اللہ رب العزت نے اپنے محبوب،باعث تخلیق کائنات ،فخر موجودات کے اطمینان قلب کی خاطر آیت مبارکہ نازل فرما کر ایک عظیم الشان تحفہ عطا کرنے کا وعدہ فرمایا،نبئ کریم حضرت محمد مسطفٰے صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم اپنے محلے کے اس شخص کی طعنہ زنی سے بہت دلگیر ہوا کرتے جب جب آپ کے فرزند کا انتقال ہو گیا تھا -وہ شخص اپ کو بے اولاد ہونے کا طعنہ دیا کرتا تھا -چنانچہ اللہ کریم نے آپ کی دلجوئ ان الفاظ میں کی ’’وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰیْ‘‘ ،عنقریب آپ کا رب آپ کو وہ عطاکرے گا کہ آپ فوراًراضی ہو جائیں گے۔ذہن انسانی سوچ میں پڑگیا کہ قادر مطلق اپنے حبیب کو سب کچھ عطا کردینے بعد وہ کون سی انتہائی عظیم المرتبت شے دینے کا وعدہ فرما رہا ہے کہ جو اس نے ابھی تک اپنے پیارے رسول سے پوشیدہ رکھی ہے۔ بشریت حیرت و استعجاب کے سمندر میں غوطہ زن تھی کہ ایک دن قاصد ایزدی مژدۂ جانفزا لے کر آن پہنچا، ’’اِنَّااَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرْ‘‘،میرے حبیب،ہم نے آپ کو الکوثر عطا کر دی۔’’قُمِ اللَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلاَ ‘‘ کا حکم دینے والے معبود نے ہر وقت شکر ادا کرتے رہنے والے رسول اعظم کو اگلا فرمان جاری کیا، ’’فَصَلِّ لِرَبّکَ وَانْحَرْ‘‘میرے حبیب اس عطائے گرانقدر کا شکرانہ ا دا کیجئے۔وہ عظیم المرتبت تحفہ جوخداکا ا پنے محبوب ر سول سے محبت کی انتہا ہے ،تمام جلیل القدر مفسرین کرام کے مطابق،
’’اَلْفَاطِمَہْ ھِیَ الْکَوْثَرْ
الْمُعْطِیْ لِرَسُوْلَ اللّٰہ‘‘
ملکۂ ملک سخاوت،مطلع چرخ کرامت،سرچشمۂ صبر ورضا،ام شہیدان وفا،بنت رسول اکرم، نشانی ء خدیجہ معظمہ ،سیدہ ،طیبہ،طاہرہ، مخدومۂ کونین حضرت فاطمہ الزہراء کی ذات عالیہ ہے جو ’’ھَدْیَۃُالْمَنّانْ وَالْکَوْثَرْ اَلْقَیّمْ فِیْ الْقُرْآن ‘‘ ہے جو اللہ کی طرف سے رسول اللہ کے لئے ہدیہ ہے ،جوخدا کا رسول کے لئے تحفہ ہے ۔کُل کائنات دے کر اللہ رب العزت نے جس عظیم ہستی کے لئے لفظ عطا استعمال فرمایا ہے وہ سیدۃالنساء العٰلمین کی ذات والا صفات ہے۔اللہ رب العزت نے جب اس لفظ کوثر کو مجسم فرمایا تو صورت فاطمہ میں سامنے آیا اور جب فضائل و خصائل زہراء کو سمیٹا تو الکوثرکا نام دیطیبہ،طاہرہ،عابدہ،زاہدہ،بنت خیرالوریٰ،سیدہ فاطمہ سیدہ،صالحہ،راکعہ،ساجدہ،نور شمس الضحیٰ،سیدہفاطمہ راضیہ،مرضیہ،صائمہ،عاصمہ،نیرہ،انورہ،ناظمہ،ناصرہ زاکیہ،ازکیہ،اکرمہ،اعظمہ،عکس ظلخدا،سیدہ فاطمہ کاملہ،اکملہ،صادقہ،اصدقہ،عالمہ،فاضلہ،راحمہ،راشدہشاہدہ،شافعہ،قاسمہ،آمنہ،عذرا،خیرالنساء،سیدہفاطمہ ہادیہ،مہدیہ،جیدہ،ناصحہ،مکیہ،مدنیہ،قرشیہ،سرورہ مشفقہ،محسنہ،ذاکرہ،زاہرا،حافظہ،حامدہ،سیدہ فاطمہ قائمہ،دائمہ،ماحیہ،ماجدہ،خازنہ،حاکمہ،صابرہ،شاکرہ حاذقہ،قائدہ،احسنہ،افضلہ،وارثہ،پارسا،سیدہ فاطمہ واعظہ،واصفہ،شافیہ،کافیہ،رہبرہ،فائقہ،واقفہ،عارفہ عالیہ،اشرفہ،قاطعہ،ساطعہ،عاقلہ،اطہرہ،سیدہ فاطمہ امجدہ،اجملہ،مخلصہ،تارکہ،ثابتہ،ثاقبہ،خاشعہ،خالدہ ان کے القاب صائم ہوں کیسے بیاں،خرد سے ماوریٰ سیدہ فاطمہ اِنَّااَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرْ:
ہر تحفۂ ایزدی ، اللہ رب العزت نے
اپنے رسول کے لئے خودروانہ فرمایامگر اس عظیم الشان تحفہ کو عطا کرنے کے لئے پیارے
مصطفٰی کو عرش علیٰ کی دعوت دی۔شب معراج، مہمان ربانی فردوس بریں کی سیر کو تشریف
لے گئے اور قصر ام المومنین خدیجہ الکبریٰ میں داخل ہوئے ۔قصر خدیجہ کا معائنہ
فرماتے ایک نورانی درخت پر لگے سیب پر آپ کی نظر مبارک ٹھہری جسے دست قدرت نے آمد
مصطفٰی سے تین لاکھ سال پہلے خلق کیا تھا۔حکم الٰہی پر آپ نے وہ نورانی سیب تناول
فرمایا اور حجاب قدرت سے نور عصمت ،صلب رسالت میں منتقل ہوا۔واپس تشریف لائے تو اس
تحفۂ خداوندی کو محبوب زوجہ خدیجہ الکبریٰ کی آغوش محبت کی زینت بنایااورعطائے
الٰہی اور خدیجہ طاہرہ نے مل کر رحل رسالت پر قرآن فاطمہ نازل کر دیا۔
مہک
فردوس کی مکہ کی گلیوں میں چلی آئی کہ آغوش خدیجہ میں تھی جب بنتِ نبی آئی
سیدہ طاہرہ 20جمادی الثانی،5نبوی
،17مارچ 614ء ،بروزجمعہ المبارک ،قصر خدیجہ میں جلوہ فرما ہوئیں۔ نور زہراء کا
ظہور ہوا تو زمیںسے لے کر آسمان تک ذرہ برابر جگہ بھی ایسی نہ رہی جہاں اس نور
مبارکہ کی تجلی نے روشنی نہ پھیلائی ہو۔آپ خیر کثیر کا مصدر ہیںاور جہاں جہاں خیر
کثیر کا ذکر ہوا ہے وہ اللہ رب العزت نے در زہرا سے صادر فرمایا ہے۔آپ کا اسم گرامی
ذات قدرت نے ’’فاطمہ‘‘رکھا۔آپ اہل سماء میں’’منصورہ ‘‘کے نام سے جانی جاتی ہیںکیوں
کہ اللہ رب العزت نے آپ کو نصر اللہ قرار دیا ہے۔
نور زہرا :
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں