منگل، 9 اپریل، 2024

جب چوری ہوامیرا اجلا میاں


وہ  میرے گھر میلے کپڑے دھونے آئ تھی اور میرا اجلا میاں چراکرلے گئ- انیلہ کی جاب ایک نیوز ایجنسی میں رپورٹر کی تھی اس نے شہر کے ایک ریسٹورنٹ کے کچن کی  لائیو رپورٹ تیّار کر کے نیوز ایجنسی کو بھیجی ،،ریسٹورینٹ کے مالک نے اس رپورٹنگ کے لئے اسے خود بلایا تھا تاکہ عوام میں اس کے ریسٹورینٹ  کے مذیدارکھانوں  کی اوراچھّی سروس کی پبلسٹی ہو سکے -رپورٹ تیّار کرتے ہی انیلہ کو اپنی جاب پر پہنچنا تھا وہ جیسے ہی ریسٹورینٹ سے باہر آئ ریسٹورینٹ کا مالک بھی عجلت میں اس کے پیچھے ہی چلا آیا اور اس نے انیلہ سے درخواست کی کہ وہ چند منٹ کا توقّف کر لے اس کے ساتھ ہی ایک معقول قسم کی  خاتون ریسٹورینٹ سے باہر نکل کران کے قریب  آ گئیں ،،ریسٹورینٹ کے مالک نے کہا خالہ آپ ان کے ساتھ چلی جائیے یہ آ پ کو راستے میں اتار دیں گی ،انیلہ نے  خاتون کو دیکھا  اور سلام کر کے عزّت کے ساتھ ان کو کار میں بٹھایا ،کار جب سڑک پر رواں ہوئ تو انیلہ نے خاموشی توڑنے کے لئے خاتون سے پوچھا آ پ رہتی کہاں ہیں ،خاتون نے اپنا پتا بتایا اور پھر گویا ہوئین کہ   ریسٹورینٹ کا مالک ان کا بھتیجا ہے جس کے پاس وہ کبھی کبھی ملنے آتی ہیں اب  انیلہ کے تجسس نے سر ابھارا اور اس نے ان کے اپنے گھر بار کے لئے سوال و جواب کئے تو وہ خاتون جیسے دل کے پھپھو لے   پھوڑنے کو تیّار ہی بیٹھی تھیں -

پھر انہوں نے بتایا کہ  یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہمارے علاقے میں پانی کا قحط شروع ہوا میری اپنے سامنے گلی کے گھر سے اچھّی علیک سلیک تھی ہم اچھّا پکاتے تو ایک دوجے کو ضرور بھیجتے یہ تو میرے گمان میں بھی نہیں تھا کہ اتنا اعتبار بھی اپنا بھرم کھو دیتا ہے ،،بہر حال ہو یہ رہا تھا کہ گلی دو رویہ تھی ایک جانب پانی کی فراوانی تھی دوسری جانب قحط کا سماں تھا اس گھر میں ایک کنواری لڑکی تھی جو میرے بچّو ں کا بھی خیال کرتی تھی  بس وہ لڑکی میرے گھر پانی بھرنے کے لئے انے لگی کچھ دن تو کچھ بھی نہیں محسوس ہوا لیکن ایک دن جب میرے میاں گھر پر تھے وہ آ گئ اور اس نے آ کر پوچھا کیا میں تمھارے گھر میلے کپڑے دھونے آجاوں بڑا ڈھیر جمع ہو گیا ہے میں نے بہت خلوص سے کہا ہاں ہاں آ جاو وہ کپڑوں کا ایک بڑا سا گٹھّر لے کر آ گئ اور جب کپڑے دھو کر واپس جانے  لگی تو گیلے کپڑوں سے بھری بالٹی کا وزن زیادہ ہو چکا تھا ایسے میں میرے میاں   نے کمرے سے نکل کر اسے دیکھا اور لپک کر اس کے ہاتھ سے گیلے کپڑوں سے بھری بالٹی اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہنے لگے ارے یہ تو بہت بھاری ہے آپ کس طرح اٹھائیں گی اور پھر میرے میاں نے وہ بھری بالٹی اس کے گھر پہنچا دی -

اس دن کی پہلی ملاقات جانے کس طرح رنگ لائ کہ میرے میاں شا م کو زرا جلدی گھر آنے لگے اور گھر کی بالکونی میں دیر دیر تک کھڑ ے رہنے لگے پہلے پہلے تو م اس تبدیلی کو سمجھ نہیں سکی جب سمجھ آئ تو میں بھی ایک دن میاں جی کے برابر میں  جا کرکھڑی ہوگئ تو سامنے والی لڑکی گلی کے بچّوں کے ساتھ بیڈمنٹن کھیل رہی تھی  ،میرے بالکونی میں جاتے ہی میرے میاں وہاں سے ہٹ کر کمرے میں چلے گئے تھے تب میں سمجھی تھی کہ کوئ دال میں کالا ہے ،،پھر کچھ اور بھی تبدیلیاں ظاہر ہوئیں تھیں کہ  میرے میاں نت نئ خوشبو کی بوتلیں لا لا کر استعمال کر نے لگے تھے نئے نئے کلر کی شرٹس بھی ےبدل  بد ل کر پہننے   لگے تھے جبکہ اس سے پہلے وہ کہتے  تھے کہ مجھے صرف سفید رنگ ہی پسند ہے میں نے زیادہ کچھ کریدنا بہتر نہیں جانا تاکہ گھر کا ماحول پراگند ہ نا ہو لیکن ایک دن میرے بیٹے نے اپنے برابر میں کھڑے اپنے پاپا سے کہا پاپا آپ نے کاغذ کیوں نیچے پھینکا ؟ آپ ہمیں تو منع کرتے ہیں کہ گلی میں کوئ چیز ناپھینکو اور بیٹے کی بات پر میرے شوہر نے بے اختیار میری جانب دیکھا اور بیٹے کی بات ادھر ادھر کر کے اسے اپنے ساتھ وہاں سے ہٹا لے گئے،

یعنی اب بالکونی سے ان کی خط و کتابت کا آغاز بھی ہو چکا تھا ،،میں نے اپنے شوہرسے کچھ سوال جواب کئےتوبس اب ہمارے گھر طوفانو ں کی آمد کی ابتداء ہو گئ  ،یہی وہ وقت تھا جب میں اپنے شوہر کی محبّت جیتنے کے لئے کچھ سوچتی میں نے شوہر سے دو دو ہاتھ کرنے کی ٹھان لی اور بالآخر انہوں نے کہ دیا کہ اب وہ اس کے بغیر نہیں رہ سکتے ہیں اورشادی کا  فیصلہ کر چکے ہیں اب  یا تو مجھے اپنے ہاتھ سے لکھ کر دیدو کہ میں اپنے شوہر کو بخوشی دوسری شادی کی اجازت دے رہی ہوں  اس صورت میں ،میں تم کو تمھارا خرچہ پانی دیتا رہوں گا اور انصاف سے چلوں گا میں نے شوہر کی بات کے جواب میں خودکشی کی دھمکی دی انہوں نے کہا اگر تم کو حرام موت مرنے کا شوق ہے تو کل کی مرتی آج مر جاوُمیری  بلا سے اور کہ کر گھر سے نکل گئے اور پھر چند روز کے اندر مجھے طلاق نامہ بھیج دیا ،میں شوہر کے انتقام میں اتنی اندھی ہو چکی تھی کہ  میں نے اپنے تینوں معصوم  بچّوں کو رکشہ میں بٹھایا  اور لے جاکر ان کی بوڑھی دادی کے منہ پر یہ کہ کر مارا کہ تمھارے بیٹے کے بچّے ہیں میں میکے سے تو لائ  نہیں تھی ،میرا بڑا بیٹا سات برس کا بیچ والی بیٹی پانچ برس کی اور تیسرا بیٹا چاربرس کاتھا جب میں ان کی دادی کے گھر سے نکل رہی تھی میرا چار برس کا بیٹا میرے پیچھے روتا ہوا بھاگا تھا اور میں نے بے رحمی سے دروازہ بند کیا اور پھر پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا گھر حالانکہ میرے شوہر کے نام تھا لیکن شوہر نے گھر سے بیدخل نہیں کیا-

پھرکچھ  برس بعد میرے دل مِیں بچّوں کی مامتا جاگی اور میں نے اسکول جاکر ملنے کی کوشش کی تو وہ  بے  سود ثابت ہوئ پھر بارہ برس پہلے بچّوں کی دادی کا انتقال ہوا تب مین نے ان کی دادی کے جنازے میں شرکت چاہی تو مجھے بتایا گیا کہ دادی کی و صیّت ہے کہ مجھے ان کے جنازے میں شامل نا کیا جا ئَے  دادی کے مرنے کے بعد بچّون کے چچا اور چچی نے  ان کی پرورش کا فریضہ انجام دیابس اس کے بعد پھر اب تو اٹھّارہ برس بیت گئے ہیں سوکن آج بھی میرے شوہر کے ساتھ خوش و خرّم زندگی گزار رہی ہے کئ بچّے ہو چکے ہیں اورمیں جنم جلی اپنے ہاتھوں اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کے پیچھے تنہا تنہا جی رہی ہوں دو برس پہلے میری بیٹی کی شادی ہوچکی ہے ،بڑے بیٹے کی منگنی اس کے چچا نے اپنی بیٹی سے کر دی ہے چھوٹا بیٹا ابھی حال میں پڑھائ سے فارغ ہوا ہے وہ بچّہ جو میرے بغیر ایک گھڑی نہیں رہتا تھا-اسے تو اب میری شکل سے نفرت ہے اور بڑے بھائ سے کہتا ہے کہ امّی ملنے آئیں تو مجھے کمرے سے باہر نہیں بلانا ہے ،بڑے بیٹے کوکچھ خوف خدا ہے تو   مجھ سے ملنے بھی آجاتا ہے اور اپنے فلیٹ پر بھی بلا لیتا ہے اس نے شادی کرنے سے پہلے ہی اپنا زاتی فلیٹ لے لیا ہے،میں اسی فلیٹ پر جا کر اس سے مل لیتی ہوں   خاتون خاموش ہو گئیں تو انیلہ نے ان سے سوال کیا کیا آپ معاشرے کی خواتین کو کوئ پیغام دینا چاہیں گی-خاتون نے کہا ہاں ضرور دوسری شادی مرد کا جائز اور اللہ کا مقّررکردہ حق ہے جبکہ وہ انصاف سے چلنے کی بات بھی کر رہا ہو اس لئے ایسی صورت میں اس کو دوسری شادی کی اجازت ضرور دے دینی چاہئے -خاتون  کی منزل آچکی تھی اور وہ اتر کر چلی گئیں اور انیلہ کو اس کی نئ کہانی کا عنوان دے گئین تھیں  اور انیلہ شام کو جب تھکی ہاری واپس گھر آئ تب بستر پر لیٹ کر اسے ان خاتون کا خیال آیا اور ان کے الفاظ یاد آئے ،،،دوسری شادی مرد کا جائز حق ہے  اسے خوشی خوشی اجازت دے دینی چاہئے ورنہ وہ جبریہ چھین لیتا ہے

سمو گ 'سردی 'بارش اور معصوم فرشتے

ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ نمونیا کی علامات میں تیز بخار، بلغم، کھانسی، تھکاوٹ اور سانس لینے میں دشواری اور اس کے ساتھ سینے میں درد بھی شامل ہے۔دراصل نمونیا ایک یا دونوں پھیپھڑوں میں بیکٹیریا، وائرس یا فنجائی کی وجہ سے ہونے والا انفیکشن کہلاتا ہے یہ انفیکشن پھیپھڑوں کی ہوا کی تھیلیوں میں سوزش کا باعث بنتا ہے، جسے الیوولی کہتے ہیں، بعد ازاں الیوولی سیال یا پیپ سے بھر جاتا ہے، جس سے سانس لینا مشکل اور نہایت تکلیف دہ ہوجاتا ہے۔لاہور : پنجاب میں نمونیا سے مزید 14 بچے انتقال کرگئے، جس کے بعد نمونیا سے انتقال کرنے والے بچوں کی تعداد 275 ہوگئی ہے۔تفصیلات کے مطابق پنجاب میں سردی اور نمونیہ سے بچوں کی اموات کا سلسلہ نہ رک سکا ، محکمہ صحت پنجاب کی جانب سے کہا گیا کہ 24 گھنٹے میں پنجاب میں نمونیہ سے مزید 14 بچے انتقال کرگئے۔محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ جنوری میں نمونیہ سے انتقال کرنے والے بچوں کی تعداد 275 ہوگئی، پنجاب بھرمیں 24 گھنٹےمیں 872 بچے نمونیہ میں مبتلا ہیں۔محکمہ سپیشلائزڈ ہیلتھ کئیر جنوبی پنجاب کے ہسپتالوں میں رواں سال اب تک 2149نمونیا کا شکار بچے لائے گئے جنوبی پنجاب کے تمام بڑے اسپتالوں میں ان 2149 بچوں میں سے  1854نمونیا کا شکار بچوں کو داخل کر کے علاج شروع کیا گیا جبکہ یکم جنوری سے اب تک جنوبی پنجاب کے بڑے سرکاری اسپتالوں میں نمونیہ کا شکار 56بچوں کی موت واقع  ہوئی ہے 

ویسے تو نمونیا ہلکا یا سنگین ہو سکتا ہے یہ بیماری 5 سال یا اس سے کم عمر کے بچوں میں زیادہ عام ہوتی ہے، نمونیا اگر کسی صحت مند انسان کو ہو تو وہ اس کا مقابلہ با آسانی کرسکتا ہے مگر بچوں کے لیے اس سے نمٹنا بعض اوقات انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔بچوں کو نمونیا ہونے کی وجوہات میں انہیں دودھ پلانے کی کمی، آلودگی، غذائیت کی کمی، ٹھنڈ میں زیادہ دیر تک رہنا اور کمزو مدافعتی نظام شامل ہے۔سمیت جنوبی پنجاب اندرون سندھ بلوچستان کے مریض بچوں کا بوجھ اٹھانے والے چلڈرن کمپلیکس میں اس وقت نمونیہ چیسٹ انفیکشن کا شکار 80 سے زائد بچے زیر علاج ہیں جبکہ ترجمان چلڈرن کمپلیکس ملتان ڈاکٹر معاز کے مطابق یکم جنوری سے 18 جنوری 2024 کے درمیان نمونیہ چیسٹ انفیکشن کے شکار 1ہزار 65 بچے چلڈرن کمپلیکس رپورٹ ہوئے رپورٹ ہونے والے نمونیہ کا شکار بچوں میں سے 18 روز کے دوران 40 بچوں نے چلڈرن کمپلیکس میں دم توڑا جبکہ 928 بچے صحت یاب ہو کر گھروں کو واپس چلے گئے جبکہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران چلڈرن کمپلیکس میں نمونیہ کا شکار کسی بچے کی موت واقع نہیں ہوئی  

کیس بہاول وکٹوریہ ہسپتال میں رپورٹ، 4بچے زندگی کی بازی ہارگئے، سکولوں میں جانیوالے معصوم بچوں کی زندگیاں بھی خطرے میں،موسم میں مزید شدت اوربارشوں کابھی امکان۔ تفصیلات کے مطابق صوبہ بھرسمیت بہاولپورمیں بھی سردی کی شدت اورسموگ میں کوئی کمی نہ ہوسکی بلکہ آئے روز سردی کی شدت میں اضافہ ہوتانظرآرہاہے جس کی وجہ سے انسانی زندگی بالکل مفلوج ہوکررہ گئی ہے،شدیددھند اورسموگ کی وجہ سے آئے روزحادثات میں بھی اضافہ ہورہاہے جبکہ دوسری طرف ہسپتالوں میں سانس اورپھیپھڑوں سے متاثر مریضوں کی تعدادمیں بھی اضافہ بتایاجارہاہے۔ذرائع کے مطابق اب تک اس شدیدسردی کے موسم کی وجہ سے صوبہ بھرمیں نمونیاکی وجہ سے 140 بچے جاں بحق ہوچکے ہیں جبکہ بہاو ل وکٹوریہ ہسپتال کے زرائع کے مطابق یکم جنوری سے 18جنوری تک 150سے زائد بچے نمونیاسے متاثرہوکرہسپتال آئے جن میں ایمرجنسی مریضوں کی تعداد 94، اِن ڈورمریضوں کی تعداد 174 بتائی جاتی ہے جبکہ 4بچوں کی ڈیتھ بھی واقع ہوچکی ہے

 جبکہ دوسری طرف پنجاب بھرمیں مزیدسردی کی شدت میں اضافے اوربارشوں کاامکان بھی بتایاجارہاہے اس سنگین صورتحال میں سکولوں میں جانیوالے بچوں کی صحت اورزندگیاں بھی خطرے کاشکارہیں۔اس حوالے سے والدین سمیت عوامی سماجی حلقوں نے وزیراعلیٰ پنجاب سے پرزورمطالبہ کیاہے کہ فوری طورپرمعاملے کی سنگینی کانوٹس لیاجائے اور کچھ عرصے کیلئے بچوں کے سکولوں کوبندکردیاجائے جب تک کہ سردی اورسموگ کی شدت میں واضح کمی نہیں ہوجاتی۔ ڈاکٹر ید اللہ کہتے ہیں کہ صوبے میں نمونیا سے بچاؤ کے لیے بچوں کو ویکسین بھی لگائی جاتی ہے۔ لیکن وہ بچے جن کی قوتِ مدافعت کم ہو ان کے سردی سے متاثر ہو کر نمونیا سے مبتلا ہونے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔ اُن کے بقول پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں نمونیا کے کیسز زیادہ رپورٹ ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر ید اللہ کہتے ہیں کہ صوبہ پنجاب میں چھ سے سات ہزار بچے متاثر ہوئے ہیں اور ان میں زیادہ تر صحت یاب ہو چکے ہیں۔ اُن کے بقول بچوں کو اسپتال پہنچنے میں تاخیر کی وجہ سے ان کی اموات واقع ہوئی ہیں۔نمونیا کی علامات اور بچاؤ-ڈاکٹر یداللہ کہتے ہیں کہ اگر کسی بچے کو تیز بخار کے ساتھ کھانسی ہے، سانس لینے میں دشواری پیش آتی ہے اور اس کی چھاتی چلنا شروع ہو جائے تو ان کے بقول یہ نمونیا کی بڑی علامتیں ہیں۔اُن کے بقول نمونیا سے پانچ سال سے کم عمر بچے اور وہ معمر افراد متاثر ہوئے ہیں جو شوگر، بلڈ پریشر اور دمے سے متاثر ہیں یا وہ لوگ جن کے پھیپھڑے کووڈ کے مرض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے متاثر ہوئے۔انھوں نے کہا کہ بچوں اور معمر افراد کو سردی سے بچانا ضروری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ماسک کا استعمال کریں اور ہاتھوں کی صفائی کا خاص خیال رکھیں۔ اس کے ساتھ بچوں کو نمونیا سے بچاؤ کی ویکسین لگوانا بھی ضروری ہے۔


 


 

ایک طلسماتی جشن شہنشاہی

    جب دنیا کی تاریخ میں  منعقد کی جانے والی  ڈھا ئ      ہزار سالہ شاندار ترین تقریب   کا انعقاد ہو نے والا  تھا اس وقت  کا ایرانی  معاشرہ     شیطان کے رنگ  میں  کس طرح رنگ چکا تھا اس تقریب کا احوال پڑھ کر قا رئین کو اندازہ ہو گا کہ ایران کے نوجوان اپنی آزادی کی قیمت لینے کے لئے سر سے کفن باندھ کر نکلے اور تہران کی سڑکوں پر اپنے لہو کا نذرانہ دے کر  اپنی آزادی واپس لے کر ہی دم لیا - سلطنت فارس کے قیام کا 2500 سالہ جشن 12 سے 16 اکتوبر 1971ء کو ایران میں منایا گیا۔یہ دنیا کی تاریخ میں کی جانے والی شاندار ترین تقریبات میں سے ایک تھی۔اس تقریب میں دنیا کے ہر برِاعظم سے بادشاہ، ملکہ، شہزادے، شہزادیاں، شیخ، سلطان، سربراہانِ مملکت، وزیر، سفیر، بزنس کی اہم شخصیات سبھی اس محفل میں شریک ہوئے۔تقریب کا انتظام کرنے کے لیے ڈیڑھ سال پہلے اس کی تیاری شروع کر دی گئی۔ ایران میں انفراسٹرکچر موجود نہ ہونا ایک مسئلہ تھا۔ تقریب کے شایانِ شان ہوٹل نہیں تھے۔ سوچ بچار کے بعد اس کے لیے قدیم شہر پرسیپولس کے صحرا کا انتخاب کیا گیا۔اس صحرا کو جنگل میں بدلا گیا۔ درخت درآمد کیے گئے۔ پندرہ ہزار درخت جہازوں پر لائے گئے۔ پھولدار پودے لگائے گئے۔اٹلی کے مشہور باغبان جارج ٹرروفوٹ کو بلایا گیا کہ وہ چار ہیکٹئر پر مشتمل خوشبودار باغ لگائیں۔ اس کے لیے مٹی منگوائی گئی۔ اس جگہ پر سانپ اور بچھو بہت تھے جو مہمانوں کے لیے خطرناک ہو سکتے تھے۔ تیس کلومیٹر تک کے علاقے پر کیمیکل چھڑکے گئے اور رینگنے والے جانوروں کے ٹرکوں کے ٹرک پکڑے گئے۔ اس دوران ایسی انواع بھی ملیں جو نامعلوم تھیں اور انھیں یونیورسٹیوں کو تحقیق کے لیے دیا گیا۔اس جنگل کو آباد کرنے کے لیے یورپ سے پچاس ہزار چہچانے والے پرندے درآمد کیے گئے۔ بیس ہزار چڑیوں کو سپین سے منگوایا گیا

 لیکن پرندوں کی بڑی تعداد چند روز میں ہی مر گئی۔ وہ یہاں کے موسم سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ صحرا میں گالف کورس بنایا گیا۔اس تقریب کا زیادہ تر کام مشہور یورپی کمپینیوں کے حوالے ہوا۔پرسیپولس میں خیموں کا شہر-شاہی خیموں کا شہر بنانے کے لیے پیرس کی مشہور جینسن کمپنی کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اس کمپنی نے رہائش کے لیے ائیر کنڈیشنڈ ٹینٹ ڈیزائن کیے جس میں لگژری سویٹ ہوں اور انھیں روایتی ایرانی پردوں سے ڈھکا گیا۔ ہر خیمے میں دو بیڈروم، دو باتھ روم، ایک لاونج، ایک کچن تھا جس میں باورچی اور خدمت گار چوبیس گھنٹے ڈیوٹی پر تھے۔ فرانسیسی آرکیٹکٹ، انٹیرئیر ڈیزائنر اور ہنرمندوں کو ایک سال سے زیادہ ان خیموں کی تعمیر پر لگا۔ ان کو پیرس کے ہوائی اڈے کے قریب تعمیر کیا گیا اور سینکڑوں جہازوں میں انھیں پرسیپولس پر پہنچایا گیا۔ خیموں کا یہ شہر 160 ایکڑ پر پھیلا تھا۔ ایک سوشل خیمہ بنایا گیا تھا جس میں بار، ریسٹورنٹ، کسینو تھا۔ ایک اور سپیشل خیمے میں میک اپ سیلون، ہیرڈریسنگ سیلون سیٹ کیے گئے تھے۔ ان میں پیرس کے بہترین ہیرڈریسرز اور میک اپ کے ماہرین کو بلایا گیا تھا کہ وہ مہمانوں کو خدمات مہیا کریں۔ ان کی مہینوں تک خاص ٹریننگ کی گئی تھی کہ وہ تیز رفتاری سے کام کر سکیں۔ اور کیسے صرف چند منٹ میں تاج فٹ کر سکیں۔

 پیرس سے فیشن ڈیزائنرز کی ایک ٹیم بھی بلوائی گئی تھی تا کہ اگر کسی کو اپنے لباس میں آخری وقت پر تراش خراش کروانی پڑے تو خدمات دستیاب ہوں۔ کھانے کے لیے فرانس کے مشہور میکسیم ڈی پیری سے معاملہ ہوا۔ یہ اس وقت دنیا کا بہترین ریسٹورنٹ سمجھا جاتا تھا۔ پارٹی کے وقت یہ ریسٹورنٹ دو ہفتے بند رہا۔ اس کا تمام سٹاف ایران میں دس روز پہلے پہنچ گیا تھا۔ فرانس سے اٹھارہ ٹن خوراک منگوائی گئی۔ ڈھائی لاکھ انڈے۔ 2700 کلوگرام گوشت اور بہت کچھ اور۔ یہاں تک کہ تیس کلوگرام خاویار بھی! مشہور ترین ہوٹلییر میکس بلوئے، اپنی ریٹائرمنٹ چھوڑ کر انتظامات سپروائز کرنے پہنچے۔ اس جگہ تک اتنا سامان پہنچانا ایک بڑا چیلنج تھا۔ اس سے پچاس کلومیٹر دور شیراز تھا جہاں ایئر فیلڈ تعمیر ہوا جہاں جہازوں کی آمدورفت ہو سکتی تھی۔ اس ائیرفیلڈ کو پرسیپولس سے ملانے کے لیے ایک ہائی وے تعمیر کی گئی۔ سامان لانے کا کام ایرانی ائرفورس کے سپرد ہوا۔ چھ ماہ تک ایرفورس شیراز اور پیرس کے درمیان سامان کی ترسیل میں مصروف رہی۔ 

شیراز سے آرمی کے ٹرکوں میں سامان منزل تک پہنچا دیا جاتا۔ پردے اور قالین اٹلی سے آئے۔ باکاراٹ کرسٹلز پہنچے۔ برتن لموژے چائنہ کے بنوائے گئے جس میں پہلویوں کا کوٹ آف آرمز کنندہ تھا۔ تولیہ اور چادریں پورٹہو سے۔ پرچ اور پیالیاں رابرٹ ہاویلانڈ سے۔ اور مہنگی ترین شراب کی ہزاروں بوتلیں آئیں جن کا وزن بارہ ٹن تھا۔ کھانا پکانے کے لیے پیرس سے جو سامان آیا، وہ تیس ٹن وزنی تھا۔ جہاز اس کو سرد رکھنے کے لیے برف لے کر آئے۔ تیس میل کی سڑک کو روشن کرنے کے لیے ایرانی آئل کمپنی نے مشعلیں جلانے کا بندوبست کیا۔سیاحت کی وزارت نے شیراز میں دو نئے ہوٹل تعمیر کروائے۔ کروش اور درویش نامی ان ہوٹلوں میں کم اہم مہمانوں اور میڈیا کے لوگوں کو ٹھہرایا گیا۔سیکورٹی -د نیا کے اہم ترین لوگ ایک جگہ اکٹھے ہو رہے تھے۔ شاہ کی غیر مقبولیت کی دوسری کئی وجوہات بھی تھیں۔ شاہ کو طلبہ کی طرف سے سبوتاژ کیے جانے کا خطرہ تھا۔ سیکورٹی پر 65000 اہلکار تعینات ہوئے۔

 یہ بھی خدشہ تھا کہ کہیں کوئی کھانے میں کوئی چیز نہ ملانے میں کامیاب ہو جائے۔ کھانے کی حفاظت خاص طور سے کی گئی جس تک بہت کم لوگوں کو رسائی تھی۔ بیرے سوئٹزلینڈ سے منگوائے گئے۔ ایران کی سرحد کو تقریب کے دوران سیل کر دیا گیا۔ یونیورسٹیاں اور اسکول بند کر دئے گئے۔ شک کی بنیاد پر ہزاروں نوجوانوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ طلبہ تنظیموں میں متحرک لوگوں کو تقریب سے چند ماہ قبل احتیاط کے طور پر جیل میں ڈال دیا گیا -اس تقریب کی تشہیرپر خاص توجہ دی گئی۔ مختلف ممالک کے ٹی وی چینلوں کے ساتھ اس کو براہِ راست دکھانے کی ڈیل کی گئی۔ ایران کے قومی فلم بورڈ نے اس تقریب پر فلم “فارس کے شعلے” کے نام سے بنائی جو کئی زبانوں میں ترجمہ کی گئی۔ انگریزی ڈبنگ کے لیے ہالی وڈ کے ایکٹر اور ڈائریکٹر اورسن ویلز کی خدمات حاصل کی گئیں۔ ایرانی سفارتخانوں کو اس تقریب کی طرف توجہ دلانے کے لیے ایک سال پہلے سے کانفرنس، پارٹی، سمپوزیم اور دوسری کلچرل تقریبات کے لیے کہا گیا۔ کئی کتابیں لکھوائی گئیں اور دنیا بھر میں تقسیم کی گئیں۔ یہ کامیاب رہا اور دنیا بھر کے میڈیا میں یہ دعوت توجہ کا مرکز رہی۔ “کون آ رہا ہے؟ کیا پہن رہا ہے؟ کھانے میں کیا ہو گا؟” یہ قیاس آرائیاں خبروں کے طور پر لگتی رہیں۔ 

پردیسیوں کی کہانیاں

یہ اب سے تقریباً پچیس برس پہلے کا زکر ہے میں  

 ایک رو حانی محفل   میں شریک    -تھی بہت سے جانے پہچانے چہرے تھے اور کئ چہرے نا شناسا بھی تھے ان نا شناسا چہروں میں ایک نازک اندام  لڑکی اپنی ننّھی منّی سی گڑیا جیسی  بیٹی کو لئے بیٹھی تھی لڑکی بھی شکل و صورت کی اچّھی تھی لیکن اس کی گود میں بچّی ماشاللہ بہت پیاری تھی میں نے پیار سے دیکھا توبچّی میرے پاس ہمک کر آ گئ ، میں کچھ دیر اس سے کھیلتی رہی پھر وہ بچّی اپنی ماں کے پاس واپس چلی گئ ،مین نے لڑکی سے کہا معلوم ہوتا ہے تمھارے والد بہت خوبصورت ہوں گے کیونکہ بیٹی کی اولاد اکثر اپنے نانا کی شکل پر ہوتی ہے ،لڑکی کہنے لگی آپ نے ٹھیک پہچانا لیکن میرے والد کا مقدّر ان کی ساری وجاہت کے بر عکس بڑا کھوٹا نکلا-کیون ؟کیا ہوا؟میرے اندر ایک احساس سا جاگا جیسے وہ لڑکی مجھ سے کچھ شئر کرنا چاہ رہی ہےلڑکی پھر گویا ہوئ-ہم درمیانے طبقے کے لوگ ہیں  ،امّی نے ابّو کو زبردستی باہر یہ کہ کر بھیجا کہ میرا اس پیسے میں گزارہ نہیں ہوتا ہے ابّو نے بالآخر امّی کے آگے ہا ر مان لی اور باہر چلے گئے ،ابّو کے باہر جانے کے بعد ہمارے ایک عزیز امّی سے کچھ چھوٹی عمر کے امّی کے پاس آنے لگے اور ابّو کا بھیجا ہوا پیسہ ہمارے گھر میں خوشحالی تو لایا لیکن ساتھ امّی کی بے راہروی بھی لایا اور میرے ابّو کی پردیس کی خون پسینے کی کمائ امّی بے دریغ اُن پر خرچ کرنے لگیں، ہم بہن بھائیوں کو ان کا آنا بہت ناگوار گزرتا تھا لیکن امّی نے سختی سے کہ دیا کہ کوئ بچّہ ان کے معاملات میں دخیل ناہو اور ہم بہن بھائ چپ ہو گئے

اور پھر دو برس تو جیسے پلک جھپکتے میں گزر گئے اور ابّو پاکستان آ گئے امّی نے ابّو کے آگے طلاق کا مطالبہ رکھ دیا ابوّ بہت روئے لیکن حالات اس نہج پر تھے کہ ابّو کو با لآخر طلاق دیتے بنی اور پھرطلاق ہوتے ہی امّی کی تقدیر کی بساط الٹ گئ،وہ شخص جو دو برس سے امّی کا پل پل رات اور دن کا ساتھی تھا وہ جو امّی سے کہتا تھا کہ طلاق لے لو میں تم سے شادی کروں گا وہ ا مّی کی زندگی کے آسمان سے دھواں بن اس طرح تحلیل ہو گیا کہ جیسے وہ امّی کی زندگی میں آ یا ہی نا ہو - ابّو کے طلاق دینے کے بعد اب امّی ہم سب کو چھوڑ کر اپنے میکہ جاچکی تھیں ،اور ابّو پردیس دوبارہ جانے سے انکاری تھے کیونکہ پھر ہم تینوں بھائ بہن اکیلے رہ جاتے

اس عرصہ میں، میں انّیس برس کی - چھوٹی بہن ستّرہ برس کی اور بھائ پندرہ برس کا  ہوچکا تھا ابّو اب پردیس تو واپس نہیں جا سکتے تھے گھرکے اندر  سامنے کے حصّے  کریانہ کی دکان کھول لی تھی تاکہ ہم بہن بھائ گھر میں اکیلے نہیں رہیں ایسے میں میرا ایک اچھّا رشتہ آیا جسے ابّو نے دیکھ بھال کر میری شادی کر دی اس سنگین حادثہ کی وجہ سے میرا انتہائ نفیس مزاج معصوم بھائ نفسیاتی مریض ہو گیا تھا جس کو میرے شوہر نے بہت سمجھداری سے سنبھالا اور پھر وقت گزرتا رہا بس ہمیں اتنا پتا چلا کہ امّی کے بھائیوں نے ان کی شادی کراچی کے بجائے سندھ کے کسی اور شہر میں کر دی ہے،ظاہر سی بات ہے کہ میرے ماموؤں کی اپنی فیمیلیز تھیں اور حقیقت بھی یہ تھی کہ امّی کے کردار کو ان کے میکہ میں سب ہی برا کہ رہے تھے

پھر ابّو نے ایک اچھّا رشتہ دیکھ کر مجھ سےچھوٹی بہن کی شادی بھی کر دی ہمارا امّی سے ہر قسم کا ناطہ ختم ہو چکا تھا لیکن ہوا یوں کہ شادی کے سال بھر کے بعدبہن کے یہاں پہلے بچّے کی ولادت ہوئ تو اس نے امّی کو  نا جانے کس کے  زریعہ رابطہ کر کے  اپنے پاس بلالیا بہن ہاسپٹل میں تھی اور میں ابّو اور میرے شوہر بچّے اور بہن سے ملنے جب ہاسپٹل پہنچے تو امّی وارڈ میں بچّے کو اپنی گود میں لیئے بیٹھی تھیں اور ابّو جیسے ہی وارڈ میں داخل ہوئے ویسے ہی واپس ہو لئے میں نے ابّو کو دیکھ کر کہا کیا ہوا ابّو کہنے لگے وہاں کوئ اجنبی خاتون ہیں جب وہ چلی جائیں گی تب جاؤں گا میں نے ابّو سے کہا ابّو وہ امّی ہیں میرے کہنے ساتھ ایسالگا کہ ابّو کا کسی نے لہو نچوڑ لیا ہو،

میں نے ابّو سے کہا ابّو آپ اپنے آپ کو سنبھالئے کہ اب ہمارے لئے آپ ہی سب کچھ ہیں ،ابّو نے اپنی آنکھوں کے گوشوں پر ٹکے ہوئے آنسو صاف کئے اور بولے ان سے پوچھو کیا وہ بیمار ہیں ،یا ان کو پیسہ کی ضرورت ہے ،امّی کا حسن گہنا گیا تھا اور وہ ایک مدقوق ضعیف خاتون دکھائ دے رہی تھیں-یہاں ایک بات کی وضاحت کر دوں کہ میری امّی بھی حسن و خوبصورتی میں یکتا ئے روزگار تھیں-جب میں نے امّی سے یہ بات کہی امّی بے اختیار رونے لگیں پھر آہستہ سے بولیں ان سے کہو مجھے معاف کر دیں،جب لڑکی خاموش ہوئ تو اس کے منہ سے بے اختیار ایک سرد آہ نکلی اور اس نے کہا ،پھر امّی نے بتایا کہ وہ گھارو شہر میں ایک جھگّی محلّہ میں بیاہی گئیں ہیں اور ان کا شوہر ضعیف کمزور اور مدقوق ہے اور امّی کو ان کی کئر ٹیکر بننے کے لئے ان کا نکاح کیا گیا ہے حقیقت یہ ہے کہ مجھے بھی امّی کو اس حال میں دیکھ کر شدید صدمہ ہواتھا ،وہ سراپا غربت کی تصویر تھیں وہ بال جن کو وہ اپنے محبوب کے لئے رنگ کر سنوارا کرتی تھیں اپنے سفید رنگ ہو چکے تھے شائد رزق کی کمی نے ان کو بلکل نڈھال کر دیا تھا-لڑکی پھر خاموش ہو گئ اور پھر چند ثانیوں کے بعد بولی-یہ میری امّی کی داستانِ عشق و الم تھی جن کے حسن کو ان کی ہوائے نفسانی نے بہت جلد خزاں رسید کر دیا تھااس بار جب لڑکی خاموش ہوئ میری واپسی کا وقت آ چکاتھا ،میں نے چلتے چلتے اسے دعائیں دیں اور گھر آگئ لیکن کئ دن تک یہ قصّہ میرے حواس پر محیط رہا ،  

اتوار، 7 اپریل، 2024

ایک شہر کئ صدیوں کا سفر -دہلی


تیمور  نے دہلی کو اجاڑ کر ہی دم لیا -لیکن پحر اس اجڑی ہوئ  بستی کو ہندوستان  کے کونے کونے سے لوگوں نے آ کر بسا لیا  ۔   پھر مغل  بادشا  ہوں کے آنے سے دلی  کو کچھ رونق ملی -لیکن پھر  فضلت مآب شہر آگرہ بن گیا ۔    اکبر نے آگرہ کو اکبر آباد بنایا تو اسے ہفت آسمان کا دمکتا نگینہ بنا دیا ۔پھر جہانگیر کے بعد دور شاہجہانی آیا -شاہجہاں کی زندگی کے بہترین سال بھی یہیں گزرے۔ ممتاز کی موت نے اسے آگرہ سے کچھ بد دل سا کر دیا، مگر چلتے چلاتے تاج محل سا تحفہ آگرہ کو دے کر آیا۔ نظر انتخاب دلی پر پڑی، سوکھے دانوں پانی پڑا۔ آن کی آن میں کایا پلٹ گئی۔ حسن کچھ ایسا نکھرا، جیسے کالی بدلیوں سے چھٹ کر چاند نکل آیا۔ اس زمانے کی نئی دلی اور آج کی پرانی دلی کو دل کھول کر سجایا گیا۔ لال قلعہ بنا، جامع مسجد بنی، چاندنی چوک، فیض بازار اور چوک سعد اللہ جیسے بازار بسے۔ محل سرائیں تعمیر ہوئیں۔تمام دلی باغ و بہار ہوگئ ۔ اہل قلم، اہل سیف، اہل دولت اور اہل حرفہ غرض سبھی کی آنکھوں کا تارا بنی۔ دولت اور فراغت نصیب ہوئی تو دلی کی معاشرت نکھر آئی۔ مزاجوں میں نفاست آ گئی۔ طبیعتیں سیر و تفریح کی طرف راغب ہوئیں۔ معیارِ زندگی اونچا اٹھا تو اچھی چیزوں کی مانگ بڑھی۔ معیاری چیزیں بننے لگیں۔ قدردانی فن میں توانائی اور بلندی پیدا کرتی ہے۔ اس میں ہُن برستی دلی میں بادشاہ کی سر پرستی اور امراء کی قدردانی نے پارس کا کام کیا۔ جو چیز چھو لی گئی، سونا بن گئی۔ اہل حرفہ کے حوصلے ایسے بڑھے کہ ہر شخص اپنے فن کا ماہر بن گیا۔ اہل حرفہ ہی پر کیا موقوف، جو جہاں تھا وہیں اس نے اپنے جوہر دکھائے۔ یہ عہدِ زریں اورنگ زیب کے دم تک رہا۔ کامیابی دولت اور عیش کے سامان مہیا کرتی ہے تو تن آسانی، قویٰ، کوشل اور احساسِ فرض کو سرد کرکے انحطاط کے دروازے کھول دیتی ہے۔ یہی کچھ مغلوں کے ساتھ ہوا۔

کہاوت ہے کہ ہر کمال کو زوال ہے، لیکن ہر زروال صرف تخریب کی جانب نہیں لے جاتا، بلکہ اس سے تعمیر کے سوتے بھی پھوٹتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی اس دورِ انحطاط میں بھی ہوا۔ دلی میں مغلیہ دور (شاہجہاں تا بہادر شاہ ظفرؔ) جو معاشرہ وجود میں آیا، اسے مشترکہ تہذیب، گنگا جمنی تہذیب کہا گیا اور جو بعد ازاں دلی کی تہذیب کہلائی۔ اسی دورِ انحطاط میں اس کی نشوونما ہوئی۔ اسی دورِ انحطاط میں شمالی ہند میں اردو شعر و ادب کا آغاز ہوا۔ دلی شعرو ادب کا مرکز بن گئی۔ یہاں شعر و ادب پر تبصرہ کرنا مقصود نہیں، البتہ اتنا ضرور کہیں گے کہ دلی کی تہذیب نے شعر و ادب کو اس طرح متاثر کیا کہ یہ الگ دبستان بن گیا  اور آج یہ   لگ بھگ تین  کروڑ سے اوپر آبادی والا دلی شہر اپنے اندر ایک  گونا گوں   دنیا آباد کیے ہوئے ہے - یہ پورے ملک کی ثقافتوں، مذاہب اور روایات کا عکاس ہے۔گذشتہ کئی صدیوں پر محیط عالمی تجارت، فتوحات اور نوآبادیاتی نظام کی تاریخ نے دلی کو واقعی ایک کثیر الثقافتی رنگ دیا ہے۔دلی کا ثقاتی تنوع تو اپنی جگہ لیکن یہاں پر بسنے والے نوجوان ہوں یا بزرگ، سب میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے ایک اچھی پارٹی (تقریب) سے لگاؤ۔ یہاں ایک شادی پانچ سے دس دنوں تک جاری رہتی ہے جس میں ایک ہزار سے زیادہ مہمان صرف ایک شادی سے جڑی رسومات اور پارٹیز کا حصہ بن سکتے ہیں۔ویسے تو پورے انڈیا میں ہی شادی کی رسم کئی دنوں تک جاری رہتی ہے لیکن دلی کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں پر مبارک سمجھی جانے والی تاریخ پر ایک دن میں 60 ہزار شادیاں بھی ہو چکی ہیں۔ دلی کی شادیوں اور ان پر ہونے والے خرچوں کے اتنے چرچے ہو چکے ہیں کہ انڈیا میں کئی اراکین اسمبلی شادیوں میں فضول خرچی کے خلاف بل متعارف کروا چکے ہیں۔


چاندنی  چوک  بھارت کے شہر دہلی کا قدیم ترین اور مصروف ترین بازار ہے۔ یہ پرانی دہلی ریلوے اسٹیشن کی قربت میں واقع ہے۔ یہ بھارت کا سب سے بڑا تھوک فروش بازار بھی ہےاردو بازار بھارت کے شہر دہلی کی جامع مسجد کے قریب کی ایک گلی ہے۔یہ پرانے زمانے میں دہلی کے دیواری شہر کا سب سے اہم بازار تھا۔ شہنشاہ شاہجہان نے قلعہ معلّٰی دہلی کے قریب اردو بازار کے نام سے اس محلہ کو بسایا تھا۔نئی دہلی حکومت بھارت کا دار الحکومت اور قدیم شہر ہے۔ یہ پہلے بھی بادشاہوں کی دار الحکومت ہو کرتا تھا اور آج بھی یہ اس ملک کا دار الحکومت ہے مغلوں کے زمانے میں تعمیر شدہ عمارتین آپ کو اس شہر میں بھی کافی تعداد میں ملتی ہیں جن میں دہلی کا لال قلعہ، جامع مسجد اور قطب الدین کی تعمیر کردہ قطب مینار سر فہرست ہے۔ نئی دہلی میں اعلی درجے کی سیاحتی پرکشش مقاماتاس شہر میں جادوئی مساجد، تاریخی یادگاروں، پرانے اور شاندار قلعوں کی ایک لکیر ہے جو مغل حکمرانوں کی میراث   ہے- دلی میں جہاں سالانہ دس لاکھ شادیوں کی پارٹیز اور روایتی رسومات کا چرچا ہوتا ہے وہیں یہاں کے باسیوں نے کلبو ں  ا ریستوران کے ذریعے ایک مغربی پارٹی کلچر بھی اپنی زندگیوں کا حصہ بنا رکھا ہے۔دہلی کے  گم گشتہ  عوام-دلی کے بزرگوں سے سنا ہے کہ قدیم دلی والوں کے لیے دلی کی فصیل کے اندر پیدا ہونا ایک اعزاز تھا۔  دلی والے اپنی نشست و برخاست، رفتار و گفتار میں بہت محتاط تھے--بات کہنے میں آتی ہے تو اتنا سمجھ لیجیے، دلی والے علم مجلسی میں بھی دوسروں کی نسبت آگے ہی تھے۔ حالتِ غیظ میں بھی ’’آدمیت‘‘ کو نہ چھوڑتے۔ 


کبھی ایسا بھی وقت آتا کہ زبان پر گالی بھی آجائے تو طبقہ اشرافیہ کی زبان پر تیرا یا تیری جیسے الفاظ نہ آتے۔ گالی دینے میں بھی ایک سلیقہ ہوتا تھا۔ دلی کے مشہور طبیب اور مدبر، مسیح الملک حکیم اجمل خاں کے دیوان خانے کے تعلق سے بہت سی باتیں منظرعام پر آ چکی ہیں حکیم صاحب نے ملک میں دیسی ادویات کے تحفظ اور فروغ کے لیے ایک بڑی تحریک چلائی اور اپنے مشن کو انجام تک پہنچانے کے لیے دہلی میں تین اعلیٰ اداروں کی بنیاد رکھی، پہلا سنٹرل کالج، دوسرا ہندوستانی دواخانہ اور تیسرا طبیہ کالج، جو اب آیورویدک اور یونانی طبیہ کالج کے نام سے جانا جاتا   ہےاگر آپ ہندوستان کا دورہ کرتے ہیں ، تو آپ کو ذیل میں درج ذیل مقامات کا دورہ کرنا چاہیے۔ یہاں ان مقامات کی فہرست ہے جو دہلی میں دیکھنے کے لیے سب سے زیادہ دیکھے جانے والے پرکشش مقامات ہیں۔ان مقامات کے بارے میں سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر عوامی دوروں کے لیے مفت ہیں۔ آپ کی ضرورت ہے انڈیا ای ٹورسٹ ویزا  انڈین ویزا آن لائن ہندوستان میں ایک غیر ملکی سیاح کے طور پر حیرت انگیز مقامات اور تجربات کا مشاہدہ کرنے کے لیے۔ متبادل طور پر، آپ ایک پر ہندوستان کا دورہ کر سکتے ہیں۔ انڈیا ای بزنس ویزا اور ہندوستان میں کچھ تفریح ​​اور سیر کرنا چاہتے ہیں۔ دی انڈین امیگریشن اتھارٹی ہندوستان آنے والوں کو درخواست دینے کے لئے حوصلہ افزائی کرتا ہے انڈین ویزا آن لائن ہندوستانی قونصل خانہ یا ہندوستانی سفارتخانے جانے کے بجائے۔جامع مسجد۔دہلی میں دیکھنے کے لیے بہت سے شاندار جواہرات میں سے ایک جامع مسجد ہے۔ عبادت گاہ ہونے کے علاوہ، جامع مسجد مشہور مغل فن تعمیر کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ تقریباً شہر کے کھوئے ہوئے اور پائے جانے والے خزانے کی طرح ہے۔ یہ ملک کی سب سے بڑی مساجد میں سے ایک ہے۔ مسجد کا صحن اتنا کشادہ ہے کہ تقریباً 25,000 عازمین آرام سے رہ سکتے ہیں۔ اس قد کاٹھ کی مسجد بنانے میں کاریگروں، مزدوروں، انجینئروں اور منصوبہ سازوں کو اس بے مثال خوبصورتی کو عملی جامہ پہنانے میں 12 سال لگے۔ آخر کار یہ سال 1656 میں مکمل ہوا۔یادگار کے جنوبی ٹاور کی چوٹی تک ایک محنتی چڑھائی آپ کو دلکش شہر دہلی کا ایک دلکش نظارہ پیش کرے گی(تاہم، یہ علاقہ دھاتی حفاظتی گرلز سے بند ہے)۔ مسجد میں آسانی سے داخل ہونے کے لیے اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ اپنے آپ کو ٹھیک سے ڈھانپیں (اپنی جلد کا زیادہ حصہ نہ دکھائے) کیونکہ یہ مسلمانوں کے لیے ایک مقدس عبادت گاہ ہے۔ جلد تاہم، اگر آپ اب بھی اس جگہ کے لیے مطلوبہ لباس پہننا بھول جاتے ہیں، تو مسجد میں داخل ہونے اور تبدیل کرنے کے لیے مختلف لباس موقع پر فراہم کیے جاتے ہیں۔یہ جگہ پرانی دہلی کے چاندنی چوک کے قریب لال قلعہ کے قریب واقع ہے۔،

دہلی  میں سیّاحوں کی کششپراشر جھیل

فطرت کے شائقین کے لیے ایک چھوٹی سی پناہ گاہ، پراشر جھیل ان میں سے ایک ہے۔ ہماچل پردیش میں دیکھنے کے لئے سب سے خوبصورت مقامات. یہ پرسکون چھوٹی وادی 2730 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ دیودار کے گھنے جنگلات اور دھولدھر سلسلوں سے ڈھکی ہوئی ہے۔. کچھ واقعی خوبصورت مناظر کا مشاہدہ کرنے کے لیے تیار رہیں کیونکہ اس جھیل کے بیچ میں ایک خوبصورت چھوٹا تیرتا ہوا جزیرہ کھڑا ہے، اور کنارے پر ایک 100 سال پرانا پگوڈا نما مندر دیکھا جا سکتا ہے جو سنت پراشر کے لیے وقف ہے۔ اگر آپ اس تجربے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، تو جھیل تک جانے کی کوشش کریں اور ایک رات کے لیے کنارے پر کیمپ لگائیں!ریوالسر جھیلریوالسر جھیل ایک مربع شکل کی جھیل ہے جو 1360 میٹر کی بلندی پر واقع ہے اور ایک پہاڑی اسپر سے دور ہے۔ اس نام سے بہی جانا جاتاہے Tso-Pema، اس کا تقریباً ترجمہ "لوٹس لیک" سے کیا جا سکتا ہے اور یہ منڈی میں دیکھنے کے لیے سب سے خوبصورت مقامات میں سے ایک ہے۔ حیرت انگیز خوبصورتی کے علاوہ، اس جگہ پر، آپ کو بھی مل جائے گا 3 ہندو مندر جو بالترتیب بھگوان شیو، بھگوان کرشنا اور سیج لوماس کے لیے وقف ہیں، دیگر خانقاہوں، گرودواروں کے ساتھ، اور پدم سمبھوا کا ایک بہت بڑا مجسمہ جو روحانی مسافروں کو لانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ 

جمعرات، 4 اپریل، 2024

عمر شریف -لیجنڈ آف ظرافت




 کہتے ہیں کہ پُوت کے پاؤں  پالنے میں  نظر آ جاتے  ہیں -تو  ننھے عمر شریف کے ساتھ بھی یہی ہوااپریل کی 19 تاریخ اور سن 1955 تھا جب لیاقت آباد میں کرائے کے گھر میں مقیم غریب گھرانے میں محمد عمر نے آنکھ کھولی۔ کئی بہن بھائیوں میں وہ سب سے چھوٹے تھے۔ 4  ہی برس کے  ہوئے تھے کہ  والد نے داغ مفار قت  دے گئے۔ ہوش سنبھالا تو 2 بڑے بھائی بھی محنت مزدوری کر کے ماں اور بڑی بہن   کی کفالت  کرتے نظر آئے  ۔محمد عمر پڑھائی سے زیادہ اہل محلہ اور عزیز و اقارب کی چال ڈھال اور آواز کی نقل اتارنے میں دلچسپی رکھتا تھا۔ محلے میں جو بھی فق آتا عمر اس کی ہوبہو نقل اتارتا اور اہل محلہ سے داد پاتا، کم سنی سے ہی کوئی فنکار ان میں پنپ رہا تھا۔ والدہ نے اپنے تئیں جتن کرکے ہار مان لی تھی اور بڑے بھائی بھی مار پیٹ کا ہتھکنڈہ آزما کر ناکام ہوئے تو محمد عمر کو مرضی کی زندگی گزارنے کا لائیسنس مل گیا تھا۔محمد عمر نے زندگی کی 12ویں سیڑھی پر قدم رکھا تو اداکاری کا شوق انہیں سینما بینی کی جانب لے گیا۔ پیسے پس انداز کرکے ف دیکھنا معمول بن چکا تھا۔ غربت زدہ ماحول میں شوق کی آبیاری کے لیے خود بھی محنت مزدوری شروع کر دی تھی۔لیکن غور کیجئے  غربت کے ڈیروں میں بہن بھائ کی کثرت کے باوجود ننھے عمر شریف کی  تخلیقی صلاحیتون کو زیر نہیں  کر سکی  - 

ان دنوں آدم جی ہال کراچی میں سٹیج ڈرامے ہوا کرتے تھے۔ کسی دوست نے راہ دکھائی تو وہاں کی کینٹین میں ملازمت کرلی لیکن تھیٹر کا دروازہ ان پر نہ کھل سکا۔ لوگوں کی چائے اور کھانے  پینے سے تواضع کرتے بلکہ انہیں اپنی منفرد صلاحیتیوں اور مشاہدے کے جوہر بھی دکھاتے ۔یہاں تک کہ ایک روز قسمت کی دیوی ان پر آخر مہربان ہو ہی گئ ان دنوں آدم جی ہال میں صمد یار خان کی ڈائریکشن میں ڈرامہ جاری تھا۔ معروف اداکار اے کے پٹیل، ہندو جوتشی کا کردار نبھا رہے تھے انہیں بیوی کے انتقال کی اطلاع ملی تو وہ اچانک  ڈرامہ چھوڑ کر چلے گئے۔ کچھ دیر میں شو شروع ہونا تھا اسی پریشانی میں صمد یار خان کے اسسٹنٹ نے انہیں  کینٹین بوائے محمد عمر  کے لئے  بتایا کہ وہ یہ کردار کرسکتا ہے۔ مجبوراً محمد عمر کو کردار دیا گیا اور میک اپ کے دوران ہی انہیں ڈائیلاگز پڑھ کر سنائے گئے۔ کردار کی ڈرامے میں صرف 3 انٹریاں تھیں۔سنہرے مستبقل کی آس، اپنی صلاحتیوں پر اعتماد اور دھڑکتے دل کے ساتھ محمد عمر نے پہلی انٹری دی۔ ڈائیلاگز کے مطابق خود کو کردار میں ڈھالا اپنی طرف سے جنتر منتر بھی پڑھے، آخری موقع جان کر جان کی بازی لگادی اور یہی وجہ تھی کہ انٹری ختم ہونے پر شائقین نے ہال میں کھڑے ہوکر تالیاں بجائیں۔ڈرامے کا سپیل ختم ہوا تو ڈائریکٹر کی جانب سے معاوضے کی مد میں 5 ہزار روپے اور انعام کے طور پر موٹرسائیکل اور سال بھر کے لیے پیٹرول دیا گیا-

چھوٹے سے کردار نے 14 برس کے محمد عمر کا دل اور دماغ ہی نہیں بلکہ بھرپور زندگی کی طرف جانے والے سبھی رستے بھی کھول دیے تھے۔فرقان حیدر کراچی تھیٹر کا معروف اور کامیاب نام تھا۔ معین اختر جیسے نابغہ روزگار فنکار بھی ان کی ٹیم کا حصہ تھے۔ ایک روز محد عمر، ان کے گھر چلے گئے کہ انہیں بھی ٹیم میں شامل کیا جائے۔ فرقان حیدر نے کہا میں نے آپ کا کام دیکھا ہے، شاندار ہے لیکن میری ٹیم میں شامل ہونا چاہتے ہو تو کسی بڑے کو ساتھ لیکر آؤ۔محمد عمر نے والدہ کو راضی کیا اور وہ فرقان حیدر کے پاس آئیں کہ میرے ننھے (محمد عمر کا نک نیم) کو بھی اداکاری کا موقع دیں۔ کراچی تھیٹر کی تاریخ گواہ ہے کہ محمد عمر اور فرقان حیدر کی جوڑی نے سٹیج کی دنیا میں کیسے کیسے ناقابل تسخیر ریکارڈ قائم کیے۔محمد عمر کو پاکستانی اداکار ’شہنشاہ ظرافت‘ منورظریف بہت پسند تھے، انہیں غائبانہ استاد مانتے تھے، اسی مناسبت نام بدل کر عم ظریف کرلیا تھا۔ تاہم جب مصری اداکار عمرشریف کی فلم ’لارنس آف عربیہ‘ دیکھی تو نام کو ہمیشہ کے لیے عمرشریف کرلیا۔سٹیج ڈراموں میں پرواز کے ساتھ ساتھ آڈیو کیسٹ کے زمانے میں ’عمرشریف شو‘ کے نام سے 5 کیسٹز بھی جاری کیں جنہوں نے نہ صرف نیا معیار قائم کیا بلکہ عمرشریف کی شہرت کو پَر بھی لگا دیے تھے۔اور پھر تھڑے اور ڈھابے کی زبان لے کر  وہ بچہ ظرافت کے میدان میں کود پڑاجس کو زمانے نے اپنے شانوں پر بٹھا لیا -قدم قدم پر تہذیب  کا دوشالہ اوڑھے معاشرے میں ڈھابے کی زبان کو خوب پذیرائ ملی

معین اختر کی رفاقت کی بدولت محمد عمر کو پاکستان ٹیلی وژن میں ’ففٹی ففٹی‘ اور چند دیگر ڈراموں میں مختصر کردار دیے گئے لیکن وہاں جاری گروہ بندی اور محمد عمر کا خداداد ٹیلنٹ ہی ان کی راہ میں رکاوٹ بن گیا۔ اس حوالے سے انہوں نے کہا تھا کہ ’مجھے پی ٹی وی پر موقع نہیں دیا گیا، لوگ گھبراتے تھے، لیکن شاید اس وقت میرے نصیب میں ہی نہ تھا، کیوں کہ وقت سے پہلے اور مقدر سے زیادہ کسی کو کچھ نہیں ملتا۔‘عمرشریف نے روایتی تھیٹر کو بدل کر رکھ دیا تھا، ان کا کرشمہ یہ تھا کہ وہ ڈرامے کے موضوعات کو نہ صرف زمین پر لے آئے تھے بلکہ ان کے ڈائیلاگز اور زبان بھی زمین سے جڑے افراد کی تھی، بلکہ تھڑے اور ڈھابے کی زبان تھی۔عمر شریف کا خاصہ ان کی پرفیکٹ ٹائمنگ، برجستگی اور فی البدیہہ جملے بازی تھی۔ لالو کھیت، چھچھورا، ابے او، بڈھا اور لعنت جیسے الفاظ ان کے ڈراموں میں عام تھے۔ ان پر کڑی تنقید بھی کی گئی لیکن شائقین ڈرامہ انہیں پسند کرتے تھے90 کی دہائی میں کراچی سے لاہور منتقل ہوئے، شمع سنیما کو لاہور تھیٹر میں بدلا اور کئی یادگار ڈرامے پیش کیے۔ فلم ’مسٹر 420‘ کے لیے 2 نیشنل اور 4 نگار ایوارڈز بھی ملے جو ایک منفرد اعزاز ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے ماں سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ان کے پاؤں دبائے بغیر کبھی اپنے بستر پر نہیں جاتے تھے۔


 ایک بار سٹیج ڈرامہ کرنے سے پہلے والدہ کے انتقال کا پتا چلا لیکن کمٹمنٹ کے باعث ڈرامہ مکمل کرکے شائقین کو جنازے کا وقت بتایا گیا۔ ساتھی فنکاروں اور غربا کی کھلے دل سے مدد کرتے تھے۔ فلاحی تنظیم عمر شریف ٹرسٹ بھی قائم کی،پھر غریبوں کے مفت علاج کے لیے ’ماں‘ اسپتال بھی شہرت کی دیوی رام ہونے پر دنیا بھر میں شوز کیے، انہیں بھارت میں بھی کئی کامیڈی شوز میں بطور جج بلایا گیا۔ تمام بڑے بھارتی اسٹارز ان کے مداح ہیں۔پاکستان میں بھی مختلف نجی ٹی وی چینلز پر شوز کیے۔ کینسر اسپتال شوکت خانم کی فنڈ ریزنگ میں بھی عمر شریف کا اہم کردار تھا ، اس کے لیے انہوں نے عمران خان کے ہمراہ دنیا بھر میں بے تحاشا شوز کیے۔عمرشریف نے 3 شادیاں کیں، ان کی پہلی بیگم دیبا عمر ہیں، دوسری شکیلہ قریشی تھیں اور تیسری زرین غزل ہیں۔ پہلی بیگم سے ان کے 2 بیٹے جواد عمر شریف اور فواد عمر شریف ہیں جبکہ صاحبزادی حرا عمر شریف تھیں۔ 17 فروری 2020 کو ان کی بیٹی حرا عمر شریف گردوں کی پیوندکاری میں پیچیدگی کے باعث لاہور میں انتقال کر گئی تھیں۔ عمر شریف شوز کے لیے امریکا میں تھے تاہم بیٹی کے انتقال کی اطلاع ملنے پر وہ فوراً واپس لوٹ آئے تھےبنایا تھالاڈلی اور اکلوتی بیٹی حرا شریف کی جدائی کا غم ان کے لیے روگ بن گیا تھا، جب بھی بیٹی کا ذکر کرتے تو آبدیدہ ہو جاتے تھے۔ اسی کیفیت کا نتیجہ تھا کہ ستمبر 2021 میں ان کی طبیعت بگڑ گئی۔ پرستاروں کے دباؤ پر حکومت سندھ نے بیرون ملک علاج کے لیے 4 کروڑ روپے جاری کیے- لیکن موت کی ساعتیں مقرر تھین جو  ایک زندہ دل  انسان  کو ہم سے چھین کر لے گئیں ۔ 

ہفتہ، 30 مارچ، 2024

شہادت حضرت علی علیہ السلام


19حضرت  علی ابن ابی طالب  علیہ السلام  پر خارجی ابن ملجم نے 26 جنوری 661ء بمطابق 19 رمضان، 40ھ کو کوفہ کی مسجد میں زہر آلود تلوار کے ذریعہ نماز کے دوران میں قاتلانہ حملہ کیا۔یہ تلوار امیر شام کے محل میں پورے ایک مہینے اپنے وقت کے سب خطرناک زہر میں ڈبو کر رکھّی گئ تھی  - مولا کو شہادت سے بہت انسیت تھی اور شہادت کے طلبگار تھے۔ امام علی علیہ السلام کی نگاہ میں شہادت، شہد کی طرح شیرین و خوبصورت ہے۔یہ ایک ایسا احساس ہے جس میں ، اپنی تمام خواہشات ، مال و دولت،  اور اپنا ہر عمل خدا کیلئے انجام دیتا ہے۔ اس کے بعد وہ شہادت کی شیریں لذت کو محسوس کرتا ہے-امام علی علیہ السلام کی نگاہ میں شہادت شُکر اور خوشی کا مقام ہے۔امیر المومین علی علیہ السلام بہترین پیشوا ، عادل امام ، حق طلب خلیفہ ، یتیم نواز اور ہمدرد حاکم ، کامل ترین انسان ، خدا کا ولی ، رسول خدا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جانشین، کو روئے زمین پر سب سے شقی انسان عبد الرحمنٰ ابنِ ملجم نے شدّت سے مجروح کرڈالا اورآپ  علیہ السلام  زخمی ہونے کے بعد شہادت کے اعلیٰ درجہ پر فائز ہوکر ۔۔پیغمبروں اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ہمنشین ہوے اور امت کو اپنے وجودِ بابرکت سے محروم کر گئے۔


۔دنیا میں بادشاہوں اور حکمرانوں کو انکی نا انصافیوں اور ظلم و جبر کی وجہ سے قتل کیا جاتا ھے لیکن مولا علی علیہ السلام وہ ہستی ہیں کہ جنکو انکے شدت عدل کی وجہ سے شہید کیا گیا۔حضرت علی بن ابی طالب پر خارجی ابن ملجم نے 26 جنوری 661ء بمطابق 19 رمضان، 40ھ کو کوفہ کی مسجد میں زہر آلودر کے ذریعہ نماز کے دوران قاتلانہ حملہ کیا، اگلے دو دن تک آپ زندہ رہے لیکن زخم گہرا تھا، چنانچہ جانبر نہ ہو سکے اور 21 رمضان 40ھ کو وفات پائی، آپؓ نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ صلی علیہٖ وآلہٖ وسلم کے چچا زاد بھائی اور داماد تھے اور امت مسلمہ کے خلیفہ راشد چہارم تھے۔حضرت    علی علیہ السلام ہجرت سے 24 سال قبل مکہ میں پیدا ہوئے آپ کی پیدائش کی فضیلت  ہے کہ آپ بیت اللہ کے اندر پیدا ہوئے، حضرت علی ؓعلیہ السّلام  کی امتیازی صفات اور خدمات کی بنا پر رسول کریم ؐ ان کی بہت عزت کرتے تھے اورخصوصی التفات بھی برتتے تحھے اپنے قول و فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتے رہتے تھے۔ جتنے مناقب حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں احادیث نبوی ﷺمیں موجود ہیں کسی اور صحابی رسول کے بارے میں نہیں ملتے۔


 حضرت علیؓ  علیہ السلام کا حسبِ نسب:آ پ ؓکے والد حضرت ابو طالب اور والدہ جنابِ فاطمہ بنت ِ اسد دونوں قریش کے قبیلہ بنی ہاشم سے تعلق رکھتے تھے اور ان دونوں بزرگوں نے بعدِ وفات حضرت عبدالمطلب پیغمبر اسلام صلی علیہ وآلہ وسلم کی پرورش کی تھی۔حضرت علی پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں، بچپن میں پیغمبر کے گھر آئے اوروہیں پرورش پائی۔ پیغمبرکی زیرنگرانی آپ کی تربیت ہوئی، وہ ایک لمحہ کے لیئے بھی حضورؐ ان کو تنہا نہیں چھوڑتے تھے۔روزہ دار پر سجدے میں وار کیا:کون تھا یہ قاتل؟ ایک مسلمان کلمہ گو نماز پڑھنے والا، اللہ اکبر ہم ایسے مسلمانوں کو مسلمان کیسے کہہ سکتے ہیں جو دل میں بُغض رکھتے ہوں۔کیا شان ہے ہمارے خلیفہ علی علیہ السلام کی انھیں علم تھا آج انھیں قتل کردیا جائے گا اور قاتل کو جانتے تھے


حضرت  علی علیہ السلام کی تین فضیلتیں:وہ خدا اور رسول کے سب سے زیادہ محبوب ہیں یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں حضرت علیؓ علیہ السلام کو نفسِ رسول کا خطاب ملا، حضرت علیؓ علیہ السلام کا عملی اعزاز یہ تھا کہ مسجد میں سب کے دروازے بند ہوئے تو علی علیہ السلام کا دروازہ کھلا رکھا گیا۔جب مہاجرین و انصار میں بھائی چارہ کیا گیا تو حضرت علی   کو پیغمبر نے اپنا دنیا وآخرت میں بھائی قرار دیا۔آخر میں غ دیر خم کے میدان میں ہزاروں مسلمانوں کے مجمع میں حضرت علی کو اپنے ہاتھوں پر بلند کر کے یہ اعلان فرما دیا کہ جس کا میں مولا (مددگار، سرپرست) ہوں اس کا علی بھی مولا ہیں۔ حضرت   پر 19 رمضان 40 ہجری میں شام سے آئے ایک شقی القلب شخص عبد الرحمن بن ملجم نامی شخص نے قطامہ نامی خارجی عورت کی مدد سے مسجد کوفہ میں حالتِ سجدہ میں پشت سے سر پر زہر بجھی تلوار سے وار کرکے زخمی کردیا، زخمی ہونے پر آپ کے لبوں پر جو پہلی صدا آئی وہ تھی کہ ”ربِ کعبہ کی قسم آج علی کامیاب ہوگیا“


شب ضربت آپ علیہ السلام مسجدِ کوفہ میں تشریف لائے تو ابنِ مُلجم مسجد میں اُلٹا لیٹا ہوا سو رہا تھا اس نے اپنے نیچے زہر میں بُجھی  تلوار چھپا کر رکھّی   ہوئی تھی ۔۔مولا مسجد تشریف لائے اور ابن ملجم کوسوتا دیکھ کر اس سے کہا ”اے ابنِ مُلجم اُٹھ جا،نماز کا وقت نکلا جارہا ہے نماز ادا کر۔۔جب مولا علی نے آخری سجدہ ادا کیا وہ ملعون اٹھا اوریکایک تلوار سےایسا وار کیا کہ مولا سرِ مبارک پر ایک ہی وار میں اپنے ہی لہو میں تر بتر ہوگئے زہر میں بجھا ہوا خنجر اپنا اثر کر گیا روزہ میں روزدار کو ایسا زخم لگا کہ پھر اُٹھ نہ سکے مسجدکوفہ میں شور برپا ہوگیا قیامت کا منظر تھا۔ تمام چاہنے والے نالہ و فریاد کرنے لگے حسن و حسین علیہم السلام مسجد میں تشریف لائے اپنے بابا کی ریشِ مبارک خون سے تر دیکھی اور گِریہ کرنے لگے۔۔۔اصحاب حضرت علیؓ کو کاندھوں پہ ڈال کر گھر لے گئے گھر میں کہرام برپا ہوگیا زینب و کلثوم تڑپ گئیں باپ کی حالت دیکھ کر۔حکیم نے علاج شروع کیا مگر زہر اپنا کام کرچکا تھا۔تین دن تک آپ زخمی حالت میں اضطراب میں رہے اور اکیسویں روزے کو مالک یزداں کے حضور حاضر ہو گئے۔

خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را




 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر