آخری گھڑی تک فیض کے ساتھ نباہی
جواب دیںحذف کریں