منگل، 5 مارچ، 2024

گلوری ایک تہذیبی روائت


قیام پاکستان کے بعد میں نے جس سماج میں آنکھ کھولی وہ صدیوں کا روایات کاپابند معاشرہ تھا -ان رسومات میں ایک روائت یہ بھی تھی کہ گھر میں آنے والے مہمان کی پان سے تواضع کرنا اگر گھر کی بزرگ خاتون نے مہمان کی عمر چھوٹی ہوتی تو بزرگ خاتون سے کھڑے ہو کر ان سے پان با ادب طریقے سے لیتا اور پھر جھک کر آداب بجا لاتا جس کے جواب میں بزر گ خاتون سے دعائیں لیتا -اورآنےوالا مہمان بزرگ ہوتا تو اس کے لئے گھر کا کوئ بچہ یا بڑا تھالی میں سلیقہ سے رکھی گئ  گلوری پیش کرتا -پاندا ن ہر گھر کی تہذیبی روائت کا لازمی حصّہ ہوا کرتا تھا جو گھر کی سب سے بزرگ خاتون کی کسٹڈی میں رہتا تھا -گھر کے کسی طاق میں کتھّے اور چونے کی ڈھکی ہوئ کلہیاں ہمہ وقت رہا کرتی تھیں -تاکہ پاندان کو محفوظ اسٹاک میں کمی نا ہونے پائے -گھر میں کنواری لڑکیاں پان نہیں کھا سکتی تھی لیکن بیاہی کے کھانا لازم تھا تاکہ ان کے شوہروں کی نظروں میں پان کا رنگ محبّت کے دئے جلائے رکھے

گلوری-گلوری برصغیر میں ایک خاص وضع پر لپٹے ہوئے پان کو کہا جاتا ہے جو تقسیم ہند سے قبل نوابوں اور رؤسا کے یہاں انتہائی مقبول، ہندوستانی ثقافت کا اہم جز اور ضیافت و وضعداری کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ ۔ گلوری اس وقت بھی رائج ہے، گلوری پیش کرتے وقت عموماً اس پر کسا ہوا کھوپرا اور لونگ کی کیلیں یا لکڑی کا خلال لگا دیا جاتا ہے۔ لیکن وہ اہتمام اور احتشام اب مفقود ہے جو شہنشاہوں، رؤسا اور عمائدین کے یہاں پایا جاتا تھا۔ چنانچہ ان کی نفاست طبع اور لطافت مزاج نے پان تیار کرنے، پان کے اجزائے ترکیبی میں ذائقہ پیدا کرنے اور پان بنانے کو فن کے درجہ تک پہنچا دیا تھا مشرقی معاشرت میں گلوری پیش کرنا آداب ضیافت میں شامل تھا، اگر کسی مہمان کی گلوری سے تواضع نہیں کی جاتی تو میزبان کے اس عمل کو توہین کے مترادف سمجھا جاتا۔ شادی بیاہ کی تقریبات میں پانوں اور گلوریوں کی خصوصی اہمیت تھی   پورے ہندوستان میں  یہ ایک تہذیب کی علامت تھا بلکہ کئی جگہ  پہ ابھی بھی ہے- کچھ کہتے ہیں کہ اول اول کسی بادشاہ کو اس کے شاہی طبیب نے علاج کے طور پر تجویز کیا تھا- کتھا، چونا اور چھالیہ اس کے بنیادی اجزاء تھے اور ہیں- پھر اس میں انواع اقسام کے تمباکو اور قوام شامل ہوتے چلے گئے-

   لڑکیوں کےجہیز میں پاندان سب سے اہم چیز سمجھی جاتی   تھی، دلہن کو دو طرح کے پاندان دیے جاتے۔ ایک چاندی کا مرصع پاندان اور دوسرا عمومی استعمال کے لیے تانبے کا قلعی شدہ پاندان۔مغل شاہی حکومتوں کے دربار میں پان اور عطر تقسیم کیا جاتا تھا۔ بعد ازاں انگریز وائسراؤں کی لاج میں مہمان کی پان اور عطر سے ضیافت کی جاتی تھی۔ جس سے اظہر من الشمس ہوتا ہے کہ انگریزوں نے بھی مسلمان بادشاہوں کی اس قدیم روایات کو باقی رکھا-گلوری کی روائت پاندان اور خاصدان کی کہانی-پان کی تاریخ ہزاروں برس پرانی ہے۔ ہندو مائتھالوجی میں بیان کیا گیا ہے کرشنا جی پان کھاتے تھے، ہزاروں برس سے حکیم اس کو بطور دوا بھی استعمال کرواتے تھے ہندو مذہبی روایات میں بھی پان کا بہت دخل ہے۔  لونگ، الائچی ، کھوپرہ اورسونف بہت سی بیماریوں  ‎جب سے ہندوستان می نوابوں، مہاراجوں اور راج واڑوں کا دورشروع ہوا غالباً اسی وقت سے یہاں پان کھانے کا رواج ملتاہے، لکھنو اور حیدرآباد کی تہذیبی ثقافت میں پان کو ہمیشہ کلیدی حیثیت حاصل رہی ، اس زمانے میں پان دان جہیز میں دینا لازمی ہوا کرتا۔ پاندان کے ساتھ خاصدان ،اگلدان ،پان کی ڈبیہ یا تھالی بھی دی جاتی جبکہ پان کھانے کے آداب بھی ہوا کرتے تھے-

گلوری کے لوازمات میں خاصدان، پاندان، اگالدان، گلوری دان، پیک دان، سروتا، چنگیر، پن کٹی وغیرہ شامل تھے۔ دفتر یا سفر میں لے جانے کے لیے چاندی کی منقش ڈبیا کا استعمال عام تھا۔ مغل سلاطین اور ان کا خاندان گلوری کے انتہائی شائق تھے۔ قلعہ معلی میں گلوری عموماً ڈیڑھ پان کی بنائی جاتی اور لپیٹ کر اس میں سونے، چاندی، لوہے یا لونگ کی کیل لگا دی جاتی تھی -سچی بات تو یہ ہے کہ پان اور اس کے مروجہ ضروری مصالحہ جات کے خواص اور افعال کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بغیر تمباکو کے پان کا استعمال منہ کے امراض کے لئے نہایت مفید ہے۔ یہ تعجب کی بات ہے کہ جو چیزیں نفع بخش ہوں ان کو مضر کیونکر کہا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ ادویات کا استعمال مخصوص اوقات میں ہوتا ہے غیر اوقات میں ان کا استعمال کچھ ٹھیک نہیں۔ ثابت یہ ہوتا ہے کہ اگر پان کو درجہ اعتدال پر استعمال کیا جائے تو انسان بہت سے امراض سے محفوظ رہ سکتا ہے اور اس کا استعمال نہایت ہی فائدہ بخش ہے۔ 

بالخصوص  , درد داندان, گندہ دہنی اور مسوڑھوں کے لئے نہایت نافع ہے- اس کے علاوہ اور بھی بہت سے فوائد ہیں مثلاً ذائقہ کا درست ہونا, زبان اور مسوڑھوں کے زخم مندمل ہونا, حلق کی خرابی سے محفوظ رہنا, کھانا کھانے کے بعد منھ کو صاف کرنے اور اس کی تمام کثافت کو دور کرنا وغیرہ- پان کے بیڑے کے استعمال سے طبعیت کو فرحت ملتی ہے اور خصوصاً موسم سرما میں گرمی پہنچاتا ہے۔نامرغوب چیز کے استعمال کے بعد کھانے سے کراہت دفع ہوجاتی ہے اور منہ  صاف ہوجاتا ہے۔ کھانے کے بعد پان کا استعمال ایک ٹانک کی حیثیت رکھتا ہے۔ کھانے کے ساتھ اکثر نامعلوم طور پر کچھ جراثیم پیٹ میں چلے جاتے ہیں۔ پان کا عرق اور دوسرے اجزاء ان جراثیم کو مار ڈالتے ہیں اور اس طرح ہم بہت سی بیماریوں سے بچ جاتے ہیں۔ پان کے کھانے کے بعد پیدا ہونے والی سرخی کی وجہ سے چہرے  پر خوبصورتی  بڑھ جاتی ہے۔ اس لئے لوگ (خصوصاً صنف نازک) اس کو افزائش جمال کیلئے بھی استعمال کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں آج بھی پان ہی ایک ایسی مہذب اور کم خرچ تواضح ہے جسے غریب سے غریب پیش کر کے اپنے جذبات محبت ایک دوسرے پر آشکار کرسکتے ہیں 

ہفتہ، 2 مارچ، 2024

این ای ڈی کراچی یونیورسٹی

   

صوبہ  سندھ  کے دارالحکومت کراچی میں این ای ڈی یونیورسٹی سندھ میں انجینئرنگ کی تعلیم فراہم کرنے والا سب سے پرانا ادارہ ہے۔پروفیسر ڈاکٹر سروش حشمت لودھی مزید چار سال کیلئے شیخ الجامعہ این ای ڈی مقرر کر دیئے گئے۔ تفصیلات کے مطابق یونیورسٹیز اینڈ بورڈز حکومتِ سندھ کی جانب سے جاری نوٹیفیکیشن کے مطابق پروفیسر ڈاکٹر سروش لودھی کو مزید چار سال کیلئے این ای ڈی یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا ہے۔واضح رہے کہ سال 2021ء میں این ای ڈی یونیورسٹی اپنے سو برس مکمل کر چکی ہے۔اس عظیم درسگا ہ کے قیام کا سہرا سو برس پیچھے کراچی کی پارسی کمیو نٹی کے  سرکردہ 'علم دوست مخیر فرد نادر شا ایڈلجی ڈنشا  کے سر جاتا ہے -کراچی میں واقع این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی نے رواں سال یعنی2021 میں اپنے قیام کے 100 سال مکمل کیے ہیں، ملک کے اس اہم تعلیمی ادارے کو1921 میں قائم کیا گیا تھا۔ انجینئرنگ کے شعبے میں گریجویٹس کی تعلیم و تربیت کے لیے معروف این ای ڈی یونیورسٹی پاکستان کے قدیم ترین اداروں میں سے ایک ہے۔اس سے پہلے این ای ڈی یونیورسٹی کا ​​نام پرنس آف ویلز انجینئرنگ کالج تھا۔ این ای ڈی یو ای ٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سروش حشمت لودھی نے انکشاف کیا کہ اس انجینئرنگ کالج کا سنگ بنیاد 1921 میں پرنس آف ویلز کے دورے کے موقع پر رکھا گیا تھا۔ڈاکٹر حشمت لودھی نے بتایا کہ قیام پاکستان سے قبل جیکسن نام کے ایک برطانوی افسر اس کالج کے قیام کے لیے تمام ممکنہ وسائل بروئے کار لائے۔

پروفیسر لودھی نے بتایا کہ اس تاریخی ادارے میں 540 سے زیادہ ماہر تعلیم لیکچرارز اور پروفیسرز کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں، جن میں 200 پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حامل ہیں۔ این ای ڈی یونیورسٹی 34 انڈرگریجویٹ، 50 سے زیادہ ماسٹرز اور 21 پی ایچ ڈی پروگرامز کی پیش کش کرتی ہے۔ تقسیم سے پہلے یہ تعلیمی ادارہ بمبئی  یونیورسٹی سے وابستہ تھا تاہم قیام پاکستان کے بعد یہ حکومت سندھ کے دائرہ اختیار میں آگیا۔این ای ڈی یونیورسٹی کراچی میں اس وقت پانچ کلیات کے تحت اکیس شعبہ جات میں چھ ہز سے زائد طلباء زیر تعلیم ہیں جن میں سے ڈیڑھ ہزار کے قریب تعداد خواتین کی ہے۔اس ادارے کا قیام انیس سو بائیس میں عمل میں آیا جب پرنس آف ویلز کے کراچی کے دورے کے موقع پر کراچی کے شہریوں نے عطیات جمع کر کے اس ادارے کی بنیاد رکھی۔اس وقت اس کا نام پرنس آف ویلز انجینئرنگ کالج تھا۔ یہ اس وقت صوبہ سندھ کا واحد انجینئرنگ کالج تھا۔

انیس سو چوبیس میں اس کا نام اس وقت کی معروف سماجی شخصیت نادر شاہ ادولجی ڈنشا کی پہلی برسی کے موقع پر ان کےخاندان کی جانب سے بہت خطیر رقم بطور امداد ملنے کے بعد اس کا نام نادر شاہ ادولجی ڈنشا انجینئرنگ کالج رکھ دیاگیا۔ اس وقت اس کالج کا الحاق بمبئی یونیورسٹی سے تھا۔انیسو سینتالیس میں قیامِ پاکستان کے بعد اس کا انتظام سندھ حکومت نے سنبھال لیا اور اس کا الحاق سندھ یونیورسٹی سے کر دیاگیا۔انیس سو اکاون میں جامعہ کراچی کے قیام کے بعد اس کا الحاق جامعہ کراچی سے کردیاگیا جو انیس سو ستتر تک جاری رہا۔ 1977 میں اسے باقاعدہ یونیورسٹی کا درجہ دے دیاگیا۔اس یونیورسٹی میں کوئی گزشتہ بارہ برسوں سے اس بات بہت پر بہت زور دیا جا رہا ہے کہ تعلیمی سال کو مکمل کیا جائے اسی لیے جب کراچی شہر کے حالات کی وجہ سے جامعہ بند رہتی ہے تو اس کی کسر روز کی کلاسز کے اوقات میں اضافہ کردیا جاتا ہے اور کبھی کبھی  اتوار کے روز بھی تدریس کے عمل کو جاری رکھا جاتا ہے تاکہ بین الاقوامی معیار کے مطابق مطلوبہ کریڈٹ آور پورے کیے جا سکیں۔اس جامعہ میں داخل ہوتے ہی یہ احساس ہوتا ہے کے اس کا نظم و نسق دوسری جامعات سے مختلف ہے۔یونیورسٹی کے کیمپس کی عمارتیں اور ماحول دیگر سرکاری جامعات کی نسبت زیادہ بہتر اور صاف ستھرا ہے۔

سیٹھ ایڈلجی ڈنشا 18 مئی 1842 کو کراچی میں پیدا ہوئے، ان کا تعلق پارسی خاندان سے تھا۔ وہ برطانوی فوج کے لیے ٹھیکیداری کاکام کرتے تھے، ان کے کاروبار کو 1878 سے 1881 کے دوران ہونے والی دوسری افغان جنگ کے دوران عروج حاصل ہوا۔ اس کام سے جو دولت کمائی وہ انھوں نے زمینوں اور کارخانوں میں لگادی، وہ قسمت کے دھنی تھے۔اس کاروبار میں بھی انھیں خوب کامیابی حاصل ہوئی اور 19ویں صدی کے آخری دور میں اس وقت کے کراچی کی زمینوں کے بڑے حصے کے وہ واحد مالک ہوا کرتے تھے۔ انھوں نے جو پیسہ کمایا اسے فلاحی اور خیراتی کاموں میں دل کھول کر خرچ کیا۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں 1899 میں آرڈر آف دی انڈین ایمپائر دینے کا اعلان کیا گیا اورانھیں یہ ایوارڈ یکم مارچ 1900 میں ملکہ وکٹوریہ کی جانب سے دیا گیا۔ ان کے بیٹے نادر شا ایڈلجی ڈنشا نے بھی ان کے مشن کو جاری 

رکھاسندھ کے جھومر کراچی کو ایک یادگار شہر بنانے میں پارسیوں کا حصہ ناقابلِ فراموش ہے۔ ان کی تعمیرات اوران کے بنائے ہوئے اداروں کے نام کی گونج آج بھی ہمیں سنائی دیتی ہے ۔پارسیوں کو جدید تعلیم کی اہمیت کا بہ خوبی اندازہ تھا۔ وہ اپنی کاروباری اور انتظامی صلاحیتوں کے سبب انگریزوں کا دل جیت چکے تھے اور جانتے تھے کہ اگر انھوں نے ابتدائی عمر سے ہی بچوں کی تعلیم پر توجہ نہ دی تو ان کی نئی نسل ترقی نہ کرسکے گی ۔یہ یونیورسٹی برطانوی حکومت کے قائم ہونے کے بعد اپنی جدید شکل میں آئی اور سنہ 1947ء میں حکومت سندھ نے اسے اپنی تحویل میں لے لیا۔ سنہ 1947ء میں پاکستان کی آزادی کے بعد جیسے جیسے کراچی ترقی کرتا گیا اور پرانا 'سٹی کیمپس' بہت زیادہ پر ہجوم ہو گیا، سنہ 1975ء میں یونیورسٹی روڈ، کراچی پر اس کے موجودہ مقام پر ایک نیا 'مین کیمپس' تعمیر کیا گیا۔ آخر کار یکم مارچ 1977ء کو این ای ڈی گورنمنٹ انجینئرنگ کالج کو انجینئرنگ یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا۔ اس یونیورسٹی کا نام اس کے محسن نادرشا ایڈولجی ڈنشا کے نام پر رکھا گیا ہے۔ 

سلطنت چندر گپت موریا،


  روئے زمین پر انسانی قدموں کے آنے سے لیکر آج تک نا جانے کتنی تہذیبوں نے جنم لیا اور کچھ عروج پا کر فنا فی اللہ ہو گئیں لیکن کچھ تہزیبیں مٹ کر بھی زمانے کو اپنے انمٹ نقوش دے گئیں -ان تہذیبوں میں موریہ تہذیب بھی آج تک زندہ ہے -تو آئیے  موریہ تہذیب کے بارے میں جاننے کی کو شش کرتے ہیں -موریہ سلطنت کا پایہ تخت پاٹلی پتر (موجودہ پٹنہ) تھا، یہ بہت شاندار شہر تھا اور گنگا کے کنارے کنارے نو میل تک پھیلا ہوا تھا۔ اس کی شہر پناہ میں 64 بڑے دروازے اور سینکڑوں چھوٹے دروازے تھے۔ مکان زیادہ تر لکڑیوں کے بنے ہوئے تھے اور چوں کہ آگ لگنے کا ڈررہتا تھا اس لئے آگ بجھانے کا بہت معقول انتظام تھا،خاص خاص سڑکوں پر پانی سے بھرے ہزاروں گھڑے ہر وقت رکھے رہتے تھے۔ ہر ایک گھر گرہست کو بھی اپنے  اگر کوئی آدمی سڑک پر کیچڑ اور پانی جمع ہونے دیتا تھا تو اس پر جرمانہ کیاجاتا تھا۔ اگر ان قاعدوں کی پابندی ہوتی رہی ہو گی تو پاٹلی پتر یا دوسریے اور شہر یقینا بہت خوبصورت اور صاف ستھرے رہے ہوں گے۔پاٹلی پتر میں شہری انتظام کے لئے ایک میونسپل کونسل تھی۔ تمام شہری اس کونسل کے ممبروں کا انتخاب کرتے تھے۔ اس میں 30 ممبر ہوتے تھے۔ ان میں سے پانچ پانچ ممبروں پر مشتمل چھ کمیٹیاں تشکیل کی جاتی تھیں۔ شہری صنعت و حرفت کی حوصلہ افزائی اور دیکھ ریکھ، مسافروں اور تیرتھ یاتریوں کے آرام اور حفاظت کے انتظامات، فوتگی اور پیدائش کے اندراجات اور دوسری چیزیوں کا انتظام انہیں کمیٹیوں کے ہاتھ میں رہتا تھا۔

 ایک عجیب و غریب سامان تفریح بیلوں کی دوڑتھی۔ اس میں شرطیں لگائی جاتی تھیں۔ بادشاہ نہایت دلچسپی سے اس کا تماشا  دیکھا کرتا تھا۔ اور بیلوں کو گاڑیوں میں جوت کر ڈوراتے تھے اور ان کے علاوہ گھوڑے بھی گاڑیوں میں جوت کر انھیں بھی دوڑاتے تھے۔ جب وہ شکار کے لیے شکار پر جاتا تھا تو اس کے ہم رکاب عورتوں کی فوج کا ایک دستہ ہوتا تھا۔ دوسرے ملکوں سے خریدی ہوئ یہ غلام عورتیں  ہندی راجاؤں کے دربار کا ایک ضروری جزو ہوا کرتی تھیں۔ شاہی گذر دونوں جانب رسی بنی ہوتی تھی اور اس کے پار جانے کی سزا موت تھی شاہی شکار کے دستور کو چندرا گپتا کے پوتے اشوک نے 952 ق م میں موقوف کر دیا تھا۔

 عام طور پر راجا محل میں زیادہ وقت گزارنے کو ترجیح دیتا  تھا اور محل کے اندر عورتوں کی فوج اس کو گھیرے رہتی تھی۔ محل سے باہر صرف بھینٹ چڑھانے یا فوج کشی یا شکار کے موقعوں پر نکلا کرتا تھا۔ راجا اپنی سالگرہ میں نہایت تزک و احتشام سے اپنے سر کے بال دھوتا تھا۔ سالگرہ کے موقع پر بڑی عید منائی جاتی تھی اور اس موقع بڑے بڑے امرا سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ بیش بہا نذرانے راجا کی خدمت میں پیش کریں۔ اس تزک و احتشام اور شان اور شوکت اور ہر قسم کی حفاظت کے باوجود راجا کبھی بھی سازشوں اور بغاوتوں سے بے خوف نہ ہوتا تھا۔  راجا قانون کے مطابق اپنی سلطنت کے تمام خشک و تر کا مالک تھا۔ لگان کے ساتھ آب پاشی کا محصول بھی عائد تھا۔ جس کی شرح پانچویں سے تیسرے حصہ پیداوار کے مابین تھی۔

 بعض حالتوں میں دوسرے ابواب بھی زمین سے وصول کیے جاتے تھے۔ دریا کے گھاٹوں پر بھی حکومتی کشتیاں ہوتی تھیں جن کا کرایا سرکاری خزانے میں جمع ہوتا تھا۔ شہر کے اندر پیدائش اور موت پر محصول لگا ہوا تھا۔ یہ بھی حکومتی آمدنی کا ایک ذریعہ تھا۔ جرمانہ کی رقم بھی معقول ہوتی تھی۔ مجرمین سے وصول کیے جاتے تھے۔ ان محصولات کے علاوہ خراج کی آمدنی بھی تھی جو  ریاستوں سے وصول کی جاتی تھی۔  صفائی ستھرائی، آمدوخرچ، پانی کا انتظام، باغ باغیچے اور پبلک عمارتوں کی دیکھ ریکھ کا انتظام کرتی تھی۔انصاف کرنے کے لئے پنچایتیں اور اپیل سننے کے لئے عدالتیں قائم تھیں۔ قحط زدوں کی مدد کا خاص انتظام ہوتا تھا۔ سرکاری گودام کا آدھا غلہ قحط زدوں کی ضرورتوں کے لئے ہمیشہ محفوظ رکھا جاتا تھا- مذہبی تقسیم کے لحاظ سے ملک کی آبادی چار ذاتوں برہمن، کشتری، دیش اور شودر میں بٹی ہوئی تھی حکومت و سیاست اور جنگ و جدل سے متعلق تمام باتیں کشتری کے متعلق تھیں۔ صرف وہی فوجی خدمت کے لائق سمجھے جاتے تھے، مگر غالباً موریاؤں نے اسے نظر انداز کیا فوج کے تمام اعلیٰ اختیارات راجا کو حاصل تھے۔ وہی سپہ سالاری کا کام بھی انجام دیتا تھا۔

۔یہ تھی اس موریہ سلطنت کی ایک جھلک جس کی آج سے 22 سو سال پہلے چانکیہ اور چندر گپت نے تنظیم کی تھی۔ پاٹلی پتر کی راج دھانی سے لے کر اس عظیم الشان سلطنت کے بڑے بڑے شہروں اور ہزاروں قصبوں اور گاؤں تک سارے ملک میں زندگی رواں دواں اور چہل پہل سے بھرپور تھی۔ سلطنت کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک بڑی بڑی سڑکیں تھیں۔ ایک شاہراہ پاٹلی پتر سے شمال مغربی سرحد کو چلی گئی تھی۔ بہت سی نہریں تھیں اور ان کی دیکھ بھال کے لئے ایک محکمہ بھی تھا۔ اس کے علاوہ جہاز رانی کا شعبہ بھی تھا۔ جو بندرگاہوں، گھاٹوں، پلوں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ آنے جانے والے متعدد جہازوں اور کشتیوں کی دیکھ بھال کیا کرتا تھا۔ جہاز سمندر پار چین اور برما تک جاتے تھے۔اس عظیم الشان سلطنت پر چندر گپت نے 24 سال تک حکومت کی۔ 296 قبل مسیح میں اس کا انتقال ہوا


 

جمعہ، 1 مارچ، 2024

اضطراب (انگزائٹی ) کا کیا علاج ہے؟

  

 ہمارے ہی معاشرے میں کچھ لوگوں کے مزاج میں ایسی بے چینی سی گردش کرتی رہتی ہے جسے کوئ نام نہیں دیا جا سکتا ہے -اور یہی بے چینی ان کو مستقل طور پر مضطرب رکھتی ہے -آج کے ماڈرن معاشرے نے اس بیماری کو ڈپریشن یا انگزائٹی کا نام دیا ہے اس بیماری کی بنیا د انسان کے ناقابل حل مسائل سے جڑا ہوتا ہے -لیکن کبھی 'کبھی انسان اپنے اوپر بلاوجہ کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی اپنے زہن پر اس طر ح سوار کر لیتا جس سے وہ اس نادیدہ مرض کے شکنجے میں آجاتا ہے ۔ تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ اس طرح کی طبیعت جینز کے ذریعے وراثت میں بھی مل سکتی ہے۔ تاہم وہ لوگ بھی جو قدرتی طور پر ہر وقت پریشان نہ رہتے ہوں اگر ان پر بھی مستقل دباو  پڑتا رہے تو وہ بھی گھبراہٹ کا شکار ہوجاتے ہیں۔کبھی کبھار گھبراہٹ کی وجہ بہت واضح ہوتی ہے اور جب مسئلہ حل ہوجائے تو گھبراہٹ بھی ختم ہوجاتی ہے۔ لیکن کچھ واقعات اور حالات اتنے تکلیف دہ اور خوفناک ہوتے ہیں کہ ان کی وجہ سے پیدا ہونے والی گھبراہٹ واقعات کے ختم ہونے کے طویل عرصے بعد تک جاری رہتی ہے۔ یہ عام طور پر اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں جن میں انسان کی جان کو خطرہ ہو۔ مثلاً کار یا ٹرین کے حادثات اور آگ وغیرہ۔ ان واقعات میں شامل افراد مہینوں یا سالوں تک گھبراہٹ اور پریشانی کا شکار رہ سکتے ہیں ۔ یہ علامات پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر میں پائی جاتی ہیں۔ انگزائٹی یا گھبراہٹ کی چند نمایاں علامات ،دل کی دھڑکن محسوس ہونا، زیادہ پسینہ آنا،پٹھوں میں کھنچاو¿ اور درد ہونا،سانس کا تیزی سے چلنا،سر چکرانا،بے ہوش ہو جانے کا ڈر ہونا،بدہضمی، بری خبر، ڈرامہ فلم سے گھبراہٹ ہونا ، خاموش رہنا یا بلا ضرورت گفتگو کرنا، ہر وقت پریشانی کا احساس،تھکن کا احساس،توجہ مرکوز نہ کرپانا،چڑچڑے پن کا احساس،نیند کے مسائل۔

 گھبراہٹ کا شکار افراد ان علامات کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں کوئی شدید جسمانی بیماری ہو گئی ہے، گھبراہٹ سے ان علامات میں اور زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ گھبراہٹ کے غیر متوقع اچانک دورے پینک (Panic)کہلاتے ہیں۔ اکثر گھبراہٹ اور پینک کے ساتھ ڈپریشن بھی ہوتا ہے۔ نشہ آور اشیا کے استعمال کی وجہ سے بھی گھبراہٹ ہوسکتی ہے اکثر بچے کبھی نہ کبھی کسی وجہ سے ڈر جاتے ہیں۔ نشوونما کے دوران یہ معمول کی بات ہے۔ مثلاً چھوٹے بچے اپنی دیکھ بھال کرنے والے افراد سے مانوس ہوجاتے ہیں اور اگر کسی وجہ سے وہ ان سے الگ ہوجائیں تو بچے بہت پریشان ہوجاتے ہیں اور گھبرا جاتے ہیں۔ بہت سے بچے اندھیرے یا فرضی وجود (جن بھوتوں)سے ڈرتے ہیں۔ یہ خوف عام طور پر بڑے ہونے کے بعد ختم ہوجاتے ہیں اور بچوں کی زندگی یا ان کی نشوونما کو متاثر نہیں کرتے ہیں۔ زیادہ تر بچے اسکول کے پہلے دن جیسے اہم واقعات کے بارے میں خوفزدہ ہوتے ہیں لیکن بعد میں یہ خوف ختم ہوجاتا ہے۔انگزائٹی اور ڈیپریشن کے نفسیاتی علاج موجود ہیں -

گر روحانی اور سوشل علاج سے بہتر اور موثر کوئی علاج نہیں۔ ہم خیال اور شفیق دوسروں اور رشتے داروں کی صحبت اختیار کریں۔ گپ شپ اور مثبت گفتگو کریں۔ ماضی کی تلخ یادوں کو دہرانے سے گریز کریں۔ خود کو مورد الزام ٹھہرانے سے بچیں۔ نفسیاتی امراض کا بہترین ٹوٹکہ شکر گزاری ہے۔ جو پاس ہے اس پر راضی ہو جائیں اور جو چھن گیا اس پر صبر کریں اور جو نہیں مل سکا اس کے لئے بے چین اور پریشان ہونا چھوڑ دیں۔تمام بیماریوں اور پریشانیوں کا واحد علاج صبر اور شکر ہے۔ رب سے تعلق جوڑنے سے بڑا نسخہ اور علاج کوئی نہیں۔ اور رب سے تعلق جوڑنا دنیا کا آسان ترین کام ہے۔ ہر مشکل مصیبت پریشانی پر دل سے اللہ کی رضا پر راضی رہنے کی کوشش کریں اور ہر نعمت کامیابی اور خوشی پر بھی دل سے رب کا شکر ادا کرنا شروع کر دیں۔یاد رکھیں تمام بیماریوں اور پریشانیوں کا محور دل اور دماغ ہے۔ دل اور دماغ کو پرسکون کر لیں تمام قلبی روحانی جسمانی نفسیاتی مسائل اور بیماریوں پر قابو پا لیں گے-

۔ اور یہ بھی یاد رکھیں موت کے علاوہ کوئی مصیبت مشکل امتحان رب کی طرف سے نہیں بلکہ بندے کی اپنی کوتاہیوں غلطیوں اور خلاف سنت زندگی گزارنے کے سبب ہے۔سنت کے مطابق شب و روز گزارا جائے تو نہ بلڈ پریشر شوگر انگزائٹی ڈیپریشن اور دیگر امراض لاحق ہوں گے اور نہ ادویات ڈاکٹر ہسپتال کی ضرورت پیش آ ئے گی۔ جسمانی ورزش کم اور وقت پر صحتمند غذا کھانا سونا صحت کی ضمانت ہے۔پہلے زمانے کے بزرگ سادگی اور سنت کے مطابق زندگی گزارتے تھے اور طویل صحتمند زندگی گزار کر مرتے تھے اور آج نسلیں زندگی نہیں گزار رہیں بلکہ زندگی انہیں گھسیٹ رہی ہے۔ نوجوانوں کا طرز زندگی دیکھو جوانی میں بیمار نظر آتے ہیں۔ منشیات سگریٹ نوشی رات بھر جاگنا باہر سے آرڈر پر غیر صحتمند غذا کھانا ، بے صبری عدم برداشت نا شکری اور محبت کی بجائے شارٹ کٹ تلاش کرنا جیسے انداز زندگی نے جوانوں کو مریض بنا دیا ہے۔

بچے اور نوجوان بھی انگزائٹی ڈیپریشن اور فوبیا کا شکار ہو رہے ہیں۔ صبر اور شکر سے مظبوط تعلّق بھی اضطراب دور کرنے کا بہترین زریعہ ہیں انسان اللہ تعالیٰ سے انسان جتنی دوری اختیار کرتا ہے اور اپنی کوششوں پر بھروسہ کرتا ہے اتنا زیادہ بے چینی کا اوراضطراب کا شکار ہوتا ہے۔ وقتاً فوقتا ہم سب اداسی، مایوسی اور بیزاری میں مبتلا ہو تے ہیں۔ عمو ماً یہ علامات ایک یا دو ہفتے میں ٹھیک ہو جاتی ہیں اور ہماری زندگیوں میں ان سے بہت زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ کبھی یہ اداسی کسی وجہ سے شروع ہوتی ہے اور کبھی بغیر کسی وجہ کے ہی شروع ہو جاتی ہے۔ عام طور سے ہم خود ہی اس اداسی کا مقابلہ کر لیتے ہیں۔بعض دفعہ دوستوں سے بات کرنے سے ہی یہ اداسی ٹھیک ہوجاتی ہے اور کسی علاج کی ضرورت نہیں ہوتی۔لیکن طبّی اعتبار سے اداسی اسوقت ڈپریشن کی بیماری کہلانے لگتی ہے جب اداسی کا احساس بہت دنوں تک رہے اور ختم ہی نہ ہو۔ بعض تکلیف دہ واقعات مثلا کسی قریبی عزیز کے انتقال، طلاق، یا نوکری ختم ہوجانے کے بعد کچھ عرصہ اداس رہنا عام سی بات ہے۔ اگلے کچھ ہفتوں تک ہم لوگ اس کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں اور بات کرتے رہتے ہیں۔پھر کچھ عرصہ بعد ہم اس حقیقت کو تسلیم کر لیتے ہیں اور اپنی روز مرہ کی زندگی میں واپس آ جاتے ہیں۔لیکن بعض لوگ اس اداسی سے باہر نہیں نکل پاتے اور ڈپریشن کی بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں۔



جمعرات، 29 فروری، 2024

جمشید نسروانجی 'کراچی کے پہلے مئر


 (پیدائش:7 جنوری، 1886ء - وفات :8 اگست، 1952ء)   کراچی کے پہلے منتخب میئرجمشید نسروانجی مہتاکراچی کے معمار  وں میں سے تھے۔ ان کی محبت کا محور کراچی کی فلاح تھی جس کے لئے وہ دن رات کوشاں رہتے تھے-وہ  کراچی شہر میں غیر منقسم ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم پارسی ربادی اسکول اور این جے وی اسکول کراچی سے حاصل کی اور پھر 1900ء میں مزید تعلیم کے لیے ڈی جے کالج کراچی میں داخل ہوئے۔ وہ 1914ء میں کراچی میونسپلٹی کے رکن بنے اور 1933ء تک اس کے رکن رہے۔ اس دوران 1922ء سے 1933ء تک گیارہ سال تک مسلسل کراچی میونسپل کمیٹی کے صدر اور پھر کراچی میونسپل کارپوریشن کے 1933ء سے 1934ء پہلے میئر منتخب ہوئے ۔ انھوں نے اپنی میئرشپ کے زمانے میں کراچی کی توسیع کے متعدد منصوبے بنائے۔ کھلی سڑکیں، باغات اور کھیلوں کے میدان تعمیر کروائے ۔ 1919ء میں جب انفلوائنزا کی بیماری نے کراچی میں وبا کی شکل اختیار کی تو انھوں نے دن رات عوام کی خدمت کی جس کے نتیجے میں وہ عوام میں بے حد مقبول ہوئے۔ 

جمشید نسروانجی رستم جی مہتا کراچی میونسپلٹی کارپوریشن کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے - یہ یقیناً کراچی کے باسیوں سے ان کی محبت کی دلیل ہے کہ وہ ایک طویل عرصے تک کراچی میونسپلٹی کے صدر رہے۔ کراچی شہر میں بسنے والے لوگوں کے لیے ان کی خدمات کا کوئی شمار نہیں۔ وہ نہ صرف انسانوں سے پیار کرتے تھے بلکہ کسی جانور کو بھی دکھ یا تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تھے۔ معروف ادیب اجمل کمال اپنی مرتبہ کتاب ’کراچی کی کہانی‘ میں جمشید کے بارے میں پیر علی احمد راشدی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ؛ "میں (علی محمد راشدی) 1930 کے آس پاس میں بندر روڈ (حالیہ ایم اے جناح روڈ) سے گذر رہا تھا۔ دیکھا کہ جمشید مہتہ پیدل ایک گدھے کو لے کر جانوروں کے اسپتال کی طرف جا رہے ہیں۔ ان کی موٹر کار ڈرائیور پیچھے چلاتا آرہا تھا۔

 تماشا دیکھنے کے لیے میں بھی اسپتال کے برآمدے میں جا کھڑا ہوا۔ جمشید نے اپنے سامنے گدھے کی مرہم پٹی کرائی۔ ڈاکٹر کو بار بار کہتے رہے کہ زخم کو آہستہ صاف کریں تاکہ بے زبان کو ایذا نہ پہنچے۔ مرہم پٹی ختم ہوئی تو ڈاکٹر کو ہدایت کی کہ گدھے کو ان کے ذاتی خرچ پر اسپتال میں رکھا جائے۔ چارے کے لیے کچھ رقم بھی اسپتال میں جمع کرادی۔ دوسری طرف گدھے کے مالک کو ہدایت کی کہ جب تک گدھا پوری طرح صحت یاب نہ ہو جائے اور گاڑی میں جوتنے کے قابل نہ ہو جائے۔ اُس وقت تک وہ اپنی مزدوری کا حساب ان سے لیا کرے۔ یہ کہتے ہی کچھ نوٹ پیشگی ہی اسے دے دیے"۔ جناب یہ تو جمشید کے دور میں شہر میں جانوروں کے تحفظ کے حوالے سے ایک حقیقت تھی۔ آج اسی کراچی میں حال یہ ہے کہ اگر کوئی انسان کسی حادثے میں زخمی ہو جائے تو اُسے اسپتال پہنچانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ کیا لوگ تھے جو کراچی شہر میں بیمار یا زخمی جانوروں کا بھی خیال رکھتے تھے۔ جمشید یادگاری کمیٹی کی 1954 میں چھپی کتاب میں لکھا ہے کہ جمشید ہر صبح کو یہ دعا کرتے تھے؛ اے خدا میں ہر روز تجھ سے یہ دعا کرتا ہوں اے خدا مجھے کارآمد بنا اے خدا مجھے بے ضرر بنا اے خدا مجھے شفاف رکھ اے خدا مجھے اپنا ذریعہ بنا میں یہی دعا کرتا ہوں جئے سندھ تحریک کے بانی علیحدگی پسند رہنما سائیں جی ایم سید اپنی کتاب 'جنب گزریم جن سیں' (میری زندگی کے ہم سفر) کے صفحہ نمبر 116 پر جمشید نسروانجی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ سندھ کی بمبئی سے علیحدگی والی تحریک میں انھوں نے بھرپور حصہ لیا۔ جداگانہ انتحابات کی وجہ سے کامیابی کے لیے ان کا انحصار ہندو ووٹرز پر ہوتا تھا۔ لیکن انھوں نے اس کی پرواہ نہ کی۔ 

سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کے بعد 1937 میں وہ ضلع دادو سے سندھ اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے اور آزاد حیثیت میں اسمبلی کے رکن رہے۔ سندھ اسمبلی کے ہندو اراکین نے چھوٹی بڑی باتوں پر حکومت کی حمایت اور مخالفت شروع کی۔ چوں کہ وہ ہندو ووٹرز کی وجہ سے منتخب ہوئے تھے۔ اس لیے ان سے تقاضا کیا جانے لگا کہ وہ ہندو اراکین کی حمایت کریں۔ اس بات پر ناراض ہو کر انھوں نے استعفیٰ دے دیا۔ اس وقت کی سندھی سیاست میں یہ بڑی اہم بات تھی۔ اکثر مسلم اراکین ذاتی مفاد کی خاطر قومی مفاد کی قربانی دے رہے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد جب انہوں نے محسوس کیا کہ غیر مسلم اور ایمان دار کارکنوں کے لیے ملکی سیاست میں کوئی جگہ نہیں ہے تو وہ سیاست سے دستبردار ہو گئے۔ جمشید نسروانجی صحت عامّہ کے حوالے سے خاص طور پر فکر مند رہتے تھے۔ خصوصاََ زچگی کے حوالے سے۔ انھوں نے ایک منصوبہ تیار کیا تھا کہ شہر کے تمام کوارٹرز (علاقوں) میں زچّہ بچّہ کے مراکز قائم کیے جائیں۔ اس معاملے میں پہل انھوں نے خود کی اور اپنی والدہ گل بائی کے نام سے صدر میں جہانگیر پارک کے قریب ایک میٹرنیٹی ہوم قائم کیا۔ اس کے علاوہ دیگر افراد سے چندہ لے کر میٹرنیٹی ہوم بنوائے اُن کی پوری زندگی سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ وہ سیاست کو ہی تبدیلی کا ذریعہ مانتے تھے۔ وہ ایک خدا ترس انسان تھے اور ان کا ماننا تھا کہ لڑائی جھگڑے سے مسئلے حل نہیں ہو سکتے۔  

بدھ، 28 فروری، 2024

کیلگری شہر کو چلئے

 

 

 اپنے پروگرام کے مطابق سات بجے شام کے وقت کیلگری ائر پورٹ کی فضاوں میں طیارہ داخل ہوا میں نے جہاز کی کھڑ کی سے باہر کا نظارہ کیا تو بے اختیار زبان پر الفاظ آ گئے سبحان تیری قدرت -ہوائ اڈّا شب عروسی کا لباس پہنے ہزارہا روشنیوں سے مزیّن تھا -ابھی میری حیرت کچھ اور سوا ہوتی کہ طیارہ رن وے پر دوڑنے لگا اور سب مسافر اپنی اپنی سیٹ بیلٹ کھولنے لگے جی ہاں اب میں کیلگری کا تعارف کروانا چاہوں گی -کیلگری    باغات'  گھنے جنگلات  اور  پہاڑوں کا       شہر  ہے-جس میں  تا حد نظردلکش نظارے  ہیں تو سردیوں میں ہڈّیوں کو گلا دنے والی سردی بھی ہے لیکن پھر بھی  مشرق کی جانب سے مغرب کی جانب ہجرت چلی آ رہی ہے - کیلگری  مغربی صوبے البرٹا کا شہر ہے جو راکی ماؤنٹینز کے نزدیک واقع ہے۔ یہ شہر دو کینیڈین شہروں سے انڈیکس میں اپنے استحکام کے باعث بہتر ہے ۔یہاں کے رہائشیوں کے مطابق  یہ  ایک ایسا  شہر ہے جہاں  کینیڈا کےتمام بڑے شہروں کی سہولیات موجود ہیں -اور یہ کینیڈا کے دوسرے شہروں کے مقابلے میں رہائش کے لیے قدرے سستا ہے۔کینیڈا کے سب سے بڑے شہروں میں سے ایک ہونے کےسبب یہاں ایک مخصوص دلکشی ہے، 

 یہاں کے دوستانہ مقامی افراد، کمیونٹی کو فروغ دینے والی ذہنیت اور فارمرز' مارکیٹس (جہاں تازے پھل اور سبزی کھیتوں سے براہِ راست آتے ہیں) کے باعث ہے۔موسم گرما اور موسم بہار میں کیا کہنے کہ ’لوگ یہاں تفریح کی غرض سے گھروں سے باہر جاتے ہیں۔ ان موسموں میں یہاں گھروں کے ساتھ صحن   بھی   تفریح گاہ بن جاتے ہیں  اور ریستورانوں میں بھی بھیڑ لگ جاتی ہے۔ یہاں کے ٹوور آپریٹر کہتے ہیں  کہ اگر آپ  ریستوران میں غروبِ آفتاب کے وقت بکنگ کروائیں تو آپ شہر کے پہاڑی سے نظر آنے والے دلکش نظارے کا لطف اٹھا سکتے ہیں۔موسم  بہار میں اورموسم گرما میں یہاں کے لوگ اکثر اپنی گاڑیوں کے بیک سائڈ پر اپنی اپنی بوٹس لئے فشنگ کے لئے جاتے ہوئے نظر آئیں گے‘کینیڈا کے دیگر شہروں کی طرح اس شہر میں بھی زندگی گزارنے کے معیار میں اضافے کی وجہ پرفضا مقامات اور قدرت سے قربت ہے۔

  البرٹا کا پہلا عوامی   پارک،  یہ منفرد پارک ہر کسی کے لیے کھلا ہے اور یہ ایک ایسی پناہ گاہ ہے جو کمیونٹی، خاندان اور نوجوانوں کی فلاح و بہبود کی حمایت کرتا ہے۔ یہ کیلگری کا پہلا کمیونٹی پر مبنی دماغی صحت کا مرکز ہے جو نوجوانوں کے لیے فطرت سے عکاسی کرنے، صحت یاب ہونے اور جڑنے کے لیے ہے۔ پارک کی خصوصیات میں چڑھنے کا ڈھانچہ، اسپورٹ کورٹ، پویلین، کمیونٹی کے راستے، جھولتے بینچ، اور مراقبہ کے لیے جگہ، گروپ کی سرگرمیاں، باغبانی اور بہت کچھ شامل ہے۔ثقافتی فیسٹیول اور یہاں کی بہترین نائٹ لائف بھی۔‘ یہ شہر آبادی کے اعتبار سے خاصا متنوع بھی ہے اور کینیڈا میں یہ تیسرا سب سے متنوع شہر ہے جہاں 240 سے زیادہ قومیتوں کے لوگ اور 165 زبانیں بولی جاتی ہیں

شہر میں آئل اور گیس کی صنعت کے سبب یہاں وائٹ کالر  جابس کرنے والے افراد کی بڑی تعداد موجود ہے -سردیوں میں بھی تمام شہر میں سرما کے کھیلوں کا انعقاد ہوتا رہتا ہے جیسے سکیئنگ، سکیٹنگ، ٹیوبنگ، سنوشوئنگ اور آئس بائیکنگ جیسے کھیل کھیلے جاتے ہیں۔ شہر نے سنہ 1988 میں ونٹر اولمپکس کی میزبانی کی تھی، یہی وجہ ہے کہ یہاں اب بھی مکمل انفراسٹرکچر موجود ہے۔ یہاں سردیاں طویل اور سرد ہوتی ہیں  کیلگری ٹرانسپورٹ :کیلگری میں پیدل چلنے کے لیے طویل فٹ پاتھ اور سائیکل چلانے والوں کے لیے ٹریکس موجود ہیں۔ ا ہزار کلومیٹر سے زیادہ طویل یہ راستے پورے شمالی امریکی میں اپنی پہچان رکھتے ہیں۔بالخصوص سائیکل ٹریک کو بہت محفوظ بنایا گیا ہے ’شہر میں سائیکل چلاتے ہوئے میں  ایسے دلکش نظارے اور مقامات بھی دیکھنے کو ملیں گے جو عام طور پرنظروں سے پوشیدہ رہتے ہیں، ان نظاروں کو  روزانہ باہر جا کر دنیا دیکھنے کی جو خوشی نصیب ہوتی ہے وہ بیان سے باہر ہے

  مایا دیوی جو سسکیچوان  سے کیلگری چند برس پہلے شفٹ ہوئی ہیں ، کہتی ہیں کہ ’کیلگری دولتمند شہر ہے اور یہاں کے لوگوں کے پاس بھی دولت ہے  بلکل ایسے جیسے کہ انڈیا کے جنوبی شہرحیدر آباد والے دولت مند ہیں کیونکہ ان کا صوبہ بھی پہلے سے دولت مند ہے اس لئے کیلگری کے لوگوں کے پاس دولت ہےاور یہاں کے لوگوں کے دل بھی بڑے ہیں - اس کا مطلب یہ ہے کہ موسمِ گرما کے مہینوں میں شہر کے وسطی اور اس کے اردگرد کے علاقو میں رش ملے گا -ہر سال کیلگری سٹیمپیڈ نامی فیسٹیول جولائی کے پہلے جمعے کو شروع ہوتا ہے اور دس روز تک چلنے والی اس تقریب میں   یہ فیسٹیول پوری دنیا سے لوگوں کو خوش آمدید کہتا ہے۔




  


    

منگل، 27 فروری، 2024

راشد منہاس شہید -قوم کا کمسن ہیرو

    


اپنی جان نذر کروں

اپنی وفا پیش کروں

اعزازِ نشان حیدر حاصل کرنے والے پائلٹ آفیسر۔ کراچی میں پیدا ہوئے۔ منہاس راجپوت   گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ 1968ء میں سینٹ پیٹرک اسکول کراچی سے سینئر کیمبرج کیا۔ خاندان کے متعدد افراد پاکستان کی بری بحری اور فضائی افواج میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ انھوں نے بھی اپنا آئیڈیل فوجی زندگی کو بنایا۔ اور اپنے ماموں ونگ کمانڈر سعید سے جذباتی وابستگی کی بنا پر فضائیہ کا انتخاب کیا۔ تربیت کے لیے پہلے کوہاٹ اور پھر پاکستان ائیر فورس اکیڈیمی رسالپور بھیجے گئے۔ فروری 1971ء میں پشاور یونیورسٹی سے انگریزی، ائیر فورس لا، ملٹری ہسٹری، الیکڑونکس، موسمیات، جہاز رانی، ہوائی حرکیات وغیرہ میں بی۔ ایس۔ سی کیا۔ بعد ازاں تربیت کے لیے کراچی بھیجے گئے۔ اور اگست 1971ء میں پائلٹ آفیسر بنے۔20 اگست 1971ء کو 11 بجے کے قریب پائلٹ آفیسر راشد منہاس اپنے T-33 جیٹ ٹرینر پراپنی دوسری سولو فلائٹ کیلئے تیار تھے۔ انہوں نے طیارے کا انجن سٹارٹ کیا اور تمام آلات کو چیک کیا۔ گراؤنڈ سٹاف نے انہیں اُڑان بھرنے کا اشارہ دیتے ہوئے سلیوٹ کیا کون جانتا تھا کہ یہ بہادر جنگجو کو ملنے والی آخری سلامی تھی۔ راشد منہاس نے اپنے طیارہ ابھی رن وے کی جانب بڑھایا ہی تھا کہ ان کا بنگالی فلائٹ انسٹرکٹر فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمن نے ٹیکسی وے پر آ کر انہیں رُکنے کا اشارہ کیا۔ راشد منہاس نے  کسی انسٹرکشن کے خیال سے طیارہ روک دیا۔ مطیع الرحمن انسٹرکٹر اچانک اچھل کر سیٹ پرآن بیٹھا۔ طیارے نے اُڑان بھری اور اس کا رُخ بھارت کی جانب ہو گیا۔

 ا س کے تھوڑی دیر کے بعد راشد منہاس نے مسرور کنٹرول ٹاور کو آگاہ کیا کہ ان کے جہاز کو ہائی جیک کر لیا گیا ہے۔فلائنگ آفیسر راشد منہاس ۲۰ اگست ۱۹۷۱ کو معمول کے مطابق ٹی ۳۳ ٹرینر جیٹ کو اڑانے والے تھے کہ ان کا بنگالی انسٹرکٹر فلائٹ لفٹینٹ مطیع الرحمان زبردستی ان کے جہاز میں سوار ہوگیا۔

طیارے میں سوار ہوتے ہی غدار وطن نے اپنے ساتھیوں کو پیغام دیا کہ تم میرے اہل خانہ کو لے کر بھارتی ہائی کمیشن چلے جاو میں جودھپور جارہا ہوں۔ راشد منہاس نے فوری طور پر کنٹرول ٹاور کو مطلع کیا ۔  مطیع الرحمان نے راشد مہناس کو ضرب لگائی اور کلوروفارم سونگھا دیا۔غدار کے پاس کچھ خفیہ دستاویزات تھیں جو وہ بھارت لے کر جانا چاہتا-گیارہ بج کر ا کتیس منٹ پر طیارے کا رخ بھارت کی جانب تھا تاہم راشد منہاس نے ہوش میں آنے کے بعد گیارہ بج کر تینتس منٹ پر اطلاع دی کہ مجھے طیارے سمیت اغوا کیا جارہا ہے۔اس کے بعد طیارے کا رابطہ کنٹرول ٹاور سے منقطع ہوگیا اب راشد منہاس کے پاس ایک ہی راستہ تھا۔جوان سال پائلٹ نے جب یہ دیکھا کہ ہندوستانی سرحد صرف ۳۲ میل دور رہ گئ ہے تو انہوں نے جہازکا رخ زمین کی طرف کردیا۔یوں پاکستان کے شاہین نے اپنی جان قربان کرکے غدار وطن اور ہندوستان کے تمام ناپاک ارادے خاک میں ملادئے۔

۲۱ اگست کو راشد منہاس کو پورے فوجی اعزازکے ساتھ سپرد خاک کردیا گیا یہ کم سن مرد مومن ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امر ہوگیا اورآج قوم کے اس بیٹے کا ۲۱ اگست یوم شہادت منایا جاتا ہے۔۔پاکستان ائیر فورس کے شاہین راشد منہاس کو نشان حیدر سے نوازا گیا وہ اب تک کہ سب کم عمر ترین شہید ہیں جن کو یہ اعزاز ملا۔۲۰ اگست ہمیں اس عظیم قربانی کی یاد دلاتا ہے جب قوم کے شاہین نے اپنی جان اس وطن پر وار دی لیکن اس ملک کی سالمیت پر حرف نہیں آنے دیا۔راشد منہاس نے اپنی ڈائری میں یہ رقم کیا تھا کہ کسی شخص کے لئے اس سے بڑا اعزاز کیا ہوا کہ اپنی جان ملک کے لئے قربان کردینا اور انہوں نے یہ ہی کردکھایا۔اللہ تعالی شہید فلائنگ آفیسر راشد منہاس کے درجات بلند کرے ۔قومی ہیرو راشد منہاس شہید کی بہادری اورعظیم قربانی کے یوم شہادت  دن پر پوری قوم پاکستان کے اِس بہادربیٹے کو سلام ِعقیدت پیش کرتی ہے۔

17 فروری 1951ء کو کراچی میں پیدا ہونے والے راشد منہاس دوران تعلیم ہی انتہائی محنتی اور ہوابازی میں دلچسپی رکھتے تھے۔راشد منہاس نے امتیازی حیثیت سے (اے لیول) کا امتحان پاس کیا اور1971 میں پاک فضائیہ میں بحیثیت جی ڈی پائلٹ کمیشن حاصل کیا، جبکہ ابتدائی تربیت کے بعد بحیثیت پائلٹ آفیسر لڑاکا تربیت اور کنورژن کیلئے مسرورایئر بیس بھیجا گیا۔۱۹۷۱ میں راشد منہاس نے بطور جنرل ڈیوٹی پائلٹ گریجوٹ کیا اور انکی پوسٹنگ پی اے ایف بیس مسرور  میں ہوگئ۔اس وقت ان کی عمر ۲۰ سال تھی جب انہوں نے لڑاکا طیاروں کو اڑانے کی تربیت کا آغاز کیا۔وہ کوئی عام نوجوان نہیں تھے بہت ذہین اور فطین تھے۔مطالعے کے شوقین تھے جس میں انگریزی جغرافیہ موسمیات اور  تاریخ ان کے پسندیدہ موضوع تھے۔اور وہ کم سنی میں پاکستان کی عسکری    تاریخ کا زندہء جاوید ہیرو بن گئے

خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر