اتوار، 5 جنوری، 2025

آنکھیں خالق کائنات کی بہت بڑی نعمت ہیں

 

یوں تو انسان کے لئے حواس خمسہ  خالق کائنات کی بہت بڑی نعمت ہیں لیکن ان تمام اعضا میں آنکھوں کو خصوصی اہمیت حاصل ہے ، بلاشبہ  اگر انسان بینائی سے محروم ہو جائے تو زندگی  ہی بے معنی لگنے لگتی ہے-آس مضمون میں آپ کو ایک ایسے باہمت بچے کی  علمی کاوش پڑھنے کو ملے گی جو اپنے بچپن میں اپنی بینائ کی نعمت سے محروم ہو گیا تھا - یہ 1812 کی بات ہے۔ ایک دن فرانس کے شہر پیرس کے قریب کوپورے میں ننھا لوئس بریل ورکشاپ میں کھیل رہاتھا جہاں اس کے والد نے ’زِین‘ بناتے تھے۔ (زِین یعنی چمڑے کی وہ بیلٹ جس سے گھوڑے یا کسی بھی اور جانور کو قابو میں رکھنے کے لیے اُس کے چہرے کو بندھا جاتا تھا)۔تین سال کی عمر میں اس کے لیے چمڑے کے کام کے لیے استعمال ہونے والے اوزاروں کی طرف راغب ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی کیونکہ وہ یہ سب دیکھتارہتا تھا کہ اسکے والد کیسے اس کی مدد سے زِین بناتے تھے۔ بس ایک دن اس نے اپنے والد کی نقل کرتے ہوئے ورکشاپ میں سے چمڑے میں سوراخ کرنے والا ایک انتہائی تیز دھار اوزار اْٹھایا اور اْس سے کھیلا شروع کر دیا۔شاید یہ پہلی بار نہیں تھا جب وہ ایسا کر رہاتھالوئس بریل ابھی اس سب میں مشغول ہی تھا کہ اچانک ایک ایسا حادثہ پیش آیا کہ جس نے اس کی زندگی بدل دی۔جیسے لوئس نے اس تیز دھار اوزار سے چمڑے میں سوراخ کرنے کی کوشش کی، اس کے ہاتھ سے وہ اوزار پھسل گیا اور اس نے آنکھ پر گہری ضرب لگائی۔آنکھ متاثر ہوئی اور انفیکشن نے نہ صرف زخمی ہونے والی آنکھ کو متاثر کیا بلکہ یہ انفیکشن دوسری آنکھ تک پھیل گیا۔لوئس پانچ سال کا ہواتو وہ مکمل طور پر نابینا ہو چکاتھا


اگرچہ مقامی سکول میں نابینا افراد کے لیے کوئی خاص پروگرام موجود نہیں تھا لیکن اس کے والدین کی یہ کوشش تھی کہ وہ تعلیم سے محروم نہ ہواور اسے پڑھنے کا موقع ملنا چاہیے، لہٰذا انھوں نے اسے مقامی تعلیمی ادارے میں داخل کروا دیا۔ اب بریل 7 سال کاہو چکا تھا اور اس نے باقاعدہ طور پر کلاسز لینا شروع کر دیں تھیں۔اگرچہ اس کا تعلیم حاصل کرنے کا انداز مختلف تھا یعنی وہ بس سن کر تعلیم حاصل کر رہاتھا، لیکن وہ ایک ہونہار شاگرد ثابت ہوا۔ تاہم جو مشکل اس کی راہ میں حائل رہی وہ یہ تھی کہ وہ پڑھنے یا لکھنے کے قابل نہ ہو سکے جس کی وجہ سے اسے نقصان اٹھانا پڑتا تھا۔آخر کاراس کی یہ تمام مشکلات تب ختم ہوئیں کہ جب اسے فرانس کے رائل انسٹی ٹیوٹ فار بلائنڈ یوتھ (آر آئی جے سی) میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے سکالرشپ مل گئی۔بریل 10 سال کاتھا جب وہ پیرس اور آر آئی جے سی پہنچا۔اس وقت، اس ادارے میں بھی پڑھنے کا جو نظام استعمال کیا جاتا تھا وہ بہت بنیادی تھا، ان چند کتابوں کو ابھرے ہوئے حروف کے ساتھ چھاپا گیا تھا، ایک ایسا نظام جسے سکول کے بانی ویلنٹین ہائے نے ایجاد کیا تھا۔اس کا مطلب یہ تھا کہ طالب علموں کو ہر حرف میں آہستہ آہستہ اپنی انگلیاں چلانی پڑتی تھیں تاکہ الفاظ کی بناوٹ کو وہ سمجھ سکیں مگر ایک جملہ بنانے میں اور لفظ کی بناوٹ سمجھنے میں اْنھیں خاصی مْشکل ہوتی تھی۔


1821 میں فرانسیسی فوج کے ایک کیپٹن چارلس باربیئر انسٹی ٹیوٹ میں ایک چھونے والے ریڈنگ سسٹم کو شیئر کرنے کے لیے آئے تاکہ فوجی اندھیرے میں میدان جنگ میں فلیش لائٹس آن کر کے دشمن کو خبردار کیے بغیر پیغامات پڑھ سکیں۔لوئس کے ذہن میں یہ خیال آیا تھا کہ ان کی ’’نائٹ رائٹنگ‘‘، شاید بینائی سے محروم ان افراد کے لیے فائدہ مند ثابت ہو۔ایمبوسڈ خطوط استعمال کرنے کے بجائے، ابھرے ہوئے حروف والی تحریر، نقطوں اور دھبوں کا استعمال کیا گیا تھا۔طالب علموں نے تجربات کیے لیکن جلد ہی جوش و خروش کھو دیا کیونکہ اس نظام میں نہ صرف سرمایہ کاری اور نہ ہی نشانات شامل تھے، بلکہ الفاظ معیاری فرانسیسی ہجے کے بجائے اس طرح لکھے گئے تھے جیسے وہ بولے گئے تھے۔تاہم لوئس بریل نے اصرار کیا۔اس نے کوڈ کو ایک بنیاد کے طور پر لیا اور اسے بہتر بنایا۔تین سال بعد جب وہ 15 سال کاتھا تو اس نے اپنا نیا نظام مکمل کر لیا تھا۔اس کی تحریر کے نظام کا پہلا شمارہ 1829 میں شائع ہوا۔اس میں حروف کے ساتھ نقطوں کے ساتھ اشارے دیے گئے تھے۔بریل نے بابیئر کے نظام کو آسان بنایا تھا اور ابھرے ہوئے نقطوں کو کم کیا تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ یہ اس مناسب سائز کے ہوں تاکہ آپ انھیں اپنی انگلی کے پور سے ایک ہی بار میں چھو کر محسوس کر سکیں۔


اس نے کاغذ پر ابھرے ہوئے نقطے بنانے کے لیے اسی ستالی (سوراخ کرنے کے لیے نوکدار اوزار) کا استعمال کیا جس سے اس کی بینائی متاثر ہوئی تھی۔اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ یہ لکیریں سیدھی اور درست ہیں اس نے ایک ہموار گرڈ کا استعمال کیا۔جیسا کہ لوئس بریل کو موسیقی پسند تھی لہٰذا اس نے موسیقی کے نوٹس لکھنے کے لیے بھی ایک طریقہ متعارف کروایاوقت گزرتا گیا۔طب کی دنیا بریل کی ایجاد کو اپنانے میں بہت قدامت پسند اور سست تھی۔ یہاں تک کہ اس کی موت کے دو سال بعد بینائی سے محروم افراد کو اس طریقہ کار کے ذریعے پڑھایا جانے لگا۔ اور اس کا آغاز بھی اسے ادارے میں ہوا جہاں سے اس نے تعلیم حاصل کی تھی۔وہ 43 برس کی عمر میں تپ دق کے باعث اس دنیا سے رخصت ہو اتھا۔


یہ حقیقت ہے کہ خدا کی طرف سے سب سے قیمتی تحفہ اس رنگین اور خوبصورت دنیا کو دیکھنے کی صلاحیت ہے! افسوس کی بات ہے کہ ہر کوئی اسے نہیں دیکھ سکتا۔ تاہم 1829 میں لوئس بریل نے بریل ایجاد کر کے اپنے نابینا معاشرے کو ایک عظیم تحفہ دیا۔ ہر سال 4 جنوری کو بریل کا عالمی دن اپنے موجد لوئس بریل کی پیدائش کی یاد میں منایا جاتا ہے(جو گزشتہ روز منایا گیا)۔ لوئس نے اپنی زندگی میں حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ اس رسم الخط کو نابینا افراد کی زبان کے طور پر منظوری دی جائے لیکن اس وقت اسے منظوری نہ دی گئی۔یہ لوئس کی بدقسمتی رہی کہ اس کی کوششوں کو کامیابی نہیں مل سکی اور معاصر ماہرین تعلیم نے اسے زبان کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔لوئس کی موت کے بعد 2 برس ماہرین تعلیم نے اسے اس وقت سنجیدگی سے دیکھنا شروع کیا جب اس کی مقبولیت نابینا افراد کے درمیان میں مسلسل بڑھتی رہی، یہ دیکھ کر اسے منظوری دینے پر غور و فکر ہونے لگا۔ 1854 میں اسے صرف پیرس تک مقبولیت حاصل ہوئی پھر آہستہ آہستہ 1965 تک اسے دنیا کے دیگر ممالک میں کافی غور و فکر اور تبدیلیکےبعد اسے تسلیم کر لیا گیا -یہ طریقہ ء تعلیم نابینا افراد کے لئے  علمی کائنات کا درجہ رکھتا ہے

 یہ مضمون   میں نے انٹرنیٹ سے لے کر  یہاں  کاپی پیسٹ کیا ہے

1 تبصرہ:

  1. ایک زمانہ وہ بھی تھا جب امراض چشم کا علاج بہت مشکل ہوا کرتا تھا اور لوگ معمولی معمولی امراض چشم کا شکار ہو کر ہمیشہ کے لیے بینائی سے محروم ہو جایا کرتے تھے لیکن جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی حیران کن ترقی نے آنکھوں کی بڑی سے بڑی بیماریوں کا علاج دریافت کرلیا ہے۔ چنانچہ آشوب چشم کا علاج نہ صرف ممکن بلکہ نہایت آسان ہو گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر