ہفتہ، 21 جون، 2025

عید مباہلہ -ایک عظیم الشان دن

 

عید مباہلہ کی اہمیت:

مباہلہ کا واقعہ قرآن کریم میں بھی مذکور ہے، جس میں سورہ آل عمران کی آیت 61 میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے. اہل تشیع اس دن کو اہل بیت (ع) کی فضیلت اور حقانیت کے ثبوت کے طور پر دیکھتے ہیں اور اس دن کو خاص اہمیت دیتے ہیں۔ مباہلہ کے معنی مباہلہ کا مطلب ہے ایک دوسرے پر لعنت بھیجنا، یعنی ایک دوسرے کو بد دعا دینا۔ یہ اس وقت کیا جاتا ہے جب دو فریق کسی بات میں اختلاف رکھتے ہوں اور دلائل سے بات واضح نہ ہو رہی ہو، تو وہ اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ جو جھوٹا ہے اس پر لعنت بھیجے۔نجران کے میدان کا واقعہ تاریخِ اسلام کا ایک اہم اور روحانی اعتبار سے غیر معمولی واقعہ ہے، جو عیدِ مباہلہ سے جُڑا ہوا ہے۔ یہ واقعہ ہجرت کے دسویں سال (10 ہجری) نجران کے عیسائی وفد کے ساتھ پیش آیا، اور قرآنِ کریم کی سورہ آلِ عمران (آیت 61) میں اس کا ذکر موجود ہےنجران کا میدان  ایک قدیم  علاقہ  ہے ۔ زمانۂ جاہلیت اور ابتدائی اسلام میں یہ ایک اہم عیسائی مرکز تھا۔1. عیسائی وفد کی آمد:نجران کے 60 کے قریب عیسائی علماء اور رہنما، جن میں ان کا بڑا پادری ابوحارثہ بن علقمہ بھی شامل تھا،


 مدینہ منورہ آئے تاکہ رسول اللہ ﷺ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی الوہیت  بارے میں گفتگو کریں۔2. مذاکرہ اور بحث:آپ ﷺ نے ان سے قرآن کے مطابق حضرت عیسیٰؑ کی حیثیت بیان کی:بیشک عیسیٰؑ اللہ کے بندے اور اُس کے نبی ہیں، نہ وہ خدا ہیں اور نہ خدا کے بیٹے۔"(سورہ آل عمران 3:59لیکن عیسائی اپنے عقیدہ "تثلیث" (Trinity) پر قائم رہے اور بات کسی نتیجے تک نہ پہنچی۔3. مباہلہ کی پیشکش:جب عیسائی وفد قائل نہ ہوا تو یہ آیت نازل ہوئی:"فمن حاجّک فيه من بعد ما جاءک من العلم فقل تعالوا ندع أبناءنا وأبناءكم ونساءنا ونساءكم وأنفسنا وأنفسكم ثم نبتهل فنجعل لعنت الله على الكاذبين"(آل عمران 3:61)"پس جو شخص اس (عیسیٰؑ کے بارے میں) تم سے جھگڑا کرے، علم کے آجانے کے بعد، تو کہہ دو: آؤ ہم بلاتے ہیں اپنے بیٹوں کو اور تم اپنے  بیٹوں کو، ہم اپنی عورتوں کو اور تم اپنی عورتوں کو، ہم اپنے نفسوں کو اور تم اپنے نفسوں کو، پھر ہم مباہلہ کرتے ہیں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجتے ہیں۔


"میدانِ نجران میں مباہلہ کا دن:صبح کا وقت تھا اور کساء یمنی کے زیر سایہ آنے والے پاک پنجتن  اس شان سے میدا ن نجران میں آتے دکھائ دئے کہ حضرت امام حسن علیہ السلام کی اپنے نانا حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی انگشت مبارک تھامے ہوئے تھے اورسید الکونین کی آغوش مبارک میں حسین علیہ السلام  تھے آپ تینوں کے پیچھے  بی بی سیدہ سلام اللہ علیہا اور بی بی کے عقب میں مولائے کائنات  چل رہے تھے یہ اہلِ بیت کا وہ پاک گروہ تھا جنہیں آپ ﷺ نے چادر کے نیچے لیا تھا — جسے "  کساء" کہا جاتا ہے۔عیسائیوں کا پیچھے ہٹ جانا:جب عیسائیوں نے دیکھا کہ رسول اکرم ﷺ اپنے سب سے عزیز اہلِ بیت کو لے کر آئے ہیں،چنانچہ جب نصرانیوں کے بڑے پادری نے ان مقدس حضرات کو دیکھا تو کہنے لگا اے جماعت نصاریٰ میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے پہاڑ کو ہٹا دینے کی دعا کریں تو اللہ تعالیٰ پہاڑ کو اس جگہ سے ہٹا دے گا، تم ان سے مباہلہ نہ کرو ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے اور قیامت تک روئے زمین پر کوئی نصرانی باقی نہ رہے گا۔


 یہ سن کر نصاریٰ مباہلہ سے رک گئے اور آخر کار انھوں نے جزیہ دینا منظور کیا۔ سرکار دو عالم نے فرمایا اس کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر وہ مباہلہ کرتے تو بندروں اور سوروں کی شکل میں مسخ کر دیے جاتے، جنگل آگ سے بھڑک اٹھتا اور وہاں کے رہنے والے پرندے بھی نیست و نابود ہو جاتے اور ایک سال تک تمام نصاریٰ ہلاک ہو جاتےتو ان کے سردار نے کہا:اگر یہ سچے نبی نہ ہوتے تو اپنے اہل کو ہلاکت کی دعا کے لیے نہ لاتے۔"چنانچہ وہ مباہلہ سے پیچھے ہٹ گئے اور جزیہ (ایک معمولی ٹیکس) دینے پر رضامند ہو کر صلح کر لی۔یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ کے صدق و حقانیت کی زبردست دلیل ہے۔اہلِ بیتؑ کی عظمت اور مقام کا ایک درخشاں پہلو ہے۔"عیدِ مباہلہ" کے طور پر یہ دن بہت سے مسلمان بالخصوص اہلِ تشیع میں منایا جاتا ہے (24 ذوالحجہ)

  عید مباہلہ کی اہمیت:

یہ دن اہل بیتؑ کی عظمت کا دن ہے۔

رسول اللہ ﷺ کی سچائی اور رسالت کا ثبوت ہے۔

یہ دن اتحاد، حق کی فتح، اور باطل کے انکار کی علامت ہے۔

شیعہ مسلمان اس دن کو عید کے طور پر مناتے ہیں، نماز، دعا، زیارت، اور نذریں کرتے ہیں۔

 








جمعہ، 20 جون، 2025

حضرت میثم تما ر عاشق مولا علی ع

  میثم تمار عاشق مولا علی علیہ السلام' کے بہترین ساتھی اور اہلبیت رسول کے جان نثاروں میں شامل ہیں۔وہ  بنی اسد کی ایک خاتون کے غلام تھے اسی قبیلے سے منسوب کیے گئے ہیں۔بعد میں حضرت علی علیہ السلام نے انھیں اس عورت سے خرید کر آزاد کیا اور جب ان کا نام پوچھا تو انھوں نے عرض کیا: "میرا نام سالم ہے"؛ حضرت علیؑ نے فرمایا: "پیغمبر اکرمؐ نے مجھے خبر دی ہے کہ تمھارے عجمی والدین نے تمھارا نام "میثم" رکھا تھا"، میثم نے تصدیق کردی- امیر المومنینؑ نے فرمایا: "اپنے سابقہ نام کی طرف لوٹو جس سے پیغمبرؐ نے بھی تمھیں پکارا ہے"، میثم نے قبول کیا اور ان کی کنیت "ابو سالم" ٹھہری۔ ان کی دوسری کنیت "ابو صالح" تھی سن 61 ہجری میں واقعہ کربلا کے قریب آپ کو حق گوئی کے جرم میں یزید کے کارندے ابن سعد کے حکم پر بے دردی سے قتل کر دیا گیا، اس سے قبل آپ کو قید میں رکھا گیا جہاں آپ پر ظلم و ستم کی انتہا کردی گئی تاہم آپ نے حق کا ساتھ نہ چھوڑا۔ علی علیہ السلام نے آپ کے متعلق شہادت سے کئی برس پہلے فرما دیا تھا کہ اے میثم تمھیں میری محبت میں دار پر چڑھا دیا جائے گا اور اس سے قبل تمھاری زبان کاٹ دی جائے گی، اس وقت میثم نے کہا تھا کہ میری زبان بھی کاٹ دی جائے تو میں حق بات اور آپ کی محبت سے دست بردار نہیں ہوں گا۔


 امام علی علیہ السلام کے نامی گرامی صحابی ہیں۔ میثم کی ابتدائی زندگی کی تفصیلات کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ہاں اتنا ملتا ہے کہ نبی پاک کو بہت پسندتھے اور ام المؤمنین ام سلمہ کے بقول، رسول اللہؐ نے بارہا میثم کو اچھے الفاظ میں یاد کیا ہے اور امیر المومنینؑ سے ان کی سفارش کی ہے۔میثم کو امام علیؑ کی خاص توجہ حاصل تھی اور انھوں نے امامؑ سے بہت سے علوم حاصل کیے۔  وہ کوفہ میں کھجور فروخت کرتے تھے۔میثم گرچہ ایک غریب کھجور فروش تھے مگر پروردگار کی عبادت میں کوئی کسر نہ چھوڑتے یہی وجہ تھی کہ آپ علی علیہ السلام کے بہترین ساتھی رہے۔ بہت سی کرامات اور پیشنگوئیاں ان سے منسوب کی گئی ہیں۔ دوسری روایت کے مطابق، میثم کوفہ کے بعض تاجروں کی درخواست پر کوفہ کے عامل کی شکایت پہنچانے کی غرض سے، ان کے ہمراہ ابن زیاد کے پاس پہنچے تا کہ ان سے مطالبہ کریں کہ وہ کوفہ کے عامل کو برطرف کر دے۔ میثم نے وہاں بلیغ خطبہ دیا۔ عَمروبن حُرَیث، جو ـ ابن زیاد کی طرف سے کوفہ کا والی، عثمانی مسلک اور دشمن اہل بیت ؑ تھا اور ـ دارالامارہ میں موجود تھا، ـ


 اس بد بخت  نے میثم پر جھوٹ اور جھوٹوں کی پیروی کا الزام لگایا لیکن میثم نے کہا "میں سچا اور سچے (مولاعلی علیہ السلام) کا پیروکار ہوں"۔ ابن زبیر نے میثم کو حکم دیا کہ علی ؑ سے بیزاری کا اظہار اور آپؑ کی بدگوئی کریں اور اس کی بجائے عثمان سے دوستی اور محبت کا اظہار کریں اور ان کا خیر و نیکی سے تذکرہ کریں۔ اس نے میثم کو دھمکی دی کہ اگر انھوں نے اس کے حکم کی تعمیل نہ کی تو ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دے گا اور انھیں تختہ دار پر لٹکائے گا۔ گوکہ میثم اس موقع پر تقیہ کر سکتے تھے لیکن انھوں نے شہادت کا انتخاب کیا اور کہا: "امام علیؑ نے مجھے آگاہ کیا ہے کہ ابن زیاد میرے ساتھ یہی سلوک روا رکھے گا اور میری زبان بھی کاٹے گا"۔ ابن زیاد نے بزعم خود، اس غیبی خبر کو جھٹلانے کی خاطر حکم دیا کہ میثم کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے جائیں اور انھیں عمرو بن حریث کے گھر کے قریب تختہ دار پر لٹکا دیا جائے۔ میثم کی زبان کاٹ دی گئ میثم نے تختۂ دار پر بلند آواز سے لوگوں کو بلایا اور کہا کہ حضرت علیؑ کی حیرت انگیز اور پر اسرار حدیثیں سننے کے لیے جمع ہوجائیں۔


 انھوں نے بنو امیہ کے فتنوں اور بنو ہاشم کے بعض فضائل کوبیان کیا۔ عمرو بن حریث نے میثم کی حق بیانی اور عوام کے ازدحام کو دیکھا تو عجلت کے ساتھ ابن زیاد کے پاس پہنچا اور اس کو صورت حال سے آگاہ کیا۔ ابن زیاد نے رسوائی کے خوف سے، حکم دیا کہ میثم کے منہ پر لگام باندھی جائے۔ کہا جاتا ہے کہ میثم تمّار اسلام میں وہ پہلے شخص تھے جن کے منہ پر لگام باندھی گئی۔ ایک روایت کے مطابق، عمرو بن حریث نے ـ جو لوگوں کے میثم کے کلام کی طرف رجحان اور یزیدی حکومت کے خلاف ان کی شورش سے خوفزدہ تھا ـ ابن زیاد سے درخواست کی کہ میثم کی زبان کٹوا دے۔ ابن زیاد مان گیا اور اپنے ایک محافظ کو ایسا کرنے کے لیے روانہ کیا۔ میثم نے زبان کٹوانے سے پہلے حاضرین کو یادآوری کرادی کہ "امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ ابن زیاد میرے ہاتھ پاؤں اور زبان کٹوا دے گا اوراب ابن زیاد نے کہا ہے کہ وہ میری زبان نہیں کٹوائے گا اور میرے مولا کی پیشنگوئی کو جھٹلا دے گا لیکن وہ اس پیشنگوئی کو نہ جھٹلا سکا۔


شہا دت اور  تدفین -ایک روایت کے مطابق میثم کے تختۂ دار پر لٹکائے جانے کے تیسرے روزایک خنجر سے ان کے پیٹ کو زخمی کیا گیا اور انھوں نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا۔ ۔  البتہ ابن ابی الحدید نے لکھا ہے کہ بنو امیہ کے خلاف اور بنو ہاشم کے حق میں خطاب کرنے کے ایک دن بعد ان کے منہ پر لگام باندھی گئی، ان کے منہ اور ناک سے خون جاری ہوا اور تیسرے روز میثم تمّار کی زبان کاٹ دی گئی تو   آ پ اپنے ہی لہو میں نہا گئے  اور کچھ لمحے بعد  ہی   آ پ کی  شہادت  ہو گئ ۔ ۔ میثم تمّار کی شہادت 22 ذوالحجہ سنہ 60 ہجری قمری میں، امام حسینؑ کے عراق میں داخلے سے قبل واقع ہوئی۔ ابن زیاد نے ان کے جسم بے جان کی تدفین سے منع کیا تاہم کوفہ کے چند کھجور فروشوں نے رات کی تاریکی میں ان کی  میت تختۂ دار سے اتار کر قبیلۂ مراد کی زمینوں میں واقع پانی کی ایک گودال میں سپرد خاک کر دیا 

جمعرات، 19 جون، 2025

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکررpart-3

 

 

آپ کو اچھّی طرح معلوم ہئے ممّا کہ اس معاشرے میں ایک قانونی طور پر سمجھدار لڑکے اور لڑکی کو اپنی مرضی کی آزاد زندگی گزارنے کی اجازت ہئے سو میں نے اپنی زندگی آپ سے جدا ہو کر گزارنے کا فیصلہ کر لیا ہئے آپ کو اپنی دنیا مبارک ہو ،،وہ دنیا جس میں آ پ کو ہر چند روز کے بعد بیوٹی پا رلر جانا بخوبی یاد رہتا ہئے ،لیکن یہ یاد نہیں رہتا ہئے کہ اس وقت آپ کی بھوکی بیٹی یونیورسٹی سے گھر آتی ہئے اور فرج سے ٹھنڈے پزا کے پیس نکال کر اوون میں گرم کے کر تنہا بیٹھ کر کھا تی  ہئے میں نے  تھی تمھارے لئے جوڈی کا نتظام کیا تھا تاکہ تم لونلی فیل نا کرو-  اوہو مما جوڈی میری ماں نہیں بن سکتی  تھی ممّادولت کی محبّت نے  نجانے کیوں آپ کے سینے میں دل کی جگہ ڈالر کے کھنک  ڈال دی ،میں مانتی ہوں کہ پیسہ زندگی  کی رگوں میں لہو بن کر دوڑتا ہے,,, ،پیسے کے بغیر زندگی بےوقعت اور ویران ہوتی ہئے


 لیکن دیکھئے ممّا ایک بار نہیں بار بار سوچئے گا کہ آپ نے اس پیسے کو حاصل نہیں کرنا چاہا بلکہ اس دولت کی ہوس کی ہئے جو آپ کے چاروں طرف موجود ہے پھر وہ اپنی ماں کے زانو پکڑ کر بیٹھ گئ اور بے اختیار رونے لگی  ،آپ نے مجھ کو اپنی اکلوتی اولاد رکھ کر میرے اندر ایک پیاس کو جگایا ہئے میری تمنّا تھی کہ میرا اپنا کوئ بھائ ہوتا یا بہن ہوتی میں جس کے ساتھ کھیلتے ہوئے اپنا بچپن بتاتی ،ممّا میرا معصوم بچپن ڈے کئر کی نینیز کے ہاتھوں میں گزرا آپ کو کیا معلوم ،میرے اندر آپ کے ساتھ وقت گزارنے کی،آپ کےقریب رہنے کی، آپ کے ہاتھ سے کھانا کھانے کی کیسی تمنّائیں مچل مچل کر فریاد کرتی تھیں میں اندر سے بہت اکیلی پلتی رہی اور میرے اندر ساتھ ساتھ میری تنہائ پلتی رہی ،کاش ممّا ،کاش آ پ نے مجھے اپنی اولاد سمجھا ہوتا اپنی زندگی کا ایک فالتو پرزہ سمجھ کر گاڑی کی پچھلی سیٹ پر نا ڈالا ہوتا- 


سوہا کے رونے سے جیمز بے چین ہو گیا اور اس نے سوہا کو بازو سے پکڑ اٹھا یا  اور اس کا سر اپنے شانے سے لگا کر اس کا گال بھی تھپتھپایا لیکن سوہا رو رو کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتی ہی رہی ممّا میرا معصوم بچپن ڈے کئر کی نینیز کے ہاتھوں میں گزرا آپ کو کیا معلوم ،میرے اندر آپ کے ساتھ وقت گزارنے کی،آپ کےقریب رہنے کی، آپ کے ہاتھ سے کھانا کھانے کی کیسی تمنّائیں مچل مچل کر فریاد کرتی تھیں میں اندر سے بہت اکیلی پلتی رہی اور میرے اندر ساتھ ساتھ میری تنہائ پلتی رہی ،کاش ممّا ،کاش آ پ نے مجھے اپنی اولاد سمجھا ہوتا اپنی زندگی کا ایک فالتو پرزہ سمجھ کر گاڑی کی پچھلی سیٹ پر نا ڈالا ہوتا 

 
 
  ،کبھی آپ نے سوچا جب ڈیڈ کے پاس سرمایہ ہو گیاتھا تب آپنے مجھ پر توجّہ دینے کے بجائے اپنا زاتی بوتیک کھول لیا آ پ کے بوتیک نے مجھے پہلے سے بھی زیادہ تنہا کر چھوڑا کاش ممّا ،کاش آپ میرے دل کی تنہائ کو جان سکتیں سمجھ سکتیں لیکن آپ کے لئے، ڈالر کی محبّت میری ممتا سے سواتھی،،اور پھر میری زندگی میں جیمز آ گیا اب جیمز میری دنیا ہئے اور میں اپ دونو ں کی اس دنیا کو الوداع کہ رہی ہوں آپکی دولت اور یہ دولت کدہ آپ کو مبارک ہوتم کچھ بھی کہو لیکن میں یہ کہوں گی کہ جو قدم تم نےاٹھا یامجھے اپنی بیٹی سے یہ امّید نہیں تھی فائزہ نے اپنے آنسو ٹشو پیپر میں جذب کرتے ہوئے کہا تو سوہا نے بھی جواب دینے میں دیر نہیں کی اور تلخ لہجے میں کہنے لگی ممّا آپ بھول رہی ہیں کہ میں  تو ڈے کئر کی بیٹی ہوں ,, ڈے کئر کے بہت اچھّے لیکن ممتاسے محروم ماحول میں بڑے ہوتے ہو ئےمیرا بھی دل آپ کی محبّت سے خالی ہو چکا ہے  ، آو جیمز چلیں ،کہ کر سوہا جیمز کے بازو میں اپنا بازو حمائل کئے ہوئے ان کی زندگی کے دولت مند ویرانے کو مذ ید ویران کر کےچلی گئ ،فائزہ سسکیاں لینے لگیں اور نصیرشاہ اپنی جگہ سے اٹھ کرخاموشی کے ساتھ اپنے دل کی نوحہ گری سنتے ہوئے شفّاف شیشے کی کھڑکی میں آ کھڑے ہوئے انہوں نے دیکھا کہ اس مرتبہ بیک یارڈ کی سر سبز بہار میں زندگی کی خزاں نے بسیرا کر لیا تھا 
 
 ختم شد

بدھ، 18 جون، 2025

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکررپارٹ2

 


 اور اس کے ساتھ فائزہ وہیں صوفے پر بیٹھ کر چائے تھرماس سے پیالیوں میں ڈالتے ہوئے کہنے لگیں ارے چھوڑو نصیر شاہ کیا یاد دلادیا ، نا تمھاری امّاں میرا جینا حرام کرتیں اور نا ہم اپنا وطن چھوڑ کر باہر نکلتے ،میری امّاں تو کہتی تھیں آج کل کی لڑکیوں کو بس ایک دھن ہئے کہ ان کے شوہر ان کو لے کر باہر اڑن چھو ہو جائیں تاکہ سسرال کی جنجھٹ پالنا ہی نا پڑے ،وہ یہ نہیں جانتی ہیں پردیس کی پوری سےاپنے دیس کی آدھی ہی بھلی ہوتی ہئے ،ایک تمھاری امّاں کی خاطر میرے سارے اپنے چھوٹ گئے اور پھر بات کرتے ہوئے  فائزہ کا لہجہ آزردہ ہوگیا اور اسی وقت نصیر شاہ  ایک دم ہی آرام کرسی چھوڑکر صوفے پر آ بیٹھےاور کہنے لگےہماری امّاں تو بس اپنی جگہ ایک مثال تھیں لیکن بیٹوں کی شادی کر کے وہ بھی روائتی امّاں ہی بن گئیں  نصیر شاہ کے جواب میں فائزہ کہنے لگی-بس اب ما ضی کی  بھولی بسری باتیں چھوڑئے اور یہ دیکھئے کہ آج ہمارے پاس کیا کچھ نہیں ہئے


فائزہ نے نصیر شاہ کو ٹوکا تو نصیر شاہ بھی سنبھل گئے اور پھر کہنے لگےہاں ! ایک چھوٹے سے کاروبار سے شروع ہونے والی بزنس نے ہمکو ان گنت سٹورزکی چین کا مالک بنا دیا ہے ، اب تو میں اکثر بھول جاتا ہوں کہ بنک میں کتنا سرمائہ پڑا ہئے ،اور آج اس سنہرے مستقبل کو پانے کی جدوجہد میں تم نے قدم قدم میرا ساتھ دیا ہے مجھے تمھاری خدمات کا پورا پورا احساس ہے جب تم سوہا کو ڈے کئرمیں چھوڑ کر تمام تمام دن سٹور پر کھڑے ہو کر میرا ہاتھ بٹاتی تھیں اورتمھارے پیر اکثر سوج جایا کرتے تھےہاں نصیر تم ٹھیک کہ رہئے ہو لیکن یہ بھی تو دیکھو کہ میری وہ محنت رائگاں نہیں گئ ہے مجھے  اسی مستقبل کو پانے کی آرزو تھی جو آج تمنے مجھے دیا ہےیا ہم دونو ں کی محنت نے ہمیں دیا ہئےچائے کی پیالی میں کینڈرل کی گولی ڈال کر چمچ چلاتے ہوئے فائزہ نے کہا اور پھر چائے کی پیالی شوہر کے سامنے رکھ دی -پھرچائے پیتے ہوئے نصیر شاہ نے اپنے موبائل میں وقت دیکھ کر فائزہ سے کہا آج میں نے چھٹی اس لئے کی ہے کہ اپنا اور تمھارا یہ محل دیکھ سکوں -ٹھیک ہے تم اپنے محل کا سروے کرو مین کل کی تیاری مکمل کر لوں  ابھی ایونٹ مینیجر کو  میٹنگ کے لئے بھی آ نا ہے فائزہ   ٹرے میں چائے کے خالی  کپ واپس رکھتے ہوئے کہنے لگیں 


دن گزر چکا تھا اور شام کے سائے درو دیوار پر اترنے لگے تھے -ایسے میں نصیر شاہ  فائزہ کے قریب آ کر کہنے لگے شام ہو رہی ہے سوہا اب تک گھر نہیں آئ ہے-فائزہ  نے اپنے سر کے بالوں سے کرلنگ کلپ نکالتے ہوئے ان کو ہوئے ایک تجاہل عارفانہ سے جواب دیا ،ارے جائے گی کہاں گھر ہی تو آنا ہے اسے- فائزہ کبھی کبھی کچھ باتیں ہمارے اندازوں سے ہٹ کر بھی وقوع پذیر ہوجایا کرتی ہیں ،،نصیر شاہ نے فائزہ سے کہا تو فائزہ نے زرا حیرت کا اظہارکرتے ہوئے نصیر شاہ کی جانب دیکھ کر ان سے سوال کیا مطلب کیا ہئے تمھارا ،،سیدھا سادا مطلب ہئے زرا سا غور کرو گی تو سمجھ میں آجائے گاکہ بس اب سوہا کو اپنے گھر بار کا ہو جانا چاہئے


  فائزہ کا لہجہ پھر حیرت سے چھلکنے لگا اور  نصیرشاہ کو دیکھ کر  بولیں واقعی مجھے یقین نہیں آ رہا ہئے کہ ،کیا واقعی ہم اتنا وقت پیچھے چھوڑ آئے ہیں کہ ہماری بیٹی بھی شادی کے قابل ہو گئ ہےاور اس کے ساتھ سوہا  گیراج  کا آٹومیٹک  ڈور ریموٹ سے کھول کر  گاڑی اندر لا چکی تھی

 

  اور پھرفائزہ اور ان کے شوہر نصیر شاہ کے لئے یہ منظر ایک ڈراؤنے خواب کی طرح تھا جس میں  سوہا  ایک  انگریزلڑکا ایک دوسرے کا بازو تھامے ہوئے اندر آتے دکھائ دئے اور سوہا بے حجابانہ و بے باکانہ انداز میں فائزہ سے مخاطب ہوئ ممّا   ڈئر ،ان سے ملئے یہ میرے بوا ئے فرینڈ ہیں جیمز آئیوان  ،ہم دونوں نے آج ہی مارننگ میں کورٹ میرج کر لی ہے فائزہ جو صوفے کے سامنے ہی کھڑی تھیں اس منظر کی تاب نا لاتے ہوئے صوفے پر گر گئیں  اور ان کے منہ سے ٹوٹے ہوئے الفاظ  نکلے یہ تم کیا نے کیا کیا   اور پھر وہ کہنے لگیں لیکن سوہا ابھی تمھاری عمر اتنی تو نہیں ہوئ تھی کہ تم اپنی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ وہ بھی اس طرح ہمارے بغیر کر گزرتیں -فائزہ  کی بات کے جواب میں سوہا نے ان کو بر جستہ جوابدیا اوہوممّازرا اپنے بوتیک کی اور ڈالر کی دنیا کے حساب و کتاب سے بھی باہر آکر دیکھ لیجئے زمانے کی رفتار کیاہے ،

 

منگل، 17 جون، 2025

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

 


`شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے گزر گئے تھے-لیکن ایک بڑی بزنس کی مصروفیات کے سبب ان کو اتنی بھی مہلت نہیں ملی تھی کہ وہ جی بھر کر اپنے نئے نویلے اس گھر کا گوشہ گوشہ بھی  دیکھ لیتے جو انہون نے بیس برس کے عرصے میں پہلی بار بغیر کسی مارگیج کے بنوایا  تھا ،اسلئے آج  سارے معاملات پس پشت رکھ کرانہوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ گھر پر ہی رہیں گے  اور اور اسی مقصد سے انہوں نے آج اپنے دل پر جبر کر کے چھٹّی بھی کی تھی  -صبح سے دوپہر تک کاوقت انہوں نے سو کر گزارا پھر بیسمنٹ میں جا کر کچھ کاروباری کام کیا اور پھر لاؤنج میں آگئے-سوہا صبح صبح یونیورسٹی جا چکی تھی اگلی شام کو ان کی مسز فائزہ کی جانب سےان  کےاپنے بوتیک کےتیّار کردہ ڈریسز کا مقامی ہال میں   ڈسپلے ہونا تھا وہ اپنے کاموں میں مصروف تھیں اس لئے وہ اکیلے ہی لا ؤنج میں آکرشفّاف شیشے کی دبیز وسیع عریض  بیک یارڈ فیسنگ ونڈو کے ساتھ کھڑے ہو گئے اوران کی نظریں محو نظّار ہ ہوئیں -


مہینہ تو جون کا شروع ہو چکا تھا لیکن محسوس یہ ہو رہا تھا کہ جیسے موسم بہار اپنی جوبن پر ہو لق و دق بیک یارڈ میں حسین پھولوں سے لدے ہوئے باغ و بہار پودے نرم اور خنک ہواؤں میں جھوم رہئے تھے کے مہینے میں موسم بہارکی خنک پروائ باد صبا کی مانند چل رہی تھی لان میں لگی ہوئ گھاس نے پوری طرح سبزرنگ کی چادراوڑھ لی تھی اور یہ تازہ بہ تازہ  ہریالی  آنکھوں میں تراوٹ کا باعث بن رہی تھی بیک یارڈ کے اسی حسین  مرغزار کے بیچوں بیچ زرد پتھّروں سے بنائ گئ پہاڑی اورپہاڑی کے دامن میں جھرنے کی مدھر آواز کے ساتھ گرتا ہوا خوبصو رت آبشار اور چند گز کے نیلگوں پانی کا تالاب اور اس تالاب کے درمیان چہار جانب نرم اور ٹھنڈی پھوار برساتا فاصلے پرفوّا رہ  اس تمام   منظر میں مذید دلکشی کا باعث تھا اور کچھ فاصلے پر  بھاری زنجیرون سے بندھا جھولا جس کی چھت گیری منظر دیکھنے والے کو ہوا میں پھڑپھڑا تے ہوئے اپنی جانب بلا رہی تھی ,,اپنے پرشکوہ محل نما گھر میں شفّاف اور دبیز شیشے کی دیوار کے پیچھے سے ان کو یہ منظر بے حد رومانوی سا محسوس ہوا کافی دیر تک بہت انہماک سے یہ منظردیکھ کر سوچتے رہے 


کینیڈا ،دنیا کا آخری سرا جس کا نام کچھ بھی کہا جائے لیکن اس کا اصل نام برف زار ہی ہونا چاہئے تھاگھر سے باہر کا یہ دلکش اور حسین منظر دیکھ کرپھراچانک ہی نصیر شاہ کا زہن یہاں ہونے والی برف باری کی جانب چلا گیا جواکثر اکتوبر سے شروع ہو کر اپریل اور مئ تک چلتی رہتی ہئے اور سردی کا تو کیاکہنا کہ مئ اور جون کے مہینوں میں بھی ہلکی جیکٹیں پہننی پڑجاتی ہیں باہر کا دیدہ زیب نظارہ دیکھتے ہوئے وہ مسکراتے رہے پھر کچھ دیر بعد وہاں سے ہٹ کر صوفوں کی جانب آکر انہوں نے سینٹر ٹیبل پر رکھا ہواریموٹ کنٹرول ہاتھ میں لے کردیو  قامت اسکرین والا ٹی وی  آن کیا اورریموٹ ہاتھ میں لئے ہوئے آرام کرسی پر نیم دراز ہو گئے کئ چینلز بدل  کر دیکھے لیکن پھر اس سے بھی جی اچاٹ سا ہو گیا  اور پھر ریموٹ آگے بڑھا کر ٹی وی بند کردیا اور پھرآرام کرسی ر درازہو کر پرسکون انداز میں اپنی آنکھیں موند لیں ،آنکھیں بند کرنے کی دیر تھی کہ ان کے زہن کے پردے پر اپنے ماضی کا ایک ایک منظر ڈوب ڈوب کر ابھرنے لگا ،وہ اس دیار غیر میں آ کرکیا سے کیا ہو چکے تھے-شادی کے بعد بیس برس کا وقت گزر جانے کا مطلب ہئے کہ شادی شدہ زندگی پر بڑھاپا آگیا ہو ،


اور واقعی ہوابھی یہی تھا نصیر شاہ کو خیال آیا کہ آج ہی تو انہوں نے آئنے میں آج زرا غور سے اپنا چہرہ دیکھا تھا تو کنپٹیوں کے بالوں میں سفیدی آتر آئ تھی ،اور فائزہ تو بڑی پابندی سے یا تو بیوٹی پارلر جا کر بال رنگوا کر آنے لگی تھیں یاکبھی کبھی گھر پر ہی ہئر ڈائ لگانے لگی تھیں  ،پھر ان کا زہن اس دور میں جا پہنچا جب ان کی اکلوتی بیٹی سوہاکی پیدائش کے کچھ عرصے کے بعد انکے دل  کی تمنّا پکار پکار کر ایک بیٹے کی آرزو کرتی تھی لیکن ان کی خواہش کو عملی روپ دینے کا اختیار  فائزہ کے پاس تھا اورفائزہ نے سختی سے کہ دیا تھا کہ اب وہ مذید فیمیلی کی خواہشمند نہیں ہیں ورنہ گھرکی ترقّی کا پہیہ رک جائے گاآرام کرسی پر موجود سر کے پیچھے دونوں ہاتھ باندھے نیم درازاپنے اطراف وجوانب سے بے نیازبظاہر تو وہ لاؤنج کی منقّش چھت کے نقش و نگار میں  یک ٹک کھوئے ہوئے تھےلیکن دل کے اندر نا تھمنے والی یادوں کی بارات ا س طرح اتر رہی تھی کہ ان کوچائے کی ٹرے لے کرآ نے والی اپنی مسز, فائزہ کے آنے کی بھی آہٹ نہیں ہوئ فائزہ چائے کی ٹرے صوفوں کے آگے رکھّی ہوئ سینٹرٹیبل پر رکھ کر اپنے شوہر سے مخاطب ہوئیں کیا بات ہئے کہاں کھو گئے ہیں 


فائزہ کے جواب میں وہ اس کی جانب دیکھے بغیر آرام کرسی کو ہلکے ہلکے ہلکورے دیتے ہوئے کہنے لگے آج زرا زہن ماضی کی یادو ں میں کھو گیا تھامجھے نہیں معلوم کہ تمھیں یاد ہو کہ نہیں لیکن مجھے اچھّی طرح یاد ہئے ،بلکہ میرے دل کے اوپر تو وہ یادگار گھڑیاں کندہ ہو گئیں ہیں جب ہم نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر اس دیار غیر میں پہلی بارقدم رکھّا تھامیری زندگی کی ان یادگار گھڑیوں کو گزرے پورےپورے بیس برس سات مہینےاور تین دن گزر گئےاس اجنبی زمین پر اس وقت ہم کتنے تہی دامن تھے  پلٹ کر دیکھتا ہوں تو ایک خواب سا لگتا ہے ،اس وقت ہماری کائنات کیا تھی  ?ایک دوست کا دیا ہوا ایک نا کافی پرانا بچھونا جس کو ہم نے  اپنے  سٹو ڈیو ٹائپ   اپارٹمنٹ کے مختصر سے بیڈ روم  میں بچھا  لیا تھا ،اور ایک پراناکمبل جس کو اگر تم پورا اوڑھ لیتی تھیں تو میں سردی کھاتا تھا اور اگر میں نیند کی بے دھیانی میں پورا اوڑھ لیتا تھا تو تم صبح سردی کھانے کی شکائت کرتی تھیں  اور چند برتن جو دوسرے دوست نے اپنی کنجوس بیوی کی آنکھ بچا کر دے دئیے تھے ،اور انہی مفلسی کے دنوں کی یادگار ہماری اکلوتی بیٹی سوہا بھی ہماری غربت کی شریک ہو نے آ گئ

پیر، 16 جون، 2025

پاکستان ٹورزم ڈیپارٹمنٹ کی زبوں حالی

 

 کیا کریں بیگم بچے ضد کر رہے تھے تو میں نے سوچا چلو  کچھ تفریح کروا دوں کیبل کار   پر آ کر ٹکٹ خریدے  لیکن یہ تجربہ ایک خوفناک تجربہ  رہا    کیونکہ  ہمارے   کیبل  کار میں بیٹھتے ہی  کیبل کار حادثے کا شکار ہوگئی  -لاہور کے چوہدری  نیاز الٰہی    اپنی بیگم، چھوٹی بہن اس کے بچے  اور  اپنے  بچوں کے ہمراہ   کئ  گھنٹے تک فضا میں معلق رہے تھے۔چوہدری  صاحب  کا کہنا تھا کہ ابھی ہم کیبل کار بیٹھے  ہی میں تھے کہ تیز طوفان شروع ہو گیا۔ پھر  میں نے  آپریٹر  سے کہا کہ طوفان بہت شدید ہے، ہم لوگ اترنا چاہتے ہیں جس پر آپریٹر نے کہا کہ اب کیبل کار سے اترنا ممکن نہیں ہے اور یہ کہ سفر جاری رکھنے کے علاوہ اب کوئی راستہ نہیں بچا۔’وہ کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ کیبن میں کل آٹھ لوگ تھے جن میں ایک نیا شادی شدہ جوڑا بھی تھا۔ شدید طوفان میں جب کیبل کار تھوڑی دیر چلی تو یک دم جھٹکا لگا اور ان کے ایک بچے کا سر کیبن کے شیشے پر جا کر لگا جبکہ دوسرے بچے گر گئے۔


’میری بیگم جو دروازے کے ساتھ تھیں، وہ بھی کیبن کی زمین پر گر گئیں۔ میں نے فوراً بچوں اور بیگم کو اٹھایا۔ کیبن کے سارے شیشے ٹوٹ چکے تھے جبکہ بچے خوف سے چیخ رہے تھے۔ ہمیں توقع تھی کہ شاید اندھیرا پھیل جانے سے پہلے ہی کوئی مدد آ جائے مگر ایسا ممکن نہ ہو سکا۔’’تھوڑی دیر بعد ہمیں محسوس ہوا کہ لوگ امدادی سرگرمیاں شروع کررہے ہیں مگر اندھیرا پھیل جانے کے بعد تک بھی وہ کسی کی مدد کو نہیں پہنچ سکے تھے۔ ایسے میں کبھی کھبار کسی کیبن سے خوفناک چیخ کی آواز آتی تو ہمارے ساتھ موجود خواتین اور بچوں میں سے بھی کوئی چیخ اٹھتا تھا۔’چوہدری   صاحب  کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ جب ان کے حواس قابو میں آئے تو انہوں نے اپنے دو کم عمر بچوں کو اپنے ساتھ لپٹا لیا۔ ایسے میں ان کے گھر سے فون آیا تو ایک بچے نے اپنے نانا سے کہا کہ ’نانا ابو جلدی کچھ کریں ایسا نہ ہو کہ ہم سب یہاں ہی مر جائیں۔’اس وقت بس ایک ہی خیال تھا کہ اگر مجھے کچھ ہو بھی جاتا ہے تو کوئی بات نہیں مگر میرے بچے کسی طرح بچ جائیں۔ اس صورتحال میں امداد ہم تک پہنچی تو ہم نے اللہ کا کتنا شکر ادا کیا، یہ میں بتا نہیں سکتی۔’


 

  کیبل کار کا فالٹ درست کر کے کیبن نیچے لائے گئے جس کے بعد اہلکاروں نے سیڑھیاں لگا کر لوگوں کو باہر نکالا۔محمد کاشف اور ان کے دوست صوبہ پنجاب کے علاقے لودھراں سے تفریح کے لیے مری پہنچے تھے۔ محمد کاشف نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ پانچ دوست تھے جن میں سے دو نے پہلے ہی کیبل کار پر بیٹھنے سے انکار کردیا تھا جبکہ باقی تین دوست کیبل کار میں بیٹھنے پر مصر تھے۔ان کا کہنا تھا کہ جب وہ لوگ شام کے وقت کیبل کار کے مقام پر پہنچے تو موسم بہت سہانا تھا اور لوگ کیبل کار پر بیٹھنے کے لیے لائنوں میں لگے ہوئے تھے۔کاشف کہتے ہیں کہ ’ابھی ہم لوگ کیبل کار کے پاس پہنچے ہی تھے کہ یک دم طوفان آگیا۔ اس موقع پر میں نے کیبل کار والوں سے کہا کہ اس طوفان میں ہم نے کیبل کار میں نہیں بیٹھنا، تو ان کا کہنا تھا کہ ’بیٹھو بیٹھو، کچھ نہیں ہوتا، ہم لوگ اتنا بڑا پراجیکٹ چلا رہے ہیں ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ کیا ہوگا اور کیا نہیں۔’ موقع پر موجود انتظامیہ نے ہم سے کہا کہ ’اس موسم میں تو اتنا انجوائے کرو گے کہ تمھاری زندگی کا یادگار سفر بن جائے گا۔’محمد کاشف کے مطابق ان کے ساتھ موجود ایک خاندان جس میں خواتین اور بچے بھی تھے، ان سے بھی کیبل کار انتظامیہ نے ایسے ہی الفاظ ادا کیے تھے جس کے بعد لوگ بیٹھنا شروع ہوگئے تھے۔ یہ کوئی چھ بجے کا وقت تھا۔ کیبن میں زیادہ سے زیادہ آٹھ لوگوں کی گنجائش تھی مگر انھوں نے 10 لوگوں کو بٹھا دیا تھا۔


’ہم لوگ سب سے پہلے والے کیبن پر سوار تھے جو سب سے اوپر پھنسی تھی۔ ابھی کیبل کار تھوڑی دیر ہی چلی ہوگی تو طوفان تیز ہوا اور ایک زوردار جھٹکا لگا۔ ہم سب لوگوں کے سر کیبن کے شیشوں، دیواروں اور دروازوں سے لگے جس سے ایک بندے کا سر پھٹ گیا۔ چند لمحوں کے لیے تو سمجھ ہی میں نہیں آیا کہ کیا ہوا ہے۔ کچھ دیر بعد ہوش آیا تو ہم لوگ فضا میں لٹکے ہوئے تھے۔ ہمارے قریب ہی ایک کیبن سے چیخ و پکار اور کلمے کی آوازیں آ رہی تھیں۔’ان کا کہنا تھا کہ انہیں معلوم نہیں کہ وہ کتنی اونچائی پر تھے مگر جب انہوں نے نیچے دیکھا تو انہیں زمین نظر نہیں آئی تھی۔ ’بس ایسے لگا کہ اب ہمیں یہاں سے کوئی بھی نہیں اتار سکتا اور موت ہی ہمارا مقدر ہے۔ ہمارے ساتھ کیبن میں موجود لوگوں نے تو اپنے گھروں اور دوستوں کو فون کر کے معافی تلافی بھی شروع کردی تھی۔’ان کا کہنا تھا کہ گھر اور دوستوں کی فون کالز آرہی تھیں، وہ حوصلہ دے رہے تھے کہ ان کو بتایا گیا ہے کہ آپریشن شروع ہے۔ ’رات کے کوئی بارہ بجے کا وقت ہوگا جب میں نے دیکھا کہ پہاڑوں اور قریب ہی واقع گاؤں سے ٹارچ وغیرہ کی روشنی نظر آرہی تھی۔ پھر ریسکیو اہلکاروں کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ سب لوگ حوصلہ رکھیں، ہم سے پہلے والے کیبن کے لوگوں کو مدد فراہم کردی گئی ہے اور جلد ہی باقی لوگوں تک بھی پہنچ جائیں گے۔’


ان کا کہنا تھا کہ کوئی رات گیارہ بجے جب امداد پہنچی اور وہ محفوظ مقام پر پہنچے تو ایسے لگا کہ موت کے منہ سے باہر نکلے ہوں۔ ’سب ایسے ایک دوسرے کے گلے لگ رہے تھے جیسے شاید دوبارہ کسی کو نہ دیکھ سکیں۔’مری ریسیکو کے انچارج انجنیئر  نے بی بی سی کو بتایا کہ کیبل کار کی دو پلیاں اپنی جگہ چھوڑ گئیں تھیں جس کی اطلاع ملتے ہی وہ فوراً موقع پر پہنچ گئے تھے۔کیبل کار کے کیبن 25 فٹ سے لے کر 800 فٹ تک فضا میں معلق تھے۔ پہلے تین کیبن کے لوگوں کو تو جلد ہی امداد فراہم کردی گئی تھی مگر باقی کیبن کے لوگوں نے رسیوں کی مدد سے اترنے سے انکار کردیا تھا۔ چنانچہ ایک طویل میٹنگ کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ کیبل کار میں موجود فالٹ کو ٹھیک کیا جائے اور اس کے بعد جتنا ممکن ہوسکے ہر کیبن کو کسی محفوظ مقام تک لایا جائے اور وہاں سے پھر لوگوں کو امداد فراہم کی جائے۔’ان کا کہنا تھا کہ یہ پورا آپریشن آٹھ گھنٹے طویل تھا جس میں مجموعی طور پر 106 لوگوں کی جان بچائی گئی، جس میں سے صرف چھ کو ہسپتال بھیجنے کی ضرورت پڑی تھی۔ اس آپریشن میں پاک فوج کے کمانڈوز اور مقامی لوگوں کی بھی مدد حاصل تھی۔

خوبصورت نظاروں سے مالامال جزیرہ ماریشس (موریطانیہ )پارٹ2

   ماریشس نے 12مارچ 1968 میں برطانیہ سے آزادی حاصل کی اور بابائے قوم سرشِو ساگر رام غلام پہلے وزیراعظم نامزد ہوئے ، آج ماریشس دنیا کے نقشے پر ایک آزاد جمہوری ملک کے طور پر جانا جاتا ہے جہاں پارلیمانی نظام حکومت رائج ہے اور عوام عام انتخابات  کے نتیجے میں اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں۔ ماریشس کی اقتصادی خوشحالی کی بات کی جائے تو براعظم افریقہ میں سب سے زیادہ فی کس آمدنی ماریشس کے عوام کی ہے،ماضی میں مختلف اقوام کے زیراثر رہنے والا آج کا ماریشس سماجی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کی جیتی جاگتی مثال ہے جہاں کے بسنے والے مذہبی و لسانی تعصبات سے بالاتر ہوکر اپنے خوبصورت وطن کو مزید خوبصورت بنانے کیلئے پرعزم ہیں۔ ماریشس کے سادہ طبیعت کے عوام اپنی پرخلوص مہمان نوازی کیلئے دنیا بھر میں مشہورہیں، ماریشس کے صاف و شفاف پانی کے ساحل سیاحوں کیلئے خصوصی دلچسپی کا باعث بنتے ہیں جبکہ واٹر اسپورٹس کو بھی خاصی اہمیت حاصل ہے، عالمی سیاحتی مقام ہونے کی بنا پر چائنیز، انڈین، مغربی ہر قسم کے کھانے باآسانی دستیاب ہیں۔ ماریشس کے عوام اور حکومت پاکستان سے دِلی لگاؤ رکھتے ہیں اور اردو زبان پورے ماریشس میں بولی اور سمجھی جاتی ہے اردو زبان کے فروغ کیلئے مشاعروں سمیت مختلف ادبی تقریبات  کا انعقاد ہوتا رہتا ہے ۔


 پوری دنیا کے سیاح یہاں سیر کرنے اور چھٹیاں انجوائے کرنے کے لیے آتے ہیں سیاحت ماریشس کا سب سے بڑا  زر مبادلہ کمانے  کا ذریعہ بن چکا ہے۔ اس ملک کی بیشتر آبادی ماریشس اور راڈرک جزیروں میں آباد ہے جو صرف 13 لاکھ کے قریب ہے جس میں سے جزیرہ راڈرک کی آبادی کا تناسب صرف ڈھائی فیصد ہے۔ اس کے علاوہ بھی اور کئی چھوٹے چھوٹے بے آباد جزیرے ہیں جہاں سیاح موٹر بوٹس کے ذریعے سیر و تفریح کے لیے نکل جاتے ہیں۔ شاید ان جزیروں میں کچھ ماہی گیر خاندان آباد ہوں جن کا وہاں جانے پر ہی پتہ چل سکتا ہے۔ اگر آپ ماریشس میں صرف سیاحتی نقطہ نظر سے آئے ہیں تو آپ کے مالی وسائل بہت مضبوط ہونے چاہئیں۔یہاں کاروبار لگے بندھے اصولوں پر چلتا ہے۔ صبح نو بجے سے شامل پانچ بجے تک سرکاری و غیر سرکاری تمام ادارے اصولوں کی پابندی کرتے ہیں۔ پانچ بجے کے بعد تقریباً تمام کاروباری ادارے بند ہو جاتے ہیں۔ شاید چند بڑی سپر مارکیٹیں سات سے آٹھ بجے تک کھلتی ہیں۔ ملک میں ٹرانسپورٹ کا بہت   منظم  نظام ہے۔


ملک کے تمام حصوں میں تمام شہروں کے بس اڈوں سے مسافروں کے لیے گاڑیاں چلتی ہیں مگر تمام ماریشس میں شام سات بجے کے بعد بسیں چلنا بند ہو جاتی ہیں۔ ایسے میں اگر آپ کے پاس ذاتی ٹرانسپورٹ ہے تو پھر مزے ہیں۔ اگر ذاتی گاڑی نہیں تو پھر ٹیکسیوں کا مہنگا ترین سفر اپنانا ہوگا۔ پورے ملک میں مضبوط ٹرانسپورٹ نظام کے تحت تمام شہروں اور علاقوں میں بس سٹاپ نظر آئیں گے اور آپ کو بس میں سفر کے لیے ہر صورت اس بس سٹاپ پر ٹھہرنا ہو گا۔ آپ راستے میں بس روک کر سوار نہیں ہو سکتے۔حکومت مدارس ‘ مساجد اور حجاج کے مسائل میں بھی تعاون کرتی ہے۔ مسلمان از خود بھی مسلمان کمیونٹی کی اجتماعی کفالت کی غرض سے مختلف تنظیموں کی صورت مین سرگرم عمل ہیں۔ زکوٰۃ صدقات جمع کرکے انہیں فقراء ویتامیٰ اور بیوگان و مساکین میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ملک بھر میں ۲۵۰ اسکول ہیں جو حکومت کی امداد سے چل رہے ہیں۔ اس کے ساتھ دینی اور پیشہ ورانہ تعلیم کے مخصوص ادارے بھی ہیں۔


پرائمری اور مڈل اسکول بھی ہیں اور حفظ قرآن کریم کے ادارے بھی ہیں اسی طرح مساجد کے تحت کچھ حلقے بھی قائم ہیں جو مسلمان بچوں کو عربی زبان ‘ قرآن کریم اور اسلام کی بنیادی تعلیم دے رہے ہیں۔ماریشس میں اسلام اٹھارہویں صدی کے انگریزی ااستعمار کے عہد میں ہندوستان کے راستے داخل ہوا۔ یہاں کے سب سے پہلے مسلمان ماہی گیر ‘ تاجر اور بعض بیرونی افراد تھے۔ یہاں اسلامی بیداری کا حالیہ سبب وہ نوجوان ہیں جو بیرون ملک اسلامی یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کرکے واپس لوٹے ہیں۔۸۰ء کی دہائی سے لے کر تاحال یہ لوگ دعوت دین میں مصروف ہیں انہوں نے عربی زبان کی تعلیم و اشاعت کے لئے وسیع پیمانے پر کوششیں کی ہیں انہی کوششوں کے نتیجے میں حکومت کے پرائمری اور مڈل اسکولوں میں مسلمان طلبہ کے لئے عربی زبان کو شامل کرلیا گیا ہے۔


 ہے ایک اہم ترین بات یہ ہے   دنیا کے دیگر ممالک بالخصوص انڈیا  جن میں شامل ہے تاریخی شخصیات      جیسے علامہ اقبال، مرزا غالب اور کو خراجِ تحسین پیش کرنے کیلئے مختلف  پروگرام کرتے رہتے ہیں لیکن پاکستان کا نام  کہیں بھی نمایا ں نہیں ملتا ہے اور اس کی وجہ سفارت نا اہلی ہے۔کیونکہ پاکستانی سفاتکار قومی مفاد کی بجائے ذاتی عیش و آرام کو ترجیح دیتے   ہیں، حکومتِ پاکستان کو چاہیے کہ بیرون ممالک سفارتکاروں کی تعیناتی کیلئے ایسے افراد کا انتخاب کرے جو باہر کی دنیا میں ملک اور قوم کا نام روشن کرنے والے ہوں  اور ان کی کاوشوں سے  ثقافتی اور تجارتی سطح پر کامیابی  ممکن ہوسکے۔ماریشس  کے معاشرتی  اوصاف  نے   اس جزیرے کو افریقہ کے خوشحال ترین ملک  کا درجہ دیا ہے -اعلیٰ  ظرفی  تفرقہ  سے دوری  سماجی خدمات  ہی وہ اعلیٰ اوصاف ہیں جو کسی بھی معاشرے کی ترقی و خوشحالی کیلئے ضروری ہوا کرتے ہیں،

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

سلطان العارفین حضرت سلطان باہوؒ

    سلطان العارفین ہے جھنگ کے پنڈ اعوان میں (1039ھ – 1628ء) پیدا ہوۓ۔ آپکے والد صاحب حضرت بازید رحمتہ اللہ، متقی اور عالم تھے۔تعلیم  آپ پیدا...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر