ایک جانب تو یہ حال ہے کہ حکومت سندھ کی عدم توجہ کے باعث شہر کے ہسپتال زبوں حالی کاشکار ہو چکے ہیں ،، تفصیلات کے مطابق صوبہ سندھ کے دیگر اضلاع کی طرح حیدرآباد کے ہسپتالوں کی حالت خستہ ہوچکی ہے، مریضوں کے ساتھ آنے والے ورثاءکے بیٹھنے کا کوئی خاص بندوبست نہیں ہے اور نہ ہی پینے کے لیے پانی کی سہولت میسر ہے، جبکہ عمارتوں کی دیواروں میں دراڑیں اور دروازے و کھڑکیاں ٹوٹ پھوٹ چکی ہیں،صفائی کے ناقص انتظامات نے بھی مریضوں اور اٹینڈنٹس کو پریشانی میں مبتلا کیا ہوا ہے، دوسری جانب حکومت سندھ کے بنائے ہوئے لاڑ کانہ میڈیکل کمپلکس میں بے حساب آوارہ کتے ادھر سے ادھر تک بلا کسی تردد کے دوڑتے پھر رہے ہیں -کیا عوام کے پیسے سے بنائے ہوئے کسی میڈیکل کمپلکس کے استعمال کا یہی درست طریقہ ہےدوسری جانب جامشورو ہسپتال کے اندر کے مناظر بخوبی دیکھے جا سکتے ہیں -مریضوں کے بستروں کے سرہانے دیوار پر بڑی بڑی تصویریں بے نظیر بھٹو - آصف زرداری بھٹو اور-بلاول بھٹو کی لگی ہوئ ہیں اور زیر نظر تصویر میں لاتعداد کتے مریضوں کے بستروں پر آرام کرتے ہوئے دکھائ دے رہے ہیں اب آئے کچھ احوال اسلام آباد کی بے نوا بلڈنگوں کے بارے میں -یہ بلڈنگیں بھی عوا م الناس کے ٹیکسز کے پیسے سے بنائ گئ ہیں -یہاں کتے تو نہیں دوڑ رہے ہیں لیکن یہاں کی ویرانیا ں اپنے وارثین کی ناقدری پر گریہ گناں ہیں
آباد سی ڈی اے نے لاشاری صاحب کے چیئرمین شپ ہوتے ہوئے سی ڈی اے میں ایک بلڈنگ بنائی جوکہF-9 جہاں کئی آڈیٹوریم، کئی نمائشی آرٹ کیلئےکاریڈور، لفٹس، مکمل ایکوئسٹ سسٹم اور ائرکنڈیشنڈ دفتری ایریا اور بہت سی ورکشاپس کیلئے مناسب جگہیں تھیں۔ مگر بعد میں یہ بلڈنگ پہلے تو پرانے ایک چیف جسٹس نثار صاحب کی نظر میں ایک کلب کے نام سے کہلائے جانے پر، قابل تعزیر سمجھی اور سیل کردی گئی۔ پھر دو سال تک سارے جہان میں کووڈ رہاتو ہیلتھ والوں نے اس پر قبضہ کیا۔ انسانوں اور سرکار دونوں کو ٹیکے لگاتے رہے۔ پھر شکر کہ کووڈ ختم ہوا۔ اس کے بعد یہ خوبصورت بلڈنگ گندھارا بلڈنگ کے نام سے دوبارہ زندہ کی گئی اور جگمگائی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی نویں ادبی کانفرنس کے ذریعے وہ بلڈنگ جو بہت مضبوط لکڑی کی شہ نشینوں اور پختہ ماربل کے فرش کے ساتھ اپنی پائیداری کا ہر قدم پر نشان دکھا رہی تھی اس کو بہت دقت اور دن رات کی کاوش کے بعد، قابل استعمال ایسا بنایا کہ او یو پی کے پاس ہی بس فنڈز کی کمی تھی کہ انہوں نے اخباروں میں اشتہار نہیں دیئے، بس فیس بک اور واٹس ایپ سے کام چلایا مگر اس ادبی حس سے نابلد، حکام اور عوام میں ایسی روح پھونکی کہ 3نومبر سے 5نومبر تک ادبی کانفرنس میں دنیا بھر کے ادیبوں کے علاوہ وہ تمام نوجوان، جن کو ہم سب نالائق، علم سے دور اور کتابوں سے ناآشنا کہہ کر رد کردیتے تھے، ان نوجوانوں نے اتنی کشادہ بلڈنگ کو ایسے بھرا کہ سب ان نوجوانوں کے ہجوم میں کہیں کہیں ہم جیسے بزرگ بھی خوشی سے یوں دیکھ رہے تھے اور مجھے وصی شاہ یاد آرہا تھا کہ اسے نوجوانوں کا وزیر بنایا گیا ہے، وہ آکر اس بے کراں ہجوم اور ہر سیشن میں انکی موجودگی سے فائدہ اٹھاتا۔ البتہ سولنگی صاحب میں وہی پرانی ادب کی پیاس نے سر اٹھایا۔ وہ دو دن تک وہ سنتے رہے جو وہ کبھی خود لکھتے تھے اور میڈیا کو صرف خبروں تک ادبی کانفرنس کی خبر تھی۔باقی روزانہ کا سبق، الیکشن، الیکشن وغیرہ وغیرہ۔
اسی طرح ایک اور بلڈنگ جوکہ لاشاری کے زمانے میں انڈین دلی ہاٹ کی طرز پر بنائی گئی۔ بلڈنگ تو چند ماہ میں بغیر بنیادی منصوبہ بندی کے تعمیر ہوگئی۔ بنیادی منصوبہ یہ تھا کہ وہاں پر دستکار خواتین کو رہنے اورا سٹال لگانے کیلئے، کبھی پندرہ دن کبھی ایک ماہ کیلئے اسٹالز دیئے اور رہنےکیلئے کمرہ دیا جائے گا۔ چاہے وہ اکیلی آئیں۔ دوسری کارکنوں اور مردوں کے ساتھ آکر، اس فیملی پلس پر کام فروخت کریں۔ پویلین میں اکیلے مردوں اور نوجوانوں کو داخلے کی اجازت نہیں ہوگی اور باقاعدہ ٹکٹ لے کر لوگ اندر جائیں گے۔ ہر طرح کے ہنر کے اسٹالز صبح 11بجے سے رات 11بجے تک کھلے ہوں گے۔ اسی طرح ہر صوبے کے کھانے کے اسٹالز بھی ہوں گے، میں اس لئے تفصیل سے لکھ رہی ہوں کہ میں چونکہ فیلڈ میں کام کررہی تھی، یہ منصوبہ میں نے بنایا تھا بالکل دلی ہاٹ کی طرز پر۔ پھر وہی ہوا، جو ہمارے ملک میں ہر منصوبے کے ساتھ ہوتا ہے۔ ہوا یہ کہ ایک طرف لاشاری گئے، دوسری طرف چندبیگمات کارکن عورتوں کو پس پشت ڈال کر سامنے آگئیں۔ جب کارکن عورتوں کو لانے کا مسئلہ پیش ہوا، تو وہ گاڑیوں والی خواتین واپس گھروں میں چلی گئیں۔ آج تک کسی نے اس منصوبے کو مکمل کرنے کی جرأت ہی نہیں کی۔لوک ورثہ کے ساتھ ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کھولا گیا، جس کا انچارج مرحوم رؤف خالد کو بنایا گیا۔ شومئی قسمت وہ حادثے میں ماراےگئے۔ اس کے بعد دفتر میں ان کی بیگم نے اپنا دفتر بنا لیا۔ انسٹیٹیوٹ خالی رہا،ابتک خالی ہے۔
اسی سے ملحق ایک بہت وسیع کمپلیکس بن رہا تھا۔ وہ بے نظیر کے زمانے تک چینی اشتراک سے بنتا رہا۔ یہ بہت بڑا پروجیکٹ ہے۔ اس میں کئی میوزک ہال، کئی سینما اور میوزیم شامل ہوتے، اگر مکمل ہوجاتا۔ عمران حکومت نے تو سی پیک بند رکھا تو یہ کمپلیکس کیسے مکمل ہوتا۔اب آیئے ایک اور گلے میں پڑا ڈھول بجائیں۔ پاک چائنہ فرینڈشپ سینٹر ایک بہت وقیع عمارت ہے۔ مگر بنانے والوں نے اسٹیج اتنا اونچا بنایا ہے کہ سامنے بیٹھنے والے نظر ہی نہیں آتے۔ اور بہت سی خامیاں اور اچھائیاں ہیں کہ اسے صرف انعام الحق نے بچوں کے ادب کے میلوں کیلئے، جب تک نیشنل بک فاؤنڈیشن کے سربراہ رہے، استعمال کیا۔ اس کے بعد رات گئی ،بات گئی ۔ بین الاقوامی کانفرنسوںکیلئے، یہ استعمال نہیں کیا جاتا، بے چارہ کھڑا دیکھتا رہتا ہے۔لیاقت باغ میں جو پی این سی اے کا آڈیٹوریم تھا، اس کو چلہ کاٹنے والے نے ہتھیا کے آرٹس کالج، ملحقہ بلڈنگ کو بنا دیا اور وہ آڈیٹوریم کتنے ہی سال سے اپنے شائقین کا منتظر ہے۔
محکمہ ثقافت کا ایک باقاعدہ دفتر بلکہ پوری بلڈنگ جس میں فلمیں بنانے اور فلموں کی ایکسپورٹ اور امپورٹ کا کام ہوتا تھا۔ آغا ناصر اس کے سربراہ تھے۔ وہ کیا رخصت ہوئے۔ پوری بلڈنگ، بلیو ایریا میں کھڑی انتظار کررہی ہے کوئی دن جاتا ہے، خود بخود گر پڑے گی۔پی این سی اے کا اسٹیج بھی منتظر رہتا ہے کہ کسی ملک کا وفد آئے، کوئی ڈرامہ آئے --کراچی میں محکمہ ثقافت ، سیاحت، آرکیالوجی اور آثار قدیمہ کراچی کے ثقافتی ورثے کو محفوظ کرنے میں ناکام ہوگیا،بلڈر مافیا کی جانب سے شہر کے تاریخی عمارتوں کو مسمار اور تبدیل کرنے کا سلسلہ جاری ہے، سیل کی گئی عمارت کھل گئی ہے۔ موصول دستاویزات کے مطابق کراچی کے کاروباری مرکز صدر کے علاقے میں زیب النساء اسٹریٹ کے پلاٹ نمبر SB-4/21 پر تاریخی عمارت میں غیرقانونی تعمیرات کردی گئی،تعمیرات پر محکمہ ثقافت نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) ، ڈپٹی کمشنر جنوبی اور دیگر کو نوٹس جاری کئے، ثقافتی ورثہ قرار دی گئی عمارت میں غیر قانونی تعمیرات پرجاری کئے گئے نوٹس کو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ، ڈپٹی کمشنر جنوبی اور عمارت کے مالک نے رد ی کی ٹوکری میں پھینک دیے، لیکن محکمہ ثقافت کے افسران نے خاموشی اختیار کرلی، عمارت کو محکمہ ثقافت ، سیاحت و آثار قدیمہ کی جانب سے سیل کیا گیا،کچھ ماہ بعد سیل کی گئی عمارت پر غیرقانونی تعمیرات مکمل کردی گئی اور سیل توڑدی گئی ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ، محکمہ ثقافت، سیاحت اور آثار قدیمہ کے افسران کی جانب سے مبینہ طور پر لاکھوں روپے رشوت لینے کے بعدسیل توڑ دی گئی، کوئی کارروائی بھی نہیں کی گئی ہے۔ دوسری جانب عمارت میں قائم ہوٹل کے مالک ایاز کا کہنا ہے کہ سرکاری افسران نے عمارت کا دورہ کیا اور عمارت کو کلیئر کیا ہے ۔ دوسری جانب کراچی کے علاقے لائٹ ہائوس کے قریب ڈاکٹر ضیاء الدین روڈ پر واقع عمارت ایس آر 8/47 بھی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے، لیکن عمارت کے مالک نے غیرقانونی تعمیرات کرکے محکمہ ثقافت ، سیاحت اور آثار قدیمہ کے قوانین کی دھجیاں اڑادیں مگر کوئ پوچھنے والا نہیں ہے ۔
ثقافتی ورثہ ہو یا ہسپتال ہوں یا پھر زندگی کا کوئ شعبہ پیپلز پارٹی کے صدر آصف علی زرداری کو صرف عہدہ چاہئے جو ان کی دولت کو بڑھانے کا سبب ہو باقی عوام بے چارے تو ہیں ہی بے شعور
جواب دیںحذف کریں