پاکستان سے محبت، اتحاد اور اتفاق سے
مل جل کر رہنے کا پرچار کرنے والے، امن اور سلامتی کا درس دینے اور اپنی تخلیقات
کے ذریعے نوجوان نسل میں جذبہ حب الوطنی اور جوش و ولولہ پیدا کرنے والے ادیبوں
کا ذکر کیا جائے تو جمیل الدین عالی کا نام ہمارے سامنے آتا ہے-کسی نے کیا خوب کہا
ہے -تخلیقیت انسان کا ایسا وصف ہے جو نہیں مرتا۔ جسے پیشگی بھی ہے اورپائیداری بھی
۔تو یہ بات تو جمیل الدّین عالی کی شخصیت پرپوری اترتی ہے-عالی جی نے اپنے گیتوں میں اپنے لہجے کی چاشنی اور
جذبات کی نغمگی کا وہ امتزاج رکھّا کہ انہیں
پڑھنے والا اور سننے والا دونوں ہی ان کے اسیر ہو گئے-جن کے ملّی نغمات ہمارا سرمایہ
ہیں۔جمیل الدین عالی پاکستان سے محبت کا پرچار اور اردو کی ترقی کے لیے کوشاں رہے۔
انھوں نے جو ملّی نغمے لکھے انھیں لازوال شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی
ممتاز شاعر اور نقاد، پروفیسر سحر
انصاری نے کہا ہے کہ جمیل الدین عالی کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی، ان کی علمی
و ادبی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بیگم انیس انور دہلوی
میموریل سوسائٹی اور گل رنگ ادب پاکستان کے اشتراک سے اردو کے ممتاز شاعر، ادیب،
دانشور اور کالم نگار ڈاکٹر جمیل الدین عالی کی یاد میں مذاکرہ اور مشاعرہ کے موقع
پر اپنے صدارتی خطاب میں کیا جس کے مہمان خصوصی ماہر نفسیات ڈاکٹر مبین اختر جبکہ
مہمان اعزازی معروف شاعر اور سائنس داں ظفر محمد خان ظفر تھے۔ میزبان تقریب ڈاکٹر
حسن وقار گل نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ جدہ میں مقیم پاکستان کے معروف شاعر، خطاط
اور مصور انور انصاری نے بطور خاص شرکت کی۔ ڈاکٹر نزہت عباسی اور رشید خان رشید نے
نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ پروفیسر اظہار حیدری، اوج کمال، فہیم انجم اور آصف علی
نے عالی صاحب کے فن اور شخصیت پر سیر حاصل گفتگو کی۔ محفل مشاعرہ میں صاحب طدر کے
علاوہ جن شعراء نے کلام سنایا ان میں ظفر محمد خان ظفر، انورانصاری، اظہارحیدری،
حسن وقار گل، راشد نور، قیصر وجدی، ڈاکٹر نزہت عباسی، رشید خان رشید، محمد علی
گوہر، ڈاکٹر جاوید، محمد علی سوز، کامران محور، اسامہ امیر اور تاج علی رعنا شامل
تھے۔ ڈاکٹر مبین اختر نے عالی صاحب کی وفات کو ایک قومی سانحہ قرار دیتے ہوئے کہا
کہ عالی جی دنیائے اردو ادب میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ڈاکٹر اوج کمال نے جمیل الدین
عالی کی شخصیت اور زندگی کے ان گوشوں کا ذکر کیا جو اب تک عام قاری اور نظروں سے
اوجھل ہیں۔ ڈاکٹر حسن وقار گل نے کہا کہ عالی جی کے ’’دوہوں‘‘ کو اردو دوہا نگاری
میں ایک سنگ میل تسلیم کیا گیا ہے۔ پروفیسر اظہار حیدری نے کہا کہ عالی صاحب کی حکیمانہ
شاعری کے قدیم اور جدید تصورات ہمیں دور دور تک نظر آتے ہیں۔ نسیم انجم نے کہا کہ
عالی جی نے اپنی نظموں سے اپنے قاری کو تہذیبی زندگی کا ایک ایسا تاب ناک شعور دیا
ہے جو قدم قدم پر رہنمائی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ آخر میں ڈاکٹر نسرین شگفتہ نے
کلمات تشکر ادا کئے۔
۔ یہاں ہم ان کے چند مقبولِ عام نغمات
کا ذکر کررہے ہیں جنھیں آپ نے آج بھی جشنِ آزادی کی تقریبات میں شرکت کے دوران یا
اپنے گھروں میں ٹیلی ویژن پر سنا ہو گا۔جیوے… جیوے… جیوے پاکستان 'پاکستان،
پاکستان جیوے پاکستان…یہ ملّی نغمہ جیسے ہر دل کی دھڑکن اور ایک ایسی دُعا بن گیا
جو ہر لب پر جاری ہے کہ پاکستان ہمیشہ قائم و دائم، زندہ و پائندہ رہے۔ 90 کی دہائی
میں جمیل الدین عالی کا یہ نغمہ ملک کی فضاؤں میں گونجا اور دنیا بھر میں ہماری
پہچان بن گیا۔پاکستان میں اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر قوم نے جذبات اور
امنگوں سے بھرپور ایک ترانہ سنا اور یہ بھی بچے بچے کی زبان پر جاری ہو گیا۔س کے
بول تھے: ہم تا بہ ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں، ہم مصطفوی، مصطفوی، مصطفوی ہیں…سندھ
کے لوک فن کار علن فقیر کی آواز میں یہ ملّی نغمہ بہت مشہور ہوا جس کے بول ہیں:
اتنے بڑے جیون ساگر میں، تُو نے پاکستان دیا….اس گیت کے خالق بھی جمیل الدین عالی
ہیں اور جب 1965 میں دشمن نے ہمیں للکارا تو جرات و بہادری اور سرفروشی کی تاریخ
رقم کرنے والے سپاہیوں تک جمیل الدین عالی نے قوم کے جذبات ان الفاظ میں
پہنچائے:اے وطن کی سجیلے جوانو، میرے نغمے تمہارے لیے ہیں…
عالی صاحب بیوروکریٹ تھے جب کہ انہوں
نے سیاسی میدان میں بھی کچھ عرصہ طبع آزمائی کی۔ وہ وزارت تجارت سے بھی وابستہ
رہے۔ سول سروس کا امتحان پاس کیا اور محکمہ ٹیکسیشن کا حصہ بھی رہے۔جمیل الدین عالی
نے درجنوں ملی نغمے لکھے اور ایک سے بڑھ کر ایک لکھے۔ جیسے، جْگ جْگ جیے میرا پیارا
وطن، جیوے جیوے جیوے پاکستان، اے وطن کے سجیلے جوانو، اور سوہنی دھرتی اللہ رکھے
قدم قدم آباد۔۔ تاہم جو ملی نغمہ ان کی پہچان بنا وہ ’جیوے جیوے پاکستان‘ تھا۔جمیل
الدین عالی 'پاکستان رائٹرز گلڈ' کے اعلیٰ عہدوں پر رہنے کے علاوہ انجمن ترقی اردو
سے بھی وابستہ رہے اور ملک میں اردو زبان کی ترقی اور ترویج کے لیے کام کرتے رہے۔
پاکستان کے معروف اخبارات میں کئی دہائیوں تک وہ باقاعدگی سے کالم لکھتے رہے جن کا
مجموعہ ’ دعا کرچلے‘ اور ’صدا کرچلے‘ کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے۔جمیل الدین عالی
جس طرح ملی نغموں میں سب سے برتر رہے وہیں دوہوں میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں
تھا۔ یہ ان کا خاص میدان طبع تھا اور اس کے وہ بے تاج بادشا ہ تھے۔جمیل الدین عالی
نے1977 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے حلقے این اے 191 سے
انتخاب لڑا لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں وہ ایم کیو ایم
کی طرف سے سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے۔انہیں حکومتِ پاکستان نے ان کی ادبی خدمات پر
”ہلال امتیاز“ اور” تمغہ حسن کارکردگی“ سمیت کئی ایوارڈز سے نوازا۔-جمیل الدین عالی
کے لکھے گئے مشہور ملی نغمے آج بھی لوگوں کے دل و دماغ میں سمائے ہوئے ہیں۔بیس
جنوری 1926ء کو دہلی میں پیدا ہونے والے شاعر و ادیب جمیل الدین عالی کا نام کسی
تعریف کا محتاج نہیں،جن کے لکھے گئے خوبصورت ملی نغموں میں شہناز بیگم کی ایواز میں
گایا ہوا جیوے جیوے پاکستان، نصرت فتح علی خان کی ایواز میں "میرا انعام
پاکستان،"،،،نور جہاں کی آواز میں "اے وطن کے سجیلے جوانوں"،مہدی
ظہیر کی آواز میں "ہم مصطفٰوی مصطفٰوی ہیں"،علن فقیر کی آواز میں
"اتنے بڑے جیون ساگر میں تو نے پاکستان دیا"اور نئیرا نور کی آواز میں
"جو نام وہی پہچان پاکستان پاکستان" کو نہ صرف پزیرائی ملی،بلکہ یہ نغمے
آج بھی ہر عمرکے لوگوں کی زبان پر نقش ہیں۔جیوے جیوے پاکستان اور ایسے ہی کتنے ملی
اور قومی نغموں کے خالق ،اردو کے محسن، ادب میں تہذیب کی روایت امین اور شعر سے
عشق کرنے والے جمیل الدین عالی تئیس نومبر کو کراچی میں لگ بھگ نوے سال کی عمر میں
وفات پا گئے اور چوبیس نومبر کو انکی نماز جنازہ کراچی میں ادا کر کے احباب نے
انکو اسی مٹی کے حوالے کر دیا جس کے خمیر سے خالق نے انکو گوندھا تھاعالی جی نے یوں
تو ساری عمر سرکاری نوکری کی لیکن سرکاری رعب اور سرکاری بدعنوانی ان پر غالب نہ آ
سکی، وہ پاکستان کی سینٹ میں سینٹر بھی بنے لیکن سیاسی مکروہ پن سے دور رہےنقاد ، دانشور
، شاعر ، کالم نگار اورادیب کے طور پر انہوں نے اپنی الگ شان اور منفرد مضبوط ادبی
حثیت کو منوایا ،وہ اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے کم عمری میں والد کا انتقال ھوگیا تھا اس لیے
انکی والدہ عالی جی سے بہت پیار کرتی تھیں اور اب باری آگئ اللہ کی بارگاہ میں حاضری عالی جی کی ممتاز شاعر اور نقاد، پروفیسر
سحر انصاری نے کہا ہے کہ جمیل الدین عالی کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی، ان کی
علمی و ادبی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بیگم انیس انور
دہلوی میموریل سوسائٹی اور گل رنگ ادب پاکستان کے اشتراک سے اردو کے ممتاز شاعر،
ادیب، دانشور اور کالم نگار ڈاکٹر جمیل الدین عالی کی یاد میں مذاکرہ اور مشاعرہ
کے موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں کیا جس کے مہمان خصوصی ماہر نفسیات ڈاکٹر مبین
اختر جبکہ مہمان اعزازی معروف شاعر اور سائنس داں ظفر محمد خان ظفر تھے۔ میزبان
تقریب ڈاکٹر حسن وقار گل نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ جدہ میں مقیم پاکستان کے
معروف شاعر، خطاط اور مصور انور انصاری نے بطور خاص شرکت کی۔ ڈاکٹر نزہت عباسی اور
رشید خان رشید نے نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ پروفیسر اظہار حیدری، اوج کمال، فہیم
انجم اور آصف علی نے عالی صاحب کے فن اور شخصیت پر سیر حاصل گفتگو کی۔
محفل مشاعرہ میں صاحب طدر کے علاوہ جن
شعراء نے کلام سنایا ان میں ظفر محمد خان ظفر، انورانصاری، اظہارحیدری، حسن وقار
گل، راشد نور، قیصر وجدی، ڈاکٹر نزہت عباسی، رشید خان رشید، محمد علی گوہر، ڈاکٹر
جاوید، محمد علی سوز، کامران محور، اسامہ امیر اور تاج علی رعنا شامل تھے۔ ڈاکٹر
مبین اختر نے عالی صاحب کی وفات کو ایک قومی سانحہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ عالی جی
دنیائے اردو ادب میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ڈاکٹر اوج کمال نے جمیل الدین عالی کی
شخصیت اور زندگی کے ان گوشوں کا ذکر کیا جو اب تک عام قاری اور نظروں سے اوجھل ہیں۔
ڈاکٹر حسن وقار گل نے کہا کہ عالی جی کے ’’دوہوں‘‘ کو اردو دوہا نگاری میں ایک سنگ
میل تسلیم کیا گیا ہے۔ پروفیسر اظہار حیدری نے کہا کہ عالی صاحب کی حکیمانہ شاعری
کے قدیم اور جدید تصورات ہمیں دور دور تک نظر آتے ہیں۔ نسیم انجم نے کہا کہ عالی
جی نے اپنی نظموں سے اپنے قاری کو تہذیبی زندگی کا ایک ایسا تاب ناک شعور دیا ہے
جو قدم قدم پر رہنمائی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ آخر میں ڈاکٹر نسرین شگفتہ نے کلمات
تشکر ادا کئے۔