اتوار، 24 جولائی، 2022

تمام عالم اسلام کے مومنین جن و انس کو عید مباہلہ مبارک ہو

تمام عالم اسلام کے مومنین جن و انس کو عید مباہلہ مبارک ہو


تمام عالم اسلام کے مومنین جن و انس کو 

عید مباہلہ مبارک ہو

یہ ۹ ھجری تھا جب  عیسائی صرف چہرے دیکھ کر کسی پس و پیش کے بغیر مباہلہ سے ہٹ گئے تھے اور ثابت کر دیا کہ حضور او

ر حضرت محمّد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم  اور ان کے اہلبیت علیہم السّلام حق پر ہیں اور ان کے مقابلے پر آنے والے باطل ہیں-

24ذی الحجہ عید مباہلہ کا دن ہےاس دن رسول خدا

حضرت محمّد صلّی اللہ علیہ والہ وسلّم  نے نصاریٰ نجراں سے مباہلہ کیا اور اسلام کو عیسایت پر کامیابی عطا کی۔فتح مکہ کے بعد پیغمبر

 اسلام  حضرت محمّد صلّی اللہ علیہ والہ وسلّم  نے نجران کے نصاریٰ کی طرف خط لکھا جس میں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔

 نصاریٰ نجراں نے اس مسئلہ پر کافی غور و فکر کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ ساٹھ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو

 حقیقت کو سمجھنے اور جاننے کے لئے مدینہ روانہ ہو۔نجران کا یہ قافلہ بڑی شان و شوکت اور فاخرانہ لباس پہنے  مسجد میں داخل ہوتا

 ہے ۔پیغمبر نے نجران سے آئے افراد کے نسبت بے رخی ظاہر کی ، جو کہ ہر ایک کیلئے سوال بر انگیز ثابت ہوا ۔ ظاہر سی بات ہے

کارواں کے لئے بھی ناگوار گذرا کہ پہلے دعوت دی اب بے رخی دکھا رہیں ہیں ! آخر کیوں؟

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی علی(ع) نے اس گتھی کو سلجھایا ۔ عیسائیوں سے کہا کہ آپ تجملات اور سونے جواہرات کے بغیر، عادی

 لباس میں آنحضرت  حضرت محمّد صلّی اللہ علیہ والہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہو جائیں، آپ کا استقبال ہو گا۔اب کارواں عادی

 لباس میں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ اس وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ نے ان کا گرم جوشی سے استقبال کیا اور

 انہیں اپنے پاس بٹھایا ۔میر کارواں ابوحارثہ نے گفتگو شروع کی : آنحضرت کا خط موصول ہوا ، مشتاقانہ آپ کی خدمت میں حاضر

 ہوئے تاکہ آپ سے گفتگو کریں۔

-جی ہاں وہ خط میں نے ہی بھیجا ہے اور دوسرے حکام کے نام بھی خط ارسال کرچکا ہوں اور سب سے ایک بات کے سوا کچھ نہیں

 مانگا ہے وہ یہ کہ شرک اور الحاد کو چھوڑ کر خدای واحد کے فرمان کو قبول کرکے محبت اور توحید کے دین اسلام کو قبول کریں۔

اگر آپ اسلام قبول کرنے کو ایک خدا پر ایمان لانے کو کہتے ہو تو ہم پہلے سے ہی خدا پر ایمان رکھتے ہیں۔

اگر آپ حقیقت میں خدا پر ایمان رکھتے ہو تو عیسی کو کیوں خدا مانتے ہو اور سور کے گوشت کھانے سے کیوں اجتناب نہیں کرتے۔

اس بارے میں ہمارے پاس بہت سارے دلائل ہیں؛ عیسی مردوں کو زندہ کرتے تھے ۔ اندھوں کو بینائی عطا کرتے تھے ، پیسان

 سے مبتلا بیماروں کو شفا بخشتے تھے۔

آپ نے عیسی علیہ السلام کے جن معجرات کو گنا وہ صحیح ہیں لیکن یہ سب خدای واحد نے انہیں ان اعزازات سے نوازا تھا اس لئے

 عیسی کی عبادت کرنے کے بجائے اسکے خدا کی عبادت کرنی چاہئے-پادری یہ جواب سن کے خاموش ہوا۔ اور اس دوراں کارواں

 میں شریک کسی اور نے ظاہرا شرحبیل نے اس خاموشی کو توڑ :

عیسی، خدا کا بیٹا ہے کیونکہ انکی والدہ مریم نے کسی کے ساتھ نکاح کئے بغیر انہیں جنم دیا ہے۔اس دوران اللہ نے اپنے حبیب کو

 اسکا جواب وحی فرمایا: عیسی کی مثال آدم کے مانند ہے؛کہ اسے(ماں ، باپ کے بغیر)خاک سے پیدا کیا گیا۔إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِندَ اللّهِ

 كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثِمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ{آل عمران /59}

اس پر اچانک خاموشی چھا گئی اور سبھی بڑے پادری کو تک رہیں ہیں اور وہ خود شرحبیل کے کچھ کہنے کے انتظار میں ہے اور خود

 شرحبیل خاموش سرجھکائے بیٹھا ہے۔

آخر کار اس رسوائی سے اپنے آپ کو بچانے کیلئے بہانہ بازی پر اتر آئے اور کہنے لگے ان باتوں سے ہم مطمئن نہیں ہوئےہیں اس

 لئے ضروری ہے کہ سچ کو ثابت کرنے کے لئے مباھلہ کیا جائے ۔ خدا کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہو کے جھوٹے پر عذاب کی درخواست کریں۔

مشہور محدّثین نے اپنی کتابں میں مستند روایات کے مطابق تحریر کیا ہے کہ مباہلہ کا دن وہ  دن ہے جب بی بی فاطمہ زہرا  کو جنگ

 کے علاوہ گھر سے نکلنا پڑا۔ نجران کے عیسائی جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ملنے آئے اور بحث کی کہ حضرت عیسیٰ علیہ

 السلام اللہ کے بیٹے ہیں اور کسی طرح نہ مانے تو اللہ نے قرآن میں درج ذیل آیت نازل کی:


فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللّهِ

 عَلَى الْكَاذِبِينَ{آل عمران/61}

ترجمہ

اے پیغمبر! علم کے آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند, اپنی اپنی

 عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں۔ سورۃ آل عمران آیۃ 61

اس کے بعد مباہلہ کا فیصلہ ہوا کہ عیسائی اپنے برگزیدہ لوگوں کو لائیں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آیۂ مباہلہ پر عمل

 کریں گے اور اسی طریقہ سے فیصلہ ہوگا.

اس پرطے یہ ہوا کہ کل سورج کے طلوع ہونے کے بعد شہر سے باہر (مدینہ کے مشرق میں واقع)صحرا میں ملتے ہیں ۔ یہ خبر

 سارے شہر میں پھیل گئ ۔ لوگ مباھلہ شروع ہونے سے پہلے ہی اس جگہ پر پہنچ گئے ۔ نجران کے نمایندے آپس میں کہتے تھے

 کہ : اگر آج محمد صلی اللہ علیہ وآلہ اپنے سرداروں اور سپاہیوں کے ساتھ میدان میں حاضر ہوتے ہیں ، تو معلوم ہوگا کہ وہ حق پ

ر نہیں ہے اور اگر وہ اپنے عزیزوں کو لے آتا ہے تو وہ اپنے دعوے کا سچا ہے۔

ہر ایک کی نظریں شہر کے دروازے پر ٹکی ہیں اور پھر سورج کی پہلی سنہری کرنوں میں نجران کے داخلی درّہ پر عیسائ راہبوں نے

 دیکھا کہ کُل پانچ نفوس نجران کے میدان میں داخل ہو رہے ہیں ان میں تین بڑے ہیں اور دو معصوم ہیں جنمیں سے ایک ہادئ

 دوجہاں کی آغوش مبارک میں ہے اور دوسرا آپ کی انگلی تھامے ہوئے ہے اس منظرنے جس سے دیکھنے والوں کی حیرت میں

 اضافہ ہوا ، جو کچھ دیکھ رہے تھے اسکا تصور بھی نہیں کرتے تھے  ۔ آنحضرت کے پیچھے پیچھے انکی دختر گرامی سیدۃ النساء العالمین

 حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا چل رہی ہیں اور ان سب کے پیچھے آنحضرت کے عم زاد بھائی ، حسنین امامین کریمین کے والد اور

 خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے شوہر علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔

ان لوگوں کو دیکھتے ہی عیسائی مغلوب ہو گئے اور ان کے سردار نے کہا کہ میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر خدا سے بد دعا کریں

 تو روئے زمین پر ایک بھی عیسائی سلامت نہ رہ جائے گا

پھر ہادئ دوجہاں اور عیسائیوں کے درمیان  جزیہ کی بابت ایک باقاعدہ دستاویزی معاہدہ ہوا-یہ جیت ہر مسلمان کی جیت ہے اور

 رہتی دنیا تک آیت مباہلہ فتح ونصرت کی نشانی ہے .

ہفتہ، 23 جولائی، 2022

پاکستان کا مایہءناز مصوّر'شاعر 'درویش قلندر صادقین

پاکستان کا مایہءناز مصوّر'شاعر'درویش قلندر صادقین  

پاکستان کا مایہءناز مصوّر'شاعر 'درویش, قلندر صادقین اسلامی خطاطی میں بلند مقام حاصل کرنے والے مصور صادقین کو 

اللہ تعالٰی نے ایسا کما ل ہنر عطا فرمایا تھا کہ انکے ہاتھوں سے سورہ رحمٰن کی خطاطی دیکھ کر کافر بھی مسلمان ہوجایا کرتے تھے   -

ان کے ہاتھوں کی انگلیاں اللہ کے نام کے سانچے میں ڈھل گئیں تھیں ۔وہ حقیقت میں انتہائی درویش اور دریا دل خطاط تھے

انہوں نے اسلامی خطاطی کے نادر نمونے

بغیر معاوضہ لئے تخلیق کئے اور کبھی کسی امیر ترین کو بھی اپنی یہ پینٹنگ فروخت نہیں کی تھیں

اور انکی درویشی کا یہ عالم تھا کہ ایک دن ایک شخص ان کے پاس آیا اور نہائت عاجزانہ لہجے  میں کہنے لگا بیٹی کی شادی کی تاریخ طے ہو

 گئ ہے اور ہاتھ بلکل خالی ہے-صادقین اپنی جگہ سے اٹھے اور اندر اپنی والدہ کے پاس جاکر بولے امّاں کچھ ہو تو دے دیجئے ماں نے

 اپنی پان کی پٹاری کھولی اور پاندان کے پیندے میں موجود سو روپے کا نوٹ نکال  کر بیٹے کے ہاتھ پر رکھّا اور بولیں بیٹا بس یہی ہے

 -صادقین نے وہی سو روپے کا نوٹ لے جا کرمجبور باپ کے ہاتھ پر رکھ دیا -وہ شخص گیا نہیں بیٹھا رہا اتنے میں صادقین کے پاس

 ایک نوجوان آیا اور اس نے ایک بھاری رقم کا سربند لفافہ صادقین کو دیتے ہوئے بولا بریگیڈئر صاحب نے بھجوایا ہےصادقین

 اپنی جگہ سے اٹھے اور بند لفافہ جوں کا توں اس سوالی باپ کے ہاتھ پر رکھ دیا -وہ شخص خوشی سے سرشار اپنے گھر واپس چلا گیا -یہ

 ان کی درویشی کی بے شمار مثالوں میں سے صرف ایک مثال ہے

 صادقین نے مصوری کے منفرد نمونے پیش کر کے جہاں انھیں تخلیقی شاہکار بنا دیا ،وہیں رباعیات کہنے میں بھی ان کو کمال

 حاصل تھا - رباعیات کو انہون نے فن کے طور پر لیا، یہی وجہ ہے کہ ان کی رباعیات میں بے ساختہ پن ہے-

کم عمری ہی سے صادقین کو منظر کشی پسند تھی۔ سو گھر کی دیواروں نے اس شوق کی مشق میں‌ ان کا خوب ساتھ دیا، وہ ان پر نقش و

 نگار بناتے رہے اور پھر یہی ان کا فن ٹھیرا۔ صادقین 24 سال کے تھے جب ان کے فن پاروں‌ کی پہلی نمائش ہوئی۔

 پاکستان میں جہاں انہیں اعزازات سے نوازا گیا ، وہیں ہندوستان میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور بنارس میں ہندو یونیورسٹی نے

 بھی انہیں اعزاز بخشا تھا، لیکن صادقین کی طبیعت قلندرانہ تھی اس لیے وہ کسی منزل پر رکتے نہیں تھے

۔اسلامی خطاطی میں بلند مقام حاصل کرنے والے مصور صادقین کو اللہ تعالٰی نے ایسا کما ل ہنر عطا فرمایا تھا کہ انکے ہاتھوں سے

 سورہ رحمٰن کی خطاطی دیکھ کر کافر بھی مسلمان ہوجایا کرتے تھے ۔وہ حقیقت میں انتہائی درویش اور دریا دل خطاط تھے جو بغیر پیسے

 اور خودنمائی کے اپنے دوستوں اور عزیزوں کی فرمائش پر منٹوں میں خطاطی کے نادر نمونے بنا کر دے دیتے جو ان کے گھروں کی

 زینت بن جایا کرتے تھے ۔انہوں نے اسلامی خطاطی کے نادر نمونے بغیر معاوضہ لئے تخلیق کئے اور کبھی کسی امیر ترین کو بھی

 اپنی یہ پینٹنگ فروخت نہیں کی تھیں لیکن انکے انتقال کے بعد ان کے عزیزوں اور دوستوں نے انکی پینٹنگ سے کروڑوں روپے

 کمائے ۔

قیام پاکستان سے قبل امروہہ میں جنم لینے والے سید صادق احمد نقوی ” صادقین“ کے نام سے معروف ہوئے ،پاکستان کی بہت

 سی سرکاری اور اہم ترین تاریخی و ثقافتی عمارتوں میں انکی مصوری و خطاطی کے نمونے آویزاں ہیں ۔سابق جنرل ضیا الحق انکے فن

 کےعاشق تھے ۔ان کے گھر میں صادقین کی خطاطی کے نمونے بطور تبرکاً موجود تھے۔ ۔گزشتہ سال بھی صادقین کی خطاطی کا

 ایک ایسا نادر نمونہ ڈیڑھ کروڑڈالر میں فروخت ہواتھا ۔

اسلامی خطاطی میں بلند مقام حاصل کرنے والے مصور صادقین کو اللہ تعالٰی نے ایسا کما ل ہنر عطا فرمایا تھا کہ انکے ہاتھوں سے سورہ

 رحمٰن کی خطاطی دیکھ کر کافر بھی مسلمان ہوجایا کرتے تھے ۔وہ حقیقت میں انتہائی درویش اور دریا دل خطاط تھے

انہوں نے اسلامی خطاطی کے نادر نمونے بغیر معاوضہ لئے تخلیق کئے اور کبھی کسی امیر ترین کو بھی اپنی یہ پینٹنگ فروخت نہیں

 کی تھیں لیکن انکے انتقال کے بعد ان کے عزیزوں اور دوستوں نے انکی پینٹنگ سے کروڑوں روپے کمائے ۔مصوری کے علاوہ

 انھوں نے غالبؔ اور اقبالؔ کے کلام اور آیات ِ قرآنی کو بھی خطاطی کے قالب میں ڈھالا۔ اُن کا فن، ماورائے عصر تھا اور ہمیشہ رہے

 گا۔صادقین کے ذہن میں تخلیق کا آبشار بہتا تھا۔

انہوں نے شادی اس لئے نہیں کی تھی کیونکہ جب انکی شادی کا وقت آیا تھا انہی

 دنوں میں ان کی ایک بہن اپنے چھوٹے بچّو ں کے ساتھ بیوہ ہو کر اپنی والدہ کے پاس آ گئیں تھیں بس صادقین اپنے آپ کو خدا کی

 راہوں میں وقف کر دیا ان کو حکومت وقت نے آرٹ گیلری کے لئے جو زمین دی انہوں نے وہ زمین شادی ہال بنا کرخدا کی بے

 سہارا مجبور مخلوق کے لئے وقف کر دی

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

جمعہ، 15 جولائی، 2022

بی بی امّ البنین سلام للہ علیہا

 

 

 

بی  بی  امّ    البنین سلام للہ علیہا  

روایت  ہے کہ مولائے کائنات حضرت علی علیہ السّلام بی بی سیّدہ کے وصال کے بعد مغموم رہا کرتےتھے اس لئے ان کے بھائ جناب عقیل نے آپ علیہ السّلام کو عقد ثانی کا مشورہ دیا جس کو مولائے کائنا ت نےاس شرط سے مشروط کر دیا کہ میرے لئے ایسی ہمسر دیکھیں جس کے تعلّق بہادر اور دلاور قبیلے سے ہوآپ علیہ السّلام کے بھائی عقیل ماہر انساب عرب تھےآپ کے بھائ نے کہا میری نظر میں ایک بہادر اور شجاع قبیلےکی دختر ہے جو اس قبیلے کے سردار کی بیٹی ہے اور وہ قبیلہ بنی کلاب ہے جس کا سردار حزام بن خالد ہے اوراس کی دختر فاطمہ بنت کلابیہ ہے اور جناب عقیل نے رشتہ دیا جو انتہائ مسرّت کے ساتھ قبول کیا گیا اور بی  بی  امّ    البنین سلام للہ علیہا بیت الشّرف میں بیاہ کر تشریف لائیں-  یہ جلیل القدر ہستی خداوندمتعال، خاندان نبوت و اہلبیت کے نزدیک ایک عظیم مقام و منزلت رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی شخص ان کے وسیلہ سے خدا کے حضور کوئی دعا کرے تو وہ مستجاب ہوتی ہےاور مومنین

 آپ سے خاص محبت اور عقیدت رکھتے ہیں۔جناب بی  بی ام البنین، رسول خدا صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسّم کی دختر کے بچوںکو اپنی اولاد پر مقدم قرار دیتی تھیں اور اپنی محبت کا زیادہ تر اظہار ان کے تئیں کرتی تھیں اور اسے اپنے لئےفریضہ جانتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے بچوں کو بھی اہل بیت علیہ السلام اور اولاد حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا سے غیرمشروط محبت، اخلاص، عقیدت اور جان نثاری کی تعلیم دی تھی۔ حضرت بی  بی ام ‏البنین بامعرفت اور پر فضیلت خواتین میں سے تھیں۔ آپ اہل بیت کی حقانیت سے خوب واقف تھیں۔ خاندان نبوت سےخاص محبت اور شدید و خالص دلبستگی رکھتی تھیں اور اپنے آپ کو ان کی خدمت کیلئے وقف کئے ہوئے تھیں۔

حضرت ام ‏البنین شرافت، نجابت، پاک دامنی اور اخلاص کا مجسمہ تھیں۔ ان کے اخلاقی فضائل، انسانی کمالات،ایمانی طاقت ، ثابت قدمی، صبر و برد باری، بصیرت و دانائی اور قدرت بیان نے انھیں خواتین کی سردار بنا دیاتھا۔ نسب شریف: آپ فاطمہ بنت حزام تھیں آپ کے والد کی کنیت ابو المحل تھی،وہ خالد بن ربیعۃ بن الوحید بن کعب بن عامر بن کلاب کے بیٹے تھے،آپ کی والدہ ثمامۃ بنت سھل بن عامر بن مالک بن جعفر بن کلاب تھیں ،آپ ماںاور باپ دونوں کی جانب سے بنی کلاب سے تعلق رکھتی تھیں ،جو کہ عرب کے خالص قبائل بنی عامر بن صعصہ سے تھے جن کی شجاعت اور گھڑ سواری زمانے میں معروف تھیں ۔ نیک خاتون وشریف قبیلہ کی دختراور فہمیدہ خاندان کی خاتون بی  بی ام البنین تھیں ان کا تعلق عرب کے شریف ترین قبیلہ سے تھا،جس میں سب کہ سب کرامت اور شرافت کے لئے مشہور تھے،ان کے خاندان والے عرب کے سردار ،سید اور قائدین میں سے تھے ،وہ سب نامور ابطال تھے،انہی میں عامر بن طفیل جو کرم و سخاوت ،سب کی مدد کرنے،اورگھڑ سواری میں یکتا

تھے،اسی طرح ان میں ابو براء عامر بن مالک بن جعفر بن کلاب تھے جو بی  بی ام البنین علیہ السّلام کی والدہ کے جدتھے ان کے لئے کہا جاتا تھا -۔جناب ام البنین میں آپ کے نانا اور داداکی تمام صفات ِجلیلہ پائی جاتی تھی ،اسی طرح اللہ نے انہیں بزرگی اور شرف بھی عطا کی تھیں ،

جب ان کی شادی شیر خدا و رسول امام علی بن ابی طالب کے ساتھ ہوئی اس طرح وہ رسول کے گھر کے علاوہ سب خواتین میں بہترین خاتون قرار پائی،ان میں شرافت ،بزرگی و بلندی ہر جانب سے پائی جاتی تھیں ۔ بی  بی ام البنین ان با فضیلت عورتوں میں سے تھی جو اہلبیت کی حقیقی معرفت رکھتی تھیں اور ان کی ولایت و محبت و مودت میں خالص اور ڈوبی ہوئی تھیں،اہلبیت علیہ السّلام کے نزدیک ان کا بہت بڑا مقام تھا،میدان کربلا میں آپکی عظیم قربانیاں بے مثال تھی اسی طرح آپ کی امیر المومنین کی خدمت اور ان کے بچوں کی بی بی کونین

 فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا-کی وفات کے بعد دیکھ بھال دنیا کے سامنے عظیم مثال تھی ،امیر المومنین علیہ السّلام ے آپ سے شادی ہجرت کے چوبیسویں سال کی۔ مؤرخین نے لکھا ہے:" واقعہ کربلا کے بعد، بشیر نے مدینہ میں بی  بی ام البنین سے ملاقات کی تاکہ ان کے بیٹوں کی شہادت کی خبر انھیں سنائیں۔ وہ امام سجاد کی طرف سے بھیجےگئے تھے، ام البنینسلام للہ علیہا نے بشیر کو دیکھنے کے بعد فرمایا: اے بشیر ! امام حسین علیہ بارے میں کیا خبر لائے ہو؟

بشیر نے کہا: خدا آپ کو صبر دے آپ کے عباس قتل کئے گئے۔ ام البنینسلام للہ علیہا نے فرمایا:" مجھے حسین علیہ السلام کی خبر بتادو۔" بشیر نے ان کے باقی بیٹوں کی شہادت کی خبر کا اعلان کیا۔ لیکن ام البنین مسلسل امام حسین علیہ السّلام کے بارے میں پوچھتی رہیں اور صبر و شکیبائی سے بشیر کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا: "اے بشیر!مجھے ابی عبدا للہ الحسین کی خبر بتادو میرے بیٹے اور جو کچھ اس نیلے آسمان کے نیچے ہے، ابا عبداللہ الحسین علیہ السّلام پر قربان ہو۔" جب بشیر نے امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر دی تو بی  بی ام البنین سلام للہ علیہا نے ایک آہ بھری آواز میں فرمایا: " اے بشیر! تونے میرے دل کی رگ کو پارہ پارہ کیا۔" اور اس کے بعد نالہ و زاری کی۔۔آپ سلام اللہ علیہا معرکہء کربلا کے بعد کبھی چھا وں میں نہیں بیٹھیں ہمیشہ دھوپ میں ہی رہتی تھیں پھر ایک جناب سیّد سجّاد آپ کے پاس تشریف لاءے اور آپ سے فرمایا یا جدّاہ دھوپ میں تمازت بہت  ہے حجرے میں تشریف لےچلئے 'بی بی نے گھبرا کر آسمان کی جانب دیکھا اور اللہ سے گویا ہوئیں 'ائے اللہ ایک امام سے وعدہ ہے

 آخری سانس تک چھاوں میں نہیں بیٹھوں گی دوسرے کا حکم ہے 'میں کس کا کہا مانوں یہ کہ اپنی جگہ سے اٹھِیں اور حجرے میں جانے کے بجائے امام مظلوم سے کیا گیا وعدہ ایفاء ہوا اور آپ سلام للہ علیہا کی روح عالم جاودانی کو کوچ کر گئ

 آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

بدھ، 29 جون، 2022

کارو کاری یا صحیفہ سے نکاح -

>  


پاکستان میں رسم کارو کاری یا صحیفہ سے نکاح کا پس منظر

عورت بھی کتنی مجبور اور مظلوم ہے  ،خدا کا نائب انسان ، عورت کی  صنف کے

 بارے میں خدا کا قانون بھلا کراس کو کہاں کہاں اور کس طرح اپنے مفاد کے لئے

 استعمال کرتا ہے  کہیں وہ دیوداسی ہے تو کہیں  کنواری راہبہ ہے تو کہیں قران سے

 اور اپنے دیکھے پیشواؤں سے بیاہنے کے بعد کہلائ جانے والی مقدّس ہتھنی ہے 

 جس سے کوئ مرد شادی نہیں کر سکتا ہے

دنیا میں پیدا ہونے والی ہر لڑکی جب جوان ہوتی ہے اس کو چاہ ہوتی ہے اپنا شوہر

 اپنے بچّے اپنا گھر آنگن  اور یہ نہیں  تو نفسیاتی  امراض یا گناہ   کی رغبت   پیدا

 ہونا  ایک فطری امر ہے مجھے  نہیں معلوم  کہ پاکستان کے کسی اور علاقہ میں یہ 

 قبیح رسم رائج ہے کہ نہیں لیکن صوبہ سندھ میں  لڑکیوں کے قران سے نکاح کی

 رسم  زمینین بچا نے کے لئے صدیوں سے چلی آرہی ہے  یہ بڑی ہی ظالمانہ اور

 قبیح رسم ہے جس میں ایک اُس ہستی کے فطری جذبات کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے جو

 پروردگارِعالم نے  انسانی مزاج کے مطابق  ودیعت کئے ہوتے ہیں  ،،ابھی حال ہی

 میں  ایک  مخدوم  صاحب کا انتقا ل ہوا ان کی تین بہنیں قران سے

 نکاحی ہوئی ہیں  ۔۔ یعنی اس  رسمِ بد کا چلن  زمینیں رکھنے والی  ہر قوم ہر قبیلے

 میں بلا تخصیص پایا جاتا ہے ،

قران کریم تو سراسر رحمتِ کامل ہے  اس رحمِت کامل اور بہترین دستور العالمین ہے

 اس اعلٰی اور مقدّس ترین دستور  کو اتنی ظالمانہ اور رسم کے لئے استعمال کرنا

 سراسر عتابِ الٰہی کو دعوت  دینا ہوا ناں!اس رسمِ بد میں تمام  انتظامات اصلی شادی

 جیسے ہوتے ہیں لڑکی دلہن بنائ جاتی ہے  پورے پورے گاؤں دعوت ِ نکاح میں مدعو

 کئے جاتے ہیں   پھر قران کریم کی مقدّس صحیفے کے ساتھ مولوی صاحب نکاح  رسم انجام دیتے ہیں۔

ہمارے  وطنِ عزیز کے  صوبہ سندھ میں ایک اور رسم میں  روحانی پیشواؤں سے

 نکاح کر دیا جاتا ہے اس نکاح کا علم اس روحانی پیشوا کو خود بھی نہیں ہوتا ہے پھر

 اس فرضی نکاح کے عوض وہ بد قسمت لڑکی  تمام عمر کنواری بٹھائی جاتی ہیں

 کیونکہ اب وہ اپنے پیر کی امانت ہوتی ہیں ۔۔ چاہے پیر ان کو تمام عمر  پوچھنے کی

 بھی زحمت نا کریں لیکن لڑکیاں انہی کے نام پر جیتی اورمرتی ہیں یہ بھی زمین

 بچانے کی منحوس رسم  ہے پیشواؤں سے نکاح کے بعد لڑکی کا نام ہتھنی ہو جاتا ہے

 اور گاؤں کا کوئ لڑکا اس مقدّس  ہتھنی کے لئے  شادی کرنے کا   سوچ بھی نہیںن سکتا ہے۔۔ یہ بھی زمینیں بچانے کے لئے ایک رسمِ قبیح ہے-دوسری جانب زمینیں  بچانے کے لئے بیٹی یا بہن کاری کا الزام لگا  کر قتل کی جاتی ہے  اس قتل عمد کو عزت کی خاطر قتل کہا جاتا اور کوئ قانونی کارروائ بھی نہیں کی جاتی ہے

جب  میں نے اپنے وطن میں عورت کی اس بے توقیری کا عالم   دیکھا تو دل سے بے اختیار کچھ الفاظ اس  طرح  موزوں ہوئے

میرے قریب مت آؤ

کہ آگ جلتی ہے

قبیح رسموں کی اور رواجوں کی

جھلس نا جاؤ کہیں آنچ میں تم بھی

 مجھے تو گرم فضاؤں میں جیتے جانا ہے

بڑی ہی تلخ حقیقت ہے میری دنیا کی

کسے بتاؤں سہاگن ہوں میں صحیفے کی

مگر !

یہ کیا ہے؟

جسم پیاسا ہے روح جلتی ہے

ایک آرزو ازل سے حوّا کی

کوکھ خالی میری پھڑکتی ہے

میرے قریب مت آؤ کہ آگ جلتی ہے

قبیح رسموں کی اور رواجوں کی

کسے خبر ہے  ؟

ان کی جاگیر کے خزینوں میں

میرے کنوارے سپنوں کے دفن ارماں ہیں

ان کا رشتہ زمین کا رشتہ

ان کی چاہت ہے بس دفینوں میں

شائد اسی لئے پاک رشتہء محبّت کو

نام دیتے ہیں کارو کاری کا

اور قتل کرتے ہیں اپنے ہاتھوں سے

پریم کے ان دیوانوں کا

جن کے دل میں امنگ ہوتی ہے گھر بسانے کی

میرے قریب مت آؤ

کہ آگ جلتی ہے

قبیح رسموں کی اور رواجوں کی

 سیدہ زائرہ عابدی    

جمعرات، 23 جون، 2022

حیوانوں کے دیس میں

حیوانوں کے دیس میں

آج کے روشن زمانے میں بھی پاکستان میں عورتوں کے حقوق ادا کرنے کے معاملے میں کس قدر تنگ نظری پائ جاتی ہے اس کا اندازہ روزانہ کی خبریں سن کردل اندر ہی اندر کانپ جاتا ہے جیسا کہ گزشتہ دنوں پنجاب کے ضلع سرگودھا میں ایک لڑکی کو اس بنیاد پر سسر نے قتل کر دیا کہ وہ سسرال میں رہنے کے بجائے اپنے اور اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے واپس آسٹریلیا جانا چاہتی تھی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی آسٹریلیا میں ملازمت کرتی تھی جبکہ اس کا شوہر بحرین میں ملازمت کر رہا ہے۔ شوہر نے بیوی کو یہ کہہ کر دھوکے سے پاکستان بھیجا کہ میرے ماں باپ اپنے پوتے پوتیوں سے ملنا چاہتے ہیں، لڑکی شوہر کی بات مان کر پاکستان آئی تو سسر نے اس سے پاسپورٹ لے کر واپس آسٹریلیا بھیجنے سے انکار کر دیا اور سسر کی بات نہ ماننے پر کلہاڑی کےوار کرکے قتل کر دیا گیا

پچھلے ماہ 21 مئی 2022 کو بھی سپین سے آئی دو بہنوں کو گجرات میں قتل کر دیا گیا تھا کیونکہ انہوں نے اپنے چچازادبیٹوں سے شادی کرنے سے انکار کر دیا تھا جو ان سے شادی کر کے سپین جانا چاہتے تھے۔ ہمارے معاشرے میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ عورت ظلم سہنے میں برابر ہے۔ آئے دن ان دونوں کو شادی سے انکار پر گولی مار دی جاتی ہے یا اپنی مرضی سے گزارنے کی شریفانہ خواہش  پر کلہاڑی سے قتل کر دیا جاتا ہے۔

اور اگر یہ سب نہیں ہے تو زمین کی خاطر طرح طرح کی جاہلانہ رسومات کے بندھن میں باندھ کر ان سے شادی کا حق چھین لیا جاتا ہے-سوال یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ اتنا سنگ دل اور بے خوف کیوں ہے؟ 

پاکستان کی ٹوٹل آبادی میں سے 64 فیصد لوگ دیہات جبکہ صرف 36 فیصد شہروں میں رہتے ہیں۔ تو بہتر صورت یہی ہے کہ عورتوں کے مسائل پر بات کرتے ہوئے ہمیں اس تقسیم اور دونوں جگہ کے مخصوص حالات کو ذہن میں رکھنا چاہیے تاکہ ہم کسی فیصلہ کن نتیجے پر پہنچ سکیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں دائیں اور بائیں بازو کی تنظیمیں عورتوں کے حقوق اور ان پر ہونے والے مظالم کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بجائے سارا زور اپنے منشور و نظریات کو پھیلانے اور مخالف کو زیر کرنے پر صرف کرتے ہیں۔

بائیں بازو کا سارا زور عورتوں کو گھروں سے نکالنے پر ہوتا ہے گویا کہ عورت گھر سے نکل کر تعلیم حاصل کرنے اور نوکری کرنے کے بعد بالکل محفوظ ہو جائے گی اور پھر کوئی سپین اور آسٹریلیا سے آنے کے بعد پاکستان میں قتل نہیں ہوگی، اور دوسری طرف دائیں بازو کا زور انہیں سات پردوں کے اندر اور مشترکہ خاندانی نظام جیسے فرسودہ سسٹم سے باندھے رکھنے پر ہے، کہ اگر کسی عورت نے سسرال سے باہر جانے کی بات کی تو ہمارا معاشرہ بھی یورپ بن جائے گا۔

افراط و تفریط کے ان دو انتہاؤں پر بیٹھنے کے بعد اس بات پر کوئی سوچنے کو تیار نہیں کہ اگرچہ بحیثیت پاکستانی ہم ایک قوم ہیں لیکن پاکستان کے ہر علاقے کے قبائل اور نسلیں جدا جدا ہیں جن کی اپنی ثقافت اور اپنے اپنے روایات ہیں۔ ان کے مخصوص ثقافت اور روایات میں موجود غلطی کی نشاندہی کر کے اس پر تو بات کی جا سکتی ہے لیکن اگر مجموعی طور تخصیص کیے بغیر روایات کی مخالفت کی جائے اور کچھ الگ لایا جائے تو انسان فطری طور پر اس کی مخالفت ہی کرے گا، کیونکہ انسان نے ابتدائی طور پر ہر چیز سے انکار ہی کیا ہے۔

اگر کوئی وزیرستان، ژوب، پسنی، مٹھیاری اور سخی سرور میں لڑکیوں کی تعلیم کے بجائے ان کی نوکری اور آزادی کے لئے عورت مارچ کرے تو کم از کم درجہ میں بھی اسے بے وقوف کے علاوہ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ہر علاقے کے اعتبار سے مخصوص مسائل اور ظلم کی نشاندہی کر کے ہی قدم بقدم ترقی کی جانب سفر کیا جا سکتا ہے کہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جائے جہاں جنس کی بنیاد پر کسی پر بھی ظلم نہ ہو سکے۔ لیکن اگر دیہی علاقوں کے بجائے شہروں کی بات کی جائے تو وہاں کے ایشوز بالکل مختلف ہیں اور وہاں عورتوں کو تعلیم کے بجائے پسند کی شادی اور گھریلو تشدد جیسے مظالم کا سامنا ہے۔

ملکی قوانین اور اسلام نے بے شک خواتین کو سارے حقوق دیے ہوں لیکن کیا ہمارا معاشرہ وہ حقوق دیتا ہے؟ کیا بحیثیت فرد ہم نے کبھی ان مظالم پر آواز اٹھائی ہے؟ اگر ہم آواز اٹھا بھی لیں تو ہماری آواز یا تو دائیں اور بائیں بازو کے بیانیہ میں کہیں دب جاتی ہے یا پھر کلچر اور مذہب کے ٹھیکیدار سامنے آ کر دفاع میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ا س بات سے انکار ممکن نہیں کہ ہمارے معاشرے نے عورت پر ہر وہ ظلم کیا جو وہ سہ سکتی تھی، اور اگر کہیں اس نے ظلم سہنے اور مظلوم بننے سے انکار کیا تو ہم ثقافتی اور مذہبی حوالے سے اسے بلیک میل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں -کاش کوئ زمانہ پاکستان میں بھی ایسا آجائے جب عورت زات اپنے آپ کو مردوں کے بے جا مظالم اپنے آپ کو مامون سمجھ سکے آمین

ہفتہ، 18 جون، 2022

حضرت محمد ،مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم


حضرت محمد ،مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت سنہ (570ء) میں ربیع الاول کے مبارک مہینےمیں شہر مکہ میں  ہوئ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا تعلق قریشِ عرب کے معزز ترین قبیلہ بنو ھاشم سے تھا۔ اس خاندان کی شرافت ، ایمانداری اور سخاوت بہت مشہور تھی۔ یہ خاندان حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر تھا جسے دینِ حنیف کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے والد عبداللہ بن عبدالمطلب اپنی خوبصورتی کے لیے مشہور تھے مگر ان کا انتقال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیدائش سے چھ ماہ پہلے ہوگیا تھا۔ والدہ کا نام حضرت آمنہ بنت وھب تھا جو قبیلہ بنی زھرہ کے سردار وھب بن عبدمناف بن قصی بن کلاب کی بیٹی تھیں۔ یعنی ان کا شجرہ ان کے شوھر عبداللہ بن عبدالمطلب کے ساتھ عبد مناف بن قصی کے ساتھ مل جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دادا عبدالمطلب قریش کے سردار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا شجرہ نسب حضرت عدنان سے جا ملتا ہے جو حضرت اسماعیل علیہ السلام ابن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔ اور مشہور ترین عربوں میں سے تھے۔ حضرت عدنان کی اولاد کو بنو عدنان کہا جاتا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا بچپن عام بچوں کی طرح کھیل کود میں نہیں گذرا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں نبوت کی نشانیاں شروع سے موجود تھیں۔ایک واقعہ اس وقت  پیش آیا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بدوی قبیلہ میں اپنی دایہ کے پاس تھے۔ وہاں حبشہ کے کچھ عیسائیوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بغور دیکھا اور کچھ سوالات کیے یہاں تک کہ نبوت کی نشانیاں پائیں اور پھر کہنے لگے کہ ہم اس بچے کو اپنی سرزمین میں لے جائیں گے۔ اس واقعہ کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مکہ لوٹا دیا گیا۔ ۔

تقریباًً 25 سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شام کا دوسرا بڑا سفر کیا جو حضرت خدیجہ علیہا السلام کے تجارتی قافلہ کے لیے تھا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایمانداری کی بنا پر اپنے آپ کو ایک اچھا تاجر ثابت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دوسرے لوگوں کا مال تجارت بھی تجارت کی غرض سے لے کر جایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ خدمات حضرت خدیجہ علیہا السلام کے لیۓ بھی انجام دیا کرتے تھے۔ اس سفر سے واپسی پر حضرت خدیجہ کے غلام میسرہ نے ان کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایمانداری اور اخلاق کی کچھ باتیں بتائیں۔ انہوں نے جب یہ باتیں اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کو بتائیں تو ورقہ بن نوفل نے کہا کہ جو باتیں آپ نے بتائیں ہیں اگر صحیح ہیں تو یہ شخص یقیناً نبی ہیں آپ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اچھے اخلاق اور ایمانداری سے بہت متاثر ہوئیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو شادی کا پیغام دیا جس کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ابوطالب کے مشورے سے قبول کر لیا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عمر 25 سال تھی۔حضرت خدیجہ علیہا السلام قریش کی مالدار ترین اور معزز ترین خواتین میں سے تھیں۔

جو حسن صورت و سیرت کے لحاظ سے "طاہرہ" کے لقب سے مشہور تھیں۔ انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تجارتی کاروبار میں شریک کیا اور کئی مرتبہ اپنا سامانِ تجارت دے کر بیرون ملک بھیجا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تاجرانہ حکمت، دیانت، صداقت، محنت اور اعلیٰ اخلاق سے اتنی متاثر ہوئیں کہ آپ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شادی کا پیغام بھجوایا۔ جس کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے بڑوں کے مشورے سے قبول فرمایا۔ اس وقت ان کی عمر چاليس سال تھی جبکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صرف پچیس سال کے تھے۔ خدیجہ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور پہلی ام المومنین ہونے کی سعادت حاصل کی۔ اور 25 سال نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اکلوتی زوجہ اور غمگسار شدید ترین مشکلات میں ساتھی تھیں۔ بقیہ تمام ازواج النبی ان کی وفات کے بعد زوجہ بنیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ساری کی ساری اولاد خدیجہ سے پیدا ہوئی اور صرف ابراہیم جو ماریہ قبطیہ سے تھے جو اسکندریہ کے بادشاہ اور قبطیوں کے بڑے کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بطور ہدیہ پیش کی گئی تھیں۔

میثاق مدینہ میں 53 دفعات شامل تھیں۔ اس کی سب سے اہم خصوصیت یہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہود سے اپنی قیادت تسلیم کرائی جو صدیوں سے مدینہ کی قیادت کرتے چلے آ رہے تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آمد کے وقت مدینہ میں تین یہودی قبائل بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ تھے۔

مسلمانوں کی آمد سے قبل یا مدینہ میں اسلام کی روشنی سے قبل یہودی شہر کے تمام معاملات پر چھائے ہوئے تھے۔ سیاست، اقتدار، معیشت غرض کے ہر شعبہ یہودیوں کے ہاتھ میں تھا اب بھلا وہ کیسے برداشت کر سکتے تھے کہ ان کی قیادت کسی اور کے ہاتھ میں چلی جائے۔ اس لیے وہ مسلمانوں کا وجود اپنے لیے خطرہ سمجھنے لگے تھے۔ ان کی طرف سے خطرے کے امکانات کو کم کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم معاہدہ کرنا چاہتے تھے۔

مسلمانوں کا تحفظ اور اسلامی ریاست کو بیرونی خطرات سے بچانا۔ان سے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قریش کے زخم خوردہ تھے اس لیے یہاں آ کر ہر طرح سے اطمینان کر لینا چاہتے تھے تاکہ یہاں آباد کسی غیر قوم کے اختلافات رکاوٹ نہ بن سکیں۔

بلا رکاوٹ تبلیغِ اسلام ہو سکے۔ان وجوہات کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہودیوں کے تینوں قبائل سے ہجرت کے پہلے ہی سال ایک سمجھوتہ کر لیا جو میثاق مدینہ یا منشور مدینہ کہلاتا ہے۔ رشتۂ اخوت کے بعد دوسرا قدم جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اٹھایا وہ یہودیوں سے سمجھوتہ ہی تھا۔

یہ پہلا تحریری معاہدہ تھا جس نے آج سے چودہ سو سال قبل انسانی معاشرے میں ایک ایسا ضابطہ قائم کیا جس سے شرکائے معاہدہ میں سے ہر گروہ اور ہر فرد کو اپنے اپنے عقیدے پر کار بند رہتے ہوئے آزادی کا حق حاصل ہوا۔ یہودیوں کی مدینہ کی سیاست اور قیادت کا خاتمہ ہوا اور اسلام کا غلبہ ہونے لگا۔ یہودیوں کے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قیادت کو تسلیم کرنے سے مسلمانوں کی سیاست پر بڑا اہم اثر پڑا۔ اس معاہدے کی اہمیت یوں بھی نمایاں ہوئی کہ یہ دنیا کا پہلا بین الاقوامی تحریری معاہدے ہے جو 622ء میں ہوا۔ یہ پہلا تحریری بین الاقوامی منشور ہے جس میں ایک غیر قوم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قیادت کو قبول کیا لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد ان کی جانب سے عہد شکنی ہوئی۔ ان حالات میں بھی آپ نے دوستانہ تعلقات قائم رکھے لیکن جب ان کی جانب سے کھلی بغاوت ہونے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جوابی قدم اٹھایا۔

  

منگل، 14 جون، 2022

جنریٹرکے دھوئیں سے ناگہانی اموات

جنریٹرکے دھوئیں سے ناگہانی اموات

 



جنریٹرکے دھوئیں سے ناگہانی اموات  


  دنیا کی پانچ سو مشہور اسلامی شخصیات کی فہرست میں جن کا تین مرتبہ  نام آیا۔وہ 

 پروگرام ’عالم آن لائن‘ کے روح روان گئے اور  دیکھتے ہی دیکھتے یہی نام انہیں

 شہرت کی بلندیوں تک لے گیا اور وہ پی ٹی وی کے مشہور ترین اینکر بن گئے۔ 

2002 کے عام انتخابات میں وہ ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر رکن اسمبلی منتخب ہوئے اور

 جنرل  پرویز مشرف کی حمایت سے انہیں کابینہ میں وزارت مذہبی امور کا وزیر بھی

 نامزد کیا گیا

اس کے باوجود انہوں نے ٹی وی پر مذہبی پروگرام جاری رکھا جس میں ملک کے

 ممتاز علمائے کرام سے اسلام اور زندگی کے حوالے سے موضوعات پر بات چیت

 کی جاتی تھی۔

ٹی وی میں آنے سے قبل کراچی میں عامر لیاقت کی وجہ شہرت تقریری مقابلوں میں

 کامیابی تھی۔وہ اپنے ہنس مکھ چہرے کے ساتھ ہر ایک کو اپنا گرویدہ بنا لیتے تھے

عامر لیاقت حسین کی زاتی گھریلو زندگی کافی نشیب و فراز سے گزر رہی تھی اور

 پوری قوم کی نظریں ان کی نجی زندگی کے طلاطم پر مرکوز تھیں کہ اچانک  ان کی

 وفات کی خبرسن کرپوری قوم کو افسوسناک دھچکہ لگا اپنے کیرئر کے ابتدائ

 عرصہ میں وہ عام ہی تھے کہ ان کی زات سے منسلک کئ بہترین کرداروں نے انہیں

 بہت خاص بنا دیا -اور پھر ناجانے کیا ہوا کہ ان کے زوال کا دور بہت جلد ان کا دامن

 گیر ہو گیا جس سے وہ تادم حیات نجات نہیں پا سکے یہاں تک کہ فرشتہء اجل نے ان

 کو اپنی آغوش میں سمیٹ لیا 

یہ دنیا بھی ہمارے لئے کتنی بے ثبات ہے کوئ کہ نہیں سکتا کہ  کب کہاں کیسے قضا

 ہم پر وارد ہو جائے لیکن کم از کم ہم خود تو ایک حد تک احتیاط برت سکتے ہیں

 جنریٹر جیسی ہلاکت خیز مشین وہ بھی کمروں میں چلا کر سونا بزات خود اپنی

 قضاکو آواز دینا ہے اور آج کی اس اندوہناک خبر نے ہم سب کو بے حد غمزدہ کر دیا

 کہ معروف شخصیت عامر حسین کمرے میں جنریٹر کا دھواں بھر جانے سے انتقال

 کرگئے

معروف ٹی وی میزبان اور رکن قومی اسمبلی عامر لیاقت حسین کے دوست فہد خان

 نے ان کی موت سے قبل جنریٹر میں آگ لگنے کی خبر کی تردید کردی میڈیا

 سےگفتگو کرتے ہوئے عامر لیاقت کے دوست فہد خان نے کہا کہ رات کو وہ عامر

 لیاقت کے ساتھ تھے، ان کی طبعیت خراب تھی۔فہد خان نے مزید کہا کہ عامر لیاقت

 پریشا ن بھی تھے، تاہم جنریٹر میں آگ لگنے کی خبر درست نہیں ہے

واضح رہے کہ اس سے قبل عامر لیاقت کے ملازم ممتاز کا کہنا تھا کہ گھر

میں اچانک جنریٹر کا دھواں بھرا تو میری سانس بند ہوئی، ڈرائیور جاوید کی آواز آئی

 کہ عامر لیاقت کی طبعیت خراب ہو رہی ہے۔ ملازم ممتاز نے پولیس کو دیے گئے

 بیان میں کہا کہ میں ڈرائیور جاوید اور عامر لیاقت حسین گھر میں موجود تھے، دو

 گھنٹے سے بجلی بند تھی، جنریٹر چل رہا تھا۔ممتاز نے اپنے بیان میں بتایا کہ اچانک

 جنریٹر کا دھواں بھرا تو میری سانس بند ہوئی، میں گھر کا مرکزی دروازہ کھول کر باہر آیا،

 پھر ڈرائیور جاوید کی آواز آئی کہ عامر لیاقت کی طبعیت خراب ہو رہی ہے۔ملازم

 ممتاز کے مطابق ڈرائیور جاوید کے ساتھ مل کر میں نے عامر لیاقت کے کمرے کا

 دروازہ کھولنے کی کوشش کی جس کے بعد ہم کمرے میں داخل ہوئے تو عامر لیاقت

 صوفے پر بے ہوش پڑے تھے۔ممتاز نے بتایا کہ ہم نے عامر لیاقت کی حالت دیکھ

 کرپولیس اور ریسکیو کو اطلاع دی۔ملازم نے مزید بتایا کہ عامر لیاقت کو آج اسلام

 آباد روانہ ہونا تھا۔ 

جنریٹر سے ہلاکتوں کی ایک اور خبر-

پشاور شہر میں جنریٹر سے نکلنے والا دھواں موت کا سبب بن گیا۔ یہاں بھی جنریٹر

 کے دھوئیں سے دم گھٹنے سے چار افراد جاں بحق ہوگئے۔پشاور کے علاقے

 بشیرآباد شگئی ہندکیان میں افسوسناک واقعہ پیش آیا جہاں کمرے میں گیس 

 جنریٹرلگایا

 ہواتھا،لائٹ کے جانےاور آنے کی آنکھ مچولی میں جنریٹر آف تو ہو گیا لیکن اس

 سے نکلنے والا دھواں کمرے سے باہر جانے کا کوئ انتظام نا ہونے کے سبب دھواں

 کمرے میں ہی بھر جانے کےباعث  سے کمرے میں سوئے ہوئے چار افراد کی

 زندگیوں   کو نگل گیا ہسپتال کے زرائع کے مطابق چاروں افراد دم گھٹنے کے باعث

 جاں بحق ہوئے ،مرنے والوں میں باپ ، بیٹا ، بھتیجا اور ایک مہمان شامل ہے۔واقعے

 کی اطلاع ملنے پر ریسکیو اہلکاروں نے لاشوں کو لیڈی ریڈنگ اسپتال منتقل کر دیا۔

اسی طرح ایک شادی کے گھر میں عین شادی کے دن برطانیہ سے آنے والے ایک

 خاندان کو سانحہ سے دو چار ہونا پڑا-ہوا یوں کہ مہندی کی تقریب جب ہو چکی

 توسب اپنی اپنی جگہ سونے چلے گئے اوردو کم عمر مہمان بچّے اپنے کمرے میں

جنریٹر چلا کر سو گئے رات کو جب لائٹ گئ تو بچّے غافل سوتے رہے جنریٹر

 دھواں چھوڑتا رہا  یہاں تک کہ ایک بچّے کی آنکھ کھل گئ اور وہ باہر کی جانب

 بھاگا لیکن دیر ہو چکی تھی وہ معصوم سیڑھیوں پر ہی گر کر مر گیا اور دوسرا

 کمرے میں مردہ ہو چکا تھا  -شادی کے گھر کی خوشیوں کو جنریٹر کا دھواں نگل

 گیا تھا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جنریٹر کمرے میں ہرگز نہیں رکھّا جائے اور

 مجبوری سے رکھنا ہو تو ایگزاسٹ پنکھوں یا روشن دان کا بندوبست کر کے رکھّا جائے 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر