بدھ، 10 جنوری، 2024

نور زہرا سلام اللہ علیہا ''آغوش خدیجہ سلام اللہ علیہا میں

 اللہ رب العزت نے اپنے محبوب،باعث تخلیق کائنات ،فخر موجودات کے اطمینان قلب کی خاطر آیت مبارکہ نازل فرما کر ایک عظیم الشان تحفہ عطا کرنے کا وعدہ فرمایا،نبئ کریم حضرت محمد مسطفٰے صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم اپنے محلے کے اس شخص کی طعنہ زنی سے بہت دلگیر ہوا کرتے جب جب آپ کے فرزند کا انتقال ہو گیا تھا -وہ شخص اپ کو بے اولاد ہونے کا طعنہ دیا کرتا تھا -چنانچہ اللہ کریم نے آپ کی دلجوئ ان الفاظ میں کی ’’وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰیْ‘‘ ،عنقریب آپ کا رب آپ کو وہ عطاکرے گا کہ آپ فوراًراضی ہو جائیں گے۔ذہن انسانی سوچ میں پڑگیا کہ قادر مطلق اپنے حبیب کو سب کچھ عطا کردینے بعد وہ کون سی انتہائی عظیم المرتبت شے دینے کا وعدہ فرما رہا ہے کہ جو اس نے ابھی تک اپنے پیارے رسول سے پوشیدہ رکھی ہے۔ بشریت حیرت و استعجاب کے سمندر میں غوطہ زن تھی کہ ایک دن قاصد ایزدی مژدۂ جانفزا لے کر آن پہنچا، ’’اِنَّااَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرْ‘‘،میرے حبیب،ہم نے آپ کو الکوثر عطا کر دی۔’’قُمِ اللَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلاَ ‘‘ کا حکم دینے والے معبود نے ہر وقت شکر ادا کرتے رہنے والے رسول اعظم کو اگلا فرمان جاری کیا، ’’فَصَلِّ لِرَبّکَ وَانْحَرْ‘‘میرے حبیب اس عطائے گرانقدر کا شکرانہ ا دا کیجئے۔وہ عظیم المرتبت تحفہ جوخداکا ا پنے محبوب ر سول سے محبت کی انتہا ہے ،تمام جلیل القدر مفسرین کرام کے مطابق،

’’اَلْفَاطِمَہْ ھِیَ الْکَوْثَرْ الْمُعْطِیْ لِرَسُوْلَ اللّٰہ‘‘

ملکۂ ملک سخاوت،مطلع چرخ کرامت،سرچشمۂ صبر ورضا،ام شہیدان وفا،بنت رسول اکرم، نشانی ء خدیجہ معظمہ ،سیدہ ،طیبہ،طاہرہ، مخدومۂ کونین حضرت فاطمہ الزہراء کی ذات عالیہ ہے جو ’’ھَدْیَۃُالْمَنّانْ وَالْکَوْثَرْ اَلْقَیّمْ فِیْ الْقُرْآن ‘‘ ہے جو اللہ کی طرف سے رسول اللہ کے لئے ہدیہ ہے ،جوخدا کا رسول کے لئے تحفہ ہے ۔کُل کائنات دے کر اللہ رب العزت نے جس عظیم ہستی کے لئے لفظ عطا استعمال فرمایا ہے وہ سیدۃالنساء العٰلمین کی ذات والا صفات ہے۔اللہ رب العزت نے جب اس لفظ کوثر کو مجسم فرمایا تو صورت فاطمہ   میں سامنے آیا اور جب فضائل و خصائل زہراء کو سمیٹا تو الکوثرکا نام دیطیبہ،طاہرہ،عابدہ،زاہدہ،بنت خیرالوریٰ،سیدہ فاطمہ   سیدہ،صالحہ،راکعہ،ساجدہ،نور شمس الضحیٰ،سیدہفاطمہ راضیہ،مرضیہ،صائمہ،عاصمہ،نیرہ،انورہ،ناظمہ،ناصرہ زاکیہ،ازکیہ،اکرمہ،اعظمہ،عکس ظلخدا،سیدہ فاطمہ کاملہ،اکملہ،صادقہ،اصدقہ،عالمہ،فاضلہ،راحمہ،راشدہشاہدہ،شافعہ،قاسمہ،آمنہ،عذرا،خیرالنساء،سیدہفاطمہ ہادیہ،مہدیہ،جیدہ،ناصحہ،مکیہ،مدنیہ،قرشیہ،سرورہ مشفقہ،محسنہ،ذاکرہ،زاہرا،حافظہ،حامدہ،سیدہ فاطمہ قائمہ،دائمہ،ماحیہ،ماجدہ،خازنہ،حاکمہ،صابرہ،شاکرہ حاذقہ،قائدہ،احسنہ،افضلہ،وارثہ،پارسا،سیدہ فاطمہ واعظہ،واصفہ،شافیہ،کافیہ،رہبرہ،فائقہ،واقفہ،عارفہ عالیہ،اشرفہ،قاطعہ،ساطعہ،عاقلہ،اطہرہ،سیدہ فاطمہ امجدہ،اجملہ،مخلصہ،تارکہ،ثابتہ،ثاقبہ،خاشعہ،خالدہ ان کے القاب صائم ہوں کیسے بیاں،خرد سے ماوریٰ سیدہ فاطمہ اِنَّااَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرْ:

ہر تحفۂ ایزدی ، اللہ رب العزت نے اپنے رسول کے لئے خودروانہ فرمایامگر اس عظیم الشان تحفہ کو عطا کرنے کے لئے پیارے مصطفٰی کو عرش علیٰ کی دعوت دی۔شب معراج، مہمان ربانی فردوس بریں کی سیر کو تشریف لے گئے اور قصر ام المومنین خدیجہ الکبریٰ میں داخل ہوئے ۔قصر خدیجہ کا معائنہ فرماتے ایک نورانی درخت پر لگے سیب پر آپ کی نظر مبارک ٹھہری جسے دست قدرت نے آمد مصطفٰی سے تین لاکھ سال پہلے خلق کیا تھا۔حکم الٰہی پر آپ نے وہ نورانی سیب تناول فرمایا اور حجاب قدرت سے نور عصمت ،صلب رسالت میں منتقل ہوا۔واپس تشریف لائے تو اس تحفۂ خداوندی کو محبوب زوجہ خدیجہ الکبریٰ کی آغوش محبت کی زینت بنایااورعطائے الٰہی اور خدیجہ طاہرہ نے مل کر رحل رسالت پر قرآن فاطمہ نازل کر دیا۔

  مہک فردوس کی مکہ کی گلیوں میں چلی آئی کہ آغوش خدیجہ میں تھی جب بنتِ نبی آئی

سیدہ طاہرہ 20جمادی الثانی،5نبوی ،17مارچ 614ء ،بروزجمعہ المبارک ،قصر خدیجہ میں جلوہ فرما ہوئیں۔ نور زہراء کا ظہور ہوا تو زمیںسے لے کر آسمان تک ذرہ برابر جگہ بھی ایسی نہ رہی جہاں اس نور مبارکہ کی تجلی نے روشنی نہ پھیلائی ہو۔آپ خیر کثیر کا مصدر ہیںاور جہاں جہاں خیر کثیر کا ذکر ہوا ہے وہ اللہ رب العزت نے در زہرا سے صادر فرمایا ہے۔آپ کا اسم گرامی ذات قدرت نے ’’فاطمہ‘‘رکھا۔آپ اہل سماء میں’’منصورہ ‘‘کے نام سے جانی جاتی ہیںکیوں کہ اللہ رب العزت نے آپ کو نصر اللہ قرار دیا ہے۔

نور زہرا :

چھٹے خلیفۂ راشد، صادق آل محمدفرماتے ہیں کہ ،’’خداوند عالم نے حضرت فاطمہ الزہراکو اپنے نور کی عظمت سے خلق فرمایا،جب آپ کے نور کی ضیاء ارض وسماء میں پھیلی تو ملائکہ کی آنکھیں خیرہ ہونے لگاور وہ خدا کے حضور سربسجودہوکر کہنے لگے،’’اے پروردگار!یہ کیسا نور ہے‘‘۔ارشاد ربانی ہوا،’’یہ نور میرے ہی نور کی عظمت سے پیدا ہوا ہے ،اسے میں نے آسمان پر رکھا اور اپنے انبیاء میں سب سے باعظمت نبی کے صلب میں ودیعت فرما کر ظاہر کروں گاپھر اس سے ایسے انوار پیدا کروں گا جو اہل زمین پر میری تمام تر مخلوقات میںافضل ہوں گے اور میرے دین حق کی طرف لوگوں کی ہدایت کریں گے اور سلسلۂ وحی کے ختم ہو جانے کے بعد بھی وہی انوار ائمہ میرے خلیفہ اور میرے دین کے محافظ ہوں گے‘‘۔ایک مقام پر آپ نے فرمایا،’’جب آپ عبادت محراب میں قیام فرما ہوتیں تو آپ کا نور اہل سماء کو روشنی عطا کرتا تھا‘‘،بے انتہا نور کے باعث آپ کو زہرا کا لقب عطا فرمایا گیا۔یہی انوارات مقدسہ آپ کی جبین اقدس سے ظاہر ہوتے رہے یہاں تک کہ جب سیدنا امام عالی مقام امام حسین کی آمد ہوئی تو یہ نور آپ کی پیشانی میں جلوہ فرما ہوااورریگزار کربلا پر آپ کی شہادت عظمیٰ کے بعدسیدنا امام علی زین العابدین سے ہوتا سیدنا ولی العصر مہدیء دوراں کی جبین اقدس میں روشن ہے۔اس باعث مخدومۂ کونین معدن نبوت کے ساتھ معدن امامت بھی ہیں ا  اور قیامت تک دنیا کے گوشے گوشے میں آپ کی ال بشکل سادات موجود ہے اور تا قیامت رہے گی اطہار ،آپ کا فیضان ہیں

جمعہ، 5 جنوری، 2024

ٹوٹی چھت کے طیارے کا خوفناک سفر

 آلوہا۔۔۔‘ یہ لفظ ہوائی زبان میں لوگوں کو سلام کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ لفظ لوگوں کو ’خوش آمدید کہنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے مگر 1988 میں الوہا ایئر لائنز کی پرواز 243 کے مسافروں اور عملے نے ایک ایسا خوفناک تجربہ کیا جس نے نہ صرف ان کی زندگی پر گہرے اثرات چھوڑے بلکہ فضائی سفر کے حفاظتی معیار، جہازوں کی دیکھ بھال کے معیار کو بھی ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا۔28 اپریل 1988 کی ایک سہ پہر الوہا ائیرلائنز کا ایک مسافر بردار طیارہ 96 مسافروں اور فضائی عملے کے ساتھ ہوائی کے دو جزیروں کے درمیان ایک مختصر پرواز پر 24 ہزار فٹ کی بلندی پر تھا کہ اچانک سفر کے دوران جہاز کے ایک حصے کی چھت ٹوٹ کر الگ ہو گئی اور اسی دوران اس وقت جہاز میں ڈرنکس پیش کرتی فضائی میزبان مسافروں کی آنکھوں کے سامنے ہوا میں اڑ کر جہاز سے نیچے گر گئی۔جب طیارے کی چھت فضا میں اڑ گئ-

اس واقعے نے ہوائی جہاز کی تیاری، جانچ اور آپریشن کی دنیا میں بہت سی تبدیلیاں کیں اور ہوائی سفر کو پہلے سے کہیں زیادہ محفوظ بنا دیا۔28 اپریل 1988 کو الوہا ایئر لائنز کے بوئنگ 737 نے ہوائی کے ایئرپورٹ سے ہونولولو بین الاقوامی ہوائی اڈے کے لیے دوپہر 1:25 اڑان بھری تھی۔ کسی بھی قسم کی ہنگامی صورتحال میں جہاز کو ماؤی ایئرپورٹ پر اترنا تھا، جو اس کا ’متبادل ایئرپورٹ‘ تھا۔دونوں جزیروں کے درمیان یہ تقریباً 35 منٹ کی پرواز تھی جس میں زیادہ تر وقت ٹیک آف اور لینڈنگ میں گزرتا تھا۔ بہت کم وقت کے لیے طیارے کو اپنی مثالی بلندی پر پرواز کرنا تھا اس دن موسم معمول کے مطابق اور خوشگوار تھا۔ کچھ سیاحوں کے لیے یہ ایک نیا اور خوبصورت نظارہ تھا جبکہ ہوائی جزائر میں کاروبار کی غرض سے سفر کرنے والے مسافروں کے لیے یہ معمول کی پرواز تھی۔طیارے کے چیف پائلٹ کیپٹن رابرٹ شورنسٹیمر کی عمر 44 سال تھی، وہ 11 سال سے کمپنی کے ساتھ تھے اور انھیں کل آٹھ ہزار گھنٹے پرواز کا تجربہ حاصل تھا، جس میں سے چھ ہزار سات سو گھنٹے انھوں نے بوئنگ 737 کو اڑاتے گزارے تھے۔کاک پٹ میں فرسٹ آفسر میڈلین ٹاپکنز تھیں۔ 37 سالہ ساتھی پائلٹ کو اپنے قریبی حلقے میں ’میمی‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ انھیں بھی کل آٹھ ہزار گھنٹے پرواز کا تجربہ تھا جس میں سے تین ہزار پانچ سو گھنٹے بوئنگ 737 طیارے اڑاتے گزرے تھے۔وہ دن معمول کے مطابق اور موسم صاف تھا، اس لیے فرسٹ آفیسر میمی نے ہوائی جہاز کے ٹیک آف اور ہینڈلنگ کی ذمہ داری سنبھالی جبکہ کیپٹن رابرٹ نے ایئر ٹریفک کنٹرولر سے رابطے اور دیگر معمول کے کام سنبھالے۔پرواز کا وقت بہت کم ہونے کی وجہ سے جیسے ہی طیارہ اپنی مثالی بلندی پر پہنچا فضائی میزبان کلارایبل لانسنگ نے مسافروں کو مشروبات پیش کرنا شروع کر دیے۔حادثے کے بارے میں یو ایس این ٹی ایس بی (نیشنل ٹرانسپورٹ سیفٹی بورڈ) کی رپورٹ جون 1989 میں منظر عام پر لائی گئی تھی، جس میں اس کی تفصیل دی گئی تھی کہ مذکورہ پرواز کے دوران کیا ہوا تھا۔فضائی میزبان فضا میں اڑنے لگے ایرو سپیس انجینئر ولیم فلانیگن اور ان کی اہلیہ جوئے اپنی شادی کی 21ویں سالگرہ منانے کے لیے ہوائی جا رہے تھے۔ جوئے کھڑکی کے پاس دوسری قطار میں بیٹھی تھیں۔58 سالہ فضائی میزبان کلارایبل لانسنگ 37 سال سے ایئر لائن کے ساتھ تھیں۔ وہ اپنے قریبی حلقے میں ’سی بی‘ کے نام سے جانی جاتیں تھیں۔کلارا اگلی قطار میں مسافروں کو مشروبات پیش کر رہی تھی جبکہ جہاز کی پچھلی طرف دو دیگر ائیر ہوسٹس ڈیوٹی پر تھیں۔ انھوں نے جوئے کو بتایا کہ جہاز جلد ہی لینڈ کرے گا اور وہ آخری بار مشروبات پیش کر رہی ہیں۔اس دوران جہاز کا اوپری حصہ اچانک دھماکے سے اڑ گیا اور کلارا دیکھتے ہی دیکھتے جہاز سے باہر گر گئیں۔اس وقت جہاز میں بیٹھے مسافروں کو یقینی موت نظر آنے لگی کیونکہ اوپر کھلا آسمان تھا اور نیچے سمندر، یہ منظر دیکھ کر مسافروں کے اوسان خطا ہو گئے۔ وہ سمجھ نہیں سکے کہ طیارہ ٹوٹ گیا یا کچھ اور ہوا ہے۔

اب آکسیجن ماسک لٹک رہے تھے لیکن آکسیجن کی سپلائی نہیں تھی۔ اس بلندی پر مسافروں کو شدید سردی لگ رہی تھی اور بغیر آکسیجن کے وہ موت کے قریب جا رہے تھے۔وہ کاک پٹ میں پائلٹ کی پوزیشن نہیں دیکھ سکے اور طیارہ آہستہ آہستہ نیچے اتر رہا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ پائلٹ کو کچھ ہو گیا ہے یا وہ حالات پر قابو کھو بیٹھے ہیں اور طیارہ سمندر میں گرنے والا ہے۔اچانک طیارہ فضا میں اس بلندی پر آ کر مستحکم ہو گیا جہاں مسافروں کے لیے سانس لینا ممکن تھا۔ چنانچہ کیپٹن اور فرسٹ آفیسر نے کاک پٹ میں ایک دوسرے سے اشاروں میں بات کی اور کیپٹن رابرٹ نے ہوائی جہاز کا کنٹرول سنبھالا جبکہ میمی نے مواصلات اور دیگر امور انجام دیے۔ خوش قسمتی سے ان کے ماسک میں آکسیجن کی سپلائی جاری تھی۔طیارے کے پائلٹ کی جانب سے ہونولولو ہوائی اڈے پر ایک سگنل بھیجا گیا کہ طیارہ ہنگامی صورتحال میں ہے لیکن پیغام ان تک نہیں پہنچا۔ دونوں نے ماؤی ایئرپورٹ پر اترنے کا فیصلہ کیا انھوں نے وہاں کے ایئر ٹریفک کنٹرولر سے رابطہ کیا اور اترنے کی اجازت طلب کی۔اونچائی اور رفتار میں کمی کے ساتھ اب رابرٹ اور میمی ایک دوسرے کے ساتھ بہتر بات چیت اور رابطہ کرنے کے قابل تھے۔

افراتفری، ہنگامے اور بے ترتیب مواصلات کے درمیان اے ٹی سی کو بمشکل پیغام پہنچا۔ طیارے کو مجبوراً رن وے نمبر دو پر لینڈ کرنا پڑا۔ فائر فائٹرز کو فوری طور پر ممکنہ تباہی سے آگاہ کر دیا گیا۔ جب مسافروں اور عملے کے ارکان سے انٹرکام یا پبلک اناؤنسمنٹ سسٹم کے ذریعے رابطہ نہ ہوسکا تو کو پائلٹ نے ایک بار پھر اے ٹی سی سے رابطہ کیا اور انھیں ’جتنا ممکن ہو مدد کرنے‘ کی ہدایت کی۔چونکہ ہوائی اڈے پر کوئی ایمبولینس یا طبی خدمات دستیاب نہیں تھیں، اے ٹی سی نے صورتحال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے کمیونٹی سروسز کو فوری طور پر پہنچنے کی اطلاع دی۔تیز ہواؤں کے ساتھ اور تین ہزار میٹر کے دو پہاڑوں کے درمیان طیارے کو رن وے پر اتارنے کا چیلنج تھا۔ کسی بھی غلطی پر سنگین نتائج کے لیے نیچے ایک سمندر تھا۔


ساتھی پائلٹ میمی نے پائلٹ رابرٹ کو تیز م

بدھ، 3 جنوری، 2024

قیمتی عمارات اور ہماری بےحسی کے ثبوت

 

ایک جانب تو یہ حال ہے کہ حکومت سندھ کی عدم توجہ کے باعث شہر کے ہسپتال زبوں حالی کاشکار ہو چکے ہیں ،، تفصیلات کے مطابق صوبہ سندھ کے دیگر اضلاع کی طرح حیدرآباد کے ہسپتالوں کی حالت خستہ ہوچکی ہے، مریضوں کے ساتھ آنے والے ورثاءکے بیٹھنے کا کوئی خاص بندوبست نہیں ہے اور نہ ہی پینے کے لیے پانی کی سہولت میسر ہے، جبکہ عمارتوں کی دیواروں میں دراڑیں اور دروازے و کھڑکیاں ٹوٹ پھوٹ چکی ہیں،صفائی کے ناقص انتظامات نے بھی مریضوں اور اٹینڈنٹس کو پریشانی میں مبتلا کیا ہوا ہے، دوسری جانب حکومت سندھ کے  بنائے ہوئے لاڑ کانہ میڈیکل کمپلکس میں   بے حساب آوارہ کتے ادھر سے ادھر تک بلا کسی تردد کے دوڑتے پھر رہے ہیں -کیا عوام کے  پیسے سے بنائے ہوئے  کسی میڈیکل کمپلکس کے استعمال  کا یہی درست طریقہ ہےدوسری جانب  جامشورو ہسپتال کے  اندر کے مناظر بخوبی  دیکھے جا سکتے ہیں  -مریضوں کے بستروں کے سرہانے دیوار پر بڑی بڑی تصویریں  بے نظیر بھٹو - آصف زرداری بھٹو اور-بلاول بھٹو کی لگی ہوئ ہیں  اور زیر نظر تصویر میں  لاتعداد کتے مریضوں کے بستروں پر آرام کرتے ہوئے  دکھائ دے رہے ہیں اب آئے کچھ احوال اسلام آباد کی بے نوا بلڈنگوں کے بارے میں -یہ بلڈنگیں بھی عوا م الناس کے ٹیکسز کے پیسے سے بنائ گئ ہیں -یہاں کتے تو نہیں دوڑ رہے ہیں لیکن یہاں کی ویرانیا ں اپنے وارثین کی ناقدری پر گریہ گناں ہیں 

آباد سی ڈی اے نے  لاشاری صاحب کے    چیئرمین شپ ہوتے ہوئے سی ڈی اے میں ایک بلڈنگ بنائی جوکہF-9 جہاں کئی آڈیٹوریم، کئی نمائشی آرٹ کیلئےکاریڈور، لفٹس، مکمل ایکوئسٹ سسٹم اور ائرکنڈیشنڈ دفتری ایریا اور بہت سی ورکشاپس کیلئے مناسب جگہیں تھیں۔ مگر بعد میں یہ بلڈنگ پہلے تو پرانے ایک چیف جسٹس نثار صاحب کی نظر میں ایک کلب کے نام سے کہلائے جانے پر، قابل تعزیر سمجھی اور سیل کردی گئی۔ پھر دو سال تک سارے جہان میں کووڈ رہاتو ہیلتھ والوں نے اس پر قبضہ کیا۔ انسانوں اور سرکار دونوں کو ٹیکے لگاتے رہے۔ پھر شکر کہ کووڈ ختم ہوا۔ اس کے بعد یہ خوبصورت بلڈنگ گندھارا بلڈنگ کے نام سے دوبارہ زندہ کی گئی اور جگمگائی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی نویں ادبی کانفرنس کے ذریعے وہ بلڈنگ جو بہت مضبوط لکڑی کی شہ نشینوں اور پختہ ماربل کے فرش کے ساتھ اپنی پائیداری کا ہر قدم پر نشان دکھا رہی تھی اس کو بہت دقت اور دن رات کی کاوش کے بعد، قابل استعمال ایسا بنایا کہ او یو پی کے پاس ہی بس فنڈز کی کمی تھی کہ انہوں نے اخباروں میں اشتہار نہیں دیئے، بس فیس بک اور واٹس ایپ سے کام چلایا مگر اس ادبی حس سے نابلد، حکام اور عوام میں ایسی روح پھونکی کہ 3نومبر سے 5نومبر تک ادبی کانفرنس میں دنیا بھر کے ادیبوں کے علاوہ وہ تمام نوجوان، جن کو ہم سب نالائق، علم سے دور اور کتابوں سے ناآشنا کہہ کر رد کردیتے تھے، ان نوجوانوں نے اتنی کشادہ بلڈنگ کو ایسے بھرا کہ سب ان نوجوانوں کے ہجوم میں کہیں کہیں ہم جیسے بزرگ بھی خوشی سے یوں دیکھ رہے تھے اور مجھے وصی شاہ یاد آرہا تھا کہ اسے نوجوانوں کا وزیر بنایا گیا ہے، وہ آکر اس بے کراں ہجوم اور ہر سیشن میں انکی موجودگی سے فائدہ اٹھاتا۔ البتہ سولنگی صاحب میں وہی پرانی ادب کی پیاس نے سر اٹھایا۔ وہ دو دن تک وہ سنتے رہے جو وہ کبھی خود لکھتے تھے اور میڈیا کو صرف خبروں تک ادبی کانفرنس کی خبر تھی۔باقی روزانہ کا سبق، الیکشن، الیکشن وغیرہ وغیرہ۔

اسی طرح ایک اور بلڈنگ جوکہ لاشاری کے زمانے میں انڈین دلی ہاٹ کی طرز پر بنائی گئی۔ بلڈنگ تو چند ماہ میں بغیر بنیادی منصوبہ بندی کے تعمیر ہوگئی۔ بنیادی منصوبہ یہ تھا کہ وہاں پر دستکار خواتین کو رہنے اورا سٹال لگانے کیلئے، کبھی پندرہ دن کبھی ایک ماہ کیلئے اسٹالز دیئے اور رہنےکیلئے کمرہ دیا جائے گا۔ چاہے وہ اکیلی آئیں۔ دوسری کارکنوں اور مردوں کے ساتھ آکر، اس فیملی پلس پر کام فروخت کریں۔ پویلین میں اکیلے مردوں اور نوجوانوں کو داخلے کی اجازت نہیں ہوگی اور باقاعدہ ٹکٹ لے کر لوگ اندر جائیں گے۔ ہر طرح کے ہنر کے اسٹالز صبح 11بجے سے رات 11بجے تک کھلے ہوں گے۔ اسی طرح ہر صوبے کے کھانے کے اسٹالز بھی ہوں گے، میں اس لئے تفصیل سے لکھ رہی ہوں کہ میں چونکہ فیلڈ میں کام کررہی تھی، یہ منصوبہ میں نے بنایا تھا بالکل دلی ہاٹ کی طرز پر۔ پھر وہی ہوا، جو ہمارے ملک میں ہر منصوبے کے ساتھ ہوتا ہے۔ ہوا یہ کہ ایک طرف لاشاری گئے، دوسری طرف چندبیگمات  کارکن عورتوں کو پس پشت ڈال کر سامنے آگئیں۔ جب کارکن عورتوں کو لانے کا مسئلہ پیش ہوا، تو وہ گاڑیوں والی خواتین واپس گھروں میں چلی گئیں۔ آج تک کسی نے اس منصوبے کو مکمل کرنے کی جرأت ہی نہیں کی۔لوک ورثہ کے ساتھ ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کھولا گیا، جس کا انچارج مرحوم رؤف خالد کو بنایا گیا۔ شومئی قسمت وہ حادثے میں ماراےگئے۔ اس کے بعد دفتر میں ان کی بیگم نے اپنا دفتر بنا لیا۔ انسٹیٹیوٹ خالی رہا،ابتک خالی ہے۔

اسی سے ملحق ایک بہت وسیع کمپلیکس بن رہا تھا۔ وہ بے نظیر کے زمانے تک چینی اشتراک سے بنتا رہا۔ یہ بہت بڑا پروجیکٹ ہے۔ اس میں کئی میوزک ہال، کئی سینما اور میوزیم شامل ہوتے، اگر مکمل ہوجاتا۔ عمران حکومت نے تو سی پیک بند رکھا تو یہ کمپلیکس کیسے مکمل ہوتا۔اب آیئے ایک اور گلے میں پڑا ڈھول بجائیں۔ پاک چائنہ فرینڈشپ سینٹر ایک بہت وقیع عمارت ہے۔ مگر بنانے والوں نے اسٹیج اتنا اونچا بنایا ہے کہ سامنے بیٹھنے والے نظر ہی نہیں آتے۔ اور بہت سی خامیاں اور اچھائیاں ہیں کہ اسے صرف انعام الحق نے بچوں کے ادب کے میلوں کیلئے، جب تک نیشنل بک فاؤنڈیشن کے سربراہ رہے، استعمال کیا۔ اس کے بعد رات گئی ،بات گئی ۔ بین الاقوامی کانفرنسوںکیلئے، یہ استعمال نہیں کیا جاتا، بے چارہ کھڑا دیکھتا رہتا ہے۔لیاقت باغ میں جو پی این سی اے کا آڈیٹوریم تھا، اس کو چلہ کاٹنے والے نے ہتھیا کے آرٹس کالج، ملحقہ بلڈنگ کو بنا دیا اور وہ آڈیٹوریم کتنے ہی سال سے اپنے شائقین کا منتظر ہے۔
محکمہ ثقافت کا ایک باقاعدہ دفتر بلکہ پوری بلڈنگ جس میں فلمیں بنانے اور فلموں کی ایکسپورٹ اور امپورٹ کا کام ہوتا تھا۔ آغا ناصر اس کے سربراہ تھے۔ وہ کیا رخصت ہوئے۔ پوری بلڈنگ، بلیو ایریا میں کھڑی انتظار کررہی ہے کوئی دن جاتا ہے، خود بخود گر پڑے گی۔پی این سی اے کا اسٹیج بھی منتظر رہتا ہے کہ کسی ملک کا وفد آئے، کوئی ڈرامہ آئے --کراچی میں محکمہ ثقافت ، سیاحت، آرکیالوجی اور آثار قدیمہ کراچی کے ثقافتی ورثے کو محفوظ کرنے میں ناکام ہوگیا،بلڈر مافیا کی جانب سے شہر کے تاریخی عمارتوں کو مسمار اور تبدیل کرنے کا سلسلہ جاری ہے، سیل کی گئی عمارت کھل گئی ہے۔  موصول دستاویزات کے مطابق کراچی کے کاروباری مرکز صدر کے علاقے میں زیب النساء اسٹریٹ کے پلاٹ نمبر SB-4/21 پر تاریخی عمارت میں غیرقانونی تعمیرات کردی گئی،تعمیرات پر محکمہ ثقافت نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) ، ڈپٹی کمشنر جنوبی اور دیگر کو نوٹس جاری کئے، ثقافتی ورثہ قرار دی گئی عمارت میں غیر قانونی تعمیرات پرجاری کئے گئے نوٹس کو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ، ڈپٹی کمشنر جنوبی اور عمارت کے مالک نے رد ی کی ٹوکری میں پھینک دیے، لیکن محکمہ ثقافت کے افسران نے خاموشی اختیار کرلی، عمارت کو محکمہ ثقافت ، سیاحت و آثار قدیمہ کی جانب سے سیل کیا گیا،کچھ ماہ بعد سیل کی گئی عمارت پر غیرقانونی تعمیرات مکمل کردی گئی اور سیل توڑدی گئی ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ، محکمہ ثقافت، سیاحت اور آثار قدیمہ کے افسران کی جانب سے مبینہ طور پر لاکھوں روپے رشوت لینے کے بعدسیل توڑ دی گئی، کوئی کارروائی بھی نہیں کی گئی ہے۔ دوسری جانب عمارت میں قائم ہوٹل کے مالک ایاز کا کہنا ہے کہ سرکاری افسران نے عمارت کا دورہ کیا اور عمارت کو کلیئر کیا ہے ۔ دوسری جانب کراچی کے علاقے لائٹ ہائوس کے قریب ڈاکٹر ضیاء الدین روڈ پر واقع عمارت ایس آر 8/47 بھی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے، لیکن عمارت کے مالک نے غیرقانونی تعمیرات کرکے محکمہ ثقافت ، سیاحت اور آثار قدیمہ کے قوانین کی دھجیاں اڑادیں مگر کوئ پوچھنے والا نہیں ہے ۔

ہفتہ، 30 دسمبر، 2023

انڈین جوہری سائنسدان -ابو بکر زین العابدین عبد الکلام

 



زندگی کا حقیقی شعور ہی انسان کو فرش سے اٹھا کر عرش پر بٹھاتا ہے۔ عظمت اور ترقی کا سفر کتنے  کٹھن مرا حل    سے ہوکر اپنی منزل مراد حاصل کرتا ہے۔  جب  ہم  مشاہیر عالم کی   سوانح  عمریاں  پڑھتے ہیں تب ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ انہیں نے  اپنا بچپن اپنی  شوخ جوانی کس طرح اپنی تحقیق کے  ایندھن میں جھونک کر یہ بلند مقام پایا -آ ج کے  دور کی ایک ایسی ہی شخصیت کے  بچپن سے لے  کر ساعت مرگ تک کےبارے میں   کچھ احوال -ابتدائی زندگی ڈاکٹر عبدالکلام کا تعلق تامل ناڈو کے ایک متوسط شیعہ مسلمان خاندان سے تھا۔ ان کے والد ماہی گیروں کو اپنی کشتی کرائے پر دیا کرتے تھے۔ اگرچہ وہ ان پڑھ تھے، لیکن عبدالکلام کی زندگی پر ان کے والد کے گہرے اثرات ہیں۔ ان کے دیے ہوئے عملی زندگی کے سبق عبدالکلام کے بہت کام آئے۔
سیاسی زندگی15 اکتوبر 1931ء کو پیدا ہونے والے ڈاکٹر عبد الکلام نے 1974ء میں بھارت کا پہلا ایٹم بم تجربہ کیا تھا جس کے باعث انہیں ’میزائل مین‘ بھی کہا جاتا ہے۔بھارت کے گیارہویں صدر کے انتخاب میں انھوں نے 89 فیصد ووٹ لے کر اپنی واحد حریف لکشمی سہگل کو شکست دی ہے۔ عبد الکلام کے بھارتی صدر منتخب ہونے کے بارے میں کسی کو کوئی شبہ نہیں تھا، ووٹنگ محض ایک رسمی کارروائی تھی۔جی ہاں یہ اپنے ماضی کا وہ معصوم بچّہ تھا جو چھوٹی سی عمر میں اسکول جانے سے قبل ناشتہ کیئے بغیر لوگوں کے گھروں میں اخبار پہنچایا کرتا تھا -جس کو غربت کے سبب بہت معمولی مقدار میں خوراک میسّر ہوتی تھی -لیکن ان کی جہد مسلسل نے ان کو ہندوتان ہی نہیں دنیا کے آسمان کے اوج ثرّیا پر پہنچا دیا وہ اپنے پیچھے سبق چھوڑ گئے کہ زندگی میں اگر ہمیشہ رہنے والی عزت اور مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں تو پھر ایسے راستوں کا انتخاب کیا جائے جن پر چل کر انسانیت کی تعمیر اور ترقی کا جذبہ اور شعور پیدا ہو۔
 اس دنیا اور خاص کر ہمارے ملک کو آج بھی بہترین ڈاکٹرز، انجینئرز، سائنسدانوں اور دنیا کو بدلنے والے لیڈرز کی اشد ضرورت ہے۔ اس لیے عارضی مشہوری کے چکر میں پڑنے کے بجائے پائیدار اور تعمیری پیشے کو منتخب کرکے اپنی اور دوسروں کی زندگی میں بہتری لانے کی کوشش کیجئے اور فارغ وقت کو غیر پیداواری سرگرمیوں میں ضائع کرنے کے بجائے تخلیقی کاموں میں صرف کیجئے۔

 یاد رکھیے! مخلوق خدا کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے والے ہی اصلی ہیروز کہلاتے ہیں-انہوں نے مدراس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے خلائی سائنس میں گریجویشن کی۔ اور اس کے بعد اس کرافٹ منصوبے پر کام کرنے والے دفاعی تحقیقاتی ادارے کو جوائن کیا جہاں ہندوستان کے پہلے سیٹلائٹ طیارے پر کام ہو رہا تھا۔ اس سیارچہ کی لانچنگ میں ڈاکٹر عبدالکلام کی خدمات سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہیں۔ اس کے علاوہ پروجیکٹ ڈائریکٹر کے طور پر انہوں نے پہلے سیٹلائٹ جہاز ایسیلوا کی لانچنگ میں بھی اہم کردار ادا کیاسیاسی زندگی 15 اکتوبر 1931ء کو پیدا ہونے والے ڈاکٹر عبدالکلام نے 1974ء میں بھارت کا پہلا ایٹم بم تجربہ کیا تھا جس کے باعث انہیں ’میزائل مین‘ بھی کہا جا تا ہے۔ بھارت کے گیارہویں صدر کے انتخاب میں انھوں نے 89 فیصد ووٹ لے کر اپنی واحد حریف لکشمی سہگل کو شکست دی ہے۔ عبدالکلام کے بھارتی صدر منتخب ہونے کے بارے میں کسی کو کوئی شبہ نہیں تھا ، ووٹنگ محض ایک رسمی کارروائی تھی۔ عبدالکلام بھارت کے تیسرے مسلمان صدرتھے۔

انھیں ملک کے مرکزی اور ریاستی انتخابی حلقوں کے تقریباً پانچ ہزار اراکین نے منتخب کیا۔ وفات عبدالکلام 83 برس کی عمر میں،27 جولائی 2015ء بروز پیر شیلانگ میں ایک تقریب کے دوران سابق بھارتی صدر کو اچانک دل کا دورہ پڑا جس سے وہ وہیں گرپڑے اور انہیں انتہائی تشویشناک حالت میں فوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہوسکے اور دم توڑ دیا ۔ عبد الکلام بھارتکے گیارہویں صدر تھے، انہیں بھارت کے اعلٰی ترین شہری اعزازات پدم بھوشن، پدم وبھوشن اور بھارت رتن بھی ملے۔ عبد الکلام کی صدارت کا دور 25 جولائی 2007ء کو اختتام پزیر ہوا۔اعزازات-- عبدالکلام کو حکومت ہند کی طرف سے 1981ء میں آئی اے ایس کے ضمن میں پدم بھوشن اعزاز سے نوازا گیا تھا۔ عبد الکلام کوبھارت کے سب سے بڑے شہری اعزاز بھارت رتن سے 1997ء میں نوازا گیا۔ 18 جولائی، 2002ء کو عبد الکلام کو نوے فیصد اکثریت کی طرف سے بھارت کا صدر منتخب کیا گیا اور انہوں نے 25 جولائی کو اپنا عہدہ سنبھالا، اس عہدے کے لیے ان کی نامزدگی اس وقت کی حکمراں قومی جمہوری اتحاد کی حکومت نے کیا تھا جسے انڈین نیشنل کانگریس کی حمایت حاصل تھی۔

 صدر کے عہدے کے لئے نامزدگی پر ان کی مخالفت کرنے والوں میں اس وقت سب سے اہم جماعت بھارتیہ کمیونسٹ پارٹی اور دیگر بائیں بازو کی ساتھی جماعتیں تھیں۔ بائیں بازو کی جماعتوں نے اپنی طرف سے 87 سالہ محترمہ لکشمی سہگل کا اندراج کیا تھا جو سبھاش چندر بوس کے آزاد ہند فوج اور دوسری جنگ عظیم میں اپنے شراکت کے لئےمعروف ہیں۔ طرح عبد الکلام ہندوستان کے ایک ایسے سائنس دان ہیں، جنہیں 30 یونیورسٹیوں اور اداروں سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگریاں مل چکی ہیں-اور یہ ہمارا چہرہ ہے کہ ہم نے اپنے ایٹمی ہیرو کو اغیار کی خوشنودی کے لئے کیسے زیرو کر دیا عبد القدیر خان کو اتنی کم رقم گزارے کے لئے دی جاتی تھی جس سے وہ اپنی دوا بھی نہیں لے سکتے تھے بقرعید کی قربانی بھی نہیں کر سکتے تھے -وائے پاکستانیوں تمھارا مقدّر کہ تم کو اسلام آباد کی کھوتا گاڑی کو کھینچنے والے  بنا دیا گیا ہے اور کھوتا گاڑی پر بیٹھا طاقتور کھوتا تم کو چابک کے زریعہ ہر لمحہ نشیب در نشیب ہلاکت کی جانب لے جا رہا ہے -اللہ ان قوموں کی حالت نہیں بدلتا ہے جن کو اپنی حالت کے بدلنے کا خیال نہیں ہو     

جمعرات، 28 دسمبر، 2023

طو فان نوح 'ع' کیسے اور کیونکر آیا

   -

ابتدائے دنیا میں ہم کو جن انبیائے کرام کے نام ملتے ہیں ان میں  حضرت نوح علیہ السلا م کا بہت خصوصیت سے تذکرہ آتا ہے ۔ آپ علیہ السلام حضرت ادریس علیہ السلام کے پرپوتے تھے چونکہ آپ علیہ السلام اپنی قوم کی  بد اعمالیوں پر بہت زیادہ گریہ و زاری کیا کرتے تھے، اس وجہ سے اپ کا لقب نوح (گر یہ و زاری کرنے والا) ہوا ۔ آپ علیہ ا لسلام کی عمرمبارک کے متعلق ارشاد ہوا۔بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان میں پچاس برس کم ہزار برس ر ہا(العنکبوت:14)قرآنی تصریح کے مطابق حضرت نوح علیہ ا لسلام کی حیات ظاہری 950 برس تھی، حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے حضرت ادریس علیہ ا لسلام کے عہد تک سب لوگ ایک ہی شریعت و دین پر تھے  -لیکن پھر حضرت ادریس علیہ السلام کے آسمان پر اٹھا لینے کے بعد ان کے بیٹے کی بیقراری دیکھ کر شیطان نے آ کر اس کو تشفی دی اور اس سے کہا کہ میں تم کو تمھارے باپ کا  ہو بہو مجسمہ بنا دیتا ہوں جس سے تمھارے دل کو قرار آ جائے گا -یوں شیطان نے جونہی مجسمہ تیار کیا ھضرت ادریس علیہ السلام کا بیٹا اس مجسمے -کےقدموں میں ہاتھ جوڑ کر گر پڑا

پھر شیطان نے اس قوم کے ہر گھر میں ایک ایک مجسمہ بشکل بت رکھ دیا حضرت  نوح علیہ السلام نے جب  اپنی قوم کو اس بت پرستی سے منع فرمایا تو لوگ ان کو طرح طرح سے اذیتیں دینے لگے یہاں تک کہ عذاب کا وقت آن پہنچااس عذاب کا ذکر قرآن مجید میں بھی موجود ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ کا ترجمہ ہے۔تو انہوں نے اسے(نوح علیہ السلام کو) جھٹلایاتوہم نے اسے اور جو اس کے ساتھ کشتی میں تھے نجات دی اور اپنی آیتیں جھٹلانے والوں کو ڈبو دیا بیشک وہ اندھا گروہ تھا۔(الاعراف 64)۔یاد رہے کہ حضرت نوح علیہ السلام اللہ پاک کے سب سے پہلے دنیا میں بھیجے گئے رسول ہیں جنہوں نے کفار کو تبلیغ کی اور سب سے پہلے آپ علیہ السّلام کی قوم پر دنیاوی عذاب آیا ۔اب ذیل میں قوم نو ح کی چند ایسی نافرمانیاں ذکر کی جاتی ہیں کہ جس کی وجہ سے یہ لوگ غضب الہی کے سزاوار ہوئے۔  

نوح علیہ السلام اپنی قوم کو ترغیب دے کر اللہ عزوجل کی بارگاہ میں توبہ کی دعوت دیتے رہے لیکن وہ لوگ آپ علیہ السلام کو ایک لمبے عرصے تک جھٹلاتے رہے تو اللہ پاک نے ان سے بارش روک لی اور چالیس سال تک ان کی عورتوں کو بانجھ کر دیا ان کے اموال ہلاک ہوگئے ان کے جانور مر گئے۔ ۔ قوم نو ح کے غریب اور چھوٹے لوگ ان کے سرکش رئیسوں کی پیروی کرنے لگے جو اپنے مال و دولت کے غرور میں مست ہوکر کفروشرک کی سرکشی میں پڑے رہتے اور ان کے امیروں نے بہت مکروفر یب کئے یہاں تک کہ انہوں نے حضرت نوح علیہ السلام کو جھٹلایا لوگوں کو ایمان قبول کرنے اور حضرت نوح علیہ السلام کی پیروی کرنے اور ان کی دعوت سننے سے روکا اور اور حضرت نوح علیہ السلام کی پیروی کرنے والوں کو ناحق سزا ئیں دیں تو ان نافرمانیوں کے سبب اللہ پاک نے ان کی قوم پر عذاب نازل ہونے اور ان کی ہلاکت کا وقت آگیا، 

کئی بار یہ ظالم آپ کو اس قدر زدوکوب کرتے کہ آپ کو بے ہوش ہو جاتے تھے پھر وہ ظالم آپ کومردہ خیال کر کے پھینک جاتے اور پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام آ کر آپ کو اپنے پروں سے ہوا دیتے تھے جس آ پ کے زخم ٹھیک ہوجاتے اور اگلی صبح آپ پھر پہاڑ پر چڑھ کر تبلیغ شروع کر دیتے -،  لیکن  ان ایذاؤں اور مصیبتوں پر بھی آپ یہی دعا فرمایا کرتے تھے کہ اے میرے پروردگار! تو میری قوم کو بخش دے اور ہدایت عطا فرما، کیونکہ یہ مجھ کو نہیں جانتے۔اور قوم کا یہ حال تھا کہ ہر بوڑھا باپ اپنے بچوں کو یہ وصیّت کرکے مرتا تھا کہ نوح علیہ السلام بہت پرانے پاگل ہیں،، اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام سے اس عذاب کے نازل ہونے کی علامت یہ بیان فرمائی تھی کہ جب تم تندور میں سے پانی جوش مارتا دیکھو تو سمجھ لینا کہ عذاب کے نزول کا وقت آپہنچا۔

حضرت نوح علیہ السلام کے اہل خانہ  سمیت حضرت نوح علیہ السلام پر جو لوگ ایمان لائے یہ کل 80 /یا -84افراد تھے، صحیح تعداد اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے جب حضرت نوح علیہ السلام کی قوم پر عذاب آیا تو آسمان سے زبردست بارش برسی اور یہ لگاتار چالیس دن رات برستی رہی، پانی پہاڑوں سے اونچا ہوگیا یہاں تک کہ ہر چیز اس میں ڈوب گئی، حضرت نوح علیہ السلام کا ایک بیٹا کنعان اور ایک بیوی کافرہ تھی یہ بھی اس طوفان میں غرق ہوگئے۔آخرت میں بھی عذاب کا ان سے اللہ رحیم  ہمیں قرآن پاک میں غور و فکر کرنے اور اس سے حاصل ہونے والے دروس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں اپنے اور اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نافرمانی کرنے سے سدا محفوظ رکھے۔ آمین ثم آمین   

منگل، 26 دسمبر، 2023

ایرانی ایند ھن اسمگلنگ -آخر کیوں ؟

 


، اسمگل شدہ تیل کی حکام کی ملی بھگت سے سندھ اور پنجاب تک ترسیل کی جارہی ہے، ایرانی تیل سے لدی گاڑیوں اور مسافر بسوں کے باعث آئے روز حادثات بھی پیش آتے   ہیں -یہاں پانی، بجلی سڑک نہیں ہے لیکن سمگل شدہ ایرانی تیل کی فراوانی ہے اور یہ ہی  ہمارا کاروبار ہے۔‘پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں اسمگل شدہ تیل کا کاروبار دہائیوں سے جاری ہے اوربراستہ بلوچستان بارڈر ایرانی پیڑول اور ڈیزل کی اسمگلنگ عروج پر ہےپاکستان کی حکومت نے ماضی میں متعدد بار ملک میں تیل کی سمگلنگ روکنے  اور فروخت پر پابندی لگانے کے وعدے اور دعوے کیے ہیں لیکن آج تک اس کاروبار کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔  بلوچستان کے ضلع واشک کی ایک چھوٹی تحصیل مشخیل (جسے مقامی طور پر ماشکیل کہا جاتا ہے) کے ایک رہائشی کہتے  ہیں کہ ہمارا  خاندان گذشتہ چار پشتوں سے سمگل شدہ ایرانی تیل کے کاروبار سے منسلک ہے۔ہم اس بیابان میں جہاں نا سڑکیں ہیں  نا روشنی ہے نا گیس ہے اور پچاس ہزار آبادی یہ اپنا روزگار کہاں سے حاصل کریں -حکومت اس ریگستانی علاقہ میں ہم کو تمام سہولتیں فراہم کر سکتی تو سو بسم اللہ پابندی لگائے ورنہ ہم کو پریشان نہیں کرے- ۔ 

انہوں نے کہا کہ جب بھی حکومت ڈیزل پر ٹیکس وصول کرنے کی کوشش کرتی ہے تو پرائس ڈیلٹا اسمگلنگ کو فروغ دیتا ہے۔
اندرون بلوچستان دو سو روپے اور کوئٹہ میں دو سو بیس روپے میں اسمگل شدہ پیٹرول سرعام فروخت ہورہا ہے۔مسافر بسوں میں پیڑول اور ڈیزل کی ترسیل کے باعث کئی حادثات بھی قومی شاہراہوں پر پیش آچکے ہیں۔کوئٹہ میں صنعتیں نہ ہونے کے باعث بے روزگاری عام ہے، اس لئے ہر سڑک پر ایرانی پیٹرول فروخت ہورہا ہے۔ایران سے تیل پاکستان کس طرح اسمگل کیا جاتا ہےپنجگور اور دیگر سرحدی علاقوں سے سوراب، بیلہ میں قائم بڑے نجی ڈپو ایرانی تیل کے بڑے مراکز ہیں، جہاں سے مسافر بسوں اور گاڑیوں کی خفیہ ٹنکیوں میں بھر کر ایرانی پیٹرول اور ڈیزل ملک بھر میں اسمگل کیا جارہا ہے۔ایک گمنام ڈیٹا ماہر نے حال ہی میں اس مسئلے پر ایک بہت ہی قابل اعتماد ٹویٹر تھریڈ لکھا۔انہوں نے اس تھریڈ میں کہا کہ، ”ڈیزل کی اسمگلنگ قانونی کاروباری سرگرمیوں کو نقصان پہنچانے، ٹیکسوں سے بچنے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان بلوچستان میں منظم جرائم کو ہوا دینے اور سرحدی کنٹرول کے مؤثر اقدامات کے فقدان کے باعث جاری ہے۔“اسمگلروں کا سب سے بڑا ذریعہ دریائے دشت کے راستے جیوانی کا سمندری راستہ ہے، جسے استعمال کرتے ہوئے ڈیز ل  کنستروں یا ڈرموں میں بھر کر اسپیڈ بوٹس کے زریعے لایا جاتا ہے اور روزانہ لاکھوں روپے مالیت کا ڈیزل، پیٹرول، اسلحہ اور منشیات سے بھری ہزاروں کشتیاں تقریباً پورے پاکستان کیلئے مال سپلائی کرتی ہیں۔

طویل ساحل پر کین سے ایندھن کو زیر زمین ٹینکوں میں ڈمپ کیا جاتا ہے، جہسں سے بعد میں اسے ٹویوٹا پک اپ اور کارگو ٹرکوں میں بھر دیا جاتا ہے۔ ان ٹرکوں کے اندر بھی خفیہ ٹینک موجود ہوتے ہیں اور انہیں مختلف سامان سے چھپایا جاتا ہے۔ان کے بقول رپورٹ میں ان طاقت ورعناصر کا تذکرہ نہیں کیا گیا، جن کے بغیر اس طرح کا کام ممکن نہیں ہے۔ ان میں سے چند افراد کا تو یہ تک کہنا ہے کہ سرکار کی طرف سے جسے اسمگلنگ کہا جا رہا ہے، وہ اسمگلنگ کے زمرے میں ہی نہیں آتی۔واضح رہے کہ پاکستان میں حکومت کی جانب سے حالیہ دنوں میں معیشت کو بہتر بنانے کے لیے کئی اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے، جس میں ایک ایرانی تیل کی اسمگلنگ کی روک تھام بھی ہے۔پاک ایران سرحد پر تربت کے علاقے میں قائم پاکستانی چیک پوسٹ تصویر: Abdul Ghani Kakar/DWاس رپورٹ میں یہ بھی دعوی کیا گیا ہے کہ ملک بھر میں تقریباﹰ نو سو پچانوے پیٹرول پمپس بھی ایرانی پٹرول کی اسمگلنگ میں ملوث ہیں اور یہ کہ اس غیرقانونی تجارت کی وجہ سے ملکی خزانے کو 60 ارب روپے سالانہ کا نقصان ہوتا ہے۔اسمگلنگ پر حساس ادارے نے رپورٹ وزیراعظم ہاؤس میں جمع کروا دی ہے،

 بلوچستان میں 104 اور آزاد کشمیر میں 37 ڈیلر حوالہ ہنڈی میں ملوث ہیں، وفاقی دالحکومت میں 17 ڈیلر حوالہ ہنڈی کا کاروبار کرتے ہیں۔ایرانی تیل کی اسمگلنگ میں ملوث افسران، سیاستدان اور ڈیلروں کی تفصیلات بھی وزیراعظم ہاؤس کو فراہم کر دی گئی ہیں۔سویلین انٹیلیجنس ایجنسی کی رپورٹ میں سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کو ایرانی پٹرول کی اسمگلنگ کے لیے زمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق اس غیر قانونی دھندے سے قومی خزانے کو سالانہ ساٹھ ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔وزیراعظم ہاؤس میں جمع کرائی جانے والی ایک حالیہ تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے انتیس سیاستدان اور نوے کے قریب سرکاری افسران ایران سے پٹرول کی اسمگلنگ میں ملوث ہیں۔ تاہم کئی سیاستدان اور ریٹائرڈ سرکاری افسران اس رپورٹ کے مندرجات سے اتفاق نہیں کرتے۔ان کے بقول رپورٹ میں ان طاقت ورعناصر کا تذکرہ نہیں کیا گیا، جن کے بغیر اس طرح کا کام ممکن نہیں ہے۔اسمگلنگ میں طاقت ور عناصر ملوث-سوشل میڈیا پر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے سخت ناقد اور سیاسی مبصر میجر ریٹائرڈ عادل راجہ کا کہنا ہے کہ پٹرول کی اسمگلنگ کے اس دھندے میں ریاست کے بااثرعناصر شامل ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''طاقتور حلقوں سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگ اربوں روپیہ اس اسمگلنگ سے بنا رہے ہیں اور اس سے ان کو فائدہ ہو رہا ہے۔ ‘‘ایرانی تیل کی اسمگلنگ میں 90 سرکاری حکام اور 29 سیاست دان ملوث ہیں، حساس ادارے کی رپورٹ -بلوچستان کے سابق وزیر اعلی نواب اسلم رئیسانی نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایرانی اشیا کی اسمگلنگ پاکستان کے بارڈ رگارڈز کی نگرانی میں ہوتی ہے۔ اس صورت حال میں آپ کس کو ذمہ دار ٹھہرائیں گے؟‘

: Instagram.com/mototouristایرانی ڈیزل قانونی ہے؟جان محمد بلیدی کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ '' ایران کے ساتھ سرحدی تجارت کئی عشروں سے چل رہی ہے لیکن پی ٹی آئی کی گزشتہ حکومت کے دوران آئی جی ایف سی نے اس نظام کو ریگولیٹ کرنے کے لیے گاڑیوں کی رجسٹریشن کا کہا۔ اب تک 50 ہزار سے زائد گاڑیاں رجسٹرڈ ہیں روزانہ 600 گاڑیوں کو اجازت دی جاتی ہے کہ وہ ایران سے تیل لے کر آئیں جس کے لیے باقاعدہ ڈپٹی کمشنر کی طرف سے ان کو ٹوکن جاری کیا جاتا ہے۔ 15اس ڈیزل کے حوالے سے ایسا کچھ نہیں۔ تو یہ کیسے قانونی ہو سکتا ہے؟‘‘پاکستان تحریک انصاف کے دور میں وزیر پیڑولیم  رہنے والے ندیم بابر نے ڈی ڈبلیو کو ایک مختصر سے جواب میں بتایا، '' اگر اس طرح سے کوئی تیل آ رہا ہے تو اس کی وفاقی حکومت کی طرف سے کوئی اجازت نہیں دی گئی تھی۔‘‘ٹیکس امور کے ماہر اور ایف بی آر کے سابق افسر ڈاکٹر اکرام الحق کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں سرحدی علاقوں میں تجارت ہوتی ہے اور یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمارے ہاں حکام غیر ضروری طور پر ڈالر کی کمی کو اس نام نہاد اسمگلنگ سے جوڑ رہے ہیں - کیا اسمگلنگ روکی جا سکتی ہے؟عادل راجہ کا کہنا ہے کہ اگر اس کو روکا گیا تو اس سے بلوچستان میں بڑے پیمانے پہ بے روزگاری پھیلے گی اور وہاں پر انتشاری کیفیت میں مزید اضافہ ہوگا۔تربت  کے علاوہ  اسمگلنگ پنجگور، کیچ اور گوادر میں بھی ہوتی ہے۔ بلیدی نے کہا، ''ہمارے صوبے میں پہلے ہی بے روزگاری بہت ہے۔ لہذا سرحدی تجارت کو ریگولیٹ کیا جا ئے ایرانی تیل کی اسمگلنگ میں 90 سرکاری حکام اور 29 سیاست دان ملوث ہیں، حساس ادارے کی رپورٹ  کہ رہی  ہے  

اتوار، 24 دسمبر، 2023

کالے پانی کے قیدی -حصہ اول

 


   تجارت کے نام پر آئے  ہوئے اغیار نے جب  ہندوستان کے اندر ادرونی ریشہ دوانیا ں دیکھیں  تو کہیں لہو لعب میں ڈوبے  مست راجاؤ ں کے شب و روز دیکھے جن کو اپنے حرم سراؤں میں  اطلس کمخواب کے لبادوں  میں ملبوس  دوشیزاؤں  کے    قدموں میں بیٹھے دیکھا  تب انہوں نے مناسب موقع دیکھ کر  محلات کی ایک ایک اینٹ گرانی شروع کی اور بالاآخر محل سرا کے تخت شاہی سے بادشاہوں کو اپنی مٹھی میں دبوچ کر نکال پھینکااور پھر آقا اور غلا موں کے رشتے بدل گئے  آنے  والے آقا  بن گئے مستی میں مدہوش آقا غلام بن گئے  اور پھر ڈھائ سو برس کے بعد غلاموں کو احساس جاگا کہ  کہ بدیسیوں سے نجات حاصل کی جائے لیکن یہ اتنا آسان تو نہیں تھا -شیر کے منہ کو خون لگ چکا تھا -چناچہ بغات شروع ہوئ  اس افتاد کے لئے  آقا تیار نہیں تھےاس لئے اس غیر  متوقع بغاوت کے بعد آقاؤں نے  اپنے نو آبادیاتی غلاموں کے اورباغیوں کے لیے تعزیری  سزاوں کا انتخاب کیا  پھانسیوں، گولیوں اور توپوں سے انقلابیوں کی جانیں لی گئیں۔ عمر قید بھی دی گئی مگر کسی دور دراز مقام پر ایک تعزیری بستی یا قیدیوں کی کالونی کی ضرورت محسوس کی گئی تاکہ انگریزوں کے ’باغی‘ پھر سے بغاوت یا مزاحمت نہ کر سکیں۔چنانچہ  نظر انتخاب جزائر انڈمان پر گئی۔‘
یہ جزائر کیچڑ سے بھرے تھے۔ یہاں مچھر، خطرناک سانپ بچھووں، جونکوں اور بے شمار اقسام کے زہریلے کیڑوں اور چھپکلیوں کی بھرمار تھی۔سب سے پہلےفوجی ڈاکٹر اور آگرہ جیل کے وارڈن جے پی واکر اور جیلر ڈیوڈ بیری کی نگرانی میں ’ 200باغیوں‘ کو لے کر پہلا قافلہ 10 مارچ سنہ 1858 کو ایک چھوٹے جنگی جہاز میں وہاں پہنچا۔ پھر کراچی سے مزید 733 قیدی یہاں لائے گئے اور پھر یہ سلسلہ جاری رہا۔ ۔ اس وقت یہ جزائر گھنے جنگلات کے علاوہ کچھ نہیں تھے۔ جزائر انڈمان نکو بار بحرِ ہند میں واقع ہیں۔ ہندوستان سے جزائر انڈمان نکو بار کی غیر معمولی دُوری کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ انڈومان کی جنوبی سرحد سے ملیشیا صرف ایک سو کلومیٹر دور ہے ،اسی طرح اس کی سرحد کی لمبائی کا اندازہ صرف اس سے ہوتاہے کہ اس کی شمالی سرحد سے برما صرف ایک سو بیس کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے ،ا

نڈومان پوری دنیا میں اس اعتبار سے اپنی الگ پہچان رکھتا ہے کہ وسطی انڈومان میں تقریباً ساڑھے چھ سو مربع کلومیٹر کے جزیروں میں پتھروں اور فولاد کے زمانہ کے تہذیب وتمدن سے عاری وحشی قسم کے لوگ آج بھی موجود ہیں جو ہمیشہ برہنہ رہتے ہیں ،پوری دنیامیں ان کی زبان کوئی نہیں سمجھ سکتا ،وہ مہذب انسانوں سے دور بھاگتے ہیں ،زندگی بھر جنگلوں سے باہر نہیں نکلتے ،ان کے سر گول ہیں اور آنکھیں باہر نکلی ہوئی،لیکن ان کے دانت نہایت چمکیلے وسفید اور بال گھنگریالے ہیں ،ان کی غذا کیڑے مکوڑے ، سمندری کیچوے اور جنگلی پھل ہیں،آج بھی وہ ماچس کے بجائے پتھر رگڑ کر آگ جلاتے ہیں ،ان کے مکانات اور رہن سہن کو دیکھ کر ہر کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ حضرت آدم کے زمانہ کے قرن اول کے لوگ ہیں ۔  اس زمانہ میں رونما ہونے والے کسی بھی واقعہ یا زمین پر ہونے والے کسی بھی حادثہ کا نہ ان کو علم ہے نہ اس سے کوئی واسطہ ،حکومت کا کوئی قانون ان پر نافذ نہیں ہوتا، یہ لوگ شہری اور مہذب انسانوں سے وحشت کرتے ہیں اور ان سے دور بھاگتے ہیں یا پھر ان پر حملہ کرتے ہیں ،ان کے علاقوں کو حکومت نے محفوظ قرار دے کر اس کے آس پاس پہرہ بٹھا دیا ہے ،سرکاری اجازت کے بغیر کوئی وہاں نہیں جاسکتا،آج بھی ان وحشی انسانوں کی تعداد کا صحیح علم نہ حکومت کو ہے اور نہ کسی اور کو۔

 انڈومان کے یہ جزائر یوں تو صدیوں سے آباد ہیں اور وہاں کے قریب سے ہمیشہ تجارتی وسیاحتی قافلے گزرتے رہے لیکن وہاں رک کر مستقل آباد ہونے کی ان وحشی انسانوں سے ڈر کی وجہ سے کسی کی ہمت نہیں ہوئی پہلی دفعہ 1759 ء میں سبز قدم انگریز قیدیوں کی مستقل کالونی بنانے کے لیے اس کالونی پر وارد ہوئے تو یہاں کے غیرمہذب وحشیوں نے ان پر حملہ کر دیا۔ اور ایک خوں ریز جنگ کے بعد یہاں کے کچھ علاقوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس وقت فرنگی لشکری یہاں اپنے200قیدیوں کو لے کر اس زمین پر قابض ہونے آئے تھے۔کالے پانی کی جیل بنانے کے لئے  آئ لینڈ کا رقبہ محض صفر اعشاریہ تین سکوائر کلومیٹر تھا۔ اس کو تعزیری جزیرے کے لی سب سے پہلے چنا گیا کیونکہ یہاں پر پانی موجود تھا۔ اس جزیرے پر گھنے جنگل کو صاف کرنے کا مشکل کام سزا یافتہ باغیوں کے حوالے کیا گیا جبکہ برطانوی آفیسر بحری جہازوں ہی پر رہے۔آبادکاری کے کھنڈر-ان جزیروں میں سے ایک جزیرہ روس آئی لینڈ ہے۔ یہ ماضی میں ایک قصبہ تھا جہاں 19 ویں صدی کے برطانوی آبادکاری کے نشانیاں اب کھنڈرات میں تبدیل ہو گئی ہیں۔ اس جزیرے کو 40 کی دہائی میں ترک کیا گیا  ۔ شاندار مکانات، بڑا چرچ اورقبرستان ٹوٹ پھوٹ کے قریب ہیں۔

خلیج بنگال میں واقع انڈیا کے انڈمان اور نکوبار جزائر 572 جزیروں پرمشتمل ہیں جن میں سے صرف 38 پر آبادی ہے۔ یہ کلکتہ سے 780 میل جنوب میں تقریباً ایک ہزار جزیروں کا مجموعہ جزائر انڈمان نکوبار کہلاتا تھا اور جزیرے فاصلے کے حساب سے انڈیا کی بہ نسبت جنوب مشرقی ایشیا کے زیادہ قریب ہیں۔یہ جزیرے شاندار ساحلوں، سمندری حیات، ساحلی خوبصورتی اور جنگلات کے حوالے سے مشہور ہیں لیکن دلکش نظاروں کے علاوہ ان کا سیاہ ماضی ہے۔انڈمان و نکوبار بھارت کی مرکزی زیرِ انتظام علاقہ جات ہیں۔ یہ جزیروں پر مشتمل ہے اور خلیج بنگال میں واقع ہے۔ ان کا شمار جنوبی ہند میں کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر تامل،ملیالم اور انڈمانی زبانیں بولے جاتے ہیں۔1995ء میں ہوائی جہاز سے لی گئی تصویر جس میں انڈمان کے بیرن جزیرے میں موجود آتش فشاں سے دھواں نکل رہا ہے-جنوبی ایشیا میں صرف انڈمان وہ جگہ ہے جہاں زندہ آتش فشاں پایا جاتا ہے۔ماضی کی بدنام ترین جیل کالا پانی انڈمان میں ہی واقع ہے اور برطانوی استعمار کی یاد تازہ کرتی ہے۔ان جزائر میں ملیریا بہت عام ہے-
تعزیری کالونی کے وسیع ہونے کے ساتھ سزا یافتہ باغیوں کو قریبی جزیروں پر تعمیر کیے گئے جیلوں اور بیرکس میں رکھا گیا۔ روس آئی لینڈ پر انتظامی ہیڈ کوارٹر کے ساتھ ساتھ اعلیٰ افسران اور ان کے اہل خانہ کی رہائش گاہیں بھی بنائی گئی تھیں۔کیونکہ پانی کی وجہ سے پھیلنے والی بیماریوں کے باعث شرح اموات بہت زیادہ تھی اس لیے ہر ممکن کوشش کی گئی کہ روس آئی لینڈ کو رہنے کے لیے اچھا جگہ بنایا جائے۔ اعلیٰ فرنیچر سے سجے ہوئے شاندار محلات، بڑے باغیچے اور ٹینس کورٹس بنائے گئے۔اس کے علاوہ چرچ، پانی صاف کرنے کا پلانٹ، فوجی بیرکس اور ہسپتال بنایا گیااس وقت ’کالا پانی ایک ایسا قید خانہ تھا جس کے درودیوار کا بھی وجود نہ تھا۔ اگر چار دیواری یا حدود کی بات کیجیے تو ساحل سمندر تھا اور اگر فصیل کی بات کیجیے تب بھی ٹھاٹھیں 
-مارتا ہوا ناقابل عبور سمندر ہی تھا۔ قیدی قید ہونے کے باوجود آزاد تھے لیکن فرار کے سارے راستے مسدود (بند)  جاری ہے

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر