جمعرات، 9 جنوری، 2025

فیض احمد فیض شعرو ادب کی دنیا کے بادشاہ

  

فیض احمد فیض    شعرو ادب کی دنیا میں اس طرح وارد ہوئے کہ اپنے تمام ہم عصروں کو کہیں پیچھے چھوڑ تے ہوئے کہیں آگےایسے  آ نکلے کہ ان کے ہم عصر شعراء  کے چہرے وقت کی دبیز دھند میں کہیں پیچھے  دھندلا گئے -  ان کو ویسے  تو  کئ زبانوں میں  مہارت حاصل تھی   ، لیکن  اردو کی رومانوی شاعری نے ان کو شہرت دوام  کے بام پر بٹھا دیا  اور ۔پھر ملک کے حالات دیکھتے ہوئے وہ جب  دل گرفتہ ہوئے  ان کی سوچ اور فکر نے سماج کو جگانے کے لئے جو شاعری کی اس شاعری نے ان کو  شاعر انقلاب  کے لقب سے سرفراز کیا  اردو ادب کے بہت سے ناقدین کے نزدیک آپ غالب اور اقبال کے بعد اردو کے سب سے بڑے شاعر تھے۔ میرزا غالب اور اقبال کے بعد جو داد و تحسین اور مقبولیت انکے حصے میں آئی وہ شاید ہی کسی دوسرے کے نصیب میں آئی ہو۔ وہ ایک بے مثال شاعر ہی نہیں بلکہ انکی نثر بھی باکمال اور منفرد اسلوب کی حامل ہے۔انہوں نے جب شاعری شروع کی تو اس وقت بہت سے قد آور شعراءموجود تھے، جنکے درمیان خود کو منوانا آسان کام نہ تھا۔ جگر مراد آبادی، فراق گورکھپوری اور جوش ملیح آبادی کے سامنے کسی کا چراغ نہ جلتا تھا۔ لیکن فیض کے منفرد انداز نے انھیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ انکی شعری تصانیف میں نقش فریادی، میرے دل میرے مسافر ، دست تہ سنگ -دست  صبا، زنداں نامہ، ، شام شہریاراں،سرِوادی سینا، اور نسخہ ہائے وفا شامل ہیں۔


 فیض نے اپنی ابتدائی مذہبی تعلیم مولوی محمد ابراہیم میر سیالکوٹی سے حاصل کی۔ بعد ازاں 1921ءمیں سکاچ مشن سکول سیالکوٹ میں داخلہ لیااویہاں میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ میٹرک کے بعد ایف اے مرے کالج سیالکوٹ ہی سے پاس کیا۔(سکاچ مشن سکول ہی کا نام تبدیل کر کے بعد میں مرے کالج رکھ دیا گیا تھا)انہوں نے سکول میں فارسی اور عربی زبان سیکھی۔ بی اے گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا اور پھر وہیں سے 1932 ءمیں انگریزی میں ایم اے کیا۔ آپ کے اساتذہ میں میر مولوی شمس الحق ( جو علامہ اقبال کے بھی استاد تھے) بھی شامل تھے۔ان کے علاوہ آپ کے اساتذہ میں شمس العلماءپروفیسر مولوی میر حسن کا نام بھی لیا جاتا ہے ، یہ بھی علامہ اقبال کے استاد رہے ہیں۔ بعد میں اورینٹل کالج لاہور سے عربی میں بھی ایم اے کیا۔ 1935ءمیں آپ نے ایم اے او کالج علی گڑھ میں انگریزی و برطانوی ادب کے لیکچرر کی حیثیت سے ملازمت کی اورپھر ہیلے کالج لاہور میں۔ 1936ءمیں آپ نے سجاد ظہیر اور صاحبزادہ محمودالظفر کے ساتھ مل کر انجمن ترقی پسند مصنفین تحریک کی بنیاد ڈالی۔

فیض انگریزی، اردو اور پنجابی کے ساتھ ساتھ فارسی اورعربی پر بھی عبور رکھتے تھے۔ انہوں نے ان زبانوں کی کلاسیکی شاعری سے براہ راست استفادہ کیا۔ اردو کی کلاسیکی شاعری پر بھی انکی گہری نگاہ تھی۔ کلاسیکی شعراءکی گہری چھاپ انکے ہاںنظر آتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ترقی پسندی کی تند و تیز آندھی میں بھی انکی شاعری کا معیار برقرار رہا۔فیض پر یہ حقیقت واضح تھی کہ روٹی، کپڑا، مکان وغیرہ کے مطالبات انسان کے جسم سے متعلق ہیں، اسکی روح کی طلب روٹی کپڑے کے بجائے روحانی تسکین کی متلاشی نظر آتی ہے، اور جسکی تسکین انہیں رومان ہی میں نظر آتی ہے۔ انکے ہاں  سطحی رومانیت نہیں ملتی، بلکہ انہوں نے بڑی خوبصورت تشبیہات کے ذریعے اپنے محبوب کا ذکر کیا ہے 
رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے
جیسے صحراﺅں میں ہولے سے چلے باد نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے
جہاں تک ”دست صبا“ کا تعلق ہے تو یہ ایک خاص عہد کی عکاسی کرتا ہے یہ فیض کے ایک خاص عہد کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ دست صبا کی نظموں میں فیض نے حقائق کو غم جاناں بنا کر پیش کیا ہے۔ فیض کے یہاں عشق ایک مسلسل رنگ ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے مقصد کو بھی اس سے ہم آہنگ کر دیا ہے۔ دوسرے شعراء، جوش، اختر شیرانی، حفیظ جالندھری، مجاز، ساحر کے ہاں ہمیں ایک طرف خالص عشقیہ شاعری نظر آتی ہے اور دوسر ی طرف خالص انقلابی شاعری۔ یہ شعراءجب اپنے محبوب کا ذکر کرتے ہیں تو دنیا و مافہیا سے بے خبر ہو جاتے ہیں۔ اپنے گرد حسن و کیف و سرور کی دنیا میں کھو جاتے ہیں۔ اور جب اس ماحول سے نکل کر تلخ حقیقتوں کی جانب رجوع کرتے ہیں تو پھر صاف بغاوت، انقلاب اور رجز کے علاوہ کوئی دوسرا ذکر انکے لبوں پر نہیں آتا۔ اس سے ظاہر ہوا کہ ان شعراءکے ہاں عشق اور انقلاب دو متضاد عناصر ہیں۔ شاعر جب ایک کا دامن پکڑتا ہے تو دوسرے کو بھول جاتا ہے۔ مگر فیض کے یہاں ایسا نہیں ہے۔ وہ دونوں کو اپنے دامن میں سمیٹ کر چلتے ہیں اور جب ایک پر نظر پڑتی ہے تو دوسرا خود بخود نظر آجاتا ہے۔ فیض کا یہی انداز انکو اپنے ہم عصروں میں منفرد بناتا ہے :فیض اپنے کلام سے اپنے خشک زاہد اور ناصح ہونے کا تصور نہیں دیتے، بلکہ پھول اور تلوار کے ساتھ ساتھ چشم و لب کی کاٹ کی باتیں بھی کرتے ہیں۔ انکی افتاد طبع رومانی ہے- انکے سینے میں پیار بھرا دل دھڑکتا ہے، انکے کلام میں لطافت اور نزاکت کی روحانی فضاءچھائی رہتی ہے، وہ تصور جاناں پر سب کچھ نچھاور کرتے نظر آتے ہیں :
تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی و رخسار و ہونٹ
زندگی جنکے تصور میں لٹا دی ہم نے 
1941ءمیں آپ نے لبنانی نژاد برطانوی خاتون ایلس جارج سے شادی کی۔ 1942 ءمیں فوج میں کیپٹن کی حیثیت سے شامل ہو گئے اور محکمہ تعلقات عامہ میں کام کیا۔ 1943 ءمیں میجر اور پھر 1944 ءمیں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی پا گئے۔7 194 ءمیں فوج سے مستعفی ہو کر واپس لاہور میں سکونت اختیار کر لی ۔1947ءمیں آپ لاہور کے انگریزی روزنامہ ”پاکستان ٹائمز“ کے ایڈیٹر مقرر ہوئے ، 9مارچ 1951ءکو حکومت وقت نے آپ کو راولپنڈی سازش کیس میں معاونت کے الزام میں گرفتار کر لیا، 4سال سرگودھا، ساہیوال، حیدرآباد اور کراچی کی جیلوں میں گزارنے کے بعد 2اپریل 1955ءکو رہا ہوئے۔ رہائی کے بعد آپ نے جلا وطنی اختیار کی اور اپنے خاندان سمیت لندن میں رہائش پذیر ہو گئے۔ آپ 1959ءمیں پاکستان آرٹس کونسل میں بطور سیکرٹری تعینات ہوئے اور 1962ءتک وہیں پر کام کیا۔ 1964ءمیں لندن سے واپسی پرآپ عبداللہ ہارون کالج کراچی میں پرنسپل کے عہدے پر فائز ہوئے۔وہ اپنے زمانے کے معروف اشترکیت پسند کمیونسٹ تھے۔ فوج میں ملازمت اختیار کی اور لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے تک پہنچ کر مستعفی ہو گئے۔ ان کی شاعری اپنے دور کی آمریت کے خلاف آوازہے۔ 13فروری 1911ءکو سیالکوٹ میں پید اہوئے۔ ا  نتقال 20نومبر1984ءکو لاہور میں ہوا۔جلاوطنی کے زمانے میں دلی کرب میں ڈوبی  ہوئ شاعری 
تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں 
کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں 
-
حدیثِ یار کے عنواں نکھرنے لگتے ہیں 
تو  ہر حریم میں گیسو سنورنے لگتے ہیں 
-
ہر اجنبی ہمیں محرم دکھائی دیتا ہے 
جو اب بھی تیری گلی سے گزرنے لگتے ہیں 
-
صبا سے کرتے ہیں غربت نصیب ذکرِ وطن 
تو چشمِ صبح میں آنسو ابھرنے لگتے ہیں 
-
وہ جب بھی کرتے ہیں اس نطق و لب کی بخیہ گری 
فضا میں اور بھی نغمے بکھرنے لگتے ہیں 
-
درِقفس پہ اندھیرے کی مہر لگتی ہے 
تو فیضؔ دل میں ستارے اترنے لگتے ہیں 
شاعر: فیض احمد فیض
اور پھر یہ سچا محب وطن فرزند بالآخر  اپنے وطن کی مٹی میں آ کر دفن ہو گیا 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر