بدھ، 8 جنوری، 2025

الکھ نگری کا مسا فر ''ممتاز مفتی''

 گیارہ ستمبر 1905کو بٹالہ ضلع گرداسپورمشرقی پنجاب میں  پیدا ہونے والے ممتاز مفتی نے میانوالی،اور ڈیرہ غازی میں ابتدائی تعلیم حاصل کی پھر 1929میں اسلامیہ کالج لاہور سے بی اےاور1933 میں سنٹرل کالج لاہور سے ایس اے وی کا امتحان پاس کیا۔ پھر  آل انڈیا ریڈیو اور ممبئی فلم انڈسٹری میں ملازمت کرتے  رہے۔ 1947میں پاکستان چلے گئے۔وہاں حکومت پاکستان کے مختلف عہدوں پر فائز رہےپاکستان کے جید لکھاریوں میں صف اول کے لکھاری مانے جاتے ہیں ۔ان  کے افسانوی مجموعے ان کہی ، گہماگہمی،چپ، گڑیاگھر،روغنی پتلے، کے نام سے شائع ہوئے۔ انہوں نے انشائیے بھی لکھے جو بہت مشہور ہوئے اور شوق سے پڑھے گئے ۔ ’غبارے ‘ کے نام سے انشائیوں کا مجموعہ شائع ہوا۔’ کیسے کیسے لوگ‘  اور ’پیاز کے چھلکے‘ کے نام سے خاکوں کے دو مجموعے شائع ہوئے۔عمر کے آخری برسوں میں ممتاز مفتی سفر حج پر گئے اور واپسی پر’لبیک‘  کے نام سے سفر حج کی رودار  لکھی جو بے پناہ مقبول ہوئی اور ان کی کہانیوں کی طرح دلچسپی کے ساتھ پڑھی گئی۔ممتاز مفتی اردو افسانے کی روایت میں ایک اہم افسانہ نگار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے موضوع، مواد اور تکنیک کی سطح پر کئی تجربے کیے۔ ان کے افسانے خاص طور پر گھمبیر نفسیاتی مسائل کو  موضوع بناتے ہیں۔ ممتاز مفتی نے ’علی پور کا ایلی ‘ کے نام سے ایک ضخیم ناول بھی لکھا ۔   اشاعت کے بعد اس کا شمار اردو کے بہترین ناولوں میں کیا گیا۔


 انہوں نے  روحانی طور پر سماج اور معاشرے کا جائزہ خارجی عوامل کی بنیادوں پر نہیں بلکہ ان کے داخلی عناصر کی بنیادوں پر لیا ہے۔انہوں نے  انسانی زندگی کا مشاہدہ اس کی گہرائی میں اتر کر کیا ہے اور زندگی کے نشیب و فراز کو سمجھنے کے لیے فرد کی ان داخلی کیفیات کی طرف رجوع کیا ہے جو خارجی عوامل کے دبائو کے تحت اظہار سے قاصر رہتی ہیں یا دب جاتی ہیں ۔ممتاز مفتی کے موضوعات کا کینوس بہت وسیع ہے لیکن جنس ، عورت اور انسانی نفسیات کو ان کے یہاں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔انسانی نفسیات کے مطالعے سے ان کو ہمیشہ گہرا شغف رہا۔ان کی بیشتر تخلیقات انسانی نفسیات کی بہترین عکاس ہیں ۔انھوں نے اپنی تحریروں میں انسانی نفسیات کے مختلف پہلوئوں کو جس سادگی اور بے تکلفی سے واضح کیا ہے اس کی مثال اردو کے دوسرے نثر نگاروں کے یہاں بہت کم ملتی ہیں۔انھوں نے سیاسی ،سماجی ، تہذیبی ،معاشرتی ،مذہبی اورقومی مسائل پر بھی قلم اٹھایا ہے لیکن جنس، عورت اور انسانی نفسیات ان کے پسندیدہ اور بنیادی موضوعات ہیں۔

نھوں نے ہمیشہ اپنے گہرے اور سنجیدہ تجربات و مشاہدات کی روشنی میں ہر چیز کو معمول سے ہٹ کر دیکھنے اور پرکھنے کی کوشش کی ہے۔انہیں انسانی نفسیات اور اس کی فطرت کے ان سربستہ اسرار ورموز کی تلاش نے ہمیشہ محو سفر رکھاجو زمانۂ ازل سے ایک عام انسان کی فکر و نظر سے پوشیدہ ہیں ۔وہ ظاہر کی دنیا کے بجائے باطن کی دنیا کو دیکھنے کے تمنائی تھے اور اس کی وسعتوں کا اندازہ لگانے کا گہرا اشتیاق رکھتے تھے ۔

ممتاز مفتی کی ادبی خدمات ایک طویل عرصے پر محیط ہے۔انھوں نے اپنی ادبی زندگی کے سفر کا آغاز ء1936سے کیا اور انتھک محنت کرتے ہوئے اپنے قلم کی روانی کو تادم حیات برقرار رکھا- ۔اس دوران ان کے قلم سے آٹھ افسانوی مجموعے، دو حصوں پر مشتمل ایک سوانح ناول،دو سفرنامے،خاکوں کے چار مجموعے،دو ڈرامے اور ایک رپورتاژ کے ساتھ ساتھ مضامین کے دو مجموعے بھی شائع ہوئے۔ ممتاز مفتی کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں اپنے وقت کے کئی بڑے اعزازات و انعامات سے بھی نوازا گیا ہے۔ان کو سب سے بڑاادبی ایوارڈ’’ستارہ امتیاز‘‘ 1987میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے ملا۔اس کے بعد ان کو1987ءمیں’’نقوش ادبی ایوارڈ‘‘ ، 1988ءمیں ’’پریم چندایوارڈ‘‘اور1989میں ’’طفیل ادبی ایوارڈ‘‘جیسے اعزازی انعامات سے بھی نوازا گیا۔ممتاز مفتی نے سفرنامے بھی لکھے ہیں ۔ان کا شمار اردو کے بہترین سفرنامہ نگاروں میں ہوتا ہے ۔انہوں نے دو سفرنامے یاد گار چھوڑے ہیں ۔’’لبیک ‘‘اور ’’ہند یاترا ‘‘۔

یہ دونوں سفر نامے اردو کے بہترین سفرنامے تصور کیے جاتے ہیں۔ممتاز مفتی نے 1968 ء میں قدرت اللہ شہاب کے ہمراہ حج کیا ۔اس کے سات سال بعدانہوں نے اپنے سفرِ حج کی روداد کو ’ ’لبیک‘‘ کے عنوان سے1975ء میں التحریر ،لاہور سے شائع کیا۔اشاعت سے پہلے یہ سفرنامہ سیارہ ڈائجسٹ،لاہور میں قسط وارشائع ہواتھا۔اردو میں حج کے سفرناموں میں ’’لبیک ‘‘ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔اس نے حج کے سفر پر لکھے گئے سفرناموں میں جو شہر ت و مقبولیت حاصل کی وہ اس موضوع سے متعلق کسی سفرنامے کو نصیب نہیں ہوسکی ۔اس کی مقبولیت کا عالم دیکھ کر ممتاز مفتی نے اسے کاپی رائٹ کی پابندیوں سے یہ کہہ کر آزاد کردیا کہ انہیں اس کی رائلٹی کھانے کا کوئی حق نہیں ہے اس لیے جس کا جی چاہے ،جب چاہے،جیسے چاہے ،جہاں سے چاہے اور جتنی بار چاہے اسے چھاپ سکتا ہے 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر