جھڑتے ہیں پھول پھاگن کے پھاگن کے مہینے میں
میں تم سے جدا ہوتا ہوں ایک درد لئے سینے میں
گلوکار کندن لال سہگل -ایک خوبصورت آواز جو بے وقت خاموش ہو گئ -مجھے غزل گوئ اور غزل سرائ دونوں پسند ہیں اور ابھی میرا طالب علمی کا دور چل رہا تھا کہ سہگل کی اس غزل نے میرے دل میں جگہ بنا لی اور پھر میں باقاعدہ سہگل کی غزلیں سننے لگی -مجھے گھر میں اپنی امی جان کی کافی خفگی کا سامنا کرنا پڑتا لیکن بھلا شوق کا بھی کوئ مول ہوتا ہے-مجھے غزل گوئ اور غزل سرائ دونوں پسند ہیں اور ابھی میرا طالب علمی کا دور چل رہا تھا کہ کندن سہگل کی اس غزل نے میرے دل میں جگہ بنا لی اور پھر میں باقاعدہ سہگل کی غزلیں سننے لگی -مجھے گھر میں اپنی امی جان کی کافی خفگی کا سامنا کرنا پڑتا لیکن بھلا شوق کا بھی کوئ مول ہوتا ہے- امی جان مر حو مہ کی ڈانٹ سنتے سنتے ایک دن سوچ لیا اب گھر میں شوق پورا کرنے کے بجائے اسکول میں گایا کروں گی - پھر میری سہیلیوں کا جھرمٹ بن گیا جو میری غزلیں سننے کو انٹرویل میں میرے پاس آجاتی تھیں آج نیٹ کے سیر سپاٹے کرتے ہوئے سہگل کا نام نظر آیا تو بس پھررم جھم کرتا ماضی آ نکھوں میں اتر آیا میں نے جو پڑھا وہ لکھ لیا
-گلوکار کندن لال سہگل 1904 میں پیدا ہوئے۔موسیقی کی تربیت باقائدہ کسی استاد سے حاصل نہیں کی تھی بلکہ ان کی یہ صلاحیت خداداد تھی۔ کہتے ہیں وہ ایک بار استاد فیاض علی خان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے اپنی شاگردی میں لینے کی درخواست کی تو انھوں نے کہا ’تم اتنا جانتے ہو کہ میں تمھیں اور کیا سکھا سکتا ہوں‘ یہ بھی مشہور ہے کہ ان کے کسی گیت سے استاد عبد الکریم خان صاحب اتنے متاثر ہوئے کہ انھیں انعام کے طور پر سو روپے کا منی آرڈر بھیج دیا۔ دروغ بر گردنِ راوی، یہ واقعہ 1937 کا بتایا جاتا ہے جس زمانے میں سو روپے کی رقم اچھی خاصی سمجھی جاتی تھی۔ بعض سوانح نگاروں کا کہنا ہے کہ انھوں نے کسی استاد سے موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی اور نہ موسیقی کے کسی معروف گھرانے سے وابستہ تھے لیکن جب جموں میں تھے تو والدہ کے ساتھ مذہبی تقاریب اور مندروں میں بھجن کی محفلوں میں شرکت کرتے اور والدہ کے ساتھ مل کر بھجن خود بھی گایا کرتے۔بعض سوانح نگاروں کا کہنا ہے کہ جموں کے ایک غیر معروف سے صوفی بزرگ سلمان یوسف کے آستانے پر حاضری بھی دیتے تھے اور بھجن یا عارفانہ کلام سناتے۔ یہ بزرگ خود بھی گاتے تھے اس لیے عین ممکن ہے کہ انھیں موسیقی میں کچھ درک رہا ہو اور انھوں نے سیگل کی اس سلسلے میں کچھ ابتدائی تربیت کی ہو-بہر حال یہ طے ہے کہ موسیقی اور گائیکی ان کی رگ رگ میں تو رچی ہوئی تھی لیکن ان کے معاش کا ذریعہ نہیں تھی اور نہ انھوں نے اس کو روزی کا ذریعہ بنانے کا کوئی منصوبہ بنایا تھا۔ اور بنا بھی نہیں سکتے تھے،
اس لیے کہ اس زمانے میں موسیقی اور پہلوانی دونوں صرف جاگیرداروں اور رجواڑوں کی سرپرستی میں فروغ پاتی تھیں اور سیگل کچھ اتنے آزاد منش تھے کہ درباروں کے آداب سے مطابقت پیدا کرنا ان کے لیے یقیناً مشکل ہوتا۔چنانچہ وہ کلکتہ پہنچ گئے اور ٹائپ رائٹر بنانے والی کمپنی میں 80 روپے ماہانہ پر سیلز مین کی نوکری مل گئی۔ کلکتہ میں ہی کہیں ان کی کسی طرح نیو تھیٹر کے بانی بی۔ این۔ سرکار سے مڈبھیڑ ہو گئی اور انھوں نے ان کو گلوکار کے طور پر دو سو روپے ماہانہ پر ملازمت دیدی۔باقاعدہ اداکاری اور گائیکی کا آغاز-نیو تھیٹرمیں اس زمانے میں رائے چند بورل، تامیر برن اور پنکج ملک موسیقار تھے جن میں بورل سب سے سینئیر تھے اور انھوں نے سہگل کے فن میں نکھار اور پختگی پیدا کرنے میں یقیناً بڑا نمایاں کردار ادا کیا ہوگا، اس لیے کہ نیو تھئیٹر کی فلموں نے سہگل کو ہندوستان گیر شہرت دی اور ان موسیقاروں کی بنائی ہوئی دھنوں پر ہی انھوں نے وہ نغمے گائے جنھوں نے انھیں امر بنادیا۔ مثلاً دیو داس کا یہ نغمہ ’دکھ کے دن اب بیتت ناہیں ‘ یا ’بالم آئے بسو میرے من میں یا فلم اسٹریٹ سنگر کا یہ گیت ’بابل مورا نہیئر چھوٹل جائے‘ وغیرہ وغیرہ۔نیو تھئیٹر نے ابتدا میں سہگل کے ساتھ جو تین فلمیں بنائیں وہ مالی اعتبار سے ناکام رہیں۔ ان میں پہلی محبت کے آنسو، زندہ لاش اور صبح کا تارہ شامل ہیں۔ 1933 میں بھی نیو تھئیٹر نے تین فلمیں ریلیز کیں جن میں پورن بھگت، راج رانی میرا او اور یہودی کی لڑکی شامل ہیں۔ اگرچہ یہ فلمیں کامیاب رہیں لیکن ان کی کامیابی سے زیادہ سہگل کو شہرت ملی اور بحیثیت اداکار اور گلوکار وہ پہچانے جانے لگے۔
دیوداس-1934 میں نیو تھئیٹر نے مزید تین فلمیں ریلیز کیں جن میں چندی داس نے سہگل کو وہ مقام دیا جہاں سے انھوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا یہاں تک کہ دوسرے سال یعنی 1935 میں دیو داس نے ان کو امر بنادیا۔دیو داس سرت چندر چٹّرجی کا وہ شہرہ آفاق ناول ہے جس نے نہ صرف بنگالی ادب میں ایک گراں قدر اضافہ کیا بلکہ ہندوستانی اشرافیہ اور متوسط طبقے کے پڑھے لکھے نوجوانوں کے جذبات اور احساسات اور ان کی الجھنوں کو زبان دیدی جو ایک طرف جمہوریت، آزادی، سیکولرزم اور انسانی مساوات کے سنہرے اصولوں سے واقفیت حاصل کر رہے تھے اور دوسری جانب خود ان کے اپنے سماج میں ان اصولوں کو بڑی بیدردی سے روندا جا رہا تھا۔
دیوداس ایک ایسے نوجوان کی کہانی ہے جو ایک آعلیٰ ذات کے بڑے زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتا ہے اور ساری خوبیوں کا مالک ہونے کے باوجود محض اس بنیاد پر رائندِ درگاہ قرار پاتا ہے کہ اسے ایک نیچ ذات کی لڑکی سے محبت ہوجاتی ہے۔دیو داس صرف بنگال کے نوجوان کی کہانی نہیں تھی بلکہ پورے ہندوستان کے پڑھے لکھے نوجوان کی کہانی تھی اور جب بروا نے بنگالی میں یہ فلم بنائی تو یہ ناول سے بھی زیادہ مقبول ہوئی اس لیے کہ ناول تو صرف پڑھے لکھے لوگ ہی پڑھ سکتے تھے فلم ان پڑھوں نے بھی دیکھی۔ اور میں یہ بھی بتا تا چلوں کہ بنگالی دیوداس میں بھی سہگل نے ایک چھوٹا سا رول کیا تھا اور دو گانیں بھی گائے تھے۔ اس فلم کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے ہندوستانی میں بھی اسے بنانے کا فیصلہ کیا گیا جس میں سہگل نے دیوداس کا مرکزی کردار ادا کیا جو بنگالی فلم میں بروا نے ادا کیا تھا۔کامیابی کا دور-سہگل نیو تھئیٹر کی کئی کامیاب فلموں میں کام کرنے کے بعد، جن میں کروڑ پتی، پجارن، دیدی، پریسی ڈنٹ، سٹریٹ سنگر، ساتھی دشمن اور بنگالی کی کئی کامیاب فلمیں شامل ہیں، بمبئی کے رنجیت اسٹودیو سے وابستہ ہو گئے اور وہاں اور فلموں کے علاوہ انھوں نے بھگت سورداس اور تانسین میں کام کیا جو ہر اعتبار سے بہت کامیاب فلمیں تصور کی جاتی ہیں۔سہگل، تان سین کے بعد، جو 1944 میں ریلیز ہوئی، تین سال اور بلکہ یوں کہیے کہ دوسال اور زندہ رہے اس لیے کہ جنوری 1947 میں ان کا انتقال ہو گیا۔ اس عرصے میں انھوں نے سات فلموں میں کا م کیا ان میں فلم شاہجہاں کا نام قابل ذکر ہے۔ شاہ جہاں اس اعتبار سے بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس میں مجروح سلطان پوری نے پہلی مرتبہ کسی فلم کے لیے نغمے لکھے تھے لیکن پھر ان کی زندگی نے ان کو مذید مہلت نہیں دی اور صرف ۴۳ برس میں ان کی آتما پرماتما کے حضور حاضرہو گئ
اس مضمون میں انٹرنیٹ سے مدد لی گئ ہے