بدھ، 1 مارچ، 2023

پاکستان میں طاقت اور جبروت کی علامت سرداری نظام

 

 

پاکستان میں طاقت اور جبروت کی علامت سرداری نظام

’یہ بڑا دن ہے، اس کو سلام کرو۔ اب جناب، یہاں سردار نہیں رہے۔۔۔ تو جناب، اب سرداری چاہتے ہو تو جاؤ ہندوستان، سردار جی کے پاس۔۔۔۔ اور اگر سرداری چاہتے ہو تو جاؤ افغانستان، سردار داؤد کے پاس۔ یہاں تو سرداری ختم ہو گئی۔ کل پورے پاکستان میں چھٹی ہو گی۔‘یہ ذوالفقار علی بھٹو تھے، اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان جو کوئٹہ کے ایوب سٹیڈیم میں عوام کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔یہ الفاظ ابھی انھوں نے ادا کیے ہی ہوں گے کہ ایک دھماکہ ہوا۔ عوامی انداز رکھنے والے رہنما نے دھماکے کی آواز سنی۔ اس سے پہلے کہ ہجوم خوفزدہ ہو کر بکھرنے لگتا، لوگوں نے بھٹو کی جانی پہچانی پر جوش آواز سنی: ’یہ پٹاخہ خیر بخش مری کا ہے۔۔۔ اب دوسرے پٹاخے کا انتظار کرو۔‘ 

یہ الفاظ ابھی ان کی زبان پر ہی تھے کہ ایک اور دھماکہ ہو گیا۔ دوسرے دھماکے کی آواز سنتے ہی انھوں نے کہا: ’یہ خیر بخش مری کا پٹاخہ ہے، اب تیسرے کا انتظار کرو۔‘زرا سی دیر میں تیسرا دھماکہ بھی ہو گیا جسے انھوں نے میر غوث بخش بزنجو سے منسوب کیا۔ممتاز بلوچ دانشور اور مؤرخ ڈاکٹر شاہ محمد مری نے اس واقعے کے بارے میں مجھے بتایا ’نہیں معلوم یہ دھماکے کس نے کرائے، ہو سکتا ہے کہ اسی نے کرائے ہوں جس نے ان کی ذمہ داری دوسروں پر عائد کی لیکن دھماکوں کا یہ واقعہ اور اس کے بارے میں ذوالفقار علی بھٹو کے یہ جملے اس زمانے میں زبان زد عام ہو گئے۔‘

یہ آٹھ اپریل 1976 کی بات ہے جب پاکستان میں سرداری نظام ختم کیا گیا۔

سیاسی مؤرخ احمد سلیم نے اپنی کتاب ’بلوچستان: آزادی سے صوبائی بے اختیاری تک‘ میں وزیر اعظم بھٹو کی اس تقریر کا مکمل متن شائع کیا ہے۔ انھوں نے اس تقریر میں بہت کھل کر بتایا کہ وہ کیوں اس نظام کا خاتمہ چاہتے تھے۔ اس تقریر میں انھوں نے اپنے اس فیصلے کی تین وجوہات بیان کی تھیں۔

1- ششک۔ یہ لفظ بلوچی زبان میں چھٹے حصے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ایک اصطلاح تھی جو بلوچ معاشرے میں صدیوں سے چلی آتی تھی جس کے تحت ہر کاشت کار کے لیے لازم تھا کہ وہ اپنی زرعی پیدا وار کا چھٹا حصہ سردار کو پیش کرے۔ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ 1970 میں اپنے انتخابی منشور میں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) نے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد ششک جو ایک ظالمانہ روایت ہے، اس کا خاتمہ کر دے گی لیکن اس نے یہ نہیں کیا۔

2- ذوالفقار علی بھٹو کے مطابق دوسری وجہ زرعی اصلاحات بنی۔ اس سلسلے میں بلوچستان کے سرداروں نے بھٹو حکومت کے ساتھ تعاون سے انکار کر دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی تقریر میں انکشاف کیا کہ پورے ملک کے زمین داروں نے اس سلسلے میں قوانین کی پاس داری کی اور زرعی اصلاحات کے سلسلے میں تمام شرائط پوری کر دیں لیکن بلوچستان کے سرداروں نے مزاحمت کی۔بھٹو نے اس تقریر میں بتایا کہ مزاحمت کرنے والے سرداروں کی تعداد 22 تھی۔ 

3- سابق وزیر اعظم نے اس کی تیسری وجہ یہ بتائی کہ بلوچستان کے یہ سردار پٹ فیڈر کی زمینوں پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ انھوں اس مقصد کے لیے جعلی دستاویزات پیش کی تھیں۔سابق وزیر اعظم کے خیال میں یہ تین وجوہات تھیں جس کے باعث انھوں نے اس نظام کے خاتمے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ کتنا مؤثر ثابت ہوا اور بلوچستان کی معاشرت پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے۔ یہ کوئی ایسا پیچیدہ سوال نہیں۔ بلوچستان کے امور کو سمجھنے والی شخصیات اور خود بلوچ دانشوروں کی آرا میں اس سلسلے میں زیادہ فرق نہیں لیکن اس معاملے کی تفہیم ممکن نہیں جب تک سرداری نظام کی بنیاد کو نہ سمجھا جائے۔

ڈاکٹر عطا محمد مری نے اپنی کتاب ’بلوچ قوم: قدیم عہد سے عصر حاضر تک‘ میں سرداری نظام کے سیاسی، اقتصادی، سماجی اور نفسیاتی پہلوؤں پر تفصیل سے اظہار خیال کیا ہے۔ اس نظام کے خد و خال اگر چند الفاظ میں بیان کیے جائیں تو ڈاکٹر عطا محمد مری کے الفاظ میں اس کی صورت یہ ہو گی:

’سردار لا شریک ہوتا ہے‘ڈاکٹر مری کے اس جملے سے بلوچستان کے سردار کی طاقت اور جبروت کا اندازہ ہوتا ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ اسے یہ قوت کیسے میسر آتی ہے۔ ڈاکٹر مری کے مطابق خطہ بلوچستان کی ایک فطری اور تاریخی کمزوری نے اس یہ طاقت فراہم کی۔

وہ لکھتے ہیں کہ بلوچستان روائتی طور پر ایک کمزور ’ملک‘ رہا ہے جہاں کوئی مرکزی اتھارٹی کبھی نہیں رہی۔ یہی سبب تھا کہ اس خطے میں چھوٹے چھوٹے معاشرے مل کر ایک کنفیڈریشن کی شکل اختیار کر گئے۔ سرداری نظام کو اس کنفیڈریشن کو وجود میں لانے والی اکائیوں کو تشکیل دینے والے عناصر ترکیبی سے سمجھنا ممکن ہو سکتا ہے۔ ہر انسانی معاشرے کی طرح فطری طور پر بلوچستان میں بھی سماج کی بنیادی اکائی فرد سے ہی تشکیل پاتی ہے جو فطری طور پر کسی خاندان کی نمائندگی کرتا ہے۔

ناگزیر ہے کہ اس خاندان کی قیادت کوئی بزرگ یعنی سفید باریش شخص کرے۔ بلوچ معاشرے میں اسے ’پیرہ مرد‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ مختلف خاندانوں کی نمائندگی کرنے والے پیرہ مردوں کے اجتماع سے ایک اور ادارہ وجود میں آتا ہے جو 'پیریں مرد' کی قیادت میں کام کرتا ہے۔ اس قبائلی معاشرے میں اس پیریں مرد کا مقام سب سے بلند ہے اور یہی سردار ہے۔

اس نظام میں سردار کی حیثیت کیا ہے؟ ڈاکٹر مری لکھتے ہیں ’اس ساری درجہ بندی کی چوٹی پر سردار بیٹھا ہے۔ اس کا ہمسر اور اس کی برابری کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ وہ لاشریک ہوتا ہے اور قبیلے پر اپنا اثر اپنے ماتحتوں یعنی وڈیروں کے ذریعے برقرار رکھتا ہے۔‘

یہ شخص ایک عام بلوچی کے مقابلے میں کتنی اہمیت رکھتا ہے، اس کا اندازہ اس کی جان کی قیمت سے ہوتا ہے۔ انگریزوں کے زمانے میں اگر ایک عام بلوچ کا خون بہا دو ہزار روپے تھا تو اس کے مقابلے میں سردار کا خون بہا آٹھ ہزار روپے تھا۔سردار کو قبیلے میں اپنا اقتدار برقرار رکھنے اور ہر قسم کے انتظامی معاملات کی انجام دہی کے لیے لا محدود اختیارات حاصل تھے۔ سردار کی اپنی ذاتی جیل ہوا کرتی جس میں قیدیوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا جاتا۔ یہاں تک کہ انھیں خوراک بھی نہ دی جاتی۔ لوگ خیرات میں انھیں خوراک دیتے یا بھاری بھرکم لکڑیاں پھاڑنے کے معاوضے کے طور پر انھیں کھانے پینے کو کچھ ملتا۔

سردار کی پولیس سوار کہلاتی جو آریہ عہد کے حکمرانوں کا تسلسل تھی۔ سوار کے ہاتھ میں ایک چھڑی ہوتی جس پر سردار کی مہر ہوتی۔ یہ چھڑی سوار کو نہ صرف ناقابل گرفت بنا دیتی بلکہ اسے احکامات جاری کرنے کا اختیار بھی مل جاتا۔ لیویز اسی سوار کی جدید شکل تھی۔ڈاکٹر مری نے اس سردار کے ذہنی جذباتی اور سیاسی رجحانات پر دلچسپ انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: 'سردار ہی وہ سرچشمہ ہے جہاں سے سیاسی، ثقافتی، اور معاشی اختیارات کے دریا پھوٹتے ہیں، وہ اپنی اتھارٹی کو برقرار رکھنا بھی جانتا ہے اور ایسا کرنے کی قوت بھی رکھتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ کہنے کو تو اس کے قبائل بہت روشن فکر، جمہوری اور ترقی پسند ہوتے ہیں۔

مگر دراصل یہ روایت اور قبائلیت میں بنیاد پرست اور سماجی برتاؤ میں بہت ہی قدامت پسند ہوتے ہیں۔ وہ غیرت کی دھن پر جان لیوا رقص کرتے ہیں اور وطن کے خطرے میں وجد میں آتے ہیں اور اگر برطانوی، امریکی اور پنجابی سامراج کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی صدا دو تو پوری غیور قوم آپے سے باہر ہو کر مکمل مجنوں بن جاتی ہے۔

اس نظام میں قبیلے کی سیاست، معیشت اور معاشرت تو ہوتی ہی سردار کے تابع ہے لیکن علم و ہنر اور زندگی کے بدلتے ہوئے تقاضے بھی سردار کی چشم ابرو کے منتظر رہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ ڈاکٹر مری کے الفاظ میں:’غربت قسمت کا لکھا بن جاتی ہے، علم بے غیرتی ہو جاتا ہے اور انصاف سردار کی خشم آلود نگاہوں کی باندی بن جاتا ہے۔‘اے لٹریری ہسٹری‘ میں محمد سردار خان بلوچ نے لکھا ہے کہ اس معاشرے میں علم و ہنر اور لڑیچر کچھ موسمی اور طبی ٹوٹکوں سے بڑھ کر نہیں ہوتا اور تلوار، ڈھال، تیر کمان کے مقابلے میں فلسفہ، سائنس اور سیاسی نظریات کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوتی۔

ایک پاکستانی کی حیثیت سے میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ آج کے روشن زمانے میں کیا کوئ بلوچستان کو پسماندگی دور کرنے کے لئے کوئ قدم اٹھا سکتا ہے

 

 

منگل، 28 فروری، 2023

ا و ر پھرکشتی ڈوب گئ

 

اٹلی کے قریب کشتی حادثے میں کم از کم 100 افراد کی ہلاکت کا خدشہ ’دو درجن سے زیادہ پاکستانیوں کے ڈوبنے کی خبریں انتہائی تشویشناک ہیں‘اٹلی کے جنوبی

 علاقے میں تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کے واقعے میں بچوں سمیت 100 افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

کشتی ڈوبنے کے واقعے میں 12 بچوں سمیت 62 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے جن میں پاکستانی شہری بھی شامل ہیں۔کئی دن قبل ترکی سے روانہ ہونے

 والی کشتی میں 200 کے قریب افراد سوار تھے۔ اتوار کے روز یہ کشتی اس وقت تباہ ہو گئی جب اس نے اٹلی کے جنوبی علاقے کروٹون میں لنگر انداز ہونے کی

 کوشش کی۔کشتی ڈوبنے کے واقعے میں پاکستانی شہریوں کی ہلاکت کی بھی اطلاعات ہیں۔ سرکاری زرائع کے مطابق ہلاک ہونے والے کم ازکم چار پاکستانیوں کی

 شناخت کی جا چکی ہے جن کا تعلق پنجاب کے علاقے گجرات اور راولپنڈی سے بتایا جارہا ہے۔یہ کشتی کئی دن قبل ترکی سے روانہ ہوئی تھی اور اس میں افغانستان،

 پاکستان، صومالیہ اور ایران کے باشندے سوار تھے۔ کوسٹ گارڈ کا کہنا ہے کہ 80 افراد زندہ پائے گئے ہیں جس کا مطلب ہے کہ اب بھی کچھ افراد لاپتہ ہیں۔

 زندہ بچ جانے افراد میں کچھ ایسے بھی جو گشتی ڈوبنے کے بعد خود ساحل تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔

جبکہ اٹلی میں پاکستان کے سفیر علی جاوید نے کہا ہے کہ کشتی حادثے میں کتنے پاکستانی جاں بحق ہوئے، ابھی تصدیق نہیں کر سکتے۔ جیو نیوز سے گفتگو میں علی جاوید

 کا کہنا تھاکہ کلابریا کے ساحل پرکشتی ڈوبنے کے واقعے میں 16 پاکستانیوں کو ریسکیوکیاگیا اور انہوں نے بتایا کشتی پر 20 پاکستانی سوار تھے۔ ان کا کہنا تھاکہ ڈوبنے

 والی کشتی پر سوار مزید 4 پاکستانی تاحال لاپتہ ہیں، کشتی حادثے میں کتنے پاکستانی جاں بحق ہوئے، ابھی تصدیق نہیں کر سکتے۔ پاکستانی سفیر نے کہا ہے کہ پاکستان

 کے نائب سفیر فرحان احمد نے متعلقہ جگہ کا دورہ کیا ہے۔ ڈوبنے والی کشتی پر مبینہ طور پر 40 پاکستانی سوار تھے، 12 لاپتہ ہیں: پاکستانی سفارتخانے کا بیان ان کا کہنا

 تھاکہ ڈوبنے والی کشتی پر سوارپاکستانیوں سے متعلق سوشل میڈیا پر غیرمصدقہ معلومات زیرگردش ہیں لہٰذا پاکستانی عوام اطالوی ساحل پرکشتی حادثے میں

 غیرمصدقہ معلومات پرکان نہ دھریں۔ خیال رہے کہ گزشتہ روز ترکیہ سے اٹلی جانے والے غیرقانونی مہاجرین کی کشتی سمندر میں چٹان سے ٹکرا کر ڈوب گئی

 جس کے نتیجے میں پاکستانیوں سمیت 59 افراد ہلاک ہوئے اور کئی لاپتہ ہیں۔

سفارتخانے نے ابتدائی طور پر 28 پاکستانیوں کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی اور 12

 لاپتہ قرار دیے تھے۔ مزید خبریں :./ فوٹو اے ایف پی اٹلی میں کشتی ڈوبنے کے واقعہ پر روم میں پاکستان کے سفارت خانے نے ورثا کیلئے ہیلپ لائن قائم کر دی۔

 پاکستانی سفارتخانے کے مطابق ورثا معلومات کے لیے واٹس ایپ نمبر 393898716588+ پر رابطہ کر سکتے ہیں۔ کشتی میں 120 سے زائد افراد سوار تھے

 جن میں سے 81 کو بچا لیا گیا، باقی کی تلاش کا کام جاری ہے: اٹلی حکام پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ اٹلی میں کلابریا کے ساحل پر ڈوبنے والی کشتی

 پر مبینہ طور پر 40 پاکستانی سوار تھے جن میں 28 کی لاشیں مل چکیں اور 12 لاپتا ہیں۔ پاکستانی سفارتخانے کے مطابق اطالوی حکام اور میری ٹائم ایجسنیوں

 سمیت کلابریا میں پاکستانی کمیونٹی اور رضا کاروں سے بھی رابطے میں ہیں۔ مزید خبریں :.فوٹو: ای پی اے روم: اٹلی میں تارکین وطن کی کشتی کو حادثے میں 28

 پاکستانیوں سمیت 58 تارکین جاں بحق ہوگئے۔

 غیر ملکی میڈیا کے مطابق اٹلی کے صوبے کروٹون میں جنوبی ساحل کے قریب ناہموار سمندر میں 140 سے زائد

 تارکین وطن کو لیجانے والی کشتی چٹانوں سے ٹکراکر تباہ ہوگئی جس کے نتیجے میں بچوں سمیت کم از کم 58 افراد ہلاک ہوگئے۔ لکڑی کی یہ کشتی کئی روز قبل ترکی

 سے روانہ ہوئی تھی جس میں افغانستان اور دیگر کئی ممالک کے لوگ سوار تھے، مقامی حکام کے مطابق مرنے والوں کی تعداد 58 ہے جبکہ 81 افراد کو زندہ بچالیا

 گیا ہے جن میں سے 20 کو ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کشتی میں پاکستان، افغانستان اور ایران کے تارکین وطن سوار تھے، مرنے والوں

 میں ایک شیرخوار بچی اور متعدد بچے شامل ہیں۔ پاکستانیوں کا تعلق گجرات ،کھاریاں، منڈی بہائوالدین سے بتایاجارہا ہے۔ پاکستان میں والدین اپنے بیٹوں کی

 لاشوں کے منتظر ہیں۔ ترجمان دفتر خارجہ پاکستان کا کہنا ہے کہ ہم اٹلی کے ساحل پر ڈوبنے والے بحری جہاز میں پاکستانیوں کی ممکنہ موجودگی سے متعلق رپورٹس

 پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں، روم میں پاکستان کا سفارتخانہ اطالوی حکام سے حقائق جاننے کے لئے رابطے میں ہے۔ واضح رہے کہ سمندری راستے سے یورپ میں

 داخل ہونے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن کے لیے اٹلی ایک اہم لینڈنگ پوائنٹ ہے جہاں وسطی بحیرہ روم کے راستے کو دنیا کے خطرناک ترین راستوں

 میں شمار کیا جاتا ہے۔ تارکین وطن کی بین الاقوامی تنظیم مسنگ مائگرینٹ پروجیکٹ کے مطابق 2014 سے ابتک وسطی بحیرہ روم میں کم از کم 20 ہزار 333

 افراد جاں بحق اور لاپتہ ہوچکے ہیں۔

 ترکی سے اٹلی جانے والے غیرقانونی مہاجرین کی کشتی سمندر میں چٹان سے ٹکرا کر ڈوب گئی جس کے

 نتیجے میں پاکستانیوں سمیت 58 افراد ہلاک ہوگئے۔ برطانوی میڈیا کے مطابق غیرقانونی مہاجرین کی کشتی ترک شہر ازمیر سے اٹلی جاتے ہوئے گہرے سمندر

 میں حادثے کا شکار ہوئی۔ رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ غیرقانونی مہاجرین کی کشتی سمندر میں چٹان سے ٹکرا کر تباہ ہوئی اور اس کا ملبہ آج اٹلی کے ساحل پر پہنچا۔

 اٹلی کے حکام کے مطابق کشتی ڈوبنے کے واقعے میں 58 افراد ہلاک ہوئے جن میں ایک بچہ بھی شامل ہے جبکہ ہلاک غیرقانونی مہاجرین کا تعلق پاکستان،

 افغانستان اور صومالیہ سے ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ کئی افراد کی لاشیں تیرتے ہوئے ساحل پر پہنچیں، کشتی میں 120 سے زائد افراد سوار تھے جن میں سے 81 کو

 بچا لیا گیا ہے اور باقی کی تلاش کیلئے سمندر میں آپریشن جاری ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ 22 افراد اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ دوسری جانب سوشل میڈیا پر حادثے کا

 شکار ہونے والی کشتی میں سوار مبینہ پاکستانیوں کی تصاویر اور دیگر دستاویزات زیر گردش ہیں تاہم اس کی مصدقہ ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے

واضح رہے کہ غربت یا دیگر وجوہات کی وجہ سے سالانہ ایک بڑی تعداد میں لوگ افریقہ کی جانب سے اٹلی میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔پاکستان کے

 دفتر خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہم اٹلی کے ساحل پر کشتی ڈوبنے کے واقعے میں پاکستانی شہریوں کی ممکنہ موجودگی کی خبروں سے واقف ہیں اور اس کا جائزہ

 لے رہے ہیں۔دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ روم میں پاکستانی سفارت خانہ اطالوی حکام سے واقعے کے حقائق جاننے کے عمل میں مصروف ہے۔دوسری جانب

 پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں لکھا ہے کہ 

’اٹلی میں کشتی کے حادثے میں دو درجن سے زیادہ پاکستانیوں کے ڈوبنے کی خبریں

 انتہائی تشویشناک ہیں۔ میں نے دفتر خارجہ کو ہدایت کی ہے کہ جلد ازجلد حقائق کا پتا لگایا جائے اور قوم کو اعتماد میں لیا جائے۔‘کشتی کے حادثے میں ڈوبنےوالوں

 کو بچانے کے لیے جب امدادی کارروائیاں جاری ہیں اس وقت اسولا ڈی کاپو ریزوٹو قصبے کے ایک عارضی استقبالیہ مرکز میں کمبلوں میں لپٹے ہوئے افراد رو رہے

 تھے۔خیراتی ادارے میڈیسنز سانز فرنٹیئرز (ایم ایس ایف) سے تعلق رکھنے والے سرجیو ڈی داٹو کا کہنا ہے کہ 'وہ شدید صدمے کا شکار ہیں۔ ''کچھ بچوں نے اپنے

 پورے خاندان کو کھو دیا ہے۔ ہم انہیں ہر ممکن مدد کی پیش کش کر رہے ہیں۔ "افغانستان سے تعلق رکھنے والے ایک 16 سالہ لڑکا ساحل پر اپنی 28 سالہ بہن کی

 لاش کے قریب بیٹھا ہوا ہے اور اس میں اپنے والدین کو بتانے کی طاقت نہیں ہے کہ وہ اپنے والدین کو بتائے کہ ان کی بیٹی مر چکی ہے۔

افغانستان سے تعلق رکھنے والا ایک 43 سالہ شخص اپنے 14 سالہ بیٹے کے ساتھ زندہ بچ گیا، لیکن اس کی بیوی اور اس کے تین دیگر بچے، جن کی عمریں 13، 9 اور

 5 سال تھیں، وہ زندہ نہیں رہے۔امدادی کارروائیوں میں مصروف ایک غیر سرکاری تنظیم ایس او ایس میڈیٹیرینی کے ترجمان فرانسسکو کریزو نے کہا''یہ ایک

 اور المیہ ہے جو ہمارے ساحلوں کے قریب ہو رہا ہے۔ وسطی بحیرہ روم کہ یہ ہم سب کو یاد دلاتا ہے کہ بحیرہ روم ایک بہت بڑی اجتماعی قبر ہے، جس میں ہزاروں

 جانیں ہیں، اور یہ مسلسل وسیع ہوتی جا رہی ہے۔

’ایسا سانحہ کبھی نہیں ہوا‘

بتایا گیا ہے کہ یہ کشتی اس وقت ڈوب گئی تھی جب خراب موسم میں یہ سمندر میں موجود پتھروں سے ٹکرائی جس کے بعد بڑے پیمانے پر ریسکیو آپریشن شروع

 کیا گیا۔ویڈیو فوٹیج میں کشتی کا ملبہ ساحل پر دیکھا جا سکتا ہے-زندہ بچ جانے والوں کو کمبل لپیٹے دیکھا گیا جن کی مدد ریڈ کراس کے اہلکار کر رہے تھے۔ ان میں سے

 چند کو ہسپتال لے جایا گیا ہے۔قصبے کے میئر انتونیو کیراسو نے رائے نیوز کو بتایا کہ ’اس سے پہلے بھی ساحل ہر لوگ اترتے ہیں لیکن ایسا سانحہ کبھی نہیں

 ہوا۔‘کسٹم پولیس نے کہا ہے کہ اس واقعے میں زندہ بچ جانے والے ایک فرد کو انسانی سمگلنگ کے الزامات کے تحت حراست میں لے لیا گیا ہے۔اطالوی وزیر

 اعظم جیورجیا میلونی، جو گذشتہ سال تارکین وطن کی آمد کے سلسلے کو روکنے کے وعدے کے ساتھ منتخب ہوئی تھیں  

ڈوبنے والے 90 افراد میں سے 32 پاکستانی ہیں جن میں سے 12 کی نعشیں مل گئی ہیں جبکہ بقیہ کی شناخت اور لاشیں نکالنے کا عمل جاری ہے

لیبیا کے ساحل کے قریب سپین جانے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن کی کشتی کے حالیہ حادثے میں جو 90 افراد جان سے گئے ان میں سے 32 کا تعلق

 پاکستان سے تھا۔پاکستانی وزارتِ خارجہ کے مطابق ان میں سے 18 کی شناخت ہو چکی ہے جبکہ صرف 12 کی ہی لاشیں مل پائی ہیں اور باقی افراد اب بھی لاپتہ

 ہیں۔وزارت خارجہ کی جاری کردہ فہرست کے مطابق ڈوبنے والے افراد میں سے چار کا تعلق گجرات کے ایک ہی خاندان سے ہے۔


بی بی سی نے ان کے اہل خانہ سے رابطہ کیا تو ان کے کزن بشیر چوہدری نے بتایا کہ کشتی میں دو بھائی، 35 سالہ رحمت خان اور 32 سالہ اسماعیل خان اپنی بیوی اور

 دو بچوں سمیت سوار تھے۔ان پانچ میں سے صرف رحمت خان ہی زندہ بچے ہیں۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرت نے لیبیا کے ساحل کے قریب تارکین

 وطن کی ایک کشتی کے حادثے میں 90 افراد کے ڈوبنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔

اس حادثے میں زندہ بچ جانے والے تین افراد کا کہنا ہے کہ ڈوبنے والے زیادہ تر افراد پاکستانی تھےملنے والی دس لاشوں میں سے آٹھ پاکستانی شامل ہیں   کئ برسوں

 سے تارکین وطن لیبیا کو سمندر کے راستے یورپ پہنچنے کے لیے اہم گزرگاہ کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔واں برس جنوری میں وہاں 240 پاکستانی پہنچے

 جس کے بعد پاکستان تیسرے نمبر پر پہنچ گیا اگر موازنہ کیا جائے تو سمندر کے راستے جنوری 2017 میں فقط نو پاکستانی سمندر کے راستے اٹلی پہنچے تھے جبکہ اقوام

 متحدہ کے مطابق ساحل پر پاکستانی صوبہ پنجاب کے شہر حافظ آباد کا شمار ان علاقوں میں ہوتا ہے جہاں سے ہر سال سینکڑوں کی تعداد میں نوجوان اپنے بہتر مستقبل

 کی خواہش میں یورپ پہنچنے کا غیر قانونی راستہ اپناتے ہیں۔ اسی طرح اکیس سالہ علی ورک نے بھی پاکستان سے ایران، ترکی اور یونان تک غیر قانونی طریقے سے

 سفر کیا تھا۔ملنے والی دس لاشوں میں سے آٹھ پاکستانی شامل ہیں۔

پیر، 27 فروری، 2023

پاکستان کی عظیم الشّان بحریہ فوج

 

 

پاکستان کی عظیم الشّان  بحریہ فوج-- بحریہ (Pakistan Navy) پاکستان کی بحری حدود اور سمندری اور ساحلی مفادات کی محافظ ہے۔ یہ پاکستان کی دفاعی افواج کا حصہ ہے۔ پاک بحریہ (اردو: پاکستان بحریہ۔ Pɑkistan Bahri'a)  پاکستان کی دفاعی افواج کے بحری جنگ وجدل کی شاخ ہے۔ یہ پاکستان کی 1,046 کلومیٹر (650 میل) لمبی ساحلی پٹی کے ساتھ ساتھ بحیرہ عرب اور اہم شہری بندرگاہوں اور فوجی اڈوں کے دفاع کی ذمہ دار ہے۔ پاک بحریہ 1947ء میں پاکستان کی آزادی کے بعد وجود میں آئی اور ایڈمرل کلیم شوکت موجودہ سربراہ ہيں۔ بحری دن 8 ستمبر 1965ء کو پاک بھارت جنگ کی یاد میں منایا جاتا ہے--بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے حصول پاکستان کے بعد اپنی مختصر زندگی میں پاکستان کے ہر شعبے اور ادارے کی خبر گیری کی، ملک کے دفاع کو مضبوط بنانے کے لئے افواج پاکستان سے مشترکہ اور الگ الگ خطاب کیا۔ بانی پاکستان سمندری حدود کی حفاظت اور بحری فوج کی اہمیت کا پورا ادراک رکھتے تھے اس لیے انہوں نے 23 جنوری 1948 کو نو تشکیل کردہ پاک بحریہ کے افسران سے خطاب کرتے ہوئے کہا ”آپ کو کسی بیرونی مدد کی توقع کیے بغیر اپنے بل بوتے پر تمام مشکلات اور خطرات کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ اگر ہم اپنا دفاع مضبوط بنانے میں ناکام ہوئے تو یہ دوسرے ممالک کو جارحیت کی دعوت دینے کے مترادف ہو گا۔ امن قائم رکھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جو ہمیں کمزور سمجھتے ہیں اور اس بنا پر جارحیت کا ارادہ رکھتے ہیں ان کے ذہنوں سے یہ خیال نکال دیا جائ۔ پاک بحریہ پاکستان کی حکومت کی پالیسیوں کی حمایت ميں ملکی اور غیر ملکی خدمات سر انجام دے رہی ہے۔ پاکستان کے دفاع کے لیے پاک بحریہ کا موجودہ اور بنیادی کردار ہے۔ اکیسویں صدی میں پاک بحریہ نے محدود بیرون ملک آپريشنز کیے اور پاکستان انترکٹک پروگرام کے قیام میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے ۔ پاک بحریہ جدت و توسیع کے مراحل سے گزر رہی ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی اس کا اہم کردار رہا ہے۔ 2001ء سے پاک بحریہ نے اپنی آپریشنل گنجائش کو بڑھایا اور عالمی دہشت گردی، منشیات سمگلنگ اور قزاقی کے خطرے کا مقابلہ کرنے کی قومی اور بین الاقوامی ذمہ داری میں تيزی لائی۔ 2004 میں پاکستان نیٹو مشترکہ ٹاسک فورس CTF-150 کا رکن بن گیا۔ پاکستان کے آئین کے تحت صدر پاکستان پاکستانی مسلح افواج کا کمانڈر ان چیف ہوتا ہے۔ چیف آف نيول اسٹاف (CNS) جوکے چار ستارے والا ایڈمرل ہوتا ہے پاک بحریہ کا سربراہ ہوتا ہے جس کو وزیر اعظم پاکستان صدر پاکستان سے مشاورت کے بعد مقرر کرتا ہے۔ چیف آف نيول اسٹاف سویلین وزیر دفاع اور سیکرٹری دفاع کے ماتحت ہوتا ہے۔

پاک بحریہ نے اپنے قائد کے الفاظ کی لاج رکھتے ہوئے پاکستان کے ایک ہزار کلومیٹر سے زائد ساحل کی حفاظت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ پاک بحریہ نے جنگ اور امن میں ہر موقع پر شاندار کامیابیوں سے قوم کا سر فخر سے بلند کیا ہے۔ 1965 ء کی جنگ میں کیا جانے والا ’آپریشن دوارکا‘ پاکستان کی تاریخ کا ایک انمٹ باب اور پاک بحریہ کی پیشہ ورانہ کارکردگی کا ناقابل فراموش کارنامہ ہے۔ 1965 ء کی جنگ میں جب دشمن کراچی پر حملے کا منصوبہ بنا رہا تھا تو پاک بحریہ کے چاق و چوبند جوانوں نے دشمن کو کوئی حرکت کرنے کا موقع دیے بغیر اس کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا۔پاک بحریہ نے میری ٹائم سیکیورٹی چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لئے ’سٹیٹ آف دی آرٹ جوائنٹ میری ٹائم انفارمیشن کوآرڈینیشن سینٹر‘ کے قیام کو عملی جامہ پہنایا۔ پاک بحریہ نے میری ٹائم سکیورٹی ایجنسی، پاکستان کسٹمز اور اینٹی نارکوٹکس فورس کے ساتھ کی جانے والی مشترکہ کارروائیوں میں منشیات اور دیگر غیر قانونی کاروبار کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اربوں روپے کی منشیات تحویل میں لی ہیں۔

بلیو اکانومی کسی بھی ملک کی معیشت کے لئے بہت اہم ہوتی ہے۔ بلیو اکانومی کا مطلب سمندر کے ذریعے تجارت اور سمندری وسائل سے فائدہ اٹھانا ہے۔ اس وقت دنیا بھر کی 80 فیصد تجارت سمندری راستے کے ذریعے ہوتی ہے جس کا سالانہ حجم 1.5 ٹریلین امریکی ڈالر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو سمندر جیسی نعمت سے نوازا ہے جو پاکستان کی معیشت کے لئے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان اب بلیو اکانومی پہ بہت زیادہ توجہ دے رہا ہے، بلیو اکانومی سے جڑے کئی منصوبے شروع کیے جا رہے ہیں۔ اس ضمن میں پاک بحریہ ہر حوالے سے حکومت پاکستان کے ساتھ تعاون کر رہی ہے۔

پاکستان کے دوست ملک چین کی جانب سے شروع کردہ ”ون بیلٹ ون روڈ“ منصوبے کے سب سے اہم حصے ’سی پیک‘ کے تناظر میں پاک بحریہ کی ذمہ داریاں مزید بڑھ گئی ہیں۔ سی پیک پورے خطے کے لئے گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے اور پاکستانی معیشت کی خوشحالی اور ترقی سی پیک سے جڑی ہوئی ہے۔ گوادر پورٹ سی پیک کے لئے مرکز کی حیثیت رکھتی ہے۔ سی پیک اور گوادر پورٹ سے پوری طرح استفادہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ گوادر پورٹ کے ساتھ ساتھ پاکستان کے سمندری پانیوں میں تجارت کی غرض سے آنے والے جہازوں کی مکمل حفاظت یقینی بنائی جائے اور ان کو ہر طرح کے منظم اور غیر منظم خطرات سے محفوظ رکھا جائے۔ اس مقصد کے لیے پاک بحریہ نے سپیشل ٹاسک فورس 88 قائم کی ہے۔ جو سی پیک کے سمندری راستے کی حفاظت کرے گی۔ پاک بحریہ کی طرف سے سی پیک کی حفاظت کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات پر پاکستان میں تعینات چینی سفیر نونگ رونگ نے بھرپور اطمینان کا اظہار کیا ہے۔

پاکستانی سمندری حدود اور سمندری راستوں کو محفوظ بنانے کی ذمہ داری بطریق احسن نبھانے کے ساتھ ساتھ پاک بحریہ ساحل سمندر کی حفاظت، ایکو سسٹم کی بحالی، سمندری آلودگی کے خاتمے، انسانی ہمدردی اور ساحلی علاقوں میں صحت و تعلیم کے فروغ کے لئے بھی قابل تحسین اقدامات کر رہی ہے۔ ساحل سمندر کو کٹاؤ سے بچانے، سمندری طوفان کی شدت کم کرنے اور سمندری حیات کا تحفظ ممکن بنانے کے لئے پاک بحریہ نے 2016 ء میں مینگروز کی شجر کاری مہم شروع کی۔مینگروز کے درخت نمکین پانی میں زندہ رہنے اور نشوونما پانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ 2016 ء میں شروع کی گئی مینگروز شجر کاری مہم کو چھٹے سال بھی جاری رکھا گیا اور پاک بحریہ کی جانب سے اس سال 30 لاکھ نئے درخت لگانے کا عزم کیا گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے کل رقبے کے 6 فیصد حصے پہ جنگلات موجود ہیں جن میں 3 فیصد رقبہ مینگروز کے جنگلات پہ مشتمل ہے۔ فی الوقت پاکستان میں موجود مینگروز کا جنگل دنیا کے دس بڑے مینگروز کے جنگلات میں شامل ہے جو سندھ اور بلوچستان میں ساحل کے ساتھ 6 لاکھ ہیکٹر رقبے پہ مشتمل ہے۔

پاک بحریہ کی جانب سے عالمی یوم ماحولیات کے موقع پر پلاسٹک سے پیدا ہونے والی آلودگی کی روک تھام اور پلاسٹک کا پائیدار نعم البدل تلاش کرنے کے حوالے سے موثر اقدامات کی ضرورت پہ زور دیا گیا۔ پلاسٹک سے پیدا ہونے والی آلودگی سمندری حیات کے ساتھ ساتھ انسانی صحت کے لئے بھی کئی خطرات پیدا کر رہی ہے۔ پاک بحریہ میں یوم ماحولیات ہر سال باقاعدگی سے منایا جاتا ہے جس کا مقصد عوام الناس اور متعلقہ اداروں کے درمیان سمندری ماحول سے متعلق آگاہی کو فروغ دینا ہے۔

پاکستان کی واحد آبدوز غازی نے دشمن بحریہ کی کمر توڑ دی اور ثابت کر دیا کہ پاک بحریہ اپنے پاک وطن کی حفاظت کے لئے پوری طرح تیار ہے۔ روایتی مشکلات اور خطرات کے علاوہ نئے دور میں پیدا ہونے والے خطرات سے نبرد آزما ہونے کے لیے پاک بحریہ ہمہ وقت مشقوں میں بھی مصروف رہتی ہے۔ دیگر ممالک کی بحری افواج کے ساتھ مشترکہ مشقوں کے ذریعے پاک بحریہ کی استعداد کار بڑھانے اور دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے میں مدد ملتی ہے

"آج پاکستان کے لیے ایک تاریخی دن ہے خاص کر ان لوگوں کے لیے جو بحریہ میں ہيں۔ مملکتِ پاکستان اور اس کے ساتھ ہی ایک نئی بحریہ، شاہی پاک بحریہ وجود میں آگئی ہے۔ مجھے فخر ہے کے مجھے اس کا سربراہ اور آپ کے ساتھ مل کر اس کی خدمت کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ یہ میرا اور آپ کا فرض ہے کے آنے والے مہینوں میں اس بحریہ کو ہم ايک مستعد اور خوش باش بحریہ بنائيں" —بانی پاکستان محمد علی جناح کا مارچ 1948ءمیں پاکستان نيول اکیڈمی منوڑہ ميں خطابپاک بحریہ 15 اگست 1947ءکو پاکستان کی ریاست کے قیام کے ساتھ وجود میں آئی تھی۔ مسلح افواج کی ریکونسٹوشن کمیٹی نے شاہی ہندوستانی بحریہ کو پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم کیا۔ شاہی پاک بحریہ کو دو سلوپ، دو فریگٹیس، چار مانیسویپر، دو بحری ٹرالرز، چار بندرگاہ لانچیز اور 358 اہلکار (180 افسران اور 34ريٹنگ) ملے۔ پاکستان کے ساحل پر ڈیلٹا کے علاقے زيادہ ہونے کی وجہ سے، پاکستان کو بندرگاہ ڈیفنس موٹر لانچیز کی ایک بڑی تعداد بھی ملی۔ 1956ء میں پاکستان کو ایک جمہوریہ قرار دیا گیا اور دولت مشترکہ کے حصے کے طور پر "شاہی" کا لاحقہ ختم کرديا گیا۔ بحریہ کو ایک مشکل تاریخ سے گزرنا پڑا،بحریہ کو صرف 200 افسران اور 3000 سيلر ملے جن ميں کموڈور ايچ ايم ايس چوہدری سینئر ترین افسر تھے۔ بحریہ کو ناکافی عملے، آپریشنل اڈوں کی کمی اور ٹیکنالوجی اور وسائل کی کمی کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ ويسے بھی تکنیکی عملے، ساز و سامان اور افسران کے لحاظ سے فوج اور فضائیہ کے مقابلے ميں سب سے چھوٹی شاخ تھی۔ ان تمام مشکلات کے باوجود بحریہ نے درپیش چیلنجوں کا سامنا کیا اور نوزائيدہ پاکستان میں ایک ہائی پروفائل بھرتی پروگرام کا آغاز کیا۔

1951 ميں فريگيٹ شمشير

پاک بحریہ نے 1947 کی پاک بھارت جنگ میں حصہ نہيں ليا کيونکہ تمام لڑائی زمین تک محدودتھی۔ تاہم ریئر ایڈمرل جيمز وِلفریڈ جیفورد، چیف آف دی نيول سٹاف نے ایک" ہنگامی منصوبہ"(فریگٹیس اور بحری دفاع کو کام کرنے کے لیے مرحلہ)" بناليا تھا۔ 1948ء میں بحریہ میں بحری جاسوسی کے معملات کے یے ڈائریکٹوریٹ جنرل نيول انٹیل جنس (DGNI) کا محکمہ قائم کیا گیا تھا اور کمانڈر سید محمد احسن نے اس کے پہلے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر خدمات سر انجام دیں۔ 1947 ء کی جنگ کے خاتمے کے بعد بحریہ نے اپنے اڈوں کی توسیع کا کام شروع کر دیا اور کراچی ميں نيول ہيڈکوارٹرز کا قيام عمل ميں لايا گيا۔ 1949 میں اپنا پہلا او کلاس تباہ کن ( ڈيسٹرائر) بحری جہاز شاہی بحریہ سے خریدا ۔ پاک بحریہ کی آپریشنل تاریخ کا آغاز 1949 کو شاہی بحریہ کے دو عطیہ کردہ تباہ کن ( ڈيسٹرائر) بحری جہازوں پی اين ايس ٹیپو سلطان اور پی اين ايس طارق کے ساتھ ہوا۔ پی اين ايس طارق کی کمان لیفٹیننٹ کمانڈر افضل رحمان خان کو دی گئی جبکے پی اين ايس ٹیپو سلطان 30 ستمبر 1949 کو کمانڈر پی ايس ایونز کی کمان میں پاک بحریہ میں کميشن ہوا۔ ان دو جہازوں سے 25ويں تباہ کن( ڈيسٹرائر) سکواڈرن کی تشکیل دی گئی۔ 1950ء میں بحریہ ميں قوميتی پروگرام کو فروخ ديا گيا، جس میں مقامی افسران کی بڑی تعداد ميں ترقی دی گئی۔ ڈاکيارڈ، لاجسٹکس اور انجینرنگ کے اڈوں کی تشکیل ہوئی، توانا کوششوں سے مشرقی پاکستان میں بحری موجودگی کو فروخ ديا گيا تاکے مشرقی پاکستان سے لوگوں کی بھرتی کے لیے مواقع پیدا ہوں۔ اس مدت کے دوران شاہی بحریہ کے افسران کی جگہ مقامی افسران کو خاص اور کلیدی عہدوں پے لگايا گيا۔ ریئر ایڈمرل جيمز وِلفریڈ جیفورد بحریہ کے پہلے سربراہ کے طور پر جبکہ کمانڈر خالد جمیل نے بحریہ کے پہلے پاکستانی نائب سربراہ کے طور پر خدمات انجام دیں۔ 1950 کی دہائی میں، وزارت خزانہ نے پاک فوج کی کور آف انجینئرز کو کراچی میں بحری ڈاکيارڈ اور نيول ہيڈکوارٹرز کی تعمیر کی زمہ داری سونپی۔ اس وقت کے دوران شاہی بحریہ کی سرپرستی میں بحریہ کے بحری جہازوں نے خیر سگالی مشنوں کی ایک بڑی تعداد ميں شرکت کی۔ پاک بحریہ کے بحری جہازوں نے دنیا بھر کا دورہ کیا۔ 1950 میں کموڈور چوہدری نے پی اين ايس مہران کی کمان سنبھالی۔ 1953ء میں وہ بحریہ کے پہلے پاکستانی سربراہ بن گئے۔ 25ويں تباہ کن( ڈيسٹرائر) سکواڈرن کی کمان کيپٹن رومولڈ نالیکز کی ٹیمانسک نے سنبھالی۔

2008 کی رپورٹ کے مطابق پاک بحریہ کے فعال ڈیوٹی ملازمین کی تعداد تقریبا 25000 ہے۔ اضافی 1200 مرینز اور اڑھائی ہزار سے زیادہ کوسٹ گارڈ اور 2000 فعال ڈیوٹی نیوی اہلکار ميری ٹائم سیکورٹی ایجنسی میں ہيں۔ اس کے علاوہ 5000 ريزرو موجود ہيں۔ کل تقريبا 35,700 اہلکارو ہوئے۔2012 میں بحریہ نے بلوچستان کے بلوچ یونیورسٹی کے طلبہ کی ایک بڑی تعداد بحریہ انجینئری کالج تربیت مکمل کرنے کے لیے بھیجا۔ بحریہ نے اہلکاروں کی تربیت کے لیے تین اضافی سہولیات بلوچستان میں قائم کيں۔ مملکتِ پاکستان اور اس کے ساتھ ہی ایک نئی بحریہ، شاہی پاک بحریہ وجود میں آگئی ہے۔ مجھے فخر ہے کے مجھے اس کا سربراہ اور آپ کے ساتھ مل کر اس کی خدمت کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ یہ میرا اور آپ کا فرض ہے کے آنے والے مہینوں میں اس بحریہ کو ہم ايک مستعد اور خوش باش بحریہ بنائيں" —بانی پاکستان محمد علی جناح کا مارچ 1948ءمیں پاکستان نيول اکیڈمی منوڑہ ميں

پاک بحریہ 15 اگست 1947ءکو پاکستان کی ریاست کے قیام کے ساتھ وجود میں آئی تھی۔ مسلح افواج کی ریکونسٹوشن کمیٹی نے شاہی ہندوستانی بحریہ کو پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم کیا۔ شاہی پاک بحریہ کو دو سلوپ، دو فریگٹیس، چار مانیسویپر، دو بحری ٹرالرز، چار بندرگاہ لانچیز اور 358 اہلکار (180 افسران اور 34ريٹنگ) ملے۔ پاکستان کے ساحل پر ڈیلٹا کے علاقے زيادہ ہونے کی وجہ سے، پاکستان کو بندرگاہ ڈیفنس موٹر لانچیز کی ایک بڑی تعداد بھی ملی۔ 1956ء میں پاکستان کو ایک جمہوریہ قرار دیا گیا اور دولت مشترکہ کے حصے کے طور پر "شاہی" کا لاحقہ ختم کرديا گیا۔ بحریہ کو ایک مشکل تاریخ سے گزرنا پڑا،بحریہ کو صرف 200 افسران اور 3000 سيلر ملے جن ميں کموڈور ايچ ايم ايس چوہدری سینئر ترین افسر تھے۔ بحریہ کو ناکافی عملے، آپریشنل اڈوں کی کمی اور ٹیکنالوجی اور وسائل کی کمی کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ ويسے بھی تکنیکی عملے، ساز و سامان اور افسران کے لحاظ سے فوج اور فضائیہ کے مقابلے ميں سب سے چھوٹی شاخ تھی۔ ان تمام مشکلات کے باوجود بحریہ نے درپیش چیلنجوں کا سامنا کیا اور نوزائيدہ پاکستان میں ایک ہائی پروفائل بھرتی پروگرام کا آغاز کیا۔ اور آج الحمد للہ تمام مشکل منزلیں سر کر کے اس کے سپاہی سمندر کے سینے پر اپنے وطن کی حفاظت کے لئے سراُٹھائے کھڑے ہیں

پا کستا ن میں گز ر ے زما نو ں کا قلعہ روہتاس

 

پا کستا ن میں گز ر ے زما نو ں کے  قلعےبتا تے ہیں کہ مغل بادشاہوں نے برصغیر پر کس شان و شوکت اور دبدبہ کے ساتھ حکومت کی

 اور فن تعمیر پر اپنے گہرے نقوش  ثبت  کئے-یہ قلعہ چار سو ایکٹر پر محیط ہے، جبکہ بعض کتابوں میں اس کا قطر 4 کلومیٹر بیان کیا گیا

 ہے۔ قلعے کی فصیل کو ان چٹانوں کی مدد سے ترتیب و تشکیل دینے کی کوشش کی گئی جن پر یہ تعمیر کیا گیا۔قلعہ اندرونی طور پر دو

 حصوں میں تقسیم تھا، جس کے لیے ایک 1750 فٹ طویل دیوار تعمیر کی گئی، جو قلعے کے دفاعی حصے کو عام حصے سے جدا کرتی تھی۔

 یہ ان قدیم روایتوں کا تسلسل تھا، جن کے تحت فوجوں کی رہائش شہروں سے علاحدہ رکھی جاتی تھی۔ قلعے کے جنگی حصے کی وسعت کا

 اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ عہد شیر شاہ میں توپ خانے کے علاوہ 40 ہزار پیدل اور 30 ہزار سوار فوج مع ساز و سامان

 یہاں قیام کرتی تھی۔ قلعے میں 86 بڑے بڑے برج یا ٹاور تعمیر کیے گئے۔ پانی کی فراہمی میں خود کفالت کے لیے تین باؤلیاں

 (سیڑھیوں والے کنویں) بنائی گئیں تھیں، ان میں سے ایک فوجی حصے میں اور باقی دونوں پانی کی پانچ ذخیرہ گاہوں سمیت قلعے کے

 دوسرے حصے میں واقع تھیں۔ قلعہ روہتاس  قلعے کے بارہ دروازے ہیں، جن کی تعمیر جنگی حکمت علمی کو مدنظر رکھ کر کی گئی تھی۔ یہ دروازے فن تعمیر کا نادر نمونہ ہیں۔ ان دروازوں میں ہزار خوانی دروازہ، خواص خوانی دروازہ، موری دروازہ، شاہ چانن والی دروازہ، طلاقی دروازہ، شیشی دروازہ، لنگرخوانی دروازہ، کابلی (یا بادشاہی) دروازہ، گٹیالی دروازہ، سوہل (یا سہیل) دروازہ، پیپل والا دروازہ اور گڑھے والا دروازہ شامل ہیں۔ قلعے کے مختلف حصوں میں اس کے دروازوں کو بے حد اہمیت حاصل تھی اور ہر دروازے 

اپنا مقصد تھا اور اس کی خاص وجہ تسمیہ بھی تھی۔ ہزار خوانی صدر دروازہ تھا۔ طلاقی دروازے سے شیر شاہ کے دور میں ہاتھی داخل ہوتے تھے۔ طلاقی دروازے کو منحوس دروازہ سمجھا جاتا تھا۔ شیشی دروازے کو شیشوں اور چمکتی ٹائلوں (چمکتے چوکوں) سے تیار کیا گیا تھا۔ لنگرخوانی لنگر کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ کابلی دروازے کا رخ چونکہ کابل کی طرف تھا اس لیے اس کو کابلی دروازہ کہا جاتا تھا۔ سوہل دروازہ زحل کی وجہ سے سوہلکہلایا۔ جبکہ اس کو سہیل دروازہ بھی کہا جاتا تھا کیونکہ حضرت سہیل غازی کا مزار یہیں واقع تھا۔ گٹیالی دروازے کا رخ چونکہ گٹیال پتن کی طرف تھا اس لیے اسے یہ نام دیا گیا۔ اس طرح مختلف دروازوں کے مقاصد مختلف تھے اور ان کو مختلف کاموں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ بارہ دروازوں میں سے ایک یعنی لنگرخوانی دروازہ براہ راست جنگی علاقے میں کھلتا تھا اور یہ دشمن کی فوجوں کےلیے ایک طرح کا جال تھا۔ اس دروازے سے گزر کر اندر آنے والا شخص فصیل کی برجیوں پر مامور محافظوں کے براہ راست نشانےپر آ جاتا تھا۔ اسی طرح خواص خوانی دروازہ دہرا بنایا گیا تھا۔ مغربی سمت ایک چھوٹی سی ’’ریاست‘‘ علاحدہ بنائی گئی تھی، جو چاروں جانب سے دفاعی حصار میں تھی۔ اس کے اندر جانے کا صرف ایک دروازہ تھا۔ اس چھوٹی سی ریاست کے بلند ترین مقام پر راجا مان سنگھ کی حویلی تھی، جو مغل شہنشاہ اکبر اعظم کا سسر اور اس کی فوج کا جرنیل تھا۔

قلعہ روہتاس کا سب سے قابلِ دید، عالیشان اور ناقابل شکست حصہ اس کی فصیل ہے۔ اس پر 68 برج، 184 برجیاں، 06881 کنگرے اور 8556 سیڑھیاں ہیں، جو فن تعمیر کا نادر نمونہ ہیں۔ اس کے برج صرف فصیل کی خوب صورتی ہی میںاضافہ نہیںکرتے بلکہ یہ قلعے کے مضبوط ترین دفاعی حصار میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ فصیل کی چوڑائی سب سے زیادہ ہے۔ فصیل کےچبوترے سیڑھیوں کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک تھے۔ فصیل تین منزلوں میں دو یا سہ قطاری تعمیر کی گئی تھی۔ سب سےبلند ترین حصہ کنگروں کی صورت میں تعمیر کیا گیا۔ چبوتروں کی چوڑائی تین فٹ سے زیادہ ہے اور یہ تیراندازوں اور توپچیوں کےے استعمال کیے جاتے تھے۔ ان کی بلندی مختلف تھی، جو 8 فٹ سے 11 فٹ کے درمیان تھی۔ یہ کنگرے صرف شاہی فوجوں کو دشمن سے تحفظ ہی فراہم نہیں کرتے تھے بلکہ ان سے دشمنوں پر پگھلا ہوا سیسہ اور کھولتا ہوا پانی بھی انڈیلا جاتا تھا۔ درمیانی چبوترے درحقیقت فوجیوں کے کھڑے ہونے کی جگہ تھے اور ان کی چوڑائی ساڑھے چار فٹ سے 7فٹ کے درمیان تھی، جبکہ چبوتروں کی آخری قطار کی چوڑائی ساڑھے چھ فٹ سے ساڑھے آٹھ فٹ کے درمیان تھی۔ یہ بات حیرت انگیز ہے کہ اتنے بڑے قلعے میںمحض چند رہائشی عمارتیں تعمیر کی گئی تھیں۔ قلعے کی عمارتوں میں سے ایک عمارت کو شاہی مسجد کہا جاتا ہے اور چند  

 باؤلیاں بھی بنائی گئی تھیں۔ بعد ازاں جب رنجیت سنگھ پنجاب پر قابض ہوتا تو اس کے جرنیل نے یہاں ایک حویلی تعمیر کی گئی محلات کے نہ ہونے کے باعث مغل شہنشاہ اس قلعے میں آ کر خیموں میں رہا کرتے تھے۔یہ قلعہ صرف دفاعی حکمت علمی کے تحت بنایا گیا   

خوب صورت  شاہی مسجد کابلی دروازے کے نزدیک واقع ہے اور اسی وجہ سے کابلی دروازے کو بادشاہی دروازہ بھی کہا

 جاتا ہے۔ یہ مسجد صرف ایک کمرے اور صحن پر مشتمل ہے۔ مسجد کا مرکزی ہال 63 فٹ طویل اور 24 فٹ چوڑا ہے۔ اسے تین

 حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مرکزی ہال کی اندرونی چھت مسطح ہے، البتہ اوپر گنبد بنے ہوئے ہیں۔ لیکن اس کے باہر کوئی مینار   

 نہیں۔ بیرونی دفاعی دیوار اس کی پشت پر واقع ہے۔ یہ مسجد سوری عہد کی چند انمول اور قابل دید تعمیرات میں سے ایک ہےمسجد

 میں اور قلعہ کی اصل تعمیر میں ایک منفرد طرز تعمیر یہ ہے کہ جہاں جہاں عمارت کے اندرونی جانب گنبد موجود ہیں باہر چھت پر گنبد

 کے کوئی آثار موجود نہیں ،اس کی وجہ یہی سمجھ آتی ہے کہ چونکہ یہ قلعہ دفاعی مقاصد کے لئے استعمال ہونا تھا تو چھتوں کو برابرکیا گیا

      تاکہ بوقت ضرورت استعمال کی جا سکے۔-دراصل گکھڑ مغلوں کو کمک اور بروقت امداد پہنچاتے تھے اور یہ بات شیر شاہ سوری کو کسی طور گوارا نہیں تھی۔ جب قلعے کی تعمیر کچھ حد تک مکمل ہوئی تو شیر شاہ سوری نے کہا کہ آج میں نے گکھڑوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا ہے۔ قلعے کے عین سامنے شیر شاہ سوری کی تعمیر کردہ جرنیلی سڑک (جی ٹی روڈ) گزرتی تھی۔شیر شاہ سوری کے بعد اس کے بیٹے سلیم شاہ نے اپنے دورِحکومت میں قلعے کی توسیع کروائی۔ قلعے کی تعمیر میں عام اینٹوں کے بجائے دیوہیکل پتھروں اور چونےکا استعمال کیا گیا۔ یہ بھاری پتھر اونچی دیواروں اور میناروں تک بھی پہنچائے گئے، ان بڑے بڑے پتھروں کو بلندیوں پر نصب دیکھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ جدید مشینری جس کام کو انجام دینے میں ناکام ہوجاتی ہے، وہ کام صدیوں پہلے انسانی ہاتھوں نے کیسے سرانجام دیے۔ چار سو ایکڑ پر محیط اس قلعے کی تعمیر میں بیک وقت تین لاکھ مزدوروں نے حصہ لیا۔جنگل اور پہاڑوں میں بنائےگئے قلعہ روہتاس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کو تعمیر کرنے میں شیر شاہ سوری سے محبت کرنے والے بزرگان دین نے بھی مزدوروں کے شانہ بشانہ حصہ لیا اور اپنا خون پسینہ بہایا۔ قلعہ کی تعمیر میں اپنی جان قربان کرنے والےبزرگوں کے مقابر قلعے کے کسی نہ کسی دروازے کے ساتھ موجود ہیں جبکہ اندر بھی جگہ جگہ بزرگوں کے مقابر ہیں۔

قلعہ اندرونی طور پر دو حصوں میں تقسیم تھا، جس کے لیے ایک 1750 فٹ طویل دیوار تعمیر کی گئی، جو قلعے کے دفاعی حصے کو عام حصے سے جداکرتی تھی۔ جنگی حکمت عملی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے قلعے کے کُل بارہ دروازے بنائے گئے،جو فن تعمیر کا نادر نمونہ ہیں۔ ہر دروازےکی تعمیر کا ایک مقصد تھا، جس کی وجہ سے اس کو بے حد اہمیت حاصل تھی۔ اس کے صدر دروازے کا نام ہزار خوانی تھا۔ قلعے کا سب    سے قابلِ دید ، عالیشان اور ناقابل شکست حصہ اس کی فصیل ہے، جس پر 68برج ، 184برجیاں، 6ہزار881

کنگرے اور 8ہزار556 سیڑھیاں بنائی گئی تھیں فصیل تین منزلوں میں دو یا سہ قطاری تعمیر کی گئی تھی اوراس کے چبوترے جو تیر اندازوں اور توپچیوں کے لیے استعمال کیے جاتے تھے، سیڑھیوں کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک تھے۔ کنگروں سے دشمنوں پر پگھلاہوا سیسہ اور کھولتا ہوا پانی بھی انڈیلا جاتا تھا۔جب قلعہ تعمیر ہوا تو یہ اپنی نوعیت کا ایک بڑا قلعہ تھا، تاہم یہ بات حیران کن تھی کہ اتن بڑے قلعے میں محض چند رہائشی عمارتیں تعمیر کی گئی تھیں، جن میں ساٹھ ہزار فوجی قیام کر سکتے تھے۔ یہ قلعہ چونکہ دفاعی حکمت علمی کے تحت بنایا گیا تھا، اسی لیے شیر شاہ سوری کے بعد برسراقتدار آنے والوں نے بھی یہاں اپنے ٹھہرنے کے لیے کسی پرتعیش رہائش گاہ کا انتظام نہیں کیا۔ محلات نہ ہونے کے باعث مغل شہنشاہ آکر خیموں میں رہا کرتے تھے۔مغل شہنشاہ اکبر اعظم کے سُسر راجا مان سنگھ (جو اس کی فوج کا جرنیل بھی تھا) نے یہاں رہنے کے لیے ایک حویلی بنوائی تھی۔ قلعے میں تین باؤلیاں بنوائی گئی تھیں، بڑی باؤلی آج بھی موجود ہے جو 270فٹ گہری ہے، جس میں اترنے کے لیے 300سیڑھیاںنائی گئی ہیں

۔ کابلی دروازے کے نزدیک ایک مسجد بھی تعمیر کی گئی تھی، جس کا نام شاہی مسجد ہے جبکہ جنوبی حصے میں مرکزی چٹان پرعیدگاہ بنائی گئی 

بظاہر قلعہ روہتاس ایک بے ترتیب سا تعمیراتی ڈھانچا معلوم ہوتا ہے مگر شیر شاہ سوری نے اس کی تعمیر میں نقش نگاری اور خوبصورتی کو ملحوظ خاطر رکھا۔ اس کا ثبوت قلعے کے دروازے اور شاہی مسجد میں کی جانے والی میناکاری سے ملتا ہے۔ ہندوانہ طرز تعمیر کی پہچان سوہل گیٹ سے ہوتی ہے۔ اسی طرح بھربھرے پتھر اور سنگ مر مر کی سلوں پر خط نسخ میں کندہ کیے گئے مختلف مذہبی عبارات والے کتبے خطاطی کے نادر نمونوں میں شمار ہوتے ہیں۔ خواص خوانی دروازے کے اندرونی حصے میں دو سلیں نصب ہیں، جن میں سے ایک پر کلمہ اور دوسری پر مختلف قرآنی آ یات کندہ ہیں۔شیر شاہ سوری کے بیٹے سلیم شاہ نے قلعے کو موسمی اثرات اور حوادثِ زمانہ سے محفوظ رکھنے کے لیے باہر کی آبادی کو قلعہ کے اندر منتقل ہونے کی اجازت دی تھی۔ اس آبادکاری کے نتیجے میں جو بستی وجود میں آئی وہ اب روہتاس گاؤں کہلاتی ہے۔ مقامی لوگوں نے سطح زمین سے اوسطاً 300فٹ بلنداس قلعے کے پتھر اکھاڑ کر مکانات بنا لیے موجودہ دور میں قلعے کے چند دروازوں، راجا مان سنگھ کے محل اور جنو مغربی سمت چار منزلہ عمارت میں واقع بڑے پھانسی گھاٹ کےسوا بیش تر حصہ کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اپنے وقت کا یہ مضبوط ترین قلعہ آج بکھری ہوئی اینٹوں کی مانند موجود ہے۔ قلعہروہتاس اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ برائے تعلیم، سائنس اور ثقافت(یونیسکو) کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست  

  میں شامل ہے۔قلعہ لاہور، جسے مقامی طور پر شاہی قلعہ بھی کہا جاتا ہے، شہر کے شمال مغرب میں واقع ہے۔گو کہ اس قلعہ کی تاریخ زمانہء قدیمسے جا ملتی ہے لیکن اس کی ازسرِنو تعمیر مغل بادشاہ اکبر اعظم (1556ء تا 1605ء) نے کروائی جبکہ اکبر کی آنے والی نسلیںبھی اس کی تزئین و آرائش کرتی رہیں۔ لہٰذا یہ قلعہ مغلیہ فنِ تعمیر اور روایت کا ایک نہایت ہی شاندار نمونہ نظر آتاہے۔ قلعے کے اندر واقع چند مشہور مقامات میں شیش محل، عالمگیری دروازہ، نولکھا محل اور موتی مسجد شامل ہیں۔ 1981ء میں یونیسکو نے اس قلعے کو شالامار باغ کے ساتھ عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔ قلعہ جس کے لغوی معانی استحکام اور حفاظت کے ہوتے ہیں، فوجی مقاصد یا شاہی رہائش گاہ کے لیے دنیا بھر میں بنائے جاتے  تہے۔پاکستان میں بہی مختلف ادوار میں کئی قلعے تعمیر ہوئے۔

 مثلاً روہتاس، رانی کوٹ، قلعہ اٹک، قلعہ دراوڑ اور شاہی قلعہ لاہور وغیرہ۔ دریائے راوی کے جنوبی کنارے پر ایک محفوظ مقام کواس قلعہ کے لیے منتخب کیا گیا،ہ دراصل ایک اونچا مصنوعی ٹیلہ تھا جولاہور شہر کی سطح سے کافی بلندتھا۔قلعہ لاہور، جسے مقامی طور پر شاہی قلعہ بھی کہا جاتا ہے، شہر کے شمال مغرب میں واقع ہے۔گو کہ اس قلعہ کی تاریخ زمانہء قدیم سے جا ملتی ہے لیکن اس کی ازسرِنو تعمیر مغل بادشاہ اکبر اعظم (1556ء تا 1605ء) نے کروائی جبکہ اکبر کی آنے والی نسلیں بھی اس کی تزئین و آرائش کرتی رہیں۔ لہٰذا یہ قلعہ مغلیہ فنِ تعمیر اور روایت کا ایک نہایت ہی شاندار نمونہ نظر آتاہے۔ قلعے کےاندر واقع چند مشہور مقامات میں شیش محل، عالمگیری دروازہ، نولکھا محل اور موتی مسجد شامل ہیں۔ 1981ء میں یونیسکو نے اس قلعے کو شالامارباغ کے ساتھ عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔پہلے یہاں ایک کچا قلعہ ہوا کرتاتھا۔ 1566ء میںشہنشاہ اکبر نے اسے گرا کر اس جگہ نئے سرے سے ایک عالیشان پختہبنوایا،جس کی تعمیر میںرہائشی مقاصد کے ساتھ ساتھ فوجی مقاصد کو بھی مدِنظر رکھا گیا۔ قلعہ کی لمبائی 466 میٹر اور چوڑائی 370میٹر ہے۔ اس کی شکل تقریباً مستطیل ہے۔ دیواریں سرخ پختہ اینٹوں سے بنی ہوئی ہیں جن کی چنائی مٹی کے گارے سےکی گئی ہے۔ ان دیواروں پر بندوقچیوں کے لیے سوراخ ہیں،جن سے وہ محاصرہ کرنے والی فوج پر گرم پانی اور گولیاں برساتےتھے۔ اس کے آثار مشرقی دیوار میں اب تک موجود ہیں۔قلعہ کا بیرونی حصہ پچی کاری کے نہایت ہی خوبصورت نمونوں سے مزین ہے ،جس پر جا بجا 

انسانوں، گھوڑوں اور ہاتھیوں کی تصویریں بنی ہوئی ہیں۔قلعے کے اردگرد ایک اونچی فصیل ہے جس کے تین بڑے دروازے ہیں، ایک مشرق کی سمت، دوسرا جنوب کی سمت، اور تیسراشمال مغرب کی جانب ہے۔ شمال مغربی دروازے سے بادشاہ اور بیگمات ہاتھی پر سوار ہو کر گزرتے تھے، اس دروازے پر شاہ جہاں کا نام بھی کندہ ہے۔ یہ دروازہ انگریزوں کے حکم پر بند کر دیا گیا تھا مگر 20نومبر 1949ءکو سابق گورنر پنجاب نے پورےتین سو سال بعد اسے دوبارہ کھلوادیا۔قلعے کے اندر ایک دیوان ہے جس کی چھت ستونوں کے سہارے کھڑی ہے، اسے دیوان عام کہتے ہیں۔ اس میں ایک جھروکا بنا ہوا ہے جہاں بیٹھ کر شاہ جہان رعایا کو اپنا دیدار کراتا تھا۔دیوان خاص بادشاہ کا شاہی دربار تھا، جہاں وہ اپنے وزیروں مشیروں، شہزادوں اور دوسرے راجائوں مہاراجوں سے ملاقات کیاکرتا تھا اور سلطنت کے بارے میں صلاح مشورہ لیتا تھا۔ قلعے کے اندر ایک شیش محل ہے جو فن تعمیر اور فن نقاشی کا بہترین نمونہ ہے، اس کی دیواریں اور چھتیں رنگ برنگے شیشوں اور پچی کاری کے کام سے مزین ہیں، ان کی چمک دمک 

آنکھوںکوچندھیا دیتی ہے۔ اب بھی شیش محل کے کسی کمرے میں دیا سلائی روشن کی جائے تو تمام کمرہ جھلمل کرنے لگتا ہے، کہتے ہیں کہ اسے شاہ جہاں نے تعمیر کروایا تھا۔شیش محل کے قریب ہی موتی مسجد ہے، یہ بھی فن تعمیر کا ایک دلکش نمونہ ہے، اسے جہانگیر نے شاہی بیگمات کے لیے تعمیرکیا تہا اپنےدورِ حکومت میں اس قلعہ پر قبضہ کیا تو اس نےموتی مسجد کا نام بدل کر ”موتی مندر“ رکھ دیا تھا،  سخت نقصان پہنچایا لیکن اس کے باوجود اس کی عظمت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے۔قلعے کے اندر ایک چھوٹا سا میوزیم بھی ہے جس میں بہت سی نادر اشیاءمحفوظ ہیں، بہت سی الماریوں میں پرانے زمانے کے اوزار،اسلحہ، تصویریں اور لباس وغیرہ بڑے قرینے سے سجائے گئے ہیں۔ اتنی مدت گذر جانے کے باوجود بھی ان چیزوں کی سج دھج اورشان و شوکت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ملکی و غیر ملکی سیّاح ہر سال کثیر تعداد  میں اس قلعہ کو دور دور سے دیکھنے آتے ہیں، خصوصاً طلباءکو ان کی دلچسپی کی کئی چیزیں یہاں مل سکتی ہیں


 


 


 


 


 


 

اتوار، 26 فروری، 2023

شیر نیستان حیدر.عباس علمدار

 


حضرت عباس علمدار علیہ السلام  -امام علی علیہ السلام کے فرزند تھے۔ آپ کی والدہ کا نام ام البنین سلام اللہ علیہ تھا جن کا  تعلّق عرب کے انتہائ شجاع اور بہادر قبیلے سے تھا -مولا علی علیہ السّال نے اپنے کزن کے سامنے عقد ثانی کے لئے یہ شرط رکھّی تھِی کہ ان کے لئے شجاع اور بہادر قبیلے کی زوج دیکھی جائے-چنانچہ بی بی فاطمہ بنت کلابیہ کا انتخاب عمل میں آیا -جن کا سلسلہ نسب عرب کے ایک بہادر قبیلے سے تھا۔ حضرت عباس ؑ اپنی بہادری اور شیر دلی کی وجہ سے  مشہو ہوئے۔ اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے ساتھ ان کی وفاداری واقعہ کربلا کے بعد ایک ضرب المثل بن گئی۔ وہ شہنشاہِ وفا کے طور پر مشہور ہیں۔ اطاعت امام وقت اور وفا اگر کوئی سیکھنا چاہے تو اسے باب الحوائج حضرت عباس علمدار ؑ سے ہی سیکھنا چاہیئے- حضرت عباس علیہ السلام چار شعبان المعظم 26ھ کو پیدا ہوئے۔ آپ نے اس وقت تک آنکھ نہیں کھولی جب تک ان کے بھائی امام حسین علیہ السلام نے انھیں اپنے ہاتھوں میں نہیں لیا۔ بچپن ہی سے انھیں امام حسین علیہ السلام کے ساتھ بہت محبت تھی۔ حضرت علی علیہ السلام نے اس عظیم الشان بچے کا نام عباس رکھا۔ روایت ہے کہ حضرت عباس علیہ السلام کی پیدائش کا مقصد ہی امام حسین علیہ السلام کی مدد اور نصرت تھا اور اھلِ بیت علیہم السلام کو شروع سے واقعہ کربلا اور اس میں حضرت عباس علیہ السلام کے کردار کا علم تھاحضرت علی ابن ابی طالب علیہ السّلامنے اپنے بھائی عقیل ابن ابی طالب کے مشورے سے جوانساب کے ماہر تھے ایک متقی اور بہادر قبیلے کی خاتون فاطمۂ کلابیہ سے عقد کیا اور اپنے پروردگار سے دعا کی کہ پروردگار! مجھے ایک ایسا بیٹا عطا کرے جو اسلام کی بقاء کے لئے کربلا کے خونیں معرکہ میں امام حسین علیہ السّلامکی نصرت و مدد کرے چنانچہ اللہ نے فاطمۂ کلابیہ کے بطن سے کہ جنہیں حضرت علی علیہ السلام نے ام البنین کا خطاب عطا کیا تھا ، چار بیٹے امام علی کو عطا کردئے اور ان سب کی شجاعت و دلیری زباں زد خاص و عام تھی اور سبھی نے میدان کربلا میں نصرت اسلام کا حق ادا کیااور شہید ہوئے لیکن عباس علیہ السّلام ان سب میں ممتاز اور نمایاں تھے کیونکہ خود حضرت علی علیہ السلام نے ان کی ایک خاص نہج پر پرورش کی تھی ۔

جب بھی زبانوں اور کانوں میں لفظ وفا آتا ہے، ایک ہی لمحے میں ذہن ایک پیکر وفا کی طرف جاتا ہے، جس نے صحیح معنوں میں وفا کے مفہوم کو دنیا والوں کو سمجھا دیا۔ وہ پیکر وفا جس نے وفا کا اصلی روپ دکھایا، وہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا بہادر اور شیر دل فرزند حضرت عباس علیہ السلام ہے۔ حضرت عباس علیہ السلام کی قدر و منزلت اس حدیث سے معلوم ہوتی ہے کہ:(وَإنَّ لِلْعَبّاسِ عِنْدَ اللَّهِ تَبارَكَ وَتَعالی مَنْزِلَةٌ يَغبِطَهُ بِها جَمیعَ الشُّهدَاءِ يَوْمَ القِیامَةِ)1 “روز قیامت تمام شہداء حضرت عباس علیہ السلام کے مقام و منزلت پر رشک کریں گے۔” حضرت عباس اگرچہ امامت کے درجے پر فائز نہیں تھے لیکن مقام و منزلت میں اتنے کم بھی نہیں تھے، عباس علیہ السلام کے مقام و منزلت پر فرشتے قیامت کے دن رشک کرینگے۔ عباس بن علی بن ابی طالب، کنیت ابو الفضل امام حسن اور حسین علیہما السلام کے بھائی چار شعبان سن 26 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور 61 ہجری کو کربلا میں مقام شہادت پر فائز ہوئے۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر مبارک 34 سال تھی۔ چودہ سال اپنے پدر بزرگوار امیر المومنین علیہ السلام کے زیر سایہ، نو سال اپنے بھائی امام حسن علیہ السلام اور گیارہ سال امام حسین علیہ السلام  کے زیر تربیت گزارے۔ آپ کی والدہ محترمہ فاطمہ بنت حزام نسل بنی کلاب سے ہیں، جن کی کنیت ام البنین ہے۔

حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی شہادت کو دس برس ہوچکے تھے، ایک دن حضرت علی علیہ السلام نے جناب عقیل کو بلایا (کہ جو نسب شناسی میں ماہر تھے) اور کہا: میرے لئے ایسے خاندان کی خاتون تلاش کرو، جو شجاعت اور دلیری میں بے مثال ہو، تاکہ اس خاتون سے ایک بہادر اور شجاع فرزند پیدا ہو۔ جناب عقیل نے قبیلہ بنی کلاب کی ایک خاتون کی امیر المومنین علیہ السلام کو پہچان کروائی کہ جس کا نام بھی فاطمہ تھا، جس کے آباؤ اجداد عرب کے شجاع اور بہادر لوگ تھے۔ ماں کی طرف سے بھی عظمت و نجابت کی حامل تھیں۔ اسے فاطمہ کلابیہ کہا جاتا تھا اور بعد میں انہوں نے ام البنین کے نام سے شہرت پائی۔ جناب عقیل رشتہ کے لئے ان کے باپ کے پاس گئے، اس نے بڑے ہی فخر سے اس رشتہ کو قبول کیا اور مثبت جواب دیا۔ فاطمہ کلابیہ نہایت ہی نجیب اور پاکدامن خاتون تھیں۔ شادی کے بعد آپ امیر المومنین علیہ السلام کے گھر تشریف لائیں اور بچوں کی دیکھ بھال اور ان کی خدمت شروع کی۔ جب انہیں فاطمہ کے نام سے بلایا جاتا تھا تو کہتی تھیں: مجھے فاطمہ کے نام سے نہ پکارو، کہیں تمہارے لئے تمہاری ماں فاطمہ کا غم تازہ نہ ہو جائے۔ میں تمہاری خادمہ ہوں۔ اللہ نے آپ کو چار بیٹوں سے نوازا۔ عباس، عبداللہ، جعفر اور عثمان، یہ چاروں بھائی کربلا میں شہید ہوگئے۔ ام البنین کے ایمان اور فرزندان رسول کی نسبت محبت کا یہ عالم تھا کہ ہمیشہ انہیں اپنی اولاد پر ترجیح دیتیں، جب واقعہ کربلا درپیش آیا تو اپنے بیٹوں کو امام حسین علیہ السلام  پر قربان ہونے کی خاص تاکید کی اور ہمیشہ جو لوگ کربلا اور کوفہ سے خبریں لے کر آرہے تھے، ان سے سب سے پہلے امام حسین علیہ السلام کے بارے میں سوال کرتی تھیں۔

ابتدائی زندگی-حضرت علی علیہ السلام نے ان کی تربیت و پرورش کی تھی۔ حضرت علی علیہ السلام سے انھوں نے فن سپہ گری، جنگی علوم، معنوی کمالات، مروجہ اسلامی علوم و معارف خصوصا´ علم فقہ حاصل کئے۔ 14 سال کی معمولی عمر تک وہ ثانی حیدر کہلانے لگے۔ حضرت عباس علیہ السلام بچوں کی سرپرستی، کمزوروں اور لاچاروں کی خبر گيری، تلوار بازی اور و مناجات و عبادت سے خاص شغف رکھتے تھے۔ ان کی تعلیم و تربیت خصو صاً کربلا کے لئے ہوئی تھی۔ لوگوں کی خبر گیری اور فلاح و بہبود کے لئے خاص طور پر مشہور تھے۔ اسی وجہ سے آپ کو باب الحوائج کا لقب حاصل ہوا۔ حضرت عباس کی نمایان ترین خصوصیت ”ایثار و وفاداری“ ہے جو ان کے روحانی کمال کی بہترین دلیل ہے۔ وہ اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے عاشق و گرویدہ تھے اورسخت ترین حالات میں بھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ لفظ وفا ان کے نام کے ساتھ وابستہ ہوگیا ہے اور اسی لئے ان کا ایک لقب شہنشاہِ وفا ہے ۔

جنگ صفین-جنگ صفین امیر المومنین خلیفتہ المسلمین حضرت علی علیہ السلام کے خلاف شام کے گورنر نے مئی۔جولائی 657 ء مسلط کروائی۔ اس جنگ میں حضرت عباس علیہ السلام نے حضرت علی علیہ السلام کا لباس پہنا اور بالکل اپنے والد علی علیہ السلام کے طرح زبردست جنگ کی حتیٰ کہ لوگوں نے ان کو علی ہی سمجھا۔ جب علی علیہ السلام بھی میدان میں داخل ہوئے تو لوگ ششدر رہ گئے ۔ اس موقع پر علی علیہ السلام نے اپنے بیٹے عباس کا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ یہ عباس ھیں اور یہ بنو ھاشم کے چاند ھیں۔ اسی وجہ سے حضرت عباس علیہ السلام کو قمرِ بنی ھاشم کہا جاتا ھے۔واقعہ کربلا اور حضرت عباس علیہ السلام-واقعہ کربلا کے وقت حضرت عباس علیہ السلام کی عمر تقریباً 33 سال کی تھی۔ امام حسین علیہ السلام نے آپ کو لشکر حق کا علمبردار قراردیا۔ امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں کی تعداد 72 افراد پر مشتمل تھی اور لشکر یزیدی کی تعداد تیس ہزارسے ذیادہ تھی مگر حضرت عباس علیہ السلام کی ہیبت و دہشت لشکر ابن زياد پر چھائی ہوئی تھی ۔ کربلامیں کئی ایسے مواقع آئے جب عباس علیہ السلام جنگ کا رخ بدل سکتے تھے لیکن امام وقت نے انھیں لڑنے کی اجازت نہیں دی کیونکہ اس جنگ کا مقصد دنیاوی لحاظ سے جیتنا نہیں تھا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام حضرت ابوالفضل العباس کی عظمت و جلالت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کرتے تھے : ”چچا عباس کامل بصیرت کے حامل تھے وہ بڑے ہی مدبر و دور اندیش تھے انہوں نے حق کی راہ میں بھائی کا ساتھ دیا اور جہاد میں مشغول رہے یہاں تک کہ درجۂ شہادت پرفائز ہوگئے آپ نےبڑ اہی کامیاب امتحان دیا اور بہترین عنوان سے اپناحق ادا کر گئے“ ۔

امام حسینؑ کے پاسدار ، وفاؤں کے درخشان مینار، اسلام کے علمبردار، ثانیِ حیدرِ کرّار، صولتِ علوی کے پیکر ، خاندانِ رسول ص کے درخشان اختر ، اسلام کے سپاہ سالارِ لشکر ، قلزمِ علی کے نایاب گوہر، فاطمہ زہرا کے پسر، ثانیِ زہرا کے چہیتے برادر ،علمدار کربلا حضرتِ ابوالفضل العبّاس علیہ السلام ۔کسی کے قلم میں اتنی طاقت کہاں کہ طیّارِ عرشِ معرفت ، اطلسِ شجاعانِ عرب کے بارے میں خامہ فرسایی کر سکے یا انکی فضیلت میں اپنے لبوں کو وا کر سکے ۔ اسلیے کہ انکی فضیلت اور عظمت وہ بیان کر رہے ہیں جو ممدوح خدا ہیں ۔ شخصیت والا صفات کے بارے میں چند روایاتِ معصومین اور چند حقایق تاریخ، قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہیں ۔امام زین العابدین حضرت سید سجّاد ؑ فرزند سید شہدا علیہ السلام فرماتے ہیں

ان العباس عنداللہ تبارک وتعالیٰ منزلۃ یغبتہ علیہا جمیع الشہداء یو م القیامۃ خدا وند عالم کے نزدیک عبّاس کی وہ منزلت ہے کہ تمام شہدا قیامت کے دن رشک کرینگے جنگ صفّین-اور غازی عبّاس-جنگ صفین حضرت علیؑ اور معاویہ کے درمیان لڑی گئی جنگوں میں سے ایک ہے جو 37ھ کو صفر کے مہینے میں صفین کے مقام پر لڑی گئی۔اس جنگ میں جب معاویہ نے جنگ کو ہارتے دیکھا تو قرآن کو نیز وں پر اٹھا کر میدان جنگ میں آ گئے اور اس مقام پر مولا علی نے اپنے لوگوں کی مخالفت کے باوجود قران  پاک کے احترام میں جنگ روک دی

ہفتہ، 25 فروری، 2023

ہندوستان میں بت پرستی کی ابتداء کیسے ہوئ?

 

 

ہندوستان میں بت پرستی کی ابتداء کیسے ہوئ?

حضرت ادریس علیہ السّلام اللہ تعالیٰ کے نبی تھے، جو حضرت آدم علیہ السّلام اور حضرت شیث علیہ السّلام کے بعد نبوّت کے جلیل القدر منصب پر فائز ہوئے۔مؤرخین کے مطابق آپؑ کی ولادت بابل(عراق) یا مِصر کے شہر ’’منفیس‘‘ یعنی’’منف‘‘ میں ہوئی۔ آپؑ کا اصل نام’’اخنوخ‘‘ تھا، جب کہ قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہؐ میں آپؑ کو ’’ادریس‘‘ کے نام سے پکارا گیا ہے۔ روایات کے مطابق، حضرت ادریسؑ نے دنیا میں لوگوں کو سب سے پہلے لکھنے پڑھنے اور تعلیم حاصل کرنے کا درس دیا، بلکہ اپنی زندگی کا بیش تر حصّہ اسی درس و تبلیغ میں صَرف کیا۔ چناں چہ لوگ آپؑ کو ادریس، یعنی ’’درس دینے والا‘‘ کہہ کر پکارنے لگے۔ آپؑ کا حضرت شیث ؑکی پانچویں پُشت سے تعلق تھا اور آپؑ کا شجرۂ نسب یوں ہے، ادریسؑ بن یارد بن مہلائل بن قینن بن انوش بن شیثؑ بن آدم علیہ السّلام۔

حضرت ادریس ؑمنصبِ نبوّت پر

حضرت شیثؑ کا انتقال ہوا، تو کچھ عرصے بعد اُن کے پیروکار بہت محدود تعداد میں رہ گئے ۔ قابیل کی اولاد نے کفرو شرک، بدکاری و بے حیائی کا بازار گرم کر رکھا تھا۔زنا کاری اور شراب نوشی عام تھی، پاکیزہ رشتوں کی پہچان ناپید ہو چُکی تھی۔ بتوں کی پوجا اور آگ کی پرستش ہو رہی تھی۔ گویا دنیا پر شیطان اور اُس کے حواریوں کا راج تھا۔ حضرت آدمؑ اور حضرت شیثؑ کی قائم کردہ شرعی حدود اور احکاماتِ الٰہی کو پامال کیا جا رہا تھا اور یہی وہ وقت تھا کہ جب اللہ جل شانہ نے اُس بگڑی قوم میں ایک نبی مبعوث کرنے کا فیصلہ کیا اور اس عظیم منصب کے لیے حضرت شیثؑ ؑکی نسل سے حضرت ادریسؑ کا انتخاب فرمایا۔ حضرت ادریس ؑمیں وہ تمام خوبیاں بدرجۂ اتم موجود تھیں، جو اللہ کے نبی میں ہونی چاہئیں۔ آپؑ، حضرت آدم علیہ السّلام کے دین کے پیروکار، نہایت عبادت گزار، متّقی، پرہیز گار اور انتہائی سچّے انسان تھے۔

بابل سے مِصر کی جانب ہجرت

نبوّت کے منصب پر فائز ہوتے ہی آپؑ نے اپنی قوم کے بھٹکے ہوئے لوگوں میں وعظ و تبلیغ کا کام شروع کر دیا، لیکن راہِ ہدایت کا یہ درس اور نیکی کی باتیں اُن لوگوں کو بہت ناگوار گزرتیں، چناں چہ وہ آپؑ کے دشمن ہو گئے۔ آپؑ اور آپؑ کے پیرو کاروں کو طرح طرح سے اذیّتیں دینے لگے۔ یہاں تک کہ آپؑ نے اُن کی ایذا رسانیوں سے تنگ آکر بابل سے ہجرت کا ارادہ کرلیا اور اپنے پیروکاروں کو اپنے اس فیصلے سے مطلع فرمایا۔ چوں کہ بابل، دریائے فرات اور دریائے دجلہ کے کنارے ایک سَرسبز و شاداب علاقہ تھا، لہٰذا لوگوں کے لیے اس علاقے سے ہجرت کرنا خاصا مشکل فیصلہ تھا اور اُنھوں نے اس حوالے سے تحفّظات کا اظہار بھی کیا، لیکن پھر حضرت ادریس ؑکے سمجھانے پر وہ لوگ آپؑ کے ساتھ ہجرت پر تیار ہو گئے۔ حضرت ادریس ؑاور اُن کے پیروکاروں نے بابل سے مِصر کا رُخ کیا اور دریائے نیل کے کنارے آباد ہو گئے، جو بابل سے بھی زیادہ سَر سبز و شاداب علاقہ تھا۔ حضرت ادریس ؑ نے یہاں کے لوگوں میں درس و تبلیغ کے کام کو جاری رکھا۔ آپؑ اُس وقت لوگوں میں رائج تمام زبانوں سے واقف تھے اور عوام کو اُن ہی کی زبان میں درس دیتے تھے۔

قرآنِ پاک میں ذکر

آپؑ کا قرآنِ مجید میں دو مرتبہ ذکر آیا ہے۔ سورۂ مریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں’’ اور اس کتاب میں ادریسؑ کا ذکر بھی کیجیے۔ بے شک، وہ بڑے سچّے نبی تھے اور ہم نے اُن کو بلند رتبے تک پہنچایا‘‘(سورۂ مریم56-57)۔ نیز، سورۃ الانبیاء میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’ اور اسماعیلؑ اور ادریسؑ اور ذوالکفل کا تذکرہ کیجیے۔ یہ سب (احکامِ الہٰیہ پر) ثابت قدم رہنے والے لوگوں میں سے تھے‘‘(سورۃ الانبیا85)۔ قرآنِ کریم کی معروف و مستند تفسیر’’معارف القرآن‘‘ کے مطابق’’ حضرت ادریس علیہ السّلام، حضرت نوح علیہ السّلام سے ایک ہزار سال پہلے پیدا ہوئے( روح المعانی، بحوالہ مستدرک حاکم)۔ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو نبوّت کے مرتبے پر سرفراز فرمایا اور آپؑ پر تیس صحیفے نازل فرمائے۔ حضرت ادریس علیہ السّلام وہ پہلے انسان ہیں، جنھیں علمِ نجوم اور حساب بہ طورِ معجزہ عطا کیے گئے۔ نیز، سب سے پہلے اُنھوں نے ہی قلم سے لکھنا اور کپڑا سینا ایجاد کیا۔ اُن سے پہلے لوگ عموماً جانوروں کی کھال، لباس کے طور پر استعمال کیا کرتے تھے۔ پھر یہ کہ سب سے پہلے ناپ تول کے طریقے بھی آپؑ ہی نے متعارف کروائے اور اسلحہ بھی آپؑ کی ایجاد ہے۔ آپؑ نے اسلحہ تیار کر کے بنو قابیل سے جہاد کیا۔‘‘علّامہ ابنِ اسحاق کا کہنا ہے کہ’’ دنیا کا سب سے پہلا شحص، جس نے قلم سے لکھا، حضرت ادریس ؑ ہیں۔‘‘ معاویہ بن حکم سلمیؓ سے مروی ہے کہ اُنہوں نے حضورﷺ سے رمل کے بارے میں سوال کیا ؟( یہ ایک ایسا علم ہے، جس میں ریت پر مخصوص لکیریں کھینچ کر کچھ معلوم کیا جاتا ہے)، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا’’ ایک پیغمبر تھے، جنہوں نے یہ لکھا۔ لہٰذا، جس شخص کا خط اُن کے موافق ہو جائے، تو اچھا ہے۔‘‘ علمائے تفسیر فرماتے ہیں کہ’’ پہلا شخص جس نے تبلیغِ دین کے لیے وعظ و خطاب کا سلسلہ شروع کیا، وہ حضرت ادریس ؑ تھے۔‘‘

ہلال بن سیار کہتے ہیں کہ حضرت ابنِ عباس ؓنے حضرت کعب ؓسے پوچھا کہ قرآنِ پاک کی اس آیت’’وَ رَفَعنَاہُ مکاناً علیّاً( اور ہم نے ان کو اونچی جگہ اٹھا لیا)‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ تو حضرت کعبؓ نے فرمایا’’ اللہ عزّوجَل نے حضرت ادریس ؑکی طرف وحی بھیجی کہ میں تمہیں ہر روز تمام بنی آدم کے اعمال کے برابر درجات دیتا ہوں۔( اس سے مُراد اُس زمانے کے تمام بنی آدم ہیں)، تو حضرت ادریس ؑنے چاہا کہ پھر تو اعمال میں اور اضافہ ہونا چاہیے۔ لہٰذا جب اُن کے پاس فرشتے آئے، تو اُنہوں نے وحی کا ذکر کرتے ہوئے کہا’’ مَیں چاہتا ہوں کہ مَلک الموت سے بات کروں(اور پوچھوں کہ کب تک میری زندگی باقی ہے)۔‘‘ فرشتے نے حضرت ادریس ؑکو اپنے پَروں پر اٹھایا اور اُنہیں لے کر آسمان کی طرف بلند ہو گیا۔ جب وہ چوتھے آسمان پر پہنچے، تو اُن کی مَلک الموت سے ملاقات ہو گئی، جو نیچے اُتر رہےتھے۔ حضرت ادریسؑ کے دوست فرشتے نے ملک الموت سے حضرت ادریسؑ کے بارے میں ذکر کیا، تو عزرائیلؑ نے پوچھا ’’حضرت ادریسؑ کہاں ہیں ؟‘‘ فرشتے نے جواب دیا کہ’’ وہ میری پُشت پر ہیں۔‘‘ اس پر ملک الموت نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’’ واہ تعجب ہے! مجھے پروردگار کی طرف سے کہہ کر بھیجا گیا ہے کہ حضرت ادریسؑ کی رُوح چوتھے آسمان پر قبض کر لو۔ تو مَیں نے سوچا کہ وہ تو زمین پر ہیں، اُن کی رُوح چوتھے آسمان پر کیسے قبض کروں؟ ابھی اسی سوچ و بچار میں تھا اور زمین پر اُتر رہا تھا کہ تم اُنھیں لے کر چوتھے آسمان پر آ گئے۔‘‘ پھر ملک الموت نے اُن کی رُوح قبض کر لی۔( قصص الانبیاء، ابنِ کثیر)۔ ابنِ ابی حاتم نے بھی اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں اس حدیث کو ذکر کرتے ہوئے یہ اضافہ کیا ہے کہ’’ حضرت ادریسؑ نے فرشتے سے کہا’’ ملک الموت سے میرے بارے میں سوال کرو کہ میری عُمر کتنی باقی رہ گئی ہے؟‘‘ جب کہ حضرت ادریس ؑ فرشتے کے ساتھ ہی تھے۔ فرشتے کے سوال پر ملک الموت نے کہا’’ جب تک مَیں اُنھیں دیکھ نہ لوں، اُس وقت تک کچھ نہیں بتا سکتا۔‘‘ پھر ملک الموت نے حضرت ادریس ؑکو دیکھ لیا، تو فرشتے سے کہا کہ’’ آپ مجھ سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کر رہے ہیں، جس کی زندگی پَلک جَھپکنے سے زیادہ نہیں رہی۔‘‘ پھر فرشتے نے پَر کے نیچے حضرت ادریس ؑکو دیکھا، تو اُن کی وفات ہو چُکی تھی(قصص الانبیاء، ابنِ کثیر

آپ حضرت آدم کے 500 سال بعد اس دنیا میں تشریف لائے آپ سے پہلے حضرت شیث علیہ السلام نبوت کے منسب پر سرفراز تھے نبوت ملنے سے پہلے آپ شیث(ع) کے دین کو مانتے تھے آپؑ پر30 صحیفے نازل ہوئے۔ آپ کے دور میں انسان جہالت اور بے ادبی میں اتنے گر گئے تھے کہ اللہ کو چھوڑ کر آگ کی عبادت کرنے لگے تھے۔ آپ نے دنیا میں آکر لوگوں کو ہدایت کا رستہ دکھایا اور ادب و علم بھی سکھایا لیکن آپ کی قوم نے آپ کی ایک نہ سنی اور صرف کچھ لوگ اپ پر ایمان لائے اس پر آپ نہایت تنگ اکر خود اور جو ایمان لائے انہیں لے کر وہاں سے ہجرت کر گئے پھر اپ کے ساتھیوں میں سے چند نے آپ سے سوال کیا:- اے اللہ کے نبی ادریس اگر ہم نے بابل کو چھوڑ دیا تو ہمیں ایسی جگہ کہاں ملے گی؟ ادریس نے فرمایا:- 'اگر ہم اللہ سے اُمید رکھیں تو وہ ہمیں سب کچھ عطا کرے گا۔ 'آخرکار آپ مصر پہنچے (اس دور میں مصر ایک خوبصورت جگہ تھی ) آپ نے وہاں پہنچتے ہی اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے سبحان اللہ کہا اور آپ وہیں رہنے لگے اور وہاں اپنا علم پھیلایا آپ وہ پہلے انسان تھے جس نے قلم کے ذریعے لکھا اور لوگوں کو بھی سکھایا۔ پھر آپ نے ان لوگوں کے ساتھ مل کر جو ایمان لے آئے تھے بابل میں برائی اور برے لوگوں کے ساتھ جنگ کی اور فتح یاب ہوئے اور دنیا سے ایک دفعہ برائی کا نام و نشان مٹا دیا۔

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر