پیر، 6 جنوری، 2025

بندر گاہ کیٹی بندر کے مکین کہاں جائیں ؟

  

کیٹی بندر ماضی میں درآمد و برآمد کا مرکز رہا ہے-کیٹی بندر سے کراچی اور گجرات تک اناج جاتا تھا-اب یہاں بیوپار کا کوئی جہاز نہیں آتا، بس مچھلیوں کے پکڑنے کی کشتیاں ہیں جن پر بادبانوں کی جگہ رنگین جھنڈے لہراتے ہیں اور شور کرتے انجن ہیں جو دریا کے پانی پر چنگھاڑتے پھرتے ہیں۔ اگر آپ ان میں کبھی بیٹھے ہیں تو آپ کو ضرور اندازہ ہوگا کہ آپ وہاں آپس میں بات نہیں کرسکتے۔ البتہ چیخ و پکار کے بعد بھی جو بات کریں گے وہ آدھی ادھوری ہی سمجھ میں آئے گی۔ایمرجنسی سینٹر کی چھت پر میرے ساتھ اس علاقے ’جھالُو‘ کے مشہور زمیندار محترم عثمان شاہ صاحب بھی کھڑے ہیں۔ 65 سال کی حیات میں انہوں نے ڈیلٹا کے اس مشہور مرکزی علاقے کے بہت سارے مناظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ انہیں ابھی تک کیکر کے گھنے جنگل یاد ہیں۔ ان کیکر کے درختوں پر سردی کے دنوں میں پیلے پھول لگتے اور ہلکے پیلے سونے کے رنگ جیسا ان کیکروں میں سے گوند نکلتا جس کو طاقت کے لیے مختلف طریقوں سے پکا کر کھایا جاتا۔ ان درختوں پر لگی پھلیاں دودھ دینے والے جانوروں کے لیے ایک طاقتور خوراک ہوتی تھی۔ ان جنگلوں میں دن کو تیتر بولتے اور صبح کو سورج اگنے کے ساتھ فاختائیں بیٹھ کر اپنی مخصوص آواز میں بولتیں اور جب تیز ہواؤں کے دن آتے تو درختوں سے گزرتی ہوئی ہوا سیٹیاں بجانے لگتی۔کیکر کا وہ گھنا جنگل وہاں تھا، میلوں میں پھیلا ہوا‘، عثمان شاہ نے شمال مشرق کی طرف اشارہ کیا۔ ’اس چھت سے وہ فاصلہ کوئی 2 میل سے زیادہ نہیں تھا۔ اس جنگل کے قریب سے کبھی ’اوچتو دریا‘ بہہ کر کیٹی بندر کے قریب سمندر کی کھاڑی میں گرتا تھا مگر اب وہاں کچھ تمر کی جھاڑیوں کے سوا کچھ نہیں ہے اور زمین کی سطح پر نمک کی سفید تہہ جمتی ہے


کیٹی بندر شاہ بندر کے زمین میں دھنس جانے اور دریائے سندھ کا رخ تبدیل ہونے کی وجہ سے تعمیر کیا گیا تھا، ’سندھ کے بندر اور بازار‘ کے مصنف دادا سندھی لکھتے ہیں کہ شاہ بندر کی تعمیر حیدرآباد شہر کے بانی میاں غلام شاہ کلہوڑو نے 1659 میں کی تھی اس سے قبل ارونگ بندر کے ذریعے تجارت ہوتی تھی جس کی تعمیر اورنگزیب عالمگیر نے کرائی تھی، شاہ بندر کی تعمیر کے بعد ارونگ بندرگاہ کی اہمیت ختم ہوگئی اور لوگ نقل مکانی کرکے شاہ بندر آگئے جہاں قلعہ بھی تعمیر کرایا جس کے نشانات آج بھی موجود ہیں۔شاہ بندر 1819 میں اجڑنا شروع ہوا تھا جس کے بعد کیٹی بندر قائم کیا گیا تھا، جہاں سے بمبئی، مدراس، خلیج فارس اور سون میانی و مکران سے تجارت ہوتی تھی، نائو مل اپنی یادداشتوں کی کتاب میں لکھتے ہیں کہ اس بندر سے کچھ بہج اور کاٹھیاواڑ سے یہ عمارتی لکڑی اور بھاری اشیا کی تجارت ہوتی تھیی۔


 کیٹی بندر تو دھان کی وجہ سے مشہور تھا مگر ہمارا گاؤں جھالو جو کیٹی بندر  میں آج سے 15 برس پہلے کیلے، خربوزے اور کھیرے کی اتنی شاندار فصل ہوتی تھی کہ، ہماری زمین سے ان اشیا سے لدے 11 ٹرک روز نکلتے تھے۔ کراچی، ملتان، فیصل آباد، لاہور اور پشاور تک ہماری فصلوں کی مارکیٹ ہوتی تھی، بلکہ یہاں تک کہ بیوپاری جھالو کے کھیرے اور خربوزے کے آنے کا انتظار کرتے تھے۔ان دنوں ہماری 200 ایکڑ زمین آباد ہوتی تھی مگر اب نہروں میں میٹھے پانی کی بہت کمی ہے، ، جس کی وجہ سے سیم و تھور کا مسئلہ انتہائی پیچیدہ ہوگیا ہے۔ جہاں پہلے 200 ایکڑ پر فصلیں ہوتی تھیں اب 20 ایکڑ بھی مشکل سے کر پاتے ہیں۔ اب یہاں نہ کیلا ہوتا ہے، نہ خربوزے اور نہ کھیرے۔ بس دھان ہوتی ہے جس کے لیے بھی کھاد اور اسپرے پر اتنی رقم لگ جاتے ہے کہ نام کا ہی منافع کما پاتے ہیں۔ پھر جس زمین میں 2 برس دھان لگاتے ہیں تو ان 2 برسوں میں میٹھا پانی سمندری پانی کو نیچے دھکیل دیتا ہے یوں تیسرے برس پھر کپاس یا سورج مکھی لگاتے ہیں تو دو پیسے ہاتھ میں آجاتے ہیں۔ اس ڈیلٹائی بیلٹ کا ہر کاشتکار اور عام آدمی اجڑتی زمینوں کے ساتھ مہنگائی اور غربت کی وجہ سے سخت پریشان ہے-اگر کاشتکار کو میٹھا پانی اتنا ملے جتنی ہماری زمینیں ہیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا اور جو زمینیں ہیں ہم ان کو بچا لیں گے۔ کیونکہ میٹھے پانی کی نہروں میں پانی کی موجودگی اور فصلوں کے لیے پھرپور پانی ہونا اس حقیقت کو یقینی بناتا ہے کہ سمندر کا پانی میٹھے پانی کی وجہ سے اوپر نہیں آئے۔دوسرا یہ کہ دریا میں جو پانی ہر برس چھوڑنے کو کہا گیا ہے وہ آنا چاہیے۔ اگر ایسا ہوتا رہے تو مجھے نہیں لگتا کہ سمندر کی بربادی اتنی تیزی سے آگے بڑھ سکتی ہے۔ مگر آب پاشی نظام میں رشوت خوری اپنے عروج پر ہے۔ یہاں سب برباد کرنے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔


 یہاں سے نقل مکانی کرنے والے خاندانوں سے بھی میں ملا ہوں، یہاں کیلے اور کھیروں کی شاندار فصلوں کو بھی میں نے دیکھا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو 15 یا 18 برس اتنے زیادہ نہیں ہوتے۔ مگر ان برسوں میں، میں نے جو سمندر کی بربادی دیکھی ہے وہ ان لوگوں نے بھی ضرور دیکھی ہوگی جو مسلسل یہاں آتے رہے ہیں۔ میٹھے پانی کے لیے اتنی چیخ و پکار کے بعد بھی یہاں کچھ بہتری نہیں آئی۔انڈس ڈیلٹا فقط سمندر کا نام نہیں ہے، بلکہ اس میں آب گاہیں، قدرتی جنگل اور زراعت بھی شامل ہے۔ 1980ء تک ریوینیو ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ کے مطابق 12 لاکھ ایکڑ زرعی زمین سمندر کے نذر ہوگئی تھی اور اب 2020ء تک ڈیلٹا کی 41 لاکھ ایکڑ زرعی زمین یا تو سمندر نگل گیا ہے یا سمندر کے شوریدہ پانی کی وجہ سے زمینوں نے اپنی زرخیزی گنوادی ہے۔ یہاں تک کہ گھاس کا ایک تنکا تک نہیں اگتا۔ ساتھ میں لاکھوں لوگوں کو انتہائی مجبوری کی حالت میں نقل مکانی کرنی پڑی ہے سندھ کا ڈیلٹا شاید دنیا کی جہازرانی والی بندرگاہوں میں سب سے بڑا دفن ہونے والا ڈیلٹا ہے۔ یہ ڈیلٹا سندھ کی تہذیب کی ابتدا سے گزشتہ صدی کے آخر تک وادئ سندھ اور دور دراز ملکوں مصر، عرب، سمیر، ایران، مشرقی افریقا، مہاراشٹر، سری لنکا اور چین کے باہمی بیوپار کا مرکز رہا ہے۔  دریا کا میٹھا پانی اُس دھرتی سے کبھی بیوفائی نہیں کرتا جس پر سے وہ گاتا گنگناتا، زمین کو مالا مال اور خوشحالی کے پھول بانٹتا بہتا سمندر کی گود میں تو سما جاتا ہے۔جہاں جہاں سے سمندر سے ملتا ہے وہاں اپنے ساتھ لائی ہوئی مٹی اور ریت سے زمین بُننا شروع کردیتا ہے بالکل ایسے جیسے ننھی منی چڑیائیں گھاس کے تنکوں سے گھونسلے بُنتی ہیں


۔ دریا اور سمندر مل کر جو زمین بناتے ہیں اُس زمین کو ’ڈیلٹائی زمین‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔انڈس ڈیلٹا کی موجودہ زمینی پٹی جو 16,000 مربع میل یعنی 41,440 مربع کلومیٹرز کے رقبے پر پھیلی ہوئی ہے، اس پٹی کی زمین سمندر کے ساتھ 130 میل یعنی 210 کلومیٹرز تک ساتھ چلتی ہے۔دریائے سندھ 3000 کلومیٹر کا سفر کرتا یہاں جنوبی سندھ تک آتا ہے، یہ دوسری بات ہے کہ اب برائے نام پانی آتا ہے اس شہنشاہ دریا میں وہ زمانہ کب کا گزر گیا جب 350 ملین ایکڑ فٹ (ایم اے ایف) پانی آتا تھا اور سمندر سے مل کر ڈیلٹا کی اس زرخیز زمین کی تخلیق کرتا۔ ساتھ میں جنم دیا اُس کلچر کو جو اپنی الگ، خوبصورت اور حیاتیاتی تنوع سے بھرپور پہچان رکھتا ہے۔آپ کوہستان، کاچھو یا تھر جائیں، وہاں کے لوگ اس ڈیلٹائی پٹی کو 'سندھ' کے نام سے جانتے ہیں۔ خشک سالی میں جب تھر سے یہاں کی طرف نقل مکانی زیادہ ہوتی ہے۔ ان دنوں میں آپ اگر تھر جائیں اور اُن کے خالی گھروں کو دیکھ کر مقامی لوگوں سے پوچھیں کہ، ’یہ لوگ کہاں گئے ہیں؟‘ تو فوری جواب ملے گا ’سندھ‘  ۔ان کے سامنے سندھ کی زمین وہ ہے جسے دریائے سندھ کی مٹی اور ریت نے بنایا ہے۔ جہاں کا منظر نامہ اور ساری سندھ سے مختلف ہے کہ یہاں جھیلوں کی بہتات ہے اور کیوں نہ ہو آخر دریائے سندھ کا ہزاروں کلومیٹرز کا سفر یہاں اس ساحلی پٹی پر آکر جو ختم ہوتا۔


 


میں نے یہ مضمون جناب ابوبکر شیخ کے مضامین سے تیار کیا ہے

1 تبصرہ:

  1. مچھلی کی تجارت اور بندرگاہ کے علاوہ اس علاقے میں زرعی زمین بھی زرخیز تھی جس کو دریائے سندھ ہر سال سیراب کرتا تھا، یہاں سرخ چاول سمیت کیلے، ناریل، خربوزہ اور تربوز سمیت مختلف قسم کے پھلوں کی پیدوار ہوتی تھی۔

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر