جمعہ، 15 نومبر، 2024

اسموگ 'ماحول کی دشمن


 انٹرنیٹ پر ایک تصویر نظر سے گزری جو میرے وطن کے صوبہ پنجاب کی تھی اسکول کے چھوٹے بڑے بچے جو اسموگ میں اسکول جارہے ہیں بلاشبہ صرف چند بڑے بچے تو ماسک لگائے ہوئے باقی تمام ماسک کے بغیر ہیں -میری اپنے وطن کی ماؤں سے گزارش ہے کہ اسموگ کے دنو ں میں بھی ماسک اسی طرح استعمال کروائیے جس طرح کرونا کے زمانے میں کروا رہی تھیں  کیونکہ دھند میں شامل تمام  گیسز انسانی زندگی کو گھٹانے والی ہوتی ہیں  -دوسری خبریں عام ہی تو ہیں  جیسےآج بھی اسموگ اور دھند کی لپیٹ میں رہا، اسموگ کے باعث آج بھی موٹرویز مختلف مقامات سے بند کردی گئی۔ترجمان ٹریفک اور موٹروے پولیس کے مطابق اسموگ اور دھند کے باعث حد نگاہ کم ہونے پر موٹروےایم2 کو لاہور سے کوٹ مومن تک، موٹروے ایم 4 کو لاہور سے درخانہ تک اور ایم 11سیالکوٹ موٹروے کو سمبڑیال تک بند کر دیا گیا ہے۔ترجمان کا مزید کہنا ہے کہ موٹرویز کو عوام کی حفاظت اور محفوظ سفر یقینی بنانے کے لیے بند کیا جاتا ہے، روڈ یوزرز اسموگ اور دھند سیزن میں دن کے اوقات میں سفر کو ترجیح دیا کریں-


موسمی تبدیلیوں اور سردی کی آمد کے ساتھ ہی اسموگ نے مختلف شہروں پر قبضہ جما لیا ہے جب کہ دھند کے باعث شہری آنکھوں میں خارش، کھانسی، گلے یا سینے میں خراش اور جلد کے مسائل  میں گرفتار ہو سکتے ہیں-  اسموگ ہوا میں موجود نائٹروجن آکسائیڈ ، سلفر ڈائی آکسائیڈ ،کاربن مونوآکسائیڈ، فیکٹریوں اور گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں، مٹی اور آگ کے دھوئیں کے مرکب سےبنتی ہے جو انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے۔ اگر فضا میں اسموگ موجود ہے تو کوشش کریں کہ کم سے کم باہر نکلیں اور وہ افراد جو سائیکلنگ یا جوگنگ کرتے ہیں انہیں چاہئیے کہ اپنی ان سرگرمیوں کو کچھ دنوں کے لیے موخر کردیں۔ اگر یہ ممکن نہیں تو شام کے وقت باہر نکلیں جب فضا میں اسموگ کی مقدار کم ہوتی ہے، وگر نہ   نمونیا، نزلہ زکام اور دیگر جان لیوا پھیپھڑوں کے امراض کا باعث بن سکتی ہے۔پنجاب سمیت پاکستان کے مختلف اضلاع میں صبح کے وقت شدید دھند اور اسموگ نے لوگوں کی زندگی اجیرن کرکے رکھ دی ہے۔ 


سموگ کی وجہ سے اب تک ہونے والے ٹریفک حادثات میں6 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوچکے ہیں.موسمی تبدیلیوں اور سردی کی آمد کے ساتھ ہی اسموگ نے مختلف شہروں پر قبضہ جما لیا ہے جب کہ دھند کے باعث شہری مختلف امراض کا شکار ہورہے ہیں -ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمی تبدیلیوں اور گرمی کے بعد سردی کی آمد کے ساتھ ہی ملک میں اسموگ اور دھند کا راج بڑھ جاتا ہے۔ ہر سال اسموگ کی وجہ سے شہری مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں جن میں سانس لینے میں دشواری، گلے میں تکلیف اورآنکھوں کا سوجنا، جلنا اورآنکھوں سے پانی نکلنا وغیرہ شامل ہیں۔اسموگ کی وجہ سے پنجاب بھر میں کوڑا جلانے، فصلوں کے مڈھ کو آگ لگانے اور اینٹوں کے بھٹے میں پرانے ٹائر جلانے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ لیکن اس کی شدت میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے اور ہر طرف لوگ چہروں پر ماسک چڑھائے نظر آتے ہیں،اسموگ انسانوں، جانوروں، درختوں سمیت فطرت کی پیدا کردہ  ہر فائدہ مند شئے کے لیے نقصان دہ ہے اور جان لیوا امراض کا  باعث بنتی ہے، خصوصاً پھیپھڑوں یا گلے کے امراض سے موت کا خطرہ ہوتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ شدید اسموگ سورج کی شعاعوں کی سطح کو نمایاں حد تک کم کردیتی ہے جس سے اہم قدرتی عناصر جیسے وٹامن ڈی کی کمی ہونے لگتی ہے جو امراض کا باعث بنتی ہے۔ 


کسی شہر یا قصبے کو اسموگ گھیر لیں تو اس کے اثرات فوری طور پر محسوس ہوتے ہیں  ماہر موسمیات اور محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد حنیف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سب سے پہلے تو اسموگ اور دھوئیں میں فرق کرنا لازمی ہے۔ کچھ لوگ اسموگ کو معمولی دھواں سمجھ کر نظرا نداز کردیتے ہیں لیکن ان کے لیے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ اسموگ اور دھواں دو بالکل مختلف چیزیں ہیں۔ اسموگ صرف آلودگی اور گاڑیوں کے دھوئیں کی وجہ سے نہیں بنتی بلکہ ہریالی اور درختوں کی کمی کی وجہ سے بھی اسموگ وجود میں آتی ہے۔ لہٰذا اپنے علاقے میں زیادہ سے زیادہ درخت لگانے کی کوشش کریں۔ درخت اسموگ کو بننے سے روکتے ہیں۔پاکستان میں آنے والی اسموگ بہت غیر معمولی ہے۔ یہ پہلے بھی ہوتی تھی لیکن محدود علاقوں میں ہوتی تھی۔ ماضی میں اسموگ صرف چین اور بھارت میں دیکھنے میں آتی تھی لیکن اب یہ پاکستان کے میدانی علاقوں میں شدت سے آرہی ہے،ڈاکٹر حنیف کا کہنا ہے کہ اس سال پاکستان میں آنے والی اسموگ کی شدت ماضی کے مقابلہ میں تین گنا زیادہ ہے۔ اس کی بڑی وجہ بارشوں کا نہ ہونا ہے۔ موجودہ خشک سالی چھ ہفتوں سے زائد کی ہوگئی ہے اوررواں ماہ بھی بارش کا امکان نہیں ہے۔ ایک ہلکی بارش کی توقع تو ہے لیکن وہ ملک کے بالائی علاقوں تک محدود ہوگی۔


 پنجاب کے میدانی علاقوں میں بارش کا امکان نہیں ہے۔ اس وقت اس کی شدت سب سے زیادہ لاہور، فیصل آباد اور گوجرانوالہ میں ہے۔ اگر ہلکی بارش ہوئی تو بھی اس کی شدت میں کمی ہوجائے گی۔ملک میں بارش کی کمی کے حوالے سے ڈاکٹر حنیف کا کہنا تھا کہ بارشوں کی کمی کی وجہ اور اسموگ کی وجہ سے اس وقت گندم کی کاشت نہیں ہورہی کیونکہ اسموگ کی وجہ سے اب تک چاول کی کٹائی مکمل نہیں ہوئی اور بارانی علاقوں میں گندم کی کاشت متاثر ہورہی ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق صوبے پنجاب میں پانچ سال سے کم عمر کے تقریباﹰ سوا کروڑ بچے زہریلے اسموگ کا شکار ہیں۔ حکام نے بیشتر آؤٹ ڈور سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی ہے اور دکانوں کو بھی جلدی بند کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔پنجاب کی حکومت نے کہا کہ "فضا میں دھواں، دھول یا کیمیائی اجزا کے سبب بیکٹیریا کے وائرل انفیکشن سے آشوب چشم یعنی آنکھ سے متعلق بیماری عام ہوتی جا رہی ہیں اور اس سے صحت عامہ کو ایک سنگین خطرہ لاحق ہے۔"حکومت نے اپنی نوٹس میں مزید کہا کہ کھلی فضا میں کھیلوں کی تقریبات، نمائشیں، تہوار اور ریس ٹورینٹس  میں کھانے پر پابندی عائد ہے، 


 

جمعرات، 14 نومبر، 2024

ہوٹل روز ویلٹ -پی آئ اے کے سنہری دور کی یادگار

       ایک خبر کے مطابق نگران وزیراعظم کی ہدایت پر پی آئی اے کے اثاثوں کی نجکاری کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ امریکہ میں پی آئی اے کے روزویلٹ ہوٹل کی فروخت کے لیے بھی اقدامات تیز کر دیے گئے ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ نجکاری کمیشن نے روز ویلٹ ہوٹل کی نیلامی سے متعلق فنانشل ایڈوائز کے تقرر کے لیے دلچسپی رکھنے والی فرموں سے 9 اکتوبر تک پیشکش طلب کر لی ہیں۔ روز ویلٹ ہوٹل اس وقت ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ قبل ازیں جنوری میں اس وقت کے وفاقی وزیر ریلوے اور ہوا بازی خواجہ سعد رفیق نے اعلان کیا تھا کہ روز ویلٹ ہوٹل لیز پر دینے کیلئے نیویارک سٹی ایڈ منسٹریشن کے ساتھ معاہدہ طے پا گیا ہے اور یہ معاہدہ ہونے سے دو سو بیس ملین ڈالر کی آمدنی ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ تین سال کیلئے ہونے والا معاہدہ پاکستان کے مفاد میں ہے، تین سال بعد معاہدہ ختم ہونے پر ہوٹل واپس پاکستان کو مل جائے گا جبکہ معاہدے سے سول ایوی ایشن کا کوئی ملازم بیروزگار نہیں ہو گا۔


پی آئی اے کو ہوٹل کی عمارت خریدنے سے پہلے ہوٹل کے اسوقت کے مالک پال ملسٹین کے ساتھ ایک طویل قانونی جنگ لڑنا پڑی۔پال ملسٹین کا خیال تھا کہ ہوٹل کی قیمت اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اس سے قبل سنہ 2005 میں پی آئی اے نے سعودی پرنس کے ساتھ ایک سودے میں روزویلٹ کے 99 فیصد شئیر خرید لیے اور سعودی شہزادے کے پاس صرف ایک فیصد شیئر ہی رہ گئے۔سنہ 2007 میں پی آئی اے نے ہوٹل کی مرمت اور از سر نو تزئین و آرائش کا کام شروع کیا جس پر چھ کروڑ پچاس لاکھ ڈالر کا خرچہ آیا۔نیویارک کے روزویلٹ ہوٹل کے قیام کو ایک صدی ہو گئی ہے۔ اس کا افتتاح 23 ستمبر سنہ 1924 میں ہوا تھا۔ امریکی صدر تھیوڈر روزویلٹ کے نام پر بنائے گئے اس ہوٹل کی تعمیر پر اس وقت ایک کروڑ بیس لاکھ ڈالر رقم صرف ہوئی تھی۔ یہ ہوٹل ایک خفیہ زیرِ زمین راستے سے نیویارک کے گرینڈ سینٹرل سٹیشن سے بھی جڑا ہوا تھا۔روزویلٹ ہوٹل دنیا بھر میں وہ پہلا ہوٹل تھا جس نے اپنے مہمانوں کی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے چائلڈ کیئر اور پالتو جانوروں کے لیے بھی خصوصی سروس مہیا کرنا شروع کی تھی۔


 اس کے علاوہ 1947 میں روزویلٹ وہ پہلا ہوٹل تھا جس نے کمروں میں ٹیلی وژن سیٹ مہیا کیے۔کونریڈ ہلٹن نے 1943 میں یہ ہوٹل خرید لیا۔ کونریڈ ہلٹن بعد میں والڈورف ایسٹوریا اور دی پلازہ جیسے اعلی معیار کے ہوٹلوں کے مالک بھی بن گئے لیکن انھوں نے اپنا قیام روزویلٹ ہوٹل کے صدارتی سوئٹ میں ہی رکھا۔روز ویلٹ ہوٹل میں کون کون ٹھہر چکا ہے؟سنہ 2015 میں جب نواز شریف نیویارک تشریف لے گئے تو اس وقت بھی انھوں نے ویلڈورف اسٹوریا کا ہی انتخاب کیا تھا جب کہ انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی اور چین کے صدر شی جن پنگ بھی اس ہوٹل میں مقیم تھے۔جنوبی ایشیا کے ان دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کو اتنے مہنگے ہوٹلوں میں قیام پر امریکی صحافی اکثر حیران ہوا کرتے تھے۔سنہ 2008 میں صدر آصف علی زرداری جب نیویارک گئے تھے تو وہ روز ویلٹ ہوٹل میں ٹھہرے تھے اور ان کے قیام کے لیے ہوٹل کا صدارتی سوئٹ بک کرایا گیا جس کا ایک رات کا کرایہ چھ ہزار ڈالر یومیہ تھا۔


اس سے قبل سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے اکتوبر سنہ 2006 میں امریکہ کے دورے کے دوران نیویارک میں اس ہوٹل کا انتخاب کیا تھا۔ صدر مشرف کا یہ دورہ اخراجات کے اعتبار سے مہنگا ترین دورہ تھا۔اس زمانے کے اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق صدر مشرف کے قیام کے دوران پاکستان سفارت خانے نے 28 لیموزینز کرائے پر حاصل کی تھیں جن کا کرایہ لاکھوں ڈالر میں ادا کرنا پڑا تھا۔صدر مشرف اکتوبر سنہ 2001 میں بھی اپنے امریکی دورے کے دوران اسی ہوٹل میں ٹھہرے تھے۔پی آئی اے کی ملکیت سنہ 1979 میں پی آئی اے نے سعودی عرب کے شہزادے فیصل بن خالد بن عبدالعزیز السعود کے ساتھ مل کر اس کو لیز پر حاصل کر لیا۔


 اس لیز کی شرائط میں ایک شق یہ بھی شامل تھی کہ بیس برس بعد اگر پی آئی اے چاہے تو اس ہوٹل کی عمارت بھی خرید سکتی ہے۔ اس کے بعد پی آئی اے نے اپنے مالی خصاروں کو پورا کرنے کے ہوٹل کو بیچنے کے بارے میں بھی سنجیدگی سے غور کرنا شروع کیا لیکن بعد میں یہ فیصلہ ترک کر دیا گیا۔روز ویلٹ ہوٹل نیویارک کے مرکز مین ہیٹن کی 45ویں اور 46 ویں سٹریٹ کے درمیان واقع ہے جو نیویارک کے گرینڈ سنٹرل سٹیشن سے صرف ایک بلاک دور ہے۔ یہاں سے ٹائمز سکوائر اور براڈ وے جانے میں صرف پانچ منٹ لگتے ہیں۔


 
 

بدھ، 13 نومبر، 2024

تحریک خلافت کے روح رواں "مولانا محمد علی جوہر"

 

 ہندوستانی مسلمانوں کے عظیم رہنما محمد علی،  ریاست رام پور 1878 عیسوی  میں پیدا ہوئے -  دو سال کے تھے کہ والد کا انتقال ہوگیا۔۔ ابتدائی تعلیم رام پور اور بریلی میں پائی۔ اعلی تعلیم کے لیے علی گڑھ چلے گئے۔ بی اے کا امتحان اس شاندار کامیابی سے پاس کیا کہ آلہ آباد یونیورسٹی میں اول آئے۔ آئی سی ایس کی تکمیل آکسفورڈ یونیورسٹی میں کی۔ واپسی پر رام پور اور بڑودہ کی ریاستوں میں ملازمت کی مگر جلد ہی ملازمت سے دل بھر گیا۔ اور کلکتے جا کر انگریزی اخبار کامریڈ جاری کیا۔ مولانا کی لاجواب انشاء پردازی اور ذہانت طبع کی بدولت نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرون ہند بھی کامریڈ بڑے شوق سے پڑھا جاتا جاتا تھا۔انگریزی زبان پر عبور کے علاوہ مولانا کی اردو دانی بھی مسلم تھی۔ انھوں نے ایک اردو روزنامہ ہمدرد بھی جاری کیا جو بے باکی اور بے خوفی کے ساتھ اظہار خیال کا کامیاب نمونہ تھا۔ جدوجہد آزادی میں سرگرم حصہ لینے کے جرم میں مولانا کی زندگی کا کافی حصہ قید و بند میں بسر ہوا۔   تک تحریک خلافت کی تاریخ کا سوال ہے دیکھنے میں آیا ہے کہ اکثر مصنفین و مؤلفین اس پرسرسری گذر گئے اور جس نے کچھ لکھا بھی تو تاریخ اور سنہ تک موجود نہیں۔ البتہ گاندھی جی کی زندگی پر بہت کچھ لکھا گیا جس سے کافی مدد ملتی ہے کیونکہ ۱۹۱۸ء؁ سے ۱۹۲۵ء؁ تک گاندھی جی کی زندگی اور تحریک خلافت ایک ہی دھاگے میں پروئے ہوئے ہیں۔



 اسلامی خلافت کا تصور اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ اسلام کا۔ لیکن آج وہ ایک بھولا ہوا سبق ہے۔ تحریک خلافت کا یہ پہلو بھی قابل ذکر ہے کہ اس سے ہمارے ملک میں آزادی کامل کی بنیاد پڑی۔ اور ہندو مسلم اتحاد کا بیج بویا گیا۔ تحریکِ خلافت ایک مشعل تھی جس نے ہندوستان کے ضمیر کو روشن کیا اور اس اجالے میں اس نے اپنے آپ کو دیکھا۔ فروری ۱۹۲۰ءمین بنگال کی صوبائی خلافت کانفرس کے صدر کی حیثیت سے مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنے خطبۂ صدارت میں مسلۂ خلافت کی شرعی حیثیت بر بحث کرتے ہوئے کہا تھا۔’اسلام کا قانون شرعی یہ ہے کہ ہر زمانے میں مسلمانوں کا ایک خلیفہ و امام ہونا چاہئے ۔ خلیفہ سے مقصود ایسا خود مختار مسلمان بادشاہ اور صاحب حکومت و مملکت ہے جو مسلمانوں اور ان کی آبادیوں کی حفاظت اور شریعت کے اجراء و نفاذ کی پوری قدرت رکھتا ہو۔ اور دشمنوں سے مقابلہ کے لئے پوری طرح طاقتور ہو۔ صدیوں سے اسلامی خلافت کا منصب سلاطین عثمانیہ کو حاصل ہے اور اس وقت ازروئے شرع تمام مسلمانانِ عالم کے خلیفہ و امام وہی ہیں۔ پس ان کی اطاعت اور اعانت تمام مسلمانوں پر فرض ہے۔ اسلام کا حکم شرعی ہے کہ جزیرۃ العرب کو غیر مسلم اثر سے محفوظ رکھا جائے اس میں عراق کا ایک حصہ بغداد بھی داخل ہے۔




 پس اگر کوئی غیر مسلم حکومت اس پر قابض ہونا چاہے یا اس کو خلیفہ اسلام کی حکومت سے نکال کر اپنے زیر اثر لانا چاہے تو یہ صرف ایک اسلامی ملک سے نکل جانے کا مسئلہ نہ ہوگا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ایک مخصوص سنگین حالت پیدا ہو جائے گی۔ یعنی اسلام کی مرکزی زمین پر کفر چھا جائے گا۔ پس ایسی حالت میں تمام مسلمانِ عالم کا اولین فرض ہوگا کہ وہ اس قبضہ کو ہٹانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔ اسلام کے مقامامت مقدسہ میں بیت المقدس اسی طرح محترم ہے جس طرح حرمین شریف اسکے لئے لاکھوں مسلمان اپنی جان کی قربانیاں او یورپ کے آٹھ صلیبی جہادوں کا مقابلہ کر چکے ہیں۔ پس تمام مسلمانوں کا فرض ہے کہ اس مقام کو دوبارہ غیر مسلموں کے قبضے میں نہ جانے دیں۔ خاص طور سے مسیحی حکومتوں کے قبضہ واقتدار میں۔ اور اگر ایسا ہورہا ہے تو اس کے خلاف دفاع کرنا صرف وہاں کی مسلمان آبادی ہی کا فرض نہ ہوگا بلکہ بیک وقت وبیک دفعہ تمام مسلمانانِ عالم کا فرض ہوگا‘‘  جوہر  مولانا جوہرؔ تحریک خلافت کے روح رواں اور جنگ آزادی کے میر کارواں تھے۔ ایک نڈر، حق گو، بے باک صحافی، مولانا عبدالماجد دریاآبادی نے ان کے لئے کہا تھا کہ ان کی آواز مشرق نے بھی سنی اور مغرب نے بھی“


 


مشہور نو مسلم انگریز مصنف و مترجم قرآن مسٹر محمد مارڈیوک پکتھال سابق ایڈیٹر ممبئی کرانیکل نے ڈاکٹر سید محمود کی کتاب’’خلافت اور اسلام‘‘ کے دیباچہ میں لکھا ہے:۔مذہب اسلام حیات انسانی کا مکمل قانون ہے اور تہذیب و شائستگی کا مخزن ہے جو ابھی تک اپنے عروج کو نہیں پہونچا ہے۔ خدا کے قوانین جو بنی نوع انسانی پرکلیتاً حکمراں ہیں اور وہ قوانین جن کی پابندی پر انسانی زندگی کی اخلاقی ترقی مبنی ہے سوائے قرآن شریف کے اور کسی کتاب میں صراحتاً موجود نہیں ہے۔ اسلامی تہذیب قوانین الٰہی پر مبنی ہے۔ خلیفہ اس کا دینوی سردار ہے، خواہ اہل عرب ہوں یا غیر اہل عرب۔ خواہ اس کا دارالحکومت بغداد ہو، مدینہ ہو یا قسطنطنیہ، اور اسلامی تہذیب اور ترقی کا مرکز، مرکزِ خلافت کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے‘’’تحریکِ خلافت کے رہنماؤں میں اصل روح مولانا محمد علی جوہر کی کام کر رہی تھی وہ شعلہ جوالہ بنے ہوئے تھے۔ گاؤں گاؤں قصبہ قصبہ پھر کر پورے ملک کو حرارتِ ایمانی اور جوشِ آزادی سے مخمور بنا دیا تھا۔ دراصل انھیں نے گاندھی جی کو ان کے گوشۂ عزلت سے نکالا اور ان کے ساتھ دورہ کر کے اور ان کی جے کارلگوا کر ان کو عوامی لیڈر اور ملک کا محبوب رہنما بنا دیا۔ تحریک خلافت و آزادی وطن کے ساتھ تحریک ترک موالات ضم کر کے غیر ملکی حکومت کے خلافت نفرت اور بغاوت کی آگ بھڑکادی اور آزادیٔ وطن کا صور اس بلند آہنگی سے پھونکا کہ سارے ملک میں یہاں تک فوج و پولس میں ایک جنبش اور مظبوط انگریزی فوج میں ایک ارتعاش پیدا ہوگیا‘‘


مہاتماگاندھی اس اعلان کے ساتھ تحریک خلافت میں شریک ہوئے تھے یہ مسلمانوں کا مذہبی معاملہ ہے اور جب ہمارے مسلمان بھائی بے چین ہیں تو ہم کیسے خاموش رہ سکتے ہیں۔ گاندھی جی نے اپنی تقریروں اور تحریروں میں بار بار کہا تحریک خلافت کو مسلمانوں کا ایک مقدس معاملہ سمجھ کر اس میںشریک ہوا ہوں۔ عزل خلافت کے بعد مہاتما گاندھی نے کہا کہ اگر میں ایک نجومی یا غیب داں ہوتا اور مجھے معلوم ہوتا کہ ترکی میں خلافت توڑی جائے گی تب بھی میں اس میں اسی عزم و حوصلے کے ساتھ شرکت کرتا۔انہوں نے اپنے جذبات کو الفاظ کے سحر آگیں سانچوں میں ایسا ڈھالا کہ انگریز اقتدار اعلیٰ کی اکثریت کامریڈ کی پرستار بن گئی۔ یہاں تک کہ خود لیڈی ہارڈنگ بھی کامریڈ کے دفتر فون کر کے اگلے شمارے کے بارے میں دریافت کرتی تھیں۔ مولانا جوہر نے جس نصب العین کے لیے کامریڈ شروع کیا تھا، اسی نہج پر 23 فروری 1913 کو اردو میں ایک ہفت روزہ ہمدرد کی بھی اشاعت کا آغاز کیا۔ ہمدرد کے مضامین نے صحافتی میدان میں طوفان برپا کر دیا۔ جس نے ہندوستانیوں میں جذبہ حب الوطنی اور جدوجہد آزادی کے لیے نیا جوش و ولولہ پیدا کر دیا، نیز بلاامتیاز قوم وملت میں اتحاد اور قومی یکجہتی کو پروان چڑھایا 

منگل، 12 نومبر، 2024

سیاسی رشوتیں اورانصاف سے محروم معاشرہ

  کسی بھی ملک کے عوام کی بدقسمتی اور کیا ہو سکتی ہے کہ گیس کی لوڈ شیڈنگ عروج پر ہے اور ایم ڈی اڑسٹھ لاکھ ماہانہ تنخواہ وصول کر رہے ہیں  -بجلی کے بلوں نے عوام کو جیتے جی مارڈالا ہے اور وہی بھوکے عوام گردشی قرضے بجلی کے بلوں  میں اتار رہے ہیں اور ان کے حکمرانوں کی جانب سے مژدہ ء جانفزاء سنائ دیتا ہے کہ ججز کی تنخواہوں میں  اضافہ کیا گیا ہے جبکہ گزشتہ سال جولائی میں وفاقی حکومت نے چیف جسٹس پاکستان کی تنخواہ میں 2 لاکھ 4 ہزار864 روپے اضافہ کیا تھا جس کے بعد تنخواہ 12 لاکھ 29 ہزار 189 روپے ہوگئی تھی سپریم کورٹ کے ججوں کی تنخواہوں میں 20 فیصد اضافے سے متعلق آرڈیننس اُس وقت کے قائم مقام صدر صادق سنجرانی نے جاری کیا تھا۔آرڈیننس کے مطابق سپریم کورٹ کے جج کی تنخواہ میں ایک لاکھ 93 ہزار 527 روپے کا اضافہ کیا گیا جس کے بعد سپریم کورٹ کے جج کی تنخواہ 11 لاکھ 61 ہزار 163روپے ہوگیا - وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے ججز کی تنخواہوں اور ہاؤس رینٹ الاؤنس میں اضافہ کر دیا ہے۔


سپریم کورٹ کے ججز کا ہاؤس رینٹ 68 ہزار سے بڑھا کر 3 لاکھ 50 ہزار روپے جبکہ جوڈیشل الاؤنس 3 لاکھ 42 ہزار سے بڑھا کر 10 لاکھ 90 ہزار روپے کر دیا گیا۔قائم مقام صدر یوسف رضا گیلانی کی منظوری کے بعد وزارت قانون و انصاف نے نوٹیفکیشن جاری کیا۔تنخواہوں میں اضافہ  ان خوش نصیبوں کے یہاں ہوا ہے جن کے ہاں لاکھوں مقدمے فیصلے کے منتظر ہیں۔ وہ سمجھ رہے ہیں کہ اس سیاسی رشوت کے بعد فیصلے ان کے حق میں ہوں گےتو آپ ججز کی تنخواہیں چاہے جتنی مرضی بڑھا دیتے کوئی سوال نہ کرتا، کوئی جواز نہ پوچھتا، کوئی اختلاف نہ کرتا۔آگر تو یہاں نچلی عدالتوں کی حالت بہتر ہو چکی ہوتی، التوا میں پڑے لاکھوں مقدمات کا فیصلہ ہو چکا ہوتا، سپریم کورٹ میں 60 ہزار مقدمات نمٹائے جا چکے ہوتے، سائلیں انصاف کی بروقت فراہمی پر جشن منا رہے ہوتے، عدالتوں میں رشوت کا کاروبار  عروج  پر ہے انصاف دینے والے فیصلوں کے وقت چھٹی پر چلے جاتے ہیں  جیلوں میں    بے گناہ اور گناہگار  قیدیوں کے رشتے دار ان سے ملنے آتے ہیں تو رشوت دربان کو پیش کرتے ہیں تب ملاقات کا سامان کیا جاتا ہے


عدالتوں میں انسانوں کی تذلیل کے نت نئے بہانے ہوتے ہیں ،  ماضی  میں سبکدوش ہونے والے پاکستان کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا تھا کہ نظامِ عدل کی تباہی میں جہاں ججوں اور وکیلوں کا ہاتھ ہے وہیں ساتھ ساتھ اِس کی ذمہ دار حکومت بھی ہے۔ انہوں نےاپنے اعزاز میں دیے گئے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ دیوانی عدالتوں میں مقدمات کا لا متناہی سلسلہ صرف اس لیے آ رہا ہے کیونکہ سرکاری اور نیم سرکاری ادارے شہریوں کو ان کا حق دینے سے قاصر ہیں۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اگر فوجداری مقدمات میں معصوموں کو سزا اور مجرموں کو ڈھیل مل رہی ہے تو اِس کی ذمہ داری زیادہ تر پولیس اور استغاثہ کے محکموں پر عائد ہوتی ہے۔کہ آج سے سو سال قبل مقدموں کا اوسط دورانیہ صرف ایک سال تھااس عرصے میں مقدمہ پہلی عدالت سے لے کر آخری عدالت تک پہنچ جاتا تھا۔ آج اسی کارروائی میں 25 سال لگتے ہیں اور شائد دوسری نسل ان مقدمات کا فیصلہ سنتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ریاست کے تمام اداروں کو یہ برملا اعتراف کرنا چاہیے کہ جس ’سستے اور فوری انصاف‘ کا وعدہ ہمارا آئین عوام سے کرتا ہے، ہم اُس وعدہ کو نبھانے میں فی الحال کامیاب نہیں ہوئے، اس لیے دیکھنے کی بات یہ ہے کہ موجودہ نظام کی ناکامی کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے اور اِس نظام کی خامیوں کو کس طرح دور کیا جا سکتا۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ججز کے ضابطہ اخلاق کی ایک اہم شق میں یہ لکھا ہے کہ جج اپنے زیرِ سماعت مقدمات کو جلد نمٹانے کے لیے جو بھی اقدامات لازم ہیں، اُنھیں اُٹھانے سے گریز نہیں کرےگا۔


حقیقت یہ ہے کہ     ملک میں غربت  کا یہ عالم ہے کہ مزدور  نان شبینہ کا محتاج  ہو چکا ہے ، کم سے کم اُجرت بس اتنی ہے کہ آدحی اجرت میں صرف بجلی کا بل دینا ، گیس کا بل دینا باقی اخراجات کہاں سے پورے ہوں گے    تعلیم سے محروم اڑھائی کروڑ بچے اسکول جانے کے بجائے گلیوں میں آوارہ پحر رہے ہیں -ان کے اسکولوں میں گائیاں اور بھنسیں بندھی ہیں موجودہ پاکستان  وہ ملک ہے  جس میں 2 وقت کی روٹی کا حصول  ہی عوام کا مقصد حیات بن چکا ہے، خط افلاس تلے آنے والوں میں ماہانہ لاکھوں کا اضافہ ہو رہا ہے۔ بچوں کی اسکول فیس ان کی تعلیم میں سب سے بڑی روکاٹ بن رہی ہے۔ بیمار ادویات کے حصول کے لیے مر رہے ہیں۔ بجلی کے بل سوہانِ روح بن چکے ہیں -بیٹیوں کی شادیوں کے لیے لوگ گردے بیچ رہے ہیں۔ مہنگائی کی وجہ سے خود کشیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہر شے مہنگی ہو چکی ہے، ایسے میں فقط ایک شے ارزاں ہے، اور وہ انسانی جان ہے۔ایک زمانہ تھا وکلا نے نعرہ لگایا تھا کہ ’ریاست ہوگی ماں کے جیسی‘ اس وقت کسی نے ہمیں نہیں بتایا تھا کہ ریاست صرف ججز کے لیے  سگی ماں جیسی ہوگی اور غریب عوام سے اس کا رویہ سوتیلی ماں کا سا ہوگا۔خود سوچیے کہ ججز کی تنخواہوں میں ہاؤس رینٹ یا جوڈیشل الاونس کے نام پر 12 سے 14 لاکھ روپے کے اضافے کا اعلان ایک عام مزدور پر بجلی بن کر گرا ہوگا کہ جس کی کل آمدنی کم از کم 37 ہزار روپے مقرر کی گئی اور وہ کمائی اس کو کام ختم کرنے کے بعد ملتی ہے۔


 اس تنخواہ میں اس نے گھر چلانا ہے، روٹی کھانی ہے، بچے پڑھانے ہیں، دوائی خریدنی ہے، بجلی کا بل دینا ہے۔المیہ یہ ہے کہ یہاں ان کی    تاریخ اس بات پر قہقے ضرور لگائے گی کہ کام نہ کرنے والوں پر ہُن کی یہ برسات شاید چشم فلک نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی جب کہ  روسائے شہر کو بلا ضرورت سوا دو ارب  کی لگژری گاڑیوں کی رشوت بھی دی گئ تھی ۔

اتوار، 10 نومبر، 2024

برصغیر کی ادبی دنیا کا ایک بڑا نام 'راجندر سنگھ بیدی

 


’’غیر منقسم ہندوستان کی مردم خیز  مٹی نے  بہت نامور ادباء اور فضلاء زمانے  کو دئے  ان میں راجندر سنگھ بیدی جیسا بڑا نام بھی شامل ہے  ہندوستان کے ایک بہت نامور ادیب کا کہنا ہے کہ راجندر کچھ نا لکھتے تب بھی ایک چادر میلی سی  '' جیسا دلگداز ناول ان کو امر کرے کے لئے  کافی تھا  ان کا کہنا ہے کہ فسانہ اور شعر میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ہے، توصرف اتنا کہ شعر چھوٹی بحر میں ہوتا ہے اور افسانہ اک ایسی لمبی بحر میں جو افسانے کے  شروع سے لے کر آخر تک چلتی ہے۔ مبتدی اس بات کو نہیں جانتا اور افسانے کو بحیثیت فن شعر سے زیادہ سہل سمجھتا ہے۔‘‘     راجندر سنگھ بیدی جدید اردو فکشن کا وہ نام ہیں جس پر اردو افسانہ بجا طور پر ناز کرتا ہے۔ وہ یقیناً منفرد، بےمثال اور لاجواب ہیں۔ جدید اردو افسانے کے تین دیگر ستونوں، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی اور کرشن چندر کے مقابلہ میں ان کی تحریریں زیادہ گمبھیر، زیادہ تہہ دار اور زیادہ پُرمعنی ہیں اور اس حقیقت کے باوجود کہ ادب میں وکٹری اسٹینڈ نہیں ہوتے، مختلف نقّاد حسب حوصلہ و توفیق ان چاروں کو مختلف پائدانوں پر کھڑا کرتے رہتے ہیں بیدی کو پہلے پائدان پر کھڑا کرنے والوں کی تعداد کم نہیں۔ بیدی کے افسانے انسانی شخصیت کے لطیف ترین عکس ہیں۔ ان کے آئینہ خانے میں انسان اپنے سچّے روپ میں نظر آتا ہے اور بیدی اس کی تصویر کشی اس طرح کرتے ہیں کہ اس کی شخصیت کے لطیف گوشے ہی سامنے نہیں آ جاتے بلکہ فرد اور سماج کے پیچیدہ رشتے اور انسان کی شخصیت کے پُر اسرار تانے بانے بھی روشن ہو جاتے ہیں

 بیدی اپنے کرداروں کی نفسیات کے ذریعہ زندگی کے بنیادی رازوں تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا تخلیقی عمل تجسیم سے تخئیل کی طرف، واقعہ سے لا واقعیت کی طرف، تخصیص سے تعمیم کی طرف اور حقیقت سے عرفان کی طرف ہوتا ہے۔ بیدی اپنی کہانیوں پر بہت محنت کرتے ہیں ایک بارمنٹونےان سے کہا تھا، " تم سوچتے بہت ہو۔ لکھنے سے پہلے سوچتے ہو، لکھنے کے دوران سوچتے ہو اور لکھنے کے بعد سوچتے ہو" اس کے جواب میں بیدی نے کہا تھا، "سِکھ کچھ اور ہوں یا نہ ہوں، کاریگر اچھے ہوتے ہیں۔" اپنے تخلیقی عمل کے بارے میں بیدی کہتے ہیں، ’’مجھے تخئیلِ فن پر یقین ہے۔۔ میرے خیال میں اظہار حقیقت کے لئے اک رومانی نقطۂ نظر کی ضرورت ہے بلکہ مشاہدے کے بعد، پیش کرنے کے انداز کے متعلق سوچنا بجائے خود کسی حد تک رومانی طرز عمل ہے۔ بھیانک میں سے بھلائی کو اور ناگواری میں سے گوارا کو تلاش کرنا ان کے فنکار کا بنیادی مقصد ہے۔   زمانے سے سیکھنا،  اور  پھردرد مندی سے اسے  ضابطہ ء تحریر میں لانا ان کا اک بڑا کارنامہ ہے جو منفرد بھی ہے  ۔ 1965 میں ان کو اک چادر میلی سی کے لئے ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ دیا گیا۔ اس کے بعد 1978 میں ان کو ڈرامہ کے لئے غالب ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان کی یاد میں حکومت پنجاب نے اردو ادب کا راجندر سنگھ بیدی ایوارڈ شروع کیا ہے۔ 

بیدی یکم ستمبر 1915 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ہیرا سنگھ لاہور کے صدر بازار ڈاک خانہ کے پوسٹ ماسٹر تھے۔ بیدی کی ابتدائی تعلیم لاہور چھاونی کے اسکول میں ہوئی جہاں سے انھوں نے چوتھی جماعت پاس کی اس کے بعد ان کا داخلہ ایس بی بی ایس خالصہ اسکول میں کرا دیا گیا، انھوں نے وہاں سے1931 میں فرسٹ ڈویزن میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ میٹرک کے بعد وہ ڈی اے وی کالج لاہور گئے لیکن انٹرمیڈئیٹ تک ہی پہنچے تھے کہ والدہ کا، جو ٹی بی کی مریضہ تھیں، انتقال ہو گیا۔ والدہ کے انتقال کے بعد ان کے والد نے ملازمت سے استعفٰی دے دیا اور1933 میں بیدی کو کالج سے اٹھا کر ڈاک خانے میں بھرتی کرا دیا۔ ان کی تنخواہ 46 روپے ماہوار تھی۔ 1934ء میں صرف 19 سال کی عمر میں ان کی شادی کر دی گئی۔ خالصہ کالج کے زمانہ سے ہی انھوں نے لکھنا شروع کر دیا تھا۔ ڈاک خانہ کی نوکری کے زمانہ میں وہ ریڈیو کے لئے بھی لکھتے تھے۔1946 میں ان کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ"دانہ و دام" شائع ہوا اور ان کی اہمیت کو ادبی حلقوں میں تسلیم کیا جانے لگا اور وہ لاہو سے شائع ہونے والے اہم ادبی رسالہ "ادب لطیف" کے اعزازی مدیر بن گئے۔ یہ کام بلا معاوضہ تھا۔ 1943 ء میں انھوں نے ڈاک خانہ کی نوکری سے استعفٰی دے دیا۔ دو سال ادھر ادھر دھکے کھانے کے بعد انھوں نے لاہور ریڈیو کے کئے ڈرامے لکھنے شروع کئے پھر 1943 سے 1944 تک لاہور ریڈیو اسٹیشن پر اسکرپٹ رائٹر کی ملازمت کی جہاں ان کی تنخواہ 150 روپے تھی۔ پھر جب جنگی نشریات کے لئے ان کو صوبہ سرحد کے ریڈیو پر بھیجا گیا تو ان کی تنخواہ 500 روپے ہو گئی۔ بیدی نے وہاں ایک سال کام کیا پھر نوکری چھوڑ کر لاہور واپس آ گئے اور لاہورکی فلم کمپنی مہیشوری میں 600 روپے کی ملازمت کر لی۔ یہ ملازمت بھی راس نہیں آئی اور انھوں نے 1946 میں اپنا سنگم پبلشنگ ہاؤس قائم کیا۔ 1947 میں ملک کا بٹوارہ ہو گیا تو بیدی کو لاہور چھوڑنا پڑا۔ وہ کچھ دن روپڑ اور شملہ میں رہے۔ اسی دوران ان کی ملاقات شیخ محمد عبداللہ سے ہوئی جنھوں نے ان کو جموں ریڈیو اسٹیشن کا ڈائرکٹر مقرر کر دیا۔ ان کی بخشی غلام محمد سے نہیں نبھی اور وہ بمبئی آ گئے۔


 بمبئی میں ان کی ملاقات فیمس پکچر کمپنی کے پروڈیوسر ڈی ڈی کشیپ سے ہوئی جو ان سے غائبانہ واقف تھے۔ کشیپ نے ان کو 1000 روپے مہینہ پر ملازم رکھ لیا۔ بیدی نےمعاہدے میں شرط رکھی تھی کہ وہ باہر بھی کام کریں گے۔ کشیپ کے لئے بیدی نے دو فلمیں "بڑی بہن" اور" آرام" لکھیں اور باہر "داغ" لکھی۔ داغ بہت چلی جس کے بعد بیدی ترقی کی منزلیں طے کرنےلگے۔ ان کی کہانیوں کا دوسرا مجموعہ "گرہن" 1942 میں ہی شائع ہو چکا تھا 1949ءمیں انھوں نے اپنا تیسرا مجموعہ "کوکھ جلی" شائع کرایا۔ بیدی ڈاک خانہ کے دنوں میں بڑے مسکین اور دبّو تھے لیکن وقت کے ساتھ ان کے اندر اپنی ذات اور اپنے فن کے حوالہ سے بلا کی خود اعتمادی پیدا ہو گئی لیکن دونوں زمانوں میں وہ بیحد حسّاس اور رقیق القلب رہے۔ وہ اپنی فلم دستک کی ہیروئن ریحانہ سلطان اور اک دوسری فلم کی اداکارہ سمن پر بری طرح فریفتہ تھے۔ ریحانہ سلطان نے ایک انٹرویو میں بیدی کی جذباتیت کے حوالے سے کہا، "بیدی صاحب  کے اندر  میں نے ایک  ایسا  شخص دیکھا جو ہمیشہ خوش رہتا ہے۔

 "بیدی بطور اسٹوری رائٹر، ڈائلاگ رائٹر، اسکرین رائٹر ڈائریکٹر یا پروڈیوسر جن فلموں کا حصہ رہے ان میں بڑی بہن، داغ، مرزا غالب، دیو داس، گرم کوٹ، ملاپ، بسنت بہار، مسافر، مدھومتی، میم دیدی، آس کا پنچھی، بمبئی کا بابو، انورادھا، رنگولی، میرے صنم، بہاروں کے سپنے، انوپما، میرے ہمدم میرے دوست، ستیہ کام، دستک، گرہن، ابھیمان، پھاگن، نواب صاحب، مٹھی بھر چاول، آنکھن دیکھی، اور ایک چادر میلی سی شامل ہیں۔ 1956 میں انھیں گرم کوٹ کے لئے بہترین کہانی کا فلم فیئر ایوارڈ ملا۔ دوسرا فلم فیئر ایوارڈ ان کو مدھومتی کے بہترین مکالموں کے کئے اور پھر 1971 میں ستیہ کام کے مکالموں کے لئے دیا گیا۔ 1906 میں نینا گپتا نے ان کی کہانی "لاجونتی" پر ٹیلی فلم بنائی۔ فلمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ بیدی کا تخلیقی سفر جاری رہا۔ دانہ و دام، بے جان چیزیں، اور کوکھ جلی کے بعد ان کی جو کتابیں منظر عام پر آئیں ان میں اپنے دکھ مجھے دے دو، ہاتھ ہمارے قلم ہوئے، مقدس جھوٹ، مہمان، مکتی بودھ اور ایک چادر میلی سی شامل ہیں۔ راجندر سنگھ بیدی نے زندگی میں اپنی حساس نگاہوں سے بہت کچھ دیکھا۔ پنجاب کے خوشحال قصبوں کی زندگی اور بدحال لوگوں کی بپتا، نیم تعلیم یافتہ لوگوں کی رسمیں، روا داریاں، کشمکش، اور نباہ کی تدبیریں، پرانی دنیا میں نئے خیالات کی آمیزش، نئی نسل اور ارد گرد کے بندھنوں کی آمیزش، ان سب میں بیدی نے دہشت کے بجائے نرمیوں کو چن لیا۔ نرمی اپنے مکمل اور سنجیدہ مفہوم کے ساتھ ان کے مطالعۂ کائنات کا مرکزی نقطہ ہے۔راجندر کی گھریلو زندگی کافی تلخ تھی ۔ ان کا بیٹا نریندر بیدی بھی فلم پروڈیوسر اور ڈائرکٹر تھا لی1982 میں اس کی موت ہو گئی۔ بیدی کی بیوی اس سے پہلے ہی چل بسی تھیں۔ بیدی کی زندگی کے آخری ایام بڑی کسمپرسی اور بے بسی میں گزرے۔ 1982 میں ان پر فالج کا حملہ ہوا اور پھر کینسر ہو گیا۔ 1984 میں ان کا انتقال ہو گیا

ہفتہ، 9 نومبر، 2024

قدرت کے ماحولیاتی توازن میں ہماری بقا ء ہے

 ’ یورپ اور ایشاءسمیت تقریباً دنیا بھر میں ایک ”چڑیا“ پائی جاتی ہے جو عالمی سطح پر ”یوریشیئن ٹری سپیرو“(Eurasian tree sparrow) کے نام سے جانی جاتی ہے۔ یہ چڑیا تقریباً دو عشرے قبل پاکستان میں بھی بکثرت پائی جاتی تھی لیکن اب کم ہی دکھائی دیتی ہے۔ ہمارے خطے میں اس چڑیا کی نسل تقریباً ختم ہوجانے کا ذمہ دار چین ہے۔چڑیاں بہت تیزی سے نسل بڑھاتی ہیں۔ یہ ایک سال میں دو سے بیس ہوجاتی ہیں۔چڑیا انسانوں کے گھروں میں گھونسلے بنانا پسند کرتی ہے۔ اسکے علاوہ درختوں کے چھوٹے موٹے سوراخوں میں بھی گھونسلہ بنا لیتی ہے۔ انسانی گھروں کو گھونسلے کے لئیے ترجیح دینے کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ ائریا ان کے شکاری پرندوں سے محفوظ ہوتا ہے دوسرا یہ انسانوں کا بچا کچھا کھانا بھی کھا لیتی ہیں۔ گھروں میں بھی آپ انکے گھونسلے ٹیوب لائیٹوں کی فریموں، روشندانوں، اے سی یونٹس، چھتیوں پہ پڑے نہ استعمال ہونے والے برتن چھتوں پہ لگے پھنکے وغیرہ پہ دیکھتے ہیں۔ یہاں بھی یہ بلیوں سے بچنے کے لئیے اپنے گھونسلے بناتی ہے تاکہ اسکے پاس ان تک پہنچنے کا کوئی رستہ نہ ہو۔ اصل میں یہ چھ انچ کا پرندہ ہے اور اسکا گھونسلہ آٹھ انچ کا ہوتا ہے اس لئیے جہاں بھی اسے آٹھ انچ کی محفوظ جگہ مل جائے یہ گھونسلہ بنا ڈالتی ہے۔ ان کا گھونسلہ بنانے کا طریقہ بھی کمال ہے۔ پہلے دونوں گھاس پھوس کا ڈھیر لگاتے ہیں پھر اسکے بار ڈر میں تنکے گاڑھ کر دھاگے لگا کر اسے مضبوط کردیتے ہیں۔ مادہ کواندر کا ٹمپریچر گرم رکھنے کے لئیے پر چاہئیے ہوتے ہیں اور یہ زمہ داری چڑا پوری کرتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق جو چڑا جتنے زیادہ کھنمب لے کر آتا ہے مادہ اتنا ہی زیادہ ملاپ کرتی اور زیادہ انڈےدیتی ہے، اسکی وجہ کہ زیادہ کھنمب گھونسلے کا درجہ حرارت درست رکھیں گے اور بچوں کی افزائش بہتر ہوگی۔


۔ یہ ماحول دوست جانور ہیں ہوسکے تو آٹھ انچ کی ڈولیاں، لکڑی کے گھر یا گتے کے ڈبے میں چھوٹا سوراخ کرکے انکو کسی اونچی جگہ پر دیواروں میں لگا دیں۔ اس سے ایک تو یہ آپ کو صبح صبح جگا کر آپ کے پھیپھڑوں کو تازہ ہوا دلوائے گی ۔ دوسرا گھر میں فالتو روٹی کے ٹکڑے چاول اور کیڑے کھائے گی۔ فصلوں پہ دانوں پہ حملہ ہوتی ہو تو وہاں باز اور سانپوں کے پتلے رکھیں۔ پودینے کی بو بھی انہیں بھگاتی ہے۔ چین میں 1958ءسے اس چڑیا کے خاتمے کی مہم چلائی گئی۔ پہلی بار 1958ءمیں ماﺅزے تنگ نے چڑیا، چوہوں، مکھیوں اور مچھروں کے خاتمے کی مہم چلائی جو 1962ءتک جاری رہی۔ اس مہم میں ہی چین سے چڑیا کا تقریباً صفایا کر دیا گیا تھا۔چینی باشندوں نے ماﺅزے تنگ کے احکامات کی پیروی کرتے ہوئے درختوں سے چڑیا کے گھونسلے اٹھا کر زمین پر دے ڈالے، اس کے انڈے توڑ دیئے اور گھونسلوں میں موجود اس کے ننھے بچوں کو بھی مار ڈالا۔ بڑی چڑیوں کو مارنے کے لیے چینیوں نے ایک انوکھا طریقہ دریافت کر لیا۔ وہ زمین پر ٹین کے ڈبے اور ڈرم مسلسل بجاتے رہتے تاکہ یہ چڑیاں ڈر کے مارے درختوں یا زمین پر بیٹھ نہ سکیں۔


 جب چڑیاں اڑتے اڑتے تھک کر زمین پر گر جاتیں تو چینی انہیں ختم کر دیتے۔یہ طریقہ بہت کارگر ثابت ہوا اور مہینوں میں چین سے اس کی نسل کا صفایا ہو گیا۔یہ سب چینیوں نے اس لیے کیا کہ ان کے خیال میں کھیتوں سے چڑیوں کے بیج چگ جانے کے باعث گندم اور چاول کی پیداوار کم ہوتی تھی لیکن جب انہوں نے چڑیاں کو ختم کر لیا تو انہیں احساس ہوا کہ وہ غلطی پر تھے۔ کیونکہ چڑیوں کی نسل ختم کرنے کے بعد گندم اور چاول کی پیداوار بڑھنے کی بجائے مزید کم ہوتی چلی گئی۔ تب ان پر منکشف ہوا کہ یہ چڑیا فصلوں کو کچھ نقصان کے ساتھ بہت سے فائدے بھی پہنچاتی تھی، کیونکہ یہ فصلوں کو بڑے پیمانے پر تباہ کرنے والے کیڑوں مکوڑوں کو بھی کھا جاتی تھی۔ ڈچ مؤرخ فرینک ڈیکوٹر  نے چین کے اس دور کو بیان کیا ہے جسے ‘دی گریٹ لیپ فارورڈ` کہا جاتا ہے جب بائیں بازو کے چین کی بنیاد رکھنے والے ماؤ زے تنگ نے پورے چین کو ترقی کی دوڑ میں مغربی ممالک کے قریب پہنچا دیا۔ماؤ نے  چار قسم کے جانوروں کو نقصان دہ قرار دیا گیا۔ چوہے، مچھر، مکھیاں یا کیڑے اور چڑیاں تھیں۔ ماؤ کی گریٹ لیپ فارورڈ کا ایک حصہ چڑیوں کے خلاف مہم تھی -ماؤ چاہتے تھے کہ چینی عوام ان سے چھٹکارا حاصل کریں۔ان چند برسوں میں چین میں جو کچھ ہوا اس کے بارے میں بتاتے ہوئے ماہر ماحولیات صحافی اور مصنف جان پلیٹ کہتے ہیں کہ ‘تاریخ فطرت کی تباہی کی کہانیوں سے بھری پڑی ہے، لیکن 1958 میں چین میں جو کچھ ہوا اس سے شاید ہی کسی تباہی کا موازنہ کیا جا سکے۔‘چین کے بانی رہنما ماؤ نے فیصلہ کیا کہ ان کا ملک چڑیوں کے بغیر رہ سکتا ہے۔ بہت سی دوسری پالیسیوں کی طرح اس فیصلے کا اثر اس قدر وسیع ہوا کہ تباہی کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔


‘چڑیا کو اپنے گھونسلے میں آرام کرنا پڑتا ہے۔ اڑنے اور خوراک کی تلاش اس پرندے کے لیے بہت تھکا دینے والی ہوتی ہے۔پلاٹ کے مطابق اس دور میں چڑیا کو اتنے بڑے پیمانے پر مارا گیا کہ ایسی کہانیاں ہیں کہ لوگ مردہ پرندوں کو بیلچوں سے اٹھا کر پھینک دیتے تھے۔ دو سال کے اندر، یہ نسل، جو چین میں سب سے زیادہ پائی جاتی تھی، معدومیت کے دہانے پر پہنچ گئی۔ٹوڈ بتاتے ہیں کہ چڑیوں کے خلاف استعمال ہونے والے طریقے اتنے درست نہیں تھے کہ انھیں اسی نوع تک محدود رکھا جا سکے۔لوگوں کے ہجوم نے گھونسلے توڑ دیے اور جو بھی چڑیا دیکھی اسے مار ڈالا۔ بیجنگ جیسے شہروں میں لوگ اتنا شور مچاتے تھے کہ پرندے تھک جاتے تھے اور اڑتے ہوئے مر جاتے تھے۔ اس سے نہ صرف چڑیاں بلکہ پرندوں کی دوسری نسلیں بھی متاثر ہوئیں۔چینی حکام کا خیال تھا کہ یہ جاندار چاول اور دیگر فصلوں کو نقصان پہنچا رہے تھے، لہٰذا ان کے خاتمہ کے لئے ملک بھر میں مہم شروع کردی گئی۔اس مہم کے دوران لوگوں نے ان جانداروں کا ہر جگہ تعاقب کیا اور اگرچہ چڑیا کا اس مہم کا نشانہ بننا ایک حیرت انگیز بات تھی  ۔لوگوں نے چڑیوں کے گھونسلے تباہ کردئیے، ان کے انڈے توڑ دئیے، 


ان کے بچے مار دئیے اور جہاں بھی کوئی چڑیا دانا دنکا چگنے کی کوشش کرتی برتن اور ٹین کے ڈبے بجا کر اسے اڑادیا جاتا۔اس مہم کا نتیجہ یہ ہوا کہ پورے ملک میں بیچاری چڑیا کا نام و نشان ختم ہوگیا -ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ چڑیا کی نسل ختم ہونے سے ان کیڑوں اور حشرات کو کھانے والے پرندے نہ رہے جو کہ اصل میں فصلوں کے لئے سب سے بڑا خطرہ تھے۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چین میں چاول کی فصل تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی جبکہ باقی فصلوں کو بھی کیڑوں اور حشرات نے بے پناہ نقصان پہنچایا اور پورے ملک میں قحط کا سماں پیدا ہوگیا۔ جو تقریباً دو کروڑ لوگوں کی موت کا سبب بنا۔اس قحط کا عذاب نازل ہونے کو چینی تاریخ کی خوفناک ترین آفات میں شمار کیا جاتا کیونکہ چڑیوں کی نسل ختم کرنے کے بعد گندم اور چاول کی پیداوار بڑھنے کی بجائے مزید کم ہوتی چلی گئی۔ تب ان پر منکشف ہوا کہ یہ چڑیا فصلوں کو کچھ نقصان کے ساتھ بہت سے فائدے بھی پہنچاتی تھی، کیونکہ یہ فصلوں کو بڑے پیمانے پر تباہ کرنے والے کیڑوں مکوڑوں کو بھی کھا جاتی تھی۔پھر  پورے چین کی فصلوں پر ٹڈی دلوں کے لشکروں نے حملہ کر دیا ۔یاد رہے کہ ٹڈی انتہائ سرعت سے گندم کے زخائرکھا جاتی ہے  ٹڈی دل کے حملوں نے پورے  چین  میں گندم کے ذخائر کو تباہی سے دو چار کیا ۔ٹڈی دل کو کھانے والی چڑیاں  گندم کو ٹڈی دلوں کی آفت سے محفوظ رکھتی تھیں۔اس لیئے قدرت کے ماحولیاتی توازن کو بگاڑنے کے بجائے مذید سدھارنے پر توجہ دیجئے

جمعہ، 8 نومبر، 2024

کراچی ریلوے کا نظام 164سال قبل1855ء

 

کینٹ اسٹیشن کراچی کا ایک اہم ریلوے اسٹیشن ہے، اسے کراچی کینٹ اور کراچی چھاؤنی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ صدر کے علاقے میں داؤد پوتا روڈ پر واقع ہے ،جب کہ اس کے ایک طرف کلفٹن اور مشرق کی جانب ڈیفنس کے پوش علاقے واقع ہیں۔ یہ پہلے فریئر اسٹریٹ ریلوے اسٹیشن کہلاتا تھا۔ اس اسٹیشن کی تعمیر کا آغاز 1896ء میں ہوااور 1898ء میں مکمل ہوا تھا۔ اس کی مجموعی لاگت 80 ہزار روپے بتائی جاتی ہے۔ کینٹ اسٹیشن کی موجودہ عمارت کو سندھ حکومت کی جانب سے ثقافتی ورثہ قرار دیا جا چکا ہے۔ تعمیراتی ماہرین کے مطابق کینٹ اسٹیشن کی عمارت رومن اور اطالوی طرز تعمیر کا ایک تاریخی نمونہ ہے۔ شہرِ قائد کے دو تاریخی ریلوے اسٹیشن-اس کا مرکزی دروازہ رومن گوئتھک طرز تعمیر کا شاہکار ہے، اس کے ستون اطالوی طرز پر تعمیر کئے گئے ہیں۔ کینٹ اسٹیشن کے تاریخی پس منظر کے حوالے سے یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کراچی سے تجارت کے فروغ کے لئے 1859ء میں کینٹ اسٹیشن تا کیماڑی کی بندرگاہ تک ریلوے لائن نصب کرائی گئی تھی۔ جس کے ذریعے بیرون ملک سے درآمد کیا جانے والا سامان کینٹ اسٹیشن تک لایا جاتا تھا، اور درآمد کیا جانے والا سامان یہاں سے بندرگاہ تک لے جایا جاتا تھا۔


 اس کے پلیٹ فارموں کی تعداد 5 ہے، جب کہ ٹریک کی تعداد 8ہے، کینٹ ریلوے اسٹیشن سے پشاور تک جبکہ ایک لائن سرکلر ریلوے کی بھی نصب ہے۔ کراچی کینٹ کا ریلوے اسٹیشن مسافر ٹرینوں کی آمد ورفت کے حوالے سے سٹی اسٹیشن سے زیادہ مصروف اسٹیشن ہے۔ یہ اسٹیشن وزارت ریلوے کی ملکیت ہے۔ کینٹ اسٹیشن سے روانہ ہونے والی مسافر ٹرینوں میں علامہ اقبال ایکسپریس، عوام ایکسپریس، گرین لاین ایکسپریس، قراقرم ایکسپریس، خیبر میل، ملت ایکسپریس، نائٹ کوچ، پاک بزنس ایکسپریس، شالیمار ایکسپریس، تیزگام اور تھر ایکسپریس شامل ہے، اس کے علاوہ دو لوکل ٹرینیں بھی کینٹ اسٹیشن سے روانہ ہوتی ہیں۔سٹی اسٹیشن کراچی کا دوسرا بڑا اسٹیشن ہے، یہ حبیب بینک پلازا سے ملحق آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع ہے۔ یہ پاکستان ریلویز کراچی ڈویژن کا ہیڈ آفس بھی ہے، قیام پاکستان کے بعد کراچی کی آبادی میں بڑھتے ہوئے اضافہ کے ساتھ مسافر ٹرینوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا، جس کی وجہ سے سٹی اسٹیشن کے پلیٹ فارموں پر ٹرینیں کھڑی کرنے کی گنجائش میں کمی کی وجہ سے بیشتر ٹرینوں کو کینٹ اسٹیشن پر منتقل کر دیا گیا۔ سٹی اسٹیشن کو پاکستان کا قدیم ترین اسٹیشن ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے،


اسے ماضی میں میکلوڈ ریلوے اسٹیشن کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا۔یہ ریلوے اسٹیشن اب سے164سال قبل1855ء میں قائم کیا گیا تھا۔ اور یہاں سے کوٹری تک 174کلومیٹر طویل ریلوے پٹری کو نصب کیا گیا تھا۔ یہ کام 1858 ء میں پایہ تکمیل تل پہنچا تھا۔ یہ ریلوے لائن ایسٹ انڈیا کمپنی اور سندھ ریلوے کمپنی کے درمیان ایک معاہدے کے تحت نصب کی گئی تھی۔ سٹی اسٹیشن کو عوام کے لئے 13مئی 1861ء کو کھولا گیا تھا۔اس وقت یہ اسٹیشن اسکنڈے ریلویز کا آخری ریلوے اسٹیشن تھا۔ اس وقت سٹی اسٹیشن پاکستان ریلویز کی ملکیت ہے۔ چار پلیٹ فارموں پر مشتمل آج کا سٹی اسٹیشن جدید سہولتوں سے آراستہ ہے، یہاں روانہ ہونے والی ٹرینوں کے ٹکٹ کی دستیابی کے ساتھ سفر کے لئے پیشگی ٹکٹوں کی بکنگ بھی کرائی جاتی ہے۔ یہاں سے اس وقت 6 مسافر ٹرینیں بہاؤالدین زکریا ایکسپریس، بولان میل، فرید ایکسپریس، ہزارہ ایکسپریس، خوشحال خٹک ایکسپریس، اور سکھر ایکسپریس کی آمد ورفت ہوتی ہے۔ یہاں سے ایک لوکل ٹرین بھی دھابیجی تک کے لئے روانہ ہوتی ہے۔ سٹی اسٹیشن پر یہاں سے پشاور تک اور سرکلر ریلوے کی لائنیں نصب ہیں علاوہ ازیں یہاں کارگو اور پارسل کی سہولیات بھی دستیاب ہیں 


سٹی اسٹیشن اور کینٹ اسٹیشن کراچی کے دو بڑے قدیم اور تاریخی اہمیت کے حامل ریلوے اسٹیشن ہیں۔ یہ دونوں زمانہ قدیم سے کراچی میں مواصلاتی شعبے میں اپنا کردار مؤثر انداز میں ادا کر رہے ہیں۔ قدیم کراچی سے آج کے کراچی کی ترقی، اس کی سیاسی و سماجی، تجارتی اور مذہبی سرگرمیوں کے چشم دید گواہ بھی ہیں۔ یہ دونوں ریلوے اسٹیشن اسٹیم ریلوے انجنوں سے لے کر جدید ریلوے انجنوں اور پاکستان میں ریلوے کے ارتقاء کی داستان کے امین بھی ہیں۔ ان کی قدیم عمارتیں بھی تاریخی اہمیت کی حامل ہیں، اور شہر کے ثقافتی ورثہ بھی ہیں۔ منفرد سماجی، ثقافتی اور معاشی سرگرمیوں کو اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہیں۔ملک کے بالائی حصوں سے آنے والی ٹرینوں کےلئے کینٹ اور سٹی آخری ریلوے اسٹیشن ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد مزید ریلوے اسٹیشنز قائم کئے گئے، جن میں کینٹ اسٹیشن کے فوری بعد، چنیسر ہالٹ، ڈرگ روڈ، ملیر ہالٹ، ملیر سٹی اور لانڈھی وغیرہ شامل ہیں، لیکن یہ اسٹیشن لوکل ٹرینوں کے لئے قائم کئے گئے تھے، جبکہ ڈرگ روڈ اور لانڈھی کے ریلوے اسٹیشنوں پر کچھ ایکسپریس ٹرینیں بھی رکتی ہیں۔ یہ دونوں ریلوے اسٹیشن قدیم ہونے کے ساتھ سفر اور سامان کی تمام جدید سہولتوں سے آراستہ ہیں


۔ یہاں کی سرگرمیوں کو فلموں اور ٹی وی ڈراموں میں عکسبند کیا جاتا رہا ہے۔شہرِ قائد میں‌ ریلوے کے نظام اور مسافر و مال بردار ٹرینوں کے ذریعے آمدورفت اور تجارت کے حوالے سے   کینٹ اسٹیشن خاص اہمیت رکھتا ہے  ۔ ا س ریلوے اسٹیشن کی قدیم عمارت بھی تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔سٹی اسٹیشن کراچی کا دوسرا بڑا اسٹیشن ہے، یہ حبیب بینک پلازا سے ملحق آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع ہے۔ یہ پاکستان ریلویز کراچی ڈویژن کا ہیڈ آفس بھی ہے، قیام پاکستان کے بعد کراچی کی آبادی میں بڑھتے ہوئے اضافہ کے ساتھ مسافر ٹرینوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا، جس کی وجہ سے سٹی اسٹیشن کے پلیٹ فارموں پر ٹرینیں کھڑی کرنے کی گنجائش میں کمی کی وجہ سے بیشتر ٹرینوں کو کینٹ اسٹیشن پر منتقل کر دیا گیا۔ سٹی اسٹیشن کو پاکستان کا قدیم ترین اسٹیشن ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، اسے ماضی میں میکلوڈ ریلوے اسٹیشن کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا۔ یہ ریلوے اسٹیشن اب سے164سال قبل1855ء میں قائم کیا گیا تھا۔ اور یہاں سے کوٹری تک 174کلومیٹر طویل ریلوے پٹری کو نصب کیا گیا تھا۔ یہ کام 1858 ء میں پایہ تکمیل تل پہنچا تھا۔ یہ ریلوے لائن ایسٹ انڈیا کمپنی اور سندھ ریلوے کمپنی کے درمیان ایک معاہدے کے تحت نصب کی گئی تھی۔ سٹی اسٹیشن کو عوام کے لئے 13مئی 1861ء کو کھولا گیا تھا۔اس وقت یہ اسٹیشن اسکنڈے ریلویز کا آخری ریلوے اسٹیشن تھا۔ اس وقت سٹی اسٹیشن پاکستان ریلویز کی ملکیت ہے۔ چار پلیٹ فارموں پر مشتمل آج کا سٹی اسٹیشن جدید سہولتوں سے آراستہ ہے، یہاں روانہ ہونے والی ٹرینوں کے ٹکٹ کی دستیابی کے ساتھ سفر کے لئے پیشگی ٹکٹوں کی بکنگ بھی کرائی جاتی ہے۔جب کہ اس کے پلیٹ فارم نمبر ایک پر اشیاء خورونوش کے اسٹال بھی ہیں۔ یہاں سے دو مال گاڑیاں بھی روانہ ہوتی ہیں۔ 















 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر