دہ گلونہ نندارہ ''جشن نو روز''
کیا یہ شیعو ں کا تہوار ہے جبکہ ہمارے پشتون ہم وطن بالخصوص وزیرستان کے قبائل دہ گُلونہ نندارہ مناکر کاشتکاری کے نئے سال کا آغاز کرتے ہیں۔مجھے تو حیرت ہوئی جب میں نے سنا کہ شمالی ہندوستان کے ہندو پنڈت بھی نوروز کا جشن” نورش “کے نام پر مناتے ہیں۔ محقق اور وسطی ایشیا ئی تاریخ اور ثقافت کے ماہر سدھارتھ گارو جو خود بھی پنڈت ہیں نورش کو جنوبی ہندوستان کے دیگر ہندو مذہب کے پیروکاروں کا نہیں صرف پنڈتوں تک محدود ایک تہوار قرار دیتے ہیں۔نوروز بہاری اعتدالین کا دن ہے اور شمالی نصف کرہ میں بہار کے آغاز کی علامت ہے۔ یہ ایرانی تقویم کے پہلے مہینے فروردین کا پہلا دن ہوتا ہے۔ یہ عموماً 21 مارچ یا اس سے پچھلے یا اگلے دن منایا جاتا ہے۔ سورج کے خط استوا سماوی کو عبور کرنے اور دن اور رات برابر ہونے کے لمحے کو ہر سال شمار کیا جاتا ہے اور خاندان رسومات ادا کرنے کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں۔
سینٹرل ایشیائ ریاستوں میں کبھی آپ کا جانا ہو آپ دیکھیں گے وہاں مسلمانوں تہوار جیسے عیدبقرعید تو یہ اقوام ان دنوں کو ایک مقدّس فریضہ تو جانتے ہیں لیکن ان کے یہاں صحیھ معنوں مین اگر جشن ہوتا ہے تو نوروز کا ہوتا ہے - سینٹرل ایشیائ ریاستوں میں نوروزکیسے منایا جاتا ہے نوروز ایک جشن ہے جس کو مناکر وہ خوشی محسوس کرتے ہیں۔نوروز کا تہواراہل فارس کے شاندار ماضی سے جڑا ہے اس لئے پورے وسطی ایشیا ء کا مشترکہ ورثہ ہے۔ دنیا بھر میں پارسی برادری کے لوگ اس کو نوروز جمشیدکے طور پر مناکر سلطنت فارس کے ماضی کے افسانوی بادشاہ آذر جمشیدسے منسوب کرتے ہیں۔ یہ ایرانیوں کا قومی تہوار بھی ہے ، وسطی ایشیائی ریاستوں کے علاوہ افغانستان میں بھی نوروز کو جشن گل سرخ کے طور پر منا کر بہار کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
نوروز کا تہواراہل فارس کے شاندار ماضی سے جڑا ہے اس لئے پورے وسطی ایشیا ء کا مشترکہ ورثہ ہے۔ دنیا بھر میں پارسی برادری کے لوگ اس کو نوروز جمشیدکے طور پر مناکر سلطنت فارس کے ماضی کے افسانوی بادشاہ آذر جمشیدسے منسوب کرتے ہیں۔ یہ ایرانیوں کا قومی تہوار بھی ہے ، وسطی ایشیائی ریاستوں کے علاوہ افغانستان میں بھی نوروز کو جشن گل سرخ کے طور پر منا کر بہار کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ ہمارے پشتون بالخصوص وزیرستان کے قبائل دہ گلونہ نندارہ مناکر کاشتکاری کے نئے سال کا آغاز کرتے ہیں۔
مجھے تو حیرت ہوئی جب میں نے سنا کہ شمالی ہندوستان کے ہندو پنڈت بھی نوروز کا جشن” نورش “کے نام پر مناتے ہیں۔ محقق اور وسطی ایشیا ئی تاریخ اور ثقافت کے ماہر سدھارتھ گارو جو خود بھی پنڈت ہیں نورش کو جنوبی ہندوستان کے دیگر ہندو مذہب کے پیروکاروں کا نہیں صرف پنڈتوں تک محدود ایک تہوار قرار دیتے ہیں۔
وسطی ایشیا ء اور ایران میں نوروز کا جشن دو ہفتے تک منایا جاتا ہے۔ نوروز کے دن خاص پکوان پکتے ہیں جس میں سات”ش یا س” سے شروع ہونے والی ایشیا ء لازمی ہوتی ہیں مثلاً شیر(دودھ)، شہد، شیرنی، شراب ، سیب، سرکہ اور سبزہ شامل ہوتے ہیں۔ نوروز کے دن سے شروع ہونے والی تقریبات میں ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا اور رشتے داروں خصوصاً اپنی بہنوں اور بیٹیوں سے ملنا اور ان کو تحائف دینا انتہا ئی لازمی ہوتا ہے۔ سات کے عدد کو متبرک سمجھنے والے اہل فارس تیرہ کے عدد کو چونکہ منحوس سمجھتے ہیں اس لئے نوروز کے تیرویں دن گھر میں کوئی نہیں رہتا سب باہر دن گزارتے ہیں اور یوں سات بدی اور سات اچھائی کی طاقتوں پر یقین رکھنے والے دو ہفتوں تک سات قسم کے کھانوں سے لطف اندوز ہوکر پھر سے زندگی کے معمول کے ہل میں پورے سال کے لئے جوت جاتے ہیں۔
پہاڑی علاقوں میں لوگ سردیوں کا پورا موسم اپنے گھروں میں محدود رہ کر بہار کی آمد کا انتظار کرتے ہیں تاکہ وہ باہر نکل کر کھیتی باڑی کرسکیں اور بند گھروں کے اندر سردیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے جلائی جانے والی آگ کےدھویں سے ان کی جان چھٹے۔ ان علاقوں میں پائی جانے والی سخت سردی کا خاتمہ اور کھیتی باڑی کے موسم کی آمد لوگوں کے لئے شکر ادا کرنے کا موقع بھی ہوتا ہے جس کو نئے سال کے جشن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو جنوبی اور شمالی ہندوستان کے بھی اپنے ایسے تہوار ہیں جو کاشتکاری کے نئے سال کی آمد پر منائے جاتے ہیں ۔ بسنت اور بیساکھی بھی در حقیقت موسمی تہوار ہیں جو ہمارے ہاں بھی بہار کی آمد اور فصل کی کاشت کے جشن تھے مگر اب وہ تاویلات کی موت مار کر شجر ممنوع قرار دیے جا چکے ہیں۔
پاکستان کے شمال گلگت بلتستان اور چترال میں بھی نوروز کا تہوار بڑذوق و شوق سے منایا جاتا ہے۔ نوروز کو عورتوں کا تہوار بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس دن پورے گاؤں کی عورتیں ایک مرکزی مقام پر اکھٹی ہو جایا کرتی ہیں۔ اس دن اس سال کے دوران پیدا ہونے والے تمام بچوں کی ڈا ڈا (پچوں کو پیٹ پر اٹھانے ) اور بال کاٹنے کی رسم ادا کی جاتی ہے۔ اس دن عورتیں اپنے خاندان کی دیگر عورتوں اور سہیلیوں کے ساتھ مل کر گاتی اور رقص کرتی ہیں۔ جب چھوٹے تھے تو ہمیں بھی نوروز کی زنانی محفل میں جانے کی اجازت تھی اور جب عمر بڑھ گئی تو ہمیں بھگا دیا جانے لگا ۔
لوگوں نے جشن نوروز کو مذہبی تہوار بناکر خصوصاً شیعوں کے مختلف فرقوں کیساتھ جوڑ کر اس موسمی تہوار کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ اس تہوار کا آغاز اسلام سے قبل کا ہے اور جہاں جہاں یہ منایا جاتا ہے وہاں کے سبھی لوگ اہلیان تشیع کے کسی فرقے سے تعلق بھی نہیں رکھتے ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں