ڈاکٹر ثاقب انصاری کی سرپرستی میں قائم عمیر ثناء فاؤنڈیشن -ڈاکٹر ثاقب انصاری کی سرپرستی میں قائم عمیر ثناء فاؤنڈیشن نہ صرف مختلف فلاحی کاموں میں سرگرم ہے بلکہ اس کا سب سے اہم مشن تھیلے سیمیا کے مریض بچوں کی زندگیوں میں امید کی روشنی بکھیرنا ہے۔ خاص طور پر رمضان المبارک میں منعقد ہونے والی خون عطیہ کرنے کی خصوصی تقریب… جو کئی برسوں سے جاری ہے… اس مشن کا ایک خوب صورت لمحہ ہے، جس میں نہ صرف خون کا عطیہ بچوں کے لیے، لیا جاتا ہے بلکہ تھیلے سیمیا کے شکار بچے اور ان کے والدین بھی اس تقریب میں موجود ہوتے ہیں جنہیں خوبصورت تحائف بھی دیے جاتے ہیں۔ چند صحافیوں کے خلوص سے شروع ہونے والا یہ کارِ خیر آج ایک اہم روایت بن چکا ہے۔ تھیلے سیمیا کے مریض معصوم بچوں کے چہروں پر جو خوشی اور مسرت اس تقریب کے ذریعے آتی ہے، وہ کسی بھی لفظی بیان سے بالاتر ہے۔ امسال بھی یہ تقریب عمرثناء فاونڈیشن سے متصل مقامی ہال میں منعقد ہوئی جس میں صحافیوں سمیت مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔انسانی زندگی میں خون کی اہمیت کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اسے نہ کسی فیکٹری میں تیار کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کی فصل کاشت کی جاسکتی ہے۔
یہ ایک ایسا عطیہ ہے جو اگر کوئی دیتا ہے تو کسی نہ کسی انسان کی زندگی بچا رہا ہوتا ہے۔ یہ جسم کے ہر حصے میں آکسیجن اور غذائی اجزاء پہنچانے کے ساتھ ساتھ فاسد مواد کو خارج کرنے میں بھی مدد دیتا ہے۔ خون کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہر سال ہزاروں قیمتی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں۔ انسانی جان بچانے والے اس اہم ترین عطیے کو دینے کا پاکستان میں رجحان بہت زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے، اور ایک محتاط اندازے کے مطابق اس میں ہر سال چھے ہزار بچوں کا اضافہ ہورہا ہے۔تھیلے سیمیا ایک موروثی بیماری ہے جس میں خون کے سرخ خلیے صحیح طریقے سے نہیں بنتے، جس کی وجہ سے مریض کو زندگی بھر خون کی منتقلی کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ بیماری بنیادی طور پر والدین سے بچوں میں جینیاتی طور پر منتقل ہوتی ہے اور دنیا بھر میں لاکھوں افراد اس سے متاثر ہیں۔ اس کے مریض میں کوئی خاص علامات نہیں ہوتیں، اور یہ صرف خون کے معمولی معائنے میں ظاہر ہوتی ہے۔تھیلے سیمیا میجر سے متاثرہ بچے میں پیدائش کے چھے ماہ بعد اس کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ ان بچوں کے جسم میں خون کے سرخ خلیے یا ہیموگلوبن بنانے کی صلاحیت نہ ہونے کے باعث خون کی شدید کمی ہوجاتی ہے۔ اگر مسلسل خون کی منتقلی نہ ہو اور ادویہ نہ ملیں تو ان کی ہڈیوں کی ساخت تبدیل ہونے لگتی ہ
ے، اور وہ دیگر بچوں کے مقابلے میں جسمانی نشوونما میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔یہ بچے زندگی کے ابتدائی دس سالوں میں ہی مختلف پیچیدگیوں کا شکار ہوکر موت کے منہ میں جا سکتے ہیں۔ ان کے لیے ہر ماہ ہیموگلوبن چیک کروانا ضروری ہوتا ہے، تاکہ وقت پر خون کی منتقلی کی جاسکے۔ یہ عمل بہت تکلیف دہ ہوتا ہے اور مریض کو مسلسل جسمانی اور ذہنی دباؤ میں رکھتا ہے۔چونکہ تھیلے سیمیا ایک جینیاتی بیماری ہے، اس لیے ڈاکٹر ثاقب انصاری کے مطابق اس سے بچاؤ کے لیے سب سے اہم اقدام شادی سے پہلے خون کا ٹیسٹ کروانا ہے۔ اگر میاں بیوی تھیلے سیمیا مائنر ہوں تو ان کے بچوں میں تھیلے سیمیا میجر ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔حالیہ میڈیکل ریسرچ کے مطابق تھیلے سیمیا کے مستقل علاج کے لیے بون میرو ٹرانسپلانٹ ایک مؤثر طریقہ ہے، لیکن یہ ایک مہنگا اور پیچیدہ علاج ہے، جو ہر مریض کی دسترس میں نہیں ہوتا۔ لہٰذا خون کی مسلسل منتقلی ہی اس بیماری کا عام علاج ہے۔ہر سال ہزاروں بچے بیٹا تھیلے سیمیا کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں اور انہیں زندگی بھر خون کی منتقلی کی ضرورت ہوتی ہے۔
نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق، 15 سے 49 سال کی عمر کی 57 فیصد خواتین اور چھے ماہ سے پانچ سال کی عمر کے 67 فیصد سے زائد بچے خون کی کمی کا شکار ہیں۔ عالمی ادارئہ صحت کے مطابق، اگر بچوں کا ہیموگلوبن لیول 7 گرام فی ڈیسی لیٹر سے کم ہوجائے تو اسے خون کی شدید کمی سمجھا جاتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ عمیر ثناء فاؤنڈیشن کی اس کاوش اور تحریک کو آگے بڑھایا جائے اور خون کا عطیہ کرنے کے جذبے کو اپنے دیگر منصوبوں اور ترجیحات کی طرح اہمیت دی جائے۔ خون کا عطیہ جہاں ضرورت مندوں کی ضرورت کو پورا کرتا ہے، وہیں دینے والے کی صحت کے لیے بھی بہت مفید عمل ہے۔ ماہرین کے مطابق صحت مند افراد ہر تین سے چار ماہ بعد خون عطیہ کرسکتے ہیں، اور اس کا صحت پر کوئی منفی اثر نہیں ہوتا۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ خون عطیہ کرنے سے جسم کمزور ہوجاتا ہے، حالانکہ یہ تصور غلط ہے۔ اس سے صحت پر منفی کے بجائے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں، کیونکہ دیے جانے والے خون کی کمی تین دن کے اندر پوری ہوجاتی ہے۔ میڈیکل سائنس کہتی ہے کہ ہر انسان کے اندر تقریباً ایک لیٹر یا 2 سے 3بوتلیں اضافی خون ہوتا ہے اور 56 دن کے اندر خون کے 100فیصد خلیے دوبارہ تیار ہوجاتے ہیں۔ اور بات صرف اتنی سی نہیں ہے بلکہ خون کے یہ خلیے پرانے خلیوں کی نسبت زیادہ صحت مند ہوت
ے ہیں۔ نیا خون بننے کے عمل سے قوتِ مدافعت بڑھتی ہے، مٹاپے میں مبتلا ہونے کا خطرہ کم ہوجاتا ہے، اور کولیسٹرول بھی قابو میں رہتا ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ خون عطیہ کرنے والے افراد میں دل کی بیماریوں اور ہائی بلڈ پریشر کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔جو لوگ اچھی صحت کے حامل ہوں، جن کی کم سے کم عمر 17 اور زیادہ سے زیادہ 50سال ہو (خواتین کی عمر کم سے کم 18 سال ہو)، وزن کم سے کم 110 پائونڈ ہو، پچھلے 56 دن سے خون نہ دیا ہو، انہیں فوراً خون دینا چاہیے۔ لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرنے کے لیے ہمارے پاس جو کچھ ہو وہ ہمیں دینا چاہیے۔دوسروں کی مدد کرنے سے انسان کو دلی سکون اور خوشی حاصل ہوتی ہے، جو ذہنی صحت کے لیے فائدہ مند ہے-اسی پس منظر میں، چند سال قبل ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے شعبہ طبِ نفسیات کے سابق سربراہ نے ایک نہایت بصیرت افروز بات کہی تھی، جو آج بھی دل و دماغ پر دستک دیتی ہے۔ انہوں نے کہا تھا:زندگی میں دینا سیکھیں۔ کسی کو پیسہ دیں، کسی کو وقت، کسی کو مشورہ، کسی کو راستہ، کسی کو علم…بس دینے کا عمل شروع کریں۔ دینے کی صفت دراصل اللہ کی صفت ہے، اور جب آپ دینا شروع کردیتے ہیں تو آپ کی نسبت الرحمٰن سے جُڑ جاتی ہے۔ پھر نہ آپ مایوسی کا شکار ہوتے ہیں، نہ ہی ذہنی تناؤ میں مبتلا ہوتے ہیں۔ جتنا زیادہ آپ دوسروں کو نوازیں گے، اتنا ہی آپ کی زندگی میں خوشیاں بڑھتی جائیں گی۔ بس ایک عہد کرلیں کہ ہر مہینے کسی نہ کسی کو کچھ ضرور دینا ہے۔“آیئے، ہم بھی ایک ایسا عہد باندھیں جو کسی کی زندگی کا چراغ جلا سکے۔ اگر سال میں دو مرتبہ ممکن نہ ہو تو کم از کم ایک بار خون کا عطیہ ضرور دیں۔ خاص طور پر رمضان المبارک میں، جب تھیلے سیمیا کے مریض معصوم بچوں کو خون کی شدید قلت کا سامنا ہوتا ہے، ہم ان کے لیے زندگی کی ایک نئی امید بن سکتے ہیں۔ کیونکہ دینے والے ہاتھ ہمیشہ بھرتے ہیں، کبھی خالی نہیں رہتے۔