Knowledge about different aspects of the world, One of the social norms that were observed was greetings between different nations. It was observed while standing in a queue. An Arab man saw another Arab man who apparently was his friend. They had extended greetings that included kisses on the cheeks and holding their hands for a prolonged period of time. , such warm greetings seem to be rareamong many people, . this social norm signifies the difference in the extent of personal space well.
جمعرات، 26 جنوری، 2023
سفینہءنوح اورحضرت نوح علیہ السلام
منگل، 24 جنوری، 2023
باغ ابن قاسم -کراچی کے ساحل کا جھومر
کسی بھی متمدّن شہر کے لئے باغوں کا
وجود کتنا ضروری ہے -یہ جاننے کے لئے ہم زمانہ قدیم میں سفر کرتےہیں تو ہمیں معلّق
باغوں کا بھی تذکرہ ملتا ہے-جبکہ مغل شہنشاہوں نے بھی اپنے اپنے زوق کے مطابق باغ
بنوائے جن میں لاہور کا شالا مار باغ آج بھی شہریوں کی تفریح طبع کا ضامن ہے
اب ہم کراچی کے باغ ابن قاسم کا تزکرہ
کرتے ہیں
روشنیوں کے شہر کراچی میں ہر رنگ و
نسل کے لوگ بستے ہیں۔ یہاں کا سمندر اور سمندری حیات پوری دنیا میں مشہور ہے‘ کراچی
کی ایک خصوصیت اس کا بحیرہ ارب کا طویل ساحل بھی ہے۔کراچی کے اس ساحل کی اہمیت کے
پیش نظر یہاں ایک سو تیس ایکڑ اراضی پر باغ ابن قاسم کے نام سے پاکستان کا ایک بڑا
پارک واقع ہےجو اپنی وسعت‘ اپنی خوبصورتی اور ڈیزائن کے اعتبار سے اپنا ثانی نہیں
رکھتا۔ اس وسیع و عریض تفریح گاہ کا نام صوبہ سندھ میں اسلام کی روشنی پھیلانے
والے محمد بن قاسم کے نام پر باغ ابن قاسم رکھا گیا۔ اس کے ساتھ ہی ایک چھوٹا سا
پارک بھی بنایا گیا تھا جہاں شہری آکر اس راہداری سے سمندر کا نظارہ کیا کرتے تھے۔یہ
کراچی کے ایک مخیر شخص جہانگیر ایچ کوٹھاری کی کوششوں کا نتیجہ تھا - اس پارک کا
سنگ بنیاد عزت مآب لیڈی لائڈ(Lady Lloyd)نے رکھا تھا۔ اس پارک پر ہونے والے اخراجات جو تین لاکھ روپے تھے
کراچی کے شہریوں نے جہانگیر ایچ کوٹھاری کے توسط سے جمع کیے جو کراچی کے شہریوں کا
اپنے شہر سے محبت کا ایک جذبہ اور تحفہ تھا۔ ہر ایکسی لینسی لیڈی لائڈ کو اس کا
باقاعدہ افتتاح کیا اور شہریوں کے لیے کھولنے کا اعلان کیا۔ 85سال تک یہی پارک شہریوں
کے استعمال میں رہا اور ملک کے کونے کونے سے کراچی آنے والے لوگ کلفٹن میں واقع یہ
پارک اور ساحل کا حسین منظر دیکھنے کے لیے ضرور آتے۔کراچی میں بننے والی تقریباً
تمام ہی فلموں میں کلفٹن میں واقع اس ڈوم کو کراچی کی پہچان کے طور پر فلمایا گیا۔
فلموں کے کئی گانے اسی پارک میں شوٹ کیے گئے جس سے فلم دیکھنے والے کو اندازہ
ہوجاتا تھا کہ اس فلم کی شوٹنگ کراچی میں کی گئی ہے۔
2005ء میں بلدیہ عظمیٰ کراچی نے فیصلہ
کیا کہ اس پارک کو وسعت دی جائے اور یہاں اس کی تعمیرات سے ہم آہنگ ایک وسیع و عریض
پارک تعمیر کیا جائے لہٰذا اس مقام کو قابل دید اور پرسکون مقام بنانے کے لیے
2006ء میں اس پارک کی تعمیر کا آغاز کیا ،باغ ابن قاسم کی 1920ء کی تعمیرات کو مد
نظر رکھتے ہوئے اس پارک کا نقشہ تیار کیا گیا۔
باغ ابن قاسم -جہاں یہ خوبصورت پارک
تعمیر کیا گیا ہے یہاں سینکڑوں کی تعداد میں نہ صرف تجاوزات تھیں بلکہ نام نہاد
بڑے بڑے لوگوں نے یہاں کی قطعہ اراضی کو اپنے نام الاٹ بھی کرا رکھا تھا۔ یوں پارک کا مجموعی رقبہ ایک سو تیس ایکڑ
سے کم ہو کر صرف 56ایکڑ رہ گیا تھا۔ اس سلسلے میں سندھ کے سابق گورنر ڈاکٹر عشرت
العباد خان نے پارک کی تعمیر میں اپنی بے انتہا دلچسپی کا اظہار کیا اور تجاوزات
کو ختم کرنے میں اپنا موثر کردار ادا کیا اور مختلف اوقات میں اس پارک کا دورہ کر
کے متعلقہ افسران کو ہدایت دی اور تعمیر میں حائل رکاوٹوں کو اپنی ذاتی کوششوں سے
ختم کیا‘ یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ سابق گورنر سندھ نے اس پاک کی تعمیر کے
دوران 63مرتبہ یہاں کا دورہ کیا۔ دنیا کے چالیس سے زیادہ ملکوں کے سفارتکار اس
پارک کے تعمیراتی کام کو دیکھنے کے لیے پارک آئے۔ سابق صدر جنرل پرویز مشرف
3مرتبہ اس پارک کے کاموں کے معائنہ کے لیے از خود تشریف لائے۔
450سے زائد تجاوزات کے خاتمے کے ساتھ
ساتھ اس کی تعمیر کا کام بھی جاری رکھا گیا اور تیزی سے تکمیل کے لیے یہاں24گھنٹے
کام کیا گیا‘ یوں ایک سال کی مدت میں یہ پارک تکمیل کے مراحل کو پہنچا۔ پورے باغ میں
جہاں جہاں پتھر کا کام کیا گیا وہ سب یہاں پر موجود قدیم کوٹھاری پریڈ کے ڈیزائن
اور رنگ کے مطابق ہے۔
پارک میں دونوں جانب گھاس کے بڑے بڑے
قطعات بنائے گئے ‘ کناروں پر بیٹھنے کے لیے نشستیں رکھی گئیں‘ ان نشستوں کی کل
تعداد (3000) تین ہزار ہے اس کے علاوہ باغ میں 20پتھر کی کینوپیز(چھتریاں) بھی ایک دلکش
منظر پیش کرتی ہیں۔ رات کے وقت معقول روشنی کے لیے پورے باغ میں 1500برقی قمقمے
‘24لائٹ ٹاورز اور ارینہ لائٹس بھی لائی گئیں جن سے پورا باغ رات کے وقت دن کا
منظر پیش کرتا ہے۔ باغ ابن قاسم میں صفائی کا بھی خاص خیال رکھا گیا ہے‘ پورے باغ
میں 3000ڈسٹ بن نصب ہیں۔
پاکستان کے سب سے بڑے ساحلی تفریح
پارک باغ ابن قاسم میں بچوں کی تفریح کے لیے دو ایکڑ رقبے پر امیوزمنٹ پارک تعمیر
ہے جس میں جدید اور محفوظ جھولے اور دوسری سہولتیں میسر ہیں۔ باغ ابن قاسم میں
قدرتی ماحول کو مستقل بنیادوں پر صاف ستھرا اور آلودگی سے پاک رکھنے کے لیے
9000کرونا کارپس کے درخت اور یوفوربیا کے 3000پودے لگائے گئے۔ موسم بہار کے لیے سیزنل
فلاورز کی کیاریاں بنائی گئی ہیں۔ اس پارک کی شان و شوکت کو دوبالا کرنے کے لیے
تھائی لینڈ سے منگائے گئے بوگن ویلا کے ایسے پودے جن کی عمر 50سال سے زائد ہے
لگائے گئے۔
کئی درخت ایسے بھی ہیں جن میں گرافٹنگ
کی گئی اب ایک درخت کئی کئی رنگوں کے پھول دیتا ہے۔ اس باغ میں لگائے گئے مختلف
اقسام کے درآمد شدہ ایسے پودے جنہیں مختلف جانوروں کی شکل میں تراشا گیا، اس پارک
کو سیوریج کے ٹریٹڈ واٹر سے سیراب کیا جاتا ہے جس سے شہر کے میٹھے پانی پر کوئی
اثر نہیں ہوتا۔ بزرگ شہریوں اور ایسے لوگ جو زیادہ چلنے پھرنے کے قابل نہ ہوں اُن
کے لیے ریمپ بنائے گئے ہیں۔ یہاں پر 24باتھ رومز ہیں جہاں پر چین سے درآمد شدہ
18واش بیسن ‘ہینڈ ڈرائرز اور سینٹری استعمال کی گئی ہے۔
باغ ابن قاسم میں دو بڑی مساجد ‘ ایک قدیم مندر اور حضرت عبداللہ شاہ غازی کا مزار آنے والے شہریوں کی تسکین کا باعث ہے اور اپنے اپنے مذہب کے مطابق عبادت کی مکمل سہولت موجود ہے۔ عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے اردگرد سے بھی تجاوزات کا خاتمہ کر کے اس کے اطراف خوبصورت دیوار تعمیر کی گئی ہے۔جبکہ بحریہ ٹائون کے تعاون سے مزار کی تعمیر کا کام جاری ہے جس پر 50کروڑ روپے لاگت کا تخمینہ ہے۔پارک میں 1960ء سے تعمیر شدہ مچھلی گھر بھی واقع ہے جہاں مختلف اقسام کی سمندری مخلوق کو شیشے کے جاروں میں رکھا گیا ہے ۔
پارک کی تعمیر سے لے کر تاحال یہ مچھلی
گھر تزئین و آرائش نہ ہونے کے باعث بند تھا لیکن اب یہ فیصلہ ہواکہ اس مچھلی گھر
کو فوری تعمیر کیا جائے۔پارک دیکھتے ہی دیکھتے صحرا سے گلشن میں تبدیل ہوا۔ یہاں
روشنیوں کی چمک‘ لہلہاتے درخت‘ حد نظر بچھ اہوا قالین نما سبزہ‘ خوبصورت آہنی
دروازہ‘ بہترین واش روم‘ دیدہ زیب پاتھ‘ مہکتے پھول‘ چٹکتی کلیاں ہر آنے والے کو
خوش آمدید کہتی ہیں اور انسان اس باغ کو دیکھ کر بے ساختہ ’’سبحان اللہ‘‘ کہہ
اٹھتا ہے۔
باغ ابن قاسم میں بیک وقت 3لاکھ افراد
کو تفریح کی سہولتیں میسر ہیں۔ پارک کے چاروں جانب کار پارکنگ کی سہولت ہے۔ پارک کی
تعمیر کا غاز ہوا تو اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل پارکس اینڈ ہارٹی کلچر اس بات کا
اہتمام کیا کہ پارک کی تعمیر پر روز تصاویر اور ویڈیو بنائی جائے تاکہ تمام مراحل
کا ریکارڈز رکھا جا سکے۔ پارک کی تکمیل تک اس پارک کی 12ہزار تصاویر اور ویڈیو کیسٹ
بنائی گئیں۔ افتتاح کے موقع پر اس پارک سے متعلق دستاویزی فلم اور ایک خوبصورت اور
دلکش مجلّہ شائع کیا گیا۔
یہ پارک پورے پاکستان کے لوگوں کے لیے
سب سے بڑی تفریح گاہ ہے ۔ اس پارک کی بیرونی دیوار اس انداز سے تعمیر کی گئی ہے کہ
گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے بھی آپ پورے پارک کا نظارہ کر سکتے ہیں۔ یہ سمندر کی جانب
کراچی کا گیٹ وے ہے اور کراچی کے ساحل کی خوبصورت کو اجاگر کرنے میں انتہائی اہم
ہے ‘ اس باغ نے یقینا ساحل سمندر کے اس حصے کو چار چاند لگا دیے ہیں اور یہاں تفریح
کی غرض سے آنے والوں کو اب پہلے سے کہیں زیادہ لطف محسوس ہوتا ہے۔
پیر، 23 جنوری، 2023
کراچی کی تاریخی عمارتیں
کراچی کی تاریخی عمارتیں
بانی پاکستان کی جائے پیدائش وزیر مینشن کراچی کے قدیم علاقے کھارادر میں واقع ہے، وزیر مینشن وہ تاریخی عمارت ہے, جہاں پر برصغیر کے مسلمانوں کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرانے والے عظیم رہنما بابائے قوم محمد علی جناح نے 25 دسمبر 1876 کو آنکھ کھولی اور زندگی کے ابتدائی ایام یہاں گزارے۔وزیر مینش
بانی پاکستان کی جائے پیدائش وزیر مینشن کراچی کے قدیم علاقے کھارادر میں واقع ہے، عظیم رہنما کے یوم پیدائش کے موقع پر وزیر مینشن کو برقی قمقموں سے سجا دیا جاتا ہے۔ پیلے پتھروں اور لال جالیوں والی سادہ، پر وقار وزیر مینشن وہ تاریخی عمارت ہے, جہاں پر برصغیر کے مسلمانوں کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرانے والے عظیم رہنما بابائے قوم محمد علی جناح نے 25 دسمبر 1876 کو آنکھ کھولی اور زندگی کے ابتدائی ایام یہاں گزارے۔
تقریباً ڈیڑھ صدی پرانی تاریخ کی حامل اس عمارت کو مزید دلکش اس میں رکھی بابائے قوم کی استعمال شدہ اشیاء بنا دیتی ہیں۔ پورے پاکستان میں قائد کے زیر مطالعہ رہنے والی قانون کی کتابیں صرف وزیر مینشن میں ہی موجود ہیں۔ بابائے قوم کا بستر، کچھوے کی ہڈی سے بنا چشمہ، قیمتی کپڑے، جوتے، قلم اور دیگر اشیاء کے ساتھ قائد اعظم کی زوجہ رتی جناح کا فرنیچر بھی یہاں نفاست اور احتیاط سے رکھا گیا ہے۔
یم اے جناح روڈ پر واقع ڈینسو ہال انگریز حکومت کی لائبریری تھی، جسے 1886ء میں تعمیر کیا گیا۔یہ لائبریری کراچی بندرگاہ میں تعینات افسران کے لیے بنائی گئی تھی۔میری ویدر ٹاو
قیام پاکستان کی ابتداء میں کیماڑی کے پرانے پُل سے واپسی کے سفر میں جب آپ کراچی کی حدود میں داخل ہوتے تھے تو سب سے پہلے جو عمارت نظر آتی وہ میری ویدر ٹاور تھا۔یہ ٹاور سر ولیم لوکیر میری ویدر کی یاد میں تعمیر کیا گیا، جو کہ 1868سے 1877تک سندھ کے کمشنر رہے تھے۔یہ 1886میں سر ولیم کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے تعمیر کیا گیا، اس کی بلندی 102فٹ ہے، جب کہ رقبہ 44مربعہ فٹ پر مشتمل ہے، اس کے چاروں جانب گھڑیاں نصب ہیں، جب کہ ا س پر بنا ستارہ ڈیوڈ اسٹا ریا ستارہ داؤدی یہودی مذہب کی علامت ہے۔ کمشنر ولیم میری ویدر کا نام بھی کنندہ ہے ۔ اپنی تاریخی حیثیت کے باوجود
قیام پاکستان کی ابتداء میں سمندری سفر سے واپسی پر جب آپ کراچی کی حدود میں داخل ہوتے تھے تو سب سے پہلے جو عمارت نظر آتی وہ میری ویدر ٹاور تھا۔یہ ٹاور سر ولیم لوکیر میری ویدر کی یاد میں تعمیر کیا گیا، جو کہ 1868سے 1877تک سندھ کے کمشنر رہے تھے۔یہ 1886میں سر ولیم کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے تعمیر کیا گیا، اس کی بلندی 102فٹ ہے، جب کہ رقبہ 44مربعہ فٹ پر مشتمل ہے، اس کے چاروں جانب گھڑیاں نصب ہیں، جب کہ ا س پر بنا ستارہ ڈیوڈ اسٹا ریا ستارہ داؤدی یہودی مذہب کی علامت ہے۔ کمشنر ولیم میری ویدر کا نام بھی کنندہ ہے۔ اس ٹاور کی بناوٹ میں جودھپوری لال پتھر کا استعمال کیا گیا ہےکراچی میں ٹاور سے مراد کراچی کی اہم اور مرکزی شاہراہ ایم اے جناح روڈ اور آئی آئی چند ریگر روڈ سے متصل شاہراہ پر قائم میری ویدر ٹاور قیام پاکستان سے قبل تعمیر کیا گیا یہ ٹاور آج تک اپنی اسی حالت میں اہم یادگار کے طور پر موجود ہے۔ اسی وجہ سے اس علاقے کو ٹاور کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ٹاور کے علاقے کو تجارتی لحاظ سے بھی مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ اس کے اطراف میں آئی آئی چندریگر روڈ پر کئی تجارتی طرز کی اہم عمارتیں قائم ہیں، جن میںدفاتر اور بینک شامل ہیں۔ ٹاور کے قریب شہر کے مشہور کاروباری مراکز کراچی اسٹاک ایکسچینج کی عمارت بھی قائم ہے ٹاور کا علاقہ شہر کا مرکزی علاقہ کہلاتا ہے۔ جہاں روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں افراد کا یہاں سے گزر ہوتا ہے، مگر اس یادگار ٹاور کی اہمیت سے بہت ہی کم لوگ مانوس ہیں۔ اس کا اصل نام کہیں چھپ کر رہ گیا ہے۔ پری اور پیکر کی طرح ”میری اور ویدر“ کہیں غائب ہے عوام کے ذہنوں میں اگر کچھ رہ گیا ہے تو صرف ایک ہی نام یعنی ٹاور۔ اپنی تاریخی حیثیت کے باوجود یہ عمارت دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے خستگی کا شکار ہو رہی ہے
موہٹا پیلس" ایک ایسا محل ہے جو کراچی کے ساحلی علاقے کلفٹن میں واقع ہے یہ محل پاکستان کے قیام سے قبل "شیورام موہٹا" نامی ایک ہندو تاجر نے اپنے اور اپنے اہلخانہ کی رہائش کے لیے ساحل کے قریب 1927 میں سے تعمیر کروایا تھا۔"تقسیم ہند کے بعد موہٹا پیلس پاکستان کے حصے میں آگئیں بعد ازاں شہر کی مشہور عمارت ہونے کے باعث موہٹا پیلس کی عمارت کو بانی پاکستان قائداعظم کی بہن فاطمہ جناح کو رہائش کے لیے دیدیا گیا تھا، جسے بعد میں " قصر فاطمہ" کا نام بھی دیاگیا۔ فاطمہ جناح اپنے انتقال تک یہیں مقیم رہیں۔ ان کی رحلت کے کئی سالوں بعد اس عمارت کو حکومت سندھ نے اپنی تحویل میں لے لیا۔
ہفتہ، 21 جنوری، 2023
ہجرت کی شب مسہری
بلبل صحرا ریشماں اور منقبت علی مولا (ع)
فوک موسیقی کے حوالے سے پاکستان کی سرزمین بہت زرخیز ہے۔ اسی لئے یہاں سے شہرت حاصل کرنے والوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر دنیا بھر میں اپنے فن کا لوہا منوایا۔ ہمارے فوک سنگرز میں طفیل نیازی ،عالم لوہار، شوکت علی، عاشق جٹ، منصور ملنگی اور دیگر بے شمار ایسے فنکار موجود ہیں جنہوں نے فوک میوزک میں نام پیدا کیا۔
ایسا ہی ایک خوبصورت نام گلو کارہ ریشماں کا بھی ہے۔ ریشماں جنہیں بلبل صحرا کا اعزاز ملا۔ ا ن کی دلنواز گائیکی نے پاک و ہند کی دھرتی پر طویل عرصہ اپنی صحرائ گائیکی کے رنگ بکھیرے وہ جب کسی مقام پر گاتیں تو ایک سماں بندھ جاتا۔ سننے والے ریشماں کی صحرائی آواز میں کھو جاتے۔ ان کی آواز ہجر کا ایسا استعارہ ہے جس میں ڈار سے بچھڑنے والی ہرنی اور کونج کی درد بھری پکار کو بخوبی محسوس کیاجا سکتا ہے۔بیکا نیر کے ایک بنجارہ خاندان میں انتہائ پسماندہ خانہ بدوش گھرانے میں آنکھ کھولنے والی میں آنکھ کھولنے والی ریشماں کو معلوم نہیں تھا کہ ایک روز ہاتھ میں پکڑی ہوئ گڑوی کے ساتھ وہ کس طرح اوج ثرّیا پر جا پہنچیں گی
مئی 1947ء کو راجھستان کے شہر بیکا نیر میں ایک خانہ بدوش خاندان میں پیدا ہونے والی بچی کے والدین انتہائی غربت کے عالم میں تقسیم ہند کے فوری بعد پاکستان آ گئے اور یہاں نگری نگر ی گا کر اپنے پیٹ کا دوزخ بھرتے۔ ریشماں بچپن سے اپنی آواز گڑوی کے ساتھ ملانے لگی۔ وہ گڑوی کی آواز کی لے ملاتے ہوئے مدھر سُروں میں کھو جاتی تھی۔ اس کی آواز میں صحرائی اور دیہی ماحول کی عکاسی نمایاں نظر آتی تھی۔ وہ سادہ لباس اور سادہ زندگی گزارتی ۔ صوفیا ئے کرام اور بزرگان دین سے عقیدت اس کی آواز اور خون میں رچی بسی ہوئی تھی۔
-ہوا یوں کہ ریشماں کے بھائ کی شادی میں یکے بعد دیگرے رکاوٹوں کا سامنا تھا ایک اچھّی بہن ہونے کے ناطے ریشماں نے منّت مانی کہ اس کے بھائ کی اچھّی سی شادی ہوجائے تو لعل شہباز قلندر کے مزار پر مولا علی کی منقبت گائے گی-دعا کی قبولیت کی گھڑی تھی بھائ کی شادی ہوگئ تب ریشماں نے پنجاب سے سندھ کا سفر منّت بڑھانے کے لئے کیا اورمزار مبا رک پہنچ کر بے منقبت گائ۔منقبت کی گائیکی میں نا جانے کیا ا ثر تھا مجمع بھی بے خودی کے عالم خاموش ہو کر محو سماعت ہو گیا ۔اس روز شائد آسمان پر پروردگار عالم نےر یشماں کی منقبت کو اس کا صلہ دینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔چنانچہ اسی دن اس دور کے نامور ریڈیو پروڈیوسر سلیم گیلانی بھی درگاہ پر آئے ہوئے تھے انہوں نے ریشماں کو
گاتے ہوئے سنا
اور منقبت کے ختم پر وہ ریشماں کے پاس آئے اور اپنا وزٹنگ کارڈ دیتے ہوئے کہا تھا کہ تم جب کبھی کراچی آئو تو میرے پاس چلی آنا۔ چنانچہ ریشماں کا خاندان جب شہر آیا تو وہ پوچھتے پچھاتے ریڈیو پاکستان کراچی پہنچ گئے ۔گیٹ پر جب ریشماں نے گیلانی صاحب کا کارڈ دکھایا تو اسے فوری طور پر خاندان سمیت اندر بلا لیا گیا۔ ریشماں کا کہنا تھا کہ صحرائوں کی خاک چھاننے والی ایک سادہ سی غریب لڑکی کو جب ریڈیو کے اسٹوڈیو میں لایا گیا اور اسے کہا گیا کہ بس تم گانا شروع کرو۔ اِدھر اُدھر مت دیکھنا۔ بس پھر میں گاتی چلی گئی۔
سلیم گیلانی نے اسے صوفیانہ کلام ریکارڈ کرانے کے حوالے سے جب کچھ کہا تو بقول ریشماں مجھے ان کی بات سمجھ آئی کچھ نہ آئی۔ بہر حال وہ مائیک کے سامنے گاتی چلی گئی۔ ریشماں نے اپنے ریڈیو آڈیشن کے بارے میں بتایا کہ ریڈیو پاکستان کراچی سے اس کی گائی دھمال کیا نشر ہوئی کہ اس نے میری زندگی ہی بدل دی۔ صحرا کی یہ بلبل اپنی پہلی ہی دھمال سے ہٹ ہو گئی۔ ایک اخبار نے سرورق پر جب ریشماں کا ٹائٹل چھاپا تو بقول ریشماں میں اپنی تصویر دیکھ کر حیران رہ گئی۔ پھر یہ خوف بھی ہوا کہ کہیں میری بنجارہ فیملی میری تصویر دیکھ کر مجھے مار ہی نہ دے۔ اس دور میں ہمارے خاندان میں تصویر بنوانا اور پھر اس کا چھپنا بہت ہی برا سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ ریشماں نے سٹال سے سارے میگزین خرید کر چھپا دیے۔
سٹال والے نے ریشماں کو پہچان لیا ۔مسکراتے ہوئے کہنے لگا کہ بی بی تمہاری تصویر پورے ملک نے دیکھ لی ہے۔ اب میگزین چھپانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، ریشماں میگرین چادر میں چھپا کر گھر لے گئی اور اکیلے میں گھنٹوں بیٹھی اپنی تصویر دیکھتی رہی۔ وہ پڑھی لکھی نہ تھی اس لئے وہ صرف تصویریں دیکھتی رہی ۔پھر بعد میں اس نے ایک پڑھے لکھے شخص سے جب اپنا انٹرویو سنا تو وہ بہت پریشان ہو گئی۔ اسے یقین نہ آیا کہ اس کے بارے میں اتنی تعریفیں اور باتیں لکھ دی گئی ہیں۔
ریشماں کے حوالے سے یہاں ایک اور بات بیان کرتے چلیں کہ انہیں تمام عمر اپنے تعلیم یافتہ نہ ہونے کا بہت غم رہا۔ ریشماں نے خود اپنے غم کا اظہار کرتے ہوئے ایک واقعہ سنایا کہ جب وہ پوری دنیا میں گائیکی کے حوالے سے بہت مشہور ہوئیں تو امریکہ کے صدر جانسن نے امریکہ آنے کی دعوت دی۔ پھر جب وہ امریکی ایئرپورٹ پر اپنے خاندان کے ہمراہ جہاز سے باہر آئیں تو امریکی صدر نے ہاؤآر یو۔پہلا جملہ یہ کہا کہ تو مجھے سمجھ نہ آیا اور میں بہت ہی شرمندہ ہوئی کہ اتنے بڑے ملک کے صدر کی عزت افزائی پر میں جواب میں ایک جملہ ادا نہ کر سکی۔ بہرحال میرے ہمراہ ایک ترجمان نے بتایا کہ صدر امریکہ آپ کا حال پوچھ رہے ہیں۔ ریشماں کا کہنا تھا اس واقعہ کے بعد میں نے پاکستان واپس آتے ہی اپنے بڑے بیٹے سانول کو فوری طور پر سکول میں داخل کرا دیا اور سوچا کہ میں اسے اتنا تعلیم یافتہ ضرور بنائوں گی کہ اسے کبھی ایسی شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
گزرتے وقت کے ساتھ اس کی طبیعت میں رکھ رکھائو اوربولنے کے آداب بھی آ گئے مگر اس کی طبیعت کی روایتی سادگی ہمیشہ قائم رہی۔ وہ کسی تصنع کے بغیر گفتگو کرتی اور ہر ایک پہ اعتبار کرتے ہوئے ہمیشہ سچ بولتی۔ گزرتے وقت کیساتھ ریڈیو سے گائے ہوئے اس کے نغمات جب سرحد پار فضائوں میں گونجے تو اسے وہاں بھی سرکاری سطح پر جانے کا موقع ملا۔ ریشماں کو دورہ ہندوستان کے موقع پر اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے اپنی کلائی پر بندھی ہوئی قیمتی گھڑی کا تحفہ دیتے ہوئے اسے بھارت میں رہنے اور تمام تر آسائشیں دینے کا وعدہ کیامگر ریشماں نے شکریے کے ساتھ ان کی آفرکو مسترد کر دیا البتہ جہاں وہ پیدا ہوئی اور پلی تھی اس نے اپنے گاؤںط کیلئے سڑکیں بنوانے اور صحت کے حوالے سے ضروری آسائشیں مہیا کرنے کا وعدہ اندرا گاندھی سے لیا جو فوری مان لیا گیا۔اور پھر حسب معمول قدرت خدا کےچھیاسٹھ برس کی عمر میں خدائے واحد کی بارگاہ میں چلی گئ۔
منگل، 17 جنوری، 2023
احمد فراز شاعری کے آسمان کا روشن ستارہ
مکمل نام: سید احمد شاہ علی
تخلص: مقبول، احمد فراز
تاریخِ پیدائش: 12 جنوری 1931
مقامِ پیدائش: کوہاٹ، برٹش انڈیا، موجودہ پاکستان
تاریخِ وفات: 22 اگست 2008
مقامِ وفات: اسلام آباد، پاکستان
آخری آرامگاہ: ایچ-ایٹ قبرستان، اسلام آباد، پاکستان
والد کا نام: آغا سید محمد شاہ
تعلیمی سفر: ایم اے اردو اور فارسی، پشاور یونیورسٹی، پشاور، پاکستان
شعری وابستگی: 1950 سے 2008
احمد فراز کا اصل نام سید احمد شاہ تھا اور وہ 12 جنوری 1931 کو پاکستان کے شہر کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید محمد شاہ بھی شاعر تھے۔ ایڈورڈ کالج پشاور میں طالب علمی کے دور میں ہی احمد فراز شعر و ادب کی دنیا سے مانوس ہو چکے تھے-۔ انھوں نے پشاور یونیورسٹی سے اردو اور فارسی میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں اور وہیں ان دونوں زبانوں کو کچھ عرصہ پڑھاتے رہے تاہم انھوں نے سکرپٹ رائٹر کے طور پر ریڈیو پاکستان میں بعد ازاں ملازمت اختیار کر لی۔
ازاں بعد شاعری کی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد وہ اردو شاعری کی تاریخ کے بڑے شعراء میں شامل تھے - عوام اور خواص دونوں میں مقبول، وہ برصغیر کے ان چند شاعروں میں سے ایک تھے جن کی شاعری کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ گایا بھی گیا۔ احمد فراز نے اردو شاعری اور ادب میں تقریباً ایک الگ سوچ اور فرقے کی سی حیثیت اختیار کی۔ انھیں کثرت سے عالمی مشاعروں میں دوسرے ممالک میں بلایا جاتا تھا۔ پہلے انہوں نے عشق مجاز کی دنیا میں قدم رکھّااور محبت، عشق، ہجر و وصال کی شاعری کہی لیکن رفتہ رفتہ ان کی شاعری میں ملکی حالات کی نسبت سے بغاوت اور انقلاب کی جھلک دکھائ دینے لگی اس طرح وہ انقلاب اور بغاوت کے شاعر بھی بن گئے -۔
ان کا خود کہنا تھا ہے کہ اردو زبان میں شاعری سے پہلے انہوں نے کچھ اورزبانواں میں شاعری کی لیکن اس شاعری وہ مانوس نہیں ہو سکے اور بالآخر جب اردو زبان کی شاعری شروع کی تب ان کے دل سے آواز یہی وہ میدان جہاں ان کو شاعر کرنی ہے اور پھر زمانے نے دیکھا کہ احمد فراز نے زردو شاعری کے میدان میں شہرت کی بلندی کے سنگھاسن پر بٹھا دیا جس پر وہ تا دم وفات بیٹھے ہوئے تھے- ان کی شاعری کی اس جہت نے ان کو کچھ لوگوں کی نظروں معتوب کیا لیکن مگر آخر کار ان کی شہرت اور مقبولیت غالب رہی۔ ان کو پاکستان اور بیرونِ ممالک کئی اعزازات سے نوازا گیا۔ 2004 میں ان کو حکومتِ پاکستان کی طرف سے اعلیٰ سول اعزاز ہلالِ امتیاز دیا گیا جو انھوں نے 2006 میں جنرل پرویز مشرف کی مارشل لاء حکومت سے اختلاف کرتے ہوئے واپس کر دیا
احمد فراز ماضی کے ایک پورے عہد میں نوجوانوں میں بے حد مقبول رہے۔ ان کے نظریات کی بناء پر انھیں اقتدار کے ایوانوں سے بھی ٹکراؤ کا سامنا رہا اور وہ جلا وطن بھی رہے۔ 1980 میں ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں انھوں نے جلا وطنی اختیار کی اور کینیڈا اور یورپ میں مقیم رہے۔ وہ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار بھٹو کے قریبی دوستوں میں شامل تھے۔ دورِ جلا وطنی میں لکھی گئی ان کی نظمیں “دیکھتے ہیں” اور “محاصرہ” کو شاہکار کی حیثیت حاصل ہے۔احمد فراز نے شاعری میں 13 کتابیں اپنے ادبی ورثہ میں چھوڑیں ہیں جو سب کی سب اردو دنیا میں مقبول عام ہیں۔ ان کی پہلی کتاب “تنہا تنہا” 1950 میں منظرِ عام پر آئی جس نے بھرپور قبولیت حاصل کی اور فراز کو شہرت ملنے لگی۔ ان کی دیگر کتابوں میں جاناں جاناں، درد آشوب، خوابِ گل پریشاں ہے، نایافت، شب خون، بے آواز گلی کوچوں میں، بودلک، غزل بہانہ کروں اور میرے خواب ریزہ ریزہ شامل ہیں۔ ان کا تمام کلام “کلیاتِ احمد فراز” کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے
احمد فراز مختلف حکومتی عہدوں پر بھی فائز رہے۔ وہ 1976 میں قائم ہونے والے ادارہ اکادمی ادبیات کے بانی ڈائریکٹر جنرل تھے اور بعد ازاں اس کے چیئرمین بھی رہے۔ آخری زمانے میں وہ نیشنل بک فاؤنڈیشن کے چیئرمین رہے۔ ان کے کلام کو بے شمار چھوٹے بڑے گلوکاروں نے گایا جن میں نور جہاں، غلام علی، مہدی حسن، رونا لیلیٰ اور جگجیت سنگھ وغیرہ بھی شامل ہیں۔ احمد فراز کے گیت اور غزلیں فلموں کی زینت بھی بنے۔احمد فراز کا انتقال 22 اگست 2008 کو اسلام آباد میں ہوا۔ اور اسلام آباد کی زمین میں خاک کی چادر اوڑھ کر ابدی نیند سو گئے
اتوار، 15 جنوری، 2023
عصر حاضر و قدیم میں ہندو قوم کا محّرم
عصر حاضر و قدیم میں ہندو قوم کا محّرم
عصر حاضر کے نامور صحافی جمناداس اختر عزاداری کے بیان میں حسینی برہمنوں میں عزاداری کی تاریخی روایات کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حسینی برہمنوں میں دت اور موہیال ذات سے تعلق رکھنے والے ہندو عقیدت مندوں کا تعلق زیادہ تر صوبہ پنجاب سے ہے۔ حسینی برہمنوں کے بزرگ راہیب نے نصرت امام میں اپنے بیٹوں کو قربان کر دیا تھا۔ راہیب کو سلطان کا خطاب بخشا گیا تھا۔ اسی مناسبت سے انہیں حسینی برہمن یا حسینی پنڈت بھی کہا جاتا ہے۔ وہ امام حسین علیہ السلام کے تقدس و احترام کے بڑے قائل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’میرا تعلق موہیالیوں کی دت ذات سے ہے اور ہمیں حسینی برہمن کہا جاتا ہے۔ عاشورہ کے روز ہم لوگ سوگ مناتے ہیں۔ کم از کم میرے خاندان میں اس دن کھانا نا پکایا جاتا ہے اور نا ہی کھایا جاتا ہے۔ ہم مغرب سے پہلے معمولی کھانے سے فاقہ شکنی کرتے ہیں
سری نگرکی امام بارگاہ میں حضرت امام حسین علیہ السلام کا موئے مبارک موجود ہے جو کابل سے لایا گیا تھا-منشی جوالہ پرشاد اخترکے حوالہ سے ''انوارسادات''میں ہندوحضرات کی عزاداری وتعزیہ داری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے:صوبہ اودھ میں امام حسین علیہ السّلام کی فوج کے سپہ سالاراورعلمبردارحضرت عباس علیہ السّلام کے نام کا پہلا علم اودھ کی سرزمین سے اٹھاجس کے اٹھانے کا سہرامغلیہ فوج کے ایک راجپوت سرداردھرم سنگھـ کے سرہے''۔
ہندو تعذیہ داری سے عقیدت اور محبّت رکھتے ہیں اور وہ لوگ تعزیہ کودیکھـ کرمودبانہ جھک جاتے ہیں۔ مجالس میں شریک ہوتے ہیں۔اور مجمع کی شکل میں جمع ہو کر ماتم کرتے ہیں امام باڑوں میں کوئی بھی شخص داخل ہونے سے قبل اپنے جوتے اتاردیتا ہے''۔
لکھنئوکا مشہور روضہ ''کاظمین'' ایک ایسے ہی ہندوعقیدت مند جگن ناتھـ اگروال نے اودھ سلطنت میں تعمیرکرایا تھا۔ اسی طرح راجہ جھائولال کا عزاخانہ جوآج بھی لکھنئوکے ٹھاکرگنج محلہ میں واقع ہے جسے نواب آصف الدولہ کے دور میں راجہ جھائولال نے تعمیرکرایا تھا۔سالارحریت وآزادی امام حسین سے ہندوئوں کی عقیدت کا اندازہ ان کے تعمیرکئے گئے تعزیہ خانوں اورعزاخانوں سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ ہندوحضرات نے شہدائے کربلا کی یاد میں بڑے بڑے عزاخانے بھی تعمیرکرائے۔لکھنو کے مشہور عزاخانے-
لکھنؤ کی عزاداری ایک رسم ہے جس میں شہید کربلا حسین بن علی کی شہادت اور سنہ 680ء میں پیش آنے والے واقعہ کربلا کی یاد میں ماتم کیا جاتا ہے اور ان کی یاد منائی جاتی ہے۔رسم عزاداری خاص طور محرم کے مہینے میں ادا کی جاتی ہے۔ برصغیر میں شہدائے کربلا کی عزاداری ایک قدیم رسم ہے۔ قرائن اشارہ کرتے ہیں کہ عزاداری حضرت امام حسین ؑ منانے کا سلسلہ ملتان میں شروع ہوا جب وہاں تیسری صدی ہجری کے اوائل میں قرامطہ اسماعیلیوں کی حکومت قائم ہوئی اور یہاں مصر کے فاطمی خلفاء کا خطبہ پڑھا جانے لگا۔ ابن تعزی کے مطابق مصر اور شام میں فاطمیوں کی حکومت کے قیام کے بعد 366ہجری قمری/978ء عیسوی میں عزاداری سید الشہداء برپا پونا شروع ہوئی ۔محمود غزنوی کے حملے کے نتیجے میں ملتان میں اسماعیلی حکومت کے خاتمے اور اسماعیلی پیشواؤں کے صوفیا کی شکل اختیار کر لینے کے بعد صوفیا کی درگاہوں اور سنی بادشاہوں کے قلعوں پر عشرہ محرم کے دوران میں عزاداری تذکرہ کے نام سے برپا کی جاتی رہی ہے۔ جنوبی ہندوستان میں یہ روایت دکن کی شیعہ ریاستوں میں زیادہ منظم رہی اور برصغیر کا پہلا عاشور خانہ (آج کل کی اصطلاح میں امام بارگاہ) بھی وہیں قائم ہوا - مغلیہ دور کے سیکولر طرز حکومت میں محرم کی عزاداری کا بہت سے سیاحوں نے اپنے سفرناموں میں ذکر کیا ہے:
امام حسین نے ہندوستان میں متعدد گروہوں کے جذبات اور حسیات کو متحرک کیا۔نانپارا کے سنی راجا نے اپنی صوبائی نشست پہ شیعہ علما کو رکھا ہوا تھا تاکہ وہ اس کو مصائب کربلا سنائیں[5]۔ الہ آباد میں، سنّی 220 میں سے 122 تعزیے اٹھایا کرتے تھے[6]۔ دیہی مسلمان محرم کی رسومات میں اتنی بڑی تعداد میں شرکت کرتے تھے اور یہ رسومات بغیر فرقے کی تمیز کے ہوا کرتی تھیں[7]۔ شہری اور دیہی علاقوں میں، اکثر ہندؤ امام حسین کو بہت عزت و احترام دیتے تھے اور انہوں نے ان سے جڑی رسوم اور ایام کو اپنی رسومات میں خاص تقدیس کے ساتھ شامل کر لیا [8]۔ ڈبلیو ایچ سلیمن نے وسطی اور جنوبی ہندوستان کے ہندؤ شہزادوں اور یہاں تک کہ برہمن زات کے پنڈتوں کو محرم مناتے پایا۔ گوالیار ایک ہندؤ ریاست میں محرم عظیم
امام حسین نے ہندوستان میں متعدد گروہوں کے جذبات اور حسیات کو متحرک کیا۔نانپارا کے سنی راجا نے اپنی صوبائی نشست پہ شیعہ علما کو رکھا ہوا تھا تاکہ وہ اس کو مصائب کربلا سنائیں۔ الہ آباد میں، سنّی 220 میں سے 122 تعزیے خود اٹھاتے
عصر حاضر کے نامور صحافی جمناداس اختر عزاداری کے بیان میں حسینی برہمنوں میں عزاداری کی تاریخی روایات کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حسینی برہمنوں میں دت اور موہیال ذات سے تعلق رکھنے والے ہندو عقیدت مندوں کا تعلق زیادہ تر صوبہ پنجاب سے ہے۔ حسینی برہمنوں کے بزرگ راہیب نے نصرت امام میں اپنے بیٹوں کو قربان کر دیا تھا۔ راہیب کو سلطان کا خطاب بخشا گیا تھا۔ اسی مناسبت سے انہیں حسینی برہمن یا حسینی پنڈت بھی کہا جاتا ہے۔ وہ امام حسین علیہ السلام کے تقدس و احترام کے بڑے قائل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’میرا تعلق موہیالیوں کی دت ذات سے ہے اور ہمیں حسینی برہمن کہا جاتا ہے۔ عاشورہ کے روز ہم لوگ سوگ مناتے ہیں۔ کم از کم میرے خاندان میں اس دن کھانا نا پکایا جاتا ہے اور نا ہی کھایا جاتا ہے۔ ہم مغرب سے پہلے معمولی کھانے سے فاقہ شکنی کرتے ہیں
سری نگرکی امام بارگاہ میں حضرت امام حسین علیہ السلام کا موئے مبارک موجود ہے جو کابل سے لایا گیا تھا-منشی جوالہ پرشاد اخترکے حوالہ سے ''انوارسادات''میں ہندوحضرات کی عزاداری وتعزیہ داری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے:صوبہ اودھ میں امام حسین علیہ السّلام کی فوج کے سپہ سالاراورعلمبردارحضرت عباس علیہ السّلام کے نام کا پہلا علم اودھ کی سرزمین سے اٹھاجس کے اٹھانے کا سہرامغلیہ فوج کے ایک راجپوت سرداردھرم سنگھـ کے سرہے''۔
ہندو تعذیہ داری سے عقیدت اور محبّت رکھتے ہیں اور وہ لوگ تعزیہ کودیکھـ کرمودبانہ جھک جاتے ہیں۔ مجالس میں شریک ہوتے ہیں۔اور مجمع کی شکل میں جمع ہو کر ماتم کرتے ہیں امام باڑوں میں کوئی بھی شخص داخل ہونے سے قبل اپنے جوتے اتاردیتا ہے''
لکھنئوکا مشہور روضہ ''کاظمین'' ایک ایسے ہی ہندوعقیدت مند جگن ناتھـ اگروال نے اودھ سلطنت میں تعمیرکرایا تھا۔ اسی طرح راجہ جھائولال کا عزاخانہ جوآج بھی لکھنئوکے ٹھاکرگنج محلہ میں واقع ہے جسے نواب آصف الدولہ کے دور میں راجہ جھائولال نے تعمیرکرایا تھا۔سالارحریت وآزادی امام حسین سے ہندوئوں کی عقیدت کا اندازہ ان کے تعمیرکئے گئے تعزیہ خانوں اورعزاخانوں سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ ہندوحضرات نے شہدائے کربلا کی یاد میں بڑے بڑے عزاخانے بھی تعمیرکرائے۔
لکھنؤ کی عزاداری ایک رسم ہے جس میں شہید کربلا حسین بن علی کی شہادت اور سنہ 680ء میں پیش آنے والے واقعہ کربلا کی یاد میں ماتم کیا جاتا ہے اور ان کی یاد منائی جاتی ہے۔[1] رسم عزاداری خاص طور محرم کے مہینے میں ادا کی جاتی ہے۔ برصغیر میں شہدائے کربلا کی عزاداری ایک قدیم رسم ہے۔ قرائن اشارہ کرتے ہیں کہ عزاداری حضرت امام حسین ؑ منانے کا سلسلہ ملتان میں شروع ہوا جب وہاں تیسری صدی ہجری کے اوائل میں قرامطہ اسماعیلیوں کی حکومت قائم ہوئی اور یہاں مصر کے فاطمی خلفاء کا خطبہ پڑھا جانے لگا۔ ابن تعزی کے مطابق مصر اور شام میں فاطمیوں کی حکومت کے قیام کے بعد 366ہجری قمری/978ء عیسوی میں عزاداری سید الشہداء برپا پونا شروع ہوئی[2]۔ محمود غزنوی کے حملے کے نتیجے میں ملتان میں اسماعیلی حکومت کے خاتمے اور اسماعیلی پیشواؤں کے صوفیا کی شکل اختیار کر لینے کے بعد صوفیا کی درگاہوں اور سنی بادشاہوں کے قلعوں پر عشرہ محرم کے دوران میں عزاداری تذکر کے نام سے برپا کی جاتی رہی ہے۔ جنوبی ہندوستان میں یہ روایت دکن کی شیعہ ریاستوں میں زیادہ منظم رہی اور برصغیر کا پہلا عاشور خانہ (آج کل کی اصطلاح میں امام بارگاہ) بھی وہیں قائم ہوا - مغلیہ دور کے سیکولر طرز حکومت میں محرم کی عزاداری کا بہت سے سیاحوں نے اپنے سفرناموں میں ذکر کیا ہے۔ محمد بلخی، جو یکم محرم 1035 ھجری/3 اکتوبر 1625ء کو لاہور پہنچا، لکھتا ہے:۔
"سارا شہر محرم منارہا تھا اور دسویں محرم کو تعزیے نکالے گئے، تمام دکانیں بند تھیں۔ اتنا رش تھا کہ بھگڈر مچنے سے تقریباً 50 شیعہ اور 25 ہندؤ اپنی جان گنوابیٹھے"[3]۔
کچھ ایسا ہی منظر1620ء کے عشرے میں ڈچ تاجر پیلے سارٹ نے آگرہ میں دیکھا:۔
"محرم کے دوران میں شیعہ فرقے کے لوگ ماتم کرتے ہیں- ان دنوں میں مرد اپنی بیویوں سے دور رہتے ہیں اور دن میں فاقے کرتے ہیں۔ عورتیں مرثیے پڑھتی ہیں اور اپنے غم کا اظہار کرتی ہیں۔ ماتم کے لیے تعزیے بنائے جاتے ہیں کہ جنھیں خوب سجا کر شہر کی سڑکوں پر گھمایا جاتا ہے۔ جلوس کے وقت کافی شور و غوغا ہوتا ہے۔ آخری تقریبات شام غریباں کو ہوتی ہیں۔ اس وقت ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے خدا نے پورے ملک کو غم و اندوہ میں ڈبو دیا ہے"
امام حسین نے ہندوستان میں متعدد گروہوں کے جذبات اور حسیات کو متحرک کیا۔نانپارا کے سنی راجا نے اپنی صوبائی نشست پہ شیعہ علما کو رکھا ہوا تھا تاکہ وہ اس کو مصائب کربلا سنائیں[5]۔ الہ آباد میں، سنّی 220 میں سے 122 تعزیے اٹھایا کرتے تھے[6]۔ دیہی مسلمان محرم کی رسومات میں اتنی بڑی تعداد میں شرکت کرتے تھے اور یہ رسومات بغیر فرقے کی تمیز کے ہوا کرتی تھیں[7]۔ شہری اور دیہی علاقوں میں، اکثر ہندؤ امام حسین کو بہت عزت و احترام دیتے تھے اور انہوں نے ان سے جڑی رسوم اور ایام کو اپنی رسومات میں خاص تقدیس کے ساتھ شامل کر لیا [8]۔ ڈبلیو ایچ سلیمن نے وسطی اور جنوبی ہندوستان کے ہندؤ شہزادوں اور یہاں تک کہ برہمن جات کے پنڈتوں کو محرم مناتے پایا۔ پہ شیعہ علما کو رکھا ہوا تھا تاکہ وہ اس کو مصائب کربلا سنائیں[5]۔ الہ آباد میں، سنّی 220 میں سے 122 تعزیے
نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے
میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر
`شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...
حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر
-
میرا تعارف نحمدہ ونصلّٰی علٰی رسولہ الکریم ،واٰ لہ الطّیبین الطاہرین جائے پیدائش ،جنوبی ہندوستان عمر عزیز پاکستان جتنی پاکستان کی ...
-
نام تو اس کا لینارڈ تھا لیکن اسلام قبول کر لینے کے بعد فاروق احمد لینارڈ انگلستانی ہو گیا-یہ سچی کہانی ایک ایسے انگریز بچّے لی...
-
مارچ 2025/24ء پاکستان افغانستان سرحد پر طورخم کے مقام پر ایک بار پھر اس وقت آگے بڑھنے پر جب پچاس سے زیادہ افغان بچوں کو غیر قانونی طور پ...