ہفتہ، 28 دسمبر، 2024

دیو مالائ حسین وادی میں شندور پولو میلہ

 

 شندور میلہ اور شندور پولو کی تاریخ ۔۔۔ قدرتی حسن سے مالا مال دیو مالائ حسین  وادی میں   چاند کی   روشنی میں کھیلا   جانے والا یہ منفرد کھیل اب پوری دنیا میں  پاکستان کے خو بصورت چہرے سے روشناس کروا رہا ہے -آئے پہلے اس کھیل اور اپنے جنت  گمان گلگت بلتستان کے بارے میں کچھ جانتے ہیں 

 بنیادی طور پر گلگت  بلتستان دو خطوں پر مشتمل ہے۔ایک حصہ '' بلتستان'' جب کہ دوسرا ''گلگت'' کہلاتا ہے۔ سحر انگیز ہونے کے ساتھ ساتھ اس علاقے کی جغرافیائی حیثیت بھی خوب اہمیت کی حامل ہے۔ کوہِ قراقرم، کوہِ ہمالیہ اور کوہ ِہندوکش کے پہاڑی سلسلوں کے سنگلاخ و د ل فریب قدرتی حصار میں انمول ہیرے کی طرح جگمگاتا گلگت  بلتستان کا خطہ پہلے شمالی علاقہ جات کے نام سے مشہور تھا۔ تقریباً پندرہ لاکھ آبادی اور چودہ اضلاع پر مشتمل یہ صوبہ حسین وادیوں،دل موہ لینے والے میدانوں، برف پوش پربتوں، قدرت کی رعنائیوں،نایاب پھولوں اور رسیلے پھلوں سے لدے خوب صورت باغات کی بدولت جنت نظیر کا درجہ رکھتا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں ملکی و غیر ملکی سیاح ہر برس گلگت  بلتستان کے خوب صورت ترین مقامات کی سیر و سیاحت اور تفریح کے لیے پاکستان کا رُخ کرتے ہیں۔ صوبے کے اہم سیاحتی مقامات میں دیوسائی، شنگریلا،  فیری میڈوز، کچورا جھیل، خنجراب، بابوسر ٹاپ، عطا آباد جھیل، خلتی جھیل،ستپارا جھیل، راما، سرد صحرا، پھنڈر، شندور وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ موسمِ گرما کا آغاز ہوتے ہی پاکستان کے مختلف شہروں سمیت دنیا بھرکے لوگ سیر و سیاحت کی غرض سے یہاں کھچے چلے آتے ہیں۔ چند ہی برسوں میں یہ صوبہ اپنی مبہوت کر دینے والے حسن و دل کشی، سحر انگیزپربتوں اور بے پناہ قدرتی وسائل کی بدولت اپنی الگ شناخت بنا چکا ہے۔

چترال میں واقع شندور ٹاپ جہاں مشہور شندور پولو میچ کھیلا جاتا ہے اور اسی مناسبت سے شندور میلہ کے نام سے جانا جاتا ہے اس میں ملکی و غیرملکی سیاحوں کی بڑی تعداد شریک ہوتی ہے ۔ خوبصورت پہاڑوں ، سرسبز میدانوں، شفاف نیلگوں پانی کی نہروں ، چنار کے درختوں اور پھولوں میں گھرے اس علاقے کی خوبصورتی کشاں کشاں لوگوں کو دنیا بھر سے کھینچ لاتی ہے۔ شندور میلے کے دوران چترال اور گلگت کی ٹیموں کے درمیان میچ کھیلا جاتا ہے جس کو دیکھنے کیلئے ایک بڑی تعداد جمع ہوتی ہے اور ہر حملے پر داد وتحسین کے نعرے بلند کئے جاتے ہیں یہ روایت سینکڑوں سالوں سے اسی طرح چلی آرہی ہے ۔ پولو کا یہ میدان3734 میٹر کی بلندی پر شندور پاس کے پاس واقع ہے ۔ تین روزہ میچ کے دوران میدان کے گرد سیاح ٹینٹ لگاتے ہیں اور رہائش اور کھانے کا بندوبست کرتے ہیں ۔ اس دوران مختلف علاقوں اور ملکوں سے آئے ہوئے لوگوں کی چہل پہل دیدنی ہوتی ہے ۔ اس میلے میں پہنچنے کیلئے عمومی طور پر سیاحوں کا سفر اسلام آباد سے شروع ہوتا ہے ،’’فور ویلر‘‘ گاڑ ی میں سوات اور دیر کی وادیوں سے گزرتے ہوئے لواری پاس سے ہوتے چترال پہنچتے ہیں۔


کیلاش کی وادی بھی رستے میں پڑتی ہے ، کیلاش کے قبائل تین علاقوں میں منقسم ہیں جن میں بھمبورٹ، رمبر اور بھر شامل ہیں جنہیں سکندر اعظم کی فوج کی نسل سے قرار دیا جاتا ہے ۔کو ہ ہندوکش میں ترچ میر کی برف میں ڈھکی خوبصورت چوٹی کو بھی یہیں سے گزرتے ہوئے دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ سفر کے دوران آپ کے پاس کیا ہونا چاہیے:پانی کی بوتل، ٹارچ، کیپ، ہلکے اور گرم کپڑے، واٹرپروف جیکٹس، کیمرہ، نوٹ بک، تولیہ، جاگنگ شوزیا ٹریکنگ شوز، چھتری، واکنگ چھڑی ، صابن۔شندور تک پہنچنے کیلئے اسلام آباد سے بذریعہ سڑک یا اسلام آباد ٹو گلگت بذریعہ ہوائی جہاز سفر اختیار کیا جاسکتا ہے ۔گلگت شہر سے خضر شندور تک سڑک بہت اچھی بنی ہوئی ہے اور رستے میں بہت سے قدرتی مناظر کو دیکھتے ہوئے انسان کی آنکھیں اللہ پاک کی کبریائی کے آگے جھک جاتی ہیں۔خلتی و پھنڈر جھیل اور شندور جھیل کے دل کو موہ لینے والے مناظر سے متاثر ہوئے بنا کو ئی سیاح رہ نہیں پاتا۔ یہاں کے خوشگوار موسم میں جولائی اگست کے مہینے میں شندور میلا منعقد ہوتا ہے جو کہ تین روز تک جاری رہتا ہے ۔


 شندور کو عام طور پر دنیا کی چھت کہا جاتا ہے ۔پنجی کے مقام پر خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کو الگ کرنے والی پٹی بھی واقع ہے ۔ شندور ٹاپ پر ہموار میدان ہے جو کہ شندور جھیل کے ساتھ واقع ہے جہاں گرائونڈ پر پولو میچ کھیلا جاتا ہے ۔یہ گرائونڈ سکردو کے راجہ علی شیر خان انچن نے تعمیر کروائی تھی ۔ پولو ٹورنامنٹ 1936ء سے ہر سال کھیلا جاتا ہے جسے دیکھنے کیلئے ملک بھر سے اور بیرون ملک سے لوگ آتے ہیں ۔ شندور فیسٹیول میں پولو میچ کے لئے فائنل ٹیمیں منتخب کرنے کیلئے ضلع چترال اور ضلع گلگت کی ٹیموں کے درمیان متعدد میچز ہوتے ہیں ۔میچ کا وقت ایک گھنٹہ رکھا جاتا ہے اور اس میںدو وقفے ہوتے ہیں ۔گرائونڈ کو دو سو میٹر لمبا اور56 میٹر چوڑا رکھا جاتا ہے ۔ دونوں اطراف کی ٹیموں کو سپورٹ کرنے کیلئے ان کے سپورٹر ز جمع ہوتے ہیں اورمیچ نہایت جوش و جذبہ اور انہماک سے دیکھا جاتا ہے ۔ اس موقع پر مقامی فوک میوزک، بار بی کیو اور کیمپنگ کا بھی اہتمام ہوتا ہے ۔شندور میں پولو کی شروعات برطانوی باشندوںنے رکھی ۔


 یہ کہا جاتا ہے کہ 1935 ء میں، شمالی علاقوں کے لئے برطانوی ایڈمنسٹریٹر ایولین ہے کوب نے نیات قبول حیات کاکا خیل کو شندور میں ایک اچھی پولیو گرائونڈ تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ انہوں نے لوگوں کی مدد سے پولو گرائونڈ بنائی۔ بعد میں اس پولو زمین کو’’ماس جنالی‘‘ کا نام دیا گیا ۔ ’’ماس جنالی‘‘ لفظ کھوار زبان سے حاصل کیا گیا ہے ۔لفظ ’’ماس‘‘ کا مطلب چاند اور ’’جنالی‘‘ کا مطلب ہے پولو گرائونڈ۔میجر ہے کوب پورے چاند کی روشنی میں پولو کھیلنے کا شوقین تھا اور شندور جھیل کے قریب پورے چاند کی رات میں پولو کھیلنے کا اپنا ہی لطف تھا جس کیلئے اس نے 37 سو میٹر کی بلندی پر پولو گرائونڈ بنواکر آنے والی نسلوں کے لئے ایک تفریحی مقام بنا دیا۔ کاکاخیل کی خدمات کے صلہ میں ہے کوب نے انہیں انعامات سے نوازنے کا اعلان کیا جسے انہوں نے شکریہ کے ساتھ لینے سے انکار کرتے ہوئے ٹرائوٹ مچھلی مقامی جھیلوں میں ڈالنے کی فرمائش کی جسے پورا کرتے ہوئے ہے کوب نے انگلینڈ سے زندہ ٹرائوٹ منگوائی اور انہیںدریائے خضر میں ڈلوادیا۔اس طرح محکمہ فشریز قائم ہوا اور سینکڑوں مقامی افراد کو روزگار کے مواقع میسر آئے۔اب ان مچھلیوں کی پیداوار ہدراب جھیل میں اور بہا جھیل میں خاصی ہو چکی ہے ۔ اس طرح ماس جنالی گلگت اورخیبرپختونوا کے لوگوں کے درمیان ایک تعلق کا ذریعہ بن گیا۔خضر اور چترال کی ٹیموں کے درمیان میچ ابھی تک ایک دلچسپ مقابلے اور میلے کی صورت اختیار کرچکا ہے

میں نے یہ آرٹیکل انٹر نیٹ کی مدد سے   لکھا ہے 

شکریہ گوگل

جمعہ، 27 دسمبر، 2024

دیوسائی نیشنل پارک-بھورے ریچھوں کی سر زمین-parT -1

 

  دیوسائی نیشنل پارک-بھورے ریچھوں کی سر زمین

دیوسائی نیشنل پارک دنیا کے خوبصورت اور بلند ترین سطح مرتفع سے 13 ہزار 500 فٹ بلند اور 3 لاکھ 58 ہزار 400 ہیکٹرز پر مشتمل ہے۔دیوسائی کو دنیا کی چھت اور لینڈ آف جائینٹز ‘land of the giants’ بھی کہا جاتا ہے۔ نانگا پربت کے برفیلے پہاڑ، شفاف ندی نالے، مچھلیاں، پرندے، سیکڑوں اقسام کے پودے (150 کے قریب ادویاتی پودے) اور کہیں کہیں بکری اور بھیڑ دیکھ کر دیوسائی پر جنت کا گماں ہونے لگتا ہے۔دنیا کا یہ بلند ترین میدان 8 ماہ برف کی چادر اوڑھے رکھتا ہے اور پھر بہار میں اس کے میدانوں میں دنیا کے نایاب رنگوں کے پھول کھل اٹھتے ہیں اور سیاح کھنچے چلے آتے ہیں۔اس خوبصورت مقام دیوسائی کو 1993ء میں نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا اور اس میدان میں پھلتے پھولتے تمام جاندار محفوظ قرار پائے اور اس میں سب سے اہم فلیگ شپ نوع بھورے ریچھ کا تحفظ تھا، لیکن اسی تحفظ یافتہ بھورے ریچھ کے حوالے سے کمیونٹی میں بہت سے تحفظات پائے جاتے ہیں۔یہ ریچھ ہمارے جانوروں کو کھا جاتا ہے، ایسا نہ ہو کہ ہم اس بھورے ریچھ کو مار ڈالیں‘، مقامی نوجوان نے ناراضی کا اظہار کیا۔ہم اسکردو سے 30 کلومیٹر دُور سدپارہ گاؤں میں بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ گاؤں دیوسائی نیشنل پارک کے بفرزون میں آتا ہے۔ گاؤں والوں کی ناراضی کی وجہ ان کا یقین ہے کہ دیوسائی کا بھورا ریچھ جسے ہمالین براؤن بیئر یا ursus arctos بھی کہا جاتا ہے ان کے جانوروں کا شکار کرتا ہے جبکہ نیشنل پارک کی انتظامیہ اس سے انکار کرتی ہے۔دیوسائی نیشنل پارک کی انتظامیہ اور مقامی آبادی کے مابین ریچھ کے حوالے سے ابتدا ہی سے یہ تنازع موجود ہے اور 26 سال گزرنے کے باوجود یہ جھگڑا طے نہیں ہوسکا کہ براؤن بیئر جانور کھاتا ہے یا نہیں؟


دیوسائی پر پائے جانے والے بھورے ریچھ ursus arctos کی یہ قسم omnivore یعنی سبزی اور گوشت خور ہے۔ ریچھوں کی یہ قسم پاکستان کے علاوہ نارتھ امریکا میں بھی پائی جاتی ہے۔ پاکستان میں یہ الپائن میڈو اینڈ سب الپائن اسکرب میں پائی جاتی ہے۔ چند ریچھوں کو راما اور بیافو گلیشئرز جبکہ چند ایک چترال اور خنجراب نیشنل پارک میں بھی دیکھے گئے لیکن ان کا اصل مسکن دیوسائی کے میدان اور برفیلے پہاڑ ہیں۔دیوسائی پر پائے جانے والے بھورے ریچھ ursus arctos کی یہ قسم omnivore یعنی سبزی اور گوشت خور ہے—فوٹو: کامران سلیمنیشنل پارک کے قیام سے پہلے ریچھوں کی تعداد بہت کم تھی۔ وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ اسلام آباد سے وابستہ وقار ذکریا نے دیوسائی کو نیشنل پارک کا درجہ دلوانے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ وقار ذکریہ پیشے کے اعتبار سے تو انجینئر ہیں لیکن جنگلی حیات کے تحفظ کے حوالے سے ان کی خدمات 38 سالوں پر محیط ہیں۔وقار ذکریہ بتاتے ہیں کہ جب 20، 25 سال پہلے ہم یہاں ٹریکنگ کرتے تھے تو ہمیں کوئی ریچھ نظر نہیں آتا تھا۔ 


لیکن جب ہم نے سروے کیا تو صرف 17 ریچھ ملے تھے لہٰذا ہم نے کوشش کرکے دیوسائی کو نیشنل پارک ڈیکلیئر کروایا اور اب تازہ ترین سروے کے مطابق یہ تعداد 76 ہوچکی ہے۔ یقیناً یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔لیکن مقامی آبادی نیشنل پارک میں ریچھوں کی اس بڑھتی ہوئی تعداد کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ جانوروں کے ایک مقامی ڈاکٹر غلام رسول کا کہنا ہے کہ ’چونکہ ریچھوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے اور نیشنل پارک میں ان کے لیے خوراک کافی نہیں رہی اس لیے اب یہ شکار کے لیے آبادیوں کے قریب نالوں میں آجاتے ہیں‘۔سدپارہ کے عباس جان کا کہنا ہے کہ نیشنل پارک کا یہ رقبہ ریچھوں کی اتنی بڑی تعداد کے لیے بہت کم ہے۔ اس لیے اب یہ نیشنل پارک کے حدود کے باہر موجود نالوں میں آجاتے ہیں جہاں ہمارے جانور چرتے ہیں تو اب ہم اپنے جانور کہاں لے جاکر چرائیں؟ انہوں نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ پچھلے سال صرف میلپن نالے میں 8 بکریاں شکار ہوئیں۔ اگر ایک گائے یا بکری بھی ماری جاتی ہے تو غریب آدمی کا ہزاروں کا نقصان ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں ہمارے نقصان کا ازالہ کیا جانا چاہیے لیکن ڈپارٹمنٹ کے لوگ ہماری بات سننے کے بجائے ہمارا مذاق اڑاتے ہیں۔


عباس جان نے مزید کہا کہ پچھلے سال جہاں جانور مرا تھا وہاں نہ صرف ریچھ کے قدموں کے نشانات موجود تھے بلکہ اس کا فضلہ بھی موجود تھا۔ ہم نے تمام ثبوت ڈپارٹمنٹ کو دیے مگر انہوں نے ہماری بات ماننے سے انکار کردیا-دنیا کا یہ بلند ترین میدان 8 ماہ برف کی چادر اوڑھے رکھتا ہےایک اور گاؤں چلم استور کے فدا علی سلطانی جن کا ہوٹل بھی ہے، وہ عباس کی تائید کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ریچھ شدید سردیوں سے پہلے خوراک کی تلاش میں دیوسائی سے نیچے اتر کر نالوں میں آجاتے ہیں۔ اس سال 50 سے 60 جانور ریچھ کی خوراک بن چکے ہیں۔ ریچھ کو ہم نے گاؤں میں گھومتے بھی دیکھا ہے۔اس کا ثبوت دیتے ہوئے فدا علی کہتے ہیں کہ ہمارے گاؤں کا ایک شخص بشارت حسین ہوٹل سے رات کے وقت واپس گھر جارہا تھا تو اسے اپنے گھر کے دروازے پر ریچھ نظر آیا اور اس نے بمشکل گھر میں داخل ہوکر اپنی جان بچائی۔وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر انیس الرحمٰن بھی ایسے تمام شواہد کو رد کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دیوسائی کا براؤن بیئر omnivore ہے یعنی گھاس خور بھی ہے اور گوشت خور بھی، لیکن یہ کہنا غلط ہے کہ  مقامی آبادی کے جانور کا شکار کرتا ہے۔


 بیئر کی feces کا تجزیہ اور تحقیق موجود ہے جس کے مطابق اس کی خوراک جڑی بوٹیاں اور دیوسائی پر پائے جانے والے چھوٹے چوہے (voles) ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ مقامی آبادی کے جانور مرتے ضرور ہوں گے مگر اس کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں۔ دیوسائی میں اور بھی تو جانور ہیں مثلاً بھیڑیے ہیں اور اسنو لیوپرڈ بھی دیکھا گیا ہے لیکن چونکہ نیشنل پارک بننے کے بعد ریچھ کی اہمیت بڑھ چکی ہے اس لیے ریچھ پر الزام لگایا جاتا ہے۔ ۔ ریچھ کو ہم نے گاؤں میں گھومتے بھی دیکھا ہے-اس کا ثبوت دیتے ہوئے فدا علی کہتے ہیں کہ ہمارے گاؤں کا ایک شخص بشارت حسین ہوٹل سے رات کے وقت واپس گھر جارہا تھا تو اسے اپنے گھر کے دروازے پر ریچھ نظر آیا اور اس نے بمشکل گھر میں داخل ہوکر اپنی جان بچائی۔وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر انیس الرحمٰن بھی ایسے تمام شواہد کو رد کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دیوسائی کا براؤن بیئر omnivore ہے یعنی گھاس خور بھی ہے اور گوشت خور بھی، لیکن یہ کہنا غلط ہے کہ وہ مقامی آبادی کے جانور کا شکار کرتا ہے۔ بیئر کی feces کا تجزیہ اور تحقیق موجود ہے جس کے مطابق اس کی خوراک جڑی بوٹیاں اور دیوسائی پر پائے جانے والے چھوٹے چوہے (voles) ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ مقامی آبادی کے جانور مرتے ضرور ہوں گے مگر اس کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں۔ 


شبینہ فراز سینئر صحافی ہیں، پچھلے 15 برسوں سے ماحولیات کے موضوع پر لکھ رہی ہیں۔ آپ کو مختلف ایوارڈز سے بھی  نوازا گیا ہے۔ آپ غیر ملکی فورمز پر پاکستان کی نمائندگی کرنے کا اعزاز رکھنے کے ساتھ ساتھ مختلف بین الاقوامی فیلو شپ بھی حاصل کرچکی ہیں۔میں شبینہ فراز بیٹی کا مضمون ان کے شکرئیے کے ساتھ اپنی ویب سائٹ پر دے رہی ہوں


 


لواری ٹنل 42 سالہ تعمیراتی دور سے گزر کر مکمل ہوئی

 

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے دور افتادہ پہاڑی ضلعے چترال کے عوام کے لیے موسم سرما میں ’لائف لائن‘ کی حیثیت رکھنے والی ملک کے سب سے بڑی سرنگ لواری ٹنل کے منصوبے پر کام کے آغاز   42 سال قبل  اپنے وقت  کے وزیر اعظم  وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے دو حصوں پر مشتمل لواری ٹنل کا افتتاح کردیا ہے۔وزیراعظم نے ٹنل کا افتتاح کرنے کے بعد ٹنل کے اندرونی حصے کا بھی معائنہ کیا۔اس موقع پر ان کے ہمراہ گورنر اقبال ظفر جھگڑا، سابق گورنر و مشیر ہوا بازی سردار مہتاب عباسی بھی موجود تھے۔لواری ٹنل 42 سالہ تعمیراتی دور سے گزر کر مکمل ہوئی ہے، اس انتہائی اہم سرنگ کا پہلی بار سنگ بنیاد 5 جولائی 1975 کو وزیر بین الصوبائی رابطہ عبدالحفیظ پیرزادہ نے رکھا تاہم 5 جولائی 1977 کو سابق جنرل ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لاء لگا کر اس منصوبے پر کام بند کروا دیا۔ اس سے اگلے مرحلے میں  وزیراعظم نواز شریف نے لواری ٹنل کا افتتاح کیا، اس موقع پر وزیر اعظم کے ہمراہ گورنر اقبال ظفر جھگڑا، سابق گورنر و مشیر ہوا بازی سردار مہتاب عباسی بھی موجود تھے جب کہ وزیراعظم نے ٹنل کا افتتاح کرنے کے بعد ٹنل کے اندرونی حصے کا بھی معائنہ کیا۔6 اکتوبر 2006 کو سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے حکم پر لواری ٹنل کے دونوں طرف دوبارہ کام شروع کیا گیا، 2008 میں ٹنل مکمل ہوئی اور گاڑیوں کی آمد و رفت سرنگ کے اندر سے شروع ہوئی، 2009 سے 2017 تک سردیوں میں لوگوں کو آمد و رفت کی اجازت دی گئی۔

لواری ٹنل کی تعمیر کے بعد چترال کے مسافروں کو 10500 فٹ بلند لواری ٹاپ عبور کرنے سے نجات مل جائے گی اور پورا سال آمد و رفت کی سہولت بھی میسر رہے گی، سردیوں میں برفباری کی وجہ سے لواری ٹاپ بند ہونے سے آمد و رفت رک جاتی تھی جب کہ اب سفر کا دورانیہ بھی 2 گھنٹے کم ہو جائے گا۔ لواری ٹنل دو حصوں پر مشتمل ہے، بڑی ٹنل 9 کلومیٹر طویل جب کہ چھوٹی کی لمبائی 2 کلو میٹر ہے۔جناب ذوالفقار علی بھٹو  کے دور حکومت میں ہوا لیکن بار بار کی تاخیر کی وجہ سے یہ منصوبہ آج تک مکمل نہیں کیا جاسکا ہے۔پہاڑی علاقے میں واقع لواری ٹنل چترالیوں کےلیے ہمشہ سے ایک سہانا خواب رہا ہے۔ ساڑھے آٹھ کلومیٹر اس طویل سرنگ پاکستان کا سب سے بڑا ٹنل سمجھا جاتا ہے  ۔اس منصوبے پر پہلی مرتبہ کام کا آغاز سن 2005 میں سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہوا لیکن بعد میں حکومتی دلچسپی کم ہونے کی وجہ سے تعمیراتی کام بار بار تاخیر کا شکار ہوتا رہا۔لواری ٹنل دو حصوں پرمشتمل ہے جس پر مجموعی طور پر 22 ارب روپے لاگت آئی ہے۔ پہلا حصہ تقریباﹰ 9 کلومیٹر اور دوسرا حصہ 3 کلو میٹر پر محیط ہے جو پشاور سے چترال دیر، ملاکنڈ، مردان اور اطراف کے علاقوں کو ملاتا ہے۔

 پشاور سے چترال کی چودہ گھنٹے کی مسافت اب نصف وقت میں طے ہوسکے گی۔خیبر پختونخوا کے دور افتادہ پہاڑی ضلعے، چترال کے عوام کے لیے موسم سرما میں لائف لائن کی حیثیت رکھنے والی ملک کی سب سے بڑی سرنگ پر کام کا آغاز 1975 میں ہوا تھا، تاہم ملک میں تیسرے مارشل لا کے نفاذ کے بعد جنرل ضیاالحق نے فنڈز کی عدم دستیابی کو جواز بنا کر کام روک دیا تھا۔ گیارہ سال قبل جنرل مشرف نے ٹنل کی تعمیر کا کام دوبارہ شروع کیا، مگر ریل ٹنل کو روڈ ٹنل میں تبدیل کردیا گیا جس کے باعث بھی یہ منصوبہ مزید تاخیر کا شکار ہوا۔ٹنل کی تعمیر سے چترال اور اطراف کے علاقوں میں آباد پانچ لاکھ سے زائد افراد کو ہر موسم میں سفر کی سہولت دستیاب ہوگی۔ ٹنل کے منصوبے میں چار پل اور دونوں جانب رابطہ سڑکیں بھی شامل ہیں جس سے تین گھنٹے کا سفر اب محض پندرہ منٹ میں طے کیا جاسکے گا۔ دوسری ٹنل کی تعمیر سے پہاڑی کا بیشتر حصہ ختم ہوگیا ہے اور اب گاڑیاں ایک ٹنل سے نکل کر ایک پل کو عبور کرتے ہوئے دوسری ٹنل میں داخل ہوجائیں گی۔


لواری ٹنل کے پراجیکٹ ڈائریکٹر انجنئیر محمد ابراہیم مہمند کا کہنا ہے کہ ابتدائی طورپر یہ ریل ٹنل کا منصوبہ تھا لیکن بعد میں حکومت کی طرف سے اسے روڈ ٹنل میں تبدیل کیا گیا جسکی وجہ سے منصوبہ تاخیر کا شکار رہا ۔انھوں نے کہا کہ سنہ 2010 کے سیلاب اور اس کے علاوہ شدید بارشوں سے بھی وقتاً فوقتاً کام میں روکاوٹ پیش آتی رہی۔پراجیکٹ ڈائریکٹر کے مطابق ’ آجکل دو شفٹوں میں دن رات تیزی سے کام جاری ہے اور اگلے سال یعنی مارچ 2017 تک تمام کام مکمل کرکے اسے عام ٹریفک کےلیے کھول دیا جائے گا۔انھوں نے کہا کہ ’وزیراعظم نوازشریف کی طرف سے خصوصی ہدایت جاری کی گئی ہے کہ اس منصوبے کو وقت پر مکمل کردیا جائے اور اس کےلیے فنڈز کا بھی کوئی ایشو نہیں رہا۔ان کا کہنا تھا کہ لواری ٹنل کی تعمیر سے چترال کی تقریباً پانچ لاکھ آبادی کو ہر موسم میں اس سرنگ سے جانے کی سہولت میسر ہوگی۔لواری ٹنل کے منصوبے میں چارپل اور دونوں جانب رابطہ سڑکیں بھی تعمیر کی جائیں گی جس سے اندازہ ہے کہ تین گھنٹے کا راستہ 15منٹ میں طے کیا جاسکے گا۔


 اس کے ساتھ ساتھ چترال کی طرف ایک اور سرنگ بھی بنائی جارہی ہے جسے ٹنل نمبر دو کا نام دیا گیاہے۔یہ ٹنل تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر پر مشتمل ہے جو مرکزی ٹنل سے چند فرلانگ کے فاصلے پر واقع ہے۔پراجیکٹ ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ ٹنل نمبر دو کی تعمیر سے پہاڑی کا بیشتر حصہ ختم ہوجائے گا اور گاڑیوں کو ایک سرنگ سے نکل کر صرف ایک پل کو عبور کرنا ہوگا جس کے بعد دوسری سرنگ میں داخل ہوں گی جس سے ڈرائیوروں اور مسافروں کو کوئی مسئلہ پیش نہیں آئےگا اور ٹریفک میں بھی رواں دواں رہے گی۔۔انھوں نے کہا کہ موسم سرما میں چترال پاکستان سے کٹ کر رہ جاتا ہے کیونکہ لواری پاس کا پہاڑی راستہ برف باری کی وجہ سے مکمل طورپر بند ہو جاتا ہے اور لوگوں کے پاس ہوائی جہاز کے ذریعے سے ملک کے دیگر علاقوں میں جانے کےلیے اور کوئی  ذریعہ نہیں ہوتا تھا

بدھ، 25 دسمبر، 2024

یا اللہ !جنت میں میرا ہم سایہ کون ہوگا؟حضرت موسیٰ علیہ السلام

 


ایک مرتبہ حضرت موسیؑ کوہ طور پر جب اللہ تعالیٰ سے ہم کلام تھے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا کہ، ’’جنت میں میرا ہم سایہ کون ہوگا؟‘‘۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ، ’’فلاں شہر کا فلاں قصاب جنت میں تیرا ہمسایہ ہوگا!‘‘ جس پر حضرت موسیؑ کو تجسس ہوا کہ، وہ قصاب ایسا کون سا عمل کرتا ہوگا جو اسے اتنا بڑا رتبہ ملا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس شہر کی جانب گئے، وہاں قصاب کو تلاش کیا اور خاموشی سے دیکھتے رہے کہ، اس کا کون سا عمل ہے، جو اللہ تعالیٰ کو بے حد پسند آیا۔ دن بھر میں اس قصاب نے اپنا سارا گوشت سوائے ایک ٹکڑے کے فروخت کر دیا۔ پھر اس ٹکڑے کو تھیلے میں ڈال کر گھر کی طرف چل پڑا۔ آپ اس کے پیچھے پیچھے اس کے گھر تک آ گئے۔پھر آپ نے قصاب سے مہمان بننے کی گزارش کی، جس پر قصاب نے کہا کہ، ’’بسمہ اللہ‘‘ آپ اس کے ساتھ گھر کے اندر چلے گئے۔قصاب نے گھر کے اندر جا کر  گوشت کو اچھی طرح پکایا، پھر چند بوٹیوں کو دانتوں سے چبا کر نرم کیا۔ پھر گھر کے اندورنی حصّے میں چار پائی پر لیٹی ضعیف خاتون کو اٹھایا، اسے پیار سے کھانا کھلایا، پانی پلایا اور اس کا بستر وغیرہ سیدھا کیا، پھر اس بوڑھی خاتون نے قصاب کے کان میں کچھ کہا،جس پر وہ مسکرا دیا۔ اور وہ اس خاتون کو آرام سے لٹا کر کمرے سے باہر آگیا۔

 حضرت موسیٰؑ کو امید تھی کہ شاید وہ کوئی خاص عمل کرتا ہوگا جو اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ ہے، مگر اس نے ایسا کوئی کام نہیں کیا، پھر اس نے حضرت موسیٰؑ کو بھی کھانا کھلایا۔ کھانا کھانے کے بعد انہوں نے اس قصاب سے دریافت کیا کہ بستر پر لیٹی ہوئی خاتون کون ہے اور اس نے قصاب کے کان میں کیا کہا تھا۔ جس پر قصاب نے کہا کہ،’’ وہ میری والدہ ہیں، وہ بہت سادہ عورت ہیں، جب بھی میں اسے کھانا کھلاتا ہوں، تو مجھے یہی دعا دیتی ہیں کہ، ’’یا اللہ میرے بیٹے کو جنت میں اپنے نبی موسیؑ کا ہمسایہ بنانا‘‘ جس پر میں مسکرا دیتا ہوں کہ، کہاں میں معمولی قصاب اور کہاں حضرت موسیٰؑ علیہ السلام اللہ کے برگزیدہ نبی‘‘۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ، ’’میں ہی موسیٰؑ ہوں اور مجھے اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ، فلاں قصاب جنت میں میرا ہمسایہ ہوگا یہ سن کر میں تمہاری زیارت کے لیے آیا ہوں‘


 حضرت موسیٰ  علیہ السلام    کے اس بصیرت افروز قصے سے ہم کو ماں منزلت  اور قدر کا انازہ ہوتا ہے -قران کریم میں جگہ جگہ  اللہ  کریم فرمارہا ہے ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے ،اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کر کے اسے پیدا کیا۔ماں ایک ایسی ہستی کا نام ہے جو اپنے بچے کی خاطر تمام تکالیف برداشت کرلیتی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے بچے سے محبت کرتی ہے اگر اس کے دل میں محبت نہ ہوتی تو وہ ہر گز سختیاں برداشت کرنے کے لئے تیار نہ ہوتی لہذا ماں کا مقام بہت بلند ہے جسے صرف قرآن ہی میں نہیں بلکہ روایات میں تلاش کیاجاسکتا ہے ماں کے حق کے متعلق  روایات میں بھی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے،امام صادق علہ السلام نے منقولہ ایک حدیث میں ہم پڑھتے ہیں کہ ایک انسان پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آیااور کہنے لگایارسول اللہ ! میں کس کے ساتھ نیکی کروں ؟اپنی ماں کے ساتھ،اس نے عرض کیا اس کے بعد،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، اپنی ماں کےساتھ،تیسری بار پھر اس نے عرض کیا اس کے بعد؟آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا اپنی ماں کے ساتھ نیکی کرولیکن چوتھی بار اس نے عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اپنے باپ کے ساتھ  احکام دینی میں ماں کے حقوق کی رعایت اس کا احترام اور اس کی منزلت بہت زیادہ ہے کیونکہ بچے سے متعلق اس کی ذمہ داریاں باپ سے زیادہ ہیں لہذا اس سے متعلق زیادہ تاکید کی گئی ہے۔سی نصیحت تاکید اور حکم کو سورہ الاحقاف میں دہراتے ہوئے فرمایا، میرا اور اپنے والدین کا بھی شکر ادا کرو-

امام سجاد علیہ السلام اپنے رسالہ حقوق میں ماں کے حق کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ماں کا  حق ادا کرنا انسان  کے لئے ناممکن ہے لیکن اگر خدا وندمتعال کی توفیقات اس کے شامل حال ہوجائیں تو تب انسان ماں کے حق کو ادا کر نے پہ قادر ہوپائے گا کیونکہ ماں نے حمل کے دوراں جو سختیاں اور مشکلات برداشت کی ہیں اس کے علاوہ بچے کی پیدائش کے بعد جو زحمات اور فداکاریاں انجام دیتی ہے ان کی تلافی نہیں کی جاسکتی۔قرآن کریم میں والدین اور خصوصی طور پر ماں کی قدر منزلت اور اس کا جدا گانہ مقام اور حقوق  بیان کرنے کے لیے اللہ تعالی نے قرآن کریم میں سورہ لقمان میں ارشاد فرمایا ،"ہم نے انسان کو اس کے والدین کے متعلق تاکید کی ہے کہ اس کی ماں تکلیف پر تکلیف سہہ کر اسے پیٹ میں اٹھائے ہوتی ہے(پھر اس کو دودھ پلاتی ہے )اور (آخرکار) دو برس میں اس کا دودھ چھڑانا 
ہوتا ہے

 والدین کے ساتھ بدسلوکی کرنے والو! آگاہ ہو جاؤ کہ کلمہ شہادت پڑھنا نصیب نہ ہوگا- حضرتِ عبد الله بن سلام رضی الله تعالیٰ عنہ بستر مرگ پر تھے، سرکارِ دو عالم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کا آخری دیدار کرنا چاہتے تھے آپ صلی الله علیہ وسلم نے عبد الله کے سرہانے جاکر فرمایا:اے عبد الله پڑھو - اشهد ان لا اله الا الله-مگر وہ نہیں پڑھ سکے- آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے اسی طرح تین مرتبہ پڑھنے کو فرمایا، مگر وہ نہ پڑھ سکے- آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی بیوی سے پوچھا کہ دنیا میں ان کے اعمال کیسے تھے اور ان کا مشغلہ کیا تھا؟ جواب دیا یارسول الله! الله کی قسم! جب سے انہوں نے مجھ سے نکاح کیا ہے، میں نہیں جانتی کہ سرکار عليك التحية والثناء کے پیچھے، ان کی کوئی نماز چھٹی ہو- ہاں ان کی ماں ان سے ناراض ہے-آپ نے ان کی والدہ کو طلب فرمایا- فرمایا، اے ضعیفہ! اگر تم اپنے بیٹے کو معاف کر دوگی تو تمہارا حق میرے ذمہ ہے- اس ضعیفہ نے عرض کی یارسول الله! آپ اور آپ کے اصحاب گواہ ہیں کہ میں نے اسے معاف کردیاخداوند عالم ہر اولاد کو اپنے والدین کا فرمانبردار بننے کی تو فیق عطا فرمائے آمین -  

منگل، 24 دسمبر، 2024

صا حب کشف و کرامت ولی اللہ حضرت بہا الدین زکریا ملتانی

 


حضرت  محمد مصطفےٰصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اعلان نبوت کے آغاز سے  ہی  بھارت میں اسلام کی تبلیغ  کا سلسلہ شروع ہوا۔ جس کا دائرہ طویل ہوتے ہوئے اس وقت کے غیر منقسم ہندوستان کے خطہ ملتان تک آ پہنچا جہاں صوفیائے کرام نے اپنے علم اور حلم سے اپنے حلقہ ارادت بنائے اور عوام الناس کو علم دین سے روشناس کیا - اللہ کے ان ولیوں میں حضرت بہا الدین زکریا  ملتانی کا نام ایک روشن سورج  کی مانند ہے -حضرت  بہاؤ الدین ذکریا ملتانیؒ 565ھ کو ملتان میں ایک ہاشمی گھرانے میں  پیدا ہوئے -حضرت بہاؤالدینؒ سے کشف و کرامات کے بہت سے واقعات منسوب ہیں اور جو مورخین کے مطابق حقیقت پر مبنی ہیں، ان جیسی عظیم ہستیوں نے اپنی پوری عمر عبادت و ریاضت اور مخلوق خدا کی خدمت کرنے میں بسر کی، دنیا کی محبت اور کشش ان کے لیے بے معنی تھی۔حضرت شیخ بہاؤالدین ذکریاؒ فرمایا کرتے تھے کہ میرے پاس جو کچھ ہے وہ نماز کا صدقہ ہے اور جو کچھ مجھے حاصل ہوا ہے وہ نماز کے ذریعے حاصل ہوا ہے۔


حضرت نظام الدین اولیا ءکی ایک کرامت کی روایت ہے کہ شیخ الاسلام حضرت شیخ بہاء الدین زکریاؒ اپنی طویل سیاحت کے دوران سراندیہ بھی تشریف لے گئے تھے اور ایک پہاڑ پر سال بھر تک آپ کا قیام رہا تھا۔ ایک دن ایک بوڑھا شخص اپنے سر پر لکڑیوںکا گٹھر اٹھائے ہوئے آپ کے قریب سے گزرا۔ گرم موسم اور ناتوانی کے سبب وہ بوڑھا لڑکھڑایا اور لکڑیاں اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر پڑیں۔ بوڑھے نے دوبارہ اس بوجھ کو اٹھانے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ حضرت شیخ بہاء الدین زکریاؒ کچھ دیر تک یہ منظر دیکھتے رہے۔ بوڑھا شخص بار بار لکڑیوں کے گٹھر کو اٹھانے کی کوشش کرتا لیکن ہر مرتبہ اس کی طاقت جواب دے جاتی تھی۔ آخر حضرت شیخ بہاء الدین زکریاؒ پہاڑ سے اُترے اور بوڑھے شخص کے پاس تشریف لائے۔’بابا! اس ضعیفی میں تم اتنی محنت کیوں کرتے ہو؟‘‘ حضرت شیخ بہاء الدین زکریاؒ نے بوڑھے شخص کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’کیا تمہارا کوئی بیٹا نہیں جو یہ کام انجام دے سکے؟‘‘’یہی تو میری مجبوری ہے کہ میں کوئی بیٹا نہیں رکھتا۔‘‘ بوڑھے شخص نے انتہائی افسردہ لہجے میں کہا۔ ’’گھر میں کئی جوان بیٹیاں بیٹھی ہیں، ان ہی کے شادی بیاہ کے لئے محنت کر رہا ہوں۔‘‘

حضرت شیخ بہاء الدین زکریاؒ کو بوڑھے کی حالت زار سُن کر بہت افسوس ہوا۔ ’’چلو ہم دونوں مل کر اس بوجھ کو اٹھاتے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر حضرت شیخ بہاء الدین زکریاؒ نے لکڑیاں اٹھا کر بوڑھے کے سر پر رکھ دیں۔بوڑھے نے حضرت شیخؒ کا شکریہ ادا کیا۔ ’’خدا کرے کہ یہ بھاری بوجھ گھر تک پہنچ جائے۔ اگر کہیں راستے میں ہی گر گیا تو کوئی سر پر اٹھا کر رکھنے والا بھی نہیں ہو گا۔ لوگ تو میری ضعیفی کا تماشا ہی دیکھتے رہتے ہیں۔ اللہ تمہارا بھلا کرے کہ تم نے میرا حال تو پوچھا۔‘‘مجھے اسی کام لئے یہاں بٹھایا گیا تھا۔ انشاء اللہ اب تمہارے سر سے یہ بوجھ اُتر جائے گا۔‘‘ حضرت شیخ بہاء الدین زکریاؒ نے فرمایا اور بوڑھا شخص آپ کو دعائیں دیتا ہوا چلا گیا۔

پھر جب وہ ضعیف انسان لکڑیوں کا بوجھ لے کر گھر پہنچا تو حیرت زدہ رہ گیا۔ تمام لکڑیاں چمکتے ہوئے سونے میں تبدیل ہو گئی تھیں۔ بوڑھے کی بیوی اور بچیاں حیران تھیں کہ یہ ناقابل یقین واقعہ کس طرح پیش آ گیا؟ آخر بہت غور و فکر کے بعد بوڑھے کو حضرت شیخ بہاء الدین زکریاؒ یاد آئے اور وہ بے اختیار چیخ اُٹھا :’ہاں! یہ اُسی مردِ حق کی کرامت ہے۔‘‘ بوڑھا جوشِ مسرت میں بہت مضطرب نظر آ رہا تھا ’’اُسی نے گری ہوئی لکڑیاں اُٹھا کر میرے سر پر رکھی تھیں۔‘‘بوڑھا اسی وقت پہاڑ کی طرف روانہ ہو گیا مگر جب وہاں پہنچا تو حضرت شیخ بہاء الدین زکریاؒ  اپنے سفر پر  جا  چکے تھے۔


ایک اور موقع پر حضرت شیخ نے ایک ایسی بات کا انکشاف کیا، جسے سن کر حاضرین بھی حیرت میں مبتلا ہوگئے، ''میں نے بڑے بڑے مشائخ کے جملہ وظائف کا ورد کیا مگر مجھ سے ختم قرآن نہ ہوسکا۔'' مجلس سے ایک عقیدت مند نے اٹھ کر سوال کیا، ''مخدوم! آپ تو حافظ قرآن ہیں، ہزاروں بار کلام الٰہی ختم کرچکے ہیں۔''حضرت شیخ نے جواباً فرمایا، کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ فلاں بزرگ صبح صادق سے طلوع آفتاب تک قرآن ختم کرلیا کرتے تھے، میں نے بہت کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکا، مگر خاصان خدا کے لیے بہت آسان ہے۔ حضرت شیخ نے سخت سے سخت ریاضتیں کی تھیں اور انھی وظائف نے انھیں روحانیت کے درجے پر پہنچایا، ایک موقع پر بہاؤ الدین ذکریاؒ نے دو رکعت نماز میں پورا قرآن پاک ختم کرنے کا شرف حاصل کیا تھا، ایک رکعت میں ایک قرآن اور چار پارے ختم کیے اور دوسری رکعت میں سورہ اخلاص پڑھی۔ اور پھر ایک زمانے کو اپنی علمی  اور روحانی بصیرت تقسیم کرتے ہوئے 666ھ میں اپنی جان جان آفریں کے سپرد  کی  اور ملتان میں ہی آسودہء خاک ہوئے 

کراچی میں کرائے کے اسلحے سے وارداتیں -پارٹ 2

 

پولیس کے مطابق دیسی ساختہ اسلحہ درہ آدم خیل سے جبکہ باہر کا اسلحہ زیادہ تر بلوچستان کے راستے سے شہر میں آتا ہے۔درہ آدم خیل میں موجود مختلف آرمز کمپنیوں کی جانب سے اب آن لائن یہ اسلحہ کراچی بھیجا جا رہا ہے۔فیس بک پیجز کے ذریعے اسلحے کے بارے میں تشہیر کی جاتی ہے ،پھر جو افراد اسلحہ خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں انھیں واٹس ایپ نمبر دیا جاتا ہے جس پر اسلحہ کی تصاویر اور ویڈیوز دکھائی جاتی ہیں اور اسلحے کے حوالے سے تفصیلات پوچھی جاتی ہیں۔اسلحے کے ریٹ طے ہونے کے بعد کراچی میں پہنچانے کا وعدہ کیا جاتا ہے اور پھر مسافر بسوں،فروٹ کے اور دیگر ٹرکوں اور پرائیوٹ ٹرانسپورٹ کے ذریعے یہ اسلحہ کراچی لایا جاتا ہے۔کراچی پہنچانے کے لیے 10 ہزار روپے فی پستول یا فی اسلحہ کمیشن لیا جاتا ہے۔پولیس نے بتایا کہ اسلحہ خریدنے والوں میں تمام افراد جرائم پیشہ نہیں ہوتے بلکہ اسلحے کا شوق رکھنے والے افراد بھی درہ آدم خیل سے اسلحہ منگواتے ہیں۔

شہر میں اسٹریٹ کرائم سمیت دیگر جرائم میں ملوث افراد کو کرائے پر بھی اسلحہ مل جاتا ہے۔ماضی میں ایسے ملزمان گرفتار ہو چکے ہیں جو کرائے پر اسلحہ دیتے تھے اور یہ دھندہ اب بھی چل رہا ہے۔پولیس کے مطابق درہ آدم خیل سے جو اسلحہ آن لائن بک کروایا جاتا ہے اس میں پستول کا ریٹ 35 سے 55 ہزار روپے جبکہ کلاشنکوف کا ایک لاکھ 30 ہزار روپے کراچی پہنچانے کا لیا جا رہا ہے۔پولیس نے بتایا کہ مسافر بسوں اور ٹرالرز ،ٹرکوں اور کے ڈرائیورز کی تنخواہ چونکہ کم ہوتی ہے اسلیے وہ کراچی آتے وقت تین سے چار پستول خفیہ خانوں میں چھپا کر اپنے ساتھ لے آتے ہیں اور اپنا کمیشن وصول کرتے ہیں۔پولیس نے بتایا کہ پہلے پشاور کے بس اڈوں سے آنے والی بسوں کے ذریعے یہ کام چل رہا تھا، وہاں سختی کے بعد اب مردان یا مانسہرہ کے بس اڈوں سے چلنے والی بسوں کے ذریعے یہ اسلحہ کراچی پہنچایا جا رہا ہے،

آئی جی سندھ غلام نبی میمن کا کہنا ہے کہ ہم نے شہر میں غیر قانونی اسلحے کی روک تھام اور اس میں ملوث گروپس کو پکڑنے کا ٹاسک سی ٹی ڈی کو دیا ہے۔آئی جی سندھ نے بتایا کہ اسلحہ کا کاروبار ایک منافع بخش کاروبار ہے۔زیادہ تر اسلحہ درہ آدم خیل سے مسافر بسوں میں آتا ہے۔وہاں سے آنے والے مسافر چار سے پانچ پستول ساتھ لے آتے ہیں جن سے ان کا کرایہ بھی نکل جاتا ہے اور منافع بھی ہو جاتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ مختلف فورمز پر انہوں نے یہ بات کی ہے کہ درہ آدم خیل میں جو اسلحے کی انڈسٹری ہے اسے ریگولرائز کیا جانا چاہیے-اسلحے کی ڈیلیوری کیسے ہوتی ہے؟  سی ٹی ڈی سندھ انٹیلی جنس ونگ کے سربراہ کہتے ہیں کہ ’یہ تمام کام اسلحہ ڈیلرز انتہائی منظم طریقے سے کر رہے ہیں۔  ’جب خریداری کے تمام معاملات طے کر لیے جاتے ہیں تو غیرقانونی اسلحہ ڈیلرز اپنے ایجنٹ کے ذریعے یہ اسلحہ سڑک کے راستے کراچی بھیجتے ہیں۔

 ان میں بیش تر ایجنٹ بس کے ذریعے یہ غیرقانونی اسلحہ کراچی سمیت ملک کے کسی بھی حصے میں لاتے ہیں۔‘ ایجنٹ کو خریدار کا نمبر دے کر بھیجا جاتا ہے۔ ایجنٹ مذکورہ نمبر پر رابطہ کرکے خریدار کو اسلحے کی ڈیلیوری دیتا ہے اور باقی کی رقم وصول کرتا ہے۔ اس کام کے ایجنٹ کو 10 ہزار روپے ادا کیے جاتے ہیں۔‘   غیرقانونی اسلحے کے ساتھ جعلی لائسنس کا دھندہ راجہ عمر خطاب کا کہنا ہے کہ ’غیرقانونی اسلحہ ڈیلرز جعلی اسلحہ لائسنس بنانے میں بھی ملوث پائے گئے ہیں۔ اس کام کی الگ سے رقم وصول کی جاتی ہے۔‘انہوں نے بتایا کہ ’لائسنس بنانے سے قبل مذکورہ شخص کے فنگر پرنٹس، دستخط، تصویر اور شناختی کارڈ بذریعہ واٹس ایپ منگوائے جاتے ہیں۔ اس کے بعد انتہائی مہارت سے وفاقی وزارتِ داخلہ سے جاری کردہ لائسنس کی طرح بنا کر واٹس ایپ کے ذریعے اس کی تصویر مذکورہ شخص کو ارسال کر دی جاتی ہے۔

 جس کے اوپر کیو آر کوڈ لگا ہوتا ہے جسے چیک کرنے پر لائسنس بنوانے والے کی تفصیلات موجود ہوتی ہے۔ جس سے لگتا ہے کہ اسلحہ لائسنس اصلی ہے جبکہ وہ لائسنس جعلی ہوتا ہے۔ عمر خطاب نے مزید بتایا کہ ’دوران تفتیش ملزم عظمت اللہ نے انکشاف کیا کہ ملزمان اسلحے کی فروخت آن لائن کیا کرتے تھے۔ پشاور، درہ آدم خیل اور ڈی آئی خان سمیت مختلف علاقوں میں اسلحے کے ڈیلرز اپنے پاس موجود 30 بور، 32 بور نائین ایم ایم اور ایم پی پائیو سمیت دیگر اسلحے کی تصاویر اور ویڈیوز پیج پر اَپ لوڈ کرتے ہیں اور اسلحے کے بارے میں تفصیلات فراہم کرتے ہیں ۔   راجہ عمر خطاب کا کہنا ہے کہ ’ملزمان جدید طریقے سے غیرقانونی اسلحے کا آرڈر حاصل کرکے خریدارتک پہنچایا کرتے تھے۔‘ ’درہ آدم خیل کے چھ اسلحہ ڈیلرز اور ڈی آئی خان کے ایک اسلحہ ڈیلر  کی تفتیش میں سات ڈیلرز کے نام سامنے آئے ہیں جو اس کام میں ملوث ہیں۔   رقم کی ادائیگی کا طریقہ کیا ہے؟ راجہ عمر خطاب کے مطابق سوشل میڈیا کے گروپس میں اسلحے کی نمائش کے بعد جو لوگ اسے خریدنے میں دلچسپی ظاہر کرتے ہیں، انہیں واٹس ایپ گروپ میں شامل کر لیا جاتا ہے۔ اس گروپ میں اسلحے کی قیمت   جوڑ توڑ کے بعد جو بھی قیمت طے ہوجاتی ہے اس کا 50 فیصد حصہ ایزی پیسہ، جاز کیش یا آن لائن ٹرانسفر کیا جاتا ہے اور بقیہ رقم ڈیلیوری کے وقت وصول کی جاتی ہے۔   
 

پیر، 23 دسمبر، 2024

کراچی میں کرائے کے اسلحے سے وارداتیں

 


کراچی میں لوٹ مار میں ملوث گروہ کے دو کارندوں کو نارتھ ناظم آباد سے گرفتار کرلیا گیا، ملزمان نے دوران تفتیش سنسنی خیز انکشافات کیے ہیں۔تفصیلات کے مطابق کراچی میں لوٹ مار میں ملوث گرفتار گروہ کے سنسنی خیز انکشافات سامنے آئے ہیں، نارتھ ناظم آباد مقابلے میں گرفتار ملزمان نے دوران تفتیش کراچی میں کی جانے والی وارداتوں کا    مکمل احوال بتایا ۔ملزمان نے دوران تفتیش انکشاف کیا کہ ایک دن میں دس سے زائد وارداتیں کرتے تھے، زخمی ملزم ولی محمد وارداتوں کیلئے اسلحہ لاتا تھا، ایک ملزم دوست ولی محمد ضلع مہمند میں روپوشی اختیار کررکھا ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ وارداتوں میں ملوث ملزم نے قصبہ کالونی میں گھر کرائے پر لے رکھا تھا، اسلحہ درہ آدم خیل سے 30 ہزار میں آن لائن آرڈر کیا جاتا ہے، جبکہ گولیاں کورئیر کمپنی کے ذریعہ منگوائیں گئیں۔

پولیس کا کہنا تھا کہ ملزم چھینے گئے موبائل فون گلشن غازی میں فروخت کرتے تھے، ملزم نے بتایا کہ آئی فون 30 ہزار، لوکل فون 5 سے 25 ہزار میں فروخت کیا جاتا ہے۔پولیس کا کہنا تھا کہ تین رکنی گروہ کا ایک کارندہ منگھو پیر میں روپوش ہے دوسرےگرفتار ملزم حیدر بنگش جس کا تعلق پارہ چنار سے ہے، اس نے انکشاف کیا کہ ایک دن میں دس سےبارہ  رہزنی کی وارداتیں کرتے ہیں۔گرفتار ملزم نے پولیس کو بتایا کہ زخمی ملزم دوست ولی محمد وارداتوں کیلئے اسلحہ لاتا تھا، وارداتوں کیلئے 2 لاکھ روپے کی موٹر سائیکل اور اسلحہ خریدا گیا، چھینے گئے موبائل فونز کی فروخت جاوید کرتا تھا۔ملزم نے پولیس کو بتایا کہ آئی ایم ای آئی تبدیل کے بعد موبائل مہنگے داموں فروخت کیے جاتے تھے، زخمی ملزم سمیت ساتھی کے خلاف مقدمہ تیموریہ تھانے میں درج کیا گیا۔پاکستان کے ساحلی شہر کراچی میں آن لائن اسلحے کی فروخت اور جعلی لائسنس بنانے کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

 اسلحے کے شوقین افراد ٹیکس ادا کیے بغیر مہنگے ہتھیار کم داموں پر خریدنے کے لیے اس کاروبار کا حصہ بن رہے ہیں۔   صوبہ سندھ کے محکمہ انسداد دہشت گردی کے انٹیلی جنس ونگ کے سربراہ راجہ عمر خطاب نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’ملک کے مختلف علاقوں میں اسلحہ بنانے کے کارخانوں کے مالکان کے رشتہ دار اور تعلق واسطے والے لوگ کراچی میں اسلحے کی دکانیں بنائے بیٹھے ہیں۔‘ خیبر پختونخوا: اناروں سے بھرے ٹرک سے کروڑوں روپے مالیت کا اسلحہ برآمدتورخم بارڈر: افغانستان سے بڑی مقدار میں اسلحہ پاکستان سمگل کرنے کی کوشش ناکام-یہ افراد ٹیکس اور ریکارڈ کے بغیر اسلحہ ایمونیشن کراچی لاتے ہیں۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ’یہ کاروبار کافی عرصے سے آن لائن جاری ہے اور ایک اندازے کے مطابق کراچی میں ہر ماہ بھاری تعداد میں مختلف نوعیت کا اسلحہ غیرقانونی طور پر پہنچایا جا رہا ہےاور لاکھوں کی تعداد میں مختلف بور کی گولیاں بھی بھیجی جا رہی ہیں۔

‘   کراچی میں غیرقانونی اسلحے کے خلاف کارروائیاں -انہوں نے کہا کہ ’شہر میں غیرقانونی اسلحہ سمگلنگ اور سپلائی کی اطلاعات پر ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی عمران یعقوب منہاس نے اس کی روک تھام کا ٹاسک سی ٹی ڈی کو دیتے ہوئے ایک سیل قائم کر کے شہر کے مختلف علاقوں میں غیرقانونی اسلحے کی ڈیلنگ کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ کیا۔‘ راجہ عمر خطاب نے بتایا کہ سی ٹی ڈی کی ٹیم نے نومبر 2022 میں شہر کے مختلف علاقوں میں کارروائی کر کے ایک گروہ کے کارندوں کو گرفتار کیا جو غیرقانونی طریقے سے اسلحہ پشاور، درہ آدم خیل اور ڈی آئی خان سمیت مختلف علاقوں سے لا کر کراچی میں فروخت کیا کرتے تھے۔ یہ کارروائی کراچی کے علاقے یونیورسٹی روڈ، کشمیر روڈ، بنارس اور سائٹ ایریا میں کی گئی اور چار افراد کو گرفتار کیا گیا۔ ان کے قبضے سے 18 غیرقانونی پستول و دیگر اسلحہ، میگزین اور بھاری تعداد میں گولیاں برآمد کی گئیں۔‘  

 
کراچی میں بڑی تعداد میں آنے والے غیر قانونی اسلحہ کے بارے میں کسی ادارے کے پاس ڈیٹا موجود نہیں ہے،شہر میں منظم طور پر مختلف نیٹ ورکس کے کارندے آن لان اسلحہ گھروں تک پہنچا رہے ہیں،اسٹریٹ کرائم میں استعمال ہونے والا اسلحہ کرائے پر بھی دستیاب ہے،آئی جی پولیس غلام نبی میمن کا کہنا ہے کہ غیر قانونی اسلحے کی روک تھام اور اس میں ملوث گروپس کو پکڑنے کا ٹاسک سی ٹی ڈی کو دیا ہے ۔تفصیلات کے مطابق شہر میں اسٹریٹ کرائم سمیت جرائم کے مختلف واقعات میں غیر قانونی اسلحے کا استعمال ہو رہا ہے،پولیس اور محکمہ داخلہ سمیت کسی بھی ادارے کے پاس شہر میں موجود غیر قانونی اسلحے کی تعداد کی حوالے سے مصدقہ ڈیٹا موجود نہیں ہے۔کراچی پولیس کے مطابق شہر میں ہونے والے جرائم کے واقعات میں قانونی اسلحے کا استعمال نہیں ہوتا بلکہ غیر قانونی اسلحہ وارداتوں کے دوران استعمال کیا جاتا ہے۔اس وقت شہر میں اس وقت اسلحہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے راستے سے آ رہا ہے۔

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر