علامہ اقبال بارگاہِ جناب سید ہ سلام اللہ علیہا میں
اپنی عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہوئے چاہتے ہیں کہ مخدراتِ ملت اس عظیم ہستی کا محض زبانی اکرام و احترام کی حد تک ہی خود کو محدود نہ رکھیں۔ بلکہ
خاتونِ جنت کی اتباع و پیروی سے اس دنیا کو جنت کا نمونہ بنائیں اور ملت و
انسانیت کی تقدیر سنوارنے کااہم ترین کام بحسنِ خوبی انجام دیں۔ یہ اہم ترین کام جب ہی ہو گا جب مادرانِ ملت کی آغوش میں امام حسین علیہ السلام جیسے فرزند پروان چڑھیں گے۔ اس گھرانے میں محمد الرسول اللہ ص جیسے باپ ہیں، علی ع جیسے شوہر اور
حسنین ع جیسے فرزند ہیں۔ جیسی
بیٹی اور فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا جیسی ماں ہیں۔
یہ پورا کا پورا گھرانا بارگاہ خداوند کی جانب سےمقدس و مطہر ہے۔ لہٰذا بار بار
اس گھرکی چوکھٹ پر اپنی جبینِ نیاز جھکانے کو باعثِ افتخار سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہزاروں علماء، شعراء اور مفکرین نے اہلبیت علیہ السلام کی مدح سرائی کی ہے لیکن علامہ اقبال رحمۂ اللہ علیہ کو ان مدح سراحوں میں مخصوص امتیاز حاصل
ہے۔ جب جب علامہ اقبال اہلبیت کی بارگاہِ فیض بخش میں حاضر ہوئے ہیں۔ اُن کا تخلیقی شعور
اور عقیدت و احترام کاجذبہ عروج پر تھا۔ نتیجتاً مدحتِ اہلبیت علیہ السلام کے
حوالے سے اقبال کے یہاں مخصوص اندازِ بیان، پاکیزہ
فکر، اور افراط و تفریط
سے مبرا جذبۂ عشق پایا جاتا ہے۔محمد و آلِ محمد ص کی توصیف و تعریف میں انہوں نے قرآنی معیارات اور
تاریخی حقائق کوہمیشہ پیشِ نظر رکھا ہے۔ تعظیم و تکریم سے لبریز جذبات کے
باوجود
علامہ نے متوازن اصطلاحات اور شایانِ شان الفاظ کے ذریعے اپنی عقیدت کا
اظہار کیا ہے۔ ثبوت کے طور ان اشعار کو بھی پیش کیا جاسکتا ہے جو ’’رموز بےخودی‘‘ میں علامہ اقبال نے جناب زہراء کےشان میں کہے ہیں۔ رموز بےخودی
میں علامہ اقبال نے خواتینِ ملت کے لیے ایک بڑا حصہ وقف کیا ہے۔ان میں سے پہلا باب ’’درمعنی ایں کی بقائے نوع از امومت است و حفظ و احتر
امامومتِ اسلام است‘‘ دوسرا باب ’’درمعنی ایںکہ سیدۃ النساء فاطمۃ الزہراؑ اسوہ کاملہ ایست برائے نساءِ اسلام‘‘ تیسرا باب ’’خطاب بہ مخدراتِ اسلام‘‘ عنوان سے قائم کیا گیا ہے۔ ان تینوں ابواب کے مرتبط مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ
پہلا اور تیسرا باب اُس دوسرے باب کی جانب راجع ہیں جس میں جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے سیرت و کردار کے حوالے سےلطیف و عمیق نکتے بیان ہوئے ہیں۔ اس
باب کے آغاز میں علامہ اقبال نے نہایت ہی ادب واحترام کے ساتھ جناب سیدہ سے اپنی عقیدت کی وجہ بیان کی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان
کی فضیلتِ نسبی اور شرفِ نسبتی کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ اس باب کے آسان تجزیہ و
تحلیل کے لئے اس میں درج اشعار کو چند
عنوانات کے تحت تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
علا مہ اقبال رحمۂ اللہ فرماتے ہیں جناب زہراؑ کے حسب و نسب کی پاکیزگی اور
عظمت کیلئےاتنا کافی ہے کہ وہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی چہیتی بیٹی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ یہ نسبت محض قریبی رشتہ ہی
تک محدود نہیں ہے بلکہ
جناب سیدہ اپنے والدِ گرامی رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مشن میں ان کی بہترین معاون و مددگار ثابت ہوئیں۔ پدرانہ شفقت اپنی جگہ، رسول اللہ اپنی بیٹی کے تئیں جس عزت و تکریم اور انتہائی محبت و شفقت کا اظہار کیا کرتے تھے۔ اس کا
بنیادی محرک حضرت فاطمہ کی عظیم شخصیت اور اسلام کے تئیں ان کی لامثال
فداکاریاں تھیں۔ جناب فاطمہ نے کم سنی میں ہی اپنے عظیم المرتبت باپ کی اولوالعزمانہ شخصیت کو درک کیا تھا۔ آپ کارِ رسالت کی حساسیت اور سنگینی سے بخوبی واقف تھیں۔ فاطمہ سلام اللہ علہا جانتی
تھیں کہ ا کے پدربزرگوار پروردگار عالم کی جانب سے مبعوث بہ رسالت ہیں۔ اس الہٰی مسؤلیت کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کیلئے جو واحد راستہ ہے وہ فدا کاری کا
راستہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ فاطمہ نے اپنے بچپن کی تمام معصومانہ مشاغل کو تج دیا اور
اوائل عمری سے ہی اپنےگفتار و کردار کے ذریعے اپنی جلالت و بزرگی کا مظہر
بن گئیں۔آپ سلام اللہ علہا کا ہیولیٰ اور جسمانیپیکر طفلانہ خصائص سے مزّین تھا لیکن آپ کی معنویت
کا یہ عالم تھا کہ طفلگی میں ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے شانہ بشانہ
تمام مصائب و آلام کا مقابلہ کیا۔ کفارِقریش کی حشر سامانیوں کا اپنی آنکھوں سے
مشاہدہ کیا۔ اپنے شفیق والد کے تئیں مخالفینِ اسلام کی ایذا رسانیوں پر انتہائی صبر کیا۔ شعبِ ابی طالب کے تلخ ترین تین سال گرسنگی و تشنگی کے عالم میں گزارے۔ مگر حرفِ اف تک اپنی زبانِ مبارک جاری نہ کیا۔
جب کبھی محمدِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھکے ماندے گھر لوٹ آتے تو
حضرت فاطمہ علیہاالسلام اپنے ننھے منھے ہاتھوں سے وہی کام انجام دیتیں جو کام مادرِ رسول ص جناب آمنہ سلام للہ علیہا کے ہاتھوں انجام پاتا اگر وہ ان ایام میں بقیدِ حیات ہوتیں۔بارہا ایسا ہوتا رہاکہ پیغمبر گرامی رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم گرد آلود اور
مجروح حالت میں جب گھرتشریف لے آتے تو انکی یہ کم سن بیٹی زخموں پر مرہم لگاتی گرد و غبار کو صاف کرتیں جودشمنانِ پیغمبر ان پر وقتاً فوقتاً ڈال دیتے۔ اس
پر مستزاد یہ کہ نہایت ہی کم سن بیٹی اپنے پدرِ بزرگوار کو معصومانہ لہجے میں
کچھ یوں دلاسہ دیتی کہ جیسے فاطمہ سلام اللہ علیہاکے روپ میں بی بی آمنہ متکلم ہوں ۔ بالفاظِ دیگر کارِ آمنہ بدست فاطمہ انجام پایا تو رسولِ خدا نے اپنی لختِ جگر
فاطمہ کو ’’ام ابیھا‘‘ یعنی ’’اپنے باپ کی ماں‘‘ کے خطاب سے نوازا۔
اس کے علاوہ رسولِ رحمت دوعالم رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پیش
نظر وہ تمام قربانیاں بھی تھیں جو اسلام کی حفاظت کے لیے مستقبلِ قریب میں
حضرت زہراء سلام اللہ علہا بالواسطہ یا بلاواسطہ دینے والی تھی۔ درج ذیل شعر کو اسلام کی ابتدائی تاریخ کے پسِ منظر میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو باپ بیٹی کے مقدس رشتہ کے پشت پر ایک معنوی تمسک کا بھی کسی حد تک ادراک ہو سکتا ہے۔شاہ ولایت ع اور خاتون جنت سلام اللہ علہا کی ازدواجی زندگی ہر جہت سے رسولِ کریم ص کے اس قول کی عملی تائید
ہے کہ ’’اگر علی ع نہ ہوتے تو فاطمہ کا کوئی کفو نہ ہوتا‘‘۔ جس شان اور عنوان سے حضرت فاطمہ نے بحیثیتِ دخترِ رسول فقید المثال کردار پیش کیا اُسی شان
سے انہوں نے اپنے شوہر حضرت علی علیہ السلام کےساتھ ایک مثالی زوجہ کا رول
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں