منگل، 11 فروری، 2025

گلوکار کندن لال سہگل - ماضی کا گمشدہ ستارہ


   جھڑتے ہیں پھول پھاگن کے پھاگن کے مہینے میں

میں تم سے جدا ہوتا ہوں ایک درد لئے سینے میں  

گلوکار کندن  لال سہگل -ایک  خوبصورت آواز جو بے وقت خاموش ہو گئ   -مجھے غزل گوئ اور غزل سرائ دونوں پسند ہیں اور ابھی میرا طالب علمی کا دور چل رہا تھا کہ سہگل کی اس غزل نے میرے دل میں جگہ بنا لی اور پھر میں باقاعدہ سہگل کی غزلیں سننے لگی -مجھے گھر میں اپنی امی جان کی کافی خفگی کا سامنا کرنا پڑتا لیکن بھلا شوق کا بھی کوئ مول ہوتا ہے-مجھے غزل گوئ اور غزل سرائ دونوں پسند ہیں اور ابھی میرا طالب علمی کا دور چل رہا تھا کہ  کندن سہگل کی اس غزل نے میرے دل میں جگہ بنا لی اور پھر میں باقاعدہ سہگل کی غزلیں سننے لگی -مجھے گھر میں اپنی امی جان کی کافی خفگی کا سامنا کرنا پڑتا لیکن بھلا شوق کا بھی کوئ مول ہوتا ہے- امی جان مر حو مہ کی ڈانٹ سنتے سنتے ایک دن سوچ لیا اب گھر میں شوق پورا کرنے کے بجائے اسکول میں گایا کروں گی - پھر میری سہیلیوں کا جھرمٹ بن گیا جو میری غزلیں سننے کو انٹرویل میں میرے پاس آجاتی تھیں آج نیٹ کے سیر سپاٹے کرتے ہوئے سہگل کا نام نظر آیا تو بس پھررم جھم کرتا ماضی آ نکھوں میں اتر آیا  میں نے جو پڑھا وہ لکھ لیا 


   -گلوکار   کندن  لال سہگل 1904 میں پیدا ہوئے۔موسیقی کی تربیت باقائدہ کسی استاد سے حاصل نہیں کی تھی بلکہ ان کی یہ صلاحیت خداداد تھی۔ کہتے ہیں وہ ایک بار استاد فیاض علی خان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے اپنی شاگردی میں لینے کی درخواست کی تو انھوں نے کہا ’تم اتنا جانتے ہو کہ میں تمھیں اور کیا سکھا سکتا ہوں‘ یہ بھی مشہور ہے کہ ان کے کسی گیت سے استاد عبد الکریم خان صاحب اتنے متاثر ہوئے کہ انھیں انعام کے طور پر سو روپے کا منی آرڈر بھیج دیا۔ دروغ بر گردنِ راوی، یہ واقعہ 1937 کا بتایا جاتا ہے جس زمانے میں سو روپے کی رقم اچھی خاصی سمجھی جاتی تھی۔ بعض سوانح نگاروں کا کہنا ہے کہ انھوں نے کسی استاد سے موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی اور نہ موسیقی کے کسی معروف گھرانے سے وابستہ تھے لیکن جب جموں میں تھے تو والدہ کے ساتھ مذہبی تقاریب اور مندروں میں بھجن کی محفلوں میں شرکت کرتے اور والدہ کے ساتھ مل کر بھجن خود بھی گایا کرتے۔بعض سوانح نگاروں کا کہنا ہے کہ جموں کے ایک غیر معروف سے صوفی بزرگ سلمان یوسف کے آستانے پر حاضری بھی دیتے تھے اور بھجن یا عارفانہ کلام سناتے۔ یہ بزرگ خود بھی گاتے تھے اس لیے عین ممکن ہے کہ انھیں موسیقی میں کچھ درک رہا ہو اور انھوں نے سیگل کی اس سلسلے میں کچھ ابتدائی تربیت کی ہو-بہر حال یہ طے ہے کہ موسیقی اور گائیکی ان کی رگ رگ میں تو رچی ہوئی تھی لیکن ان کے معاش کا ذریعہ نہیں تھی اور نہ انھوں نے اس کو روزی کا ذریعہ بنانے کا کوئی منصوبہ بنایا تھا۔ اور بنا بھی نہیں سکتے تھے،


 اس لیے کہ اس زمانے میں موسیقی اور پہلوانی دونوں صرف جاگیرداروں اور رجواڑوں کی سرپرستی میں فروغ پاتی تھیں اور سیگل کچھ اتنے آزاد منش تھے کہ درباروں کے آداب سے مطابقت پیدا کرنا ان کے لیے یقیناً مشکل ہوتا۔چنانچہ وہ کلکتہ پہنچ گئے اور ٹائپ رائٹر بنانے والی کمپنی میں 80 روپے ماہانہ پر سیلز مین کی نوکری مل گئی۔ کلکتہ میں ہی کہیں ان کی کسی طرح نیو تھیٹر کے بانی بی۔ این۔ سرکار سے مڈبھیڑ ہو گئی اور انھوں نے ان کو گلوکار کے طور پر دو سو روپے ماہانہ پر ملازمت دیدی۔باقاعدہ اداکاری اور گائیکی کا آغاز-نیو تھیٹرمیں اس زمانے میں رائے چند بورل، تامیر برن اور پنکج ملک موسیقار تھے جن میں بورل سب سے سینئیر تھے اور انھوں نے سہگل کے فن میں نکھار اور پختگی پیدا کرنے میں یقیناً بڑا نمایاں کردار ادا کیا ہوگا، اس لیے کہ نیو تھئیٹر کی فلموں نے سہگل کو ہندوستان گیر شہرت دی اور ان موسیقاروں کی بنائی ہوئی دھنوں پر ہی انھوں نے وہ نغمے گائے جنھوں نے انھیں امر بنادیا۔ مثلاً دیو داس کا یہ نغمہ ’دکھ کے دن اب بیتت ناہیں ‘ یا ’بالم آئے بسو میرے من میں یا فلم اسٹریٹ سنگر کا یہ گیت ’بابل مورا نہیئر چھوٹل جائے‘ وغیرہ وغیرہ۔نیو تھئیٹر نے ابتدا میں سہگل کے ساتھ جو تین فلمیں بنائیں وہ مالی اعتبار سے ناکام رہیں۔ ان میں پہلی محبت کے آنسو، زندہ لاش اور صبح کا تارہ شامل ہیں۔ 1933 میں بھی نیو تھئیٹر نے تین فلمیں ریلیز کیں جن میں پورن بھگت، راج رانی میرا او اور یہودی کی لڑکی شامل ہیں۔ اگرچہ یہ فلمیں کامیاب رہیں لیکن ان کی کامیابی سے زیادہ سہگل کو شہرت ملی اور بحیثیت اداکار اور گلوکار وہ پہچانے جانے لگے۔


دیوداس-1934 میں نیو تھئیٹر نے مزید تین فلمیں ریلیز کیں جن میں چندی داس نے سہگل کو وہ مقام دیا جہاں سے انھوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا یہاں تک کہ دوسرے سال یعنی 1935 میں دیو داس نے ان کو امر بنادیا۔دیو داس سرت چندر چٹّرجی کا وہ شہرہ آفاق ناول ہے جس نے نہ صرف بنگالی ادب میں ایک گراں قدر اضافہ کیا بلکہ ہندوستانی اشرافیہ اور متوسط طبقے کے پڑھے لکھے نوجوانوں کے جذبات اور احساسات اور ان کی الجھنوں کو زبان دیدی جو ایک طرف جمہوریت، آزادی، سیکولرزم اور انسانی مساوات کے سنہرے اصولوں سے واقفیت حاصل کر رہے تھے اور دوسری جانب خود ان کے اپنے سماج میں ان اصولوں کو بڑی بیدردی سے روندا جا رہا تھا۔


دیوداس ایک ایسے نوجوان کی کہانی ہے جو ایک آعلیٰ ذات کے بڑے زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتا ہے اور ساری خوبیوں کا مالک ہونے کے باوجود محض اس بنیاد پر رائندِ درگاہ قرار پاتا ہے کہ اسے ایک نیچ ذات کی لڑکی سے محبت ہوجاتی ہے۔دیو داس صرف بنگال کے نوجوان کی کہانی نہیں تھی بلکہ پورے ہندوستان کے پڑھے لکھے نوجوان کی کہانی تھی اور جب بروا نے بنگالی میں یہ فلم بنائی تو یہ ناول سے بھی زیادہ مقبول ہوئی اس لیے کہ ناول تو صرف پڑھے لکھے لوگ ہی پڑھ سکتے تھے فلم ان پڑھوں نے بھی دیکھی۔ اور میں یہ بھی بتا تا چلوں کہ بنگالی دیوداس میں بھی سہگل نے ایک چھوٹا سا رول کیا تھا اور دو گانیں بھی گائے تھے۔ اس فلم کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے ہندوستانی میں بھی اسے بنانے کا فیصلہ کیا گیا جس میں سہگل نے دیوداس کا مرکزی کردار ادا کیا جو بنگالی فلم میں بروا نے ادا کیا تھا۔کامیابی کا دور-سہگل نیو تھئیٹر کی کئی کامیاب فلموں میں کام کرنے کے بعد، جن میں کروڑ پتی، پجارن، دیدی، پریسی ڈنٹ، سٹریٹ سنگر، ساتھی دشمن اور بنگالی کی کئی کامیاب فلمیں شامل ہیں، بمبئی کے رنجیت اسٹودیو سے وابستہ ہو گئے اور وہاں اور فلموں کے علاوہ انھوں نے بھگت سورداس اور تانسین میں کام کیا جو ہر اعتبار سے بہت کامیاب فلمیں تصور کی جاتی ہیں۔سہگل، تان سین کے بعد، جو 1944 میں ریلیز ہوئی، تین سال اور بلکہ یوں کہیے کہ دوسال اور زندہ رہے اس لیے کہ جنوری 1947 میں ان کا انتقال ہو گیا۔ اس عرصے میں انھوں نے سات فلموں میں کا م کیا ان میں فلم شاہجہاں کا نام قابل ذکر ہے۔ شاہ جہاں اس اعتبار سے بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس میں مجروح سلطان پوری نے پہلی مرتبہ کسی فلم کے لیے نغمے لکھے تھے لیکن پھر ان کی زندگی نے ان کو مذید مہلت نہیں دی اور صرف ۴۳ برس میں  ان کی آتما پرماتما کے حضور حاضرہو گئ 

 اس مضمون میں  انٹرنیٹ سے  مدد لی گئ ہے

 



 

پیر، 10 فروری، 2025

طلبہ یونینز جنکو آمریت اور ملوکیت کا بھیڑیا کھا گیا 2part

 

سوال: ذوالفقار بھٹو سے آپ کی ملاقات کیسے ہوئی اور آپ پیپلز پارٹی کا حصہ کیسے بنے؟افتخار احمد: ابھی پیپلز پارٹی نہیں بنی تھی جب میری بھٹو سے ملاقات ہوئی۔ یہ ملاقات گورنمنٹ کالج اسٹوڈنٹ یونین کے صدر امان اللہ خان نے لاہور کے فلیٹیز ہوٹل میں کروائی۔ میں نے بھٹو کی باتوں کو سنا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ ایوب خان کے خلاف کوئی جدوجہد کامیاب ہو سکتی ہے تو وہ اسی لیڈر کی قیادت میں ہو سکتی ہے۔ باقی لیڈرز کی ایسی کرشماتی شخصیت نہیں تھی۔ وہ ہمیں قائل کر گیا کہ ایک نئی سیاسی جماعت کی کیوں ضرورت ہے۔ میں نے پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کے لیے چار آنے کی پرچی جمع کروائی جس پر بھٹو نے دستخط بھی کیے۔سوال: طلبہ سیاست میں حصہ لیتے ہوئے آپ کو سب سے پہلے کب اور کیوں گرفتار کیا گیا؟افتخار احمد: یہ پیپلز پارٹی کے ابتدائی دنوں کی بات ہے کہ مجھے، شیخوپورہ کے صادق مسیح اور لاہور جی او آر کے علاؤالدین، ہم تین کو گرفتار کیا گیا اور تھانہ مزنگ میں رکھا گیا۔


 اگلے دن عبدالستار نجم اور ایس ایم مسعود مرحوم ہماری ضمانتیں کرانے کے لیے آئے۔ ہم پر الزام عائد کیا گیا کہ ہم لوگوں کو ریاست کے خلاف بغاوت پر اکسا رہے تھے۔ ان دنوں نعرہ لگانے پر دفعہ  پاکستان کی سیاست اور میڈیا کے کئی بڑے نام ماضی میں طلبہ تنظیموں کے رہنما رہ چکے ہیں۔ ۔وائس آف امریکہ یہ جاننے کی کوشش کر رہا ہے کہ طلبہ سیاست سے پاکستان کو کیا ملا؟ پابندی سے فائدہ ہوا یا نقصان؟ اور ضیاءالحق کے بعد آنے والی حکومتوں نے اس پابندی کو ختم کیوں نہیں کیا۔اس سلسلے میں این ایس ایف کے سابق رہنما، ڈرامہ نویس، اجوکا تھیٹر کے بانی اور سابق ایم ڈی پی ٹی وی شاہد محمود ندیم سے خصوصی گفتگو پیش کی جارہی ہے۔موجودہ حکومت طلبہ یونینز پر پابندی ہٹانے کا خطرہ مول نہیں لے گیسوال: آپ نے کالج میں داخلہ کب لیا اور اس وقت کون سی طلبہ تنظیمیں سرگرم تھیں؟شاہد محمود ندیم: میں نے 1963 میں لاہور کے گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا۔ شروع میں ڈبیٹنگ سوسائٹی اور اسٹوڈنٹ یونین میں سرگرم رہا۔ لیکن آہستہ آہستہ سیاست میں بھی سرگرم ہوگیا اور نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شمولیت اختیار کرلی جو بائیں بازو کی طلبہ تنظیم تھی۔


 اس زمانے میں اسلامی جمعیت طلبہ اور جمعیت طلبائے اسلام بھی میدان میں تھے۔ کچھ عرصہ بعد پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن سامنے آئی۔ لیفٹ اور رائٹ کی تقسیم کافی واضح تھی۔ این ایس ایف کا ایک گروپ پرو چائنہ اور دوسرے گروپ کو پرو ماسکو کہا جاتا تھا۔ ان میں آپس میں کافی اختلافات تھے۔ سیاسی طور پر ایک 'چارجڈ' ماحول تھا۔ ایک نکتے پر سب متفق تھے کہ ڈکٹیٹر شپ اور 'اسٹیٹس کو' قبول نہیں۔ اس زمانے کی لیفٹ کی طلبہ تنظیمیں تھیں یا رائٹ کی، سب جنرل ایوب خان کی آمریت سے چھٹکارا چاہتی تھیں۔سوال: آپ نے 1968 میں گریجویشن کے بعد پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور آپ کے زمانہ طالب علمی میں پنجاب یونیورسٹی کی طلبہ یونین پر پابندی لگا دی گئی۔ اس پابندی کے خلاف آپ کا کیا کردار تھا؟شاہد محمود ندیم: اس وقت نہ صرف ملک پر فیلڈ مارشل ایوب خان کا جابرانہ دور مسلط تھا بلکہ پنجاب یونیورسٹی میں بھی پروفیسر حمید احمد خان کا سخت دور تھا۔


 وہ ویسے تو دانشور اور انتہائی قابل احترام تھے لیکن ان کی انتظامیہ کا طریقہ ایوب خان والا ہی تھا۔ ان کے زمانے میں ہیڈز آف ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے طلبہ کو کنٹرول کیا جاتا تھا۔ ایوب خان کے کہنے پر پنجاب یونیورسٹی کی انتظامیہ نے اسٹوڈنٹ یونین پر پابندی لگادی۔ وہ بہت بڑی یونین تھی جو لاہور کے علاوہ پورے پنجاب میں سرگرم تھی۔ وہ اپنے آپ کو بیان کرنے کا، انتخابات لڑنے کا، مختلف مکاتب فکر کو اجاگر کرنے کا اور طلبہ کی آواز کو انتظامیہ تک پہنچانے کا پلیٹ فارم تھا۔ یہ پابندی اس کے راستے میں دیوار بن گئی تھی۔میں نے اور کچھ طلبا نے مل کر یونین کی بحالی کی تحریک چلائی۔ اس تحریک میں یونیورسٹی کی انتظامیہ اور ایوب خان حکومت کے ساتھ ہمارا ٹکراؤ ہوا۔ ہمیں جیلوں میں جانا پڑا اور عدالتوں میں ہمارے مقدمات چلے۔ اسی دور میں ذوالفقار علی بھٹو کا ظہور ہورہا تھا جنھوں نے ایوب خان کی کابینہ سے استعفی دے کر پیپلز پارٹی بنائی تھی۔ اس کے ذریعے وہ نوجوانوں کو متحرک کررہے تھے۔اس کے ساتھ ہی 1968 میں ایک عالمگیر تحریک شروع ہوگئی جس میں امریکہ کے علاوہ جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے طلبا بھی شامل تھے۔


ہمارے ایک سینئر طارق علی برطانیہ گئے ہوئے تھے جو وہاں طلبا تحریک میں سرگرم تھے اور ہم ان سے رہنمائی حاصل کرتے تھے۔ اس کے علاوہ مشرقی پاکستان کے طلبا ہم سے زیادہ منظم تھے۔ ہماری نسل کی وہ تحریک مشرقی پاکستان کے طلبا کے ساتھ آخری مشترکہ کوشش تھی جس کی وجہ سے ایوب خان کو مستعفی ہونا پڑا۔سوال: آپ کے زمانے میں آپ کے ساتھ اور کون سے دیگر اہم طلبا رہنما سرگرم تھے؟شاہد محمود ندیم: ہمارے ساتھ ترقی پسندوں کی طرف پرویز رشید، افتخار احمد، راجا انور، اعصام الحق، افراسیاب خٹک اور عارف کمال تھے۔ دوسری طرف حافظ ادریس کافی سرگرم تھے۔ فرید پراچہ اور لیاقت بلوچ اسلامی جمعیت طلبا کی ڈنڈا بردار فورس کے سربراہ تھے۔ جاوید ہاشمی بھی تھے جو کبھی لیفٹ اور کبھی سینٹر میں ہوتے تھے۔ جہانگیر بدر پہلے لبرل تھے۔ پھر انہوں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔ شہریار راشد انگریزی کے بہت اچھے لکھاری اور ن م راشد کے بیٹے تھے۔ یہ اس زمانے کے مشہور لوگ تھے۔سوال: طلبا تنظیموں کا سوچ کر لڑائی جھگڑے اور گولیاں چلنے کا تصور ذہنوں میں آتا ہے۔ کیا آپ کے وقت میں بھی ایسا ہی تھا؟شاہد محمود ندیم: ہمارے زمانے میں لیفٹ اور رائٹ کی بحث بہت گرم ہوتی تھی بلکہ لیفٹ کے درمیان میں پرو بیجنگ اور پرو ماسکو گروپس کے درمیان بھی بہت مباحثہ ہوتا تھا۔ لیکن بندوقوں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ فائرنگ ہوجانا بہت انہونا واقعہ ہوتا تھا۔ سیاسی مخالفت جلسہ جلوس کی صورت میں ہوتی تھی۔ کہیں کہیں لیفٹ رائٹ کی دھینگامشتی ہوجاتی تھی۔ لیکن تشدد بہت محدود تھا۔ جتنا تھا وہ بس الفاظ ہی میں تھا۔؟

 

اتوار، 9 فروری، 2025

مجالس حسین علیہ السلام قریہ 'قریہ یا حسین

   بعد کربلا  حاکمان وقت نے آثار کربلا مٹانے کی بھرپور تگ و دو شروع کی لیکن وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکے سب سے پہلے امام زین العابدین علیہ السلا م نے مدینہ کے لوگوں میں مجلس عزاء کا اہتمام کیا اور  اہل مدینہ کو امیہ  کے مظالم سے آگاہ کیا   -آپ کے بعد میں آنے والے ائمہ طاہرین  نے کربلا اور محرم کی روایات کو زندہ رکھا اور فروغ دیا۔ لیکن یہ تمام تر تقریبات مخصوص گھروں کے اندر بیان ہاتی تھیں حکومتی سختی کے باعث باقاعدہ طور پر کبھی نہیں منائی گئیں۔اموی دور حکومت سے 352 ہجری تک شعیوں کو محرم  منانے  پر پابندی عا ئد تھی- بعد ازاں محرم کی مجالس باقاعدہ طور پر 963 عیسویں میں نواب معزالدولہ نے بغداد میں شروع کروائیں۔ جو کہ آل بویہ خاندان میں سے تھے -یہ خاندان آل بویہ محب اہلسنت تھے۔ اس دور میں پہلی مرتبہ محرم کی مجالس عوامی طور پر منعقد ہونا شروع ہوئیں یوم عاشور پر شہر بھر میں تعطیل کا اعلان ہوتا اور سب کو خصوصی سوگ منانے کا  اعلان کیا جاتا تھا۔ اور ماتمی جلوس منعقد ہوتے تھے ۔ اس وقت شیعہ اپنے گھروں سے باہر آتے تھے سینہ کوبی کرتا ہوا یہ جلوس ایک احتجاج کی صورت اختیار کرتا جا رہا تھا اُس ظلم کے انتقام کا جذبہ لیے ہوئے جو کہ امویوں اور عباسیوں نے آلِ رسول ؐ اور علویوں اور کربلا میں امام پر کیے تھے۔ اس طرح عزاداری ایک رسم بلکہ رزم کی صورت میں قریہ قریہ، گلی گلی کوچہ کوچہ تک پھیل گئی


 اموی اور عباسی حکمران اپنے مظالم کے ذریعے اس تحریک اور جذ بے کو دبانا چاہتے تھے لیکن وہ آج امریکہ، یورپ، انگلینڈ، افر یقہ سمیت دنیا بھر میں پھیل چکا ہے۔برصغیر پاک وہند میں مسلمانوں کی تاریخ کم و بیش ایک ہزار سال پُرانی ہے جس نے برصغیر کی قدیم سماجی، ثقافتی زندگی پر بڑا گہرا اثر ڈالا۔مسلمانوں کی موجودگی سے برصغیر میں ایک نئی ثقافت کا آغاز ہوا تھا۔ لیکن 12 عیسوی کے آخر میں شیعہ مذہب کو عادل شاہ ہشیار پور میں قبول کر لیا گیا۔ شیعہ مدارس کا قیام ہوا لیکن پھر بھی اس دور میں محرم کے منا ئے جانے کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں نہیں ملتا۔ لیکن ریاست گو لکنڈہ میں 1512؁ء میں قطب شاہ کی زیر سر پرستی باقاعدہ طور پر شیعہ تعلیمات کو سرکاری مذہب قرار دے دیا گیا۔ اور اس طرح شیعہ تقریبات عوامی سطح میں منانا شروع کیا گیا اس طرح سے یہ سلسلہ پورے برصغیر میں پھیل گیا۔اس کے بعد دکن میں   نظام شاہ، احمد نگر میں مغل، دہلی میں سلاطین، کشمیر اور ریاست اودھ نے براہِ راست شعیہ مذہب کو ترقی میں انکی مدد کی اور اہم کردار ادا کیا۔ جبکہ دوسری جانب برصغیر سے باہر ایران، مصر، بغداد وغیرہ میں شعیہ مذہب سیاسی مذہب قرار پا چکا تھا۔ عثمانیہ یونیورسٹی کے پروفیسر اپنے شائع ہونے والے بروشر میں لکھتے ہیں بادشاہ قطب شاہ نے شیعہ مجالس کا عوامی سطح پر نعقاد کیا۔


تا کہ یہاں دوسرے مذاہب اور دیگر ثقافتی لوگ ایک ثقافت کا حصہ بن سکیں۔مصروف آرٹسٹ اکبر نقوی نے SOS میں لندن میں ہونے والے اپنے لیکچر میں کہا کی اسلامی اور دہندی تہذیبوں کے ملاپ سے جنم لینے والے س الہند کلچر میں یہ خاصیت تھی کہ اس نے پرانے ہندو کلچر کو مٹایا نہیں بلکہ نئی صورت میں قبول کیا جس سے نئی نئی چیزیں سامنے آئیں۔دوسروں کی عزت اور مذہبی تقدس کی علامت جسے سب مذاہب مانتے ہیں یہ رواداری کی علامت ہے۔یہ کلچر حکومتی سطح پر مذہب سے لا تعلق نہیں تھا اور ہو بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ لوگ انتہائی مذہبی تھے لیکن مذہب کے درمیان رہتے ہوئے فرق کو انسانی قدروں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ انسانی اقدار اور مذہبی عزت کا دور دورہ تھا اور یہ قدریں ایک دوسرے کی مذہبی تقریبات میں ایک دوسرے کو قریب لانے کا بھی ذریعہ تھیں ” 20 صدی میں محرم کی تقریبات جو انڈیا کی مختلف جگہوں حیدرآباد، دکن میں دیکھیں ہیں۔ سب کسی نہ کسی طرح درشن کی خاطر جھکتا نظر آیا۔ جس میں نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم بھی شریک ہوتے ہیں۔ “دو ماہر سماجیات لکھنٗو یونیورسٹی انڈیا سے جنکے ندیم حسین اور ابرار حسین محرم کی تقریبات کو تشکیل قوم سے تشبیہ دیتے ہیں۔اورلکھتے ہیں کہ بھارت کی بہت سی جگہوں ہندو مسلمان کی محرم کی تقریبات میں شامل ہوتے ہیں جو کہ ثقافتی ہم آہنگی کی ایک اچھی مثال ہے بر صغیر میں امام بارگاہوں اور تعزیہ داری کی تاریخ بڑی دلچسپ اور روشن رہی ہے۔اس کا ذکر عہد مغلیہ میں بھی ملتا ہے۔


مغل حکمرانوں نے جہاں مصوری،خطاطی،تعمیرات اور دیگر فنون کو ترقی و دوام بخشا وہاں تعزیہ داری کو وہ عروج حاصل ہوا کہ تعزیہ داری کو بھی نئی جہتیں اور رونقیں ملیں۔ماہنامہ رضاکار لاہور کے 1962 ء عزاداری نمبرکے صفحہ نمبر 158 پر شہنشاہ ہمایوں کے بارے میں لکھا ہے کہ ہمایوں بادشاہ شیر شاہ سوری سے شکست کھا کر ایران کی جانب بھاگ گیا تھا۔پھر پندرہ سال بعد ایرانی بادشاہ شاہ طہماسپ کی مدد سے دوبارہ حکومت حاصل کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔اس نے شاہ ایران کے ہاتھوں مذہب شیعہ قبول کرلیا تھا۔چنانچہ ہمایوں نے 959 ھ بمطابق 1552 ء میں اپنے وزیر اعظم بیرم خان جوکہ شیعہ تھا اور ہر سال کربلائے معلی جایا کرتا تھا۔اُسے خصوصی طور پر کربلا بھیج کر ایک قیمیتی ضریح مبارک بمطابق تمثیل روضہ مبارک حضرت امام حسین ؑ کے بنوائی۔اور قیمتی جواہرات سے مزین کر کے یہ ضریح اقدس شاہی محل میں رکھی گئی۔عہد ہمایوں کے مشہور شاعر حیدر توتیائی کا یہ شعر ہر جلوسِ تعزیہ میں لکھا ہوتا تھا۔

ماہ محرم آمد ہ شد گریہ فرض عین

کریمیم خون بیادِ لب ِتشنہ حسین ؑ


ترجمہ؛۔ ماہ محرم کے کے آتے ہی لوگوں پر آنسو بہانا،آہ بکا کرنا لازم ہے۔یہ آہ و زاری،خون کے آنسو بہانا،امام حسین کے پیاسے ہونٹوں کی یاد میں ہے۔یہ ضریح اقدس شہنشاہ اکبر کے دور تک شاہی محل میں موجود رہی۔اور ایام محرم میں عزاداری کے بعد یہی ضریح برآمد کی جاتی تھی۔عہد جہانگیر میں ملکہ نور جہاں نے درگاہ مغنیہ اجمیری (تارا گڑھ) میں چند موضعات عزاداری  کے لئے وقف کئے تھے ۔اسی طرح شاہی فرمان کے تحت وہاں تعزیہ داری کی اجازت مل گئی۔ روایت کے مطابق آج کل جو تعزیہ قلعہ سے برآمد ہوتا ہے وہ عہد اکبری کی یادگار ہے۔رضا کا ر،ص ۴۰۱ پر درج ہے کہ سکھو ں کے عہد،مہا راجہ رنجیت سنگھ کے زما نے میں پنجا ب کے ہربڑ ے شہر سے تعزیہ کے بڑ ے جلو س نکلتے تھے۔اسی دور میں فقیر خا ندا ن کے ایک بز ر گ سید عز یز الدین،محبت ِ حسین ؑ سے سر شا ر اور غم ِ مظلو م کر بلا میں تعز یہ دار تھے۔الف شا ہ کے اما م باڑے میں چھٹی محر م کا جلو س اس خا ندا ن سے ا ٹھ کر جا تا ہے ا ور آ ج تک یہ خا ندا ن عز ا ئے حسین ؑاسی شا ن سے منا یا جا تا ہے۔لاہور میں عزاداری کا آغاز زمانہ قدیم سے ہی ہو چکا تھا لیکن لاہور میں تعزیہ کی ابتداء سید غلام حسین شاہ المعروف گامے شاہ سے منسوب ہے۔گامے شاہ نے لاہور میں سب سے پہلا تعزیہ 1828 ؁ میں سکھ حکومت مہاراجہ رنجیت سنگھ کے عہد حکومت میں نکالا۔


روایت کی جاتی ہے کہ بابا گامے شاہ دنیا سے ماورا زمانے کی نظر میں دیوانے اور اہل بیت ؑ کی نگاہ پاک باز میں عارف کامل شیعہ عزادار تھے۔آپ ہمیشہ سیاہ لباس زیب تن کیا کرتے تھے۔اور آپکا قیام دربار داتا صاحب کے پہلو میں جہاں قدیم برف خانہ تھا (جہاں اب آپکا مزار ہے) تھا۔آپ وہا ں بیٹھا کرتے تھے ااور تعلیمات اہل بیتؑ کا پرچار کرتے تھے۔اور لوگوں کو واقعہ کربلا میں خاندان رسول ؑ پر آنے والی مصیبتوں کا بتاتے تھے۔لاہور میں آپ نے سانحہ کربلا اور عزاداری کو عام کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔تاریخ لاہور کے مولف کنیہا لال ہندی اپنی کتاب تاریخ لاہور کے صفحہ نمبر 305 پر لکھتے ہیں کہ یہ بہت عالیشان مکان بیرون بھاٹی گیٹ داتا گنج بخش کے مزار کے سمت جنوب میں واقع ہے اس کے اندر گامے شاہ کی قبر ہے جو کہ اس امام باڑے کا بانی تھا۔1849 ء میں اس مکان پر سخت صدمہ آیا۔دس محرم کو جب ذوالجناح نکلا تو راستہ بین متصل شاہ عالمی دروازے کے خوب زدو کوب ہوئی قوم مخالف نے اس روز اس مکان میں گھس کر اندرونی مکانات گرا دئیے مقبرے اور قبریں بھی ٹوڑیں۔پانی کے کنویں کو اینٹوں سے بھر دیا۔گامے شاہ کو ایسا مارا کہ وہ بے ہوش ہو گیا لاہور کے ڈپٹی کمشنر نے انارکلی چھاؤنی سے فوج کا دستہ طلب کیا تو لوگ منتشر ہوئے بعض کو سزا بھی ہوئی۔


ابتدائے زمانہ لاہور میں عزاداری کے قدیم مراکز صرف اندرون شہر کی جانب ہی واقع تھے لیکن بعد ازاں لاہور کے مشرقی جانب قدیم علاقے دھرم پورہ جوکہ ہندؤں اور سکھوں کا مذہبی مرکز تھا۔یہاں بھی ہندو اور سکھ تعزیے بنا کر برآمد کرتے تھے۔جوکہ آج بھی اپنی سابقہ روایات اور شان کے ساتھ سجائے جاتے ہیں۔ مگر اب ہندوں کی بجائے سنی المسلک کے لوگ اس جگہ نو محرم کی رات کو تعزیے سجاتے ہیں جوکہ عاشورہ تک رہتے ہیں۔ساری رات حلیم کی دیگیں تیار کی جاتی ہیں جوکہ دس محرم کی صبح کو بانٹی جاتی ہیں۔ سب سے زیادہ تعزیے چو بچہ کے علاقے میں سجائے جاتے ہیں۔جہاں قیام پاکستان سے قبل سکھوں کا گردوارہ چوبچہ صاحب تھا۔ اس وقت لاہور میں تین سوسے زائد امام بارگاہیں قائم ہو چکیں ہیں۔(جن پر تحقیق کا کام جاری ہے عنقریب اس پر کتاب لکھی جائے گی)

لیکن تاریخی امام بارگاہیں زیادہ تر اندرون لاہور اور اسکے مضافات میں ہیں۔قیام پاکستان کے بعد بھارت سے ہجرت کر کے آنے والے شیعہ حضرات نے اپنے بزرگوں کے قائم کردہ اما م بارگاہ جنہیں وہ انڈیا چھوڑ آئے تھے اسی سلسلے کو یہاں قائم کیا آج وہ شیعیت کے بڑے مراکز میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ جہاں ایام عزا میں ہزاروں افراد کا اجتماع ہوتا ہے۔ اور لوگ رسول خدا ﷺ کو ان کے اہل خانہ کی دلدوز شہادت پر تعزیت پیش کرتے ہیں۔اندرون لاہو رمیں اس وقت پرانے امام بارگاہوں میں امام بارگاہ سیدے شاہ محلہ پیر گیلانیاں اندرون موچی دروازہ اور امام بارگاہ ماتم سرائے کو ابتدائی امام بارگاہ رتصور کیا جاتا ہے۔ان کے علاوہ امام بارگاہ مائی آغا، امام بارگاہ سید رجب علی، امام بارگاہ سید الف شاہ اندرون دہلی دروازہ، امام بارگاہ سید اکبر علی شاہ،امام بارگاہ دولت شاہ،امام بارگاہ نادر شاہ سیفی، اندرون رنگ محل، ا مام بارگاہ حکیم ولی شاہ نزد چوہٹی مفتی باقرامام بارگاہ شیر گڑھیاں،امام بارگاہ باب، حسن موچی دروازہ،امام بارگاہ واجد علی شاہ وغیرہ شامل ہیں جوکہ زیادہ تر موچی دروازہ میں واقع ہیں۔اسکے علاوہ کٹڑی باوا چونا منڈی میں، حویلی فقیر خانہ بھاٹی گیٹ میں قدیمی امام بارگاہ ہیں 

خواجہ سرا کمیونٹی-خدا را 'حکومت اس مظلوم طبقہ کے لئے جامع پالیسی مرتب کرے

 


۔خواجہ سرا برادری سے تعلق رکھنے والے رجسٹرڈ افراد کے   اعدادوشمار دیکھ کر پریشانی سی محسوس ہوتی ہے۔ ان میں سے مٹھی بھر ایسے ہیں جنہیں قومی شناختی کارڈ کی صورت میں باقاعدہ قانونی شناخت اور تحفظ اور حاصل ہے۔ سال 2009 میں ایک تاریخی کام یہ ہوا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے قومی شناختی کارڈ کے فارم میں “تیسری صنف” کا خانہ شامل کرنے کا حکم دیا۔ 2012 میں خواجہ سرا افراد تیسری صنف کے طور پر اپنی رجسٹریشن کرانے اور قومی شناختی کارڈ بنوانے کا حق حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی ٹریبونل نے  اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ خواجہ سرا برادری کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو آئین کی رو سے ملک کے دیگر تمام شہریوں کو حاصل ہیں جن میں وراثت کا حق، کام کرنے کے مواقع، مفت تعلیم، اور طبی نگہداشت وغیرہ جیسی سہولیات خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس فیصلے کی روشنی میں نادرا نے 2012 میں خواجہ سراؤں کی رجسٹریشن کا کام شروع کیا لیکن عملی طور پر آج بھی تقریباً 90 فیصد خواجہ سرا اس حق سے محروم نظر آتے ہیں۔ یہ کمیونٹی ہمیشہ سے ایک مخمصے کا شکار رہی ہے جنہیں معاشرے میں کسی بھی دوسرے فرد کی طرح قبول نہیں کیا جاتا اور عملی طور پر وہ معاشرے سے خارج ہی رہ جاتے ہیں۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ بجائے اس کے کہ حالات میں کوئی بہتری آتی، الٹا ان کی صورتحال بگڑتی چلی گئی ہے۔ مانا کہ حالیہ سالوں کے دوران انہیں برائے نام ملازمت کے مواقع دئیے گئے ہیں، انہیں ملک کے شہری کے طور پر اپنا اندراج کرانے اور قومی شناختی کارڈ رکھنے کا حق بھی مل گیا ہے، اور ووٹر کے طور پر اندراج سے انہیں اظہار رائے کا موقع بھی نصیب ہوا ہے لیکن اول تو ان حقوق سے مستفید ہونے والوں کی تعداد بڑی محدود سی ہے اور اصل بات یہ ہے کہ عملی طور پر ان کی مشکلات میں شاید ہی کوئی کمی آئی ہے اور ان کے ساتھ برتے جانے والے معاشرتی رویوں میں  برائے نام ہی کوئی بہتری آئی ہے۔


 حقیقت یہی ہے کہ آج بھی ہر طرف سے ٹھوکریں ہی ان کی مقدر بنتی ہیں۔قانون سازی جیسے اقدامات اپنی جگہ، خواجہ سرا برادری کے معاملے میں عام شہریوں کے روئیے خاص طور پر ان کی حالت زار کو مزید بگاڑنے کا سب سے بڑا سبب ہیں۔ یہ ان کی جدوجہد کا ثمر ہے کہ جن کا مقدر صرف سڑکوں پر بھیک مانگنا تھا آج وہ سکولوں اور کالجوں میں حصول تعلیم کے لئے بھی داخل ہو رہے ہیں، جیسے تیسے کر کے قومی شناختی کارڈ بھی بنوا رہے ہیں اور انتخابات میں بھی حصہ لے رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود سوچ اور رویوں کا عالم یہ ہے کہ والدین جیسے انتہائی قریبی رشتے بھی ان کی مخالفت اور ان کی حق تلفی میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ لہٰذا، اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارا معاشرہ خواجہ سراؤں کو ایک برابر انسان اور فرد کے طور پر تسلیم کرے۔ حکومت جہاں اداروں کی سطح پر مقدور بھر کوششیں کر رہی ہے وہیں  ہمیں بھی معاشرے کے ایک فرد کی حیثیت سے اس سلسلے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہو گا تب جا کر ہم یہ امید رکھ سکتے ہیں کہ یہ معاشرہ جس میں ہم رہتے ہیں، سب کا سانجھا معاشرہ بنے اور جس میں سب کے ساتھ رواداری اور برابری والا سلوک کیا جائے۔


اس اقدام سے خواجہ سراء ملک و قوم کی ترقی میں بھر پور کردار ادا کر سکیں گے۔         اسلام آباد (آن لائن)اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا ہے کہ خواجہ سرا ہمارے معاشرے کا  مظلوم ومقہورطبقہ  ہے جس کے حقوق کے تحفظ کیلئے قانونی اور عملی اقدامات اٹھانا ضروری ہے۔ شریعت اسلامی میں اس حوالے سے کوئی ابہام نہیں۔مخنث افراد کے حقوق کے تحفظ کا مسئلہ متعدد مرتبہ اسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاس کی کارروائی کا حصہ رہا ہے۔ پہلی بار کونسل میں یہ معاملہ تب زیربحث آیا جب وزارت مذہبی امور نے مخنث بچوں کو وراثت میں حصہ دلانے کیلئے ”مسلم عائلی قوانین آرڈیننس (ترمیمی) بل کونسل کو ریفر کیا۔ کونسل نے اپنے اجلاس میں اس بل سے اتفاق کرتے ہوئے اسے شرعی احکام کی روشنی میں دوبارہ ڈرافٹ کرنے کی تجویز دی اور ساتھ میں مخنث افراد کو وراثت میں حقوق دلانے کے لیے طریقہ کار وضع کیا۔ آخری بار سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے امور داخلہ میں پیش کردہ مسودہ بل "مخنث افراد کے حقوق کے تحفظ کا بل اسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاس میں زیرغور آیا۔ کونسل کے سامنے اس موضوع سے ملتے جلتے دیگر بلز بھی پیش کیے گئے، جن میں خیبر پختونخوا حکومت کی مخنث سے متعلق وضع کردہ پالیسی اور انسانی حقوق کمیشن کا تیار کردہ مسودہ بل بھی شامل ہیں۔ کونسل نے خواجہ سرا  کمیونٹی، نادرا، سماجی تنظیموں  اور ماہرین قانون وشریعت سے تفصیلی مشاورت کی اور اس نتیجے پر پہنچی کہ یہ بل متعدد دفعات کے غیر شرعی ہونے کیساتھ ساتھ خواجہ سراء کمیونٹی کے حقوق کے تحفظ کیلئے ناکافی ہیں۔


 اس سلسلے میں کونسل کی طرف سے  بلوں کے مسودات پر شق وار تفصیلی ترمیمی سفارشات دی گئیں۔تاہم بعدازاں! اس موضوع پر جب باقاعدہ قانون سازی ہوئی، اور مئ2018 ء میں خواجہ سراؤں (کے حقوق کے تحفظ کا) ایکٹ، 2018منظور ہو ملکی قانون بن گیا، تو کونسل نے اپنی سفارشات میں جن خامیوں کی نشاندہی کی تھی ان کی طرف توجہ نہیں دی گئی تھی۔کونسل نے وزارت انسانی حقوق کے استفسار پر اس قانون کا جائزہ لیا اور قانون میں موجود خامیوں کے حوالے سے اپنی سفارشات وزارت قانون، وزارت انسانی حقوق اور وفاقی شرعی عدالت کو ارسال کردی ہیں۔ ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا کہ آج یہ قانون معاشرے میں زیر بحث ہے۔ضروری ہے قانون میں ایسی جامع ترامیم لائی جائیں  جو شرعی احکام، آئین پاکستان کی عکاس، ٹرانس جینڈرز کے حقیقی مسائل کے ادراک پر مشتمل  ہوں اور قانون میں اس طبقے کے مسائل ومشکلات کے حل کیلئے راستے موجود ہوں۔لاہور کے سرٹ سٹوڈیو میں اولو موپولومیڈیا کے زیر اہتمام ’تیسری دھن‘ کے نام سے تھیٹر ڈرامہ پیش کیا گیا، جس کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں نہ صرف خواجہ سرا کمیونٹی کو درپیش مسائل کو اجاگر کیا گیا بلکہ اس ڈرامے کے تمام کردار بھی خواجہ سرا ہی ہیں۔ان خواجہ سراؤں نے اپنی آپ بیتیوں اور دیگر خواجہ سراؤں سے متعلق اس معاشرے میں روا سلوک کو اپنی اداکاری سے پیش کیا۔اولوموپولو کی بانی کنول کھوسٹ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا: 'تیسری دھن تھیٹر ڈرامہ ہے جسے بہت سی تحقیق کے بعد بنایا گیا۔ ہم نے اسے 2015 میں لاہور میں پہلی بار پیش کیا تھا اور اس وقت ہم نے اسے ڈاکیومینٹری تھیٹر کا نام دیا تھا۔ اس بار ہم اسے ڈیوائزڈ تھیٹر پروڈکشن کے طور پر کررہے ہیںخواجہ سراؤں کے بھیک مانگنے پرپابندی بڑی تعداد جسم فروشی پر مجبور ہونے لگی وکل گورنمنٹ میں خواجہ سراؤں کے لیے 2 فیصد ملازمت کوٹہ مختص کرنے کی سفارش کی گئی ہے، سیکرٹری بلدیات پنجاب-پنجاب حکومت نے خواجہ سراؤں کی فلاح وبہبود کے لئے متعدد منصوبوں کااعلان کررکھا ہے  پنجاب میں خواجہ سراؤں کے بھیک مانگنے پرپابندی کے بعد ان کی بڑی تعداد جسم فروشی کے قبیح دھندے میں شامل ہونے کا انکشاف ہوا ہےخواجہ سراؤں کے بھیک مانگنے پرپابندی کے بعد ان کی بڑی تعداد جسم فروشی کے دھندے میں شامل ہورہی ہے۔ خواجہ سرا کمیونٹی کے مطابق اگرحکومت نے خواجہ سراؤں کی فلاح وبہبودکے لئے عملی اقدامات نہ اٹھائے توخواجہ سراؤں کے معاشی مسائل میں اضافہ ہوگا،خواجہ سراؤں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پولیس قانونی تقاضے پورے کئے بغیر ان کے ڈیروں پر چھاپے مارتی ہے جبکہ سڑکوں سے پکڑے جانے والے خواجہ سراؤں کے ساتھ غیر اخلاقی سلوک کیا جاتا ہے۔


خواجہ سرا برادری، پاکستان میں خاصی نمایاں تعداد میں موجود ہے۔ ان میں معاشرے کے سبھی طبقات سے تعلق رکھنے والے اور کم سن بچوں سے لے کر ستر سالہ بزرگوں تک، ہر عمر کے افراد شامل ہیں۔ نسلی اور مذہبی وابستگی کے اعتبار سے دیکھیں تو تقریباً ہر نسل، ذات، مذہب اور عقیدے کے لوگوں میں خواجہ سرا موجود ہیں۔ 2017 میں ہونے والی چھٹی مردم شماری و خانہ شماری کے مطابق پاکستان میں خواجہ سرا افراد کی آبادی 10,418 ہے۔ لیکن بندیا رانا جیسے فعال اور مایہ ناز خواجہ سرا رہنما اور کارکن ان اعدادوشمار پر مطمئن دکھائی نہیں دیتے۔ خواجہ سرا کارکنوں کے مطابق ان کی آبادی اور بھی کچھ نہیں تو ڈھائی لاکھ سے تین لاکھ کے درمیان ہے۔حال ہی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے حتمی ووٹر فہرستیں جاری کی ہیں جن کے مطابق ملک میں کل اندراج یافتہ ووٹرز کی تعداد 115,748,753 ہے جن میں 64,078,616 مرد، 51,667,599 خواتین اور 2,538 خواجہ سرا شامل ہیں۔2,538 رجسٹرڈ خواجہ سرا ووٹرز میں سے 1,886 پنجاب میں ہیں، 431 سندھ میں، 133 خیبرپختونخوا میں، 81 بلوچستان میں اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں خواجہ سرا ووٹرز کی تعداد صرف 7 ہے


ٹرانسپلانٹ ' امتحاں کیسے کیسے!پارٹ 1

 

  
زرا وہ منظر آنکھو ں میں لائیے 
جب ایک بوڑھی ماں سے پوچھا جائے کہ  وہ اپنے  جوان نیم مردہ  بیٹے کے اعضاء عطیہ کردیں  تاکہ کسی اور کو زندگی مل جائے -جب ایک جوان سہاگن سے کہا جائے کہ اپنے  شوہر کے اعضاء عطیہ کر دے  تا کہ کسی سسکتے ہوئے کو زندگی مل جائے لیکن ایسا ہو چکا تھا -اس جوان سہاگن کی زندگی میں یہ امتحان آ چکا تھا اس بوڑھی ماں کو اپنے جوان بیٹے کا صدمہء عظیم دیکھنا لکھا تھا -عزیر بن یاسین دو ڈاکٹر بہنوں ڈاکٹر سیما اور ڈاکٹر صدف کے اکلوتے اور بڑے بھائی تھے۔ ان کے سوگواروں میں بیوہ فائزہ حسین اور بیٹی عروہ عزیر بھی شامل ہیں۔عزیر بن یاسین کون تھے؟عزیر بن یاسین کے تایا زاد بھائی فیصل رفیق بتاتے ہیں کہ عزیر راولپنڈی کے علاقے صدر میں بینک روڈ پر اپنے والد کی وفات کے بعد دکان چلا رہے تھے۔ ان کا آبائی تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع باغ سے تھا۔عزیر بن یاسین دو ڈاکٹر بہنوں ڈاکٹر سیما اور ڈاکٹر صدف کے اکلوتے اور بڑے بھائی تھے۔ ان کے سوگواروں میں بیوہ فائزہ حسین اور بیٹی عروہ عزیر بھی شامل ہیں۔ڈاکٹر سیما بتاتی ہیں کہ ’اکثر میری اور چھوٹی بہن کی ان سے لڑائی ہوتی تھی مگر یہ لڑائی زیادہ وقت نہیں چلتی تھی کیونکہ ہمیشہ عزیر ہی آگے بڑھ کر ہم سے معذرت کر کے بات ختم کر دیتے تھے۔


صبح اگر ناشتے کے وقت لڑائی ہوتی تو میں اس امید کے ساتھ کالج چلی جاتی تھی کہ اب معذرت کا پیغام آ جائے گا اور ہمیشہ ایسا ہی ہوتا تھا۔‘عزیر کی بیوہ فائزہ حسین بتاتی ہیں کہ عزیر چپکے سے لوگوں کی مدد کرتے تھے۔ وہ اکثر شام کو اپنی پسندیدہ فروٹ چاٹ لاتے تھے۔کچھ دن پہلے ہی ان کے پاس فروٹ چاٹ کے دو لفافے تھے، میں نے کہا کہ یہ آپ کے پاس کیوں ہیں تو وہ بتانے لگے کہ وہ کسی غریب خاتون نے فروٹ چاٹ کا ٹھیلا لگایا ہوا تھا۔ میں نے سوچا کہ چلو ان سے فروٹ چاٹ خرید لیتا ہوں۔ ان کی بھی مدد ہو جائے گی۔‘فائزہ حسین کہتی ہیں کہ ’اکثر گلی سڑی سبزیاں لے آتے تھے۔ جس پر میں کہتی کہ یہ کیا ہے تو بس اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے تھے یہ سمجھ میں آ رہا ہوتا تھا کہ وہ کسی غریب ریڑھی والے کا مال ختم کرنے اور اس کو فائدہ دینے کے لیے یہ سبزی خرید لیتے تھے کہ چلو استعمال کی یا نہ کی اس کا فائدہ تو ہو جائے گی۔ان کا کہنا تھا کہ عزیر کسی کو کسی طرح فائدہ پہنچاتے اور مدد کرتے تھے، جس کا اندازہ فائدہ پہنچنے والے کو بھی کم ہی ہوتا تھا-‘

 فیصلہ کرنا آسان نہیں تھا‘فائزہ حسین بتاتی ہیں کہ ’عزیر بالکل صحت مند تھے، بس کبھی کبھار سر میں درد کی شکایت کرتے تھے۔‘فائزہ حسین کہتی ہیں کہ ’جس صبح وہ بیمار ہوئے اس رات یہ آدھے سر کے درد کی شکایت کر رہے تھے اور کچھ دوائیاں وغیرہ لے کر سو گئے تھے۔ صبح جب میں ناشتہ بنا رہی تھی تو اس وقت عجیب سی حالت میں کہا کہ پانی دو میں نے پانی دیا اور پھر فوری طور پر اپنے قریبی رشتہ داروں کو مطلع کیا کہ ان کی طبعیت خراب ہے۔ان کے مطابق ہسپتال تک پہنچتے پہنچتے شاہد وہ بے ہوش ہو گئے-فائزہ حسین کا کہنا تھا کہ ’وہاں پر پہلے ڈاکٹروں نے تسلی دی کہ سب ٹھیک ہے مگر وہ سی ٹی سکین وغیرہ کر رہے تھے جس پر میں نے ان کی بہن ڈاکٹر سیما کو اس کی اطلاع کر دی۔‘ڈاکٹر سیما بتاتی ہیں کہ وہ برطانیہ میں ایمرجنسی ڈاکٹر کی خدمات انجام دیتی ہیں۔ ان کے مطابق ’پہلے جب مجھے اطلاع ملی کہ یہ واقعہ ہوا ہے اور سی ٹی سکین وغیرہ ہو رہا ہے۔ اکثر اوقات سی ٹی سکین صاف ہوتے ہیں۔ میں نے بھی سوچا کہ سی ٹی سکین صاف ہو گا مگر جب کچھ دیر بعد میں نے سی ٹی سکین دیکھا تو دماغ میں کچھ موجود تھا۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے بعد ہمیں جو رپورٹس مل رہی تھیں ان سے پتا چل رہا تھا کہ دماغ مردہ ہو چکا ہے۔


 میں یہ دیکھ کر بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھی۔ اس موقع پر میرے میاں مجھے سمجھا رہے تھے کہ مجھے یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے۔‘ڈاکٹر سیما کہتی ہیں کہ ہم نے برطانیہ میں دیکھا تھا کہ ایسے کیسز جن میں دماغ مردہ ہو جاتا ہے وہاں پر اکثر اوقات خاندان اپنے اعضا عطیہ کر دیتے ہیں۔ اس طرح کچھ لوگوں کو نئی زندگی مل جاتی ہے۔ڈاکٹر سیما کا کہنا تھا کہ ’میں اور میری بہن تو بھائی کے اعضا عطیہ کرنے کو تیار تھے مگر یہ فیصلہ بھابھی اور ماں کو کرنا تھا۔ ماں نے بھی کہہ دیا کہ یہ بھابھی کا حق ہے وہ خود یہ فیصلہ کریں گی۔’بھابھی شروع میں تو فیصلہ نہیں کر پا رہی تھیں مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔‘’سات نئی زندگیوں کے لیے فیصلہ کیا‘فائزہ کہتی ہیں کہ ’میں تو عزیر کی موت کو تسلیم نہیں کر رہی تھی مگر عزیر کی ڈاکٹر بہنوں نے بھی دبے دبے الفاظ میں کہنا شروع کیا کہ اگر ہم اعضا کو عطیہ کر دیں گے تو کئی لوگوں کی نئی زندگیاں ملنا شروع ہو جائیں گئیں۔‘فائزہ حسین کہتی ہیں کہ ’میرا چھوٹا بھائی بھی ڈاکٹر ہے، اس نے بھی مجھے مشورہ دیا کہ اعضا عطیہ کر دینے چاہییں۔ اس کے لیے میں نے مذہبی رہنماؤں سے بات کی جنھوں نے کہا کہ ہم ایسا کر سکتے ہیں۔‘


ان کا کہنا تھا کہ مجھے کچھ عرصہ قبل ہمارے قریب ہی کرایہ پر رہائش پذیر ایک خاندان یاد آیا، جس کی ایک کم عمر بچی کا ڈائیلسز ہوتا تھا۔ اس بچی کی والدہ ہمارے گھر آتی تھیں۔ وہ جس کرب اور تکلیف سے گزرتی تھیں، مجھے وہ سب کچھ یاد آ رہا تھا۔ اس کے ساتھ جب میں ہسپتال گئی تو وہاں پر راجہ علی ریاض کی والدہ بھی ملی تھیں۔فائزہ حسین کا کہنا تھا کہ ’راجہ علی ریاض کی والدہ میری ساس کو ملیں اور ان سے مل کر رونے لگیں کہ میرا جوان بیٹا کہہ رہا ہے کہ مجھے زہر دے دو اب یہ تکلیف برداشت نہیں ہو رہی۔ اس کا گروپ او پازیٹو ہے اور کوئی او پازیٹو خون سے میچ کرنے والا عطیہ نہیں مل رہا ہے۔‘ان کے مطابق ’میں نے یہ دیکھا تو فیصلہ کیا کہ عزیر تو اب اس دنیا میں نہیں رہے اس سے پہلے کہ ان کا وینٹی لیٹر بھی اتر جائے ان کے اعضا سے لوگوں کو نئی زندگی دیتے ہیں اس سے بڑا تحفہ عزیر کے لیے کوئی نہیں ہو سکتا۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’اگر خود عزیر کو یہ فیصلہ کرنا پڑتا تو وہ بھی یہ ہی فیصلہ کرتے۔ بس اس فیصلے کے بعد کچھ دیر تک سوچا کہ یہ سبز آنکھیں عطیہ نہیں کرتی ہوں۔ یہ ان پر بہت پیاری لگتی تھیں۔ میری اور بیٹی کی پسندیدہ تھیں۔ ’مگر پھر یہ بھی فیصلہ کر لیا کہ یہ سبز آنکھیں دو لوگوں کی بینائی لوٹا دیں گی تو اس سے اچھا اس کا کوئی اور استعمال نہیں ہو سکتا

صدر قذافی کی باڈی گارڈ خواتین کے فوجی دستوں کا احوال

    لیبیا کے صدر معمر قذافی صحرا نشین خانہ بدوش قبیلے میں  ایک بدو چرواہے کے بیٹے  تھے1942ء میں ان کی پیدائش ایک خیمے میں ہوئی-یہی بچہ جب بڑا ہوا تو اس نے ایک بغاوت کے  زریعہ  لیبیا کی صدارت کا عہدہ حاصل کیا اور اپنی حفاظت کے لئے لیبین لڑکیوں کا خصوصی دستہ تیار کیا - یہ لڑکیا ں  جان و دل سے معمر قذافی کے ساتھ دیکھی جاتی تھیں- اس دستے کی خصوصیت  یہ تھی کہ وہ مردوں کے لباس میں  ہتھیار بند رہتی تھیں -ان  پانچ سو خوبصورت نوجوان ترک خواتین کا انتخاب   صدر قذافی خود کرتے تھے، ایک جیسا   لباس پہنے، کمانوں اور تیروں سے لیس، دائیں ہاتھ پر کھڑی  ہوتی  تھیں اور انھیں ترک محافظ کہا جاتا تھا۔ ان کے بائیں طرف پانچ سو حبشی خواتین بھی ایک سا لباس پہنے، آتشیں اسلحہ سے لیس تھیں۔‘معمر قذافی کے ساتھ ہمیشہ ہی 30 خواتین کا ایک حفاظتی دستہ موجود رہتا تھا۔


 سن انیس سو اٹھانوے میں ان پر ہونے والے ایک حملے کے دوران ایک خاتون باڈی گارڈ ہلاک جب کہ دو زخمی ہو گئی تھیں۔معمر قذافی کی حفاظت کے ساتھ ساتھ نیل پالش، آنکھوں پر مسکارا لگانا، میک اپ اور بالوں کا بہترین اسٹائل بنانا بھی ان کی ذمہ داریوں میں شامل تھا۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق معمر قذافی کے حفاظتی دستے میں شمولیت کے لیے خواتین کا کنوارا ہونا بھی ضروری تھا۔ معمر قذافی کا بذات خود کہنا تھا کہ ان کی حفاظت پر معمور خواتین کو سخت فوجی ٹریننگ دی جاتی تھی تاکہ وہ آسانی سے دشمن کا شکار نہ بنیں۔ا ن کو کشتی  لڑنے سمیت مختلف علوم کی تربیت دی گئی -صدر قذافی نے اس فیمیل پلاٹون کے جو قاعدے اور ضوابط مقرر کئے تھے وہ اس طرح تھے ۔ گوریلا یونیفارم کے ساتھ ساتھ لپ اسٹک، اونچی ہیل والی جوتی اور نیل پالش بھی ان کے لیے لازمی تھی۔ حفاطتی دستے میں شمولیت سے پہلے خواتین کو یہ حلف بھی اٹھانا پڑتا تھا کہ وہ مرتے دم تک قذافی کے ساتھ رہیں گی۔


العربیہ ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق عالمی اور مقامی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز رہنے والی معمر قذافی بیرونی دوروں پر ان خواتین کو ہمیشہ ساتھ رکھتے تھے۔  اپنے دورہ اٹلی کے دوران بدوؤں کے خیمے کے ساتھ ساتھ وہ درجنوں خواتین باڈی گارڈز کو بھی اپنے ساتھ لائے تھے۔ اس دورے کے دوران قذافی کی طرف سے سینکڑوں نوجوان لڑکیوں کو کھانے کی ایک دعوت پر بھی مدعو کیا گیا تھا، جس میں قذافی نے انہیں اسلام قبول کرنے کا کہا تھا۔معمر قذافی کا بذات خود کہنا تھا کہ ان کی حفاظت پر معمور خواتین کو سخت فوجی ٹریننگ دی جاتی تھی-  تاکہ وہ آسانی سے دشمن کا شکار نہ بنیں۔ا ن کو کشتی  لڑنے سمیت مختلف علوم کی تربیت دی گئی -


سن  2009 میں اقوام متحدہ کی ایک کانفرنس کے دوران قذافی کا اصرار تھا کہ ان کو گراؤنڈ فلور پر کمرہ دیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ 35 قدموں سے زیادہ  چڑھائی طے نہیں کر سکتے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ قذافی اپنے اسٹاف میں سب سے زیادہ انحصار یوکرائن کی چار نرسوں پر کرتےتھے۔۔امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق معمر قذافی کے حفاظتی دستے میں شمولیت کے لیے خواتین کا کنوارا ہونا بھی ضروری تھا۔ -العربیہ ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق عالمی اور مقامی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز رہنے والی ان سینکڑوں خواتین محافظوں کا کچھ پتہ نہیں کہ وہ اب کہاں ہیں؟۔پھر بالآخر جس موت سے وہ بھاگ رہے تھے اور محافظ لڑکیوں کے حصار میں رہتے تھے-اپنی زندگی  کی آخری مزاحمت کی گھڑیوں میں وہ     فرار ہوتے ہوئے  دیکھے گئے ان کی  گاڑیوں کے قافلے میں کرنل قذافی کی فوج کے سربراہ ابو بکر یونس اور قذافی کے بیٹے معتصم بھی شامل تھے جب نیٹو افواج میں شامل فرانسیسی طیارے نے گاڑیوں کے اس قافلے پر حملہ کی۔نیٹو کے اس حملے میں اسلحے سے لیس 15 گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔ لیکن کرنل قذافی اور ان کے کچھ ساتھی اس حملے میں بچ گئے اور انھوں نے پانی کی نکاسی کے دو بڑے پائپوں میں پناہ لے لی مگر جنگجو جلد ہی قریب پہنچ گئے۔سالم بکیر نامی ایک جنگجو نے بعد میں رائٹرز کو بتایا کہ ’پہلے ہم نے اینٹی ائر کرافٹ گنوں سے کرنل قذافی اور ان کے ساتھیوں کی طرف فائرنگ کی لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ پھر ہم پیدل ان کی طرف گئے۔ جب ہم اس جگہ کے قریب پہنچے جہاں کرنل قذافی اور ان کے ساتھی چھپے ہوئے تھے تو اچانک ہی قذافی کا ایک جنگجو اپنی بندوق ہوا میں لہراتے ہوئے باہر نکل آیا اور جیسے ہی اس نے مجھے دیکھا تو اس نے مجھ پر فائرنگ شروع کر دی۔


‘سالم بکیر نے کہا کہ ’اس جنگجو نے چیخ کر کہا کہ میرے آقا یہاں ہیں، میرے آقا یہاں ہیں اور وہ زخمی ہیں۔‘ سالم بکیر کا کہنا تھا کہ ہم نے کرنل قذافی کو باہر نکلنے پر مجبور کر دیا۔ اس وقت انھوں نے کہا یہ کیا ہو رہا ہے۔ لیکن ایک اور شخص نے جس کا دعویٰ ہے کہ وہ عینی شاہد ہے کہا کہ اس نے دیکھا کہ نائن ایم ایم گن سے کرنل قذافی کے پیٹ پر گولی ماری گئی۔محمود جبرائیل کے مطابق کرنل قذافی کو زندہ پکڑا گیا تھا اور انھوں نے کوئی مزاحمت نہیں کی تھی لیکن جب انھیں ایک گاڑی میں ڈال کر وہاں سے لے جایا جا رہا تھا تو وہ گاڑی دونوں جانب سے جنگجوؤں کے درمیان ہونے والی فائرنگ کی زد میں آ گئی اور ایک گولی کرنل قذافی کے سر میں لگی جس سے وہ ہلاک ہو گئے۔ اور ان کی محافظین لڑکیوں کا نہیں معلوم کیا ہوا-باقی رہے نام اللہ کا -اللہ کے راستے پر چلنے والوں کو کسی مرد یا عورت کی حفاظت کی ضرورت نہیں ہوتی ہے کیونکہ ایسے بندے کی حفاظت اللہ کے فرشتے کرتے ہیں 


ٹرانسپلانٹ - امتحاں کیسے کیسے پارٹ -2

 

تمام سرجن اور ڈاکٹرز18 گھنٹے تک مسلسل کام کرتے رہے‘راولپنڈی میں ایک ہسپتال کے منتظم منور حسین بتاتے ہیں کہ جب لواحقین نے حتمی فیصلہ کیا کہ جسمانی اعضا عطیہ کرنے ہیں تو اس کے بعد ہم نے اپنا کام شروع کر دیا۔ سب سے پہلا کام عزیر کو دوسرے ہسپتال سے محفوظ انداز میں اپنے ہسپتال منتقل کرنا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ’دوسرا کام یہ دیکھنا تھا کہ کون سے اعضا عطیہ ہو سکتے ہیں اس کے لیے اسلام آباد کی ایک ہسپتال سے ہنگامی بنیادوں پر مدد حاصل کی گئی، جب پتا چل گیا کہ عزیر کا جگر، آنکھیں اور گردے محفوظ انداز میں حاصل کر کے ٹرانسپلانٹ ہو سکتے ہیں تو اس کے بعد ماہرین کنسلٹنٹ کو ٹاسک دیا گیا کہ وہ اپنے آپریشن کی تیاری کریں۔منور حسین کہتے ہیں کہ گردے کے ٹرانسپلانٹ کے ماہرین ہمارے ہسپتال میں موجود تھے اور یہ ٹرانسلانٹ ہمارے پاس ہی ہونا تھا۔ میجر جنرل ریٹائرڈ ارشد محمود اور ڈاکٹر نوید سرور نے اپنے کام کا آغاز کردیا تھا۔ آنکھوں کے لیےآنکھوں کے ایک ہسپتال سے ماہرین کو بلایا گیا جبکہ جگر اور لب لبے کے لیے متعلقہ شعبے کے ماہرین کو بلایا گیا تھا۔ڈاکٹر فیصل ڈار جگر ٹرانسپلانٹ کے ماہر سرجن ہیں۔

 عزیر بن یاسین کے جگر کے عطیہ کو دو حصوں میں تقسیم کرنے اور لب لبا کا ٹرانسپلانٹ کرنے کے آپریشن کی نگرانی انھوں نے کی تھی۔ڈاکٹر فیصل ڈار بتاتے ہیں کہ ’ہمیں دوپہر کے وقت راولپنڈی میں واقع ایک ہسپتال کی جانب سے اطلاع ملی کہ عطیہ کیا گیا جگر اور لبلبا حاصل کر لیں۔ سب سے پہلا کام تو یہ کیا گیا کہ اس کے لیے مستحق مریضوں کوتلاش کیا گیا۔ جس میں پہلی ترجیح جوان العمر تھے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’میں اور میری ٹیم نے ضروری ساز و سامان کے ہمراہ جس میں جگر اور ل لبا کو محفوظ بھی رکھنا تھا اسلام آباد کا سفر شروع کر دیا تھا۔’تقریباً چار گھنٹے میں ہم اسلام آباد پہنچے جہاں پر رات کے تقریباً نو بجے جگر حاصل کرنے کے لیے آپریشن شروع کیا گیا تھا۔‘ڈاکٹر فیصل ڈار کا کہنا تھا کہ ہسپتال میں عزیر کے دونوں گردے، آنکھیں حاصل کرنے کا کام شروع تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کوئی نو بجے آپریشن شروع کیا اور یہ کوئی دو، اڑھائی گھنٹے کا تھا۔ اس کے بعد جگر اور لب لبا لے کر واپس لاہور کا سفر شروع کیا۔‘ڈاکٹر فیصل ڈار کہتے ہیں کہ لاہور پہنچ کر میں اور میری ٹیم نے دوبارہ اپنا کام شروع کردیا تھا۔


 ہسپتال میں عملہ مریضوں کو آپریشن کے لیے تیار کررہا تھا۔ ہم نے بھی پہنچتے ہی تمام تیاریاں شروع کردی تھیں۔ اس کے لیے تین آپریشن تھیڑ تیار کیے گئے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ ان تین آپریشن تھیڑز میں تین ماہر کسنلٹنٹ سرجن اور ان کے زیر تربیت ڈاکٹرز اور عملہ مصروف عمل تھاخوشی ناقابل بیان تھی‘ڈاکٹر فیصل ڈار کہتے ہیں کہ جگر کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اور لبلبے کا ٹرانسپلانٹ تو دنیا بھر میں ہوتے ہیں مگر پاکستان میں پہلی مرتبہ ایسا آپریشن ہو رہا تھا۔ ان کے مطابق ’میرے دیگر دو ساتھی کسنلٹنٹ جگر کا ٹرانسپلانٹ کر رہے تھے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ہر جگر کو دو حصوں میں الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ جگر صحت مند ہو۔ عزیر جوان العمر تھے، ان کا جگر صحت مند تھا اور یہ فیصلہ ضروری ٹیسٹ کرنے کے بعد کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ جگر انسانی جسم میں کمی بیشی پر خود بخود اپنی پرورش کرتا ہے۔

 یہی وجہ ہے کہ جب کسی کا جگر حاصل کیا جائے تو کوشش کی جاتی ہے کہ اس سے دو مریضوں کو فائدہ پہنچ جائے۔ اسی طرح شوگر کی ایسی سٹیج جہاں پر وہ بالکل ہی نا قابل علاج ہو جائے اس کا واحد حل لب لبے کی تبدیلی ہوتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ میں نے برطانیہ سے تربیت حاصل کی تھی۔ وہاں پر میں نے ایسے آپریشن پہلے کیے تھے اس لیے ہمارے پاس یہ ٹرانسپلانٹ آپریشن کرنے کے لیے ضروری تجربہ موجود تھا۔’مگر پاکستان میں اس کا موقع اس لیے نہیں ملا کہ یہاں بعد از مرگ اعضا عطیہ کرنے کا رحجان بہت ہی کم ہے۔ اب یہ موقع ملا تو اس میں سب نے کوشش کی کہ جتنے بھی مریضوں کو فائدہ پہنچ سکے فائدہ پہنچنا چاہیے۔‘ڈاکٹر فیصل ڈار کا کہنا تھا کہ ’میں نے لب لبا اور میرے دو ساتھیوں نے جگر کا ٹرانسپلائنٹ مکمل کیا جو مشن ہم نے اتوار کی دوپہر شروع کیا تھا، وہ مسلسل کام کرتے ہوئے پیر کی صبح کوئی چھ سات بجے مکمل ہوا۔ تینوں مریضوں کی حالت تسلی بخش تھی، جس میں ایک سات سالہ بچہ بھی شام                لزینب امتیاز کہتی ہیں کہ ’میں ڈائیلیسِز پر تھی۔ ٹرانسپلانٹ سے پہلے بس ایک ہی کام ہوتا تھا کہ کب ہسپتال جانا ہے اور کب ڈائیلیسز کروانا ہے


مس رفعت ایک رضاکارانہ اعضاء عطیہ دہندہ تھیں جنہوں نے اپنی زندگی میں وصیت کی تھی۔ ان کے بھائی بریگیڈیئر زاہد بیگ مرزا، جو نیفرولوجسٹ اور کریٹیکل کیئر اسپیشلسٹ ہیں، نے اپنی فیملی کے ساتھ مل کر ان کی خواہش کو پورا کرنے کا فیصلہ کیا اور سی ایم ایچ/ایم ایچ راولپنڈی اور اے ایف آئی یو کی ٹیموں سے اعضاء نکالنے کی رضامندی کے لیے رابطہ کیا۔ مس رفعت کو وینٹی لیٹر پر رکھا گیا تاکہ ان کا دل موت کے بعد بھی زندہ رہے۔اے ایف آئی یو، ایم ایچ، سی ایم ایچ، شفا، بحریہ اور سفاری اسپتالوں کی ٹیموں نے مل کر ایک ایسے مریض کا انتخاب کرنے کے لیے کام کیا جسے 18 گھنٹوں کے اندر گردے کی پیوند کاری کی ضرورت ہو، جو اعضاء نکالنے کی ڈیڈ لائن تھی۔ ڈاکٹر فیصل دار کی ٹیم نے جگر نکالنے کے عمل میں حصہ لیا۔ مجموعی طور پر، تین مریضوں کی جان بچائی جا سکتی تھی: ایک جگر اور دو گردے جو 18 گھنٹوں کے اندر میچ کیے گئے اور ٹرانسپلانٹ کیے گئے۔اے ایف آئی پی امیونولوجی ٹیم نے رات بھر کام کرتے ہوئے 12 گھنٹوں کے اندر مطابقت کے ٹیسٹ مکمل کیے۔ الحمدللہ، دو گردے اور ایک جگر تین مریضوں کو پیوند کیا گیا اور وہ اچھی طرح کام کر رہے ہیں۔

یہ ٹرانسپلانٹ آپریشن ایک انوکھا اور قابلِ ذکر کارنامہ تھا، جو حقیقی صدقہ جاریہ ہے۔ آئیے اس مثبت خبر کو عام کریں تاکہ اعضاء کے عطیات اور پیوند کاری کے اس عظیم مقصد کے بارے میں آگاہی میں اضافہ ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے قابلِ تقلید عمل کرنے کی حکمت اور ہمت عطا فرمائے۔مس رفعت کی بیٹیوں (جو سب ڈاکٹر ہیں) نے اپنی والدہ کو آخری الوداع کہا، جب ان کا دل وینٹی لیٹر پر دھڑک رہا تھا لیکن وہ دماغی طور پر مردہ تھیں۔ اعضاء کے عطیہ کے بعد انہوں نے اپنی پیاری اور عظیم ماں کی میت وصول کی۔ کیا بہادر خاندان ہے، کیا عظیم ماں ہے! ان سب کو سلام!

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر