جمعرات، 25 مئی، 2023

مکئ آپ کی غذا بھی اور دوا بھی


گرمیوں کی آمد کے ساتھ ہی روز مرہ غذا کے شیڈول میں نمایاں تبدیلی آجاتی ہے لیکن اس موسم میں مکئی کے بھٹے کے مترادف اور کوئی سبزی نہیں ہے جو اس موسم کے مطابق لذت اور غذائیت سے فیض یاب کرتی ہو‘ مکئی کا ایک سٹہ بھی وہ کمال دکھاتا ہے جو شاید ہی کوئی اور دکھاتا ہو۔ مکئی کا شمار اناج کی اس قسم میں ہوتا ہے جو سال کے آغاز سے اختتام تک مارکیٹ میں باآسانی دستیاب رہتی ہے۔مکئی کے چونکا دینے والے فوائد:اطباء کے نزدیک بادی اور قابض ہے‘ بھوک بڑھاتی اور بدن کو فربہ کرتی ہے۔ بلغم صفرا اور باد کے فساد کو دور کرتی ہے۔ دیر ہضم ہے‘ باہ کو قوت دیتی ہے‘ بدن کو قوت دیتی ہے‘ زیادہ استعمال کرنے سے درد شکم‘ قولنج اور بواسیر کی شکایت ہوجاتی ہے۔ کھانے کے بعد ہونے والی قے کو روکتی ہے۔ سل کے مریضوں میں اس کی روٹی اچھی ہے۔ آنکھوں کی بصارت بڑھاتی ہے۔ کمزور لاغر بدن کو قوت دیتی ہے۔ اس کے آٹے کا لپٹا بنا کر مریض کو پلانے سے صحت ہوتی ہے اور بھوک میں خوب اضافہ ہوتا ہے۔ مکئی کا تیل بدن کو فربہ کرتا ہے۔ اچھی مکئی کے کھانے سے بدن فربہ ہوتا ہے لیکن جس کو موافق نہ آئے اس کو لگاتار کھانے سےدست آنے لگتے ہیں۔

 اس کی گلی کا کوئلہ کرکے اور پیس کر پھانکنا حیض اور بواسیر کے خون کو بند کرتا ہے۔ مکئی کی گلی چھ ماشہ ہیضہ کے مریض کو پیس کر دیں تو فوراً فائد ہوتا ہے۔ اس کی گلی کی راکھ میں نمک ملا کر پھنکی لگانے سے کالی کھانسی اور زکام کی کھانسی کو بہت جلد فائدہ ہوتا ہے۔ اسے دن میں پانچ پانچ رتی تین مرتبہ دیتے ہیں۔ اس کی ڈاڑھی کا جوشاندہ  پلانے سے مثٓانہ کے امراض اور پیشاب کی جلن دور ہوتی ہے اور پیشاب خوب آتا ہے۔ یونانی اطباء کے مطابق مکا بلغم اور خون بستہ کو تحلیل کرتی ہے۔ دستوں کو روکتی ہے‘ سل میں مفید ہے۔ اس کا آتا سرکے میں ملا کر لیپ کرنے سے خارش اور ہاتھ پاؤں و ناخنوں کے پھٹنے کو مفید ہے۔ اس کے جوشاندہ کا حقنہ آنتوں کے زخم کو دور کرتا ہے اس میں غذائیت گیہوں سے کم ہے۔-نشاستہ سے بھرپور خوراک: خوراک میں نشاستہ کی زیادہ مقدار قولون کینسر‘ کولیسٹرول اور آئی بی ایس کے خطرات کم کرنے کا موجب بنتی ہے۔ تحقیقی ماہرین کے مطابق جو لوگ مکئی کا استعمال کرتے ہیں ان میں بلڈشوگر‘ انسولین کی مقدار مناسب حد تک کنٹرول کی جاسکتی ہے۔

 اس حوالے سے ماہرین نے دو ایسے گروپس میں شامل افراد کا موازنہ کیا جو ٹائپ ٹو ذیابیطس میں مبتلا تھے۔ ایک گروپ نے فائبر (نشاستہ) پر مشتمل غذا کا استعمال کیا جبکہ دوسرے گروپ نے کم نشاستہ والی غذا استعمال کی گئی۔ پہلے گروپ میں صحت کی جانب سے مثبت نتائج ظاہر ہوئے کیونکہ ان افراد نے چوبیس گرام تک فائبر روزانہ استعمال کیا جبکہ دوسرے گروپ میں کولیسٹرول اور بلڈشوگر کی شکایات بدستور جاری رہیں۔مکئی کو پاپ کارن‘ سوپ‘ سلاد اور سالن وغیرہ میں پکایا جاتا ہے اور ایک طرح سے اس کو گرمیوں میں باربی کیو کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مکئی کے بھٹے اور سٹے بچوں میں مقبول عام ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پھلوں اور سبزیوں میں اگر مکئی کو زیادہ ترجیح دی جائے تو زیادہ مفید ہے۔سردیوں کے آغاز میں ہی مکئی کی فصل تیار ہوچکی ہوتی ہے ۔ یہ وہ موسم ہوتا ہے جب بازاروں میں مکئی کے بھٹے فروخت کرنے والے اُمڈ آتے ہیں کوئی نمک میں بھون رہا ہے تو کوئی ریت میں پکا کر اُنہیں فروخت کررہا ہے ۔خوراک میں نشاستہ کی زیادہ مقدار قولون کینسر ،کولیسٹرول اور آئی بی ایس کے خطرات کو کم کرنے کا موجب بنتی ہے

ماہرین کی جانب سے  پیلے، ذائقے سے بھرپور چھوٹے چھوٹے دانوں پر مشتمل مکئی کے دانوں میں موجود غذائیت انتہائی صحت بخش قرار دی گئی ہے، اس میں موجود وٹامن B1 اور B5 توانائی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ پٹھوں کے نئے خلیات بنانے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں، مکئی کے استعمال سے صحت پر متعدد طبی فوائد حاصل ہوتے ہیں جنہیں نظر انداز کرنا بیوقوفی ہو گا۔ غذائی ماہرین کے مطابق چھلی، بھٹہ یا مکئی میں وٹامن سی پایا جاتا ہے جو کہ بے شمار امراض سے لڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور قوتِ مدافعت کو مضبوط بناتا ہے، اس میں موجود فائبر جسم کی توانائی بحال کرتا، کولیسٹرول لیول کی سطح متوازن بناتا اور نظامِ ہاضمہ کی کارکردگی درست رکھتا ہے جس کے نتیجے میں قبض کی شکایت سے نجات ممکن ہوتی ہے۔-مکئی کے استعمال سے کمزور بینائی کا علاج بھی ممکن ہے، مکئی میں موجود Carotenoid ناصرف بینائی تیز کرتا ہے بلکہ وٹامن اے کے حصول کا بھی ایک بہترین ذریعہ ہے۔


حالیہ امریکی تحقیق کے مطابق پاپ کارن صحت کے لیے نہایت فائدہ مند ہیں جن کا استعمال پھل اور سبزیوں کی طرح ہی مفید ہوتا ہے، تحقیق کے مطابق پاپ کارن میں بھی پھلوں میں پائے جانے والی صحت کے لیے مطلوب غذائیت موجود ہوتی ہے لہٰذا وہ افراد جو پھل اور سبزیاں کھانا پسند نہیں کرتے وہ پاپ کارن کھا سکتے ہیں۔ ڈائٹنگ کرنے والے افراد کے لیے بھی پاپ کارن ایک بہترین آپشن ہے کیونکہ یہ فائبر اور منرلز سے بھرپور بہترین غذا ہے جس کے استعمال سے تادیر بھوک محسوس نہیں ہوتی۔مکئ کے4 منفرد صحت کے فوائد جو آپ کو متعدد بیماریوں سے دور رکھتے مکئ ، جسے میز کے نام سے بھی جانا جاتا ہےاس کے پودے کا پتوں والا ڈنڈا جرگ کے پھول اور الگ الگ بیضوی پھول پیدا کرتا ہے جسے کارن یا مکئ کہتے ہیں جن سے گٹھلی یا بیج نکلتے ہیں، جو کہ اناج ہیں

مکئ ایک سبزی ہےیہ اصل میں ایک سبزی، ایک مکمل اناج، اور ایک پھل ہے. لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ یہ کس شکل میں آتا ہے یا یہ کس زمرے میں آتا ہے، مکئی آپ کے لیے اچھی ہے اور صحت مند غذا کا حصہ بن سکتی ہے۔ یہاں تک کہ سادہ پاپ کارن بھی صحت مند ہوسکتا ہے جب تیل، مکھن یا نمک کے بغیر تیار کیا جائےمیٹھی مکئ-میٹھی کارن- پیلے، سفید یا دو رنگوں کے امتزاج میں آتی ہے اور اس کا ذائقہ ہلکا سا میٹھا ہوتا ہے۔پاپ کارن، تیار کرنے سے پہلے، اس کا ایک نرم، نشاستہ دار مرکز ہوتا ہے جس کے چاروں طرف سنہرے رنگ کے سخت خول ہوتے ہیں۔ اندر پانی کا ایک چھوٹا سا قطرہ ہے۔ جب آپ پاپ کارن کو پین میں یا مائکروویو میں گرم کرتے ہیں، تو اندر کی نمی بھاپ چھوڑ دیتی ہے۔ بھاپ سے دباؤ اس مقام تک بنتا ہے جہاں دانا پھٹ جاتا ہے، اور مرکز ایک سفید سفید ڈلی میں کھل جاتا ہے۔ ڈائٹنگ کرنے والے افراد کے لیے بھی پاپ کارن ایک بہترین آپشن ہے کیونکہ یہ فائبر اور منرلز سے بھرپور بہترین غذا ہے جس کے استعمال سے تادیر بھوک محسوس نہیں ہوتی۔ڈینٹ کارن-ڈینٹ کارن، جو سفید اور پیلے رنگ میں آتا ہے، ہر دانے کے اوپر ایک ڈینٹ ہوتا ہے۔ اس کے بنیادی استعمال جانوروں کی خوراک ۔

مکئی میں یہ خاصیت موجود ہے کہ اگر آپ دن میں ایک بھٹہ یا پھر ایک کپ مکئی کا استعمال کریں تو اس سے 18.4فائبر حاصل کر سکتے ہیں جس سے بلڈ شوگر کو مستحکم کرنے میں مدد حاصل ہوتی ہے ۔ مکئی کے بھٹے کے مترادف اور کوئی سبزی نہیں ہے جو اس موسم کے مطابق لذت اور غذائیت سے فیض یاب کرتی ہو مکئی کا ایک سٹہ بھی وہ کمال دکھاتا ہے جو شائد ہی کوئی اور دکھاتا ہو -اطباء کے نزدیک بادی اور قابض ہے بھوک بڑھاتی اور بدن کو فربہ کرتی ہے ۔بلغم صفر اور باد کے فساد کو دور کرتی ہے ۔زیادہ استعمال کرنے سے درد شکم قولنج اور بواسیر کی شکایت ہوجاتی ہے ۔کھانے کے بعد ہونے والی قے کو روکتی ہے ۔سل کے مریضوں میں اس کی روٹی اچھی ہے ۔آنکھوں کی بصارت بڑھاتی ہے ۔کمزور لاغر بدن کو قوت دیتی ہے ۔مکئی کا تیل بدن کو فربہ کرتا ہے لیکن جس کو موافق نہ آئے اس کو لگاتار کھانے سے دست آنے لگتے ہیں۔اس کے پومل یا کھیلیں مریض کو ہرگز نہ کھلائے جائیں اس کی گلی کا کوئلہ کرکے اور پیس کر پھانکنا حیض اور بواسیر کے خون کو بند کرتا ہے ۔مکئی کی گُلی چھ ماشہ ہیضہ کے مریض کو پیس کردیں تو فوراً فائد ہ ہوتا ہے ۔اس کی گُلی کی راکھ میں نمک ملا کر پھنکی لگانے سے کالی کھانسی اور زکام کی کھانسی کو بہت فائدہ وہتا ہے ۔اس کی داڑھی کا جوشاندہ یا خیساندہ پلانے سے مثانہ کے امراض اور پیشاب کی جلن دور ہوتی ہے ار پیشاب خوب آتا ہے ۔یونانی اطباء کے مطابق مکا بلغم اور خوبستہ کو تحلیل کرتی ہے ۔تیار شدہ کھانے ہیں، جیسے ٹارٹیلا چپس اور گرٹس۔تکنیکی طور پر یہ پورے اناج کے خاندان کا رکن ہے۔ یہ آپ کے لیے بہت اچھا ہو سکتا ہے۔ مکئی بھی قدرتی طور پر گلوٹین سے پاک ہے، جو اسے ان لوگوں کے لیے گندم کا ایک اچھا متبادل بناتی ہے جنہیں گلوٹین سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اس ورسٹائل اناج کے صحت سے متعلق فوائد کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں مکئی کے چار اور منفرد صحت کے فوائد ہیں۔مکئ ایک مکمل اناج- مکئ کی روٹی - مکئ کا ساگ --بہترین صحت بخش کھانا

مکمل اناج کے طور پر، یہ صحت کے لیے حفاظتی خوراک  ہے۔ غذائی ماہرین کے مطابق جو لوگ اس  کا استعمال کرتے ہیں ان میں بلڈ شوگر، انسولین کی مقدار مناسب حد تک کنٹرول میں رہتی ہے۔اہم غذائی اجزاء سے بھرپورمکئی میں متعدد بی وٹامنز کے ساتھ ساتھ پوٹاشیم بھی ہوتا ہے۔ معدنیات صحت مند بلڈ پریشر، دل کے کام، پٹھوں کے درد کو روکتا ہے، اور پٹھوں کی طاقت کے بڑے پیمانے کو برقرار رکھنے میں مدد کرتا ہے۔یہ دیگر اناج کے مقابلے میں تقریباً 10 گنا زیادہ وٹامن اے فراہم کرتی ہے۔ یہ وٹامن اے مدافعتی نظام کی حمایت کرتا ہے، اور آپ کی سانس کی نالی میں چپچپی جھلیوں کو بنانے میں مدد کرتا ہے۔ مضبوط جھلی جراثیم کو آپ کے خون سے دور رکھنے کے لیے بہتر حفاظتی رکاوٹیں بناتی ہے۔مکئ حفاظتی اینٹی آکسیڈنٹس فراہم کرتی ہےاینٹی آکسیڈینٹ کیروٹینائڈز کے ایک اچھے ذریعہ کے طور پر، جیسے لوٹین اور زیزنتھین، پیلی مکئی آنکھوں کی صحت کو فروغ دے سکتی ہے۔ یہ بہت سے وٹامنز اور معدنیات کا بھی بھرپور ذریعہ ہے۔ اس وجہ سے، پورے اناج والی مکئی کا اعتدال پسند استعمال، جیسے پاپ کارن یا سویٹ کارن، صحت مند غذا میں ایک بہترین اضافہ ہو سکتا ہے۔سوزش کو روکنے میں مددگار-ینلے اور جامنی مکئ میں دیگر اینٹی آکسیڈینٹ سوزش کو روکنے میں خاص طور پر اچھے ثابت ہوئے ہیں۔ 

بدھ، 24 مئی، 2023

بڑا اما م باڑہ لکھنو'یادگارآصف الدّولہ

 


نواب آصف الدولہ (پیدائش: 1748ء، وفات: 1797) اردو شاعر اور والی اودھ، نواب شجاع الدولہ کے بیٹے تھے۔ باپ کی وفات کے پر 1775ء میں فیض آباد میں مسند نشین ہوئے۔ بعد ازاں لکھنؤ کو دار الحکومت بنایا۔ تعمیرات کا بہت شوق تھا ان کا تعمیر کردہ لکھنؤ کا شاہی محل اور امام باڑہ مشہور عمارتوں میں شمار ہوتے ہیں۔ شعر و شاعری اور دیگر علوم و فنون کے قدر دان تھے۔ دہلی کے مشہور شعرا مرزا رفیع سودا میر تقی میر اور سید محمد میر سوز انہی کے عہد حکومت میں لکھنؤ آئے اور دربار سے وابستہ ہوئے۔ اردو، فارسی، دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے اور میر سوز سے مشورہ سخن کرتے تھے۔ لکھنؤ میں انتقال کیا ہوا اور اپنے بنائے ہوئے امام باڑے میں دفن ہوئے۔ ایک دیوان ان سے یادگار ہے۔ جن میں غزلیں، رباعیاں، مخمس اور ایک مثنوی ہے۔ 

آصف الدولہ نے فیض آباد کو اودھ کی راجدھانی ترک کرکے لکھنؤ کو اپنا دار الحکومت بنا لیا تھا۔ انہوں نے خوبصورت عمارتوں کی تعمیر کرائی،جن کو عالمی شہرت حاصل ہوئی۔آصف الدولہ کے اس امام باڑے،مسجد،اور بھول بھلیاں وغیرہ کی بنیاد1784 میں رکھی گئی۔کئی سال تک عمارت کی تعمیر جاری رہی اورجب مکمل ہوئی تو پوری دنیا نے واہ واہ کی صدا بلند کی۔بہرحال فراخ دل نواب کے بارے میں یہ مشہور ہو گیا کہ جس کو نہ دیں مولا۔اس کو دیں آصف الدولہ یعنی فراخدلی اور ترس خدائی کی وجہ سے نواب کی یہ شبیہ ابھری۔

امام باڑے کے وسیع دالان میں نواب آصف الدولہ کی قبر ہے، امام باڑے میں جھاڑ ،فانوس کی بڑی تعداد ٹوٹی اور پھوٹی حالت میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ شاہ نشین پر علم و تعزیے ہیں،شیشہ آلات کافی ہیں مگر ان کی قلعی اتر چکی ہے، فرش جا بجا اکھڑا ہوا ہے ۔محرم میں یہاں برقی قمقموں سے عمارت کو سجایا جاتا ہے اور نواب کے دور کے محرم کی سجاوٹ کو دہرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔مگر سب سے زیادہ افسوسناک پہلو امام باڑے کی آمدنی کا صحیح استعمال اور اس کے رکھ رکھاؤ کا فقدان ہے۔امام باڑے کی زمینون کو یو پی سرکار نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے جس کا کوئی معاوضہ بھی نہیں۔ مجموعی طور سے آصف الدولہ کا امامباڑہ اور مسجد بہت اچھی حالت میں نہیں ہے۔مسجد کے گنبدوں،میناروں کا بھی جا بجا پلاسٹر ٹوٹا ہوا ہے اور کسی بھی ناگہانی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

ہوبیگم کی ساس یعنی ابوالمنصور صفدر جنگ کی زوجہ نواب بیگم، جنہیں صفدر جہاں بیگم کا خطاب ملاتھا، محل میں انہیں نواب بیگم ہی کہاجاتا تھا، بہت ہوشیار اور اعلیٰ مرتبت خاتون تھیں، آصف الدولہ ان کے بیٹے تھے، ان کی شادی دیوان دلی کے امتیاز الدولہ کی دختر شمس النساء بیگم سے ہوئی تھی، جس میں 1749ء ؁ میں شاہ عالم باد شاہ خود نفس بہ نفیس شریک ہوئے تھے، بیگمات اودھ میں آخری تاجدار اودھ بیگم حضرت محل کا نام بھی درخشاں ہے جو اپنے بیٹے برجیس قدر کی ایک سال تک عہدۂ بادشاہت کی سرپرستی کرتی رہیں، اور جب انگریزوں کی شور ش حد سے بڑھ گئی تو کبھی ہاتھی، اور کبھی گھوڑے پر برجیس قدرکوساتھ لئے ہوئے مورچہ جماتی تھیں، جب ایک شہر ہاتھ سےنکل جاتاتھا تودوسرے شہر کی جانب رخ کرتی تھیں، انھوں نے جنگ ضرور ہاری ،مگرہمت نہیں ہاری تھی۔ 

لکھنو بڑے امام باڑے کی عمارت کی تعمیر پہلے کسی اور مقصد کے لئے کی گئ تھی جسے بعد میں امام بار گاہ کے لئے مختص کر دیا گیا-نواب آصف الدولہ کا تعمیر کردہ (بڑا امام باڑہ | امام بارگاہ) ابھی بھی لکھنؤ کی شان ہے۔یہ شہرہ آفاق امام بارگاہ ١٧٩٠ء میں ایک کروڑ کی لاگت سے تیار ہوا۔اس کا نقشہ حافظ کفایت اللہ مہندس نے تیار کیا ۔جنہیں کچھ لوگوں نے دہلوی اور بعض دیگر نے شاہ جہاں پوری لکھا ہے)اس کا وسطی ہال 303فٹ لمبا،53فٹ چوڑا اور 63فٹ اونچا ہے۔اس کی چھت دنیا کی اعلیٰ ترین چھتوں میں سے ہے جس میں لوہے لکڑی کے بغیر اتنی بڑی چھت کی ڈاٹ جوڑی گئی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ اس امام بارگاہ کے حدود میں ایک ضعیفہ کا مکان بھی آگیا تھا ۔(جس کا نام لاڈو شاخن بیان ہوا ہے۔)لیکن وہ مکان دینے پر راضی نہ تھی ۔چونکہ نوابین اودھ رعایا پرور تھے لہٰذا اس پر کسی طرح کی زور زبردستی نہیں کی گئی ۔خود نواب آصف الدولہ اس کے پاس جاتے ہیں اور وہ چند شرائط کے ساتھ اپنا مکان دینے پر آمادہ ہوجاتی ہے ۔اس کی پہلی شرط تھی کہ اسے کسی اور جگہ دوسرا مکان دیا جائے اور دوسری اہم شرط یہ تھی کہ امام باڑے میں اس کے نام کا تعزیہ رکھا جائے۔نواب نے یہ شرائط منظور کئے ۔اُس کا تعزیہ داہنی طرف کی صحنچی میں خود رکھوایا جو آج بھی اسی مقام پر رکھا جاتا ہے -

بہو بیگم کے اس فراخدل بیٹے آصف الدولہ کی اس عمارت میں کبھی کبھار کچھ مرمت کاری ہوجاتی ہے لیکن اوپری حصوں سے ان میں دلکشی پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر داخلی حصے، شاہ نشین اور چھتوں کی حالت بد تر ہے۔ کہا جا تا ہے کہ دنیا کی یہ واحد عمارت ہے جس میں لکڑی یا لوہے کا کہیں استعمال نہیں ہواہے۔ روشن اور ہوادار امامباڑے کو دیکھنے روزانہ ہزاروں سیاح دنیا کے کونے کونے سے آتے ہیں۔امام باڑے کے پہلو میں شاندار وسیع آصفی مسجد ہے جہاں شیعہ حضرات عید ین کے علاوہ جمعہ اور پنجگانہ نماز ادا کرتے ہیں۔

جمعہ، 19 مئی، 2023

اردو زبان کی ضرورت اور اہمیت

head>

 دنیا آج کے دور میں ترقّی کی معراج پر پہنچنے کی تگ و دو میں مصروف ہے-اس لئے آج کے دور کا تقاضہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ زبانیں سیکھی جائیں لیکن ساتھ ساتھ اپنی قومی زبان پر بھی پوری گرفت رکھّی جائے ، متعدد زبانوں میں بات چیت کرنے کے قابل ہونا پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔  درحقیقت، بہت سی اچھی وجوہات ہیں کہ اپنی مادری زبان کو اچھی طرح جاننا کیوں ضروری ہے۔ کبھی کبھی یہ فیصلہ کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے کہ کون سی غیرملکی زبان سیکھی جائے۔ کیا اردو کا انتخاب کرنا بہتر نہیں ہوگا؟ (واضح رہے کہ اردو ہندوستان کے لیے بدیسی زبان نہیں ہے۔ شاہ زماں حق نے فرانسیسی عوام کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات لکھی ہےایک ۔۔ اس کلاسیکی زبان کی مدد سے، جس نے بارھویں صدی کے آس پاس ترقی کرنا شروع کی، آپ چودھویں صدی اور اس کے بعد کے شاندار ادبی ذخیرے تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ 

تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو بچے اپنی مادری زبان میں مہارت رکھتے ہیں وہ ان بچوں کے مقابلے میں مجموعی طور پر بہتر تعلیمی کارکردگی دکھاتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی اپنی مادری زبان میں پڑھنے اور لکھنے کی مضبوط بنیاد ہے، جو دوسرے مضامین میں بھی منتقل ہوتی ہے۔ آخر میں، اپنی مادری زبان جاننے سے ثقافتی فخر اور سمجھ کو فروغ دینے میں مدد مل سکتی ہے۔نیا کے مختلف میں کئی محققین یہ ثابت کرچکے ہیں کہ وہ بچہ جس کی بنیادی تعلیم مادری زبان میں ہو دوسری زبانوں کو بھی آسانی سے سیکھ لیتا ہے۔ بچے میں کئی زبانیں سیکھنے کی خداداد صلاحیت ہوتی ہے لیکن زبانوں پر اس کی گرفت تب مضبوط ہوتی ہے اگر اس کی بنیادی تعلیم کا ذریعہ مادری زبان ہو۔ اس لئے اگر پاکستان کے ہر علاقے میں بنیادی تعلیم مادری زبانوں میں دی جائے تو اس سے نہ تو رابطے کی زبان اردو سیکھنے میں کوئی خلل پڑے گا اور نہ ہی قومی وحدت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

ہندوستان کی جنوبی ریاستوں نے بہت تیزی کے ساتھ ترقی کی ہے اور یہ وہی ریاستیں ہی جہاں مادری زبانوں کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ پچھلی چند دہائیوں کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو واضح ہوجاتا ہے کہ ان ملکوں نے تیزی سے معاشی ترقی کی ہے جن میں مادری زبانوں کی ترویج کی گئی اور ان کو ذریعہ تعلیم بنایا گیا۔ جاپان، چین، جنوبی کوریا اور صنعتی لحاظ سے ترقی کرنے والے کئی دوسرے ممالک میں مادری زبانوں کو ذریعہ تعلیم بنایا گیا۔ اس کے الٹ پاکستان جیسے کچھ ملکوں میں مادری زبانوں کو نظر انداز کیا گیا اور یہ ملک ترقی کے سفر میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ اگر چہ زبان ہی اس کی واحد وجہ نہیں ہے لیکن زبان کے بارے میں پائے جانے والے مغالطے بھی اس کا ایک سبب ہیں۔

اردو دنیا کی بیس سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں سے ایک ہے۔ 160 ملین لوگ اس زبان کو دنیا کے 26 ممالک افغانستان، بحرین، بنگلہ دیش، بوٹسوانا، کینڈا، فیجی، فنلینڈ، جرمنی، گیانا، ہندوستان، ملاوی، موریشس، نیپال، ناروے، اومان، پاکستان، قطر، سعودی عرب، جنوبی افریقہ، سویڈن، تھائی لینڈ، نیدرلینڈ، متحدہ عرب امارات، برطانیہ، امریکہ اور زمبیا میں بولتے ہیں۔ اگر آپ اردو سیکھتے ہیں تو اس میں شائع ہونے والے تقریبا چار ہزار اخبارات و رسائل، 70 ریڈیو اسٹیشن اور 74 ٹی وی چینل تک آپ کی رسائی ممکن ہو سکتی ہے۔ یہ بات معلوم ہے کہ اردو دوسری زبانوں کے زیر اثر وجود میں آئی۔ اس نے عربی، ہندی، فارسی، پنجابی، ترکی اور سنسکرت سے بہت سارے الفاظ لیکر اپنے دامن کو وسیع کیا۔ اردو زبان سیکھنے کا مطلب یہ ہوا کہ آپ مذکورہ بالا زبانوں سے بھی کچھ حد تک واقفیت بہم پہنچا سکتے ہیں۔ اردو اور ہندی کے بہت سے بنیادی محاورے ایک ہی ہیں۔ اردو نے تقریبا چالس فیصد الفاظ فارسی اور عربی سے ماخوذ کیے ہیں۔ سنسکرت سے 43 الفاظ لیے گئے ہیں جو روز مرہ کی اردو میں بولے جاتے ہیں۔

 اردو فارسی-عربی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ اگر آپ یہ زبان پڑھنا اور لکھنا جانتے ہیں تو آپ چھ دوسری زبانیں یعنی عربی، بلوچی، کشمیری، پشتو، فارسی اور پنجابی بھی لکھ پڑھ سکتے ہیں۔ آپ ان زبانوں کے بہت سے الفاظ کے معنی و مفاہیم بھی سمجھ سکتے ہیں۔اردو ہندوستانی برصغیر کی سب سے کم اہمیت دی جانے والی عوامی رابطے کی زبان ہے۔ اردو پاکستان میں مقیم 45 فیصد سے زیادہ پنجابی بولنے والے، لسانی اور دیگر گروہی طبقات کی واحد رابطے کی زبان ہے۔ شمالی ہندوستان کے پولس تھانہ میں شکایت دہندگان اردو کا استعمال ایک دفتری زبان کی حیثیت سے کثرت سے کرتے ہیں۔

اردو زبان کا علم آپ کے کیرئیر میں چار چاند لگا سکتا ہے اگر آپ شمالی ہند، پاکستان، برطانیہ، عرب متحدہ امارات، اومان، قطر سعودی عرب، جنوبی افریقہ اور ان جیسی دوسری جگہوں پر کام کرنا چاہتے ہیں۔ بلاشبہ اردو کا علم روزگار تلاش کرنے اور آپ کے سماجی رابطہ کو وسیع کرنے میں کافی مددگار ثابت ہوگا۔-اردو زبان کی اہمیت-اردو زبان اَدب ، دفتر،عدالت ،اور دینی اِداروں میں بولی جاتی ہے۔ اور یہ ملک کی سماجی و ثقافتی میراث کا خزانہ بھی لیے ہوئے ہے پوری دنیا میں اردو بولنے والے پائے جاتے ہیں ۔ عرب ریاستوں کے ساتھ ساتھ برطانیہ،امریکہ ،کینیڈا جرمنی اور آسٹریلیا میں بھی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔۔

ڈپلومیسی میں اردو زبان کی ضرورت-اردو برصغیر پاک و ہند میں سفارت کاری میں بھی ایک اہم زبان ہے۔ خطے کے بہت سے ممالک کے پاکستان اور بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں اور اردو اکثر حکام کے درمیان رابطے کے ذریعہ کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ اردو بین الاقوامی تنظیموں جیسے اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم میں بھی استعمال ہوتی ہے۔سفارت کاری میں اردو کی اہمیت اس کی لسانی قدر سے باہر ہے۔ سفارت کاری کے لیے موثر رابطے کی ضرورت ہوتی ہے، اور وہ اہلکار جو اردو میں مؤثر طریقے سے بات چیت کر سکتے ہیں، انہیں مذاکرات میں فائدہ ہوتا ہے۔ اردو بولنے والے سفارت کار خطے کی ثقافتی اور سیاسی باریکیوں کو سمجھنے کے لیے بھی بہتر طریقے سے لیس اردو برصغیر پاک و ہند میں میڈیا کی ایک اہم زبان ہے۔ اردو اخبارات، رسائل اور ٹیلی ویژن چینل پاکستان اور ہندوستان میں بڑے پیمانے پر پڑھے اور دیکھے جاتے ہیں۔ اردو نیوز چینلز خطے میں سب سے زیادہ مقبول ہیں اور ان کے ناظرین کی تعداد وسیع ہے۔میڈیا میں اردو کی اہمیت اس کی لسانی اہمیت سے بھی آگے بڑھی ہوئی ہے۔ میڈیا رائے عامہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے، اور اردو میڈیا کا استعمال برصغیر پاک و ہند کے لوگوں کے لیے اہم مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔

اردو برصغیر پاک و ہند میں سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینے میں ایک اہم زبان ہے۔ یہ خطہ متنوع ہے، بہت سی مختلف زبانوں اور ثقافتوں کے ساتھ، اور اردو ایک زبان کے طور پر کام کرتی ہے جو ان اختلافات کو ختم کر سکتی ہے۔ اردو بھی ایک ایسی زبان ہے جو مختلف پس منظر کے لوگوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی کو فروغ دینے کے لیے استعمال ہوتی رہی ہے۔سماجی ہم آہنگی میں اردو کی اہمیت اس کی لسانی قدر سے باہر ہے۔ اردو کا استعمال بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے، مختلف برادریوں کے درمیان پل بنانے اور قومی شناخت کے احساس کو فروغ دینے کے لیے کیا گیا ہے۔ اردو بولنے والی کمیونٹیز بھی بڑے معاشرے میں حصہ لیتے ہوئے اپنی ثقافتی شناخت کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہیں

منگل، 16 مئی، 2023

القادر یونیورسٹی-سوہاوہ

 

یہ پاکستانی عوام کی خوش نصیبی ہے کہ ان کو پہلا ایسا وزیراعظم ملا ہے جو علم دوست ہے۔ عمران خان پاکستان کے تدریسی نظام اور اس سے جنم لینے والے مسائل کا ذکر بھی کرتے رہے ہیں اور اس کا تدارک ایک ایسے تعلیمی نظام کو قرار دیتے ہیں جہاں دینی اور دنیاوی دونوں طرح کی تعلیم دی جائے۔اپنے اسی خیال کو حقیقت میں بدلنے کے لیے انہوں نے صوبہ پنجاب کے شہر جہلم کے علاقے سوہاوہ میں القادر یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا، جہاں دنیاوی تعلیمات کو صوفی ازم اور سیرت النبی کے ساتھ نہ صرف ملا کر پڑھا جائے گا بلکہ اس پر ریسرچ بھی کی جائے گی۔اس یونیورسٹی میں نہ صرف تعلیم دی جائے گی بلکہ آکسفورڈ ریذیڈینشل کالج کی طرز پر طلبہ کو مینٹورز بھی اسائن کیے جائیں گے جو نہ صرف کلاس ختم ہونے کے بعد بھی طلبہ کے ساتھ ہوں گے بلکہ ان کی اخلاقی اور روحانی تربیت بھی کریں گے۔ اس جامعہ میں ایسا نظامِ تعلیم وضع کیا گیا ہے جس میں طلبہ و طالبات کو جدید علوم قرآن و سنت کی روشنی میں نہ صرف سکھائے جائیں گے بلکہ اصل روح کے مطابق ان تعلیمات پر عمل کرنے کی تربیت بھی دی جائے گی۔بطور وزیراعظم عمران خان کا یہ ایک ایسا پراجیکٹ ہے جو ان کے ریاست مدینہ کے تصور کی تکمیل کے لیے ایک عملی قدم ہے۔ گلوبل سکوپ رکھنے والی یہ ٹرسٹ بیسڈ یونیورسٹی اس لحاظ سے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ یہاں کی فیکلٹی کو عالمی سطح پر پذیرائی حاصل ہے۔

القادر یونیورسٹی کی ایڈوائزری کمیٹی میں شیخ حمزہ یوسف، شیخ عبدالحکیم مراد، شیخ امین کھولوادیا اور ڈاکٹر رجب سینٹرک جیسے عالمی سطح پر مشہور نام شامل ہیں۔اس ٹرسٹ بیسڈ جامعہ کی فیکلٹی میں لمز، آئی بی اے اور کے ایس بی ایل جیسی پاکستان کی ٹاپ یونیورسٹیوں میں پڑھانے والے ڈاکٹر ذیشان احمد، ڈاکٹر جمشید حسن خان، ڈاکٹر عارف زمان، ڈاکٹر انور خورشید اور ڈاکٹر عارف اقبال رانا شامل ہیں۔یہ ایک پرائیویٹ سیکٹر یونیورسٹی ہے اور اس کے انتظامات ایک ٹرسٹ کے تحت کیے گئے ہیں تاکہ حکومتوں کی تبدیلی کا اس پر کوئی اثر نہ پڑے۔ اس پراجیکٹ کا ایک منفرد پہلو یہ بھی ہے کہ خاتون اول بشریٰ بی بی اس پراجیکٹ کے ٹرسٹیز میں شامل ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے اس پراجیکٹ کے ڈین ڈاکٹر ذیشان احمد کا کہنا تھا: ’یہ پراجیکٹ خان صاحب کا ایک بہت پرانا خواب تھا کہ وہ ایک ایسی یونیورسٹی بنائیں جہاں سیرت اور صوفی تعلیم کو سائنسی علوم کے ساتھ ملا کر پڑھایا جائے۔ یہ پراجیکٹ نہ صرف وزیراعظم کا خواب ہے بلکہ خاتون اول کے دل کے بھی بہت قریب ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان اسلام کے نام پر بنا مگر عملی طور پر قردادِ مقاصد اور چند آئینی ترامیم کے علاوہ ایسے اقدامات نہیں کیے گئے، خاص طور پر جو چیز قوم میں داخل ہوتی ہے وہ ان کے نظام تعلیم اور میڈیا سے داخل ہوتی ہے مگر دونوں طرف دیکھیں تو واضح طور پر ایک دنیاوی اور سیکولر سوچ ہے جس میں اکثر اسلام کے آئیڈیاز شامل نہیں ہوتے۔ کم از کم مرکزی دھارے میں نہیں ہوتے تو ایک ایسی یونیورسٹی کی ضرورت محسوس کی گئی جہاں ہم قرآن، سنت، سیرت، علما و مشائخ کے اقوال اور تصوف پر تحقیق کریں اور اس کو ماڈرن سائنس اور ریسرچ کے ساتھ ملائیں۔‘ڈاکٹر ذیشان احمد نے یونیورسٹی کی فیکلٹی کے بارے میں بتایا: ’یہاں کی فیکلٹی کو منتخب کرنے میں ہماری پہلی کوشش یہی رہی ہے کہ ان کا رجحان اسلامی ہو اور وہ اپنے مضمون کے بھی ماہر ہوں لیکن ان کی بنیاد اسلام میں ہو۔ اس ادارے کا سکوپ گلوبل ہے۔ ہم نے کچھ معاہدے ترکی اور ملیشیا کے ساتھ بھی کیے ہیں تاکہ طلبہ اور فیکلٹی ایکسچینج پروگرام ہو سکیں اور طلبہ اور اساتذہ اس سے فائدہ حاصل کر سکیں۔‘

’آہستہ آہستہ یہاں بیرون ممالک سے طلبہ اور اساتذہ آئیں گے۔ ابھی بھی کچھ بیرون ممالک کے اساتذہ کو آن بورڈ لیا گیا ہے جو آن لائن کلاسز بھی دیں گے اور کچھ یہاں آ کر بھی پڑھائیں گے۔‘مستقبل کے لائحہ عمل کے بارے میں بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا ایک اور پلان ہے کہ مدرسے کے طلبہ کے لیے ماسٹرز کے کورس ڈیزائن کیے جائیں، جہاں پر سائنس اور انگریزی کے ساتھ ساتھ ریسرچ کے طریقے سکھائے جائیں تاکہ وہ موثر انداز میں اپنی دعوت دنیا تک پہنچا سکیں۔‘  

اس سوال پر کہ کیا یہ یونیورسٹی صرف مسلمان طلبہ اور اساتذہ کے لیے ہی بنائی گئی ہے، ان کا کہنا تھا کہ ’ایسا نہیں ہے کہ یہ یونیورسٹی صرف مسلمانوں کے لیے ہے۔ یہاں پر کئی پروفیسر بھی ہوں گے، جو کوئی مضمون پڑھا رہے ہوں اور ہو سکتا ہے کہ وہ مسلمان نہ ہوں۔ کئی طلبہ بھی ایسے ہوسکتے ہیں۔‘انہوں نے امید بھی ظاہر کی کہ یہ یونیورسٹی دنیا بھر میں مسلمانوں کے بارے میں پائے جانے والے انتہاپسندی کے تاثر کو زائل کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ڈاکٹر ذیشان احمد نے یونیورسٹی کی فیکلٹی کے بارے میں بتایا: ’یہاں کی فیکلٹی کو منتخب کرنے میں ہماری پہلی کوشش یہی رہی ہے کہ ان کا رجحان اسلامی ہو اور وہ اپنے مضمون کے بھی ماہر ہوں لیکن ان کی بنیاد اسلام میں ہو۔ اس ادارے کا سکوپ گلوبل ہے۔ ہم نے کچھ معاہدے ترکی اور ملیشیا کے ساتھ بھی کیے ہیں تاکہ طلبہ اور فیکلٹی ایکسچینج پروگرام ہو سکیں اور طلبہ اور اساتذہ اس سے فائدہ حاصل کر سکیں۔‘

’آہستہ آہستہ یہاں بیرون ممالک سے طلبہ اور اساتذہ آئیں گے۔ ابھی بھی کچھ بیرون ممالک کے اساتذہ کو آن بورڈ لیا گیا ہے جو آن لائن کلاسز بھی دیں گے اور کچھ یہاں آ کر بھی پڑھائیں گے۔‘مستقبل کے لائحہ عمل کے بارے میں بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا ایک اور پلان ہے کہ مدرسے کے طلبہ کے لیے ماسٹرز کے کورس ڈیزائن کیے جائیں، جہاں پر سائنس اور انگریزی کے ساتھ ساتھ ریسرچ کے طریقے سکھائے جائیں تاکہ وہ موثر انداز میں اپنی دعوت دنیا تک پہنچا سکیں۔‘  اس سوال پر کہ کیا یہ یونیورسٹی صرف مسلمان طلبہ اور اساتذہ کے لیے ہی بنائی گئی ہے، ان کا کہنا تھا کہ ’ایسا نہیں ہے کہ یہ یونیورسٹی صرف مسلمانوں کے لیے ہے۔ یہاں پر کئی پروفیسر بھی ہوں گے، جو کوئی مضمون پڑھا رہے ہوں اور ہو سکتا ہے کہ وہ مسلمان نہ ہوں۔ کئی طلبہ بھی ایسے ہوسکتے ہیں۔‘انہوں نے امید بھی ظاہر کی کہ یہ یونیورسٹی دنیا بھر میں مسلمانوں کے بارے میں پائے جانے والے انتہاپسندی کے تاثر کو زائل کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔اکٹر ذیشان نے بتایا کہ ’کچھ اس طرح کے لوگ ہیں جو مجھے کہتے تھے کہ ہم اپنے بچوں کی اچھی تعلیم کے ساتھ اچھی تربیت بھی چاہتے ہیں تو ہم انہیں کہاں بھیجیں۔ ابھی تک میرے پاس انہیں دینے کے لیے کوئی جواب نہیں تھا، مگر اب میں انہیں کہوں گا کہ اپنے بچوں کو القادر یونیورسٹی بھیجیں۔‘

لمز یونیورسٹی چھوڑ کر القادر یونیورسٹی میں داخلہ لینے والے طالب علم عمار بشارت

 نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’عمرہ کرنے کے بعد میرا رجحان 

مذہب کی جانب زیادہ ہوگیا۔ میری بہت خواہش تھی کہ میں نہ صرف دنیاوی

 بلکہ دینی تعلیم کی طرف بھی جاؤں۔ میں چاہتا تھا کہ ایسی صحبت والی جگہ ہو

 جہاں تربیت بھی دی جائے۔ آپ کے ساتھ اساتذہ ہوں جو آپ کو سب 

کچھ بتائیں اور بتانے کےساتھ کرکے بھی دکھائیں اور القادر یونیورسٹی ایک ایسا

 ہی ادارہ ہے۔‘ڈسٹرکٹ نارووال شکر گڑھ سے تعلق رکھنے والی القادر یونیورسٹی

 سکی طالبہ اقصیٰ نصرت نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے ایف ایس

سی میڈیکل کیا ہے اور یہاں اپنے شوق کی وجہ سے آئی ہیں۔ بقول اقصیٰ:

 ’میں پنے ملک کی بہتری کے لیے کام کرنا چاہتی ہوں اور یہ بھی چاہتی ہوں

کہ اپنے کیریئر کا راستہ میں خود بناؤں۔ جب میں نے القادر کا ویژن دیکھا تو اس نے مجھے بہت متاثر کیا۔‘

القادر یونیورسٹی کے پہلے بیچ کے لیے تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز ہو چکا ہے۔

 ابتدائی طور پر یونیورسٹی بی ایس آنرز (مینجمنٹ) کی ڈگری آفر کر رہی ہے اور

 پہلے بیج میں 16 طلبہ اور 21 طالبات یہاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

پیر، 15 مئی، 2023

بدھ مت تہذیب کے انمول شاہ کار، اجنتا کے صدیوں‌ پرانے غار

 

 

بدھ مت تہذیب کے انمول  شاہ کار، اجنتا کے صدیوں‌ پرانے غار

بُدھ مت کا بانی سدھارتھا گوتم قریباً 600 سال قبل از مسیح میں نیپال کے شاہی گھرانے میں پیدا ہوا تھا ۔ جیسا کہ اُسکی کہانی بیان کرتی ہے وہ کسی حد تک بیرونی دُنیا سے انجان عیش و عشرت بھری زندگی بسر کررہا تھا ۔ اُس کے والدین کا مقصد اُسے مذہب کے اثر سے بچانا اور اُسے دکھ اور مصیبت سے محفوظ رکھنا تھا۔ تاہم زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ اُس کی آرام گاہ میں چھید ہو گیا اور اُس نے ایک عمر رسیدہ شخص، ایک بیمار شخص اور ایک لاش کے مناظر دیکھے ۔ چوتھے منظر میں اُس نے ایک پُرامن صوفی درویش(جو عیش و عشرت اور آرام دہ زندگی کو چھوڑ دیتا ہے) کو دیکھا ۔ درویش کی پُر امن حالت کو دیکھا کر اُس نے بھی درویش بننے کا فیصلہ کیا۔ اُس نے خودضبطی/ نفس کشی کے عمل کے وسیلے سے روشن خیالی کی تلاش کے لئےمال ودولت کی زندگی کو خیر باد کہہ دیا۔ وہ خودضبطی/ نفس کشی اور گیان دھیان کرنے کی مشق میں ترقی کرتا گیا ۔ وہ اپنے ساتھیوں کا رہنما تھا۔ آخر کار اُس کی تلاش ایک خاص نکتے پر جا کر اختتام پذیر ہوگئی۔ ایک دن اُس نے ایک پیالہ چاول کھائے اور اس ارادے سے گیان دھیان کرنے کےلیے انجیر کے درخت(جسے بودھی درخت /مقدس درخت بھی کہا جاتا ہے)کے نیچے بیٹھ گیا کہ یا تو وہ اِس دھیان و گیان کی مشق کی بدولت" روشن خیالی " پا لے گا یا گیان دھیان کرتے کرتے مر جائے گا۔ اپنی تکلیفوں اور کئی ایک آزمائشوں کے باوجود اگلی صبح تک اس نے روشن خیالی حاصل کرلی ۔ اور اجنٹا کے غاروں میں بدھ مت کی پیدائش لے کر ان کے نروان تک کی تہذیب کو سمویا گیا ہے-اجنتا دراصل ہندوستان کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جسے ان غاروں کی وجہ سے دنیا بھر میں جانا جاتا ہے۔یہ غار انسانی ہاتھوں کی صناعی اور کاری گری کا بے پناہ خوبصورت نمونہ ہیں۔ محققین کے مطابق ان میں کچھ تقریباً ڈھائی ہزار سال قبل اور کچھ غار چھٹی صدی عیسوی میں تراشے گئے تھے۔

اورنگ آباد، ہندوستان کا ایک تاریخی شہر ہے جہاں اندرونِ شہر کئی قدیم عمارتیں اور آثار سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں۔ اسی طرح اورنگ آباد سے باہر صدیوں پرانے اجنتا کے غاربیش قیمت ورثہ اور اعجوبہ ہیں، جو تحقیق و دریافت سے وابستہ ماہرین اور دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔اورنگ آباد شہر سے باہر شمال کی طرف شہرہ آفاق اجنتا کے غار عالمی ثقافتی مقام کا درجہ رکھتے ہیں۔بدھ مت کی تاریخ اجنتا کے آثار کی دیواروں پر تصاویر کی شکل میں موجود ہے جو یہاں آنے والوں کو ہزاروں سال پیچھے لے جاتی ہے۔ماہرین کے مطابق یہ ایک زمانے میں بدھ مت کے پیرو کاروں کا مرکز تھا جس میں فن سنگ تراشی، نقاشی و تصویر کشی دیکھ کر آج کے دور کا انسان بھی دنگ رہ جاتا ہے۔

کئی نسلوں کا مسکن رہنے والے یہ غار کیا ہیں، رہائشی تعمیر کا شاہ کار اور انوکھے محل اور مکانات ہیں جنھیں اس دور میں بے پناہ مشقت اورسخت محنت سے تراشا گیا ہو گا۔ان غاروں میں بنائی گئی تصاویر کی بات کی جائے تو معلوم ہو گا کہ اس دور کے فن کار نباتات اور جمادات کی مدد سے رنگ تیار کرتے اور نہایت مہارت و خوبی سے اپنے شاہ کار کوان کے ذریعے گویا زندہ کردیتے۔

ماہرین کےمطابق اس دورکے فن کار جدت پسنداور صناعی و تخلیق کے ضمن میں بھی سائنسی سوچ کے مالک تھے۔ ان تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ علم ہندسہ جانتے، ناپ تول اور پیمائش کو خوب سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تصاویر طول و عرض، قوسین، دائرے، فاصلے، حجم کے لحاظ سے قابلِ ذکر ہیں۔اس دور کے فن کاروں اور کاری گروں کا مشاہدہ نہایت عمیق، ذوق شاعرانہ اور ان میں مہارت اعلیٰ درجے کی تھی۔

ان تصاویر میں محل کے دروازے پر کھڑا بھکشو، ستونوں‌ پر تراشی گئی تصاویر، محل میں رقص کی ایک محفل کا منظر، زیورات پہنے ہوئے کالی رانی، ہیلوں کی لڑائی کا منظر شامل ہیں۔اجنتا کے غار اورنگ آباد سے ایک سو دس کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔ ان غاروں تک پہنچنے کے لیے سڑک کا سفر کرنا پڑتا ہے۔اجنتا کے یہ غار نواب سکندر جاہ آصف ثالث کے عہد میں بازیافت ہوئے۔ مشہور ہے کہ چند شکاری اس مقام سے گزرے جنھوں نے یہ غار اور ان میں مورتیاں دیکھیں اور ایسٹ انڈیا کمپنی کواس کی اطلاع دی۔1924 میں نظام دکن میر عثمان علی خان کے حکم اس قدیم اور تاریخی ورثے کی حفاظت اور ضروری تعمیر و مرمت کے ساتھ غاروں تک پہنچنے کے لیے راستہ بنایا گیااور اس پر خطیر رقم خرچ کی گئی۔

1885 میں ان غاروں کی تصاویر پر مشتمل ایک کتاب شایع کی گئی اور یوں سیاحوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو جس کے بعد ان غاروں کی شہرت دنیا بھر میں پھیل گئی۔

 

جمعہ، 12 مئی، 2023

شاھ عبد اللطیف بھٹائی

 سندھ میں اولیائے کرام کی آمد جاری تھی انہی دنوں ایک عالی نسب سیّد زادے حبیب شاہ نے بھی سندھی کی پاکیزہ دھرتی پر قدم رکھے اور ضلع مٹیاری کی تحصیل ہالا میں اقامت گزیں ہوگئےشاھ عبد اللطیف بھٹائی کی ولادت 1689ء، 1101ھ میں ہوئ۔۔ اور موصوف کا شمار اس علاقے کی برگزیدہ ہستیوں میں تھا۔برصغیر کے عظیم صوفی شاعر تھے۔ آپ نے اپنی شاعری کے ذریعے اللہ اور ا کے رسول صلی اللہ علیہ وبرّآلہ وسلم کے پیغام کو عام لوگوں تک پہنچایاشاہ صاحب کی پیدائش کے متعلق مشہور ہے کہ سید حبیب شاہ نے یکے بعد دیگرے تین شادیاں کیں لیکن اولاد سے محروم رہے۔ آپ نے اپنی اس محرومی کا ذکر ایک درویش کامل سے کیا، جن کا اسم گرامی عبداللطیف بتایا جاتا ہے۔ موصوف نے دعا کرتے ہوئے کہا کہ انشاء اللہ آپ کی مراد بر آئے گی۔ میری خواہش ہے کہ آپ اپنے بیٹے کا نام میرے نام پر عبد اللطیف رکھیں۔ خدا نے چاہا تو وہ اپنی خصوصیات کے لحاظ سے یکتائے روزگار ہو گا۔ ہستیوں میں تھا۔برصغیر کے عظیم صوفی شاعر تھے۔ آپ نے اپنی شاعری کے ذریعے اللہ اور ا کے رسول صلی اللہ علیہ وبرّآلہ وسلم کے پیغام کو عام لوگوں تک پہنچایاشاہ صاحب کی پیدائش کے متعلق مشہور ہے کہ سید حبیب شاہ نے یکے بعد دیگرے تین شادیاں کیں لیکن اولاد سے محروم رہے۔ آپ نے اپنی اس محرومی کا ذکر ایک درویش کامل سے کیا، جن کا اسم گرامی عبداللطیف بتایا جاتا ہے۔ موصوف نے دعا کرتے ہوئے کہا کہ انشاء اللہ آپ کی مراد بر آئے گی۔ میری خواہش ہے کہ آپ اپنے بیٹے کا نام میرے نام پر عبد اللطیف رکھیں۔ خدا نے چاہا تو وہ اپنی خصوصیات کے لحاظ سے یکتائے روزگار ہو گا۔

سید حبیب شاہ کی پہلی بیوی سے ایک بچہ پیدا ہوا۔ درویش کی خواہش کے مطابق اس کا نام عبد اللطیف رکھا گیا۔ لیکن وہ بچپن میں ہی فوت ہو گیا۔ پھر اسی بیوی سے جب دوسرا لڑکا پیدا ہوا تو اس کا نام پھر عبد اللطیف رکھا گیا۔ یہی لڑکا آگے چل کر درویش کی پیشین گوئی کے مطابق واقِعی یگانہ روزگار ہوا۔شاہ عبد اللطیف بھٹائی کےآباؤ اجداد سادات کے ایک اہم خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کا سلسلۂ نسب علی المرتضی اور رسول خدا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک پہنچتا ہے۔امیر تیمور کے زمانے میں ہرات کے ایک بزرگ سید میر علی بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ اور آپ کا شمار اس علاقے کے معزز ترین افراد میں ہوتا تھا۔ 1398، -801ھ میں جب امیر تیمور ہرات آیا، تو سید صاحب نے اس کی اس کے ساتھیوں کی بڑی خاطر و تواضع کی، ساتھ ہی بڑی رقم بطور نذرانہ پیش کی۔

تیمور اس حسن سلوک سے متاثر ہوا۔ سید صاحب اور ان کے دو بیٹوں میر ابوبکر اور حیدرشاہ کو مصاحبین خاص میں شامل کر کے ہندوستان لے آیا۔ یہاں آنے کےبعد میر ابوبکر کو سندھ کے علاقے سیہون کا حاکم مقرر کیا۔ اور سید میر علی اور حیدر شاہ کو اپنے ساتھ رکھا۔ بعد کو سید حیدر شاہ بھی اپنے والد بزرگوار اور تیمور کی اجازت سے گھومتے پھرتے مستقل طور پر سندھ میں آ گئے اور ہالا کے علاقے میں شاہ محمد زمیندار کے مہمان ہوئے۔شاہ محمد نے آپ کی کچھ اس طرح خدمت کی کہ وقتی راہ و رسم پر خلوص محبت میں بدل گئی۔ کچھ دنوں بعد اس نے اپنی لڑکی فاطمہ کی شادی آپ سے کردی۔چونکہ آپ کی ماں کا نام بھی فاطمہ تھا، اس لیے شادی کےبعد اس نام کو سلطانہ سے بدل دیا گیا۔ سید حیدر شاہ قریب قریب تین سال تک ہالا میں رہے پھر اپنے والد کی وفات کی خبر سن کر ہرات گئے جہاں تین چار سال تک رہنے کے بعد وہیں وفات پا گئے۔ کہتے ہیں جب سید صاحب ہرات روانہ ہوئے تو آپ کی اہلیہ حاملہ تھیں انہوں نے چلتے وقت یہ وصیت کی تھی کہ اگر میری عدم موجودگی میں بچہ پیدا ہوا تو لڑکا ہونے کی صورت میں اس کا نام میر علی اور لڑکی ہو تو فاطمہ رکھا جائے۔ چنانچہ لڑکا پیدا ہوا اور وصیت کے مطابق اس کا نام میر علی رکھاگیا۔ میر علی کے خاندان میں بڑے بڑے صاحب کمال بزرگ پیدا ہوئے، ان بزرگوں میں شاہ عبد اللطیف بھٹائی کے علاوہ، شاہ عبد الکریم بلڑی وارو، سیدہاشم اور سید جلال خاص طور پر قابل ذکر ہیں

شاہ عبد الطیف بھٹائی کو "ست سورمیون کا شاعر" بھی کہا جاتا ہے۔وہ یورپی زبانوں کے ساتھ ساتھ سندھی ،پنجابی،بروہی اور پشتو زبانوںپر بھی عبور رکھتا تھا۔ جوگیوںاور گائیکوں کی آواز میں گایا جانے والا شاہ لطیف کا کلام اس پر سحر طاری کردیتا تھا۔ حیدر آباد میںقیام کے دوران اس نے گنج شاہ لطیف کی نقل تیار کی اورریٹائرمنٹکے بعد جرمنی لے جا کر لیپزگ Leipzig سے شائع کرواکےاسے ’’شاہ کے پیغام‘‘ کانام دیا ۔بعض بنیادی نقائص کے باوجود یہ نسخہ سندھی دانشوروں کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا ۔اس کی اشاعت کے فوری بعدعلامہ آئی آئی قاضی کی جرمن اہلیہ، ایلسا قاضی نے اس کا انگریزی ترجمہ شائع کرایا۔شاہ لطیف کے مجموعہ کلام کی جرمنی میں اشاعت کے بعد ہی پوری دنیا پر یہ آشکار ہوا کہ ’’شاہ جو رسالو‘‘ وہ عظیم ادبی شاہ کار ہے جسے دنیائے ادب میں بجاطور پر پیش کیا

 جا سکتا ہے۔ اس کا ایک قلمی نسخہ برٹش میوزیم میں بھی محفوظ ہے۔شاہ جو رسالو کا سندھی سےاردو ترجمہ ،معروف شاعر شیخ ایاز نے کیا، اور اس کام میں ان کی معاونت پروفیسر آفاق صدیقی نے کی۔اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے شاہ عبداللطیف بھٹائی اور تصوف کے حوالے سے لکھی جانے والی بہترین کتابوں پرشاہ عبداللطیف بھٹائی تصوف ایوارڈکا اجراء کیا گیا ۔شاہ عبداللطیف بھٹائی ’’سماع‘‘ کے بے حد شوقین تھے۔ برصغیر کی کی گائیکی کے انداز سے پوری طرح آشناتھے۔ گائیکی کے سروں کے آپ نے مختلف نام رکھے تھے، یہ سُر (آواز) داستانوں میں بٹے ہوئے ہیں، اور ہر داستان کے پیچھے ’’وائی‘‘ ہے جوکہ عبداللطیف کی اپنی ایجاد ہے، اس کی ہیئت غزل سے ملتی جلتی ہے۔ ’’سُر حسینی‘‘ میں سسّی کی دردناک صدائیں سنائی دیتی ہیں، اسی طرح شاہ صاحب نے ماروی کو دیس کی محبت کی علامت کے طور پر نمایاں کیا ہے

شاہ بھٹائی جس ٹیلے پربیٹھ کریاد الٰہی میں مشغول رہتے اور اپنا صوفیانہ کلام مرتب کرتے تھے اس کے نزدیک ایک نہر بھی بہتی تھی،کمالِ فن دیکھئے کہ شاہ عبد اللطیف بھٹائی نے اُس کے پانی کا شور یا آوازیں سُن کر موسیقی کے سُر دریافت کیے اور ایک آلہ موسیقی ایجاد کیا جسے ’’ طنبور‘‘ کہا جاتا ہے۔ان کا کلام گائیک یا جوگی صرف طنبورے پر ہی گاتے ہیں، اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا موسیقی کا آلہ استعمال نہیں کیا جاتا۔شاہ صاحب کا کلام سلیس و بلیغ انداز میں بیان کیا ہوا ہے۔ سندھ کے ہزاروں لوگ شہر، گاؤں اور پہاڑوں میں بسنے والے شاہ جو رسالو کے حافظ ہیں شاہ عبداللطیف بھٹائی شاعری اور موسیقی کے ماہر تھے۔ انہوں نے اپنے کلام سے کئی سر ایجاد کیے اور خود ایک ساز طنبورو بھی ایجاد کیا۔ عام طور پہ طنبورہ چار تاروں کا ہوتا ہے مگر شاہ صاحب نے ایک اضافی تار لگا کر پانچ تاروں والا طنبورہ بنایا، جس کو خود استعمال کرتے تھے اور اپنے فقیروں کو بھی اس کی تربیت دیتے تھے۔ ان کے پاس گوالیار سے کلاسیکل فنکار اٹل اور چنچل بھی لمبا سفر طے کر کے راگ سمجھنے آئے تھے۔ اکثر رات کے اوقات میں محفل سماع کرواتے تھے۔

شاہ صاحب کے زمانے میں سندھ کے حکمران خود پیر و مرشد کی گدی والے، عباسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے، جن کے ہزاروں مرید شاہ لطیف کے عقیدت مند بن گئے۔ یہ بات ان کو بہت بری لگی اور شاہ لطیف سے عداوت کرنے لگ گئے۔ اس حوالے سے والیٔ سندھ میاں نور محمد کلہوڑو نے شاہ لطیف کو بار بار مارنے کی سازشیں بھی کیں۔ شاہ صاحب سیاست نہیں کرتے تھے البتہ اپنے کلام کے ذریعے انہوں نے حاکموں، ظالموں اور حملہ آوروں کے خلاف مزاحمتی انداز میں آواز بلند کی ہے۔ سر مارئی میں ان کا یہ انداز واضح نظر آتا ہے، وہ فرماتے ہیں شاہ عبداللطیف بھٹائی کا پیغام فقط ایک خطے کے لوگوں کے لئے نہیں بلکہ ان کی دعا سندھ کو سرسبز و شاداب کرنے کے ساتھ پورے عالم کو آباد کرنے کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں :”اے میرے مولا، میرے وطن سندھ، کو ہمیشہ خوشحال رکھ،اور سندھ کے ساتھ پوری دنیا کو بھی آباد رکھ۔ ”

شاہ عبداللطیف بھٹائی نے 14 صفر 1165 ہجری بمطابق 1752 عیسوی میں وفات پائی، آپ کی وصیت کے مطابق آپؒ کی بھٹ شاہ میں ہی تدفین کی گئ

بدھ، 10 مئی، 2023

آ و چڑیا گھر چلیں

 

 

پاکستان بننے کے بعد جب مہاجروں زرا قدم جما لئے تب کچھ تفریح طبع نے سر اٹھا یا تو ان کے پاس واحد تفریح گاہ شہر کےمشرق میں انگریز کا بنوایا ہوا ایک باغ تھا جس میں انہوں نے دنیا کے چرند 'پرند' اور انواع اقسام کے جنگلی جانور رکھّے تھے ،اب عوام کی دلچسپی یہی جانور ہوا کرتے تھے جو وہ اپنے بچّوں کو لا کر دکھاتے تھے-اس باغ کا نام اس وقت جو معروف تھا وہ تھا چڑیا گھر- جو بعد میں گاندھی گارڈن کہا جانے لگا-

 اس نباتاتی باغ کی جائے پیدائش کو کھوجنے کے لیے اگر ہم تاریخ کے صفحات پلٹیں تو اس جگہ ہمیں باغ کے ہی شواہد ملتے ہیں جنھیں دو صدی قبل عام لوگ سرکاری باغ کے نام سے پکارتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس باغ کی شناخت بدلتی رہی۔سرکاری باغ سے وکٹوریہ کوئین گارڈن، پھر گاندھی گارڈن، کراچی زو اور اب اس کا پورا نام ’کراچی زولوجیکل اینڈ بوٹینیکل گارڈن‘ ہے اور درختوں کے متوالوں، نباتات کے طالب علموں، ماہرین ماحولیات اور محققین کےلئے اس باغ میں برگد کا ایک بہت پرانا درخت ہے  اس برگد سے گذشتہ دو صدیوں میں 9 درخت بن چکے ہیں، حتی کہ کچھ جڑوں نے تو دوسری عمارت تک پہنچ کر وہاں ایک نیا درخت تشکیل دے دیا ہے-روایت کے مطابق گوتم بدھ کو ’نروان‘ برگد کے درخت کے نیچے ملا تھا جبکہ کچھ روایات میں املی اور کچھ میں انجیر کے درخت کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کا عقیدہ ہے کہ سیتا نے اپنی پارسائی کی گواہی دینے پر برگد کو دعا دی تھی اور ہندوں کا ماننا ہے کہ اسی لیے یہ درخت بڑھتا رہتا ہے۔برگد کے درخت کو تمام مذاہب میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے اسی لیے اسے صوفی یا درویش درخت بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ برگد کا درخت جہاں بھی اگتا ہے وہاں اپنا پورا خاندان تشکیل دیتا ہے۔

۔ یہ درخت کراچی کے گنجان آباد علاقے کے ایک نباتاتی باغ میں موجود ہے۔یہ باغ اس علاقے میں دھواں، شور اور بے ہنگم ٹریفک کے درمیان 43 ایکڑ کے وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ہے جہاں دو ہزار سے زائد درختوں کا ذخیرہ موجود ہے۔لوگ عموماً اس باغ کو چڑیا گھر یا گاندھی گارڈن کے نام سے جانتے ہیں۔جانوروں کی موجودگی اگرچہ اب اس جگہ کی پہچان ہے اور بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ تاریخی طور پر یہ جگہ ایک نباتاتی باغ کے لیے مخصوص تھی اور اب بھی یہاں دو ہزار سے زائد تناور درختوں کا ذخیرہ موجود ہے جو بدلتے موسموں سے لڑتے کراچی کے لیے کسی آکسیجن کے کارخانے سے کم نہیں ہے۔

لیے آج بھی یہ بطور ’بوٹینیکل گارڈن‘ کشش کا باعث ہے۔

نباتاتی باغ کس حال میں ہے؟کراچی چڑیا گھر میں داخل ہوں تو درختوں کی اہمیت کا احساس زیادہ اجاگر ہوتا ہے۔ باہر درجہ حرارت 40 کو چھو رہا تھا لیکن باہر کی شدید گرمی کے باوجود اندر چاروں جانب ایک ٹھنڈک سی محسوس ہورہی تھی۔بلند و بالا اشجار کی گھنی چھتری دھوپ کو کہیں اوپر ہی روک رہی تھی۔ ماحول میں خنکی اور ایک فطری سکوت کا احساس نمایاں تھا۔ادارے سے بطور ہارٹی کلچرسٹ وابستہ ضامن عباس کے مطابق یہاں 2,311 بالغ درخت موجود ہیں جبکہ چھوٹے درخت اور پودے لا تعداد ہیں۔ ہر درخت کی تاریخ سو ڈیڑھ سو سال سے پرانی یا اس سے زیادہ عرصے پر محیط ہے۔اگرچہ سائنسی طور پر کسی بھی درخت کی عمر معلوم کرنے کے لیے اب تک کوئی کام نہیں ہوا ہے مگر ان درختوں کے وسیع و عریض تنے، چوڑائی اوربلندی ان کی عمر کا اندازہ لگانے کے لیے کافی ہے۔

بوٹینیکل گارڈن

حال ہی مغل گارڈن کا رنگ و روپ سنوارا گیا ہے جس سے اس کی خوبصورتی اور نکھر گئی ہےبرگد کا قدیم درخت -ضامن عباس نے ہمیں برگد کا وہ درخت دکھایا جس کی عمر 200 سال سے زیادہ ہے۔ برگد کا درخت پرانا ہونے پر اس کی جڑیں اوپر کی شاخوں سے پھوٹ پڑتی ہیں اور نیچے زمین کی طرف بڑھتی ہیں اور زمین میں جگہ بنا کر ایک نیا درخت تشکیل دیتی ہیں گویا ایک درخت سے کئی درخت بنتے چلے جاتے ہیں۔اس برگد سے بھی ان دو صدیوں میں نو درخت بن چکے ہیں حتی کہ کچھ جڑوں نے دوسری عمارت میں جا کر ایک نیا درخت تشکیل دے دیا ہے۔ انتظامیہ نے اس کی حفاظت کے لیے چاروں جانب کیاری اور احاطہ بنا دیا ہے۔اس نباتاتی باغ میں برگد کے مزید 55 درخت موجود ہیں ان میں سے کسی کی عمر بھی ڈیڑھ سو سال سے کم نہیں ہے، ان میں سے ایک درخت تقریباً سوکھ چکا تھا مگر خصوصی دیکھ بھال اور اس سال بارشوں کے بعد اس پر پتے نکل آئے ہیں۔یاد رہے کہ کراچی میں برگد کا درخت شہر کا ورثہ قرار دیا گیا ہے اور اس کی کٹائی یا کسی بھی طرح نقصان پہنچانے پر پابندی ہے۔ کمشنر کراچی کے جاری کردہ نوٹیفیکیشن کے مطابق برگد کے درخت کو نقصان پہنچانے کے مرتکب افراد کے خلاف سندھ قومی ورثہ ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی۔

املی روڈ

یہاں املی کے بلند و بالا، گھنی چھتری والے 75 سایہ دار درخت موجود ہیں اور ان میں سے زیادہ تر ایک سڑک کے کنارے لگائے گئے ہیں جو پوری سڑک کو سایہ مہیا کرنے کے ساتھ ایک بہت ہی خوبصورت منظر پیش کرتے ہیں۔اس روڈ کو ان املی کے درختوں کی وجہ سے املی روڈ کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ درخت ہاتھی گھرا ور دفاتر کو سایہ فراہم کرتے ہیں۔ قیاس ہے کہ شاید انگریزوں کے گھوڑے اس کا پھل شوق سے کھایا کرتے تھے اسی لیے یہ اتنی زیادہ تعداد میں لگائے گئے ہیں۔ ان درختوں کی عمر بھی سو سے ڈیڑھ سو سال تک ہے اور ان کی اونچائی 80 سے 100فٹ تک ہے۔

حال ہی مغل گارڈن کا رنگ و روپ سنوارا گیا ہے جس سے اس کی خوبصورتی اور نکھر گئی ہے اور اب یہ عمارت بھی شان دار درختوں میں گھری ہوئی سچ مچ کسی مغل فرماں روا کا باغ معلوم ہوتی ہے۔گیٹ سے لے کر عمارت تک جانے والے دونوں راستوں کے درمیان ایک نہر ہے، دونوں جانب دیدہ زیب فانوس لگے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عمارت کی جانب جانے والے دونوں راستوں پر بلند و بالا پام کے درخت اس طرح ایستادہ ہیں گویا محافظ دست بستہ کھڑے پہرا دے رہے ہوں۔پام کے ان درختوں کی تعداد 100 سے زیادہ ہے ان میں فین پام کے 21 ،ملیشیا پام کے 19 اور بوٹل پام کے 71 درخت ہیں جن کی عمریں کسی بھی طور پچیس تیس سال سے کم نہیں ہیں۔بیو مونٹ لانیہ لان کراچی میونسپلٹی کے انگریز دور (1905- 1910) کے صدر ٹی ایل ایف بیومونٹ کے نام سے منسوب ہے۔ یہاں برگد کے درخت کافی تعداد میں موجود ہیں اور اب تک نام کی تختی بھی موجود ہے۔

اس نباتاتی باغ کا خزانہ 2,311 بڑے درختوں پر مشتمل ہے۔ ان میں نیم کے 111، املی کے 75، برگد کے 55، السٹونیا کے 61، پیلٹوفورم کے 19، ملیٹا کے 4، لیگنم کے 71، مولسری کے 2، گل موہر کے 7، بانس کے 61، جامن کے 11، املتاس کے 7، اشوک کے1100، ناریل کے 5، گلر کے 9، چمپا کے 2، پیپل کے 9، بکائن کے 9، سفیدہ کے 7، بیلگری کے 3، کیتھ کا ایک، بوتل پام کے 71، پاکر کے 7، کارڈیا کے 30، کھرنی کے2 ، انڈین ٹیولپ کے 5، برنا کے 11، جنگل جلیبی کے 511، کینن بال کے 2، ملیٹیا پام کے 19، فین پام کے 21 اور پنک کیسیا کے 5 درخت موجود ہیں۔

باغ بانی کے ماہر توفیق پاشا موراج کے مطابق اس نباتاتی باغ میں کچھ نایاب درخت ایسے بھی ہیں جو پورے کراچی میں کہیں اور نہیں پائے جاتے مثلا کینن بال ٹری جس کے دو درخت یہاں موجود ہیں، یہ درخت کراچی میں کہیں اور نہیں پایا جاتا۔ان کا کہنا ہے کہ یہ کراچی کا سبز خزانہ ہے جسے بھرپور طریقے سے کام میں لانا چاہیے۔ طالب علموں کو یہاں کا دورہ کروایا جائے، شجر کاری اور کچن گارڈننگ کے حوالے سے تربیتی کورس کروائے جائیں، شہر بھر کے مالیوں کو تربیت دی جائے۔ بہترین نرسریاں تشکیل دی جائیں جس سے دوسرے ادارے اور شہری بھی استفادہ کر سکیں۔ اس وسیع رقبے اور ان سبز وسائل کو زیادہ سے زیادہ کام میں لایا جائے-

ماہر ماحولیات رفیع الحق کے مطابق کسی بھی بالغ شجر سے حیات کی کم ا زکم پندرہ اقسام وابستہ ہوتی ہیں جن میں انسان، پرندے، تتلیاں ، گلہریاں، شہد کی مکھی، مختلف کیڑے مکوڑے وغیرہ شامل ہیں۔ لہذا یہ درخت حیاتیاتی تنوع کی وسیع اقسام کا مسکن ہیں۔انھوں نے مزید کہا کہ ایک انسان اپنی عمر میں اوسطا جتنی آکسیجن استعمال کرتا ہے وہ کم از کم سات درختوں کے برابر ہے اس لحاظ سے دو کروڑ آبادی والے شہر میں 14 کروڑ درختوں کی ضرورت ہے، ایسے میں درختوں کی انتہائی کم شرح کے ساتھ موسمیاتی تغیرات کے خطرے سے نبرد آزما کراچی کے لیے ایک ایک درخت قیمتی ہے۔

بوٹینیکل گارڈن میں موجود ایک نایاب ’کینن بال‘ درخت

کراچی کی فضائی آلودگی کے پیش نظر شہر میں موجود ہر درخت ایک بیش قیمت اثاثہ ہے کیونکہ درخت فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرکے فضا کو صاف کرتے ہیں۔ گارڈن کے علاقے کا شمار کراچی کے گنجان آباد اور آلودہ ترین علاقوں میں کیا جاتا ہے۔ یہاں بے تحاشا اور بے ہنگم ٹریفک سے نکلتا دھواں فضا کو شدید آلودہ کرتا ہے۔محکمہ ماحولیات، موسمیاتی تبدیلی اور ساحلی ترقی کے ترجمان مرزا مجتبٰی بیگ کے مطابق سندھ تحفظ ماحول کے اعداد و شمار کے لحاظ سے گارڈن کے علاقے میں فضائی معیار کے ایک اہم جزPM 2.5 کی مقدار 68 مائیکروگرام فی کیوبک میٹر پائی گئی ہے۔ جو کہ صحت کی عالمی تنظیم ڈبلیو ایچ او کے معیارات کے مطابق 25 مائیکروگرام فی کیوبک میٹر سے زائد نہیں ہونی چاہیے یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس علاقے کا فضائی معیار مطلوبہ حد سے تین گنا ابتر ہے۔مجتبی کے مطابق پی ایم ڈھائی (PM 2.5) سے مراد Particulate Matter 2.5 ہے یعنی وہ فضا جو ہمارے ناک اور منہ کے بالکل قریب ہوتی ہے اور ہمارے پھیپھڑوں میں پہنچنے سے قبل اس میں بہتری کا کوئی امکان نہیں ہوتا ہے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسی آلودہ فضا میں ہزاروں درختوں کا ذخیرہ کسی خزانے سے کم نہیں ہے ، اس کی حفاظت کے لیے تمام سائنسی شواہد اور جدید تکنیک کو بروئے کار لانا چاہیے۔

کیا یہ پاکستان کا سب سے بڑا اور پرانا درخت ہے؟وفاقی اردو یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبہ نباتات کے سابق وزیٹنگ پروفیسر، کئی کتابوں کے مصنف اور ماہرنباتات ڈاکٹر معین الدین احمد پاکستان میں ڈینڈروکرونولوجی کی جدید تحقیقی تکنیک کے بانی تصور کیے جاتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اس تکنیک سے درختوں کے اندر موجود ’برسا پرتوں‘ سے آپ نہ صرف درختوں کی درست عمر بلکہ ان پر گزرنے والوں موسموں کے بارے میں بھی جان سکتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تکنیک پھول دار درختوں کے لیے زیادہ موزوں نہیں ہے کیونکہ ان میں گروتھ رنگ زیادہ واضح نہیں ہوتی ہے۔

تاہم ان کے مطابق اس کے علاوہ بھی طریقے موجود ہیں جن سے ان درختوں پر تحقیق کی جاسکتی ہے جس سے درختوں کی عمر، کراچی کے موسموں کا مکمل ڈیٹا مل سکتا ہے کہ کب اس شہر میں بارشیں برسیں اور کب کب خشک سالی نے اپنے پنجے گاڑے، یہ فضا سے کتنا کاربن اور شور کی کتنی آلودگی جذب کرتے ہیں، یہ سب معلوم ہو سکتا ہے۔ڈاکٹر معین کا کہنا ہے کہ چند سال پہلے کراچی زولوجیکل اور بوٹینیکل گارڈن اور یونیورسٹی کے مابین اسی طرح کی ایک تحقیق کی منصوبہ بندی کی گئی تھی جو بدقسمتی سے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکی۔ماہرین متفق ہیں کراچی کی فضائی آلودگی کے لیے ان ہزاروں درختوں کی موجودگی ان گنت فوائد کی حامل ہے اور ان کی حفاظت اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر