بدھ، 26 مارچ، 2025

زندگی کی نئ امید - عمیر ثناء فاؤنڈیشن

 

 ڈاکٹر ثاقب انصاری کی سرپرستی میں قائم عمیر ثناء فاؤنڈیشن -ڈاکٹر ثاقب انصاری کی سرپرستی میں قائم عمیر ثناء فاؤنڈیشن نہ صرف مختلف فلاحی کاموں میں سرگرم ہے بلکہ اس کا سب سے اہم مشن تھیلے سیمیا کے مریض بچوں کی زندگیوں میں امید کی روشنی بکھیرنا ہے۔ خاص طور پر رمضان المبارک میں منعقد ہونے والی خون عطیہ کرنے کی خصوصی تقریب… جو کئی برسوں سے جاری ہے… اس مشن کا ایک خوب صورت لمحہ ہے، جس میں نہ صرف خون کا عطیہ بچوں کے لیے، لیا جاتا ہے بلکہ تھیلے سیمیا کے شکار بچے اور ان کے والدین بھی اس تقریب میں موجود ہوتے ہیں جنہیں خوبصورت تحائف بھی دیے جاتے ہیں۔ چند صحافیوں کے خلوص سے شروع ہونے والا یہ کارِ خیر آج ایک اہم روایت بن چکا ہے۔ تھیلے سیمیا کے مریض معصوم بچوں کے چہروں پر جو خوشی اور مسرت اس تقریب کے ذریعے آتی ہے، وہ کسی بھی لفظی بیان سے بالاتر ہے۔ امسال بھی یہ تقریب عمرثناء فاونڈیشن سے متصل مقامی ہال میں منعقد ہوئی جس میں صحافیوں سمیت مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔انسانی زندگی میں خون کی اہمیت کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اسے نہ کسی فیکٹری میں تیار کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کی فصل کاشت کی جاسکتی ہے۔


 یہ ایک ایسا عطیہ ہے جو اگر کوئی دیتا ہے تو کسی نہ کسی انسان کی زندگی بچا رہا ہوتا ہے۔ یہ جسم کے ہر حصے میں آکسیجن اور غذائی اجزاء پہنچانے کے ساتھ ساتھ فاسد مواد کو خارج کرنے میں بھی مدد دیتا ہے۔ خون کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہر سال ہزاروں قیمتی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں۔ انسانی جان بچانے والے اس اہم ترین عطیے کو دینے کا پاکستان میں رجحان بہت زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے، اور ایک محتاط اندازے کے مطابق اس میں ہر سال چھے ہزار بچوں کا اضافہ ہورہا ہے۔تھیلے سیمیا ایک موروثی بیماری ہے جس میں خون کے سرخ خلیے صحیح طریقے سے نہیں بنتے، جس کی وجہ سے مریض کو زندگی بھر خون کی منتقلی کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ بیماری بنیادی طور پر والدین سے بچوں میں جینیاتی طور پر منتقل ہوتی ہے اور دنیا بھر میں لاکھوں افراد اس سے متاثر ہیں۔ اس کے مریض میں کوئی خاص علامات نہیں ہوتیں، اور یہ صرف خون کے معمولی معائنے میں ظاہر ہوتی ہے۔تھیلے سیمیا میجر سے متاثرہ بچے میں پیدائش کے چھے ماہ بعد اس کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ ان بچوں کے جسم میں خون کے سرخ خلیے یا ہیموگلوبن بنانے کی صلاحیت نہ ہونے کے باعث خون کی شدید کمی ہوجاتی ہے۔ اگر مسلسل خون کی منتقلی نہ ہو اور ادویہ نہ ملیں تو ان کی ہڈیوں کی ساخت تبدیل ہونے لگتی ہ


ے، اور وہ دیگر بچوں کے مقابلے میں جسمانی نشوونما میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔یہ بچے زندگی کے ابتدائی دس سالوں میں ہی مختلف پیچیدگیوں کا شکار ہوکر موت کے منہ میں جا سکتے ہیں۔ ان کے لیے ہر ماہ ہیموگلوبن چیک کروانا ضروری ہوتا ہے، تاکہ وقت پر خون کی منتقلی کی جاسکے۔ یہ عمل بہت تکلیف دہ ہوتا ہے اور مریض کو مسلسل جسمانی اور ذہنی دباؤ میں رکھتا ہے۔چونکہ تھیلے سیمیا ایک جینیاتی بیماری ہے، اس لیے ڈاکٹر ثاقب انصاری کے مطابق اس سے بچاؤ کے لیے سب سے اہم اقدام شادی سے پہلے خون کا ٹیسٹ کروانا ہے۔ اگر میاں بیوی تھیلے سیمیا مائنر ہوں تو ان کے بچوں میں تھیلے سیمیا میجر ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔حالیہ میڈیکل ریسرچ کے مطابق تھیلے سیمیا کے مستقل علاج کے لیے بون میرو ٹرانسپلانٹ ایک مؤثر طریقہ ہے، لیکن یہ ایک مہنگا اور پیچیدہ علاج ہے، جو ہر مریض کی دسترس میں نہیں ہوتا۔ لہٰذا خون کی مسلسل منتقلی ہی اس بیماری کا عام علاج ہے۔ہر سال ہزاروں بچے بیٹا تھیلے سیمیا کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں اور انہیں زندگی بھر خون کی منتقلی کی ضرورت ہوتی ہے۔


 نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق، 15 سے 49 سال کی عمر کی 57 فیصد خواتین اور چھے ماہ سے پانچ سال کی عمر کے 67 فیصد سے زائد بچے خون کی کمی کا شکار ہیں۔ عالمی ادارئہ صحت کے مطابق، اگر بچوں کا ہیموگلوبن لیول 7 گرام فی ڈیسی لیٹر سے کم ہوجائے تو اسے خون کی شدید کمی سمجھا جاتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ عمیر ثناء فاؤنڈیشن کی اس کاوش اور تحریک کو آگے بڑھایا جائے اور خون کا عطیہ کرنے کے جذبے کو اپنے دیگر منصوبوں اور ترجیحات کی طرح اہمیت دی جائے۔ خون کا عطیہ جہاں ضرورت مندوں کی ضرورت کو پورا کرتا ہے، وہیں دینے والے کی صحت کے لیے بھی بہت مفید عمل ہے۔ ماہرین کے مطابق صحت مند افراد ہر تین سے چار ماہ بعد خون عطیہ کرسکتے ہیں، اور اس کا صحت پر کوئی منفی اثر نہیں ہوتا۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ خون عطیہ کرنے سے جسم کمزور ہوجاتا ہے، حالانکہ یہ تصور غلط ہے۔ اس سے صحت پر منفی کے بجائے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں، کیونکہ دیے جانے والے خون کی کمی تین دن کے اندر پوری ہوجاتی ہے۔ میڈیکل سائنس کہتی ہے کہ ہر انسان کے اندر تقریباً ایک لیٹر یا 2 سے 3بوتلیں اضافی خون ہوتا ہے اور 56 دن کے اندر خون کے 100فیصد خلیے دوبارہ تیار ہوجاتے ہیں۔ اور بات صرف اتنی سی نہیں ہے بلکہ خون کے یہ خلیے پرانے خلیوں کی نسبت زیادہ صحت مند ہوت


ے ہیں۔ نیا خون بننے کے عمل سے قوتِ مدافعت بڑھتی ہے، مٹاپے میں مبتلا ہونے کا خطرہ کم ہوجاتا ہے، اور کولیسٹرول بھی قابو میں رہتا ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ خون عطیہ کرنے والے افراد میں دل کی بیماریوں اور ہائی بلڈ پریشر کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔جو لوگ اچھی صحت کے حامل ہوں، جن کی کم سے کم عمر 17 اور زیادہ سے زیادہ 50سال ہو (خواتین کی عمر کم سے کم 18 سال ہو)، وزن کم سے کم 110 پائونڈ ہو، پچھلے 56 دن سے خون نہ دیا ہو، انہیں فوراً خون دینا چاہیے۔ لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرنے کے لیے ہمارے پاس جو کچھ ہو وہ ہمیں دینا چاہیے۔دوسروں کی مدد کرنے سے انسان کو دلی سکون اور خوشی حاصل ہوتی ہے، جو ذہنی صحت کے لیے فائدہ مند ہے-اسی پس منظر میں، چند سال قبل ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے شعبہ طبِ نفسیات کے سابق سربراہ نے ایک نہایت بصیرت افروز بات کہی تھی، جو آج بھی دل و دماغ پر دستک دیتی ہے۔ انہوں نے کہا تھا:زندگی میں دینا سیکھیں۔ کسی کو پیسہ دیں، کسی کو وقت، کسی کو مشورہ، کسی کو راستہ، کسی کو علم…بس دینے کا عمل شروع کریں۔ دینے کی صفت دراصل اللہ کی صفت ہے، اور جب آپ دینا شروع کردیتے ہیں تو آپ کی نسبت الرحمٰن سے جُڑ جاتی ہے۔ پھر نہ آپ مایوسی کا شکار ہوتے ہیں، نہ ہی ذہنی تناؤ میں مبتلا ہوتے ہیں۔ جتنا زیادہ آپ دوسروں کو نوازیں گے، اتنا ہی آپ کی زندگی میں خوشیاں بڑھتی جائیں گی۔ بس ایک عہد کرلیں کہ ہر مہینے کسی نہ کسی کو کچھ ضرور دینا ہے۔“آیئے، ہم بھی ایک ایسا عہد باندھیں جو کسی کی زندگی کا چراغ جلا سکے۔ اگر سال میں دو مرتبہ ممکن نہ ہو تو کم از کم ایک بار خون کا عطیہ ضرور دیں۔ خاص طور پر رمضان المبارک میں، جب تھیلے سیمیا کے مریض معصوم بچوں کو خون کی شدید قلت کا سامنا ہوتا ہے، ہم ان کے لیے زندگی کی ایک نئی امید بن سکتے ہیں۔ کیونکہ دینے والے ہاتھ ہمیشہ بھرتے ہیں، کبھی خالی نہیں رہتے۔

منگل، 25 مارچ، 2025

شیخ صدوق چوتھی صدی ہجری کے مایہ ناز محدث

  

 محمد بن علی بن حسین بن موسی بن بابویہ قمی (305۔381 ھ)، شیخ صدوق کے نام سے معروف چوتھی صدی ہجری کے شیعہ علماء میں سے تھے۔ آپ کا شمار شہر مقدس قم کے مایہ ناز محدثوں میں ہوتا ہے اور تقریبا 300 سے زائد علمی آثار کی آپ کی طرف نسبت دی جاتی ہے جن میں سے اکثر آج ہمارے اختیار میں نہیں ہیں۔ کتاب من لایحضرہ الفقیہ شیعوں کی معتبر ترین کتب اربعہ میں سے ایک ہے جو آپ کے دست مبارک سے لکھی گئی ہے۔ ان کے دیگر علمی آثار میں معانی الاخبار، عیون الاخبار، الخصال، علل الشرائع و صفات الشیعہ کا نام نمایاں طور پر لیا جا سکتا ہے۔ان کے مشہور ترین شاگردوں میں سید مرتضی، شیخ مفید اور تلعکبری شامل ہیں۔ شیخ صدوق ایران کے ایک تاریخی شہر، شہر ری جو تہران کا جڑواں شہر ہے، میں مدفون ہیں۔


۔ ولادت -شیخ صدوق کی دقیق تاریخ ولادت معلوم نہیں ہے لیکن جو چیز آپ کی کتاب کمال الدین و تمام النعمہ اور شیخ طوسی کی کتاب غیبت اور نجاشی کی الفہرست سے معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ امام زمانہ(عج) کے دوسرے نائب خاص محمد بن عثمان عَمْری کی رحلت اور امام کے تیسرے نائب خاص حسین بن روح کے نیابت کے ابتدائی سالوں میں متولد ہوئے ہیں۔خود شیخ صدوق ابوجعفر محمد بن علی بن اسود سے نقل کرتے ہیں کہ ان کے والد گرامی علی بن حسین بن موسی بن بابویہ (جنہیں صدوق اول بھی کہا جاتا ہے) محمد بن عثمان عَمْری (دوسرا نائب خاص امام زمانہ) کی رحلت کے بعد ابوجعفر سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ حسین بن روح نوبختی (تیسرا نائب خاص امام زمانہ) سے کہہ دیں کہ امام زمانہ(عج) سے دعا کی درخواست کریں کہ خدا مجھے کوئی بیٹا عطا کرے۔ ابوجعفر کہتا ہے کہ میں نے ان کی درخواست حسین بن روح تک پہنچائی۔


 تین دن کے بعد حسین بن روح نے مجھ سے کہا کہ امام زمانہ(عج) نے علی بن حسن (شیخ صدوق کے والد گرامی) کیلئے دعا کیا ہے اور انشاء اللہ خدا ان کو ایک بیٹا عنایت کرے گا۔ او خدا اس بیٹے کے ذریعے ان کو دنیا اور آخرت میں نفع حاصل ہو گا  -شیخ صدوق نے قم میں اپنے والد بزرگوار کے ساتھ 20 سال زندگی کی اور اپنے والد اور دیگر علماء سے اس عرصے میں کسب فیض کیا اس کے بعد شہر ری کے مکینوں کی درخواست پر وہاں چلے گئے۔ شہر ری میں باوجود اس کے کہ وہ جوانی کی عمر میں تھے لیکن ان کی چرچے چاروں طرف پھیلنے لگے۔ وہاں پر کچھ مدت رہنے کے بعد وہاں کے والی کی اجازت سے امام رضا(ع) کی زیارت کی غرض سے مشہد مقدس کی طرف سفر پر نکل پڑے اور وہاں سے واپسی پر نیشاپور میں ساکن ہوئے اور وہاں کے بزرگوں نے ان سے کسب فیض کرنا شروع کیا۔ یوں انہوں نے قم سے جانے کے بعد شہر ری، استرآباد، جرجان، نیشابور، مشہد، مروروذ، سرخس، ایلاق، سمرقند، فرغانہ، بلخ، ماوراء النہر، ہمدان، بغداد، کوفہ، فید، مکہ اور مدینہ کی طرف مسافرت کی۔



حسب و نسب-شیخ صدوق کے والد گرامی علی بن حسین اپنے زمانے کے مشایخ، ثقہ (مورد اعتماد)، فقیہ اور شہر مقدس قم کے مراجع میں سے تھے۔ باوجود اس کے کہ آپ کے زمانے میں مایہ ناز علماء اور محدثین کی کثیر تعداد شہر قم میں موجود تھے لیکن آپ کو ان سب میں ایک ممتاز مقام حاصل تھا۔ اتنے علمی مقام اور جہان تشیع کے مرجع تقلید ہونے کی باوجود آپ قم میں ایک چھوٹے سے دکان پر نہایت سادگی، پاکدامنی اور قناعت کی زندگی گزارتے تھے۔ آپ نے علم کے مختلف شعبوں میں کتابیں اور مقالہ جات تحریر فرمایا ہے جنہیں شیخ طوسی اور نجاشی نے ذکر کیا ہے۔ ابن ندیم اپنی کتاب الفہرست میں کہتا ہے: "کسی کتاب کی جلد پر میں نے دیکھا کہ ان کے بیٹے اپنے قلم سے لکھا تھا کہ میرے والد گرامی کی کتابیں جو 200 عدد ہیں اور میری اپنی کتابیں جو 18 عدد ہیں "


  وفات

شیخ صدوق سنہ 381 ہجری قمری کو 70 سال کی عمر میں شهر ری میں وفات پائی اور وہیں پر دفن ہوئے۔ ان کی قبر آج شہر ری میں موجود قبرستان ابن بابویہ نامی قبرستان میں موجود ہے جہاں زیارت گاہ بنی ہوئی ہے۔ سنہ 1238 ہجری شمسی کو سیلاب کی وجہ سے ان کی قبر میں شگاف پڑگیا تھا اور کئی صدیاں گذرنے کے بعد بھی انکی لاش صحیح و سالم دیکھ کر لوگوں کی حیرت کا باعث بن گئی اس کے بعد فتح علی شاہ قاجار کے زمانے میں ان کے قبر کی تعمیر و توسیع ہوئی۔ علمی کارنامے-علم رجال کے ماہرین کی ان کے بارے میں سفارش-شیخ طوسی فرماتے ہیں: "محمد بن علی بن حسین، حافظ احادیث، فقہ اور رجال سے آگاہ اور حدیث شناس تھے۔ حفظ اور کثرت علم میں قمی علماء میں ان کی مثال نہیں ملتی ہے"ہمارے شیخ اور فقیہ جب بغداد میں آئے تو باوجود اس کے کہ وہ کم سن تھے لیکن اس وقت کے علماء اور فقہاء ان سے حدیث سنتے تھے۔  آپ کے اساتیدشیخ صدوق نے مختلف شہروں کے مختلف حفاظ اور بزرگان سے کسب فیض کیا یہاں تک کہ ان کی تعداد 260 تک پہنچتی ہیں۔ 


پیر، 24 مارچ، 2025

پاکستان کا علمی سرمایہ'ڈاکٹر محمد اجمل خان وائس چانسلر آف کراچی یونیورسٹی-part'6

 

لیکن اگر آ پ انہیں زور اور جبر سے روکیں گے تو اس سے بغاوت پیدا ہوگی۔ جامعات کا تو کام ہی طلبا کو بحث و مباحثے کا کُھلا ماحول فراہم کرنا ہے تاکہ وہ اپنے علم کی تلوار سے خراب آئیڈیاز کو کاٹ کر ختم کرسکیں ۔ طلبا یونین آئیڈیاز پر بحث و مباحثے اور اچھے آئیڈیاز کے فروغ کے لیے ایک مثبت پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں طلبا یونین کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا جس سے اس کا اصل مقصد فوت ہوگیا- سیاست کرنا گندا کام نہیں ہے، لیکن سیاست کے نام پر تشدد کرنا، غلط کام ہے، بدمعاشی کرنا گندا کام ہے، یونیورسٹی کے سسٹم پر کنٹرول حاصل کرنا گندا کام ہے۔ایکسپریس: پوائنٹس جامعہ کراچی کا دیرینہ مسئلہ ہے، جامعہ کراچی میں ٹرانسپورٹ کے حوالے سے مسائل پر آپ کا کیا کہنا ہےڈاکٹرمحمد اجمل خان: جامعہ کراچی میں 41ہزار طلبا زیرتعلیم ہیں،


 ان سب کو گھر سے لانا اور لے جانا انتظامی طور پر ممکن نہیں ہے۔ہمیں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے جو ایک ارب اسی کروڑ کی گرانٹ دی گئی ہے اس میں پوائنٹس کے لیے دس بسیں بھی شامل ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جو انحطاط پوری جامعہ کراچی پر آیا اس کے اثرات ٹرانسپورٹ پر بھی مرتب ہوئے۔ پوائنٹس چلانے میں ماہانہ خرچہ ساڑھے تین کروڑ اور ریکوری پچاس لاکھ روپے سے بھی کم ہے۔ اس میں ہونے والی کرپشن کو روکنا ہماری ترجیح تو ہے لیکن ابھی اولین ترجیح اس سے بڑے معاملات میں کرپشن کو روکنا ہے۔ دنیا بھر میں کوئی بھی تعلیمی ادارہ اس بات کا وعدہ نہیں کرتا کہ آپ کو گھر سے لانے لے جانے کے لیے ٹرانسپورٹ دی جائے گی، نوکری دی جائے گی۔آپ نے پڑھنے کے لیے داخلہ لیا ہے تو یونیورسٹی پہنچنا آپ کی ذمے داری ہے، ہاں یونیورسٹی کے اندر شٹل سروس کی فراہمی یونیورسٹی کی ذمے داری ہے ۔


 میری ان باتوں کا مطلب یہ نہ لیا جائے کہ ہم پوائنٹ کی سہولت ختم کر رہے ہیں، لیکن ہم ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے وابستہ نہیں اور اکتالیس ہزار لوگوں کو لانے لے جانے کے لیے چار سے پانچ ہزار بسیں چاہییں۔ اسے مینیج کرنا، اس میں کرپشن کو روکنا کراچی یونیورسٹی کا کام نہیں ہے۔ایکسپریس: گذشتہ چند سالوں سے جامعہ کراچی کے طلبہ میں انتہاپسندی کا رجحان دیکھنے میں آرہا ہے، کیا آپ کو نہیں لگتا کہ طلبا کو صحت مند سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دے کر جامعہ میں انتہاپسندی کا تدارک کیا جاسکتا ہے؟ڈاکٹرمحمد اجمل خان: آپ کا سوال ہمارے ساتھ کچھ زیادتی ہے، یہ سیدھا سیدھا ہم پر الزام ہے۔ کراچی میں جتنی انتہاپسندی ہے جامعہ کراچی میں اس کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ ماضی میں ان الزامات پر جو لوگ پکڑے گئے وہ جامعہ کراچی کے مستقل نہیں بلکہ پاس آؤٹ کرجانے والے طلبا تھے۔ 


جامعہ کراچی چار سال پہلے پاس آؤٹ کر جانے والے طلبا کی سرگرمیوں کی ذمے دار نہیں ہے۔ ہم نے طلبا کو مختلف مثبت سرگرمیوں میں شامل کرنا شروع کردیا ہے، ہماری اسٹوڈنٹ باڈی، ڈبیٹ کروا رہی ہے، فنکشن کروارہی ہے، ادبی سرگرمیاں کروا رہی ہے، ہم کھیلوں کے ایونٹ منعقد کروا رہے ہیں، پہلے یہ کام سیاسی تنظیموں کے طلبہ ونگ کرتے تھے لیکن ہم نے آہستہ آہستہ ان سے درخواست کی کہ آپ کو جو بھی کام کرنا ہے وہ یونیورسٹی کے پلیٹ فارم سے کریں اور اس میں ہمیں خاطر خواہ کام یابی ملی ہے۔ جب ہم جامعات کی سطح پر طلبا کو مثبت سرگرمیوں کے لیے پلیٹ فارم مہیا کریں گے تو پھر اگر جامعات میں انتہاپسندی ہے بھی تو وہ ختم ہوجائے گی۔ایکسپریس: کن موضوعات پر کتابیں پڑھنے کا شوق ہے؟


ڈاکٹرمحمد اجمل خان: جب میں نے ایم ایس سی کیا تو اس زمانے میں اسٹاف کلب کا بڑا اچھا ماحول ہوا کرتا تھا، بڑے بڑے ادیب وہاں آتے تھے۔ اس ماحول میں ہم نے پڑھنا شروع کیا۔ پھر جب ایک بار یہ سلسلہ شروع ہوا تو پھر جتنے بھی بڑے ادیب تھے، میکسم گورکی، دوستو فسکی، سمر سیٹ موم، ٹالسٹائی، الیگزینڈرا پشکن، جارج ایلیٹ، اور دیگر کئی ادیبوں کو پڑھ ڈالا۔ ہمارا ادب پڑھنے کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ بس بسم اللہ پڑھ کر شروع کیا تو پھر پوری کلیکشن پڑھ کر آگے بڑھتے تھے۔ 1975 سے1980تک پانچ سال بہت ادب پڑھا، لیکن جب پی ایچ ڈی کرنے گئے تو یہ سلسلہ موقوف ہوگیا۔ایکسپریس: آپ کا پسندیدہ شاعر اور ادیب کون ہے؟ڈاکٹرمحمد اجمل خان: پسندیدہ ادیبوں کے حوالے ذہن میں سب سے پہلا نام دوستوفسکی کا آتا ہے، اس کے علاوہ سمر سیٹ موم، الیگزینڈر

یوٹیلٹی اسٹورز کی بندش عوام پر ظلم کا ایک اور باب کھلا

 

جناب زولفقار علی بھٹو نےنے 50 سال قبل یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن قائم کی تھی۔بلاول بھٹو نے یوٹیلٹی استورز کی بندش کے معاملے پر اپنے شدید تحفظا ت کا اظہار کرتے ہوئے کہا  کہ ملک کے لوگوں کو سستی اشیا خوردونوش فراہم کرنے کے لیے ریلیف کا کوئی اور ادارہ نہیں ہے اور موجودہ مہنگائی میں یوٹیلٹی اسٹورز کو بند کرنے کا فیصلہ غیر مناسب اور ظالمانہ ہے

 پاکستان پیپلز پارٹی نے یوٹیلٹی اسٹورز بند کرنے کے حکومتی فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یوٹیلٹی سٹورز کی بندش کا فیصلہ سراسر افسوسناک اور ظالمانہ ہے۔میڈیا سے گفتگو میں پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری نے کہا کہ حکومت کا یوٹیلیٹی سٹورز بند کرنے کا فیصلہ  انتہائی افسوسناک ہے، ایسے فیصلے کرنے سے پہلے غور و فکر، بحث اور عوامی مشکلات کو سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔پیپلز پارٹی کی رہنما نے کہا کہ اگر حکومت واقعی عوام کی خدمت کرنا چاہتی ہے تو اس فیصلے کو فوری طور پر واپس لے-امیر جماعت اسلامی پنجاب وسطی محمد جاوید قصوری نے حکومت کی جانب سے یوٹیلٹی اسٹورز کے 1700 شاخیں بند کرنے کے اعلان پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کا ادارہ 1971میں قائم کیا گیا تھا جس کا مقصد غریب عوام کو ریلیف فراہم کرنا تھا،مگر حکمرانوں نے اداروں سے کرپشن کا خاتمہ اوران کو منافع بخش بنانے کے بجائے ان اداروں کو بند کرنا یا بیچنا شروع کر دیا ہے۔




 یہ دور جس میں عام آدمی کی کمر مہنگائ کے بوجھ سے پہلے ہی دہری ہوچکی ہے ایسے میں ہزاروں لوگوں کو بے روزگار کر دینا کتنا سخت ہے اس کو حکومت کو سمجھنا چاہئے  --  صورتحال اس وقت گھمبیر ہے ، حکومت نے 1700شاخیں بند کردیں ہیں۔جن میں 13000سے زیادہ ملازمین ہیں جبکہ     ان کا کہنا تھا کہ معاشی حالات کا تقاضا ہے کہ حکومت بے روز گاری کو کم کرے نہ کہ اس میں اضافہ کرکے عوام کی زندگی اجیرن بنا دے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ آڈٹ کا دائ رہ کار وسیع کرتے ہوئے ماضی میں اٹھائے جانے والے اقدامات کا جائزہ لیا جائے اور نقصانات کے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے۔ادارے بند کرنا مسئلے کا حل نہیں۔انہوں نے کہا کہ رمضان شریف میں مہنگائی تین سو فیصد تک بڑھ چکی ہے مگر حکومت عوام کو ریلیف دینے مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔دو وقت کی روٹی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو چکی ہے بے روزگاری میں ریکارڈ اضافہ ہو گیا ہے لیکن حکمت کی طرف سے پہلے پنجاب اسمبلی کے ممبران کی تنخواہوں میں ہوشربا اضافے اور اب وزراکی تنخواہوں میں بے تحاشا اضافے سے یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ موجودہ حکومت کو عوام میں کوئی دلچسپی نہیں اور سونے پر سہاگہ وفاقی کابینہ میں مزید توسیع عوام پر مزید بوجھ ڈالنے کے مترادف ہے۔ 



ن کا کہنا تھا کہ آج ملک تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے دوچار ہے۔ سود اور قرضوں کی بنیاد پر قائم معیشت کبھی ترقی نہیں کرسکتی، سوشلزم اور کمیونزم کی ناکامی کے بعد سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت کو بھی آزما لیا ہے۔ پاکستان اور دنیا بھر میں معاشی، سیاسی سمیت تمام بحرانوں کا حل اسلامی نظامِ معیشت، معاشرت و حکومت میں ہے۔ پاکستان کی گزشتہ 77 سالہ تاریخ سے ثابت ہے کہ حکمرانوں نے ملک و قوم کے مفاد کی بجائے ہمیشہ ذاتی مفاد کو ترجیح دی اور پاکستان کو معاشی بحران کے ایسے گرداب میں دھکیل دیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ایک طرف حکومت اپنے کرپشن کیسز ختم کرانے کیلیے کوشاں ہے تو دوسری طرف وزیر اعظم، وزیر خارجہ بھاری بھرکم وفود لے کر سرکاری خرچ پر پوری دنیا کے سیر سپاٹے کر رہے ہیں۔جب تک حکومت، مراعات یافتہ طبقہ اپنے لائف سٹائل اور طرزِ حکمرانی میں بنیادی تبدیلی نہیں لائیں گے، عوام کا اعتماد بحال ہو گا اور نہ ہی ملک کے اندر معیشت ٹھیک ہو گی۔ 




یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کا قیام کئی دہائی پہلے عوام کو کھلے بازار کے مقابلے میں روزمرہ ضرورت کی غذائی اشیاء کم قیمت پر فراہم کرنے کے لیے عمل میں لایا گیا تھا۔تاہم پاکستانی قوم جن معاشی مشکلات سے دوچار ہے ان کیلئے متعدد دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ سرکاری اخراجات میں ہر ممکن کمی بھی ناگزیر ہے اور اس کیلئے حکومت کی رائٹ سائزنگ کمیٹی کی سفارشات کے مطابق اٹھائیس وفاقی ادارے بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن بھی ان اداروں میں نہ صرف یہ کہ شامل ہے بلکہ حکومت نے حیرت انگیز طور پر رائٹ سائزنگ کا آغاز اسی ادارے کے خاتمے سے کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ ڈیڑھ ماہ پہلے وسط جولائی میں ان اسٹورز پر دستیاب غذائی اشیاء پر سبسڈی میں بڑا اضافہ کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق اسٹورز میں دستیاب اشیاء پر سبسڈی ختم کرکے انتظامیہ کو لین دین کے معاملات نمٹانے کیلئے دوہفتے کاوقت دیدیا گیا ہے۔ اخراجات میں کمی کے منصوبے میں جو دیگر اقدامات طے کیے گئے ہیں ان کے تحت وزارت تجارت اور سرمایہ کاری بورڈ کو وزارت صنعت و پیداوار میں ضم کیاجائے گا۔




 یوٹیلیٹی اسٹور کارپوریشن کے علاوہ نیشنل فرٹیلائزیشن کارپوریشن‘ قومی فرٹیلائزرمارکیٹنگ اور نیشنل آئی ٹی بورڈکو بھی ختم کیاجائے گا۔ بلاشبہ سرکاری اخراجات میں کمی لازمی ہے ۔ متعدد سرکاری ادارے غیر ضروری ہیں جن کی ملک اور عوام کیلئے کوئی افادیت باقی نہیں رہی یا جن کا نجی شعبے کے سپرد کیا جانا ان کو زیادہ مفید بناسکتا ہے کیونکہ نجی شعبے میں سرکاری اداروں کی طرح کرپشن کا راج ممکن نہیں اور معاملات میرٹ پر آگے بڑھتے ہیں۔ پاکستان میں پچاس سال پہلے نجی بینکوں سمیت تمام صنعتوں اور کاروبار ی اداروں کو سرکاری تحویل میں لینے کا جو تجربہ کیا گیا وہ بری طرح ناکام رہا اور خطے کی سب سے ابھرتی ہوئی معیشت سخت زوال کا شکار ہوگئی۔یوں بھی اب دنیا بھر میں نیشنلائزیشن کا دور ختم ہوگیا ہے اور تجربات نے ثابت کردیا ہے کہ حکومتوں کو اپنا دائرہ کار معاشرے میں عدل و انصاف کو یقینی بنانے، امن وامان قائم رکھنے ، قومی دفاع اور سرحدوں کی حفاظت کا بندوبست کرنے اور کرنسی و خارجہ امور وغیرہ تک محددو رکھنا چاہیے

پاکستان کا علمی سرمایہ'ڈاکٹر محمد اجمل خان وائس چانسلر آف کراچی یونیورسٹی -part'5

 

حال ہی میں مرکزی ہراسمنٹ کمیٹی نے ایک فیکلٹی ممبر کے خلاف سخت فیصلہ کرتے ہوئے انہیں نوکری سے فارغ کردیا، لیکن ہم اس سزا پر عمل درآمد اس لیے نہیں کرسکے کہ ان صاحب کا کیس ہائی کورٹ میں اور گورنر سندھ کے پاس ہے، اب جو عدالت اور گورنر کا فیصلہ ہوگا ہم اس پر عمل درآمد کردیں گے۔ایکسپریس: آ پ جامعہ کراچی کے ’انسٹی ٹیوٹ آف سسٹین ایبل ہیلو فائٹ یوٹیلائیزیشن ‘ کے بانی ڈائریکٹر بھی رہے ہیں، اس شعبے کے اغراض و مقاصد کیا ہیں؟ڈاکٹرمحمد اجمل خان: پوری دنیا میں بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے میٹھے پانی کے ذخائر کم ہورہے ہیں، دوسری بات یہ کہ جب آپ کوئی اَن کنٹرولڈ فصل کاشت کرتے ہیں تو اس سے بھی زمین میں کھاراپن بڑھ جاتا ہے۔ پودے ایک حد تک نمک برداشت کرتے ہیں، اس کے بعد وہ پنپ نہیں سکتے اور جس زمین پر نمک بڑھ جائے وہاں کوئی اور فصل بھی نہیں لگ سکتی۔


 اب تین مسائل ہمیں درپیش ہیں اول، پانی کی کمی، زمین کا کھاراپن اور بڑھتی ہوئی آبادی۔ ان تینوں کو ساتھ ملا لیں یہ ایک تباہی کی ترکیب ہے، یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے، انڈیا کے راجستھان سے لے کر مراکو تک سارا صحرا ہے، جہاں میٹھا پانی نہ ہونے کے برابر یا نہیں ہے۔خلیجی ممالک میں آج بھی پانی پیٹرول سے مہنگا ہے، کیو ں کہ وہ سمندر کے کھارے پانی کو میٹھا کرکے استعمال کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں پودوں کی ڈھائی ہزار اقسام ایسی ہیں جو نمکیات والی زمین پر نشوونما پاسکتے ہیں، ان پودوں کو بایو فیول، کیمیکل، خوردنی تیل، دلیے جانوروں کے چارے اور بہت سے معاشی فوائد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔انسٹی ٹیوٹ آف سسٹین ایبل ہیلو فائٹ یوٹیلائیزیشن‘ میں ہم ایسے تمام پودوں جیسے ہیلو فائٹ (نمکین زمین قدرتی طور پر اُگنے والا پودا) پر تحقیق اور ان کے اقتصادی استعمال پر کام کرتے ہیں۔


 ہم نے دو سال قبل تھر میں آزمائشی طور پر ہیلو فائٹ نسل کی ایک گھاس لگائی تھی، جہاں یہ تجربہ بہت کام یاب رہا ہے۔ سندھ لائیو اسٹاک کا ایک بہت بڑا مرکز ہے، اگر ہم اس گھاس کو پورے سندھ میں لگا دیں تو یہاں قحط کبھی نہیں آئے گا۔ سیم و تھور کی وجہ سے سندھ میں بنجر ہونے والی ہزاروں ایکٹر زمین پر اس نسل کے دوسرے پودے بھی لگائے جاسکتے ہیں۔ اگر ہمارے اس منصوبے کو عملی طور پر صرف تھر میں ہی نافذ کردیا جائے تو تھر پاکستان کا امیر ترین علاقہ بن سکتا ہے ۔ایکسپریس: ایک عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ جامعہ کراچی میں داخلے اور ملازمت دونوں ہی سفارش اور کسی سیاسی دباؤ کی بنیا د پر ملتی ہیں، یہ بات کس حد تک درست ہے؟ڈاکٹرمحمد اجمل خان: جب میں نے وائس چانسلر کا عہدہ سنبھالا تو داخلے کے لیے سفارش کرنے والوں کی وجہ سے میرا فون بجتا ہی رہتا تھا، 


میں نے اس معاملے میں اپنے کئی دوستوں اور بڑے بڑے لوگوں کو بھی ناراض کیا ہے۔ جہاں تک بات ہے تقرری کی تو پچھلے دو سال میں جو انٹری لیول کی بھرتیاں ہوئی ہیں آپ ان کا معیار اٹھا کر دیکھ لیں۔ ہم سلیکشن بورڈ میں پورے پاکستان کے لوگوں کو شامل کرتے ہیں۔ یہاں لوگوں کو تکلیف اسی بات کی ہے کہ ہم نے نئی بھرتیوں میں کرپشن کے دروازے مکمل طور پر بند کردیے ہیں، ہاں جو سیاسی اور سفارشی بنیاد پر مجھ سے پہلے بھرتی ہوچکے ہیں ان کے بارے میں ہم بعد میں فیصلہ کریں گے- اب لوگوں کی سمجھ میں یہ بات بھی آچکی ہے کہ داخلے اور کسی تقرری کے معاملے میں ڈاکٹر محمد اجمل خان سے کسی رعایت یا سفارش کی کوئی امید نہیں ہے۔


ایکسپریس: آپ طلبا یونین کی بحالی کے حق میں ہیں اور آپ نے اپنی تقرری کے بعد چیئرمین سینیٹ کو اس حوالے سے ایک خط بھی لکھا تھا، وہ کیا عوامل ہیں جن کی بنیاد پر طلبا یونینز کو بحال نہیں کیا جارہا؟ڈاکٹرمحمد اجمل خان: بالکل میں طلبا یونین کے حق میں ہوں اور پہلے بھی کئی بار اس بارے میں بات کرچکا ہوں۔ جہاں تک چیئرمین سینیٹ کو خط لکھنے اور کوئی پیش رفت نہ ہونے کا مسئلہ ہے تو یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جامعات میں ایک کُھلا ماحول ہونا چاہیے، کسی انفرادی رویے اور نظریے پر پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ سب کو آزادی سے اپنی بات کہنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ معاشرے میں برا سمجھا جانے والا آئیڈیا ایک کھلے ماحول میں بحث کے بعد خود ہی ختم ہوجائے گا۔اسے پیش کرنے والے والے لوگ بھی خود ہی سائیڈ لائن ہوجائیں گے، 


لیکن اگر آ پ انہیں زور اور جبر سے روکیں گے تو اس سے بغاوت پیدا ہوگی۔ جامعات کا تو کام ہی طلبا کو بحث و مباحثے کا کُھلا ماحول فراہم کرنا ہے تاکہ وہ اپنے علم کی تلوار سے خراب آئیڈیاز کو کاٹ کر ختم کرسکیں ۔ طلبا یونین آئیڈیاز پر بحث و مباحثے اور اچھے آئیڈیاز کے فروغ کے لیے ایک مثبت پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں طلبا یونین کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا جس سے اس کا اصل مقصد فوت ہوگیا- سیاست کرنا گندا کام نہیں ہے، لیکن سیاست کے نام پر تشدد کرنا، غلط کام ہے، بدمعاشی کرنا گندا کام ہے، یونیورسٹی کے سسٹم پر کنٹرول حاصل کرنا گندا کام ہے۔ایکسپریس: پوائنٹس جامعہ کراچی کا دیرینہ مسئلہ ہے، جامعہ کراچی میں ٹرانسپورٹ کے حوالے سے مسائل پر آپ کا کیا کہنا ہےڈاکٹرمحمد اجمل خان: جامعہ کراچی میں 41ہزار طلبا زیرتعلیم ہیں،


 ان سب کو گھر سے لانا اور لے جانا انتظامی طور پر ممکن نہیں ہے۔ہمیں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے جو ایک ارب اسی کروڑ کی گرانٹ دی گئی ہے اس میں پوائنٹس کے لیے دس بسیں بھی شامل ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جو انحطاط پوری جامعہ کراچی پر آیا اس کے اثرات ٹرانسپورٹ پر بھی مرتب ہوئے۔ پوائنٹس چلانے میں ماہانہ خرچہ ساڑھے تین کروڑ اور ریکوری پچاس لاکھ روپے سے بھی کم ہے۔ اس میں ہونے والی کرپشن کو روکنا ہماری ترجیح تو ہے لیکن ابھی اولین ترجیح اس سے بڑے معاملات میں کرپشن کو روکنا ہے۔ دنیا بھر میں کوئی بھی تعلیمی ادارہ اس بات کا وعدہ نہیں کرتا کہ آپ کو گھر سے لانے لے جانے کے لیے ٹرانسپورٹ دی جائے گی، نوکری دی جائے گی۔آپ نے پڑھنے کے لیے داخلہ لیا ہے تو یونیورسٹی پہنچنا آپ کی ذمے داری ہے، ہاں یونیورسٹی کے اندر شٹل سروس کی فراہمی یونیورسٹی کی ذمے داری ہے ۔


 میری ان باتوں کا مطلب یہ نہ لیا جائے کہ ہم پوائنٹ کی سہولت ختم کر رہے ہیں، لیکن ہم ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے وابستہ نہیں اور اکتالیس ہزار لوگوں کو لانے لے جانے کے لیے چار سے پانچ ہزار بسیں چاہییں۔ اسے مینیج کرنا، اس میں کرپشن کو روکنا کراچی یونیورسٹی کا کام نہیں ہے۔ایکسپریس: گذشتہ چند سالوں سے جامعہ کراچی کے طلبہ میں انتہاپسندی کا رجحان دیکھنے میں آرہا ہے، کیا آپ کو نہیں لگتا کہ طلبا کو صحت مند سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دے کر جامعہ میں انتہاپسندی کا تدارک کیا جاسکتا ہے؟ڈاکٹرمحمد اجمل خان: آپ کا سوال ہمارے ساتھ کچھ زیادتی ہے، یہ سیدھا سیدھا ہم پر الزام ہے۔ کراچی میں جتنی انتہاپسندی ہے جامعہ کراچی میں اس کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ ماضی میں ان الزامات پر جو لوگ پکڑے گئے وہ جامعہ کراچی کے مستقل نہیں بلکہ پاس آؤٹ کرجانے والے طلبا تھے۔ 


جامعہ کراچی چار سال پہلے پاس آؤٹ کر جانے والے طلبا کی سرگرمیوں کی ذمے دار نہیں ہے۔ ہم نے طلبا کو مختلف مثبت سرگرمیوں میں شامل کرنا شروع کردیا ہے، ہماری اسٹوڈنٹ باڈی، ڈبیٹ کروا رہی ہے، فنکشن کروارہی ہے، ادبی سرگرمیاں کروا رہی ہے، ہم کھیلوں کے ایونٹ منعقد کروا رہے ہیں، پہلے یہ کام سیاسی تنظیموں کے طلبہ ونگ کرتے تھے لیکن ہم نے آہستہ آہستہ ان سے درخواست کی کہ آپ کو جو بھی کام کرنا ہے وہ یونیورسٹی کے پلیٹ فارم سے کریں اور اس میں ہمیں خاطر خواہ کام یابی ملی ہے۔ جب ہم جامعات کی سطح پر طلبا کو مثبت سرگرمیوں کے لیے پلیٹ فارم مہیا کریں گے تو پھر اگر جامعات میں انتہاپسندی ہے بھی تو وہ ختم ہوجائے گی۔ایکسپریس: کن موضوعات پر کتابیں پڑھنے کا شوق ہے؟


ڈاکٹرمحمد اجمل خان: جب میں نے ایم ایس سی کیا تو اس زمانے میں اسٹاف کلب کا بڑا اچھا ماحول ہوا کرتا تھا، بڑے بڑے ادیب وہاں آتے تھے۔ اس ماحول میں ہم نے پڑھنا شروع کیا۔ پھر جب ایک بار یہ سلسلہ شروع ہوا تو پھر جتنے بھی بڑے ادیب تھے، میکسم گورکی، دوستو فسکی، سمر سیٹ موم، ٹالسٹائی، الیگزینڈرا پشکن، جارج ایلیٹ، اور دیگر کئی ادیبوں کو پڑھ ڈالا۔ ہمارا ادب پڑھنے کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ بس بسم اللہ پڑھ کر شروع کیا تو پھر پوری کلیکشن پڑھ کر آگے بڑھتے تھے۔ 1975 سے1980تک پانچ سال بہت ادب پڑھا، لیکن جب پی ایچ ڈی کرنے گئے تو یہ سلسلہ موقوف ہوگیا۔ایکسپریس: آپ کا پسندیدہ شاعر اور ادیب کون ہے؟ڈاکٹرمحمد اجمل خان: پسندیدہ ادیبوں کے حوالے ذہن میں سب سے پہلا نام دوستوفسکی کا آتا ہے، اس کے علاوہ سمر سیٹ موم، الیگزینڈ

اتوار، 23 مارچ، 2025

پاکستان کا علمی سرمایہ'ڈاکٹر محمد اجمل خان وائس چانسلر آف کراچی یونیورسٹی part4

 

 ڈاکٹر اجمل :آپ پرائمری کی تعلیم پر سرمایہ کاری کریں گے تو اس سے سکینڈری کی تعلیم اچھی ہوگی، جب سیکنڈری تعلیم اچھی ہوگی تو کالج کی تعلیم اچھی ہوگی، اسی طرح یونیورسٹی میں تعلیم کا معیار بہت بلند ہوگا۔ جب شروع سے آخر تک پراڈکٹ اچھی ہوگی تو ہم آگے ترقی کریں گے ناں! ہماری جامعات کے پیچھے جانے کی سب سے بڑی وجہ سرمائے کی کمی ہے۔ میں ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں، حکومت پاکستان کے پندرہ کروڑ روپے خرچ کرکے ہم نے ’انسٹی ٹیوٹ آف سسٹین ایبل ہیلو فائٹ یوٹیلائیزیشن‘ بنایا، ہم نے شروع میں اعلٰی معیاری آلات خرید لیے، لیکن اب اس انسٹی ٹیوٹ کو مینٹین کرنے کے لیے ہمارے پاس فنڈز نہیں ہیں، ایک چھوٹا سا آلہ بھی خراب ہوجائے تو پانچ سے دس لاکھ کا آتا ہے، لیکن یہاں تو اس انسٹی ٹیوٹ کی پوری گرانٹ ہی پندرہ سے بیس لاکھ ہے تو اس میں ہم اسے کیسے چلا سکتے ہیں؟اب آپ خود اندازہ لگا لیجیے کہ صرف ایک انسٹی ٹیوٹ کو چلانے کے لیے کروڑوں روپے چاہییں تو پھر پوری یونیورسٹی کو چلانے کے لیے کتنا پیسا چاہیے؟ 


 میں آپ کو ایک اہم بات بتاؤں سائنس سرمایہ مانگتی ہے، ہماری اشرافیہ اور بیوروکریسی کو سائنس کا صحیح معنوں میں ادراک ہی نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو وہ ہمیں دکھا نہیں رہے۔ جس طرح آپ آم کا ایک درخت لگا کر پھل کے لیے پانچ سال انتظار کرتے ہیں، جس طرح آپ ایک بچے کو بیس پچیس سال تک پیسے خرچ کرکے کسی قابل بناتے ہیں، اسی طرح سائنس کو پالنا پڑتا ہے، اس کی کم از کم بیس سے پچیس سال تک آب یاری کرنی پڑتی ہے۔چین نے سائنس کو پالا پوسا اور آج وہ تھرڈورلڈ کنٹری سے دنیا کا لیڈنگ ملک بن گیا ہے۔ ہمارا تو یہ حال ہے کہ پانچ لاکھ روپے کی گرانٹ دے کر پوچھتے ہیں کہ اس گرانٹ سے پاکستان میں کیا تبدیلی آئے گی؟ تبدیلی پانچ لاکھ کی سرمایہ کاری سے نہیں آئے گی، مستقبل میں ترقی کے لیے آپ کو سائنس میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرنی پڑے گی۔


چین آج سے نہیں بلکہ 1977سے سائنس میں سرمایہ کاری کر رہا ہے اور آج اس سرمایہ کاری کا پھل کھا رہا ہے۔ پاکستان کو ترقی کرنا ہے تو پھر سائنس میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی، اور یہ سرمایہ کاری آج سے ہوگی تو اس کا پھل بیس پچیس سال بعد ملے گا۔ میں آپ کو ایک بات اور بتاؤں، جامعہ کراچی بہت بڑا تعلیمی ادارہ ہے اور یہ ڈوبتے ڈوبتے بھی پاکستان کے کسی بھی تعلیمی ادارے سے بہتر ہے، آپ ہمیں دس سال سپورٹ کریں تو پھر ہم بتاتے ہیں کہ ہم پاکستان کی ترقی اور معاشی نمو کے لیے کتنا اچھا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ہمارے پاس کیپیسٹی ہے، پوٹینشل ہے، کام کرنے والے لوگ ہیں۔ لیکن ہمارے لوگ بددل ہوکر سائنس سے دور جارہے ہیں، سیاست میں لگے ہوئے ہیں۔ ان سب کو شامل کرنے کی ضرورت ہے ، یہ پاکستان کا قابل قدر اثاثہ ہیں


۔ایکسپریس: جدید ٹیکنالوجی سے ایک طرف طالب علموں کے لیے سہولیات پیدا ہوئیں تو دوسری جانب اس سے ’کاپی پیسٹ‘ کلچر کو بھی فروغ ملا، اس بارے میں کیا کہیں گے؟ جامعہ کراچی میں سرقے کے سدباب کے لیے آپ نے کیا اقدامات کیے ہیں؟ڈاکٹرمحمد اجمل خان: سرقے کے لیے جامعہ کراچی میں زیروٹالرینس پالیسی ہے، اس کے لیے ہمارا ایک طریقۂ کار ہے۔ ٹیکنالوجی سے جہاں کاپی پیسٹ کرنا آسان ہوا اسی ٹیکنالوجی سے اس چوری کو پکڑنا بھی آسان ہوگیا ہے۔ جب پوری دنیا میں سائنس ترقی کا آغاز ہو ا تو وہاں پر بڑے پیمانے پر سرقہ ہونا شروع ہوا، لیکن جب چوری پکڑی جانے لگی تو وہاں یہ کاپی پیسٹ کا کلچر بھی بتدریج ختم ہوگیا۔


 ہم اس سطح تک پہنچے بھی نہیں تھے کہ سائنس میں سرمایہ کاری ختم کردی گئی، میری مراد ہائرایجوکیشن کمیشن سے ہے۔اس کی گرانٹ، ترقی کم کردی گئی، اچھا کام کرنے والے لوگوں کو ہٹا دیا گیا تو ہماری جو بھی کارکردگی تھی وہ وہیں ختم ہوگئی۔ جب ہر ایک کے پاس کمپیوٹر ہوگا، ہر ایک انٹرنیٹ پر مواد سرچ کر رہا ہوگا، جب ہر ایک دوسرے کی چوری پکڑ رہا ہوگا تو یہ مسئلہ خود ہی ختم ہوجائے گا۔ایکسپریس: جامعہ کراچی میں طالبات کے ساتھ جنسی ہراسگی کے کچھ واقعات رونما ہوئے، جن کی تحقیقات کے لیے کمیٹیاں بھی بنائی گئیں، ان تحقیقات میں کیا پیش رفت ہوئی؟ڈاکٹرمحمد اجمل خان: جنسی ہراسگی کے سدباب کے لیے ہم نے ہر شعبے میں ایک ہراسمنٹ کمیٹی بنائی ہے، جو ایک مرکزی کمیٹی کے سامنے جواب دہ ہے۔ 

 

پاکستان کا علمی سرمایہ'ڈاکٹر محمد اجمل خان وائس چانسلر آف کراچی یونیورسٹی part'3

 

ڈاکٹرمحمد اجمل خان: ہم نے جامعہ میں گیس کے نئے میٹر لگوانے کے لیے سو ئی سدرن گیس کمپنی کو چار کروڑ روپے دیے ہیں، میٹر کے علاوہ ان کی بہت ساری لائینیں پرانی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھیں، جن سے گیس لیک ہونے کی وجہ سے ہمارا بل زیادہ آتا تھا۔ اس کے علاوہ جامعہ میں چلنے والی کینٹینز میں گیس کا استعمال بہت زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر ایک کینٹین میں میٹر لگوانے کے بعد ہمیں پتا چلا کہ اس کا ماہانہ بل تو ایک لاکھ چالیس ہزار کا ہے اور کراچی یونیورسٹی ابھی تک اسے فنڈ کرتی رہی تھی۔ یہی حال کم و بیش دوسری کینٹینز کا بھی ہے۔میٹر لگوانے سے ہماری ریکوری لاکھوں سے بڑھ کر کروڑوں میں چلی جائے گی اور گیس کا لوڈ بھی بہت کم جائے گا۔ یہی معاملہ کے الیکٹرک کا ہے۔ کے الیکٹرک ابھی تک ہمیں بلک میں بجلی دیتی تھی اور وہ ہمارے ہاں میٹ  ر لگانے پر تیار نہیں ہورہے تھے۔ ہم نے اس مسئلے پر ان سے بات کی اور دو سال بعد اب وہ میٹر لگانے پر تیار ہوگئے ہیں۔


 جامعہ کراچی کے رہائشی علاقے میں واقع کسی گھر میں میٹر نہیں لگا ہوا، وہاں کا ماہانہ بل ایک سو سے سوا کروڑ روپے آتا ہے، لیکن کلیکشن صرف دس سے بارہ لاکھ ہے یعنی ہم ہر ماہ انہیں صرف بجلی کے بل کی مد میں ہی ایک کروڑ سے اوپر کی سبسڈی دیتے ہیں۔ میٹر لگنے کے بعد ہم پر سے یہ بوجھ کم ہوجائے گا۔یک دوسرا مسئلہ جامعہ کراچی کی زمین پر موجود پیٹرول پمپ ہے۔ اس کی وجہ سے ہمیں مہنگی بجلی خریدنی پڑتی ہے۔ کے الیکٹرک کا موقف یہ ہے کہ یہ کمرشل ادارہ ہے تو اس کی بلنگ بھی کمرشل ریٹ پر کی جائے گی۔ ہماری بلنگ بلک میں ہوتی ہے اور بلک میں کمرشل ریٹ الگ نہیں ہے تو کے الیکٹرک ہم سے فی یونٹ قیمت سب سے مہنگے ریٹ پر چارج کرتی ہے۔ اب ہم کوشش کر رہے ہیں کہ اس پیٹرول پمپ کو جامعہ سے الگ کرکے کے الیکٹرک سے کہیں کہ ان سے کمرشل ریٹ پر بجلی چارج کرو اور ہمیں سبسڈی ریٹ پر بجلی دو۔ اگر وہ مان جاتے ہیں تو ہمارا ماہانہ بجلی کا بل جو ڈھائی سے تین کروڑ روپے آتا ہے وہ ایک کروڑ سے بھی کم ہوجائے گا۔


 اب رہی بات پیٹرول پمپ کی تو یہ بہت پہلے لیز پر دیا گیا تھا اور یہ لیز بھی مشتبہ ہے۔ اس کے معاملات سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اسے ایک نجی پارٹٰی چلاتی ہے، ہمیں تو ہر ماہ ایک برائے نام رقم کرائے کی مد میں ملتی ہے۔ایکسپریس: پانی کے بل کی عدم ادائیگی کی وجہ سے جامعہ کراچی کی پانی کی لائن کئی مرتبہ منقطع کردی گئی۔ کیا اب بھی جامعہ کراچی کو یوٹیلیٹی مسائل کا سامنا ہے؟ڈاکٹرمحمد اجمل خان: ہم نے جامعہ میں گیس کے نئے میٹر لگوانے کے لیے سو ئی سدرن گیس کمپنی کو چار کروڑ روپے دیے ہیں، میٹر کے علاوہ ان کی بہت ساری لائینیں پرانی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھیں، جن سے گیس لیک ہونے کی وجہ سے ہمارا بل زیادہ آتا تھا۔ اس کے علاوہ جامعہ میں چلنے والی کینٹینز میں گیس کا استعمال بہت زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر ایک کینٹین میں میٹر لگوانے کے بعد ہمیں پتا چلا کہ اس کا ماہانہ بل تو ایک لاکھ چالیس ہزار کا ہے اور کراچی یونیورسٹی ابھی تک اسے فنڈ کرتی رہی تھی۔ یہی حال کم و بیش دوسری کینٹینز کا بھی ہے 


ڈاکٹرمحمد اجمل خان: جامعہ کراچی میں پانی ایک بڑا مسئلہ ہے، ہمارا پانی کا بل تقریباً سوا کروڑ روپے ماہانہ آتا تھا، پھر ہمیں کہا گیا کہ میٹر لگوالیں تاکہ ہمیں پتا چل سکے کہ ہم حقیقت میں کتنا پانی استعمال کر رہے ہیں۔ میٹر لگوانے میں ایک کروڑ روپے کا خرچہ تھا جو کہ ہمیں ایک مخیر کاروباری شخصیت نے فراہم کر دیے ۔ ان پیسوں سے ہم مرکزی لائن پر میٹر لگوائے، جس کے بعد سے ہمارا پانی کا ماہانہ بل پینتالیس سے پیسنٹھ لاکھ روپے تک آرہا ہے ۔ اس کام سے ہمیں ماہانہ چالیس سے پچاس لاکھ ماہانہ بچت ہو رہی ہے۔ایکسپریس: اوورٹائم کی عدم ادائیگی جامعہ کراچی کے ملازمین میں بے چینی کا ایک اہم سبب ہے اور اس وجہ سے وہ متعدد بار احتجاج بھی کرچکے ہیں، اس بارے میں کیا کہیں گے؟ڈاکٹرمحمد اجمل خان: جی بالکل اوورٹائم کا طریقہ کار تبدیل کردیا گیا ہے، اوورٹائم کی مد میں ہونے والی غیر ضروری ادائیگیوں کو بھی ختم کردیا گیا ہے۔ اب صرف چند دفتروں میں اوورٹائم کی مد میں ادائیگیاں کی جارہی ہیں اور وہاں بھی ضرورت کے تحت جتنی دیر اسٹاف کو روکا جاتا ہے اس کے مطابق انہیں متعلقہ اوورٹائم دیا جاتا ہے، جب کہ اس سے پہلے اوورٹائم تنخواہ کا حصہ بن چکا تھا جس کو ختم کیا گیا۔ غیرضروری اوورٹائم ختم کرکے ہر ماہ ایک خطیر رقم کی بچت ہورہی ہے۔


ایکسپریس: پاکستان کے نظام تعلیم میں بہتری اور اسے بین الاقوامی معیار سے ہم آہنگ کرنے کے لیے جامعات کی سطح پر کن اقدامات کی ضرورت ہے؟ دیگر ممالک کے برعکس ہمارے ہاں جامعات کی سطح پر تحقیقی کام اس سطح پر نہیں ہو پارہا، جو کہ ہونا چاہیے، اس کے اسباب؟ڈاکٹرمحمد اجمل خان: دیکھیں آپ جو بوتے ہیں وہی کاٹتے ہیں، اگر آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں تو ریل گاڑی میں سفر کریں گے، اور اگر پیسے ہیں تو آپ ایک لگژری گاڑی میں سفر کریں گے۔ مجھے یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں کہ پاکستان میں تعلیم کا بجٹ شرم ناک حد تک کم ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں، یہ قوم کا معاملہ ہے۔ جب آپ تعلیم میں سرمایہ کاری ہی نہیں کریں گے تو پھر بہتری کی کیا امید رکھ سکتے ہیں؟ آپ اعلٰی تعلیم، اعلٰی تحقیق پر سرمایہ کاری کریں یہ آپ کو آخر میں ٹیکنالوجی دے گی، دولت دے گی، ترقی دے گی۔ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ میں جب انیس سو اسی میں امریکا گیا تو صرف میری یونیورسٹی میں ہی چین سے فل اسکالرشپ پر کافی طلبا آرہے تھے۔چین کی اُس وقت کی سرمایہ کاری نے آج اسے کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر