ہفتہ، 7 ستمبر، 2024

منبع حکمت و دانائ - پہلا یونانی سائنس دان ’فیثا غورث‘

 

پہلا یونانی سائنس دان ’فیثا غورث‘

فیثا غورث پہلا یونانی سائنس دان تھا، جس نے زمین کے گول ہونے کا نظریہ پیش کیا اور بتایا کہ چاند گرہن کے دوران جب زمین کا سایہ چاند کے اوپر پڑتا ہے تو اس کا عکس ہمیشہ گول دکھائی دیتا تھا اور بتایا کہ چاند از خود روشن نہیں ہوتا بلکہ چاند سورج کی روشنی کو منعکس کرتا ہے اس نے سروں کے اتار چڑھاؤ حسابی تعلق اور تناسب کو فلکیات میں شامل کیا ویسے تو فیثا غورث کئی حوالوں سے مشہور ہے لیکن اس کی اہم وجہ شہرت مسئلہ فیثا غورث ہے اس مسئلے کے مطابق مستطیل میں موجود دو مخالف کونوں کا مجموعہ اس کے وتر کے برابر ہوتا ہے۔وہ اعداد کو اس عالم کی اساس تصور کرتے تھے یعنی یہ ساری دنیا ایک خاص تناسب سے بنائی گئی ہے اور اس کو مکمل اعداد کی آپس میں نسبت سے ظاہر کیا جاسکتا ہے ۔ان کے مطابق کائنات کی ہر شئے میں ریاضی مضمر ہے ۔جیومیٹری کا ایک مشہور مسئلہ ہے کہ ایک قائم الزاویہ مثلث میں وتر کا مربع دونوں ضلعوں کے مربعوں کے مجموعے کے برابر ہوتا ہے۔ یہ ’’مسئلہ فیثا غورث‘‘ کہلاتا ہے، کیوں کہ یہ انہوں نے ہی دریافت کیا تھا۔ اس مسئلے کے باعث ریاضی میں فیثا غورث کو شہرت دوام حاصل ہے اور اس کا نام جیومیٹری کے ہر طالب علم کی زبان پر ہے۔فیثا غورث پہلا شخص تھا جس نے ریاضی کو تجارت کے علاوہ دیگر مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا اور اسے ایک قابل تحقیق علم کی صورت دی۔ اس نے اطاعت اور مراقبہ، کھانے میں پرہیز، سادہ لباس اور تجزیہ ذات کی عادت پر زور دیا۔Pythagoras theorem جس میں انہوں نے ثابت کیا کہ ایک right triangle میں a2 + b2 = c2 یعنی hypotenuse کا مربع ہمیشہ base کے مربع اور prependicular کے مربعے کے برابر ہوتا ہے ۔ یہ تھیورم تعمیراتی تکنیکوں میں خاصیاہمیت کا حامل ہے۔ پلاٹو اور کئی عظیم مغربی فلاسفر Pythagoras کے فلسفے کے حامل تھے اور پلاٹو نے فیثا غورث کے علمِ جیومیٹری سے متاثر تھے، انہوں نے اپنی علم گاہ پہ یہ کنندہ کروایا تھا وہ اس تدریس گاہ میں داخل ہونے کا اہل نہیں جو جیومیٹری کے علم سے نا واقف ہے۔ 

 فیثا غورث حکمت و دانائی کے آسمان پہ مثلِ ماہتاب دمکنے والا ستارہ تھے ،جس کی کرنیں رہتی دنیا تک اہلِ علم کو راستا دکھاتی رہیں گی ۔ علم و حکمت کا یہ بادشاہ، جس کو تاریخ فیثا غورث (Pythagoras) کے نام سے یاد کرتی ہے یونان (GREECE) کے جزیرے سیموس SAMOS میں قریباً 570 قبلِ مسیح میں پیدا ہوا ۔ان کا تعلق امیر گھیرانے سے تھا ۔ علم و حکمت کا شوق بچپن سے ہی تھا۔ لڑکپن میں دانائی کا یہ عالم تھا کے اپنے اساتذہ کو ہمیشہ سوالوں میں الجھا کے رکھتے ۔حصولِ علم کی اس لذت نے فیثا غؤرث کو سفر میں رکھا ۔انہوں نے تاریخ میں پہلی دفعہ اپنے لیے فلاسفر کا لفظ استعمال کیا ،جس کے معنی علم سے محبت کرنے والےکے ہیں ۔ سیموس SAMOS میں فیثاغورث نے ایک ا سکول کا آغاز کیا، جہاں پورے یونان سے لوگ حصولِ علم کےلئے آیا کرتے تھے۔ سیاسی چپقلش اور سیاسی مخالفت کی وجہ سے فیثا غورث کو اس شہر کو خیر آباد کہنا پڑا اور اٹلی کے شہر CROTON میں رہنے لگے ۔ یہاں جلد ہی ان کی شخصیت فلسفے اور ریاضی میں مہارت کی وجہ سے معروف ہوگئی ،وہاں انہوں نے ایک علم گاہ کی بنیاد رکھی ،جہاں لوگ خاص طور پر اشرفیہ اور اہلِ علم لوگ حصولِخیال کیا جاتا ہے کہ ابتدائے جوانی میں فیثا غورث نے مصر اور بابل و نینوا کا سفر کیا تاکہ وہاں کی علمی و ادبی معاشرت سے مستفید ہو۔ اس زمانے میں یہی علاقے علم و آگہی میں سب سے آگے سمجھے جاتے تھے۔واپس آ کر فیثا غورث اپنے آبائی علاقے میں زیادہ دیر ٹھہر نہ سکا۔فیثا غورث کی مذہبی،سیاسی اور فلسفیانہ تعلیمات نے افلاطون اور ارسطو کو کافی متاثر کیا۔فیثا غورث کو بہت سی سائنسی اور ریاضیاتی دریافتوں کا حامل سمجھا جاتا ہے جیسا کہ فیثا غورثی تھیوریم،پانچ ریگولر سالڈز،صبح اور شام کے ستارے کی ستارہ وینس Venusکے نام سے دریافت۔اس نے پوری روئے زمین کو پانچ موسمیاتی خطوں میں تقسیم کیا۔اس کے خیال میں تمام کائنات اور اس کے اجرامِ فلکی یعنی ستارے اور سیارے ایک نظم و ضبط کے پابند ہو کر متحرک ہیں۔یہ اجرامِ فلکی ایک Mathematical Equationکے مطابق گردش کرتے ہیں اور یہ منظم گردش موسیقی کے سروں جیسی ہے۔اسی لیے ان کی گردش ایک غیر صوتی سُر Inaudible symphwny پیدا کرتی ہے۔اس   وجہ سے تمام کائنات محوِگردش رہتے ہوئے نغمہ سرا ہے۔فیثا غورث کا خیال تھا کہ زمین اور آسمان میں ہر شے ایک عدد کے تحت پیدا کی گئی ہے۔ہر شے کا ایک مخصوص عدد ہے۔فیثا غورث کی اکیڈمی میں سخت رازداری میں تعلیم و تربیت کی وجہ سے علاقے میں فلاسفر کے خلاف طرح طرح کی چہ مگوئیاں اور بد گمانیاں پیدا ہونی شروع ہو گئیں۔آخر کار فسادات پھوٹ پڑے۔

لوگوں نے شر پسند عناصر کے اکسانے پر فیثا غورثی اجلاس گاہوں کو آگ لگا دی اور اکیڈمی کو شدید نقصان پہنچایا۔فیثا غورث کی جان پر بن آئی۔نامساعد حالات سے تنگ آ کر فیثا غورث زندگی میں دوسری مرتبہ بھاگنے پر مجبور ہوا اور اٹلی کے مقام میٹاپونٹمMetapontumمیں جا بسا جہاں تھوڑے ہی عرصے بعد 75 سال کی عمر میں وہ  فوت ہو گیا  - 

۔

جمعرات، 5 ستمبر، 2024

نواب بہاول خان عباسی اوّل کے علمی کارنامے

 ۔ نواب صادق محمدخان عباسی کے صاحب زادے،-نواب بہاول خان عباسی کے  لئے اگر کہا جائے کہ دریا دل'فیاض 'انتہا درجے کے علم دوست'    تو یہ ہر گز بے جا نہیں ہو گا -نواب بہاول خان عباسی اوّل نے 1774ء میں دریائے ستلج کے جنوب میں ایک نئے شہر ،بہاول پور کی بنیاد رکھی۔نواب سر صادق محمد خان خامس عباسی30 ستمبر 1904ء کو پیدا ہوئے، وہ نواب حاجی محمد بہاول خان خامس عباسی کے اکلوتے فرزند تھے۔ جب وہ دو برس کے تھے، تو والد کے ساتھ سفرِ حج پر گئے، لیکن واپسی پر دورانِ سفر ان کے والد نواب بہاول خان کا انتقال ہوگیا، جس کے بعد 15مئی1907ء کو سر صادق کو ریاست کا حکمران مقرر کرنے کا اعلان کردیا گیا، مگر چوں کہ نواب صادق محمد خان بہت کم سِن تھے، لہٰذا ان کی تعلیم و تربیت اور ریاست کے انتظام و انصرام کے لیے حکومتِ برطانیہ نے آئی سی ایس آفیسر، سر رحیم بخش کی سربراہی میں کائونسل آف ریجینسی قائم کردی۔ نواب صاحب نے ابتدائی تعلیم اُس وقت کی نام وَر علمی شخصیت، علاّمہ مولوی غلام حسین قریشی سے حاصل کی۔ 3 برس کی عمر میں تخت نشین ہونے والے شہزادے کی شخصیت کے نکھار کے لیے، انہیں دنیاوی تعلیم کے ساتھ مذہبی اور اعلیٰ انتظامی و عسکری تربیت بھی دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ 1911ء میں وہ صرف سات برس کی عمر میں فوج کی کمان کرتے ہوئے شہنشاہِ برطانیہ، جارج پنجم کے سامنے پیش ہوئے۔


ریاست بہاول پور میں صادق گڑھ پیلس اور صادق ایجرٹن کالج (ایس ای کالج) کی لائبریریز نادر و نایاب کتب کے حوالے سے مشہور ہیں۔ سرصادق دنیا بھر سے اہم کتاب کے تین نسخے منگواتے، اور ایک نسخہ صادق ریڈنگ لائبریری (سینٹرل لائبریری)، دوسرا صادق گڑھ پیلس اور تیسرا صادق ایجرٹن کالج کی لائبریری میں رکھاجاتا۔ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ریاست بہاول پور میں علم وادب کی کس قدر سرپرستی کی جاتی تھی۔ نواب صاحب مرحوم اور ان کے پیش روئوں نے ہمیشہ تعلیم کی ترویج کے لیے اقدامات کیے۔نواب سر صادق نے1925ء میں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ دینی مدرسے، صدر دینیات کو ترقی دے کر جامعۃ الازہر کی طرز پر جامعہ عباسیہ قائم کیا۔ یہ پورے برصغیر میں اپنی نوعیت کا واحد ادارہ تھا، جہاں طلبہ، مختلف مکاتبِ فکر کے علماء و اساتذہ سے اکتسابِ فیض کرتے۔ جامعہ عباسیہ میں دینی و مشرقی علوم کے ساتھ ساتھ ریاضی، انگریزی اور سائنس کی بھی تعلیم دی جاتی۔ اس کے علاوہ طبِ یونانی کی تعلیم کے لیے 1926ء میں جامعہ عباسیہ کا ذیلی ادارہ، ’’طبیّہ کالج‘‘ قائم کیا گیا، جو آج بھی پنجاب کا واحد سرکاری طبیّہ کالج ہے۔ نواب سر صادق مرحوم کا سب سے بڑا کارنامہ، ایچی سن کالج کی طرز پر1954ء میں صادق پبلک اسکول جیسے اعلیٰ معیاری ادارے کا قیام ہے۔ مذکورہ ادارے کے لیے نواب صاحب نے اپنی 450ایکڑ ذاتی زمین دینے کے علاوہ، تعمیرکی مَد میں مطلوبہ فنڈزبھی فراہم کیے۔


 قبلِ ازیں، قیام پاکستان سے پہلے 1928ء میں ستلج ویلی پراجیکٹ کا بھی افتتاح کیا، جس کے تحت دریائے ستلج پر تین ہیڈ ورکس سلیمان کی، ہیڈاسلام اور ہیڈپنجند تعمیر کرکے پوری ریاست میں نہروں کا جال بچھاکر غیر آباد زمینوں کی آبادکاری کے لیے مختلف علاقوں سے آبادکاروں کو ریاست میں آباد ہونے کی ترغیب دی گئی۔ نئی منڈیاں قائم کرکے ہارون آباد، فورٹ عباس، حاصل پور، چشتیاں، یزمان، لیاقت پور اور صادق آباد جیسے شہر بسائے گئے۔ یہیں سے نواب سر صادق اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے درمیان لازوال دوستی کا رشتہ بھی قائم ہوا۔ ریاست کے اس وقت کے وزیراعظم سر سکندر حیات نے (یونینسٹ رہنما) جب ریاست کے خلاف درپردہ سازش کا آغاز کیا، تو ریاست کے اُس وقت کے وزیر داخلہ اور نواب مرحوم کے اتالیق، مولوی غلام حسین قریشی مرحوم نے اس سازش کو بے نقاب کیا اور نواب مرحوم کو اپنے قانونی مشیر سے مشورہ لینے کو کہا۔اس مقدمے کی پیروی اُس وقت کے ریاست کے قانونی مشیر، قائدِ اعظم محمد علی جناح نے کی اور مقدمے کا فیصلہ بہاول پور کے حق میں ہوا۔ 1930ء میں سر صادق نے ریاست کپور تھلہ میں جامع مسجد تعمیر کروائی اور مہاراجہ کپور تھلہ کی فرمایش پر خود اس کا افتتاح کیا۔ 3 دسمبر 1930ء کو سر راس مسعود (وائس چانسلر) کی دعوت پر مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کے سالانہ کانووکیشن کی صدارت کی اور ایک لاکھ روپے کی خطیر رقم بہ طور عطیہ دی۔ 


ء میں ندوۃالعلماء، لکھنو ٔکے لیے نواب صاحب کی والدہ محترمہ کی طرف سے دی جانے والی پچاس ہزار روپے کی مالی امداد کے جواب میں علامہ شبلی نعمانی نے شکریے کا خط تحریر کیا، جو محافظ خانہ (محکمہ دستاویزات) بہاو ل پور میں محفوظ ہے۔ پنجاب یونی ورسٹی اولڈ کیمپس کا سینیٹ ہال (جہاں اِس وقت یونی ورسٹی کالج آف انفارمیشن ٹیکنالوجی قائم ہے) سرصادق ہی نے تعمیر کروایا۔کنگ ایڈورڈمیڈیکل کالج کابہاول پور بلاک نواب صاحب کی یادگار ہے۔ اسی طرح ایچیسن کالج کا بورڈنگ ہاؤس (بہاول پور ہاؤس) نواب سر صادق کی یادگار ہیں۔ جن تعلیمی اداروں اور رفاحی اداروں کی مستقل سرپرستی اور مالی معاونت کرتے رہے، ان میں انجمن حمایت اسلام لاہور، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، ندوۃالعلماء لکھنؤ، دارالعلوم دیوبند، مظاہر العلوم سہارنپور، جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن، جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی، انجینئرنگ کالج لاہور اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں

مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد دکن، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج، انجینئرنگ کالج لاہور، ڈاؤ میڈیکل کالج کراچی، داؤ انجینئرنگ کالج کراچی وغیرہ میں بہاول پور سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کے لیے علیحدہ نشستیں مختص تھیں۔ ریاست کی طرف سے لاہور کے بہاول پور ہاؤس اور کراچی کے الشمس میں طالب علموں کے لیے رہائش کا انتظام تھا اور ان کو وظائف بھی دیے جاتے تھے۔ 27 فروری 1934ء کو نواب صاحب کی تعلیمی خدمات کے اعتراف کے طور پر رجسٹرار پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر وُلز نے بہاول پور آ کر صادق گڑھ پیلس میں منعقدہ تقریب میں انہیں ایل ایل ڈی کی اعزازی ڈگری دی۔ 1935ء میں ہی کوئٹہ کے زلزلہ زدگان کے لیے امدادی ٹرین روانہ کی۔اسی سال فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے تقریباً سو افراد کو اپنے ساتھ لے گئے۔ سامان کے لیے جو فوجی گاڑیاں اور موٹریں بحری جہاز پر ساتھ لے گئے، سب سعودی حکومت کو بطور تحفہ دے دیں، مسجد نبویؐ میں قیمتی فانوس لگوائے۔ اسی سال جولائی میں جامع مسجد دہلی کی طرز پر ’’جامع مسجد الصادق‘‘ کی ازسرِ نو تعمیر کا سنگِ بنیاد رکھا جو اس وقت پاکستان کی چوتھی بڑی مسجد ہے۔ جامع مسجد کے اخراجات کے لیے کثیر زرعی رقبہ وقف کیا۔ اس کی تعمیر میں سنگِ سرخ اور سنگِ مرمر کا استعمال کیا گیا ہے۔

منگل، 3 ستمبر، 2024

اونچے چناروں کے سائے میں جموں کشمیر کےمغلیہ باغات

 سری نگر میں شالامار باغ، مغلیہ   دور میں اسلامی طرز تعمیر پر مغلیہ حکومت  نے قائم  کئے۔ کیونکہ  یہ زمانہ ایرانی طرز تعمیر سے متاثر تھا اس لئےیہ باغات اور تیموری سلطنت کے باغات کے طرز تعمیر کا اثر سموئے ہوئے ہیں۔ چاردیواری میں گھرے یہ باغات  مسطتیل  ترتیب میں تعمیر کیے گئے۔ ان باغات کی  نشانیوں میں تالاب، فوارے اور نہریں جو باغات کے وسط میں تعمیر کی گئی ہیں-جس کے سبزہ زار ڈل جھیل کے دامن تک پہنچتے ہیں یہ 17ویں صدی کی دوسری دہائی کے اواخر کی بات ہے۔ کشمیر کے قدرتی حسن و جمال کا جادو مغل شہنشاہ نورالدین محمد سلیم المعروف جہانگیر پر سر چڑھ کر بول رہا تھا۔اس کی جھلک جہانگیر کی خودنوشت ’تزک جہانگیری‘ میں ملتی ہے جس میں وہ کشمیر کو ’ایک سدا بہار باغ‘ اور ’ایک پھلواری‘ کا نام دیتے ہیں۔وہ گرمیوں میں اکثر لاہور سے کشمیر کا رخ کرتے اور سری نگر میں ان کے والد شہنشاہ جلال الدین اکبر کے تعمیر کردہ قلعہ ہاری پربت سے حکومتی امور چلاتے۔جہانگیر نے سنہ 1619 میں ہاری پربت سے قریب 10 کلو میٹر دور زبرون پہاڑی سلسلے میں ایک دلکش باغ تعمیر کرایا جو آج شالامار باغ کے نام سے مشہور ہے۔مورخین کا کہنا ہے کہ جہانگیر نے یہ باغ اپنی چہیتی بیوی مہرالنسا المعروف نور جہاں کی محبت میں تعمیر کرایا جنہیں باغات کی تعمیر میں گہری دلچسپی تھی۔

نامور کشمیری مورخ، محقق، نقاد اور مصنف محمد یوسف ٹینگ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ شہنشاہ جہانگیر نے اپنے عہد حکمرانی کے دوران 13 مرتبہ کشمیر کا دورہ کیا۔ان کا کہنا تھا: ’بیشتر موقعوں پر نور جہاں ان کے ہمراہ رہتی تھیں۔ کسی دوسرے مغل شنشہاہ اور ملکہ نے کشمیر میں اتنا وقت نہیں گزارا جتنا جہانگیر اور نور جہاں نے گزارا۔‘انہوں نے مزید کہا: ’جہانگیر کا قافلہ لاہور میں سورج کی تپش بڑھتے ہی کشمیر کی طرف روانہ ہو جاتا۔ پھر جب یہاں اکتوبر یا نومبر میں زعفران کی فصل تیار ہوتی تو شہنشاہ کا قافلہ واپس لاہور چلا جاتا۔‘معروف کشمیری مورخ ظریف احمد ظریف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 1605 میں مغلیہ سلطنت کی باگ ڈور سنبھالنے والے جہانگیر جب پہلی مرتبہ کشمیر آئے تو یہ جگہ پہلی ہی نظر میں ان کے دل و دماغ میں گھر کر گئی۔جہانگیر نے کشمیر کا حسن و خوبصورتی دیکھ کر خواہش ظاہر کی تھی کہ میرا قبرستان بھی یہیں پر ہو۔


‘محمد یوسف ٹینگ کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جہانگیر نے شالامار باغ نور جہاں کے لیے تعمیر کرایا تھا۔ان کے بقول: ’شالامار باغ کی تعمیر نور جہاں کا ایک خواب تھا جس کو جہانگیر نے پورا کیا۔ تعمیر کے بعد نور جہاں نے اس باغ کی منتظمہ کے فرائض انجام دیے۔ وہ اس باغ کو مزید جاذب النظر بنانے کے کام میں سرگرم رہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ نور جہاں نے کشمیر میں کئی باغات اپنی سرپرستی میں تعمیر کرائے۔‘سنیل شرما اپنی کتاب ’مغل آرکیڈیا – پرشین لٹریچر این انڈین کورٹ‘ میں لکھتے ہیں کہ نور جہاں کا نام آگرہ، لاہور اور سری نگر میں واقع کئی باغات سے جڑا ہے۔’کشمیر کے باغات کا نگینہ کہلایا جانے والا شالامار باغ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک حصے کا نام فرح بخش ہے جو جہانگیر نے 1619 میں نور جہاں کے لیے تعمیر کرایا۔ دوسرے حصے کا نام فیض بخش ہے جو ان کے بیٹے شاہ جہاں نے 1934 میں تعمیر کرایا۔‘سری نگر کا دوسرا بڑا باغ نشاط ہے جو شالامار باغ سے بھی زیادہ دلکش ہے۔ اس کو نور جہاں نے 1625 میں اپنے بھائی آصف خان سے تعمیر کرایا۔ 


انہوں نے کشمیر میں اچھہ بل اور جھروکا باغ سمیت دیگر کئی باغات بنوائے۔‘جرمن مورخ و مصنف مائیکل جے کاسیمیر اپنی کتاب ’فلوٹنگ اکانومیز: دا کلچرل اکولوجی آف دا ڈل لیک ان کشمیر‘ میں لکھتے ہیں: ’مغل شہنشاہ جہانگیر نے 1619 میں اپنی ملکہ نور جہاں کے لیے جنت نظیر کہلائے جانے والے کشمیر کے اندر ایک اور جنت تعمیر کرائی۔ مشہور مغل باغات شالامار باغ اور نشاط باغ اس وقت بھی ڈل جھیل کے شمال مشرقی حصے میں تاباں ہیں۔‘جیمز ایل ویسکوٹ اور جے ڈبلیو بلمن نے اپنے مقالے ’مغل گارڈنز: سورسز، پلیسز، ریپریزنٹیشنز اینڈ پراسپیکٹس‘ میں لکھا ہے کہ جہانگیر کے عہد حکمرانی میں ان کی ملکہ نور جہاں کی سرپرستی میں باغات کی تعمیر کا کام عروج کو پہنچا۔نور جہاں کا خاندان 16ویں صدی کے اواخر میں فارس سے ہندوستان منتقل ہوا تھا۔ جہانگیر سے شادی کے بعد نور جہاں، ان کے والد اور بھائیوں نے بڑھتی ہوئی سیاسی طاقت حاصل کی اور مرکزی شہروں، کارواں سرائیوں اور باغات کے صوبہ کشمیر میں باغات کی تعمیر کی سرپرستی کے فرائض انجام دیے۔ 

  جہانگیر نے اس آبشار کو اپنی محبوب ملکہ نور جہاں کے نام سے منسوب کر دیا اور اس کا نام نور چھمب رکھا۔ آج یہ آبشار نوری چھمپ کے نام سے جانا جاتا ہے۔‘شالامار باغ کی خصوصیات-مورخ محمد یوسف ٹینگ کہتے ہیں کہ مغلیہ دور خاص طور پر جہانگیر کے عہد حکمرانی میں شالامار باغ میں رات کے وقت موسیقی اور رقص کی محفلیں سجتی تھیں جن میں مغلیہ خاندان کی مرد و زن اور دیگر عزیز و اقارب شامل ہوتے تھےان کے مطابق: ’اُس زمانے میں ڈل جھیل کے کنارے قلعہ ہاری پربت کی سرحدوں کو چھوتے تھے۔ دن بھر قلعے میں حکومتی امور انجام دینے کے بعد شہنشاہ، ان کے افراد خانہ اور دیگر حکومتی عہدیدار کشتیوں میں سوار ہو کر شالامار باغ پہنچ جاتے۔ نصف شب تک وہاں محفلوں اور بیٹھکوں میں مصروف رہنے کے بعد وہ آرام کرنے کے لیے واپس قلعے کو آ جاتے۔ ‘مورخ ظریف احمد ظریف کہتے ہیں کہ رات کے وقت شالامار باغ کا نظارہ قابل دید ہوتا تھا اور جہانگیر خود چاند کی روشنی میں اس باغ میں وقت گزارنا پسند کرتے تھے۔ہر طبقہ ایک مخصوص بلندی پر ہے۔ سب سے بلند طبقے سے صاف و شفاف پانی کی ایک نہر بہتی ہے۔ جس وقت جہانگیر نے شالامار باغ تعمیر کرایا اُس وقت اس نہر کی چوڑائی 36 فٹ اور لمبائی ڈیڑھ کلو میٹر تھی۔‘انہوں نے کہا: ’اس باغ میں بڑے پیمانے پر چنار کے درخت لگائے گئے تھے۔

اتوار، 25 اگست، 2024

دُمدار ستاروں کی دنیا

 ایک دن کا زکر ہے   مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام اپنے ہم نشینوں کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ ایک سائل نے مولا علی علیہ السلام سے سوال کیا کہ مولا فلاں اہرام کب بنا تھا مولا نے کہا اس اہرام کے ماتھے پر کس پرندے کی تصویر ہے۔ اس سائل نے پرندے کے بارے میں مولا کو بتایا کہ تو مولا نے کہا کہ اس اہرام کو 12000 سال پہلے بنایا گیا تھا کیونکہ اس پرندے کی شکل کا ستارہ بارہ ہزار سال کے دورانئے پر  آسمان  میں آشکار ہوتا ہے -اب آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ سیارے   ہمارے کہکشانی نظام میں کروڑوں  کی تعداد میں موجود ہیں ان کے مسافتوں  کا کیا دورانیہ ہے سوائے اللہ رب کائنات کے کوئ نہیں جان سکتا -انسان کوشش کرتا ہے تب بہت قلیل علم تک رسائ حاصل کرتا ہے-یہ کروڑوں کے  حساب سے ستاروں  کی دنیا کے درمیان   کون سا سیارہ  کتنے ہزار میل پر گردش کر رہا ہے  کوئ نہیں جانتا میں نے گوگل سرچ کی مدد سے جوکچھ پڑھا ہے آپ کی خدمت میں پیش  ہے-  ایک  دمدار ستارہ  سورج   کے قریب سے گزرنے کے لئے   تقریباً 50 ہزار سال لیتا ہے خود دی پلینٹری سوسائٹی کے مطابق' وہ موقع ہے جو ہماری زندگیوں میں صرف ایک بار  آئے۔ دمدار ستارے کا اکثر حصہ برف پر مشتمل ہوتا ہے نیز خاک اور پتھر وغیرہ کا ملبہ بھی ہوتا ہے اس کے علاوہ گیسیں مثلاً میتھین+امونیا+کاربن مونو آکسائیڈ+کاربن ڈائی آکسائیڈ وغیرہ بھی موجود ہوتی ہیں اور سورج سے یہ گیسیں جمی ہوئی حالت میں ہوتی ہیں۔کومٹ  لاطینی زبان کا لفظ ''کومیٹا'' سے ہے، جس کا مطلب ہے لمبے بالوں والی دم -دم دار ستارے میں خود روشنی نہیں ہوتی  یہ اپنی روشنی سورج سے منعکس کرتے ہیں۔ماہرین کے مطابق یہ دم دار ستارہ 43 سال میں ایک بار سورج کے گرد چکر لگاتا ہے، یعنی اسے دیکھنے کے لیے صِدّیوں کا انتظار کرنا چاہیے


 نِشمورا سورج کے قریب سے 17 ستمبر کو گزرے گا اور اس وقت وہ۔ سورج سے 3 کروڑ کلو 30 لاکھ کلومیٹر کے فاصلے پر موجود اسی طرح یہ دار ستارہ زمین سے 12 کروڑ کلومیٹر کے علاقے سے گزرنے کے لیے کوشاں ہے۔  ی  آسمان پر سبز رنگ کا دُمدار ستارہ  ۔ آخری بار یہ دُمداد ستارہ آج سے پچاس ہزار سال پہلے زمین سے دِکھا ئ دیا۔   ماہر ستارہ کہتے ہیں نشموراسیارہ زمین سے تقریباً ساڑھے چار کروڑ کلومیٹر دور سے گزرچکا ہے ۔ دمدار ستارے دراصل ستارے نہیں ہوتے بلکہ نظامِ شمسی میں  سورج کے گرد گھومتے چھوٹے چھوٹے  جمی گیس ،برف، چٹانوں یا گرد کے بنے سیارچے ہوتے ہیں جو سورج کے گرد ایک طویل اور بیضوی مدار میں گھومتے ہیں۔ یہ چمکتے اس لیے ہیں کہ ان پر سورج کی روشنی پڑتی ہے۔ جب یہ اپنے مدار میں سورج اور زمین کے بیچ آتے ہیں تو سورج  کے قریب آنے سے اُسکی روشنی اِنکو گرم کرتی ہے اور ان میں جمی گیسیں باہر کو نکلتی ہیں جو دُم کی صورت اختیار کرتی ہیں۔ یہ گیسیں سورج کی روشنی کو منعکس کرتی ہیں اور یوں ان اجسام کی دم سی نظر آتی ہے ویسے ہی جیسے ہوا میں اڑتے جہاز کا دھواں سورج کی روشنی میں نمایاں دکھتا ہے۔ان دمدار ستاروں کا  مدار سورج کے گرد کئی سو سال تک کا ہوتا ہے۔ اسی لئے اکثر دمدار ستارے کئی صدیوں یا دہائیوں بعد نظر آتے ہیں۔


 ہمارے نظامِ شمسی میں اب تک ڈھونڈے گئے دُمدار ستاروں کی تعداد ساڑھے تین ہزار سے اوپر ہے۔ مگر انکی کل تعداد اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔  ان کی رفتار سورج کی فضا کی بنیاد پر تبدیل ہوتی ہے جب یہ سورج کے بالکل قریب ہوتے ہیں تو ان کی رفتار تیز ہوتی ہے اور  سورج سے دور ان کی رفتار کم ہوتی ہے۔ قلب، دم دار سیارے کا مادہ اس کے جسم سے زیادہ ہی (بادل) لطیف ہوتا ہے اس کی وجہ سے دم دار سیارے میں تارے چمکتے نظر آتے ہیں ان کی بہت دیر ہوتی ہے۔ دمدار سیاروں کی  دُم ہزاروں میل لمبی ہوتی ہے۔(قلب کے درمیان روشن کچھ کہتے ہیں) دُمدار ستارے بہت بڑی تعداد میں نظام شمسی میں نشانی سورج کے گرد بیضوی مدار (بیضوی مدار) گھومتے ہیں۔ زیادہ وقت سورج سے دور ہیں اور نظر نہیں آتے۔ جب سورج کے تلاش کرتے ہیں تو دُمدار ستارے کی شکل میں نظر آتے ہیں۔ اس طوفان کے ایک سرے پر یہ سورج پوری طرح سے گزرتے ہیں اور دوسری سورج سے بہت دور نکلتے ہیں کہ ان سے بعض سورج کے گرد موجود تمام سیاروں سے بھی دور نکل جاتے ہیں اور دوبارہ سورج کے  بالکل قریب سے گزرتے ہیں۔اور اس کے لیے دُمدار ستارے مستقل حرکت میں رہتے ہیں۔


   دمدار ستارے کی  دُم دراصل  اس گیس سے ہی بنتی ہے جن گیسوں میں اس کو وجود لپٹا ہوا ہوتا ہے اور بھی دوسرے جماداتی عناصر بھی شامل ہوتے جاتے ہیں  جیسے  برف کے گولے- مٹی اور پتھر کی بنی ہوئی بڑی گیندوں کی طرح ہیں  ۔ باہر موجود برفانی موا د سے ایک چھلّے سے آپ کو اورٹ کلڈ کہا جاتا ہے۔ جب یہ سورج کے قریب پہنچتے ہیں تو سورج کی شعاعوں کی وجہ سے ان گیسوں اور مٹی کی ایک لہر نکلتی ہے جس کو ہم ستارے کی دم کہتے ہیں ۔نظامِ شمسی میں موجود کئی اجسام کی کششِ ثقل انھیں اوورٹ کلاؤڈ سے کھینچ کر یہاں لے آتی  ہے اور جیسے جیسے یہ سورج کے قریب پہنچتے ہیں ان کی چمک میں اضافہ ہونے لگتا ہےاور ہماری نگاہیں حیران ہوتی ہیں کہ ستارے  کی دم کتنی چمکدار ہےٓاوسط دمدار ستارے سے ایک ہزار گنا بڑا برنارڈینیلی برنسٹائن کامٹ 30 لاکھ سال سے زیادہ عرصے میں نظام شمسی میں داخل نہیں ہوا اور اب سورج کی جانب رواں ہے۔کامٹ نیووائز جون 2020 میں زمین کے پاس سے گزرا تھا۔ سائنس دانوں کے مطابق برنارڈینیلی برنسٹائن کامٹ ایک اوسط کامٹ سے ہزار گنا بڑا ہے (اے ایف پی)نظام شمسی کے مضافات سے ایک بہت بڑا سیارچہ سورج کی طرف بڑھ رہا ہے۔یہ دمدار ستارہ جسے برنارڈینیلی برنسٹائن کا نام دیا گیا ہے ایک اوسط دمدار ستارہ سے ایک ہزار گنا بڑا ہے۔ اسے پہلی مرتبہ 2014 میں ہمارے نظام سمشی سے چار ارب کلومیٹر کے فاصلے پر دیکھا گیا تھا۔ یہ فاصلہ تقریباً اتنا ہی ہے جتنا کہ نیپچون کا ہے۔


 دمدار ستارے کو پہلی مرتبہ دیکھے جانے اور رواں ماہ کے دوران یہ ہماری جانب بڑھتے ہوئے مزید ایک ارب کلومیٹر کا فاصلہ طے کر چکا ہے۔نظام شمسی کے میدان کے اعتبار سے دمدار ستارے کا مدار عمود میں ہے۔ وہ 2031 میں سورج کے قریب ترین مقام (جسے پیری ہلیئن) کہا جاتا ہے پر پہنچ جائے گا۔ لیکن اپنے حجم اور ہمارے نزدیک ترین ستارے سے قربت کے باوجود، شوقیہ ماہرین فلکیات اسے روشن ترین شکل میں بھی صرف بڑے دوربین کی مدد سے ہی دیکھ سکیں گے۔یونیورسٹی آف پینسلوینیا کے گیری برنسٹائن جنہوں نے دمدار ستارے کو دریافت کیا اور اسے نام دیا، کہتے ہیں: ’ہمیں امتیاز حاصل ہے کہ ہم نے دکھائی دینے والا شائد سب سے بڑا دمدار ستارہ دریافت کیا ہے۔ یا کم از کم یہ اس دمدار ستارے سے بڑا ہے جس پر اچھی طرح تحقیق ہو چکی ہے۔ یہ سیارہ کافی پہلے دریافت ہوا تھا  یہ ستارہ 30 لاکھ سال سے زیادہ عرصے میں نظام شمسی میں داخل نہیں ہوا۔

ہفتہ، 24 اگست، 2024

11 پولیس اہلکاروں کی شہادت


  کل ایک دل دہلا دینے والی خبر  انٹرنیٹ پر پڑھی -کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کا پولیس کی گاڑیوں پر راکٹوں سے حملہ میں 11اہلکاروں کی شہادت  7 زخمی 4 لاپتہ  -زرا سوچئے راکٹ حملے میں شہید ہو جانے والے کسی ماں  کی آ نکھوں کا نور تھے ' ان کو اپنے بوڑھے باپ کے جنازے کو اپنا شانہ دینا تھا -وہ سہاگن کا سہاگ تھے اپنے بچوں  کے سر پر آسمان تھے جو اپنے ہی لہو کی چادر اوڑھ کر قبروں میں جا سوئے 'میرا  پہلے بھی ایک بلاگ اسی موضوع پر موجود ہے''میری دھرتی ماں کے ڈاکو بیٹے   ''پھر میرے وطن کے رکھوالے ایک بڑا المیے سے دو چار ہوئے ،ضروری ہے کہ ان ڈاکوؤں کو نشان عبرت بنانے کے لئے پاک فوج اور دیگر سیکورٹی ادارے مشترکہ آپریشن شروع کریں 'رحیم یار خان کے کچے کے علاقے میں پولیس کی 2 گاڑیوں پر ڈاکوؤں کے حملے میں 11اہلکار شہید ہوگئے۔ پولیس کے مطابق ڈاکوؤں نے کچے کے علاقے ماچھکہ میں پولیس کی 2گاڑیوں پر حملہ کیا۔دونوں پولیس موبائل بارش کے پانی میں پھنس گئی تھیں۔ ڈاکوؤں نے راکٹ لانچروں سے پولیس پر حملہ کردیا۔ 

حملے کے بعد رحیم یار خان پولیس نے بھاری نفری علاقے میں طلب کرلی ہے۔پولیس نے کچے میں ڈاکوؤں کی نقل و حرکت روکنے کیلیے ماچھکہ میں کیمپ قائم کیا ہوا تھا، جہاں پر 25 کے قریب مسلح ڈاکوؤں نے شدید حملہ کیا۔واقعے کے بعد ضلع بھر کی پولیس کی بھاری نفری کو جائے وقوعہ پر طلب کرلیا گیا ہے جبکہ نفری کی قیادت ضلعی پولیس آفیسر عمران کررہے ہیں۔صورت حال کے پیش نظر جائے وقوعہ پر ایمبولینسز کو بھی طلب کرلیا گیا ہے۔پولیس کے مطابق دونوں پولیس موبائلوں میں 20 سے زائد اہلکار سوار تھے  ۔ڈاکوؤں نے گاڑیوں پر سوار پولیس اہلکاروں کو گھیرے میں لے لیا اور چاروں جانب سے فائرنگ بھی کی ۔پولیس حکام نے بتایا کہ پولیس اہلکار ڈیوٹی ادا کرکے واپس آرہے تھے کہ 25 کے قریب مسلح ڈکیتوں نے شدید حملہ کیا۔وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے رحیم یار خان میں پولیس کی گاڑیوں پر ڈاکوؤں کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے 11 پولیس اہلکاروں کی شہادت پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا اور شہید پولیس اہلکاروں کو خراج عقیدت پیش کیا۔محسن نقوی نے شہید پولیس اہلکاروں کو خراج عقیدت پیش کیا اورزخمی پولیس اہلکاروں کیلئے جلد صحت یابی کی دعا کی۔ انہوں نے کہا کہ شہید پولیس اہلکاروں کے لواحقین سے دلی ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کرتے ہیں،

۔آئی جی پنجاب عثمان انور کا کہنا ہے رحیم یار خان حملے سے متعلق اطلاعات لی جا رہی ہیں،پولیس کی بھاری نفری علاقے میں پہنچ گئی ہے۔ ہماری رائے میں رحیم یار خان کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے حملہ میں 11پولیس اہل کاروں کی شہادت بلاشبہ ایک قومی المیہ ہے اور اس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہےلیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کہ کیا ہمارے ملک کے ڈاکو اس قدر طاقت ور ہوچکے ہیں کہ ایک خاص علاقے میں ان کا قلعہ قمع کرنا سیکورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے مشکل یا ناممکن ہوگیا ہے۔کچے کے ڈاکو بے شمار وارداتوں میں علاقے کے معصوم شہریوں کی جان، مال، املاک، مال مویشی اور نقدی لوٹنے کی کاروائیوں میں ملوث ہیں لیکن ان ڈاکوؤں کے خلاف کوئی سخت کاروائی دیکھنے میں نہیں آئی۔بلاشبہ پولیس گاڑیوں پر ڈاکوؤں کا اچانک حملہ اتنے بڑے جانی نقصان کا باعث بنا۔ 11پولیس اہلکاوں کی شہادت، 7زخمی جبکہ 4پولیس اہلکاروں کے لاپتہ ہونے کی بھی اطلاع کوئی معمولی بات نہیں ہے۔

ہماری دانست میں جس طرح ملک کے سیکورٹی ادارے اور پاک فوج دہشت گردی کی لعنت کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے مصروف عمل ہیں، کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کی بھڑتی ہوئی کاروائیوں کے پیش نظرضروری ہوگیا ہے کہ اس پورے علاقے کو ڈاکوؤں سے پاک کرنے کے لئے پاک فوج،پنجاب پولیس، رینجرز اور دیگر سیکورٹی ادارے ایک مشترکہ آپریشن شروع کریں تو اس کے مثبت نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔پاک فوج اگر خوفناک دہشت گردوں کو نشان عبرت بناسکتی ہے بلاشبہ دہشت گردوں کو ان کی کمین گاہوں سے تلاش کرکے دہشتگردی کے عفریت کو کچلنے میں جس انداز سے پاک فوج نے مختلف آپریشنز کے زریعے بہتر ین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے۔ ایسے میں ان دہشت گرد ڈاکوؤں کوبھی ان کی کمین گاہوں سے باہر نکالنا پاک فوج اور دیگر سیکورٹی ادورں کے لئے کوئی مشکل کام نہیں۔

عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آخر کیوں ان ڈاکوؤں کے خلاف ایک سخت آپریشن شروع نہیں کیا جارہا تاکہ ان کو عبرت کا نشان بنایاجاسکے۔ ان کے خلاف کاروائی میں تاخیر سے ان ڈاکوؤں کو علاقے میں کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ ڈاکو بے شمار وسائل کے مالک ہیں اور ان کے پاس جدید اسلحہ اور بے پناہ مالی وسائل ہیں۔ لیکن یہ صورتحال کسی طور بھی قابل قبول نہیں ہوسکتی کہ چند افراد حکومت اور ریاست کی رٹ کو کھلے عام چیلنج کررہے ہیں۔جنہوں نے ریاست کے اندر ریاست بنا کر حکومتی اداروں، خاص طور پر سیکورٹی اداروں کی رٹ کو کھلا چیلنج کیا ہوا ہے اور اب پولیس اہل کاروں پر اتنا بڑا حملہ اس بات کا متقاضی ہے ان ڈاکوؤں کے خلاف ایک بڑا اورمشترکہ آپریشن شروع کیا جائے تاکہ اس علاقے کے معصوم عوام کوان درندہ صفت ڈاکوؤں کے چنگل سے نجات دلائی جاسکے۔بلاشبہ دنیا کا کوئی بھی معاشرہ اس نوعیت کی لاقانویت کی اجازت نہیں دے سکتا،لہذا ضروری ہوگیا ہے کہ ان ڈاکوؤں کی کمین گاہوں کو ختم کرکے ان ڈاکوؤں اور ان کے سہولت کاروں کو عبرت کا نشان بنایا جائے
جی ضرور بنائیے نشان عبرت !لیکن کچے کے علاقے کو جدید دنیا کی تمام سہولتیں بہم پہنچائیے تاکہ ان ڈاکوؤں کی اگلی نسل تعلیم یافتہ پاکستان کی نسل کہلائے 

جمعہ، 23 اگست، 2024

اب اغوا برائے تاوان کا نام "ہنی ٹریپ" ہے

 


دھوکہ دے کر کسی بھی شخص کو بلا کر اغوا برائے تاوان وصول کرنے  کے  نام کے لئے ہنی ٹریپ کی اصطلاح ایجاد کی گئ ہے-میں نے کئ برس پہلے بہت تفصیل سے ایک بلاگ لکھا تھا -اس بلاگ میں حیدری مارکیٹ کے ایک تاجر اور سادات کالونی ڈرگ روڈ کے ایک بنکار کے اغواپرتفصیل سے روشنی ڈالی تھی حیدری مارکیٹ کے تاجر سے  لفٹ مانگنے والی لڑکی نے اسے اغواکر کے گینگ کے سپرد کیا تشدد کیا گاڑی بھی چھینی اور گھر والوں سے تاوان بھی وصول کیا -اور پولیس جب گرفتار کرنے پہنچی تو کرائے کےگھر  سےگینگ فرار ہوچکا تھا-دوسری واردات میں جوان بنکار موت کے گھاٹ اتارا گیا لاش گاڑی میں موجود تھی اور اغوا کرنے والی لڑکیا ں دبئ میں اس کے کریڈٹ کارڈ سے لاکھوں کی خریداری کر رہی تھیں -پولیس کو ان کا کوئ سراغ نہیں ملا -اور اب ہمارے معروف خلیل الرحمٰن قمر کے ساتھ بھی یہی کچھ پیش آیا ہے'آگے بی بی سی کی ایک رپورٹ بھی پڑھئے ساجد علی کے موبائل کی گھنٹی بجی اور  زنانہ آواز میں بات کا آغاز ہوا اور تاثر دیا گیا جیسے یہ رانگ نمبر ہے۔ بعد میں اسی نمبر سے روزانہ کالز آنے لگیں اور گھنٹوں بات چیت ہونے لگی۔

چندہ ماہ میں اس رومانوی کہانی نے اس وقت نیا رخ اختیار کر لیا جب ساجد کو کزن کے ساتھ اغوا کر لیا گیا۔شمالی سندھ بالخصوص گھوٹکی، شکارپور اور کشمور کندھ کوٹ میں خواتین کی آواز میں فون کالز اور سوشل میڈیا کے ذریعے اغوا کی وارداتوں کا رجحان عام ہو چکا ہے، جس میں اب ڈاکو اغوا کی وارداتیں نہیں کرتے بلکہ مغوی خود ڈاکوؤں کے پاس اغوا ہونے کے لیے پہنچ جاتا ہے۔میرپور ماتھیلو میں ساجد علی سے جب ملاقات ہوئی تو وہ نویں جماعت کا امتحان دے کر واپس آئے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کا چند ماہ پہلے مومل (فرضی نام) سے فون پر رابطہ ہوا تھا، چند ماہ تک بات چیت کا سلسلہ جاری رہا، اور پھر اس نے کہا کہ ’ہم تو اب ایک کنبہ ہیں ہمیں اب ملاقات کرنی چاہیے، لہذا رانوتی ( کچے کا علاقہ) میں آ جاؤ۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے اکیلے جانے کے بجائے اپنے کزن کو ساتھ چلنے کو کہا۔‘وہ بتاتے ہیں کہ ’جب ہم متعلقہ جگہ پر پہنچے تو وہاں موٹر سائیکل پر سوار ایک بندہ آیا جس نے کہا کہ مجھے مومل نے بھیجا ہے، میرے پیچھے پیچھے آجاؤ۔ جب وہ پکے سے کچے کے حفاظتی بند پر پہنچے تو وہاں چار لوگ اور آگئے جن کے پاس کلاشنکوف تھیں۔ انھوں نے پہلے تو ہمیں مارا پیٹا اور پھر اغوا کر لیا۔‘ساجد علی نے بتایا کہ ’اغوا کے دوران راستے میں پانی کا ایک تالاب آیا، اس کو عبور کروایا گیا اور ایک جگہ ہمیں بٹھا دیا گیا اور دھمکی دی کہ ایک کروڑ روپے تاوان لیں گے ورنہ گردن کاٹ کر پھینک دیں گے۔‘


وہ بتاتے ہیں کہ ’اسی دوران وہاں پولیس پہنچ گئی آدھا گھنٹہ مقابلہ جاری رہا ہے جس کے بعد ڈاکو لڑتے لڑتے وہاں سے فرار ہو گئے۔‘ہنی ٹریپ: خاتون کی آواز میں جھانسہ-ساجد علی -میرپور ماتھیلو میں ساجد علی سے جب ملاقات ہوئی تو وہ نویں جماعت کا امتحان دے کر واپس آئے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کا چند ماہ پہلے مومل (فرضی نام) سے فون پر رابطہ ہوا تھا اور چند ماہ تک بات چیت کا سلسلہ جاری رہاٹیلی کام اور انٹرنیٹ کے فروغ کے بعد ڈاکو بھی اس کو اپنے مفاد میں استعمال کر رہے ہیں۔ ڈی آئی جی عرفان بلوچ، جو شمالی سندھ میں بطور ایس ایس پی فرائض سر انجام دیتے رہے ہیں، بتاتے ہیں کہ سندھ میں گھوٹکی ضلع سے خواتین کی آواز میں بات کر کے لوگوں کو جھانسہ دے کر اغوا کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا جو بعد میں شکارپور اور کشمور اضلاع تک پہنچ گیا۔بقول ان کے اس کی ابتدا گھوٹکی کے کوش قبیلے کے جرائم سے وابستہ ڈاکوؤں نے کی تھی جو خود خواتین کی آواز میں بات کرتے تھے۔ایس ایچ او انسپکٹر عبدالشکور لاکھو کہتے ہیں کہ ’فون پر بات کرنے کے لیے ڈاکوؤں نے ایسی خواتین بھی رکھی ہوئی ہیں جو لوگوں کے ساتھ رابطہ کرتی ہیں اور کسی نہ کسی طرح سے لوگوں کو یہاں آنے کے لیے آمادہ کر لیتی ہیں۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’ڈاکوؤں نے کچھ خواتین پنجاب سے منگوائی ہیں، کچھ انھوں نے اپنی عورتیں رکھی ہوئی ہیں۔

 فرض کریں اگر کوئی سندھی بولنے والا رابطے میں آئے گا تو سندھی میں عورت بات کرے گی، کوئی اردو بولنے والا آ گیا تو اردو میں بات کرے گی، پشتو والا آگیا تو پشتو زبان والی عورت بات کرے گی۔‘پولیس کے مطابق ڈاکوؤں کے ’ہنی ٹریپ‘ کا شکار بننے والے افراد اپنی گاڑی، مسافر کوچ یا ہائی ایس میں آتے ہیں، پھر ڈاکوؤں کا سہولت کار ان کو موٹر سائیکل پر لینے پہنچ جاتا ہے اور انھیں بتاتا ہے کہ ’میڈم نے بھیجا ہے۔ وہ انتظار کر رہی ہیں۔‘اس دوران کسی ناکے پر پولیس کی چیکنگ چل رہی ہو تو بھی پولیس کو یہ شبہ تک نہیں ہوتا کہ متاثرہ شخص موٹر سائیکل سوار کا رشتہ دار، دوست ہے یا مغوی۔وہ کہتے ہیں کہ زیادہ تر واقعات میں متاثرہ شخص خود موٹر سائیکل پر بیٹھ کر جاتا ہے کیونکہ مغوی کو پتہ نہیں ہوتا ہے کہ آگے جا کر وہ اغوا ہو جائے گا۔

 محمد علی اب لنگڑا کر چلتے ہیں۔ ڈاکوؤں نے ان کی ٹانگوں پر گولیاں مار کر انھیں چھوڑ دیا تھا، وہ بھی ایک فون کال پر کزن میانداد کے ہمراہ ڈاکوؤں کے نرغے میں آگئے تھےکاروبار اور کام کاج کا جھانسہ  -،وہ بتاتے ہیں کہ وہ الیکٹریشن ہیں اور انھیں ڈاکوؤں نے کام کاج کا جھانسہ دے کر اپنے چنگل میں پھانسہ تھا۔ ’ڈاکؤوں نے فون کر کے کہا کہ چار کمروں کی الیکٹریکل وائرنگ کا کام ہے۔ آ کر دیکھ لو۔‘محمد علی کہتے ہیں کہ جب وہ نہیں گئے تو بار بار فون کالز آنے لگیں۔’ایک دن میرا کزن، جو موٹر سائیکلوں کا کام جانتا ہے، کو میں نے ساتھ لیا اور سعید پور اڈے پر پہنچ گئے جہاں موٹر سائیکل سوار لوگ آئے اور اپنے ساتھ چلنے کو کہا۔‘وہ انھیں سی پیک روڈ سے کچے میں لے آئے اور ایک جگہ پر انھوں نے محمد علی اور ان کے کزن کو اغوا کر لیا اور انھیں درخت کے ساتھ باندھ دیا۔محمد علی اپنے اس تلخ تجربے کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’ڈاکوؤں  ہماری رہائی کے لیے 50 لاکھ روپے تاوان طلب کیا، جب انھیں بتایا کہ ہم غریب لوگ ہیں تو انھوں نے ہماری ایک نہ مانی اور ایک روز ٹانگ پر گولی مار کر ویرانے میں پھینک دیا اور فون پر گھر والوں سے کہا کہ ہمیں اٹھا کر لے جائیں۔‘اس واقعے کے بعد ان کے رشتے داروں نے پانچ لاکھ روپے تاوان ادا کر کے کزن میانداد کو رہا کروایا۔محمد علی کا علاج رحیم یار خان سے کروایا گیا لیکن وہ مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہوئے اور عمر بھر کے لیے ایک ٹانگ سے معذور ہو گۓ

جمعرات، 22 اگست، 2024

آ م بادشاہ اور ساون کا موسم

 



 یہ ان دنوں کی بات ہے فیڈل بی ایریا نیا نیا آباد ہوا  تھا ہرے بھرے درختوں کی  بہتات  تھی اور  گھنیرے  کھیتوں  کی ہریالی سے تمام علاقہ سرسبز   تھا جبکہ ہر گھر کے آگے ایک درخت ضرور ہوتا تھا  اس دور میں جب آم کے پیڑوں پر بور لگتا تھا    اور  ہماری صبح ہونے والی ہوتی تھی  اس وقت آموں کے پیڑ پر کوئل کی سریلی کُوک دل کے اندر میٹھی میٹھی کیفیت طاری کر دیتی تھی تو دوسری جانب رہٹ چلنے کی آواز بتاتی تھی کہ سویرے کی پو پھٹنے کو ہے -آ م پہ بور میری معلوموت کے مطابق  فروری  میں آ چکا ہوتا ہے جو جون تک تیار آم دیتا ہے - تمام  دنیا  میں پھلوں کے بادشاہ آم کی1600 کے قریب اقسام دنیا بھر میں پائی جاتی ہیں مگر صرف25سے 30 اقسام ایسی ہیں جنہیں تجارتی پیمانے پر اگایا جاتا ہے برطانیہ ، یورپ، مڈل ایسٹ، امریکہ، پاکستان سمیت افریقی ممالک میں بھی آم انتہائی مقبول اور پسندیدہ پھل کے طور پر شہرت رکھتا ہے آم انتہائی غذائیت اور ذائقے سے بھر پور پھل ہے پاکستانی آم دنیا کے زیادہ ممالک میں پسند کیا جاتا ہے اس میں فائبر کی مقدار زیادہ، کیلوریز کم اور کاربوہائیڈریٹس، کیلشیم، آئرن، پوٹاشیم اور تھوڑا سا پروٹین ہوتا ہے اور وٹامنز اے بی سی سے یہ بھر پور ہوتے ہیں دیگر اینٹی آکسیڈنٹ وٹامنز کا بھی ایک خزانہ اپنے اندر رکھتے ہیں یہ دنیا کے میٹھے پھلوں میں سے ایک ہے برصغیر آم کا مسکن ہے جہاں یہ تقریبا 4ہزار سال سے بڑھ رہا ہے اور اس کے بعد یہ دیگر علاقوں میں پھیل گیا ہے پاکستان میں آم2ہزار سال سے زیادہ عرصے سے پیدا ہو رہے ہیں اور یہ ملک اب دنیا کا چوتھا بڑا آم پیدا کرنے والا ملک ہے، آم کی 1595اقسام مشہور ہیں جن میں سے صرف 25 سے 30قسمیں تجارتی پیمانے پر اگائی جا رہی  ہیں  -یہ وہ دور تھا جب لوگوں کی زندگیوں میں فطرت پوری طرح دخیل تھی۔ ہم سب اپنے اپنے گھروں سے سورج کے غروب اور طلوع ہونے کے منظر کھلی آنکھوں سے دیکھا کرتے تھے کہ گھر کے رہنے والے خصوصاً اہل کراچی اونچی اونچی دیواروں اور لوہے کی جالی دار کھڑکیوں میں محبوس نہیں تھے۔ سمندر کو جانے والے راستے محفوظ تھے۔ بہار آتی تھی تو پورے ملک کے لوگ اس کا استقبال بھرپور طریقے سے کرتے تھے۔ کیونکہ یہ  پورے معاشرے کا کلچر تھا 


آم پاکستان کی دوسری بڑی پھلوں کی فصل ہے اس وقت یہ 1.8ملین ٹن کی پیداوار کے ساتھ ہزاروں ایکڑ کے رقبے پر اگایا جاتا ہے صرف صوبہ پنجاب میں تقریبا 3لاکھ ایکڑ کے قریب رقبے پر آم کے باغات ہیں جو کل پیداوار کا 70فیصد آم پیدا کر رہے ہیں ،صوبہ سندھ تقریبا 24فیصد اور خیبر پختوانخواہ بھی معمولی کا حصہ ڈالتا ہے پاکستان کی فصل دنیا کے آم کا 8.5 فیصد پیدا کرتی ہے پنجاب سے پہلے کی آب و ہوا نے صوبے کو آم کی ابتدائی اقسام اگانے کا اعزاز بخشا ہے آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز امپورٹرز اینڈ مرچنٹ ایسوسی ایشن کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے گزشتہ چند سال میں معیاری آم کی پیداوار میں کمی آرہی ہے اور حکومت اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے کوئی کام نہیں کر رہی ۔موسمیاتی تبدیلی اور شدید موسم کی وجہ سے جنوبی پنجاب میں آم کی فصل متاثر ہوتی ہے ماہرین کے مطابق آم کی فصل اگانے کیلئے پاکستان میں مٹی اور موسمی ماحول معیار کے لحاظ سے معاون ہے آم کی کم پیداوار میں متعدد عوامل کارفرما ہیں بیمار پودے بنانے والے غیر صحت بخش بیجوں کا غیر منظم استعمال، کیڑوں کا حملہ (آم کا میلی بگ، فروٹ فلائی، مینگو ویول، ترازو، مائٹس)، بڈنگ یا گرافٹنگ کے دوران انتظام کے غلط طریقے، آبپاشی کا وقت، کٹائی اور کھادوں کے استعمال کا وقت اس میں خاطر خواہ کردار ادا کر تے ہیں آم کی تشہیر اور  تا تعارف کے لیے محکمہ زراعت کی جانب سے رحیم یار خان میں تین روزہ سالانہ مینگو شو کا اہتمام کیا جاتا ہے


، پاکستان میں پھلوں کے بادشاہ کی جو اقسام پیدا ہو رہی ہیں ان میں چونسہ، سندھڑی، لنگڑا، دسہری، انور رٹول، سرولی، ثمر بہشت، طوطا پاری، فجری، نیلم، الفانسو، الماس، سانول، سورکھا، سنیرا اور دیسی شامل ہیں ۔پاکستان کا چونسہ آم دنیا کی بہترین دستیاب اقسام میں سے ایک ہے۔ چونسہ آم کی ایک قسم ہے جو دنیا کے مختلف حصوں میں اگائی جاتی ہے لیکن اصل میں پنجاب کے رحیم یار خان اور ملتان سے ہے یہ ایک غیر معمولی طور پر میٹھا آم ہے جس میں شاندار خوشبو اور مزیدار نرم، رسیلا ہے جس میں صرف کم سے کم فائبر ہوتا ہے عام طور پر پیلا، میٹ پیلے رنگ کا ہونا لیکن پتلی چھلکے کے اندر یہ ایک لذت ہے چونسا آم کافی موٹا اور رسیلا ہوتا  اس کا تعلق رحیم یار خان اور ملتان پنجاب سے ہے، سندھڑی سندھ کی ایک معروف قسم ہے اس کی شکل بیضوی لمبا، سائز بڑا، جلد کا رنگ لیموں پکنے پر پیلا، گودا رنگ زرد کیڈیم، بناوٹ ٹھیک اور مضبوط ریشے کے بغیر،درمیانے سائز کا، ذائقہ خوشگوار خوشبودار اور ذائقہ میٹھا ہوتا ہے اس کا تعلق میر پور خاص سے ہے، یہ پاکستان کا قومی پھل بھی ہے کیونکہ یہ ورائٹی پاکستان میں سرفہرست ہے، سندھڑی آم پاکستان کی بہت مشہور اور دنیا کے بہترین آموں میں سے ایک ہے


یہ ہندوستانی آم کی اقسام میں بھی بہت مشہور ہے اپنی مخصوص خوبصورت خوشبو کے ساتھ قابل دید، نیلم پورے موسم میں دستیاب ہے لیکن سب سے لذیذ خوشبو صرف مون سون کے ساتھ ہی جون تک آتی ہے وہ دیگر اقسام کے مقابلے میں چھوٹے ہوتے ہیں اور ان کی جلد پیلی نارنجی ہوتی ہے ‘الفانسویہ بہت پیارا اور دوسروں سے مختلف ہے اس قسم کے آم بیج سے نہیں اگتے یہ مصنوعی تبلیغ کے ذریعے لگایا جاتا ہے یہ وسط موسم کی قسم ہے اور اس کی کاشت جولائی میں ہوتی ہے ‘دیسی آم چونکہ دیسی آموں کی دیسی اقسام چونسہ اور دسہری جیسی تجارتی اقسام کی طرح مقبول نہیں ہیں، اس لیے کاشتکار معاشی طور پر منافع بخش اقسام کی طرف تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ یہ پہلے سے ہی خطرے سے دوچاردیسی اقسام کے لیے اچھا نہیں ہے یہ سب سے سستا آم ہے اور مارکیٹ میں مشکل سے جانا جاتا ہے حالانکہ ان میں سے کچھ تجارتی اقسام کے مقابلے میں اگانا بہت آسان ہیں زیادہ تر اوقات وہ ضائع شدہ بیجوں سے اگتے ہیں لیکن ان میں سے زیادہ تر آم باغات تک ہی محدود رہتے ہیں کیونکہ وہ مقبول نہیں ہیںصوبہ پنجاب میں آم کی کاشت کرنے والے اہم اضلاع ملتان، بہاولپور، مظفر گڑھ اور رحیم یار خان ہیں صوبہ سندھ میں یہ بنیادی طور پر میر پور خاص، حیدرآباد اور ٹھٹھہ میں اگتی ہے اور صوبہ سرحد ڈی آئی خان میں پشاور اور مردان اس کے لیے مشہور ہیںآم پاکستان سے خاص طور پر مشرق وسطیٰ، ایران، جرمنی، جاپان، چین اور ہانگ کانگ کو برآمد ہونے والا دوسرا سب سے بڑا پھل ہے جو ایک اہم غیر ملکی کرنسی کمانے والی پھل کی فصل کے طور پر اپنا گراں قدر حصہ ڈالتا ہے


، لنگڑا آم کا ریشہ سے کم زرد بھورا رنگ کا ہوتا ہے اور جب پک جاتا ہے تو اس کی خوشبو تیز ہوتی ہے، آم کی دیگر اقسام کے مقابلے میں، یہ قدرتی طور پر بہت میٹھا اور نرم ہوتا ہے، بیج کا سائز چھوٹا اور بیضوی شکل کا ہوتا ہے لنگڑا پکنے کے بعد اس کا سبز رنگ برقرار رکھتا ہے، جب کہ دیگر آم پیلے سرخی مائل رنگ میں بدل جاتے ہیں،دسیری آم لمبا اور بیضوی شکل کا ہوتا ہے جس کی جلد ہلکی سبز یا پیلی سبز ہو جاتی ہے جب پختہ ہو جاتی ہے پکنے پر سنہری پیلی ہو جاتی ہے دسیری آم میں ریشے کے بغیر، آڑو کے رنگ کادرمیانے سائز میں زیادہ پایاجاتا ہے ذائقہ بہت میٹھا اور خوشبودار ہے دسیری آم میں وٹامن سی اور فائبر زیادہ ہوتا ہے قدرتی طور پر ہاضمے کے لیے فائدہ مند انزائمز کے ساتھ ساتھ بہت سے دیگر قیمتی وٹامنز اور منرلز بھی ہوتے ہیں انور رتول جسے حرف عام میں انور راٹھور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انوار الحق نے بھارت کی ریاست اتر پردیش میں رٹول کے علاقے میں ایک باغ میں کاشت کی تھی لیکن اب یہ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں بڑے پیمانے پر اگائی جاتی ہے انور رتول آم پوری دنیا میں اپنے بھرپور ذائقے کے لیے پہچانا جاتا ہے اپنے شاندار ذائقے کی وجہ سے اس نے حالیہ دنوں میں سب سے زیادہ مقبولیت حاصل کی ہے اس کا ایک غیر معمولی میٹھا ذائقہ ہے
 
 آم کا چوٹی کا موسم جولائی کے وسط سے شروع ہوتا ہے اور اگست میں ختم ہوتا ہے یہ آم پوری طرح سے غذائیت سے بھرپور ہے جو کافی مقدار میں توانائی فراہم کرتا ہے۔ یہ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں بڑے پیمانے پر اگائی جاتی ہے اس کا چوٹی کا موسم وسط جولائی سے اگست تک ہوتا ہے سرولی، شمالی ہندوستان اور پاکستان میں ایک مقبول قسم یہ موسم کے دوران ظاہر ہونے والے پہلے آموں میں سے ایک ہے میٹھے سبز آم خوشبودار اور خوشبو سے بھرپور ہوتے ہیں یہ وٹامنز، پوٹاشیم، فینول اور آئرن کا بھرپور ذریعہ ہے اور یہ بہت پرکشش اور ذائقہ دار لگتا ہے ثمر بہشت مقامی انتخاب ہیں ۔توتاپوری آم ایک کھیتی ہے جو جنوبی ہندوستان میں بڑے پیمانے پر اگائی جاتی ہے اور جزوی طور پر سری لنکا میں کاشت کی جاتی ہے بھارت میں آم کے گودے کے لیے ’الفونسو‘ اور ’کیسر‘ کے ساتھ اگائی جانے والی اہم کاشتوں میں سے ایک ہے درخت درمیانے سائز کا ہوتا ہے جس میں سبز پیلے پھل ہوتے ہیں فجر ی موسم بہار سے ماخوذ ہے اسے ایک عورت نے تخلیق کیا تھا جس کا نام اس کے نام پر رکھا گیا ہے، جلد کا رنگ پیلا گودا ریشے دار کے بغیر میٹھے ذائقے اور غیر معمولی ساخت کے لیے بھی جانا جاتا ہے ‘نیلم آم پاکستان کے کئی علاقوں میں اگتا ہے زیادہ مشہور پاکستانی اقسام سندھ کے علاقے سے ہیں
میں نے یہ مضمون انٹر نیت کی مدد سے لکھا ہے
 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر