اتوار، 22 اگست، 2021

عید غدیرتکمیل دین کا یوم جاودانی

عید غدیرتکمیل دین کا یوم جاودانی اس عید کے شب و روز میں عبادت، جشن اور غریبوں کے ساتھ نیکی نیز خاندان میں آمد و رفت ہونے کے ساتھ مومنین اس عید پر اچھے کپڑے پہنتے اور زینت کرتے ہیں ۔ یہ عید صرف شیعوں سے مخصوص نہیں ہے۔ اگرچہ اس کی نسبت شیعہ خاص اہتمام رکھتے ہیں؛ مسلمانوں کے دیگر فرقے بھی عید غدیر میں شیعوں کے ساتھ شریک ہیں، غیر شیعہ علماء نے بھی اس روز کی فضیلت اور پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی طرف سے حضرت علی علیہ السلام کے مقام ولایت پر فائز ہونے کی وجہ سے عید قرار دینے کے سلسلہ میں گفتگو کی ہے؛ کیونکہ یہ دن حضرت علی علیہ السلام کے چاہنے والوں کے لئے خوشی و مسرت کا دن ھے چاہے آپ کو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کا بلا فصل خلیفہ مانتے ہوں یا چوتھا خلیفہ۔ بیرونی ”الآثار الباقیة “ میں روز غدیر کو ان دنوں میں شمار کرتے ہیں جس کو مسلمانوں نے عید قرار دیا ہے ۔ ابن طلحہ شافعی کہتے ھیں: ”حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے اپنے اشعار میں روز غدیر خم کا ذکر کیا ہے اور اس روز کو عید شمار کیا ہے، کیونکہ اس روز رسول اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے آپ کو اپنا جانشین منصوب کیا ”لفظ مولا کا جو معنی بھی رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے لئے ثابت کرنا ممکن ہو وہی حضرت علی علیہ السلام کے لئے بھی معین ہے، اور یہ ایک بلند مرتبہ، عظیم منزلت، بلند درجہ اور رفیع مقام ہے جو پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے حضرت علی علیہ السلام سے مخصوص کیا، لہٰذا اولیائے الٰھی کے نزدیک یہ دن عید اور مسرت کا روز قرار پایا ہے۔“ ثعالبی، شب غدیر کو امت اسلامیہ کے نزدیک مشھور راتوں میں شمار کرتے ہوئے کہتے ہیں: ”یہ وہ شب ہے جس کی کل میں پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے غدیر خم میں اونٹوں کے کجاؤں کے منبر پر ایک خطبہ دیا اور فرمایا: ”من کنت مولاہ فعلیّ مولاہ“، اور شیعوں نے اس شب کو محترم شمار کیا ہے اور وہ اس رات میں عبادت اور شب بیداری کرتے ہیں۔“ غدیر کے کچھ اہم پیغامات ۱۔ ہر پیغمبر کے بعد ایک ایسی معصوم شخصیت کا ہونا ضروری ہے جو ان کے راستہ کو آگے بڑھائے اور ان کے اغراض و مقاصد کو لوگوں تک پہنچائے، اور کم سے کم دین و شریعت کے ارکان اور مجموعہ کی پاسداری کرے، جیسا کہ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اپنے بعد کے لئے ان چیزوں کے لئے جانشین معنی کیا اور ہمارے زمانہ میں ایسی شخصیت حضرت امام مہدی علیہ السلام ہیں۔ ۲۔ انبیاء علیھم السلام کا جانشین خداوندعالم کی طرف سے منصوب ہونا چاہئے جن کا تعارف پیغمبر کے ذریعہ ہوتا ہے، جیسا کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اپنے بعد کے لئے اپنا جانشین معین کیا؛ کیونکہ مقام امامت ایک الٰھی منصب ہے اور ہے امام خداوندعالم کی طرف سے خاص یا عام طریقہ سے منصوب ہوتا ہے۔ ۳۔ غدیر کا ایک ہمیشگی پیغام یہ ہے کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے بعد اسلامی معاشرہ کا رہبر اور نمونہ حضرت علی علیہ السلام یا ان جیسے ائمہ معصومین میں سے ہو۔ یہ حضرات ہم پر ولایت اور حاکمیت رکھتے ہیں، لہٰذا ہمیں ان حضرات کی ولایت کو قبول کرتے ہوئے ان کی برکات سے فیضیاب ہونا چاہئے۔ ۴۔ واقعہ غدیر سے ایک پیغام یہ بھی ملتا ہے کہ انسان کو حق و حقیقت کے پھنچانے کے لئے ہمیشہ کوشش کرنا چاہئے اور حق بیان کرنے میں کوتاہی سے کام نہیں لینا چاہئے؛ کیونکہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اگرچہ یہ جانتے تھے کہ ان کی وفات کے بعد ان کے وصیت پر عمل نھیں کیا جائے گا، لیکن لوگوں پر حجت تمام کردی، اور کسی بھی موقع پر مخصوصاً حجة الوداع اور غدیر خم میں حق بیان کرنے میں کوتاہی نہیں کی ۔ ۵۔ روز قیامت تک باقی رہنے والا غدیر کا ایک پیغام اھل بیت علیھم السلام کی دینی مرجعیت ہے، اسی وجہ سے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے انہیں دنوں میں حدیث ”ثقلین“ کو بیان کیا اور مسلمانوں کو اپنے معصوم اھل بیت سے شریعت اور دینی احکام حاصل کرنے کی راہنمائی فرمائی۔ عید غدیر وہ مبارک اور سعد دن ہے جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حج سے واپسی پر غدیر خم میں حضرت علی علیہ السلام کو خدا کے حکم سے اپناخلیفہ و جانشین منصوب فرمایا اور اس دن خدانے دین کو مکمل اور نعمتوں کا اتمام کیا اس طرح رسول اکرم صلی اللہ وعلیہ وآلہ وسلم نے امت کو اپنے بعد کا راستہ دکھادیا ۔ 18 ذوالحجہ کا دن ہے جب رسول خدا صل اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہجرت کے دسویں سال ایک لاکھ بیس ہزار صحابہ کرام کے ساتھ حجۃ الوداع کے بعد واپس جاتے ہوئے غدیر خم کے مقام پر امیرالمومنین علی ابن ابی طالب کو اپنا جانشین مقرر فرمایا تھا۔ روایات کے مطابق نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم حجۃ الوداع سے فراغت کے بعد واپس تشریف لے جا رہے تھے تو غدیر خم کے مقام پر حکم خداوندی سے توقف فرمایا اور تمام ایک لاکھ بیس ہزار صحابہ سے خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے جناب علی ابن ابی طالب کی ولایت و جانشینی کا اعلان فرمایا۔ اہل تشیع کا ماننا ہے کہ اس دن محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی ابن ابی طالب کو اپنا جانشین بنایا۔اور ارشاد فرمایا من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں 10ھ کو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حج کا ارادہ فرمایا۔ تاریخ نویسوں کے مطابق 26 ذیقعدہ مطابق 22 فروری 633ء محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ سے چلے۔اتفاقا ان دنوں چیچک یا تاٗیفائیڈ کی وبا پھیلی ہوئی تھی اس وجہ سے بہت سے لوگ پیغمبر کے ساتھ حج کرنے نہ جاسکے ،اس کے باوجود لوگوں کی ایک بڑی جمعیت پیغمبر اکرم ﷺ کے ساتھ نکلی بعض تاریخی شواہد کے مطابق اس مقدس سفر میں جو لوگ آپ کے ساتھ روانہ ہوئے ان کی تعداد 90 ہزار سے کم نہ تھی اسی طرح دوسرے علاقوں سے جو لوگ مکہ پہنچے تھے وہ بھی ہزاروں میں تھے۔ جیسا کہ حضرت علی بھی یمن سے حاجیوں کا ایک بہت بڑا قافلہ لے کر مکہ میں داخل ہوئے۔ مناسک حج بجا لانے کے بعد محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خانہ خدا کو الوداع کہا اور ارض حرم سے رخصت ہو گئے۔ آنحضرت نے ہجرت کے زمانے سے رحلت تک اس حج کے علاوہ کوئی اور حج انجام نہ دیا تھا۔ اس حج کو ’’حجۃ الوداع‘‘،حجۃ الاسلام‘‘،حجۃ البلاغ‘‘،حجۃ الکمال‘‘اور حجۃ التمام ‘‘بھی کہا جاتا ہے۔ غدیر خم جمعرات 18 ذی الحجہ مطابق 21 مارچ نوروز کے دن یہ قافلہ جحفہ پہنچا۔ جحفہ مکہ سے 13 میل کے فاصلے پر ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں شام کے راستے سے حج کے لیے مکہ آنے والے لوگ احرام باندھتے ہیں اس کو میقات اہل شام (سوریہ) بھی کہتے ہیں اور مکہ سے واپسی پر مدینہ منورہ، مصر، شام اور عراق والوں کے راستے الگ ہو جاتے ہیں۔ اس کے قریب کوئی ڈیڑھ دو میل کی مسافت پر ایک تالاب ہے۔عربی میں تالاب کو غدیر کہتے ہیں۔ اسی پس منظر میں صدیوں سے مولائے کائنات کے منصب ولایت پر فائز ہونے کی خوشی میں یہ عید دنیا بھر میں منائی جاتی ہے. باب شہر علم امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام تقوی،دین داری،دین کی مطلق پابندی،غیر خدا اور غیر راہ حق کو نظر میں نہ لانے،راہ خدا میں کسی کی پرواہ نہ کرنے،علم،عقل،تدبیر،طاقت،اور عزم و ارادے کا مظہرتھے اور ایسی شخصیت کو غدیر کے دن اپنا جانشین معین کرنا تاریخ میں امت اسلامی کی رہبری کے معیار کو ظاہرکرتاہے. آج اشد ضرورت اس امر کی ہے کہ غدیر جیسے اہم واقعے کو مسلمانوں کے درمیان اختلافات اور ان کی کمزوری کا بہانہ نہیں بننا چاہیے میں اپنے لئے بندگی اور اسکے لئے ربوبیت کا اقرار کرتا هوں اوراپنے لئے اس کی ربوبیت کی گواھی دیتا هوں اسکے پیغام وحی کو پہنچانا چاہتا هوں کھیں ایسا نہ هوکہ کوتاھی کی شکل میں وہ عذاب نازل هوجائے جس کا دفع کرنے والا کوئی نہ هواگر چہ بڑی تدبیرسے کام لیا جائے اور اس کی دوستی خالص ھے۔اس خدائے وحدہ لا شریک نے مجھے بتایا کہ اگر میں نے اس پیغام کو نہ پہنچایا جو اس نے علی کے متعلق مجھ پرنازل فرمایاھے تو اسکی رسالت کی تبلیغ نھیں کی اور اس نے میرے لئے لوگوں کے شرسے حفاظت کی ضمانت لی ھے اور خدا ھمارے لئے کافی اور بہت زیادہ کرم کرنے والا ھے ۔ اس خدائے کریم نے یہ حکم دیا ھے جبرئیل تین بار میرے پاس خداوندِ سلام پروردگار(کہ وہ سلام ھے )کا یہ حکم لے کر نازل هوئے کہ میں اسی مقام پرٹھر کر سفیدوسیاہ کو یہ اطلاع دے دوں کہ علی بن ابی طالب میرے بھائی ،وصی،جانشین اور میرے بعد امام ھیں ان کی منزل میرے لئے ویسی ھی ھے جیسے موسیٰ کےلئے ھارون کی تھی ۔فرق صرف یہ ھے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ هوگا،وہ اللہ و رسول کے بعد تمھارے حاکم ھیں اور اس سلسلہ میں خدا نے اپنی کتاب میں مجھ پریہ آیت نازل کی ھے : ”بس تمھارا ولی الله ھے اوراسکارسول اوروہ صاحبان ایمان جونمازقائم کرتے ھیں اورحالت رکوع میںزکوٰةادا کرتے ھیں “علی بن ابی طالب نے نماز قائم کی ھے اور حالت رکوع میں زکوٰة دی ھے وہ ھر حال میں رضا ء الٰھی کے طلب میں اپنے لئے بندگی اور اسکے لئے ربوبیت کا اقرار کرتا هوں اوراپنے لئے اس کی ربوبیت کی گواھی دیتا هوں اسکے پیغام وحی کو پہنچانا چاہتا هوں کھیں ایسا نہ هوکہ کوتاھی کی شکل میں وہ عذاب نازل هوجائے جس کا دفع کرنے والا کوئی نہ هواگر چہ بڑی تدبیرسے کام لیا جائے اور اس کی دوستی خالص ھے۔اس خدائے وحدہ لا شریک نے مجھے بتایا کہ اگر میں نے اس پیغام کو نہ پہنچایا جو اس نے علی کے متعلق مجھ پرنازل فرمایاھے تو اسکی رسالت کی تبلیغ نھیں کی اور اس نے میرے لئے لوگوں کے شرسے حفاظت کی ضمانت لی ھے اور خدا ھمارے لئے کافی اور بہت زیادہ کرم کرنے والا ھے ۔ اس خدائے کریم نے یہ حکم دیا ھے۔ میں نے جبرئیل کے ذریعہ خدا سے یہ گذارش کی کہ مجھے اس وقت تمھارے سامنے اس پیغام کو پہنچانے سے معذور رکھا جائے اس لئے کہ میں متقین کی قلت اور منافقین کی کثرت ،فساد برپاکرنے والے ،ملامت کرنے والے اور اسلا م کا مذاق اڑانے والے منافقین کی مکاریوں سے با خبرهوں ،جن کے بارے میں خدا نے صاف کہہ دیا ھے کہ”یہ اپنی زبانوں سے وہ کہتے ھیں جو ان کے دل میں نھیں ھے ،اور یہ اسے معمولی بات سمجھتے ھیں حالانکہ پروردگارکے نزدیک یہ بہت بڑی بات ھے “۔اسی طرح منافقین نے بارھا مجھے اذیت پہنچائی ھے یھاں تک کہ وہ مجھے ”اُذُن'' ھر بات پرکان دھرنے والا“کہنے لگے اور ان کا خیال تھا کہ میں ایسا ھی هوں چونکہ اس (علی )کے ھمیشہ میرے ساتھ رہنے،اس کی طرف متوجہ رہنے،اور اس کے مجھے قبول کرنے کی وجہ سے یھاں تک کہ خداوند عالم نے اس سلسلہ میں آیت نازل کی ھے:

بدھ، 11 اگست، 2021

زرا زمین میں چل پھر کے تو دیکھو-القران

 

  تاریخ کی گم گشتہ قوم ''اصحاب الرّ س"

عربی زبان میں کنوئیں کو رس کہتے ہیں 'اس قوم کے پاس پانی  کی فراہمی کا کوئ زریعہ نہیں تھا اس لئے انہوں نے پہاڑوں سے نہرین نکال کر ان نہروں کو کنوؤں

 سے ملا کر بہترین آبپاشی کا نظام قائم   کیا تھا-لیکن اس قوم کے اجتماعی اعما ل و افعال بہت برے تھے –اور یہ ہم سب جانتے ہیں کہ

قومو ن کے اجتماعی اعمال و افکار ہی ہوتے ہیں جو ان کو زندہ یا مردہ بناتے جاتے ہیں دنیا کے افق سے مٹ جانے والی ایک قوم کا نام قران پاک کے مطابق

 اصحاب الرّس تھا ،یہ قوم بت پرست تھی اور درختو ں کی پوجا کرتی تھی اورصنوبر کا درخت ان کے لئے بے حد مقدّس تھا یہ وہ درخت تھا جسے حضرت نوح علیہ

 السّلام کے بیٹے یافث نے طوفان نوح علی السّلام کے تھم جانے کے بعد ایک بڑے آ بی زخیرے جس کا نام روشن آب تھااُسے لگایا تھا صنوبر کے درخت کویہ قوم

 تمام درختو ں کا بادشاہ کہتے تھے اور پھر اس قوم نے اسی آ بی زخیرے سے ایک نہر نکال کر اس کے کنارے بارہ شہر اباد کئے تھے جن کے نام ہیں

1۔ آبان2 ۔ازد3۔ رے4۔ بہمن5۔اسفند6۔ فروردین7،،،ارد بہشت

8،،،،خرداد9،،،تیر10،،،،مرداد11،،،شہریور12،،،مہر,,,,ان کے شہروں کے بار ہ ہی بادشاہ ہوتے تھے لیکن گیارہ

 بادشاہ بارھویں بادشاہ کے تابع کام کرتے تھے یہ ہر مہینے اپنے اپنے شہر وں میں عید مناتے تھے لیکن اسفند کے مہینے میں

 یہ اپنے سب سے بڑے اور مقدّس شہر اسفند جمع ہو کر بارہ دن کی عید مناتے یہ بہت ترقّی یافتہ قوم تھی ان کے شہر بہت خوبصورت تھے جو پتھّر سے تراش کر بنائے جاتے تھے ،ان کی ہر ہر عمارت پتّھر سے تراشیدہ ہوتی تھی

ان کے عید منانے کا طریقہ یہ تھا کہ یہ شہر سے باہر جاکر اپنے لگائے ہوئے صنوبر کے درختو ں کے پاس جا کر آ گ جلاتے اور پھرجانور قربان کر کے اسےآگ

 میں ڈال دیتے تھے جب جانور پوری طرح آگ میں جلنے لگتا تو یہ سجدے میں گر جاتے اور خوب رو رو کر درخت کی پو جا کرتے تھےاور سال میں جب ان کے

 شہر اسفند کی باری آتی تو وہدرختوں کو خوش کرنے کے لئے خوب خوب جانور زبح کرتے اور درختوں کے آگے سجدے کر تے ہوئے روتے رہتے تھے یہ شہر

 ان کے بادشاہوں کی تخت گاہ بھی مانا جاتا تھا-جب وہ کفر کی حدوں سے بھی تب اللہ تعالٰی نے ان کی فہمائش کے لئے بنی اسرائیل سے ایک نبی علیہ السّلام کو بھیجا وہ نبی اللہ کے آنے پر اور بھی زور آور ہو گئے ،

در اصل وہ اپنی عادتوں کے اس قدر خوگرہو گئے تھے کہ اس سے دست بردار ہونے کو تیّار ہی نہیں تھے چنا نچہ نبی اللہ نے ان کے درختوں کو بد دعا دی جس کے

 سبب سارے درخت سوکھ گئے اور وہ قوم کہنے لگی کہ نعو ذو باللہ )اس شخص نے ہمارے درختوں پر جادو کر دیا ہئے اور انہون نے نبی اللہ کو ایک گہرے کنوئیں

 میں ڈال کر بند کر دیا اور اس پر خود بیٹھ گئے ،نبی اللہ کنوئیں کے اندر سے آہ بکا کرتے رہے لیکن انہون نے ان کی فریاد نا سنی اور نبی اللہ بالآخر اللہ کو پیارے ہو

 گئے اس قوم کو اللہ تعا لٰی نے یہ سزا دی کہ ان کے پانی کے زخائر کو پانی بند کر دیا ظاہر ہے کہ دنیا کی ہر زندہ شئے پانی کی بنیاد پر اپنا وجود رکھتی ہے اس لئے جب

 ان کے پانی کے زخائر سوکھے تودرخت بھی سوکھ گئے اور وہ بھی ہلاک ہو گئے


منگل، 10 اگست، 2021

قطب شاہی والئ دکن اہل تشیع نہیں تھے

 

ہندوستان میں شیعت کی بات ہو گی تو قطب شا ہی خاندان کے حکمرانوں کو تزکرہ لازمی ہو گااا

قطب شاہی والئ دکن اہل تشیع نہیں تھے لیکن انہون نے اہل بیت کی تعلیمات کو اس طر ح اپنی زندگی میں سمو لیا تھا کہ وہ سراپا اہل تشیع ہی ہو گئے تھے ماہ محرّم

 کا آغازہوتے ہی ان کے محل میں تمام شاہی خواتین اور حضرات سیاہ ماتمی لباس سے آراستہ ہو جاتے تھے اور سوگ بڑھنے تک سیاہ لباس ہی زیب تن رکھتے تھے 

شہدائے کربلا سے ان کی عقیدت کا وہ عالم تھا کہ انہوں نے اپنی زندگیاں ہی ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر چلنے کے لئے وقف کر دی تھین صرف ماہ محرّم

 کے لئے وہ جو کچھ اہتمام کرتے تھے اس کی تفصیل لکھنے کے لئے تو ایک ضخیم کتاب بھی ناکافی ہو گی محرّم کا چاند نظر آنے سے لے کر بالخصوص عاشور کی شام

 غریباں تک قطب شاہ خود بھی مجالس سننے کے لئے حاضر ہوتے اور تمام اہل دربار کو بھی ساتھ لاتے تھے

سات محرّم سے جلوسوں کا سلسلہ شروع ہوتا تو ان جلوسوں میں بھی بنفس نفیس شریک ہوتے تھے اور صبح عاشور کے علم تعزیہ کے جلوس میں برہنہ پاء جلوس

 کے ہمراہ چلتے تھے اس جلوس میں شہدائے کربلا کے تبرّکات ہاتھی کی پشت پر ہودج مین سجا کر زیا رت عام کے لئے رکھے جاتے تھے یہ تبرّکات کربلا ء سے جو

 حضرت اپنے ہمراہ لائے تھے-حیدر آباد دکن میں ہاتھی پر نکلنے والا بی بی کا الاوہ علم

پرانے شہر کے دارالشفا میں واقع عاشور خانہ" سرطوق" کا شمار ایک تاریخی عاشور خانہ کے طور پر ہوتا ہے۔دکن کےپانچویں پشت کے  قطب شاہ نے اپنے

 دورحکمرانی میں یہ عاشور خانہ تعمیر کروایا گیا تھا-عاشورہ کے موقع پر شہر حیدرآباد میں سب سے اہم علؐم بی بی کا علؐم کہلاتا ہے، جو دختر رسول سیدہ فاطمۃ الزہرا سلا

 م اللہ عنہا کے نام سے موسوم ہے۔اور اسی عاشور خانہ میں امام زین العابدین علیہ السّلام کے طوق کا وہ ٹکڑا موجود ہے جوآپ علیہ السّلام کو طویل قید کے دوران

 پہنا کر قید کیا گیا تھا -اس عاشور خانہ کے قیام سے لے کر آج تک شہروالیء  حیدرآباد میں قائم قلی قطب شاہ کا یہ یادگارجلوس محرم الحرام کے موقع پر نہایت ہی

 عقیدت و احترام سےہاتھی کی پشت پرروز عاشورہ  اور مزید تبرّکات  کے ہمراہ رکھ کر جلوس کی شکل میں اپنے قدیم مقرّرہ راستوں پرپا پیادہ خاص و عام زیارت

 کروائ جاتی ہے ۔حیدرآباد میں بلا لحاظ مذہب و ملت عقیدت مند اپنے اپنے طریقے سے یوم عاشورہ کا اہتمام کرتے ہیں۔

۔یہ عاشور خانہ دواخانہ دارالشفاء کی عمارت میں تعمیر کیا گیا تھا جو اپنی تاریخی اہمیت کے باعث محکمہ آثار قدیمہ کی فہرست میں شامل تھا۔تاہم حکومت  کی جانب

 سے 2017 میں ترمیم کئے جانے کے بعد اسے فہرست سے خارج کردیا گیا جس سے شیعہ برادری میں غم و غصے کی لہر پائی جاتی ہے۔

محمد قلی قطب شاہ نے بصرف کثیر بادشاہی عاشور خانہ تعمیر کرائی۔ محمد قلی قطب شاہ اپنے نام کے ساتھ خادم اہل بیت (ع) کے الفاظ لکھنا لکھوانا پسند کرتا تھا۔

 قطب شاہی پیشوائے سلطنت میر مومن تھا جو ایام محرم میں شہدائے کربلا ع کے اسمائے گرامی پر علم استادہ کراتا تھا۔ غیر مومن مذہب جعفریہ کی ترویج کے

 لئے ہمہ وقت درمے‘ قدمے سخنے کوشاں رہتا تھا محمد قلی قطب شاہ‘ کا بھتیجا اور داماد سلطان بنا عزاداری کو اس کے عہد میں ترقی ہوئی

کلیات محمد قلی قطب شاہ مرتبہ ڈاکٹر سیدہ جعفر میں اس قصیدے کاعنوان ’عید میلادالنبی‘ دیا گیا ہے ۔ (ص 711) ۔ لیکن یہ قصیدہ بیک وقت نعت بھی ہے اور

 منقبت بھی‘ کیوں کہ اس کے زیادہ تر اشعار میں سرکارِ دوعالم ؐ کی مدح کے ساتھ حضرت علی کرم اللہ وجہ‘ کی مدح بھی ملتی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ محمد قلی

 قطب شاہ اثنائے عشری عقائد کا پیرو تھا ۔کلیات میں ’بعثت نبی صلی اللہ علیہ و سلم‘ کے عنوان سے ایک قصیدے کے صرف دو شعر درج کیے گئے ہیں اور نیچے نوٹ دیا گیا ہے کہ اس کے بعد کے صفحات موجود نہیں ہیں

سلطان محمد قلی قطب شاہ : (1580 – 1611) قطب شاہی سلطنت کے پانچویں سلطان تھے۔ ان کا دارالسلطنت گولکنڈہ تھا۔ انہوں نے حیدرآباد شہر کی تعمیر

 کرکے اسے اپنا دارالسلطنت بنایا۔ شہر حیدرآباد کو ایرانی شہر اصفہان سے متاثر ہوکر بنوایا گیا۔سلطان محمد قلی قطب شاہ، ابراہیم قلی قطب شاہ کے فرزند تھے۔

 انہوں نے شہر حیدر آباد، دکن کی تعمیر کی۔ ان کی  راجدھانی گولکنڈہ سے شہر حیدرآباد کو منتقل کیا۔ شہر حیدر آباد کی تعمیری ڈیزائن ایرانی آرکٹکٹس سے کروائ  گئی۔

شہر حیدرآباد کو حضرت امام علی علیہ السّلام  کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ اکثر لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ شہر حیدرآباد دلیروں کا شہر ہے۔محمد قلی قطب شاہ نے

 1591 ء میں شہر حیدرآباد کے درمیان چار مینار کی تعمیر کروائی۔حیدر آباد دکن میں سلطان محمد قلی قطب شاہ کی بنائی ہوئی تاریخی یادگار۔ اس کا سنگ بنیاد

 999ھ میں رکھا گیا۔ جس جگہ چار مینار واقع ہے وہاں کبھی موضع چچلم واقع تھا۔

محمد قلی قطب شاہ‘ عبد اللہ قطب شاہ‘ قطبی‘ احمد شریف‘ وجہی‘ غواصی‘ عابد‘ فائز‘ محب‘ لطیف‘ شاہی‘ گولکنڈہ والے مرثیہ گو شعرا تھے۔وہ  اچھے حکمرانوں کی

 اولاد تھےاور زمانے میں اپنے نیک نام جان نشینوں کو چھوڑ گئے جن کی نشانیاں حیدرآباد کے چپّے چپّے پر عظیم عمارتوں کی صورت موجو د ہیں  


پیر، 9 اگست، 2021

حضرت عبد المطّلب اور اُن کی منّت کی کہانی

 حضرت عبد المطّلب اور اُن کی منّت کی کہانی

حضرت عبد المطّلب اور اُن کی منّت کی کہانی کا آغاز کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ طوفان نوح علیہ السّلام میں آب زم زم کے معدوم ہو جانے والے کنوئیں کی بنیاد

 یں اپنے اکلوتے بارہ برس کے بیٹے جناب حارث کے ہمراہ محض قیاس کی بنیاد پرتمام'تمام دن زمین کھود کھود کر تلاش کرتے تھے اس وقت ان کا ایک پڑوسی

 ان پر طعنہ زنی کرتا ہوا گزرتا تھا اور کہتا تھا عبد المطّلب چھوڑو 'رہنے دو بھلا اپنے اکلوتے بیٹے کے ساتھ یہ مشکل کام کیسے کر سکتے ہو'دراصل اس شخص کے بہت

 سے بیٹے تھے ایک دن حضرت عبدا لمطّلب اس کی طعنہ زنی سے اتنے بیزار ہوئے کہ انہوں نے منّت مانی کہ اللہ مجھے کثرت سے  بیٹے دے تو اپنا ایک بیٹا قربان کروں گا

اللہ بڑی شان والا ہے دکھی دل کی فریاد ضرور سن لیتا ہے اور اس نے کثرت سے بیٹے دے دئے لیکن بشری فطرت کے عین مطابق حضرت عبالمطّلب اپنی مانی

 ہوئ منّت بھول گئے یہاں تک کہ سب بیٹے جوان ہو گئے،تب ایک رات جناب عبد المطّلب کو بشارت ہوئ کہ انہوں نے منّت مانی تھی لیکن منّت یاد نہیں

 آئ کہ کیا مانی تھی پھر انہوں نے اپنا قاصد کاہنہ کے پاس بھیجا کہ منّت یاد نہیں آ رہی ہے کہ کیا مانی تھی'کاہنہ نے کہلوایا کہ سوتے وقت ایک اونٹ صدقہ کر

 کے سوئیں تب معلوم ہو گا کہ منّت کیا تھی

 حضرت عبد المطّلب نے اونٹ صدقہ کیا لیکن منّت پھر بھی یاد نہیں آئ پھر کاہنہ سے کہلوایا کہ اونٹ صدقہ کر نے کے بعد بھی منّت یاد نہیں آئ ہے تو کاہنہ

 نے جواب میں کہلوایا کہ دوسری رات بھی اونٹ صدقہ کیا جائے اور اگر دوسری رات بھی بشارت نا ہو توتیسری رات بھی اونٹ کا صدقہ کیا جائے حضرت عبد المطّلب کوتیسری رات کی قربانی کے بعد بشارت ہوئ کہ بیٹا قربان کرنے کی منّت مانی تھی

ا ب کون سا بیٹا قربان کیا جائے حضرت عبد المطّلب سوچ بچار میں پڑ گئے اورپھر کاہنہ کے پاس قاصد بھیجا کہ کیا کروں؟

کاہنہ نے کہلوایا کہ بیٹوں کے نام کے قرعہ ڈالے جائیں گے جس بیٹے کا نام آئے گا اس کی قربانی ہوگی قرعے ڈالے گئے تو جناب عبد اللہ کا نام نکلا  جب بستی کے

 لوگوں کو پتا چلا کہ جناب عبد اللہ کی قربانی ہونی ہے تو وہ سراپا احتجاج بن گئےاور احتجاج اتنا بڑھا کہ پھر کاہنہ سے مدد لی گئ

 در اصل جناب عبد اللہ حضرت عبد المطّلب کے سب بیٹوں میں سب سے چھوٹے اور تمام بیٹوں میں سب سے خوبصورت اور بہت  نفیس مزاج اور بلند اخلاق

 کے مالک تھے –اور انہی اعلیٰ  اوصاف کی بنا  پر وہ  حضرت عبد المطلب  کی بستی کے لوگوں میں بھی بہت پسند کئے جاتے تھے اب حضرت عبد المطّلب کسی اور بیٹے

 کی قربانی چاہتے تھے -لیکن کاہنہ نے کہلوا دیا کہ قربانی صرف اسی بیٹے کی ہو گی جس کے نام قرعہ نکلا ہے ورنہ بیٹے کے بدلے اونٹ قربان کیے جائیں گے

سوال یہ تھا کہ  اونٹوں کی کتنی تعداد  صدقہ کی جائے

      کاہنہ نے اس کی ترکیب یہ بتائی گئی کہ کاغذ کے ایک کاغذ پر دس اونٹ لکھے جائیں, دوسرے پر عبداللہ کا نام لکھا جائے, اگر دس اونٹ والی پرچی نکلے تو دس

 اونٹ قربان کردئے جائیں , اگر عبداللہ والی پرچی نکلے تو دس اونٹ کا اضافہ کردیا جائے - پھر بیِس اونٹ والی پرچی اور عبداللہ والی پرچی ڈالی جائے - اب اگر

 بیِس اونٹ والی پرچی نکلے تو بیِس اونٹ قربان کردئے جائیں, ورنہ دس اونٹ اور بڑھادئیے جائیں, اس طرح دس دس کرکے اونٹ بڑھاتے جائیں -

حضرت عبدالمطلب نے ویسا ہی کیا ہے جیسا کہ کاہنہ نے بتایا  "اور ہر بار جناب عبد اللہ کا نام موقوف ہوتا گیا اور اونٹوں کی تعداد دس دس اونٹ بڑھاتے چلے گئے

 " ہر بارجناب  عبداللہ کے نام کی پرچی نکلتی گئ, یہاں تک اونٹوں کی تعداد سو تک پہنچ گئی - تب کہیں جاکرجناب عبد اللہ کا نام موقوف ہوا - اس طرح ان کی جان

 کے بدلے سو اونٹ قربان کئیے گئے – حضرت عبدالمطلب کو اب پورا اطمینان ہوگیا کہ اللہ تعالٰی نے عبداللہ کے بدلہ سو اونٹوں کی قربانی منظور کرلی ہے --اور اس طرح حضرت عبد اللہ کی جان بچ گئ

منگل، 3 اگست، 2021

بیٹی یا بیٹا 'کیا چاہئے

 

جب بھی کسی لڑکا لڑکی کی شادی ہوتی ہے تو ان کے والدین کی دن رات یہی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی جلد سے جلد اولاد ہو جائے اور اٹھتے بیٹھتے ان کی یہی

 خواہش ہوتی ہے کہ ان کی بہو یا بیٹی جلد از جلد لڑکے کو جنم دے تاکہ لڑکے والوں کی نسل آگے چل سکے اور لڑکی والوں کی یہ دعا اس لیے ہوتی ہے کہ لڑکی کو

 کسی قسم کے طعنے نہ سننے پڑیں اپنے سسرال میں۔لڑکا پیدا ہونے کی خواہش شاید دنیا کے تمام والدین کو ہوتی ہے، لیکن یہ بھی تو دیکھیں کہ دنیا میں کتنے لوگ

 ایسے ہیں جو کہ اولاد کی نعمت کو ترستے ہیں۔ وہ لوگ خوش قسمت ہیں جن کو اللہ تعالی نے بیٹے کی نعمت یا بیٹیوں کی رحمت یا دونوں سے نوازا۔

رات اپنے بستر پر جانے سے قبل شوہر سورہء فجر پڑھ کر جائے اللہ کے پاکیزہ کلام کی برکت سے اولاد کی نعمت سے مالا مال ہو جائیں گے

 سماجی پہلو اور اس سے پیدا ہونے والے دباؤ کے اسباب کی طرف۔ کئی بچیوں کے ہاں جب پہلی اولاد، اولاد نرینہ پیدا ہو تو ان کو کسی حد تک قلبی و ذہنی سکون

 میسر ہو جاتا ہے لیکن جن کے ہاں جب پہلی اولاد، لڑکی ہو جائے تو لوگ، اعزہ و اقارب باقاعدہ تسلیاں دینا شروع ہو جاتے ہیں۔ اور اس کے بعد اس لڑکی پہ بیٹا

 پیدا کرنے کا دباؤ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ اور اگر دوسری دفعہ بھی بیٹی پیدا ہو جائے تو ساسیں اپنے ”چاند سے بیٹے“ کے عقد ثانی کی خواہش دبے دبے یا واشگاف الفاظ میں شروع کر دیتی ہیں۔ اب اس لڑکی پہ بیٹا پیدا کرنے کا دباو مزید بڑھ جاتا ہے۔

کئی کم عقل خاندان تو اپنے بیٹے کی دوسری شادی کروا دیتے ہیں، کئی جاہل اپنی بہو کو طلاق دلوا دیتے ہیں اور کئی الٹی میٹم دے دیتے ہیں کہ اب کی بار بیٹا ہونا چاہیے ہر صورت۔

حصول اولاد نرینہ

اولاد نرینہ کے جرثومہ کے حصول کے لئے کچھ غذائ ہدایات: یاد رکھئے کہ بیٹے کی پیدائش ماں کے حصّہ میں ہے اور بیٹی کی پیدائش کا زمّہ دار باپ ہے ،میری

 اس سلسلے میں یو ٹیوب پر وڈیو موجود ہے بیٹی یا بیٹا 'کیا چاہئے اب آتے ہیں غذا پر اور رنگ و روشنی سے علاج پر -غذا میں شوہر اور بیوی دونوں کو بند گوبھی کھانا

 ہے روزانہ ایک چھٹانک،کسی بھی شکل میں کھائیں سلاد بنا کر سالن بنا کر سبزی بنا کر،تین مہینہ لگاتارروزانہ کھانا ہے ایک چھٹانک ماش کی سفید دال کسی بھی شکل میں کھائِں دہی بڑے بنا کریا سادی دال بنا کر یا حلوہ بنا کر  تین مہینہ

جس کے ہاں صرف لڑکیاں ہی پیا ہوتی ہوں اور وہ اولاد نرینہ کی خواہش رکھتا ہو تو اسے چاہیے کہ اپنے مقصد کے حصول کے لئے نماز کے بعدرات اپنے بستر پر

 جانے سے قبل شوہر سورہء فجر پڑھ کر جائے اللہ کے پاکیزہ کلام کی برکت سے اولاد کی نعمت سے مالا مال ہو جائیں گے جن کے یہاں پہلی اولاد ہونے میں دیر لگ

 رہی ہے وہ یہ عمل کرتے ہوئے اللہ سے بیٹی یا بیٹے کی دعا نہیں مانگین بلکہ اللہ پہلی اولاد کی شکل میں جو بھی نعمت دے اسے خوشی سے قبول کر لیں نبئ کریم

 حضرت محمّد صلّی اللہ علیہ والہ وسّلم نے فرمایا کہ پہلی بیٹی کو جنم دینے والی ماں خوش نصیب ہوتی ہے-سورہ یٰسین

پڑھ کر رب تعالیٰ سے دعا مانگے اور جب جمعہ کی نماز ادا کرے تو مسجد میں بیٹھ کر گیارہ مرتبہ یٰسین کا ورد کرے اور پھر اولاد نرینہ کے لئے رب تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا مانگے-

حضرت زکریا علیہ السلام کی اس دعا کو قرآن کریم نے سورۂ انبیاء کی آیت ۹۰ میں ہمیشہ کے لئے محفوظ فرمادیا ہے۔ دعا یہ تھی:

{وَزَکَرِیَّا اِذْ نَادیٰ رَبَّہٗ رَبِّ لاَ تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّ اَنْتَ خَیْرُ الْوَارِثِیْنَ}

اور زکریا (کا بھی ذکر کر) جب اُس نے اپنے ربّ کو پکارا کہ اے میرے ربّ! مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور تُو سب وارثوں سے بہتر ہے۔آپؑ کی اس دعا کی قبولیت کا

 ذکر سورۂ مریم کی آیت 

۸میں مذکور ہے: اللہ تعالیٰ فرماتاہے: {یٰزکَرِیَّا اِنَّا نُبَشِّّرُکَ بِغُلٰمٍ اسْمُہٗ یَحْیٰی لَمْ نَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا}۔یعنی اے زکریا! یقینا ہم تجھے ایک عظیم بیٹے کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہوگا۔ ہم نے اس کا پہلے کوئی ہم نام نہیں بنایا۔

 کیسا یقین ہے ان کواپنے رب پر کہ نہ انہیں یہ پرواہ ہے کہ وہ بوڑھے ہو چکے ہیں اور نہ ہی دعا مانگنے میں یہ امر مانع ہے کہ ان کی بیوی بھی بانجھ ہے اور پھر 

 نیک اولاد کی دعا یقین کے ان الفاظ میں مانگ رہے ہیں ۔

 چاند کے پہلے سات دن روزانہ ایک بار سورة البقرہ بیٹے کی نیت سے پڑھیں۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ بچہ ہو یا بچی، وہ جس آنگن میں بھی اتریں وہ اپنے والدین کے لئے باعث مسرت و فخر ہوں، خوشحال، بھرپور اور صحت مند زندگی گزاریں۔ ایک اور عہد کریں کہ اب ہم بیٹیوں کا پہلا حق، جو ان کے پیدا ہونے کی خوشی ہے، ان کو ضرور دیں گے

میں کی جانا ں ماواں نو ٹھنڈیاں چھاواں

 

ہجرت کی راہوں میں بلا شبہ بڑے ہی سخت امتحان ہوتے ہیں

جنہوں نے پاکستان بنتے دیکھا وہ جانتے ہیں کہ ہجرت ہوتی کیا ہے -چنانچہ اعلان آزادی ہوتے ہی ہندوستان کے طول و عرض میں فسادات پھوٹ پڑے   ہرطرف خوف کا سماں تھا-ایسے ہرمسلمان گھر کے اندر دبک کر رہ گیا اور امان پھر بھی ناملی نا کوئ گاوں بچا نا کوئ شہر بچا جو ان درندوں سے مسلمانوں کو بچا سکتا  سینکڑوں ہندو مل کر ہاتھوں میں گنڈاسے‘ بندوقیں‘ برچھے لے کر مسلمانوں کے گاؤں پر حملہ آور ہو تے اور مسلم آبادی کو تہہ تیغ کر جاتے تھے--یہ دنیا کی شاید سب سے بڑی ہجرت تھی جس میں کم از کم دس ملین افراد گھر سے بےگھر ہونے پر مجبور ہوئے۔

ایسے میں پاکستان اور ہندوستان کے ایک سرحدی گاوں میں آ گ لگی اور  آبادی پر غنڈےحملہ آور ہونے لگے تو بے شمار لڑکیوں اور عورتوں نے کنووں میں چھلانگیں لگا کر اپنی عزّتیں بچا ئ تھیں سیکڑوں عورتیں اور لڑکیاں ریپ ہوئیں ،قتل کی گئیں اغوا ہوئیں کہ پھر ان کا اتا پتا نا چلا اور بچّے کرپانوں سے اور بھالوں سے شہید کئے جا رہے تھے اس افرا تفری میں  ایک ایک سولہ برس کی سکھ معصوم لڑکی اپنے خاندان سے بچھڑ گئ 'وہ ایک مسلمان بزرگ کے ہاتھ لگی بزرگ اس کو اپنے گھر لے آئے اور اس کا نکاح اپنے بیٹے صفی اللہ

سے پڑھوا دیا وہ بیٹا بھی کم عمر ہی تھا 'پھر ان کے یہاں دو بچّے پیدا ہوئے بڑے کا نام کرامت اللہ اور چھوٹے کا نام قدرت اللہ تھا-اب کرامت اللہ دو برس کااورقدرت اللہ ابھی نو مہینہ کا تھا کہ اس خاندان کواُن کی تقدیر نے ہجرت سے بھی بڑے سانحہ نے دوچار کیا،

ہوا یوں کہ ہجرت کی خونچکاں کہانیا ں تما م ہونے بعد جب لوگوں نے سکھ کا سانس لیا تب کسی گوشہ سے آواز اُٹھی کہ اب سرحدوں کے آر پار جو عورتیں کسی بھی وجہ سے رہ گئ ہیں یا پھر کسی بھی طریقہ سے اپنوں سے بچھڑ گئ ہیں ان کا تبادلہ کیا جائے

اب حکومت پاکستان اور حکومت ہندوستان کے درمیان ایک معاہدہ ہوا کہ ان کا تبادلہ کیا جائے اس تبادلہ میں ایک عورت کے بدلے میں  ایک عورت کا فارمولا رکھّا گیا اور ایک روزاس لڑکی کے ہنستے بستے آنگن میں بھی سپاہی آ پہنچے سپاہیوں نے کہا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ یہاں ایک ہندوستانی عورت بھی ہے تولڑکی نے کہا'ہاں لیکن  میری شادی ہو گئ ہے اور میں اپنے گھر میں خوش ہوں -

لیکن آنے والے بے رحم انسانوں نے جواب دیا کہ چل کر بس انٹری لگوا دو پھر ہم تم کو واپس چھوڑ جائیں گے،اس لڑ کی نے اپنے آپ سے اپنا نو مہینہ کادودھ پیتا بچّہ جدا کر کے گھر والوں کے حوا لے کیا اور تھانے چلی گئ سپاہیوں نے لڑکی کو صریحاً دھوکہ دیا اورتھانے میں انٹری دلوا لڑکی کو پاکستانی سرحد کے پارہندوستان کی سرحدکے   اندر پہنچا دیا'یہ انّیس سو پچاس کا زمانہ تھا -اب اس معصوم لڑکی کے دو معصوم بچّے شوہر سب پاکستان میں رہ گئے اور وہ ہندوستان یں دھکیل دی گئ اور وقت نے کروٹ لی زلزلہ آزد کشمیرکا بد ترین قدرتی سانحہ وقوع پذیر ہوا اس تباہ کن زلزلہ میں  عالمی امدادی اداروں کے مطابق کل 86,000 ہزار  لوگ جاں بحق ہوئے- یہ زلزلہ بروز ہفتہ پیش آیا، جو علاقہ میں عام دن تھا اور تقریباً سکول 'کالج دفاتر چھاونیاں سب اس دوران کام کر رہے تھے۔ اسی وجہ سے یہاں زیادہ ہلاکتیں سکولوں اور ہلاک ہونے والوں میں بڑی تعداد بچوں کی بتائی جاتی ہے۔ زیادہ تر بچے منہدم ہونے والی سکول کی عمارتوں کے ملبے تلے دب گئے۔ تفصیلی رپورٹوں کے مطابق شمالی پاکستان میں جہاں یہ زلزلہ رونما ہوا، تقریباً قصبے اور گاوں صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ جبکہ مضافاتی علاقوں میں بھی بڑے پیمانے پر مالی نقصان ہوا۔

مصیبت کی ان گھڑیوں میں دنیا بھر سے خاص و عام زلزلہ زدگان کی مدد کے لئے دوڑ پڑے-ایسے میں ایک نوجوان اپنی موٹر بائیک پر زلزلہ زدگا ن کی مدد کوموٹر بائیک تیزی سے دوڑاتا لئے جا رہا تھا کہ سرحد کی لائن کے اس پار کھڑی ایک بوڑھی عورت نے اسے آواز دی 'پُتّر میری گل سن لے 'بڑھِا کی آواز پر وہنوجوان اپنی بائیک بھگاتا اس کے پاس لے گیا  تو اس نے اچانک سوال کیا پُتّر تو نے میرے بیٹوں کو دیکھا ہے نوجوان اچانک اس سوال سے گھبرا سا گیا اور اس

 نے کہا ماں جی تیرے بیٹے میں نے نہیں دیکھے لیکن دیکھ لوں گا -بوڑھی عورت کہنے لگی  پُتر میرے شوہر کا نام صفی اللہ ہے ہور میرے پتراں دے ناں ایک قدرت اللہ ہے دوجے کا نام کرامت اللہ ہے -پُتّر میں  کرامت اللہ کو نو مہینہ کا دودھ پیتا چھڈ کے آئ تھی -پھر میں اپنے بچّے نہیں دیکھے -پُتر تو میرے بچّے دیکھ کر بتا دے وہ زندہ ہیں -پُتر میں نے اپنے اللہ سے کہ دیا تھا میں اپنے بیٹوں سے ملے بغیر دنیا سے نہیں جاواں گی نوجوان نے کہا اچھّا ماں میں تیرے پُتراں دی خیریت لے کے بتاواں گا پھر نوجوان بڑھیا کو چھوڑ کر اپنے فلاحی مشن پر بائک بھگا لے گیا اور ساتھ ساتھ اس نےبڑھیا کے بتائے ہوئے پتے پر اس کے بیٹوں کی خیر خبر بھی لینے لگا ،شان خداوندی ہے جسے اللہ رکھّے اسے کون چکھّے لاکھوں افراد کے زیاں کے بیچ اس بڑھیا کا علاقہ گھر بار سب سلامت تھا دونوں بیٹے بھی سلامت تھے لیکن شوہر صفی اللہ کا انتقال ہو چکا تھا 'نوجوان اس بڑھیا کے دونو ں بیٹوں سے ملا اور بتایا کہ سرحد کے پار ان کی ماں ان سے ملنا چاہتی ہے

پھر وہ دونوں بیٹے پاکستانی آ فیشلز سے ملے  اوران کو تمام صورتحال  سے آ گاہ کیا پھر دونوں طرف کے آفیشلز کے درمیان ماں اور بیٹوں کی ملاقات کروائ گئ یہ منظر بہت جذباتی تھا وہاں موجود ہر شخص رو رہا تھا

ایک صبح جب آسمان سے دستر خوان اترا


  

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دسترخوان

سورہ مائدہ قران کریم کا  سورہ نمبر 5ہے اور پارہ     7وازاسمعو ہے آئت نمبر ایکسو گیارہ میں پروردگارعالم اپنے- حبیب حضرت محمّد مصطفٰے صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم

 سے فرما رہا ہے وہ وقت یاد کرو جب حواریوں نے عیسٰی سے عرض کی اے مریم کے بیٹے عیسٰی کیا آپ کا خدا اس پر قادر ہے کہ ہم پر آسمان سے نعمت کا ایک

 خوان نازل فرما -

نبی اللہ نے  انھیں تنبیہ کی اور کہا کہ اگر تم ایمان رکھتے ہو تو خدا سے ڈرو ( قَالَ اتَّقُوا اللهَ إِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ) ۔۔اور

 ایسی فرمائش جس سے امتحان مقصود ہو اس کا اللہ سے تقاضہ نا کرو لیکن حواریوں نے جوابدیا کہ ہم تو بس آپ کی رسالت کی سچّائ دیکھنا چاہتے ہیں اس طرح

 ہمیں یقین آ جائے گا کہ آپ نے ہم سے جو کہا تھا وہ سچ تھا اور ہم اس کے خود گواہ ہیں تب حضرت عیسٰی علیہ السّلا م نےپروردگارعالم کی بارگاہ میں دعاء کی کہ

 ائے ہمارے پالنے والےپروردگارعالم ہم پر آسمان سے ایک خوانِ نعمت نازل فرما اور اس دن کو ہم لوگون کے لئے اور ہماری اگلی نسلوں کے لئے اور جو پچھلi

 گزر گئے ان کے لئے خوان نعمت اترنے کا مبارک روز عید قرار پائے اور ہمارے حق میں وہ تیری طرف سے ایک بڑی نشانی ہو اور تو ہمیں روزی عطا کر کہ

 تیری زات ہی سب سے بہتر روزی عطا کرنے والی ہے۔

"حضرت عیسٰی علیہ السّلام کے جواب میں پروردگارعالم نے فرمایا کہ میں خوان اتار تو دوں گا لیکن

 پھر ان میں سے جو شخص کافر ہواتو میں اس کو یقیناً ایسے سخت عذاب کی سزا دوں گا کہ ساری خدائ میں کسی ایک پر بھی ایسا عزاب نا ہو گا۔اورپھر یکشنبہ( اتوار

 کے دن )کے دن کچھ دن چڑھے آسمان سے ابرِ سفید کے ایک ٹکڑے اوپر ایک خوان برنگ سرخ پروردگارعالم نے نازل فرمایا

"جب حضرت عیسٰی علیہ السّلام اس وقت اپنے حواریوں کے ہمراہ اپنی بستی کے باہر بیٹھے ہوءے تھے کہ آسمان سے دستر خوان زمین پر اتر آیا-

 حضرت عیسٰی علیہ السّلام ابر سفید پر خوان سرخ  پُر نعمتِ  ہائے پروردگار دیکھ کر رونے لگے اور پھر اللہ سےدعا کی اے ہمارے پالنے والے اس دستر خوان کو

 ہمارے لئے باعث رحمت قرار دینا نا کہ باعث عذاب ہو اس کے بعد وضو کر کے نماز پڑھی اور پھر دوبارہ روئے اور پھر بسم اللہ خیر الرّازقین کہہ کر خوان پوش

 ہٹایا تو روغن میں ڈوبی ہوئ ایک تلی ہوئ مچھلی رکھّی تھی ، مچھلی کی دم کے پاس سرکہ تھااور سر کے پاس نمک تھا اور گردا گرد انواع و اقسام کی ترکاریا ں و ساگ تھے

 ساتھ میں پانچ روٹیا ں تھیں ایک روٹی پر روغن تھا دوسری پر شہد تھا تیسری روٹی پر گھی تھا چوتھی روٹی ہر پنیر تھا پانچویں روٹی پرخشک گوشت تھا۔

حواریوں نے کہا یا  نبی اللہ کوئ اور بھی معجزہ دکھائیے تب حضرت عیسٰی علیہ السّلام نے فرمایا کہ ائے مچھلی اللہ کے حکم سے زندہ ہو جا پس مچھلی فوراً تڑپ کر زندہ ہو

 گئ اور اس کے سپنے کانٹے چھلکے سب آ موجود ہوئے پھر آپ نے فرمایا پہلے جیسی ہو جا مچھلی پھر پہلے کی حالت پر آ گئ تب حواریوں نے کہا کہ یا حضرت پہلے آپ

 اس میں سے نوش فر مائیں پھر ہم کھائیں گے حضرت ععیسٰی علیہ السّلام نے فرمایا

معاز اللہ میں اس میں سے کیسے کھا سکتا ہوں جنہون نے یہ خوان منگایا ہے وہی اس میں سے تناول کریں گے۔لیکن حواری خوان میں سے کھاتے ہوئے ڈر رہے

 تھے چنانچہ حضرت عیسٰی علیہ السّلام نے بستی کے اندر سے مریضانِ دائمی و لاعلاج مریض کوڑھی ،اندھے،مبروص اور بستی کے تمام کے تمام مریض طلب کئے

 اور انہیں دستر خوان سے کھانا کھلایا۔ اس دستر خوان کی برکت سے جو جو کھاتا گیا وہ شفا پاتا گیا اندھے بینا ہو گئے مبروص صحت یاب ہو گئے بیساکھی کے محتاج

 اپنے پیروں پر کھڑے ہوگئے

یہاں تک کہ اس دستر خوان سے تیرہ سو آدمیوں نے کھایا اور دستر کی برکت اللہ کے حکم سے قائم رہی اور کھانا کم نا ہوا پھر دوپہر کے بعد دسترخوان چلا گیا اور

 پھر چالیس روز برابر اسی طرح آتا رہا  پھرکچھ حواری لوگوں کو بہکانے لگے کہ یہ جادو ہے اور اُنہوں نے خیانت بھی کی کہ کھانا ذخیرہ کیا ،'اس پر پروردگارعالم

 نے تین سو تینتیس لوگوں کو خنزیر بنا دیا وہ تین دن تک دنیا  کی نجاست کھاتے رہے اور پھر مر گئے

 

 

 

 

 

 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر