حضرت نوح علیہ السلام ایک روزاپنی نالائق بیوی کے پاس پہنچے جو اس وقت تندور پر روٹیاں پکا رہی تھی اور اس کو ایمان لانے کی ترغیب دینے لگے ان کی بیوی نے کہا ہر وقت کہتے رہتے ہو سیلاب آئے گا سیلاب آئے گا یہ تو بتا و کہ اتنا پانی کہاں سے آ ئے گا اس وقت حضرت نوح علیہ السلام ن اس کے تندور کی جانب اشارہ کر کے کہا یہاں سے آئے گا اور پھر جلد ہی اسی بیوی کے تندور سے سیلاب کی ابتدا ء ہو گئی تھی،
جو 6 ماہ 8 دن تک پانی پر تیرتی رہی اور 10 محرم الحرام کو جودی پہاڑ پر ٹھہری اور پھر آپؑ اپنی قوم کے ساتھ نیچے اترے۔
مسلم محققین کے مطابق کشتی کے رکنے کا مقام ‘جودی پہاڑتھ، اس کشتی کی تین منزلیں ہیں جو کئی میٹر برف کے نیچے دبی رہی۔مورخین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب پانی کم ہوا تو حضرتِ نوح نے خسران شہر آباد فرمایا اور مسجد تعمیر کی جسے ’سمانین‘ کے نام سے جانا جاتا ہے،
واضح رہے کہ حضرتِ نوح کا مزارِ مبارک لبنان میں واقع ہے حضرت نوح علیہ السلام کی قوم پر آیا، جس میں حضرت نوح علیہ السلام نے ایک کشتی بنوا کر صالح انسانوں اور جانوروں کو سوار کیا۔ اس طوفان میں زمین مسلسل پانی اگلتی رہی اور آسمان مسلسل بارش برساتا رہا۔ روایات اور سائنسی شواہد کی رو سے یہ طوفان بنیادی طور پر عراق کے علاقے مابین النھرین (میسوپوٹیمیا) میں آیا تھا۔ اس کا ذکر تورات، انجیل اور قرآن تینوں میں آتا ہے۔
کشتی نوح علیہ السلام جس میں حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے خاندان سمیت طوفان سے پناہ لی تھی۔ مختلف مذہبی روایات اور قرآن حکیم (29 : 14) کے مطابق جب آپ کی عمر ساڑھے نو سو برس کی ہو گئی ۔
اور آپ کی امت نا فرمانیاں کر کے عذاب کی مستحق ٹھہری تو اللہ نے آپ کو اپنے ارادے سے آگاہ کیا کہ میں دنیا کو طوفان سے تباہ کرنا چاہتا ہوں اور انھیں یہ حکم دیا کہ اپنے خاندان اور مویشیوں کو بچانے کی خاطر ایک کشتی تعمیر کر لیں۔ اس پر آبادی سے بہت دور آپ تشریف لے گئے۔ تختے اور میخیں فراہم کیں اور کشتی بنانے لگے۔ ۔ آخر ایک روز اللہ کے حکم سے التنور کے مقام سے پانی ابلنا شروع ہوا اور اور بہت جلد روئے زمین پر پھیل گیا۔ نوح اور ان کے گھر والے اللہ کا نام لے کر کشتی میں بیٹھ گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے تمام قوم تباہ ہو گئی۔ سوائے کشتی والوں کے کہ انھوں نے نسل انسانی کا دوبارہ آغاز کرنا تھا۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے کہ نوح کو حکم ملا۔ ”ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری وحی کے مطابق کشتی بنا۔ اور ان کے بارے میں مجھے کچھ نہ کہہ جو ظالم ہیں غرق کیے جائیں گے ۔ اور وہ کشتی بنانے لگا) (سورة ہود: 37)
بائبل میں اس کشتی کو "آرک“ کہا گیا۔
ڈاکٹر ملکی لکھتے ہیں کہ اس کشتی کی تیاری میں ایک سو برس صرف ہوئے تھے۔ کشتی کا طول 300 ہاتھ, عرض 50 ہاتھ اور اونچائی 30 ہاتھ تھی۔ اور اگر ایک ہاتھ کی لمبائی 22 انچ مانی جائے تو یہ کشتی 547 فٹ لمبی 91 فٹ چوڑی اور 47 فٹ اونچی تھی۔ اس کشتی میں حضرت نوح علیہ السّلام اور ان کا خاندان سوار ہوئے حیوانات بھی جمع کیے گئے تھے۔ اس کے بعد طوفان شروع ہوا اور آن واحد میں تمام علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، حتی کہ پہاڑیاں بھی پانی میں چھپ گئیں۔ یہ طوفان چالیس دن تک برابر جاری رہا۔ کئی ماہ تک کشتی سمندر میں بہتی رہی اور آخر سات ماہ بعد کوہ ارارات سے جالگی۔ قرآن مجید میں کوہ جودی درج ہے۔ (ہود: 44) مفسرین کے مطابق شام میں جودی نام کا جزیرہ واقع ہے۔ جہاں یہ پہاڑموجود ہیں۔ اکثر علما نے کوہ جودی ہی کو ارارات کہا ہےقدیم سمیری داستانوں میں جو ان کی مٹی کی تختیوں پر رقم کی گئی تھیں، جلج موس کا اور اس کے طوفان کا ذکر ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ کشتی کی چھ منزلیں اور سات درجے تھے۔ اور ہر منزل کے نوحصے اور یہ کشتی کوہ نصر پر جالگی۔
کسدی روایات میں ہے کہ ہیسدار جو اکیلا طوفان سے بچ گیا بیان کرتا ہے کہ ہیاد یوتا مجھے دکھائی دیا۔ اس نے مجھے خبر دی ۔ بنی آدم کو اس کے گناہوں کے سبب تباہ برباد کرنے کی۔ سو تو اتنی لمبی کشتی بنا۔ اپنا اناج اسباب دولت اور باندیاں حیوانات بھی اس میں جمع کر لے اس کا دروازہ میں خور بند کر دوں گا۔
قدیم مصریوں کے نزدیک نوح کی کشتی کا نام ”گل“ تھا جو لکڑی کا ایک بہت بڑا تیرتا ہوا مکان تھا۔ ایک صندوق اس کی حفاظت کے لیے مہیا کیا گیا تھا اور وہ جس وقت اس میں داخل ہو رہے تھے تو تمام جانور چرند پرند بھاگتے ہوئے آئے اور اس میں داخل ہو گئے اور جب طوفان تھم گیا تو کشتی پار ناسس کی چوٹی سے جالگی۔
قدیم پاک و ہند میں ہنود روایات ملتی ہیں۔ مہا بھارت میں طوفان کے ہیرو رشی منو کا ذکر ہے۔ ایک مچھلی نے اسے طوفان سے آگاہی دی۔ اور کشتی بنانے کو کہا۔ طوفان کے بعد کشتی عمارت کی چوٹی سے جا لگی۔ تب منو کو پتہ چلا کہ مچھلی کے روپ میں برہما اس سے مخاطب تھا۔
ایرانی روایات میں بھی ایک طوفان اور ایک جہاز کا ذکر ہے۔ ہر میس کو زیوس دیوتا نے خوفناک بارش کی اطلاع دی تب زیوس نے اپنے ایک بوڑھے شخص کو شاہ بلوط کی لکڑی سے ایک جہاز تیار کرنے اور اس میں وافر مقدار میں اشیائے خوردنی جمع کرنے کا حکم دیا۔ جب اس مرد ضعیف نے اور اس کی بیوی پیرو نے جہاز میں داخل ہو کر دروازہ بند کر لیا تو زیوس نے طوفان برپا کر دیا۔ چالیس رات مینہ برسا۔ آخرکشی پر ناک کی چوٹیوں سے آن گئی۔
امریکی قبائل نہوا میں بھی بابلی، سیری داستانوں سے ملتی جلتی داستانیں موجود ہیں۔ ان کے دیوتا ططلان نے نتا نامی ایک شخص کو صنوبر کا درخت کھوکھلا کر کے ایک کشتی بنانے کو کہا اور یہ کشتی آرک تھی۔ اس کے آکر رکنے کا محل وقوع ارارات زیادہ قرین قیاس ہے۔ کیونکہ سلسلہ کوہ ارارات کے مشرق کی طرف واقع پہاڑوں سے صاف پا چلتا ہے کہ کسی وقت یہ علاقہ پانی کے نیچے ڈوبا ہوا تھا۔
مشہور مورخ ابن خلدون کے خیال کے مطابق یہ طوفان عراق کے علاقوں میں آیا تھا اور اس کا پانی صرف عقب حلوان تک پہنچا تھا۔
آج بھی لوگ کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح سے کوہ ارارات پر چڑھ کر کشتی نوح کا پتا چلایا جائے۔ 1829ء میں جرمنی کے پروفیسر پٹ نے سب سے پہلے آراراط پر چڑھ کر دیکھا تو چوٹی کو گول چبوترے کی مانند پایا جو ٹھوس داگی برف سے دبا ہوا تھا۔ ایک ہوا باز کا کہنا ہے کہ اسے برف کے نیچے بہت دور ایک سیاہ دھبہ دکھائی دیا ہے اور شاید اس میں ”آرک" قوم نوح پر عذاب
جب سب لوگ کشتی میں بیٹھ گئے تو خدا کے حکم سے زمین کے سوتے پھوٹ پڑے اس کے ساتھ ہی موسلا دھار بارش شروع ہو گئی، زمین پر پانی بڑھنے لگا اور نوح علیہ السلام کی کشتی پانی میں تیرنے لگی، پانی بڑھا تو نوح علیہ السلام نے دیکھا کہ ان کا بیٹا پانی میں ڈوبنے لگا ہے آپ نے اسے آواز دی کہ اب بھی آجاؤ تاکہ خدا کے عذاب سے بچ سکو، مگر اس نے جواب دیا تم جاؤ، میں کسی پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر اپنی جان بچالوں گا۔
پانی تھا کہ تھمنے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔ دنیا کے نافرمان اور سرکش لوگ اس سیلاب میں فنا کی گھاٹ اتر گئے اور نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑی کی چوٹی پر جا کر ٹھہر گئی۔
اب خدا کے حکم سے سیلاب تھم گیا اور زمین نے سارا پانی اپنے اندر جذب کر لیا۔
اب خدا نے نوح علیہ السلام کو حکم دیا کہ کشتی سے اتر جاؤ، تجھ پر اور وہ لوگ جو تجھ پر ایمان لائے ہیں ان پر ہماری رحمتیں برکتیں نازل ہوں گی۔
چوں کہ اس طوفان میں دنیا کے تمام لوگ ہی فنا ہو گئے تھے، صرف چند لوگ ہی زندہ بچے تھے، اس لیے نوح علیہ السلام کو آدم ثانی بھی کہا جاتا ہے، ان ہی کی اولاد اس وقت دنیا میں آباد ہے۔
جودی کی پہاڑی بحیرہ مردار (بحر لوط) کے مغرب میں اسرائیل میں واقع ہے۔ آج کل بحر مردار کے اس علاقے میں سالانہ بارش 2 سے 4 انچ ہوتی ہے۔ لیکن یہ علاقہ دوسرے سمندروں کی سطح سے 1412 فٹ نیچے ہے۔ اگر آج بھی اس علاقے میں شدید ترین بارش ہو جائے تو پانی کے نکل بہنے کا کوئی راستہ نہیں ہے اور یہاں ایک عظیم الشان جھیل بن سکتی ہے۔۔ نوح علیہ السلام کی امت پر جس روز عذابِ طوفان نازل ہوا ہے پہلی رجب تھی، بارش بھی ہو رہی تھی اور زمین سے بھی پانی ابل رہا تھا۔ بحکم رب العٰلمین نوح علیہ السلام نے ایک کشتی تیار فرمائی اس کشتی پر آدمی سوار تھے ( آدم و نوح علیہم السلام)۔ نوح علیہ السلام نے اس کشتی پر آدم علیہ السلام کا تابوت رکھ لیا تھا اور اس کے ایک جانب مرد اور دوسری جانب عورتیں بیٹھی تھیں۔ پانی اس پہاڑ سے جو سب سے بلند تھا 3٠ ہاتھ اونچا ہوگیاتھا۔ دسویں محرم کو چھ (٦) ماہ کے بعد سفینہ مبارکہ جودی پہاڑ پر ٹہرا۔ سب لوگ پہاڑ سے اترے اور پہلا شہر جو بسایا اس کا ”سوق الثمانین” نام رکھا۔ یہ بستی جبل نہاوند کے قریب متصل ”موصل” شہر (عراق) میں واقع ہے۔ اس طوفان میں دو عمارتیں مثل گنبد ومنارہ باقی رہ گئی تھیں جنہیں کچھ نقصان نہ پہنچا۔ اس وقت روئے زمین پر سوائے ان (دو عمارتوں) کے اور عمارت نہ تھی۔ امیر امومنین علی کرم اللہ تعالٰیٰ وجہہ الکریم سے انہیں عمارتوں کی نسبت منقول ہے۔
”بنی الھرمان النسر فی سرطان”
یعنی دونوں عمارتیں اس وقت بنائی گئیں جب ”ستارہ نسر” نے ”برج سرطان” میں تحویل کی تھی، نسر دوستارے ہیں: ”نسر واقع” و ”نسر طائر” اور جب مطلق بولتے ہیں تو اس سے ”نسر واقع” مراد ہوتا ہے۔ ان کے دروازے پر ایک گدھ (نما) کی تصویر ہے اور اس کے پنجے میں گنگچہ (گرگٹ، کھنکھجورہ، بچھو) ہے جس سے تاریخ تعمیر کی طرف اشارہ ہے۔ مطلب یہ کہ جب ”نسر واقع برج سرطان میں آیا اس وقت یہ عمارت بنی جس کے حساب سے (12٦4٠) بارہ ہزار چھ سو چالیس سال ساڑے آٹھ مہینے ہوتے ہیں۔ ستارہ (نسر واقع) (64) چونسٹھ برس قمری (7) مہینے، (2٧)ستائیس دن میں ایک درجہ طے کرتا ہے اور اب (ستارہ نسر واقع) برج جدی کے سولہویں (16) درجہ میں ہے تو جب سے چھ (6) برج ساڑھے پندرہ درجے سے زائد طے کرگیا۔
آدم علیہ السلام کی تخلیق سے بھی (7770 سال) پونے چھ ہزار برس پہلے کے بنے ہوئے ہیں کہ ان کی (سیدنا آدم علیہ السلام) آفرینش کو (7000) سات ہزار برس سے کچھ زائد ہوئے لاجرم یہ قوم جن کی تعمیر ہے کہ پیدائش آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پہلے (٦٠٠٠٠)ساٹھ ہزار برس زمین پر رہ چکی ہے ”بنی الھرمان النسر فی سرطان”
یعنی دونوں عمارتیں اس وقت بنائی گئیں جب ”ستارہ نسر” نے ”برج سرطان” میں تحویل کی تھی، نسر دوستارے ہیں: ”نسر واقع” و ”نسر طائر” اور جب مطلق بولتے ہیں تو اس سے ”نسر واقع” مراد ہوتا ہے۔ ان کے دروازے پر ایک گدھ (نما) کی تصویر ہے اور اس کے پنجے میں گنگچہ (گرگٹ، کھنکھجورہ، بچھو) ہے جس سے تاریخ تعمیر کی طرف اشارہ ہے۔ مطلب یہ کہ جب ”نسر واقع برج سرطان میں آیا اس وقت یہ عمارت بنی جس کے حساب سے (12٦4٠) بارہ ہزار چھ سو چالیس سال ساڑے آٹھ مہینے ہوتے ہیں۔ ستارہ (نسر واقع) (64) چونسٹھ برس قمری (7) مہینے، (2٧)ستائیس دن میں ایک درجہ طے کرتا ہے اور اب (ستارہ نسر واقع) برج جدی کے سولہویں (16) درجہ میں ہے تو جب سے چھ (6) برج ساڑھے پندرہ درجے سے زائد
طے کرگیا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں