بدھ، 11 ستمبر، 2024

زلزلہ ایک قدرتی آفت ہے

 زلزلہ ایک قدرتی آفت ہے، جو کسی بھی وقت کہیں بھی آسکتا ہے۔پاکستان نے بھی  بڑے بڑے زلزلے  سے بڑے جانی اور مالی نقصان اٹھائے ہیں - ریکٹر اسکیل پر زیادہ شدت رکھنے والے زلزلے جانی اور مالی نقصان کا باعث بھی بنتے ہیں، اس کے نتیجے میں عمارتیں بھی زمین بوس ہوجاتی ہیں۔ پاکستان کا شمار بھی دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جو زلزلے کے خطرات سے دوچار رہتے ہیں۔ عالمی بینک رپورٹ کے مطابق، 2005ء کے زلزلہ کی وجہ سے پاکستان کو پانچ اعشاریہ دو ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا تھا۔اس زلزلہ کی وجہ سے تقریباً 28 لاکھ لوگ بے گھر جب کہ 73ہزار افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ تاہم دُنیا میں سب سے زیادہ اورسب سے شدید زلزلے جاپان میں آتے ہیں، جو بسا اوقات سونامی کی شکل بھی اختیار کرلیتے ہیں۔ زلزلوں کو تو نہیں روکا جاسکتا تاہم انسان سائنسی ترقی کی روشنی میں ایسے اقدام ضرور اٹھا سکتا ہے، جس کے نتیجے میں نقصان کو کم کیا جاسکتا ہے، ان میں زلزلہ سے محفوظ رہنے والی عمارتوں کی تعمیر ایک اہم قدم ہے۔  تاریخ گواہ ہے کہ غلط منصوبہ بندی کے تحت بنائی گئی عمارتیں، زلزلے کی صورت میں شہری مرکز میں بڑے مالی اور جانی نقصان کا باعث بنتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے دور میں، زلزلوں کو برداشت کرنے والی عمارتوں کی تعمیر کا رجحان عام ہوتا جارہا ہے۔ ذیل میں ایسی ہی چند عمارتوں کی تفصیل پیش کی جارہی ہے۔زلزلہ برداشت کرنے والی جدید عمارتیتائیوان کے دارالحکومت تائپے کی فلک بوس عمارت تائپے 101کی تعمیر 2004ء میں مکمل کی گئی تھی۔ 1,667میٹر بلندی کے ساتھ اُس وقت یہ دنیا کی بلند ترین عمارت تھی۔ ہرچند کہ، اب اسے دنیا کی بلند ترین عمارت کا درجہ حاصل نہیں رہا، تاہم اس میں زلزلے اور موسمی تغیر سے محفوظ رہنے کے لیے استعمال کی جانے والی ٹیکنالوجی آج بھی اتنی ہی مؤثر اور اعلیٰ ہے۔ تائپے101میں، زلزلے کے جھٹکوں سے محفوظ رہنے کے لیے ’’اِنٹرنل ڈَیمپر‘‘ ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کا استعمال اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ زلزلے کی صورت میں عمارت کے ڈھانچے کو نقصان نہیں پہنچے گا۔


زلزلہ کے بڑھتے خطرات کے پیشِ نظر پاکستان میں بھی تعمیرات میں زلزلہ پروف ٹیکنالوجی پر کام ہورہا ہے۔ این ای ڈی یونی ورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے اَرتھ کوئیک انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ کی لیب میں اسٹیل کینیڈا کے تعاون سے زلزلہ پروف عمارتوں کی تعمیراور موجودہ عمارتوں کے لیے اسٹیل سے بنے بکلنگ ری اسٹرین فریم کا کامیاب تجربہ کیا جاچکا ہے۔بکلنگ ری اسٹرین بریسنگ(بی آر بی) ٹیکنالوجی کے ذریعے زیادہ لچکدار اور زیادہ مضبوط ڈھانچے کی تعمیرممکن ہے، جس کے ذریعے عمارت زلزلے کے شدید جھٹکوں کو برداشت کرسکتی ہے۔این ای ڈی یونیورسٹی کے ماہرین کے مطابق، یہ فریم نصب کروانے سے عمارت انتہائی محفوظ ہوجاتی ہے اور خرچ بھی زیادہ نہیں آتا۔ نئی تعمیر ہونے والی عمارتوں کو زلزلہ پروف بنانے کے لیے مختلف طریقے آزمائے جاتے ہیں لیکن پُرانی تعمیر شدہ عمارت کے لیے بی آر بی بہترین طریقہ ہے، جس کے ذریعے کسی بڑی ڈیمالیشن کیے بغیر عمارت کو محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔ دنیا کے دیگر ملکوں میں اس ٹیکنالوجی کا تجربہ کامیاب رہا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ چونکہ پاکستان کا محل وقوع فالٹ لائن پر واقع ہے، جس کی وجہ سے ہمارے ملک میں بی آر بی ٹیکنالوجی زیادہ مؤثر ثابت ہوسکتی ہے۔

 استنبول ایئر پورٹ-زلزلہ برداشت کرنے والی جدید عمارتیں-1999ء میں ترکی کے تاریخی شہر استنبول میں 7.4شدت کا زلزلہ آیا تھا، جس کے نتیجے میں 17,000لوگ زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔ 20لاکھ مربع فٹ پر تعمیر کردہ اس وسیع و عریض اور خوبصورت کمپلیکس میں زلزلے سے محفوظ رہنے کے لیے، سطح زمین پر 300سیسمِک آئسولیٹرز نصب کیے گئے ہیں۔ اس کے انفرادی بیئرنگ، زلزلے سے پیدا ہونے والی حرکت کے ساتھ چلتے ہیں، جس کے نتیجے میں ساری عمارت ایک یونٹ کے طور پر حرکت میں آتی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے باعث، زلزلے سے پیدا ہونے والی حرکت کی رفتار میں 80فیصد کمی آجاتی ہے۔-ٹرانس امریکا پیرامیڈزلزلہ برداشت کرنے والی جدید عمارتیں -یہ امریکی ریاست کیلی فورنیا کے شہر سان فرانسسکوکی بلند ترین عمارت ہے اور توقع ہے کہ مستقبل میں یہ 6.7کی شدت والے زلزلے تک کو برداشت کرجائے گی۔ اس عمارت کی بنیاد میں استعمال ہونے والاکنکریٹ 52فٹ گہرا ہے اور یہ زلزلے کی صورت میں زمین کے ساتھ حرکت میں آنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ 1989ء میں سان فرانسسکو میں 6.9شدت کا زلزلہ ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اس زلزلے کے دوران یہ عمارت ایک منٹ تک مسلسل حرکت میں رہی، عمارت کی بالائی منزل اپنی جگہ سے ایک فٹ تک باہر جاتے دیکھی گئی، تاہم عمارت کا ڈھانچہ مکمل طور پر محفوظ رہا

-کاربن فائبر سے بنے تار کا استعمال جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ جاپان میں سب سے زیادہ اور سب سے شدید زلزلے آتے ہیں۔ اس بات کے پیشِ نظر جاپان نے اپنی عمارتوں کو محفوظ بنانے کےکئی طریقے ایجاد کیے ہیں۔ ایک ایجاد ’کاربن فائبر‘ سے بنے تاروں کا استعمال ہے۔ جاپانی ماہرِ تعمیرات’کینگو کیومہ ‘نے عمارت کو زلزلہ پروف بنانے کا انوکھا طریقہ ڈھونڈ نکالا۔ جنوبی جاپان کے شہر’ نومی ‘ میں زلزلہ سے متاثرہ لیبارٹری اوردفتر کی عمارت کو ازسرِ نو تعمیر کیا گیا۔ شنگھائی ٹاور-زلزلہ برداشت کرنے والی جدید عمارتیںچین کے سب سے بڑے شہر شنگھائی کے 2,000فٹ بلند شنگھائی ٹاور کو اس وقت زمین پر موجود دنیا کی دوسری سب سے اونچی عمارت ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ بدقسمتی سے، شنگھائی زلزلے کی زد میں ہونے والے علاقوں میں شامل ہے، اور یہاں کی زمین بھی نسبتاً نرم مٹی پر مشتمل ہے۔ اس عمارت کو زلزلے سے محفوظ رکھنے کے لیے انجینئرز نے ساڑھے 21لاکھ مکعب فٹ ’’ری اِنفورسڈ کنکریٹ‘‘ کا استعمال کیا، جوزمین کے اندر 300فٹ تک جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس میں پینڈولم پاور ٹیکنالوجی کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔ پینڈولم کا وزن 1,000ٹن ہے، جس کے سامنے تائپے 101کا پینڈولم بھی شرما جاتا ہے۔

اب کی بار اسے زلزلے سے محفوظ رکھنے کے لیے آرکیٹیکٹ نے ‘کاربن فائبر’ سے بنے تاروں کا استعمال کیا ہے۔ طریقہ کار کے تحت عمارت کی بنیادوں ، اندرونی دیواروں اور کھڑکیوں کو کئی تاروں سے باندھا گیا ہے۔ عمارت کے باہر سے تاروں کو باندھنے کے لیے ایک سرا عمارت کی چھت اور دوسرازمین پر باندھا گیا ہے، جس کے بعد یہ بلڈنگ، سرکس ٹینٹ سے مشابہہ دِکھائی دیتی ہے۔ آرکیٹیکٹ کے مطابق، اگر زلزلہ بلڈنگ سے ٹکرائے گا، تو یہ زمین کے ساتھ اپنی جگہ بنائے رکھے گی۔بلڈنگ کو ڈیزائن کرنے والے آرکیٹیکٹ کا کہنا ہے کہ یہ ڈیزائن ان عمارتوں کے لیے بنایا گیا ہے، جو ایک سے دو بار زلزلے سے متاثر ہو چکی ہیں اور اس طریقے سےانھیں دوبارہ زلزلہ پروف بنایا جا سکتا ہے۔اسٹائرو فوم سے تعمیرجاپان میں عمارتوں کے زلزلہ سے محفوظ رکھنے کے لیے بڑے پیمانے پر مسلسل کام ہورہا ہے، جس کے باعث ماہرین ہر آئے دن نئی اختراعات متعارف کراتے رہتے ہیں۔ کاربن فائبر سے تیار کردہ تاروں کے استعمال کے علاوہ، جاپانیوں نے زلزلہ سے محفوظ رہنے کا ایک اور طریقہ یہ نکالا ہے کہ وہ فوم کی مدد سے گھر بنانے لگے ہیں، جو زلزلے سے مکمل طور پر محفوظ رہتے ہیں۔ یہ گھر انتہائی خوبصورت بنائے گئے ہیں اور جاپان کی سیر پر جانے والے اکثر سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔ ان ہلکے پھلکے مگر خوب صورت گھروں کو ’اسٹائروفوم‘ نامی مضبوط فوم سے تیار کیا جاتا ہے،جو ایک طرف تو مکینوں کو شدید گرمی اور شدید سردی سے محفوظ رکھتے ہیں تو دوسری جانب اسی فوم کی بدولت یہ مکانات زلزلوں کے خلاف حیرت انگیز مزاحمت بھی رکھتے ہیں۔ اسٹائروفوم سے تعمیر کیے جانے والے تمام مکانات کو گنبد جیسی شکل دی جاتی ہے، کیونکہ اس کی ساخت بہت مضبوط اور پائیدار ہوتی ہے۔ اس میں بنیادی ڈھانچے کی لکڑی پر اسٹائروفوم کی موٹی تہہ چڑھادی جاتی ہے۔


6گھنٹہ میں زلزلہ پروف گھر تیار-اِٹلی کی ایک فرم نے عالیشان مکان کے ایسے ضروری اجزاء تیار کیے ہیں، جن کے ذریعے ص6 گھنٹے میں پورا مکان تعمیر کیا جاسکتا ہے اور اہم بات یہ ہے کہ یہ مکان مکمل طور پر زلزلہ پروف ہوتا ہے۔ اسے فلیٹ پیک فولڈنگ ہوم کا نام دیا گیا ہے، جس کے تمام اجزاء اٹلی کی ایک فیکٹری میں تیار کیے گئے ہیں اور انہیں آسانی سے ٹرکوں کے ذریعے کسی بھی جگہ منتقل کیا جاسکتا ہے۔اس کی خاص بات مکان کی ڈیزائننگ ہے جو بہت خوبصورت ہے اور اندر سے بھی کشادگی کا احساس دیتی ہے۔ چھوٹے مکان کا رقبہ290مربع فٹ جب کہ بڑے مکان کا رقبہ904 مربع فٹ ہوتا ہے۔ کمپنی کے مطابق، مکان کی فوری تعمیر کے لیے لکڑی اور پلاسٹک سمیت کئی نئے مٹیریل بھی بنائے گئے ہیں، جو موسم کی شدت برداشت کرسکتے ہیں جبکہ فوری تیاری کےلیے ڈیزائن میں بہت سی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ماحول دوست مکان، شمسی پینل کے ذریعے اپنی بجلی خود پیدا کرتا ہے، جسے اٹلی کے ڈیزائنر ریناٹو وائیڈل نے بنایا ہے۔ مکان کو مختلف ماڈیولز میں رکھاجاتا ہے، تاکہ اسے کھول کر بآسانی بنایا جاسکے۔ اس میں 904 مربع فٹ کا ماڈل ایک چھوٹے خاندان کی ضروریات پوری کرسکتا ہے۔ ضرورت کے تحت گھر کو پھر سے کھول کر کسی اور جگہ منتقل کرنا بھی آسان ہے۔


منگل، 10 ستمبر، 2024

کاگا سب تن کھائیو سو چن چن کھائیو ماس

 کاگا سب تن کھ  کھائیو سو چن چن کھائیو ماس 

دو نینا ں مت کھائیو جن میں پیا ملن کی آس    

  ہندوستان کے ایک بڑے نامور ادیب نے راجندر سنگھ بیدی کے ناول ''ایک چادر میلی سی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا  راجندر کچھ نا لکھتے   تب بھی یہی ایک ناول ان کو آسما ن ادب کا درخشاں ستارہ بنانے کے لئے کافی تھا - اور میرا کہنا ہے قرۃ العین حیدر کے لئے کہ عینی کچھ نا لکھتیں  تب بھی ان کا نام اسی ایک افسانے سے کہکشاں کی مانند ادبی  آسمان میں جگمگاتا -فکشن نگارقرہ العین  ۔ ان کےافسانوں میں عصری حسیت اور فلسفیانہ شعور کی گہرائی  موجود ہے۔ قصہ کو قصہ بتانے کے تمام لوازم ان کے افسانوں کوکامیاب بناتے ہیں اور کہانی کو کہانی بنانا ہی تخلیق کار کا اولین فرض ہوتا۔قرہ العین حیدر نے اپنے افسانوں میں تاریخ، فلسفہ، عصری آگہی کو بھی ملحوظ رکھا ہے۔ ان کے یہاں اسلوب اور تکنیک کاحسین امتزاج ملتا ہے۔ ماضی کی بازیافت ،  زمانے کے بدلتے ہوئے رجحانات ۔ ان کے فنی طریق کار کی انفرادیت اور تکنیک کےتنوع نے ان کے فن کو ممتاز اور منفرد بنا دیا ہے۔ ان کے ابتدائی افسانو ں ںپر ایک پرتکلف ، خوابناک اور رومانی فضا چھائی ہوئی دکھائی دیتی ہےلیکن تقسیم وطن کے بعد تہذیبی سانچوں کی شکست و ریخت اور انسانیت کی  پسپائی ان کے یہاں زیادہ درآئی ۔ 


قرۃ العين حيدر 20 جنوری، 1926ء میں اتر پردیش کے شہر علی گڑھ میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد سجاد حیدر یلدرم اردو کے پہلے افسانہ نگار شمار کیے جاتے ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد قرۃ العین حیدر کا خاندان پاکستان چلا گیا۔ 1959ء میں ان کا ناول آگ کا دریا منظر عام پر آیا جس پر پاکستان میں بہت ہنگامہ ہوا۔ اس کے فوراً بعد انہوں نے بھارت واپس جانے کا فیصلہ کیا جہاں وہ بطور صحافی کام کرتی رہیں اور افسانے اور ناول بھی لکھتی رہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے ادبی تراجم بھی کیے۔ ان کی کتابوں کی تعداد 30 سے زیادہ ہے۔ انہوں نے 1964ء تا 1968ء ماہنامہ امپرنٹ کی ادارت کی اور السٹریٹیڈ ویکلی آف انڈیا میں اداریہ لکھتی رہیں۔ ان کی کتابیں انگریزی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ ہوئی ہیں۔ ان کے سبھی ناولوں اور کہانیوں میں تقسیم ہند کا درد صاف نظر آتا ہے۔ ان کے دو ناولوں آگ کا دریا اور آخر شب کے ہم سفر کو اردو ادب کا شاہکار مانا جاتا ہے۔


قرہ العین حیدرنے اپنے افسانوں میں انھیں موضوعات، ماجرے، مناظراور محاکات کو پیش کیا ہے جن سے وہ بخوبی واقف تھیں۔ ان کے کردارعموماً اعال متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو کانونٹ، کالج اوریونیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ ہیں اور کرکٹ، ہاکی، فٹ بال، ٹینس، تاش،شطرنج کے شوقین ہیں۔رقص و موسیقی کے دلدادہ ہیں۔ کلب جانا ان کےشغل میں شامل ہے۔ عام طور پر وہ ہوائی سفر کرتے ہیں۔ معاشی مسائلسے بےنیاز ہیں۔ باپ دادا کی دولت پر عیش کرتے ہیں اور انگریزی طرزمعاشرت میں رنگے ہیں۔قرہ العین حیدرایک غیرجانبدار ادیبہ ہیں۔ وہ نہ تو کسی فرقہ اور مذہب  کے لیے لکھتی ہیں اور نہ کسی خاص ملک کے لیے اور نہ کسی رجحان   اور تحریک کی پابند ہیں۔ وہ ایک روشن خیال ادیبہ ہیں۔ انسانیت اورمشترکہ تہذیب میں یقین رکھتی ہیں۔ ان کے یہاں جس پس منظر سے وہ،کردار  لیا گیا ہوتا ہے، اس پس منظر کا تہذیبی منظرنامہ قاری کے سامنے نمایاں ہوتا جاتا ہے۔

زبان و بیان کی ندرتوں کے لحاظ سے بھی عینی کی تخلیقات عدیم المثال ہیں۔ انھوں نے اردو فکشن کو ایک نیا اور البیلا اسلوب دیا ہے جوانوکھا ہونے کے ساتھ ساتھ دلکش بھی ہے۔ ان کے افسانوی مجموعے 'پت جھڑ کی آواز' پر انھیں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔قرہ العین حیدرنے ترقی پسند تحریک کے دوران ہی لکھنا شروع کردیا تھا۔ آزادی سے کچھ پہلے ان کے افسانوں کا مجموعہ 'ستاروں سےآگے' منظرعام پر آچکا تھا۔اس کے بعد وہ اپنے ادبی سفر میں خوب سےخوب تر کی منزل کی طرف بڑھتی گئیں اور ان کا فکروفن مسلسل ارتقائیمنازل طے کرتا رہا۔جوں جوں ان کا مطالعہ اور مشاہدہ وسیع اور عمیق ہوتا گیا ان کے افسانے نکھرتے اور سنورتے گئے اور کینوس میں وسعت آتی گئی۔یہاں تانیثیت کا رجحان ایک نئی معنویت کے ساتھ ابھرا ہے۔ انھوں نےانسانی تاریخ کے مختلف ادوار میں عورت کی بنتی بگڑتی شبیہ کو پیش کیاہے اور اپنی اکثر تخلیقات میں سماج اور زمانے کی طاقت کے سامنےعورت کی کمزوری اور حالت کی ستم ظریفی کو عورت کی نارسائی اورپسپائی کے حوالے سے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ ان کی تقریباً تمام تخلیقات میں جدید دور کی عورت کے مختلف کردار ہمارےسامنے ہیں۔ عورت کی محرومی ، کرب اور تقدیر پر شاید ہی کسی اور نےاتنی تفصیل، تواتر اور شدت سے لکھا ہوگا۔۔


قرہ العین حیدر کے افسانوں کے کردار اور واقعات صرف برصغیر کی حد تک محدود نہیں ہیں ۔ انھوں نے اپنے افسانوں کے کردار ساری دنیا کےمختلف ممالک اور خطوں سے بھی لیے ہیں بلکہ انھوں نے دنیا میں کیا ہورہاہے، ان باتوں اور خیالوں کو بھی اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔ اس   زمانے میں، چاہے ترقی پسند تحریک کے زیراثر ہو یا جدیدیت کے زیر اثرجو بھی افسانے لکھے جا رہے تھے ان میں یہ باتیں نہیں تھیں۔یہی وجہ ہے کہ قرہ العین حیدرکے افسانے اس زمانے کے افسانوں سے منفردتھے۔"کارمن، ہاؤسنگ سوسائٹی، یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندےمونالیزا" قرہ العین حیدر کے ایسے افسانے ہیں جو عالمی افسانے کےمعیار کے ہیں۔ انھوں نے مواد، پالٹ، اسلوب، لفظیات، کردار نگاری کا جومظاہرہ کیا ہے، وہ ان کے عمیق مطالعہ اور جہاں نوردی کا حاصل ہے۔ یہی    وجہ ہے کہ ان کے افسانے اردو کے عام افسانہ نگاروں کے افسانوں سےمعیار میں بہت بلند ہیآخرِ شب کے ہم سفر کے لیے 1989ء میں انہیں بھارت کے سب سے باوقار ادبی اعزاز گیان پیٹھ انعام سے بھی انہوں نے شادی نہیں کی جو وہ اپنے پیچھے کسی وارث کو چھوڑ کر جاتیں اس لئے بس ان کا ادبی سرمایہ ہی ان کی وراثت ٹہرا -ہندوستان کی  حکومت کی جانب سے  ان کو کئ ادبی اعزازات سےنوازا گیا جبکہ  حکومت نے انہیں 1985ء میں پدم شری اور 2005ء میں پدم بھوشن جیسے اعزازات بھی دیے۔  


  گیارہ سال کی عمر سے ہی کہانیاں لکھنے والی قرۃ العین حیدر کو اردو ادب کی ورجینیا وولف کہا جاتا ہے۔ انہوں نے پہلی بار اردو ادب میں سٹریم آف کونشیئسنس تکنیک کا استعمال کیا تھا۔ اس تکنیک کے تحت کہانی ایک ہی وقت میں مختلف سمت میں چلتی ہے۔ ان کی وفات 21 اگست 2007ء کو نوئیڈا میں ہوئی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان میں مدفون ہوئیں

پیر، 9 ستمبر، 2024

ٹنڈر: روایتی رشتہ کلچر میں تبدیلی! پارٹ -2

 


  پلوشہ کا کہنا ہے کہ ’اس عمر میں انسان کو اندازہ ہوتا ہے اور مجھے پتا تھا کہ وہ سیریس ہے، کیونکہ پہلے بھی بات چیت میں وہ کئی بار شادی کا اشارہ دے چکے تھے اور فوزان نے یہ کبھی نہیں کہا تھا کہ ہم نے پہلے ڈیٹ کرنا ہے پھر دیکھیں گے کیا ہوتا ہے، بلکہ وہ ہمیشہ سے ہی ڈائریکٹ شادی کی بات کرتے تھے۔‘31 سالہ فوزان محمد خان بینک میں نوکری کرتے ہیں -گھر والوں کو کیسے بتایا کہ جس لڑکے سے شادی کرنی ہے اسے ڈیٹنگ ایپ پر ملی ہوں؟اس کے جواب میں پلوشہ ہنستے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’میرے تو ممی پپا بھی رانگ نمبر پر ملے تھے‘۔ وہ کہانی پھر سہی مگر سب سے پہلے تو پلوشہ کو گھر والوں کو سمجھانا پڑا کہ ٹنڈر ہے کیا چیز۔وہ بتاتی ہیں کہ ان کی والدہ کو معلوم تھا کہ وہ کوئی ڈیٹنگ ایپ استعمال کر رہی ہیں اور ان کی گھریلو ملازمہ اکثر پوچھتی تھی کہ ’باجی آپ ہر وقت لڑکوں کی پروفائل پر لیفٹ رائٹ کیا کرتی رہتی ہیں‘ اور وہ اکثر اپنی والدہ اور خالہ کے ساتھ بیٹھ کر ان سے پوچھتی تھیں کہ اس لڑکے پر سوائپ رائٹ کروں یا لیفٹ۔


پلوشہ کا کہنا ہے کہ خاندان کو ان پر بہت بھروسہ ہے اور وہ بہت سپورٹ کرنے والے ہیں۔ ’انھیں معلوم ہے کہ میں ایسے ہی کسی لڑکے کو پسند کر کے گھر تک نہیں لے آؤں گی، تاہم انھوں نے تھوڑے بہت سوال جواب ضرور کیے کہ کون ہے، کیا کرتا ہے، تمھاری اصل میں بھی ملاقات ہوئی ہے یا نہیں وغیرہ۔‘وہ بتاتی ہیں کہ انھوں نے سب سے پہلے اپنی بہن، بھائی اور بھابھی کو اعتماد میں لیا، فوزان کو ان سے ملوایا اور پھر انھیں آگے کر دیا کہ اب تم لوگ جانو اور تمھارا کام۔ اور اس طرح یہ سارا معاملہ خوش اسلوبی سے طے پایا۔ٹنڈر-چونکہ ہمارے معاشرے میں ڈیٹنگ ایپس کے بارے میں بہت غلط تاثر موجود ہے تو دوست، کولیگز، سوشل سرکل کے لوگ یا رشتہ داروں کا کیا ردِعمل ہوتا ہے؟اس کے جواب میں وہ کہتی ہیں کہ اکثر لوگ بہت پُرجوش ہو جاتے ہیں کہ ’اوہ واقعی ایسا ہوتا ہے؟ حقیقی اور اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں ڈیٹنگ ایپس پر؟ لوگ پوری کہانی جاننا چاہتے ہیں کہ کیسے ہوا، کیا ہوا، گھر والے کیا کہتے ہیں۔


‘ پلوشہ کے مطابق یہ خبر بیشتر لوگوں کے لیے حیران کن ضرور ہوتی ہے مگر مثبت انداز میں۔وہ کہتی ہیں ’پیٹھ پیچھے کوئی باتیں کرتا ہو تو اور بات ہے مگر میرے منھ پر تو بہت اچھا ردِعمل ملتا ہے۔‘ان کے شوہر فوزان بتاتے ہیں کہ وہ جب اپنے کولیگز یا دوستوں کو بتاتے ہیں کہ میں اپنی بیگم سے ٹنڈر پر ملا تو اکثر لوگ بے یقینی سے پوچھتے ہیں ’کیا پاکستان میں بھی لوگ ٹنڈر استعمال کرتے ہیں؟‘ کچھ لوگ شاباشی بھی دیتے ہیں کہ پتا نہیں کیا تیر مار لیا ہے جبکہ کئی یہ بھی کہتے ہیں کہ ’ہمارا تو آج تک میچ بھی نہیں ہوا اور تم  نے ٹنڈر پر جا کر شادی کر لی۔‘ فوزان کے مطابق اگر کوئی judgemental ہوتا ہے تو وہ ان لوگوں کی پرواہ نہیں کرتے۔پاکستان میں ڈیٹنگ ایپس پر کیٹ فشنگ بہت عام ہے‘اگر آپ کو لگتا ہے کہ سوشل میڈیا ٹاکسک (زہریلے مواد سے بھرپور) ہے، تو یقین مانیے آپ کو اندازہ نہیں کہ ڈیٹنگ ایپس پر کیا ہو رہا ہے۔اگرچہ ڈیٹنگ ایپس کی پالیسی کے مطابق میچز کے لیے امپرسنیشن (کسی اور کا روپ دھارنا)، کیٹ فشنگ (سوشل میڈیا پر جعلی پروفائلز بنا کر لوگوں کو بیوقوف بنانا ممنوع ہے۔

کیٹ فشنگ ٹنڈر جیسی ڈیٹنگ ایپس پر سب سے زیادہ عام ہے جہاں لوگ کسی اور کی تصاویر کا استعمال کر کے جعلی شناخت سے لے کر افسانوی زندگی کی کہانیاں گھڑتے ہیں) اور ہراسانی سخت ممنوع ہے۔لیکن پاکستان کی بات کی جائے تو کم از کم میں نے تو اب تک یہی دیکھا ہے کہ بمبل اور ٹنڈر جیسی ڈیٹنگ ایپس پر اکثر لوگوں نے غلط بائیو، کسی اور کی تصویر اور اِدھر اُدھر سے کافی کچھ کاپی پیسٹ کیا ہوتا ہے جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اور ایسے لوگوں کے ساتھ بات چیت اور ملنے کے دوران اکثر خواتین کو بدتمیزی سے لے کر ہراسانی جیسے واقعات کا سامنا بھی رہا ہے۔ایسے ناخوشگوار واقعات منظرِعام پر آنے کے بعد اگرچہ بیشتر ڈیٹنگ ایپس نے صارفین کی حفاظت کے لیے کئی نئے ٹولز متعارف کروائے ہیں مگر اس کے باوجود نوڈ کونٹیٹ (برہنہ تصاویر بھیجنا) اور ہراسانی کے واقعات آئے روز سامنے آتے رہتے ہیں۔


تو کیا پلوشہ کا ایسے کسی فیک شخص سے میچ ہوا یا انھیں ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا-پلوشہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ڈیٹنگ ایپس پر کیٹ فشنگ بہت عام ہے۔ انھوں نے کئی لوگوں سے ڈیٹنگ ایپس کے بارے میں ملے جلے تبصرے سنے ہیں اور انھیں معلوم ہے کہ باہر کے ممالک میں خواتین کو ہراسانی کا سامنا بھی رہا ہے، انھیں بھی کئی فیک پروفائلز بہت ملیں، کیٹ فشنگ کے کئی چھوٹے موٹے واقعات بھی پیش آئے مگر ایسا کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔تاہم انھوں نے خود کے ساتھ پیش آنے والا کیٹ فشنگ کا ایک واقعہ ضرور شیئر کیا۔تو ہوا کچھ یوں کہ ایک مرتبہ پلوشہ نے کسی کی پروفائل پر سوائپ رائٹ کیا اور ٹنڈر تک ان کی بات چیت ٹھیک چل رہی تھی، مگر جب واٹس ایپ کا تبادلہ ہوا تو کسی اور شخص کی تصویر لگی ہوئی تھی اور وہ شخص انھیں جو تصاویر بھیج رہا تھا وہ کسی اور شخص کی تھیں۔۔ وہ آدمی کوئی نوجوان لڑکا نہیں بلکہ دبئی میں رہائش پذیر 60-65 سالہ شخص تھا۔  

اتوار، 8 ستمبر، 2024

ٹنڈر: روایتی رشتہ کلچر میں تبدیلی!پارٹ -1


 

’   یہ اب سے بہت دور نہیں چالیس پچاس برس پہلے  کا زمانہ تھا جب گھروں میں لڑکے 'لڑکیاں جوان ہو تے تو ان کی شادیاں ان کے بڑے گھر میں ہی طے کر دیتے تھے - نا تعلیم کی پر سش نا اور کو ئ سوال جواب بس بڑوں نے جو کہ دیا وہ پتھر کی لکیر ہوتا تھا -پھر آہستہ 'آہستہ زمانہ بدلا اور لڑکیوں میں تعلیم عام ہونی شروع ہوئ اور یہیں سے گھروں کے اندر کا تمدن بدلنے لگا 'اور سرگوشی سنائ دی ہمیں کزن میرج نامنظور ہے -پھر یہ آواز گونج بن گئ اور اب یہ حال ہے کہ لڑکیاں اور لڑکے شادی ایپس پر اپنے لئے شریک زندگی تلاش کر رہے ہیں -ٹنڈر ایک شادی ایپ ہے جس کی تفصیل  بی بی سی اردو نے دی  ہےمیں آ پ سے شئر کرتی ہوں کیا پاکستان میں بھی ٹنڈر پر رشتے ہوتے ہیں؟تجزیہ نگار کہتی ہیں ‘ گذشتہ مہینے جب میری نظر زرق برق لباس میں ملبوس ایک نوجوان جوڑے کی تصویر پر پڑی تو میرے منھ سے بے اختیار یہی نکلایہ جان کر مجھے خوشی کے ساتھ ساتھ حیرانی بھی تھی کہ ’ہم نے ٹنڈر پر سوائپ رائٹ کیا اور کہا قبول ہے‘ کے عنوان اور ’وی میٹ آن ٹنڈر‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ تصویر پوسٹ کرنے والی لڑکی کوئی بیرونِ ملک مقیم پاکستانی نہیں بلکہ کراچی میں ہی رہنے والی تھی۔پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں زیادہ تر رشتے ہمیشہ ماں، خالہ، پھوپیوں اور رشتہ آنٹیوں کے ذریعے ہی طے پاتے تھے، حالیہ چند برسوں میں اس حوالے سے کچھ حد تک تبدیلی آئی ہے اور اب اکثر یہ سُننے کو ملتا ہے کہ کسی کا رشتہ فیس بک گروپ کے ذریعے ہو گیا یا کسی نے خود اپنے پارٹنر کو کسی آن لائن فورم پر پسند کیا۔


مگر آج بھی ڈیٹنگ ایپ کا نام سنتے ہی لوگ آپ کو ایسی نظروں سے گھورنے لگتے ہیں جیسے خدانخواستہ آپ نے پتا نہیں کون سا گناہ کر لیا ہو۔ اس کا اندازہ اسی بات سے لگا لیجیے کہ اس خبر کی اشاعت تک پاکستان میں ڈیٹنگ ایپ ٹنڈر پر پابندی ہے لیکن تجسس کے مارے میں نے بھی ایک دو ایپس ڈاؤن لوڈ کیں مگر استعمال کرتے ہوئے ہمیشہ یہی ڈر رہتا تھا کہ کہیں آس پاس کوئی دیکھ نہ رہا ہو کہ میں لڑکوں کی پروفائلز پر لیفٹ رائٹ کر رہی ہوں۔پاکستان میں ٹنڈر اور اس جیسی دوسری ڈیٹنگ ایپس کے بارے میں کئی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں اور اکثر یہی تاثر لیا جاتا ہے کہ یہ ہک اپ ایپس (جنسی تعلقات کے لیے ساتھی تلاش کرنے والی ایپس) ہیں، شاید اسی لیے جب اس رپورٹ کے لیے ہم نے بمبل، ٹنڈر، مز میچ وغیرہ پر ملنے والے کئی جوڑوں سے رابطہ کیا تو وہ آف کیمرہ اپنی کہانی شئیر کرنے کو تو تیار تھے مگر اپنے اردگرد کے لوگوں کے ردِعمل کے ڈر سے باعث بیشتر جوڑوں نے آن کیمرہ بات کرنے سے معذرت کر لی۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ دوسرے کئی آن لائن پلیٹ فارمز کی طرح ان ڈیٹنگ ایپس پر پاکستانی لڑکے لڑکیاں اپنے لیے پارٹنر خود چُن رہے ہیں۔ایسی ہی ایک مثال کراچی کے رہائشی پلوشہ سکندر اور فوزان محمد خان کی ہے جو ڈیٹنگ ایپ ٹنڈر پر ایک سوائپ رائٹ سے ملے اور گذشتہ ہفتے یہ دونوں شادی کے بندھن میں بندھ گئے (ڈیٹنگ ایپ ٹنڈر پر سوائپ رائٹ کا مطلب ہے کہ آپ اس شخص یا خاتون کو پسند کرتے ہیں جبکہ لیفٹ کا مطلب ہے آپ کو ان کی پروفائل پسند نہیں آئی)۔ٹنڈر،تصویر کا ذریعہCourtesy Palwasha/Fozan


’ڈیٹنگ ایپس پر ایسا کچھ نہیں ہے جیسی لوگوں نے باتیں بنائی ہوئی ہیں‘پاکستانی معاشرے میں ڈیٹنگ ایپس کے بارے میں پائے جانے والے منفی تاثر کے باوجود پلوشہ نے کیا سوچ کر ٹنڈر استعمال کرنا شروع کیا؟ پلوشہ بتاتی ہیں کہ یہ سنہ 2019 کی بات ہے۔ ان کے دو چھوٹے بہن بھائیوں کی شادی ہو چکی تھی اور خود ان کا شادی کا کوئی ارادہ نہیں تھا، مگر کزنز اور دوست ان کے پیچھے لگے رہتے تھے کہ ’تم شادی نہیں کرنا چاہتی تو ٹنڈر ڈاؤن کرو، لوگوں سے ملو،ان سے بات کرو، نہیں سمجھ آیا تو وہ الگ بات ہے لیکن ایک بار کوشش تو کرو۔‘کزنز اور دوستوں نے یہ بھی سمجھایا کہ ’ڈیٹنگ ایپس پر ایسا کچھ نہیں ہے جیسی لوگوں نے باتیں بنائی ہوئی ہیں۔‘ ہر جگہ ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں اور اچھے بُرے لوگ تو آپ کو ہر جگہ ہی ملتے ہیں۔لہذا پلوشہ نے کزنز کی باتوں میں آ کر جون 2019 میں ڈیٹنگ ایپ انسٹال کی۔جبکہ ان کے شوہر فوزان بتاتے ہیں کہ وہ بس دیکھنا چاہتے تھے کہ یہ ایپ ہے کیا اور انھوں نے نیٹ ورکنگ کے لیے ٹنڈر انسٹال کیا تھا۔پلوشہ


،31 سالہ پلوشہ کراچی کی ایک نجی کمپنی میں پی آر مینیجر ہیںتو دونوں میں سے سوائپ رائٹ کس نے کیا؟پلوشہ کے مطابق فوزان آج تک یہ نہیں مانتے کہ پہل انھوں نے کی تھی۔ ’وہ کہتا ہے تم نے پہلے سوائپ رائٹ کیا تھا، جبکہ ایسا بالکل نہیں ہے۔‘وہ بتاتی ہیں کہ ایک رات بوریت کا شکار سوائپ لیفٹ کر رہی تھیں کیونکہ عجیب و غریب پروفائلز سامنے آ رہی تھیں پھر اچانک فوزان کی پروفائل سامنے آئی جس پر انھوں نے سوائپ رائٹ کیا تو لکھا آیا کہ ’فوزان آل ریڈی لائکس یو‘ یعنی فوزان پہلے ہی آپ کو پسند کرتے ہیں اور آپ دونوں ایک دوسرے کا میچ ہیں‘۔ اور اس طرح اُن کی بات چیت شروع ہوئی۔فوزان کی پروفائل میں کیا چیز پلوشہ کو پسند آئی تھی؟پلوشہ کے مطابق ’فوزان نے بائیو (اپنے تعارف) میں صرف ایک لائن لکھی ہوئی تھی، ایک تصویر تھی اور بس نام لکھا تھا۔۔۔ کچھ لوگوں نے لمبے لمبے پیراگراف لکھے ہوتے ہیں اور اتنے لمبے مضمون مجھ سے نہیں پڑھے جاتے۔‘ اور بس یہی بات انھیں بھا گئی۔دوسری جانب فوزان کو پلوشہ کی پروفائل خاصی پُراسرار لگی جس پر کچھ بھی نہیں لکھا تھا اور ساتھ ساتھ تصویر بھی پسند آئی، اسی لیے انھوں نے اس پر سوائپ رائٹ کیا تاکہ انھیں جان سکیں۔


کیا ایک دوسرے سے ملنے سے پہلے وہ ٹنڈر پر اور لڑکے لڑکیوں سے بھی ملے؟پلوشہ کے مطابق کہ اپنے شوہر فوزان سے ملنے سے پہلے ان کا کافی لوگوں سے میچ ہوا، اچھی بات چیت رہی، موبائل نمبرز کا تبادلہ ہوا، ملاقاتیں بھی ہوئیں اور اچھا تعلق بنا مگر بات آگے نہیں بڑھی۔‘فوزان کہتے ہیں کہ وہ کسی سے ملے تو نہیں البتہ ان کی کئی اور لڑکیوں سے بات چیت رہی، مگر بقول ان کے زیادہ تر وہ بور ہی ہوئے اور کسی سے ’کلک نہیں کر پائے۔‘تو پلوشہ کو کب لگا کہ لڑکا سیریس ہے؟لوشہ بتاتی ہیں کہ بات چیت کا آغاز ہونے کے ایک دو دن بعد انھوں نے موبائل نمبروں اور سوشل میڈیا کا تبادلہ کیا اور ان میں بہت اچھی دوستی ہو گئی جو چھ سے سات ماہ تک چلی اور وہ ہر روز گھنٹوں بات کرتے، ہر بات، ہر مسئلہ ایک دوسرے سے شئیر کرنے لگے اور رومانوی رشتہ شروع ہونے سے پہلے ہی ان کا مضبوط تعلق بن چکا تھا۔پھر ایک دن فوزان نے انھیں کہا کہ ’میں تمھیں پسند کرتا ہوں۔۔۔ تم سے محبت کرتا ہوں۔‘  

ہفتہ، 7 ستمبر، 2024

منبع حکمت و دانائ - پہلا یونانی سائنس دان ’فیثا غورث‘

 

پہلا یونانی سائنس دان ’فیثا غورث‘

فیثا غورث پہلا یونانی سائنس دان تھا، جس نے زمین کے گول ہونے کا نظریہ پیش کیا اور بتایا کہ چاند گرہن کے دوران جب زمین کا سایہ چاند کے اوپر پڑتا ہے تو اس کا عکس ہمیشہ گول دکھائی دیتا تھا اور بتایا کہ چاند از خود روشن نہیں ہوتا بلکہ چاند سورج کی روشنی کو منعکس کرتا ہے اس نے سروں کے اتار چڑھاؤ حسابی تعلق اور تناسب کو فلکیات میں شامل کیا ویسے تو فیثا غورث کئی حوالوں سے مشہور ہے لیکن اس کی اہم وجہ شہرت مسئلہ فیثا غورث ہے اس مسئلے کے مطابق مستطیل میں موجود دو مخالف کونوں کا مجموعہ اس کے وتر کے برابر ہوتا ہے۔وہ اعداد کو اس عالم کی اساس تصور کرتے تھے یعنی یہ ساری دنیا ایک خاص تناسب سے بنائی گئی ہے اور اس کو مکمل اعداد کی آپس میں نسبت سے ظاہر کیا جاسکتا ہے ۔ان کے مطابق کائنات کی ہر شئے میں ریاضی مضمر ہے ۔جیومیٹری کا ایک مشہور مسئلہ ہے کہ ایک قائم الزاویہ مثلث میں وتر کا مربع دونوں ضلعوں کے مربعوں کے مجموعے کے برابر ہوتا ہے۔ یہ ’’مسئلہ فیثا غورث‘‘ کہلاتا ہے، کیوں کہ یہ انہوں نے ہی دریافت کیا تھا۔ اس مسئلے کے باعث ریاضی میں فیثا غورث کو شہرت دوام حاصل ہے اور اس کا نام جیومیٹری کے ہر طالب علم کی زبان پر ہے۔فیثا غورث پہلا شخص تھا جس نے ریاضی کو تجارت کے علاوہ دیگر مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا اور اسے ایک قابل تحقیق علم کی صورت دی۔ اس نے اطاعت اور مراقبہ، کھانے میں پرہیز، سادہ لباس اور تجزیہ ذات کی عادت پر زور دیا۔Pythagoras theorem جس میں انہوں نے ثابت کیا کہ ایک right triangle میں a2 + b2 = c2 یعنی hypotenuse کا مربع ہمیشہ base کے مربع اور prependicular کے مربعے کے برابر ہوتا ہے ۔ یہ تھیورم تعمیراتی تکنیکوں میں خاصیاہمیت کا حامل ہے۔ پلاٹو اور کئی عظیم مغربی فلاسفر Pythagoras کے فلسفے کے حامل تھے اور پلاٹو نے فیثا غورث کے علمِ جیومیٹری سے متاثر تھے، انہوں نے اپنی علم گاہ پہ یہ کنندہ کروایا تھا وہ اس تدریس گاہ میں داخل ہونے کا اہل نہیں جو جیومیٹری کے علم سے نا واقف ہے۔ 

 فیثا غورث حکمت و دانائی کے آسمان پہ مثلِ ماہتاب دمکنے والا ستارہ تھے ،جس کی کرنیں رہتی دنیا تک اہلِ علم کو راستا دکھاتی رہیں گی ۔ علم و حکمت کا یہ بادشاہ، جس کو تاریخ فیثا غورث (Pythagoras) کے نام سے یاد کرتی ہے یونان (GREECE) کے جزیرے سیموس SAMOS میں قریباً 570 قبلِ مسیح میں پیدا ہوا ۔ان کا تعلق امیر گھیرانے سے تھا ۔ علم و حکمت کا شوق بچپن سے ہی تھا۔ لڑکپن میں دانائی کا یہ عالم تھا کے اپنے اساتذہ کو ہمیشہ سوالوں میں الجھا کے رکھتے ۔حصولِ علم کی اس لذت نے فیثا غؤرث کو سفر میں رکھا ۔انہوں نے تاریخ میں پہلی دفعہ اپنے لیے فلاسفر کا لفظ استعمال کیا ،جس کے معنی علم سے محبت کرنے والےکے ہیں ۔ سیموس SAMOS میں فیثاغورث نے ایک ا سکول کا آغاز کیا، جہاں پورے یونان سے لوگ حصولِ علم کےلئے آیا کرتے تھے۔ سیاسی چپقلش اور سیاسی مخالفت کی وجہ سے فیثا غورث کو اس شہر کو خیر آباد کہنا پڑا اور اٹلی کے شہر CROTON میں رہنے لگے ۔ یہاں جلد ہی ان کی شخصیت فلسفے اور ریاضی میں مہارت کی وجہ سے معروف ہوگئی ،وہاں انہوں نے ایک علم گاہ کی بنیاد رکھی ،جہاں لوگ خاص طور پر اشرفیہ اور اہلِ علم لوگ حصولِخیال کیا جاتا ہے کہ ابتدائے جوانی میں فیثا غورث نے مصر اور بابل و نینوا کا سفر کیا تاکہ وہاں کی علمی و ادبی معاشرت سے مستفید ہو۔ اس زمانے میں یہی علاقے علم و آگہی میں سب سے آگے سمجھے جاتے تھے۔واپس آ کر فیثا غورث اپنے آبائی علاقے میں زیادہ دیر ٹھہر نہ سکا۔فیثا غورث کی مذہبی،سیاسی اور فلسفیانہ تعلیمات نے افلاطون اور ارسطو کو کافی متاثر کیا۔فیثا غورث کو بہت سی سائنسی اور ریاضیاتی دریافتوں کا حامل سمجھا جاتا ہے جیسا کہ فیثا غورثی تھیوریم،پانچ ریگولر سالڈز،صبح اور شام کے ستارے کی ستارہ وینس Venusکے نام سے دریافت۔اس نے پوری روئے زمین کو پانچ موسمیاتی خطوں میں تقسیم کیا۔اس کے خیال میں تمام کائنات اور اس کے اجرامِ فلکی یعنی ستارے اور سیارے ایک نظم و ضبط کے پابند ہو کر متحرک ہیں۔یہ اجرامِ فلکی ایک Mathematical Equationکے مطابق گردش کرتے ہیں اور یہ منظم گردش موسیقی کے سروں جیسی ہے۔اسی لیے ان کی گردش ایک غیر صوتی سُر Inaudible symphwny پیدا کرتی ہے۔اس   وجہ سے تمام کائنات محوِگردش رہتے ہوئے نغمہ سرا ہے۔فیثا غورث کا خیال تھا کہ زمین اور آسمان میں ہر شے ایک عدد کے تحت پیدا کی گئی ہے۔ہر شے کا ایک مخصوص عدد ہے۔فیثا غورث کی اکیڈمی میں سخت رازداری میں تعلیم و تربیت کی وجہ سے علاقے میں فلاسفر کے خلاف طرح طرح کی چہ مگوئیاں اور بد گمانیاں پیدا ہونی شروع ہو گئیں۔آخر کار فسادات پھوٹ پڑے۔

لوگوں نے شر پسند عناصر کے اکسانے پر فیثا غورثی اجلاس گاہوں کو آگ لگا دی اور اکیڈمی کو شدید نقصان پہنچایا۔فیثا غورث کی جان پر بن آئی۔نامساعد حالات سے تنگ آ کر فیثا غورث زندگی میں دوسری مرتبہ بھاگنے پر مجبور ہوا اور اٹلی کے مقام میٹاپونٹمMetapontumمیں جا بسا جہاں تھوڑے ہی عرصے بعد 75 سال کی عمر میں وہ  فوت ہو گیا  - 

۔

جمعرات، 5 ستمبر، 2024

نواب بہاول خان عباسی اوّل کے علمی کارنامے

 ۔ نواب صادق محمدخان عباسی کے صاحب زادے،-نواب بہاول خان عباسی کے  لئے اگر کہا جائے کہ دریا دل'فیاض 'انتہا درجے کے علم دوست'    تو یہ ہر گز بے جا نہیں ہو گا -نواب بہاول خان عباسی اوّل نے 1774ء میں دریائے ستلج کے جنوب میں ایک نئے شہر ،بہاول پور کی بنیاد رکھی۔نواب سر صادق محمد خان خامس عباسی30 ستمبر 1904ء کو پیدا ہوئے، وہ نواب حاجی محمد بہاول خان خامس عباسی کے اکلوتے فرزند تھے۔ جب وہ دو برس کے تھے، تو والد کے ساتھ سفرِ حج پر گئے، لیکن واپسی پر دورانِ سفر ان کے والد نواب بہاول خان کا انتقال ہوگیا، جس کے بعد 15مئی1907ء کو سر صادق کو ریاست کا حکمران مقرر کرنے کا اعلان کردیا گیا، مگر چوں کہ نواب صادق محمد خان بہت کم سِن تھے، لہٰذا ان کی تعلیم و تربیت اور ریاست کے انتظام و انصرام کے لیے حکومتِ برطانیہ نے آئی سی ایس آفیسر، سر رحیم بخش کی سربراہی میں کائونسل آف ریجینسی قائم کردی۔ نواب صاحب نے ابتدائی تعلیم اُس وقت کی نام وَر علمی شخصیت، علاّمہ مولوی غلام حسین قریشی سے حاصل کی۔ 3 برس کی عمر میں تخت نشین ہونے والے شہزادے کی شخصیت کے نکھار کے لیے، انہیں دنیاوی تعلیم کے ساتھ مذہبی اور اعلیٰ انتظامی و عسکری تربیت بھی دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ 1911ء میں وہ صرف سات برس کی عمر میں فوج کی کمان کرتے ہوئے شہنشاہِ برطانیہ، جارج پنجم کے سامنے پیش ہوئے۔


ریاست بہاول پور میں صادق گڑھ پیلس اور صادق ایجرٹن کالج (ایس ای کالج) کی لائبریریز نادر و نایاب کتب کے حوالے سے مشہور ہیں۔ سرصادق دنیا بھر سے اہم کتاب کے تین نسخے منگواتے، اور ایک نسخہ صادق ریڈنگ لائبریری (سینٹرل لائبریری)، دوسرا صادق گڑھ پیلس اور تیسرا صادق ایجرٹن کالج کی لائبریری میں رکھاجاتا۔ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ریاست بہاول پور میں علم وادب کی کس قدر سرپرستی کی جاتی تھی۔ نواب صاحب مرحوم اور ان کے پیش روئوں نے ہمیشہ تعلیم کی ترویج کے لیے اقدامات کیے۔نواب سر صادق نے1925ء میں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ دینی مدرسے، صدر دینیات کو ترقی دے کر جامعۃ الازہر کی طرز پر جامعہ عباسیہ قائم کیا۔ یہ پورے برصغیر میں اپنی نوعیت کا واحد ادارہ تھا، جہاں طلبہ، مختلف مکاتبِ فکر کے علماء و اساتذہ سے اکتسابِ فیض کرتے۔ جامعہ عباسیہ میں دینی و مشرقی علوم کے ساتھ ساتھ ریاضی، انگریزی اور سائنس کی بھی تعلیم دی جاتی۔ اس کے علاوہ طبِ یونانی کی تعلیم کے لیے 1926ء میں جامعہ عباسیہ کا ذیلی ادارہ، ’’طبیّہ کالج‘‘ قائم کیا گیا، جو آج بھی پنجاب کا واحد سرکاری طبیّہ کالج ہے۔ نواب سر صادق مرحوم کا سب سے بڑا کارنامہ، ایچی سن کالج کی طرز پر1954ء میں صادق پبلک اسکول جیسے اعلیٰ معیاری ادارے کا قیام ہے۔ مذکورہ ادارے کے لیے نواب صاحب نے اپنی 450ایکڑ ذاتی زمین دینے کے علاوہ، تعمیرکی مَد میں مطلوبہ فنڈزبھی فراہم کیے۔


 قبلِ ازیں، قیام پاکستان سے پہلے 1928ء میں ستلج ویلی پراجیکٹ کا بھی افتتاح کیا، جس کے تحت دریائے ستلج پر تین ہیڈ ورکس سلیمان کی، ہیڈاسلام اور ہیڈپنجند تعمیر کرکے پوری ریاست میں نہروں کا جال بچھاکر غیر آباد زمینوں کی آبادکاری کے لیے مختلف علاقوں سے آبادکاروں کو ریاست میں آباد ہونے کی ترغیب دی گئی۔ نئی منڈیاں قائم کرکے ہارون آباد، فورٹ عباس، حاصل پور، چشتیاں، یزمان، لیاقت پور اور صادق آباد جیسے شہر بسائے گئے۔ یہیں سے نواب سر صادق اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے درمیان لازوال دوستی کا رشتہ بھی قائم ہوا۔ ریاست کے اس وقت کے وزیراعظم سر سکندر حیات نے (یونینسٹ رہنما) جب ریاست کے خلاف درپردہ سازش کا آغاز کیا، تو ریاست کے اُس وقت کے وزیر داخلہ اور نواب مرحوم کے اتالیق، مولوی غلام حسین قریشی مرحوم نے اس سازش کو بے نقاب کیا اور نواب مرحوم کو اپنے قانونی مشیر سے مشورہ لینے کو کہا۔اس مقدمے کی پیروی اُس وقت کے ریاست کے قانونی مشیر، قائدِ اعظم محمد علی جناح نے کی اور مقدمے کا فیصلہ بہاول پور کے حق میں ہوا۔ 1930ء میں سر صادق نے ریاست کپور تھلہ میں جامع مسجد تعمیر کروائی اور مہاراجہ کپور تھلہ کی فرمایش پر خود اس کا افتتاح کیا۔ 3 دسمبر 1930ء کو سر راس مسعود (وائس چانسلر) کی دعوت پر مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کے سالانہ کانووکیشن کی صدارت کی اور ایک لاکھ روپے کی خطیر رقم بہ طور عطیہ دی۔ 


ء میں ندوۃالعلماء، لکھنو ٔکے لیے نواب صاحب کی والدہ محترمہ کی طرف سے دی جانے والی پچاس ہزار روپے کی مالی امداد کے جواب میں علامہ شبلی نعمانی نے شکریے کا خط تحریر کیا، جو محافظ خانہ (محکمہ دستاویزات) بہاو ل پور میں محفوظ ہے۔ پنجاب یونی ورسٹی اولڈ کیمپس کا سینیٹ ہال (جہاں اِس وقت یونی ورسٹی کالج آف انفارمیشن ٹیکنالوجی قائم ہے) سرصادق ہی نے تعمیر کروایا۔کنگ ایڈورڈمیڈیکل کالج کابہاول پور بلاک نواب صاحب کی یادگار ہے۔ اسی طرح ایچیسن کالج کا بورڈنگ ہاؤس (بہاول پور ہاؤس) نواب سر صادق کی یادگار ہیں۔ جن تعلیمی اداروں اور رفاحی اداروں کی مستقل سرپرستی اور مالی معاونت کرتے رہے، ان میں انجمن حمایت اسلام لاہور، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، ندوۃالعلماء لکھنؤ، دارالعلوم دیوبند، مظاہر العلوم سہارنپور، جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن، جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی، انجینئرنگ کالج لاہور اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں

مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد دکن، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج، انجینئرنگ کالج لاہور، ڈاؤ میڈیکل کالج کراچی، داؤ انجینئرنگ کالج کراچی وغیرہ میں بہاول پور سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کے لیے علیحدہ نشستیں مختص تھیں۔ ریاست کی طرف سے لاہور کے بہاول پور ہاؤس اور کراچی کے الشمس میں طالب علموں کے لیے رہائش کا انتظام تھا اور ان کو وظائف بھی دیے جاتے تھے۔ 27 فروری 1934ء کو نواب صاحب کی تعلیمی خدمات کے اعتراف کے طور پر رجسٹرار پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر وُلز نے بہاول پور آ کر صادق گڑھ پیلس میں منعقدہ تقریب میں انہیں ایل ایل ڈی کی اعزازی ڈگری دی۔ 1935ء میں ہی کوئٹہ کے زلزلہ زدگان کے لیے امدادی ٹرین روانہ کی۔اسی سال فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے تقریباً سو افراد کو اپنے ساتھ لے گئے۔ سامان کے لیے جو فوجی گاڑیاں اور موٹریں بحری جہاز پر ساتھ لے گئے، سب سعودی حکومت کو بطور تحفہ دے دیں، مسجد نبویؐ میں قیمتی فانوس لگوائے۔ اسی سال جولائی میں جامع مسجد دہلی کی طرز پر ’’جامع مسجد الصادق‘‘ کی ازسرِ نو تعمیر کا سنگِ بنیاد رکھا جو اس وقت پاکستان کی چوتھی بڑی مسجد ہے۔ جامع مسجد کے اخراجات کے لیے کثیر زرعی رقبہ وقف کیا۔ اس کی تعمیر میں سنگِ سرخ اور سنگِ مرمر کا استعمال کیا گیا ہے۔

منگل، 3 ستمبر، 2024

اونچے چناروں کے سائے میں جموں کشمیر کےمغلیہ باغات

 سری نگر میں شالامار باغ، مغلیہ   دور میں اسلامی طرز تعمیر پر مغلیہ حکومت  نے قائم  کئے۔ کیونکہ  یہ زمانہ ایرانی طرز تعمیر سے متاثر تھا اس لئےیہ باغات اور تیموری سلطنت کے باغات کے طرز تعمیر کا اثر سموئے ہوئے ہیں۔ چاردیواری میں گھرے یہ باغات  مسطتیل  ترتیب میں تعمیر کیے گئے۔ ان باغات کی  نشانیوں میں تالاب، فوارے اور نہریں جو باغات کے وسط میں تعمیر کی گئی ہیں-جس کے سبزہ زار ڈل جھیل کے دامن تک پہنچتے ہیں یہ 17ویں صدی کی دوسری دہائی کے اواخر کی بات ہے۔ کشمیر کے قدرتی حسن و جمال کا جادو مغل شہنشاہ نورالدین محمد سلیم المعروف جہانگیر پر سر چڑھ کر بول رہا تھا۔اس کی جھلک جہانگیر کی خودنوشت ’تزک جہانگیری‘ میں ملتی ہے جس میں وہ کشمیر کو ’ایک سدا بہار باغ‘ اور ’ایک پھلواری‘ کا نام دیتے ہیں۔وہ گرمیوں میں اکثر لاہور سے کشمیر کا رخ کرتے اور سری نگر میں ان کے والد شہنشاہ جلال الدین اکبر کے تعمیر کردہ قلعہ ہاری پربت سے حکومتی امور چلاتے۔جہانگیر نے سنہ 1619 میں ہاری پربت سے قریب 10 کلو میٹر دور زبرون پہاڑی سلسلے میں ایک دلکش باغ تعمیر کرایا جو آج شالامار باغ کے نام سے مشہور ہے۔مورخین کا کہنا ہے کہ جہانگیر نے یہ باغ اپنی چہیتی بیوی مہرالنسا المعروف نور جہاں کی محبت میں تعمیر کرایا جنہیں باغات کی تعمیر میں گہری دلچسپی تھی۔

نامور کشمیری مورخ، محقق، نقاد اور مصنف محمد یوسف ٹینگ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ شہنشاہ جہانگیر نے اپنے عہد حکمرانی کے دوران 13 مرتبہ کشمیر کا دورہ کیا۔ان کا کہنا تھا: ’بیشتر موقعوں پر نور جہاں ان کے ہمراہ رہتی تھیں۔ کسی دوسرے مغل شنشہاہ اور ملکہ نے کشمیر میں اتنا وقت نہیں گزارا جتنا جہانگیر اور نور جہاں نے گزارا۔‘انہوں نے مزید کہا: ’جہانگیر کا قافلہ لاہور میں سورج کی تپش بڑھتے ہی کشمیر کی طرف روانہ ہو جاتا۔ پھر جب یہاں اکتوبر یا نومبر میں زعفران کی فصل تیار ہوتی تو شہنشاہ کا قافلہ واپس لاہور چلا جاتا۔‘معروف کشمیری مورخ ظریف احمد ظریف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 1605 میں مغلیہ سلطنت کی باگ ڈور سنبھالنے والے جہانگیر جب پہلی مرتبہ کشمیر آئے تو یہ جگہ پہلی ہی نظر میں ان کے دل و دماغ میں گھر کر گئی۔جہانگیر نے کشمیر کا حسن و خوبصورتی دیکھ کر خواہش ظاہر کی تھی کہ میرا قبرستان بھی یہیں پر ہو۔


‘محمد یوسف ٹینگ کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جہانگیر نے شالامار باغ نور جہاں کے لیے تعمیر کرایا تھا۔ان کے بقول: ’شالامار باغ کی تعمیر نور جہاں کا ایک خواب تھا جس کو جہانگیر نے پورا کیا۔ تعمیر کے بعد نور جہاں نے اس باغ کی منتظمہ کے فرائض انجام دیے۔ وہ اس باغ کو مزید جاذب النظر بنانے کے کام میں سرگرم رہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ نور جہاں نے کشمیر میں کئی باغات اپنی سرپرستی میں تعمیر کرائے۔‘سنیل شرما اپنی کتاب ’مغل آرکیڈیا – پرشین لٹریچر این انڈین کورٹ‘ میں لکھتے ہیں کہ نور جہاں کا نام آگرہ، لاہور اور سری نگر میں واقع کئی باغات سے جڑا ہے۔’کشمیر کے باغات کا نگینہ کہلایا جانے والا شالامار باغ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک حصے کا نام فرح بخش ہے جو جہانگیر نے 1619 میں نور جہاں کے لیے تعمیر کرایا۔ دوسرے حصے کا نام فیض بخش ہے جو ان کے بیٹے شاہ جہاں نے 1934 میں تعمیر کرایا۔‘سری نگر کا دوسرا بڑا باغ نشاط ہے جو شالامار باغ سے بھی زیادہ دلکش ہے۔ اس کو نور جہاں نے 1625 میں اپنے بھائی آصف خان سے تعمیر کرایا۔ 


انہوں نے کشمیر میں اچھہ بل اور جھروکا باغ سمیت دیگر کئی باغات بنوائے۔‘جرمن مورخ و مصنف مائیکل جے کاسیمیر اپنی کتاب ’فلوٹنگ اکانومیز: دا کلچرل اکولوجی آف دا ڈل لیک ان کشمیر‘ میں لکھتے ہیں: ’مغل شہنشاہ جہانگیر نے 1619 میں اپنی ملکہ نور جہاں کے لیے جنت نظیر کہلائے جانے والے کشمیر کے اندر ایک اور جنت تعمیر کرائی۔ مشہور مغل باغات شالامار باغ اور نشاط باغ اس وقت بھی ڈل جھیل کے شمال مشرقی حصے میں تاباں ہیں۔‘جیمز ایل ویسکوٹ اور جے ڈبلیو بلمن نے اپنے مقالے ’مغل گارڈنز: سورسز، پلیسز، ریپریزنٹیشنز اینڈ پراسپیکٹس‘ میں لکھا ہے کہ جہانگیر کے عہد حکمرانی میں ان کی ملکہ نور جہاں کی سرپرستی میں باغات کی تعمیر کا کام عروج کو پہنچا۔نور جہاں کا خاندان 16ویں صدی کے اواخر میں فارس سے ہندوستان منتقل ہوا تھا۔ جہانگیر سے شادی کے بعد نور جہاں، ان کے والد اور بھائیوں نے بڑھتی ہوئی سیاسی طاقت حاصل کی اور مرکزی شہروں، کارواں سرائیوں اور باغات کے صوبہ کشمیر میں باغات کی تعمیر کی سرپرستی کے فرائض انجام دیے۔ 

  جہانگیر نے اس آبشار کو اپنی محبوب ملکہ نور جہاں کے نام سے منسوب کر دیا اور اس کا نام نور چھمب رکھا۔ آج یہ آبشار نوری چھمپ کے نام سے جانا جاتا ہے۔‘شالامار باغ کی خصوصیات-مورخ محمد یوسف ٹینگ کہتے ہیں کہ مغلیہ دور خاص طور پر جہانگیر کے عہد حکمرانی میں شالامار باغ میں رات کے وقت موسیقی اور رقص کی محفلیں سجتی تھیں جن میں مغلیہ خاندان کی مرد و زن اور دیگر عزیز و اقارب شامل ہوتے تھےان کے مطابق: ’اُس زمانے میں ڈل جھیل کے کنارے قلعہ ہاری پربت کی سرحدوں کو چھوتے تھے۔ دن بھر قلعے میں حکومتی امور انجام دینے کے بعد شہنشاہ، ان کے افراد خانہ اور دیگر حکومتی عہدیدار کشتیوں میں سوار ہو کر شالامار باغ پہنچ جاتے۔ نصف شب تک وہاں محفلوں اور بیٹھکوں میں مصروف رہنے کے بعد وہ آرام کرنے کے لیے واپس قلعے کو آ جاتے۔ ‘مورخ ظریف احمد ظریف کہتے ہیں کہ رات کے وقت شالامار باغ کا نظارہ قابل دید ہوتا تھا اور جہانگیر خود چاند کی روشنی میں اس باغ میں وقت گزارنا پسند کرتے تھے۔ہر طبقہ ایک مخصوص بلندی پر ہے۔ سب سے بلند طبقے سے صاف و شفاف پانی کی ایک نہر بہتی ہے۔ جس وقت جہانگیر نے شالامار باغ تعمیر کرایا اُس وقت اس نہر کی چوڑائی 36 فٹ اور لمبائی ڈیڑھ کلو میٹر تھی۔‘انہوں نے کہا: ’اس باغ میں بڑے پیمانے پر چنار کے درخت لگائے گئے تھے۔

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر