جمعہ، 22 ستمبر، 2023

پیارا پاکستان ۔ تہذیب، ثقافت اورمرکز سیاحت

اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ مثبت تہذیبی و ثقافتی اقدار کے فروغ سے سماج میں امن و سلامتی کے پھول کھلتے  ہیں - دنیا میں وہی قومیں زندہ و پائندہ کہلاتی ہیں جو تہذیب یافتہ ہوں۔ وہی معاشرہ کامیاب و کامران ہوتا ہے جس کی ثقافت پائیدار ہو۔ ۔ وہی معاشرہ امن کا گہوارہ بن سکتا ہے جہاں صحیح معنوں میں مثبت تہذیب و ثقافت فروغ پا رہی ہو۔ہمیں بجا طور پر فخر ہے کہ سندھ کے ساحل سمندر سے سیاچن کے دامن تک اور چاغی کے پہاڑوں سے خنجراب تک پھیلی ہوئی اس دھرتی میں رنگا رنگ تہذیب و ثقافت کے جلوے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ تہذیب و ثقافت کسی بھی قوم کا آئینہ ہوتی ہے۔ قوموں کے درخشاں مستقبل کے لئے تہذیبی اقدار چراغ راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ماہرینِ عمرانیات کے مطابق ثقافت میں علم، عقیدہ، فن، اخلاق، قانون، زبان، رسم و رواج، آداب مجلس، خورو نوش، لباس، کھیل کود، اٹھنا بیٹھنا اور وہ تمام چیزیں شامل ہیں جو انسان نے معاشرے کے رکن کی حیثیت سے تخلیق کی ہیں۔ اگر کوئی معاشرہ ثقافت کے ان عوامل سے آگاہ ہو اور ان پر عمل پیرا ہو تو اس معاشرے کو تہذیب یافتہ خیال کیا جاتاہے۔ ۔ 

بلوچستان کی ثقافت-کوئٹہ: رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان ایک زرخیز اور ہمہ گیر تہذیب کا حامل ہے، جو اپنے قدیم  ماضی کے تمام حسین رنگوں کو خود میں سموئے ہوئے ہے۔بلوچ قوم کے اگر لباس کی بات کی جائے تو مرد حضرات قمیض کے ساتھ گھیر والی شلوار زیب تن کرتے ہیں، ساتھ ہی مختلف رنگوں کی پگڑی سر پر سجاتے ہیں۔ کم عمر بچیوں کے لیے خاص قسم کی کڑھائی کردہ پھولوں والا لباس تیار کیا جاتا کسی بھی خوشی کے موقع پر محافل کا انعقاد کیا جاتا ہے جسے ’بلوچی دیوان یا گدان‘ کہتے ہیں جہاں بیٹھے افراد موسیقی آلات سے سر بکھیرتے ہیں۔ وہاں کی عورتیں خاص قسم کا ہاتھ سے تیار کردہ بیگ استعمال کرتی ہیں جسے بلوچی زبان میں ’جمدگان‘ کہتے ہیں۔ہے۔پانی کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے وہاں کے قبائلی مشک(مٹکا) استعمال کرتے ہیں، اور اگر کھانوں کی بات کی جائے تو ’سجی اور کاک روٹی‘ کے بغیر کوئی بھی دعوت اور روایتی رقص ’لیوا‘ کے بغیر کوئی تقریب مکمل نہیں ہوتی۔

آج پاکستان میں پنجابی،سندھی،بلوچی،پختون،سرائیکی اور بلتی سمیت کتنے ثقافتی رنگ ایسے ہیں جو مقامی ہیں اور بہت سے رنگ مہاجر پاکستانی لائے ہیں۔اسی تنوع سے وہ ثقافتی یک رنگی وجود میں آتی ہے جسے پاکستانی ثقافت کہتے ہیں۔یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستانی ثقافت دراصل اس خطے کی اجتماعی ثقافت کا نام ہے۔اب اگر ہم 14اگست 1947 سے پاکستان کی تاریخ کا آغاز کریںتودراصل یہ ایک عظیم ثقافتی تاریخ کا احیا ہے جو صدیوں پر محیط ہے اورپاکستان ایک ایسا ملک ہے جو نیا ہونے کے باجود قدیم ترین تاریخی عمل کا تسلسل ہے۔اس لئے آج ہمیں مصنوعی طورپرکوئی ثقافت پیدا کر نے کی ضرورت نہیں۔تاہم اس پس منظر کے ساتھ،پاکستان ایک نئی شناخت بھی ہے۔ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم ثقافتی رنگا رنگی کو اس طرح ہم رنگ بنائیں کہ وہ قدیم ہونے کے باجود جدید بھی ہو۔یہ کام اگرچہ فطری طور پر ہو تا ہے لیکن اس فطری مناسبت کو ملحوظ رکھتے ہوئے،اگر کوئی شعوری کوشش کی جائے تو اس میں نیا پن پیدا کیاجا سکتا ہے عرسہائے شاہ لطیف بھٹائی اور شہباز قلندر سے گلگت  بلتستان قومی کھیل پولو تک، بیساکھی، بسنت، میلہ مویشیاں سے گلگت میں رسم شاپ، گیننی وبونونوتہوار، ہنزہ نگر میں بوپھائو اور بلتستان کے جشن نوروز، میندوق ہلتنمو اور مے پھنگ تک، بلوچی و سندھی کشیدہ کاری جیسے لوک ہنر ، پنجاب کے چرواہوں کے لوک گیت اور ہیر رانجھا ، ٹرکوں و تانگوں پر بنے ہوئے خوبصورت رنگوں کے نقش و نگار، پشاور کے چپلی کباب اور رباب پر چھیڑی جانے والی داستانیں ،

 یہ سب پاکستانی ثقافت کے شاہکار اور مختلف رنگ ہیں۔وطن عزیز کے تاریخی آثار میں موہنجوداڑو اور ہڑپہ کے کھنڈرات سے لے کر دو سو سال قبل مسیح کی کھوئی ہوئی بدھ مت کی گندھارا تہذیب کے مجسّموں تک، شیر شاہ سوری کے تعمیر کردہ قلعۂ روہتاس سے بلتستان کے خپلو محل و چقچن مسجد، شگر فورٹ، گوپس، چلاس اور ہنزہ کے التت و بلتت قلعے تک فن تعمیر کے عظیم شاہکار عالمی سیاحوں کو دعوت نظارہ دے رہے ہیں۔ سکردو کے قلعۂ کھرپوچو کو تو انیسویں صدی کے اواخر تک ناقابل تسخیر سمجھ کر غیر ملکی سیاحوں نے اسے جبرالٹر سے تشبیہہ دی ہے۔ خپلو کی چقچن مسجد کا شمار آج بھی پاکستان کی بعض اہم تاریخی اہمیت کی حامل مسجدوں میں ہوتا ہے جس کی بنیاد 783ھ میں شاہ ہمدان کے ہاتھوں پڑی تھی۔ایک غیر ملکی محقق جیمز ہارلے کے بقول یہ مسجد براعظم ایشیا میں لکڑی سے بنی ہوئی سب سے خوبصورت مسجد ہے اس کے علاوہ شاہ ہمدان کے دست مبارک سے تعمیر ہونے والی شگر کی مسجد امبوڑک اور خپلو میں میر محمد کا آستانہ اب بحالی کے بعد یونیسیف کا ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔بلتستان میں واقع دیگر مزارات میں میر عارف و میر اسحاق تھغس، میر یحییٰ شگر اور میر مختار اختیار کریس قابل ذکر ہیں۔ جن میں چوبکاری کے اچھوتے اور منفرد نمونے، خوبصورت نقش و نگار اور بیل بوٹے اُن دستکاروں کی ذہانت و مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

ان کے علاوہ بھی گلگت بلتستان کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے درجنوں مقبرے، قلعے، خانقاہیں، مسجدیں اور امام بارگاہیں چوبکاری کے خوبصورت فنون سے آراستہ و پیراستہ ہیں۔یہ ثقافتی و تہذیبی آثار عالمی سیاحوں کے لئے کشش کا باعث ہیں۔وطن عزیز پاکستان جغرافیائی اعتبار سے بھی دنیا کا ایک منفرد اور خوبصورت ترین ملک ہے۔ یہاں وسیع و عریض سمندر ہیں ، لق و دق صحرا ہیں۔ بالخصوص ملک کے حسین ترین خطے '' گلگت بلتستان'' کو وطن عزیز پاکستان کے ماتھے کا جھومر کہا جائے تو بے جانہ ہو گا۔جہاں برف پوش و فلک بوس پہاڑ ہیں، گلیشیئرز ہیں۔ سر سبز و شاداب وادیاں ہیں۔ فیروزے کے نگینے کی طرح جڑی ہوئی جھیلیں ہیں۔ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریا ہیں جو پہاڑوں کی بلندیوں سے پھوٹ کرپاکستان کو سیراب کرتے ہوئے بحر ہند میں گرنے والا دریائے سندھ ہے اور اس کے دائیں بائیں جنم لینے والی رنگا رنگ تہذیبیں ہیں۔ یہاں صاف و شفاف چشمے پھوٹتے ہیں۔ مختلف النوع جنگلی حیات اپنی اپنی چال گاہوں میں مورچہ زن اور خوبصورت پرندے فضائے بسیط میں محو پرواز ہیں۔ ان جنگلی جانوروں اور پرندوں کا خوبصورت ماحول اور ان کا شکار بھی اس علاقے کی ثقافتی سرگرمیوں میں سے ہے۔ غرض خالق کائنات نے اس ملک کو اپنی تمام تر فیاضیوں سے نوازا ہے۔ یہاں ثقافتی سیاحت کے مواقع بھی ہیں اور ایڈونچرٹورازم بھی۔ آٹھ ہزارمیٹر سے زیادہ بلندپانچ چوٹیاں گلگت بلتستان میں موجود ہیں اور دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو اس دھرتی پر سینہ تانے کوہ پیمائوں کو چیلنج دے رہی ہے۔

 ان فلک بوس چوٹیوں کو سر کرنا علاقے کے باسیوں کا مرغوب مشغلہ رہا دیامر کے سرسبز جنگل اور پتھروں پر جنگلی جانوروں کے تراشے گئے نقوش، نلتر گلگت کی شادابی، سکردو کی سحر انگیز سطح مرتفع دیوسائی ، کچورہ ، سدپارہ، پھنڈر ،راما اور دیوسائی حسن فطرت سے مالا مال سیاحتی مقامات کے نمونے ہیں۔ یہ بات بلا تامّل کہی جا سکتی ہے کہ یہ خطہ مختلف رنگ آمیزیوں اور جلوہ سامانیوں سے عبارت ہے ۔ یہ وصف یہاں کے فطری مناظر ہی میں نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں پایا جاتا ہے۔ اس خطے کے قدیم چین اور وسط ایشیائی ممالک سے گہرے تاریخی و ثقافتی روابط رہے ہیں۔اب سی پیک کی وساطت سے رابطے کی رفتار میں مزید تیزی آئے ۔ دیامر کے سرسبز جنگل اور پتھروں پر جنگلی جانوروں کے تراشے گئے نقوش، نلتر گلگت کی شادابی، سکردو کی سحر انگیز سطح مرتفع دیوسائی ، کچورہ ، سدپارہ، پھنڈر ،راما اور دیوسائی حسن فطرت سے مالا مال سیاحتی مقامات کے نمونے ہیں۔ یہ بات بلا تامّل کہی جا سکتی ہے کہ یہ خطہ مختلف رنگ آمیزیوں اور جلوہ سامانیوں سے عبارت ہے ۔ یہ وصف یہاں کے فطری مناظر ہی میں نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں پایا جاتا ہے۔ اس خطے کے قدیم چین اور وسط ایشیائی ممالک سے گہرے تاریخی و ثقافتی روابط رہے ہیں۔ 

پیر، 18 ستمبر، 2023

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ-باد صبا کا نر م جھونکا

بہت دنوں کے بعد پاکستان کی  گرم اور مسموم سیاسی فضاؤ ں سے ایک نرم  ہوا کے جھونکے نے دل کو چھوا ہے اور بہت 'بہت پیاری خبر پڑھنے کو اور ا حباب سے سننے کو ملی ہے کہ  عدالت عالیہ کی سپریم  کرسی پر براجمان ہو نے والے نئے محترم  چیف جسٹس قاضی فائز  عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے سنئیر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پاکستان کے 29 ویں چیف جسٹس کے طور پر حلف اٹھا لیا، صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی نے چیف جسٹس نے حلف لیا-تقریب کے بعد صد رمملکت عارف علوی نے نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اعزاز میں استقبالیہ دیا ،صدر عارف علوی ،نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے نئے چیف جسٹس سے ملاقات کی اورعہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دیتے ہوئے ان کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا اتوار کے روز ایوان صدر میں چیف جسٹس کی حلف برداری کی تقریب کے بعد صدر مملکت عارف علوی کی جانب سے نئے چیف جسٹس کے لئے استقبالیہ دیا گیا جس میں نگران وزیر اعظم اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے شرکت کی ،صدر مملکت عارف علوی ،نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی نئے چیف جسٹس سے ملاقات کی ،قاضی فائز عیسیٰ کو چیف جسٹس کا منصب سنبھالنے پر مبارکباد باد دی ،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خوشگوار موڈ میں ان سے باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا اور مبارک باد پر ان کا شکریہ ادا کیا ،صدر عارف علوی نے بھی قاضی فائز عیسیٰ کےلیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف ،چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوارالحق سابق وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو چیف جسٹس پاکستان کا منصب سنبھالنے پر مبارکباددیتے ہوئے کہا کہ امید ہے کہ اب عدل کے ایوانوں میں عدل کی روایات کا ڈنکا بجے گا ،عدل آئین، قانون اور ضابطوں کی پاسداری سے ہی ممکن ہے ،عوام عدل وانصاف کی فراہمی کے منتظر ہیں ،امید ہے کہ دنیا میں پاکستان کی عدلیہ کی ساکھ اور نیک نامی میں اضافہ ہوگا،دعا ہے کہ نئے چیف جسٹس پاکستان اپنی ذمہ داریوں میں سرخرو ہوں، آمین سابق وزیر اعظم نے نئے چیف جسٹس پاکستان کے لئے نیک تمناوں کا اظہارکیاہے۔

آئیے کچھ نئے چیف جسٹس کا مختصر تعارف ہو جائے۔

، چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ 26 اکتوبر 1959 کو کوئٹہ میں پیدا ہوئے. ان کے والد مرحوم قاضی محمد عیسیٰ آف پشین، قیامِ پاکستان کی تحریک کے سرکردہ رکن اور قائداعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھی تصور کیے جاتے تھے. جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کوئٹہ سے اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کراچی میں کراچی گرامر اسکول سے اے اوراو لیول مکمل کیا جس کے بعد وہ قانون کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے لندن چلے گئے جہاں انہوں نے کورٹ اسکول آف لاء سے بار پروفیشنل اگزامینیشن مکمل کیا. چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی 30 جنوری 1985 کو بلوچستان ہائی کورٹ میں ایڈووکیٹ کے طور پر رجسٹرڈ ہوئے اور پھر مارچ 1998 میں ایڈووکیٹ سپریم کورٹ بنے. تین نومبر 2007 کو ملک میں ایمرجنسی کے اعلان کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کرنے والے ججز کے سامنے پیش نہیں ہوں گے. اسی دوران سپریم کورٹ کی جانب سے 3 نومبر کے فیصلے کو کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد اس وقت کے بلوچستان ہائی کورٹ کے ججز نے استعفیٰ دے دیا. 5 اگست 2009 کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو براہ راست بلوچستان ہائیکورٹ کا جج مقرر کردیا گیا-

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بلوچستان ہائی کورٹ، وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ میں جج مقرر ہونے سے قبل 27 سال تک وکالت کے شعبے سے وابستہ رہے انہیں مختلف مواقع پر ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ کی جانب سے متعدد مشکل کیسز  میں معاونت کیلئے بھی طلب کیا جاتا رہا. وہ انٹر نیشنل آربیٹریشن (قانونی معاملات) کو بھی دیکھتے رہے.  حلف برداری کی اس تقریب میں اپنے خطاب کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’آزاد صحافت جمہوریت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے‘۔انھوں نے کہا کہ ’آزادی صحافت کے بغیر قوم بھٹک سکتی ہے اور ملک کھو سکتے ہیں‘اپنے خطاب کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اُنھوں نے بطور وکیل 1991 میں ایک مضمون میں سرکاری ٹی وی کے خبرنامے کے بارے میں ایک مضمون لکھا تھا۔ان کے مطابق اس خبرنامے میں اس وقت کے وزیر داخلہ کے اپوزیشن لیڈر پر الزامات ٹی وی پر دکھائے گئے لیکن اپوزیشن لیڈر کا جواب نہیں دکھایا گیا۔ اُنھوں نے کہا کہ افسوس ہے کہ پاکستان میں آج بھی ایسا ہو رہا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق پاکستان میں صحافت آزاد نہیں اور رپورٹس کے مطابق آزاد صحافت میں پاکستان نچلے درجات میں ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ سنہ 2017 اور سنہ 2018 میں پاکستان فریڈم انڈیکس میں 180 ممالک میں 139 نمبر تھا جو 2019 میں 142 نمبر پر پہنچ گیا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’آزاد صحافت جمہوریت کی ریڑ کی ہڈی ہے، آزاد صحافت حکومت کی غلط کاریوں اور کرپشن کو آشکار کرتی ہے‘۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ اگر ان پر تنقید ہو تو وہ برا نہیں مانتے۔ اُنھوں نے کہا کہ اُنھوں نے فریڈم آف دی پریس کے نام سے کتاب لکھی تھی اس کے علاوہ آئین کا آرٹیکل 19 آزادی اظہار رائے کا حق دیتا ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ عوامی مفاد کے تمام معاملات میں آئین معلومات تک رسائی کا حق دیتا ہے۔اُنھوں نے کہا کہ امریکی سپریم کورٹ نے 19 سال قبل آزاد صحافت پر فیصلہ دیا تھا۔ اُنھوں نے کہا کہ جب لوگ پریس کی آزادی کے لیے جنگ لڑتے ہیں، اس کا مطلب ہوتا ہے وہ اپنے حقوق کے لیے جنگ لڑتے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ ناانصافی اور بدعنوانی کو سامنے لایا جائے

 یہاں یہ بات دل کی گہرائیوں میں اتر گئ کہ چیف جسٹس نے پو لیس کی جانب سے گارڈ آف آنر لینے سے انکار کردیا  تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائزعیسی سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کیلئے سپریم کورٹ   اپنی ذاتی گاڑی میں  پہنچے،عدالت پہنچنے پر عملے سے مکالمہ کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ آپ لوگوں کا بہت شکریہ ، آپ لوگوں کا بہت سا تعاون چاہیے ، آج میری میٹنگز اور فل کورٹ ہے،آپ لوگوں سے تفصیلی ملوں گا۔چیف جسٹس نے مزید کہا کہ لوگ سپریم کورٹ خوشی سے نہیں آتے،لوگ اپنے مسائل ختم کرنے کیلئے سپریم کورٹ آ تے ہیں,آنے والے لوگوں سے آپ لوگ مہمان جیسا سلوک کریں  . چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بلوچستان ہائی کورٹ، وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ میں جج مقرر ہونے سے قبل 27 سال تک وکالت کے شعبے سے وابستہ رہے انہیں مختلف مواقع پر ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ کی جانب سے متعدد مشکل کیسز میں معاونت کیلئے بھی طلب کیا جاتا رہا. وہ انٹر نیشنل آربیٹریشن (قانونی معاملات) کو بھی دیکھتے رہے. جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 5 ستمبر 2014 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کی حیثیت سے حلف اٹھایا. جسٹس قاضی فائز عیسٰی سپریم کورٹ میں 184 تین کے اختیارات اور بنچز کی تشکیل کے معاملے پر حکومت کی جانب سے کی گئی قانون سازی سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے عملدرآمد نہ کرنے اور حکم امتناع دینے پر بطور احتجاج پچھلے پانچ ماہ سے کوئی مقدمہ نہیں سنا اور چیمبر ورک کرتے رہے. جسٹس قاضی فائزعیسی اپنے بعض اہم فیصلوں کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں جن میں میموگیٹ کمیشن ، سانحہ کوئٹہ انکوئری کمیشن 2016، آرٹیکل 183 تین کی تجدید کا معاملہ 2018، فیض آباد دھرنا فیصلہ 2019 ، پی سی اوججزکیس اور ان کیخلاف صدارتی ریفرنس بھی شامل ہیں.میں بحیثیت ایک پاکستانی کے  دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت  جناب قاضی فائز عیسیٰ کو اپنی حفاظت اور امان میں رکھے  آمین


ہفتہ، 9 ستمبر، 2023

میں مرنے والا ہوں پلیز!

  ہاتھی ایک معزز مرتبہ والا انسان تھا لیکن اللہ کی نافرمانی کے سبب ہاتھی بنا دیا گیا -اللہ کی نافرمان قوم بارہ ہزار کی تعداد میں تھے جو بندر بنادئے گئے  لیکن عذاب کی اس شکل سے پہلے وہ تین بار سنبھلنے کا موقع دیتا ہے-دراصل گناہ انسان کی سرشت میں ہے لیکن یہی گناہ گار انسان جب اللہ کی بارگاہ میں لوٹ آتا ہے تو وہی رب اس گرے ہوئے انسان کو اٹھا کر اپنے سینے سے لگا لیتا ہے-کیا مہک بخاری اور اس کی ماں کو اللہ کریم نے سنبھلنے کا موقع نہیں دیا ہوگا -برطانیہ کے شہر لیسٹر میں عدالت نے دو نوجوانوں کے منصوبہ بندی کے تحت قتل کے جرم میں ٹک ٹاکر مہک بخاری اور ان کی والدہ عنصرین بخاری سمیت چار افراد کو عمر قید کی سزا سنا دی ہے جبکہ دیگر تین افراد کو غیر ارادی قتل کے جرم میں سزا سنائی گئی ہے۔نتاشہ اختر کو 11 برس قید، امیر جمال کو 14 برس آٹھ ماہ جبکہ صناف گل مصطفیٰ کو 14 برس نو ماہ قید کی سزا سنائی گئی ہے۔اس کیس پر کورٹ روم سے رپورٹنگ کرنے والی بی بی سی کی نامہ نگار ایملی اینڈرسن نے بتایا ہے کہ مہک اور عنصرین دونوں نے سپاٹ چہروں کے ساتھ سزا سنی اور سزا سننے کے بعد مہک بخاری نے اپنے والد کو دور سے ہی بوسہ دیا اور ان سے کہا کہ میں ’مجھے کال کریں۔‘جمعے کو اس کیس کی کارروائی کے آغاز پر وکیلِ استغاثہ کالنگ وڈ تھامسن نے قتل کیے جانے والے 21 سالہ ثاقب حسین کے اہلخانہ کے بیانات پڑھ کر سنائے جس کے بعد دوسرے مقتول ہاشم اعجاز الدین کے اہلخانہ کی جانب سے بیانات پیش کیے گئے۔

اگست 2023 کے آغاز میں مہک بخاری اور ان کی والدہ عنصرین بخاری سمیت سات افراد کو عدالت نے 21 سالہ ثاقب اور ہاشم کو فروری 2022 میں منصوبہ بندی کے تحت سڑک کے حادثے میں ہلاک کروانے کے مقدمے میں مجرم قرار دیا تھا۔جیوری نے مہک اور ان کی والدہ کے علاوہ ریحان کاروان اور رئیس جمال نامی ملزمان کو بھی قتل میں ملوث قرار دیا تھا جبکہ برمنگھم سے تعلق رکھنے والی 23 سال کی نتاشا اختر، لیسٹر سے تعلق رکھنے والے 28 سالہ امیر جمال اور 23 سالہ صناف غلام مصطفیٰ کو قتل کے الزام سے تو بری کر دیا تاہم انھیں غیر ارادی قتل میں ملوث قرار دیا گیا تھا۔پینتالیس سال کی عنصرین بخاری اور ان کی بیٹی مہک بخاری کو جیوری نے 28 گھنٹے کی مشاورت کے بعد مجرم قرار دیا تھا اور جس وقت جیوری کی جانب سے فیصلہ سنایا جا رہا تھا تو 24 سالہ ٹک ٹاک انفلوئنسر اور ان کی والدہ رونے لگی تھین ۔اس کیس کی سماعت کے دوران لیسٹر کراؤن کورٹ میں جیوری کو بتایا گیا کہ ثاقب حسین نے عنصرین بخاری کو دھمکی دی تھی کہ وہ ان کی سیکس ویڈیوز اور تصاویر کو عام کر کے ان دونوں کے افیئر کے بارے میں سب کو بتا دیں گے۔مہک بخاری کے ٹک ٹاک پر تقریباً ایک لاکھ 29 ہزار فالوورز ہیں اور وہ فیشن سے متعلق ویڈیوز پوسٹ کرتی تھیں۔ تین مہینے کی عدالتی کارروائی کے دوران یہ بات بتائی گئی کہ مہک بخاری نے ثاقب حسین کے لیے ’جال تیار کیا۔‘استغاثہ کا کہنا تھا کہ آکسفورڈ شائر سے تعلق رکھنے والے ثاقب حسین کو عنصرین بخاری سے ملاقات کا ’لالچ‘ دے کر بلایا گیا۔ انھیں یہ کہا گیا کہ انھوں نے جو تین ہزار پاؤنڈ اپنی معشوقہ پر خرچ کیے تھے وہ انھیں واپس دیے جائیں گے۔ثاقب حسین کو ان کے دوست ہاشم اعجاز الدین گاڑی چلا کر لیسٹر اس ملاقات کے لیے لے کر جا رہے تھے جب دو گاڑیوں نے ان کا تعاقب کرنا شروع کر دیا۔عدالت کو بتایا گیا کہ 11 فروری 2022 کو ہاشم اعجاز الدین کی گاڑی ایک درخت کے ساتھ ٹکرا کر دو ٹکروں میں بٹ گئی اور اس میں آگ بھڑک اٹھی۔ ریحان کاروان اور رئیس جمال تعاقب کرنے والی گاڑیاں چلا رہے تھے۔جیوری کو حادثے سے چند لمحے پہلے ثاقب حسین کی طرف سے پولیس کو کی گئی کال کی ریکارڈنگ بھی سنائی گئی تھی۔

اپنی زندگی کے آخری لمحات میں ثاقب حسین نے پولیس کی ہیلپ لائن پر کال کرتے ہوئے بتایا کہ ماسک پہنے ہوئے لوگ دو گاڑیوں پر ان کی گاڑی کو ٹکر مار کر سڑک سے اتارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔کال میں پریشان ثاقب حسین آپریٹر کو کہہ رہے ہیں ’وہ لوگ میرا پیچھا کر رہے ہیں۔ انھوں نے چہرے پر ماسک چڑھائے ہوئے ہیں۔ وہ مجھے کچلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’وہ لوگ مجھے مارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں مرنے والا ہوں، پلیز سر، مجھے آپ کی مدد کی ضرورت ہے وہ کار کو پیچھے سے ٹکر مار رہے ہیں۔ بہت تیزی سے۔ میں آپ سے التجا کرتا ہوں۔ میں مرنے والا ہوں۔کال کٹنے سے پہلے ایک زور دار چیخ بھی سنائی دیتی ہے۔عدالت کو بتایا گیا کہ ثاقب حسین اور مہک کی والدہ عنصرین بخاری کے درمیان معاشقے کا آغاز 2019 میں ہوا اور یہ تعلق جنوری 2022 میں ختم ہوگیا تھا۔استغاثہ کے وکیل کولن وڈ تھامپسن نے بتایا کہ ثاقب کے پاس عنصرین کی سیکس ویڈیوز اور تصاویر تھیں اور تعلقات ختم ہو جانے کے بعد بھی وہ بار بار عنصرین سے رابطہ کرتا رہا۔اس مقدمہ میں سوشل میڈیا انفلوئنسر مہک بخاری کو کم سے کم 31 برس اور آٹھ ماہ قید اور ان کی والدہ عنصرین بخاری کو 26 برس اور نو ماہ قید کی سزا سنائی گئی ہے۔مہک بخاری نے اپنے خلاف قتل کے دونوں الزامات کو مسترد کیا ہے-عدالت میں بتایا گیا کہ ’ثاقب حسین کا رویہ دن بدن جنونی ہوتا جا رہا تھا اور وہ عنصرین کو حاصل کرنے کے لیے غصے اور جھنجلاہٹ کا مظاہرہ بھی کرنے لگا تھا۔‘استغاثہ کے بقول ’اسی غصے کے نتیجے میں اس نے عنصرین کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی تاکہ وہ انہیں دوبارہ رابطہ بحال کرنے پر مجبور کر سکے۔‘ تھامپسن نے کہا ’وہ انہیں دھمکی دینے لگا کہ اگر انھوں نے رابطہ نہیں کیا تو وہ ان کی ذاتی تصاویر اور ویڈیوز انسٹاگرام پر شائع کر دے گا اور ان کے شوہر اور بیٹے کو بھیج دے گا۔ عدالت کو بتایا گیا کہ عنصرین کی بیٹی کو اس افیئر کے بارے میں معلوم تھا اور جب انھیں بلیک میلنگ کے بارے میں پتا چلاتب انہوں نے ثاقب کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا اور اس کی جان لے لی 

اتوار، 3 ستمبر، 2023

ایک محبّت کی امر کہانی


 کہتے ہیں محبت  کے دریا  کے سوتے کبحی خشک نہیں ہوتے ہیں -بتایا جاتا ہے وجے لکشمی کے والد موتی لال نہرو  ایک کشمیری پنڈت کمیونٹی سے تعلق رکھتے تھے،موتی لعل نہرو کی پہلی بیوی   اپنے پہلے بچے کی ولادت کے ساتھ آنجہانی ہو گئ تھیں -اس  کے بعد موتی لعل نہرو نے دوسری شادی کی - دوسری بیوی سے جواہر لعل نہرو تین بچوں سب سے بڑےتھے، جواہر لعل کے بعد وجے لکشمی کا نمبر تھا   اور  جب وجے لکشمی انیس برس کی ایک جازب نظر تعلیم یافتہ  دوشیزہ بن کر ہندوستان کی سیاست میں قدم رکھ رہی تھی  اس کے گھر میں کلکتہ سے  ایک خوبرو اعلیٰ تعلیم یافتہ صحافی  مہمان بن کر آیا وہ چونکہ مہمان بن کر آیا تھا اس لئے اس کی میز بانی وجے لکشمی کے حصے میں آئ اور کچھ ہی عرصہ  میں وجے نے سید حسین کے سامنے شادی کا مطالبہ رکھ دیا سید حسین مسلمان تھا اور یہی بات وہ وجے کو سمجھاتا رہا کہ ایک ہندو لڑکی کے ساتھ اس کی شادی نہیں ہو سکتی ۔ مگر وہ دیوانی ہو چکی تھی اور اُسے پانے کو اسلام قبول کرنے کے لیے بھی تیار ہو گئی۔ جب لکشمی نے شادی نہ ہونے کی صورت میں خود کشی کرنے کی دھمکی دی تو سید حسین کا دل بھی موم ہو گیا ۔ اُس نے وجے کو ساتھ لیا جس نے مولانا سید فاخر حسین الہ آبادی کے ہاتھوں اسلام قبول کیا ۔ اس کے بعد دونوں کا نکاح ہوا ، یوں وجے لکشمی سے وہ عائشہ حسین ہو گئی ۔ سید حسین نے موتی لال کے اخبار کی ملازمت چھوڑ دی اور اپنی بیوی کو ساتھ لے کر کلکتہ آ گئے ۔ یہاں وہ ”کامریڈ ” کے ایڈیٹر بن گئے ۔ ہندوستان میں وجے لکشمی کے مسلمان ہونے اور شادی کی خبر آناً فاناً پھیل گئی تھی ۔

نہرو خاندان کے ساتھ ساتھ مہاتما گاندھی ، ولبھ بھائی پٹیل اور ڈاکٹر راجندر پرشاد نے اپنا سر پیٹ لیا ۔ ان میں شری راج گوپال اچاریہ تنہا تھے جس نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ آل انڈیا نیشنل کانگریس میں سیکولر قانون موجود ہے ، لکشمی کے مسلمان ہونے کا غم نہ کر یں ورنہ کانگریس ہی توڑ ڈالو ۔ یہ وہی راج گوپال تھے جو ماونٹ بیٹن کے بعد آزاد بھارت کے پہلے گورنر جنرل بنے لیکن مسّلہ کشمیر پر نہرو سے اختلاف ہوا تو سال بعد مستعفی ہو گئے تھے ۔ مہاتما گاندھی نے اس شادی کے مسّلہ پر موتی لال اور جواہر لال سے خفیہ صلاح مشورے کیے ۔ اُنہوں نے منصوبہ کے مطابق اس شادی پر رضا مندی کے لیے سید حسین کے سامنے انگریزی میں امریکہ سے پی ایچ ڈی کرنے کی شرط رکھی اور ساتھ ہی خرچہ اٹھانے کی حامی بھری ۔ دراصل چال یہ تھی کہ جونہی وہ امریکہ چلا جائے تو موتی لال فوراً اپنی بیٹی کو کسی ہندو سے بیاہ دیں گے ۔ صرف یہی نہیں بلکہ بابو راجندر پرشاد کو بھی امریکہ جانے کے لیے تیار کیا کہ وہاں امریکی حسینائیں سید حسین کی قربت میں آکر اُسے واپس ہندوستان نہ آنے دیں ۔

مہاتما اپنی چال میں کامیاب ہوئے ، سید حسین نیو یارک چلے گئے ۔ عائشہ ( وجے لکشمی ) بڑی روئی اور شوہر کو جانے سے آخری وقت تک روکتی رہی ۔ ایک سال بعد سب نے مل کر لکشمی کو سمجھایا کہ اُسے بھارت ماتا کی آزادی کے لیے سیاسی کردار ادا کرنا ہے ، آزادی کے بعد یو پی کی گورنر بنو گی لہذا سید حسین کا خیال چھوڑ دو ۔ وجے لکشمی نے اپنی ممکنہ حد تک انکار کیا مگر اس کی شادی زبردستی رنجیت سیتا رام ایڈووکیٹ سے کر دی ۔ بیگم عائشہ حسین پھر ہندو ہو گئی ۔ اُدھر سید حسین نے ڈیڑھ سال میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی اور راجندر پرشاد کی سازش سے کیلیفورنیا یونیورسٹی میں اُسے ہندوستانی تاریخ و ثقافت کا پروفیسر مقرر کر دیا گیا ۔ وقت گزرتا رہا ، لکشمی کے ہندو شوہر کو کسی ذریعہ سے معلوم ہوا کہ اس کی بیوی اب بھی ڈاکٹر سید حسین سے عشقیہ خط وکتابت کرتی ہے ۔ اس صدمہ سے بیمار رہنے لگا اور  کچھ عرصہ میں انتقال کر گیا ۔ اب موتی لعل آنجہانی ہو چکے تھے بڑ ے، بھائی جواہر لال انگریز کی قید میں تھے ،شوہر کا بھی  انتقال ہو گیا  تو  وجے لکشمی امریکہ چلی گئی ۔ وہاں دونوں محبت کرنے والے آپس میں ملے   لکشمی پھر مسلمان ہو گئی اور دونوں پھر ساتھ رہنے لگے ۔لیکن مہاتما گاندھی اور جوہر لعل نہرو کا خفیہ فیصلہ تھا ان دونوں کو ساتھ نہیں رہنے دینا ہے اس لے زبردستی  پریشر ڈال کر دونوں کو ہندوستان واپس بلا گیا اور  آزادی سے قبل جواہر لال کے کہنے پر دونوں واپس لوٹ آئے ۔

اب وہ دونوں مل کر ہندوستان کی آزادی  کی جدوجہد میں حصہ لینے لگے لیکن پنڈت جواہر لعل نہرو اور گاندھی جی کا متفقہ  فیصلہ تھا دونوں کی قربت کو  ختم کرنا لازمی ہے اس منصوبہ کے تحت وجے لکشمی  کو  روس میں اور ڈاکٹر سید حسین کو مصر میں بھارت کے سفیر مقرر کیا گیا ۔سید حسین کی مصر میں وفات3- مارچ 1948 کو سید حسین نے مصر کے شہنشاہ ایم ایم فاروق کو اپنی اسناد پیش کیں انھیں روایتی طور پر چار گھوڑوں والی گاڑی میں مصر کے شہنشاہ کے عابدین محل میں لے جایا گیا۔ان کے جلوس میں مصری فوج کے تقریباً 100 گھڑ سوار شامل تھے۔ جیسے ہی وہ محل کے قریب پہنچے تو شہنشاہ کے محافظوں نے انھیں گارڈ آف آنر دیا۔قاہرہ میں قیام کے دوران سید نے گھر پر قیام نہیں کیا اور شیفرڈ ہوٹل میں قیام کرتے رہے۔حسین کے مصر میں قیام کے دوران ان سے ملنے کے لیے جواہر لال نہرو، وجے لکشمی پنڈت اور ان کی بیٹیاں چندرلیکھا اور نینتارا وہاں گئیں۔ لیکن ایک سال کے اندر ہی سید حسین کا اچانک دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوگیا۔ اس وقت ان کی عمر 61 سال تھی۔انھیں مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں پورے فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔مصری حکومت نے ایک گلی کا نام ان کے نام پر رکھا ہے۔انڈیا کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو مئی 1949 میں قاہرہ گئے اور سید حسین کی قبر پر پھول چڑھائے۔کچھ دنوں بعد وجے لکشمی پنڈت اقوام متحدہ میں ہندوستان کی مستقل نمائندہ بن گئیں۔نیویارک کے سرکاری دوروں کے دوران وہ اکثر قاہرہ میں رکتیں اور سید حسین کی قبر پر پھول چڑھاتیں۔لیکن اس تقرری کے ایک سال کے اندر ڈاکٹر سید  حسین کا انتقال  دل کے دورے کے سبب ہوا تو قریبی دوست جمال عبد الناصر کی ہدائت پر  سید حسین کی قاہرہ میں ہی  تدفین کی گئ -وجے لکشمی کو روس میں جب سید حسین کی وفات کی اطلاع ملی  تو اس کی قبر پر پہنچی اور قبر سے لپٹ کر اس طرح روئ کہ وہاں موجود ہر شخص آ بدیدہ ہو گیا *قاہرہ سے واپس آکر رشیا میں  وجے لکشمی نے  اپنا استعفےٰ دے دیا اور باقی ماندہ عمر اپنے بڑے بھائ  جواہر لعل نہرو کے گھر میں گزاری   کہتے ہیں سید حسین کے انتقال کے وقت وجے لکشمی کی زیادہ عمر نہیں تھی لیکن اپنی باقی ماندہ عمر اس  نے سید حسین کے نام کی مالا جپتے ہوئے گزار دی -بتایا جاتا ہے کہ وجے جب تک زندہ رہی پابندی سے سیدحسین کی قبر پر پھولوں کا نذرانہ چڑھانے شوہر کی پر شکوہ قبر پر جایا کرتی تھی -یہ قبر بھی وجے کی خواہش پر تعمیر کی گئ تھی جو آج بھی پر شکوہ ہے 

بدھ، 30 اگست، 2023

اگر آپ کا بچّہ سوتے میں دانت پیستا ہے

 اگر آپ کا بچّہ سوتے میں دانت پیستا ہے تو اس بات کو نظر انداز نہیں کیجئے کیونکہ یہ علامت ہے کہ بچّے کے پیٹ میں کیڑے اس کو سوتے میں بے چین کر رہے ہیں -کیڑوں کی لاتعداد قسمیں ہیں -جن کی نشاندہی کچھ یوں ہو ں ہوتی ہے -پن کیڑے کے انفیکشن کی بنیادی علامات : خارش زدہ اینل ایریا چڑچڑاپن، بے چینی، بے خوابی، اور دانت پیسنا-متلی اور کبھی کبھار پیٹ میں دردان افراد میں پن وورم ہوتا ہے ان میں کوئی خاص علامات نہیں واضح ہوتی ہیں۔تمام دنیا میں ترقی پذیر ممالک میں بچوں کے پیٹ میں کیڑے ہونا ایک عام مرض شمار کیا جاتا ہے اور طبی ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ پانچ سے نوسال کے عمر کے بچوں میں عام طور پر بیس تا چالیس فیصد بچوں کے پیٹ میں بھی کیڑے اکثر پیدا ہوجاتے ہیں۔پیٹ کے کیڑے معدے میں، آنتوں کی دیوار پر موجود ہوتے ہیں۔ پیٹ کے کیڑے بہت زیادہ تکلیف پیدا کرتے

پیٹ کے کیڑے بھی مختلف اقسام کے ہوتے ہیں اور ان کو کسی صورت بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے۔ اکثر دوسال یا پھر اسکے قریب کی عمر کے بچوں میں یہ کیڑے عام طور پر فضلے میں دھاگے کی صورت میں نظر آتے ہیں۔پن کیڑا انفیکشن آنتوں کا کیڑا ہے اور دنیا بھر میں سب سے عام انفیکشن ہے۔ وہ سفید، پتلے اور لمبائی میں تقریباً ½ سے ¼ انچ کے ہوتے ہیں۔ورم، اور راؤنڈ ورم ہیں۔ وپ وورم-وپ وورم کے انفیکشن سے مراد ایک بڑی آنت کا انفیکشن ہے جو ۔ انفیکشن فضلے والا پانی پینے سے یا آلودہ گندگی والی جگہ رہنے سے پیدا ہوتا ہے۔یہ انفیکشن ان بچوں اور لوگوں میں عام ہے جو ان علاقوں میں رہتے ہیں جہاں صفائی یا حفظان صحت کا انتظام نہیں ہے۔گرم یا مرطوب آب و ہوا کے علاقوں میں رہنے والے افراد کو بھی اس کیڑے کا انفیکشن ہو سکتا ہے۔ یہ انفیکشن جانوروں میں بھی عام ہے جن میں کتے اور بلیاں شامل ہیں۔منقسم، چپٹے کیڑے بعض جانوروں کی آنتوں میں موجود ہوتے ہیں۔ جانور گندا پانی پینے یاآلودہ چراگاہوں میں چرنے کے دوران ان سے متاثر ہو جاتے ہیں۔

اکثرلوگوں کو یہ انفیکشن ان متاثرہ جانوروں کا کم پکا ہوا گوشت کھانے سے ہوتا ہے۔ انفیکشن کو سمجھنے کے لیے چند علامات ہیں-اور اس کی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں کمزور مدافعتی نظام-کچا گوشت یا پوری طرح نہ پکا ہوا کھاناناکافی صفائی اور حفظان صحت کا خیال نہ رکھنا-آلودہ پانی پینا-پیٹ کے کیڑے کے انفیکشن کی وجوہات و مختلف علاماتقے-کیڑا منہ یا ناک سے نکلتا ہے۔بڑھنے میں ناکامی یا جلدی وزن میں کمیگھبراہٹ-متلی--کمزوری-پیٹ کا درد-وٹامن اور منرل کی کمی-بھوک نہ لگنا یا اچانک بھوک لگنا-بخار-سر درد-پشاب کو کنٹرول کرنے میں ناکامی۔اسہال کے ساتھ خون آنا-وزن میں کمی۔
راؤنڈ ورم انفیکشن ایک قسم کی بیماری ہے جو پیراسائٹ کی وجہ سے ہوتی ہے۔ گول کیڑے کے انڈے آلودہ مٹی میں رہتے ہیں اور مٹی کھانے کی وجہ سے منہ کے ذریعے جسم میں داخل ہوتے ہیں۔ انفیکشن ایک سے دوسرے میں متاثرہ پاخانے کے ذریعے پھیل سکتا ہے۔پیٹ کے کیڑوںگول کیڑے کی زندگی تقریباً دو سال ہوتی ہے۔ یہ موٹا ہوتا ہے اور تقریباً 13 انچ بڑھ سکتا ہے۔ مادہ گول کیڑے روزانہ تقریباً 200000 انڈے دیتی ہیں۔بچے کافی متحرک اور انرجی سے بھرپور ہوتے ہیں اور جراثیم سے جلدی اثر قبول کر لیتے ہیں۔ بچوں میں پیٹ کے کیڑے ہونے کی چند وجوہات درج ذیل ہیں۔متاثرہ پانی یا خوراک کا استعمال پیٹ کا الٹراساؤنڈ آنتوں کے کیڑے کے انفیکشن کی حرکت کو پکڑنے کے لیے استعمال ہوتا ہے

 برسات کے موسم  میں انفیکشن اور پیٹ اور انتڑیوں کی بیماریاں عام ہوتی ہیں۔امریکی ماہرین صحت کے مطابق ہمارے پیٹ میں انتہائی خطرناک کیڑے (انہیں عرف عام میں طفیلیے) بھی کہا جاتا ہے، پرورش پاتے رہتے ہیں۔اس کے علاوہ زہریلا مواد بھی جسم میں مختلف ذرائع سے داخل ہوتا ہے۔یہ کیڑے اور زہریلا مواد ہمیں مختلف طرح کی بیماریوں میں مبتلا کرتاہے۔بعض اوقات یہ بیماریاں اس قدر خطرناک ہوجاتی ہیں کہ اس سے دل یا دماغ بھی متاثر ہوسکتا ہے۔اطمینان بخش بات یہ ہے کہ قدرت نے ایسی سبزیاں اور اجزاء بنائے ہیں جن کے استعمال سے ہم ان طفیلیوں سے بآسانی نجات حاسل کرسکتے ہیں۔آئیے آپ کو انغذاؤں کے بارے میں بتاتے ہیں۔-

یہ ایک ایسی مفید اور کارآمد جڑ یا سبزی ہے کہ اس کے استعمال سے ہمارا جسم کئی طرح کے خطرناک کیڑوں سے پاک ہوجاتا ہے۔قدرت نے اس میں یہ صلاحیت رکھی ہے کہ یہ نہ صرف جسم کو خطرناک کیڑوں سے پاک کرتا ہےبلکہ یہ مدافعتی نظام کو بھی مضبوط بناتا ہے۔یہ سبزی ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بھی مفید ہے۔ طبّی ماہرین کے مطابق پیاز کا گلیسیمک انڈیکس 10 سے کم ہے جو ذیابیطس کے مریضوں کے لیے اچّھا ہوتا ہے، اس میں بہت کم کاربس اور کثیر مقدار میں فائبر موجود ہوتا ہے۔پیاز میں فائبر اور پری بائیوٹک کی خاصی مقدار قدرتی طور پر شامل ہے جو آنت کی صحّت کے لیے فائدہ مند ہے۔ پیاز کھانے سے ہمارا نظامِ ہاضمہ بھی بہتر طریقے سے کام کرتا ہے، اس سے کولیسٹرول کی سطح کنٹرول ہوتی ہے۔پیاز سے ہائی بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے میں مدد مل سکتی ہے، اس میں پوٹاشیم ہوتا ہے جو بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔طبّی ماہرین کے مطابق پیاز کی ایک خصوصیت جسم کو ٹھنڈک پہنچانا ہے۔ یہ جسم کے درجہ حرارت کو متوازن بنانے میں مدد دیتی ہے۔ پیاز کو سلاد کے طور پر کچّا کھایا جاسکتا ہے، پیاز ہمارے جسم کی وٹامن سی کی ضرورت بھی پوری کرتی ہے-لہسن  حیرت انگیز تعداد میں غذائی اجزاء اور اینٹی آکسیڈینٹ فراہم کرتا ہے۔ کچا یا پکا ہوا لہسن کھانے سے جسم کو وٹامنز، منرلز، مینگنیز، زنک، سلفر، آئرن، پوٹاشیم، کیلشیم، سیلینیم اور دیگر ضروری غذائی اجزاء حاصل ہوتے ہیں- یہ ایک ایسی مفید اور کارآمد جڑ یا سبزی ہے کہ اس کے استعمال سے ہمارا جسم کئی طرح کے خطرناک کیڑوں سے پاک ہوجاتا ہے۔قدرت نے اس میں یہ صلاحیت رکھی ہے کہ یہ نہ صرف جسم کو خطرناک کیڑوں سے پاک کرتا ہےبلکہ یہ مدافعتی نظام کو بھی مضبوط بناتا ہے۔ 
 

منگل، 29 اگست، 2023

حضرت ” ابو طالب “ رئیس بطحا

   جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  دنیا میں تشریف لآئے تو والد بزرگوار کا سایہ تو پہلے اٹھ چکا تھا ۔ ولادت کے چھ سال بعد مہربان ماں حضرت بی بی آمنہ  کا بھی سایہ سر سے اٹھ گیا توحضرت  ”عبد المطلب نے “ حضرت محمّد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم  کو اپنی مہربان آغوش میں سمیٹ لیا  لیکن ابحی آپ کی عمر مبارک آٹھ برس ہوئ تھی  ھضرت عبد المطلب  کا بھی انتقال ہو گیا -اور پھر آپ ھضرت ابو طالب کی  سایہ عاطفت میں آ گئے-ھضرت ابو طالب  ھضرت عبد اللہ کے حقیقی بڑے بھائ تھے -آپ کا تمام قبیلہ اور خود آپ قبیلہ قریش کے انتہائ امیر کبیرشخصیت تھے یہاں تک کہ آپ کا لقب ہی رئیس بطحا ء ہو گیاتھا  ۔حضرت  عبد اﷲ کا انتقال حضرت رسول خدا کی ولادت سے پہلے حضرت عبد المطلب کی زندگی میں ہوا تھا  -یہاں سوچنے کا مقام ہے کہ فرعون کے گھر میں  جناب موسیٰ پہنچتے ہیں تو بی بی آسیہ جیسی مومنہ کی آغوش عطا ہوتی ہے تو اللہ کا محبوب نبی نعوز باللہ ایک کافر کی گود میں دے دیتا ہے '-یہ سب بنو امیّہ کا وہ پھیلایا ہوا پروپیگنڈا تھا جس کی برسہا برس اس طرح تشہیر کی گئ جس نے سچ کو جھوٹ کے پردے میں ڈھانپ دیا - آپ کی حفاظت کی ذمہ داری حضرت ابو طالب نے سنبھالی اور آخری سانس تک آپ کا ساتھ دیا ۔ ہر مشکل وقت میں مشکلات کے آگے آپ کے لئے سپر بنے رہے ۔ فقط خود یہ کام انجام نہ دیا بلکہ اپنے بھائیوں اور بیٹوں کو بھی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی حفاظت کرنے کی نصیحت کرتے تھے ۔ 

 اور سیدنا حضرت ابو طالب   ؑ نے آپ ؐ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت و خدمت گزاری کا حق ادا کر دیا۔اپنے بچوں سے بڑھ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیار فرمایا۔ایک لمحہ بھی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیا۔رات اپنے پہلو میں سلایا۔کھانے کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؐ سے پہلے کسی کو کھانا نہ کھانے دیا۔قلتِ خوراک ہوئی تو اپنی اولاد کو بھوکا رکھا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سیر فرمایا۔ قادرِ مطلق نے اسی آغوشِ سیدنا حضرت ابو طالب   ؑ کا قرآنِ مجید میں ذکر فرماتےہوئے  اپنی آغوشِ رحمت سے تشبیہ دی ہے۔  ۔ آپ (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت باسعادت سے پہلے سید العرب حضرت عبدالمطلب  کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشارت دی گئی

’’ اَنَّ عَبْدُالْمُطَّلِبْ رَأیٰ فِیْ مَنَامِہٖ کَانَ قَاءِلاً یَقُوْلَ لَہُ: اِبْشِرْ یا شَیْبَۃِالْحَمْد بِعَظِیْمِ الْمَجْدِ بِاَکْرَمِ وُلْدٍ، مِفْتَاحُ الْرُّشْدِ،لَیْسَ لِلْاَرْضِ مِنْہُ مَنْ بِدُّ‘‘دادا حضور حضرت عبدالمُطّلب ؑ  نے بعالمِ رؤیا ملاحظہ فرمایا کہ کہنے والے نے اُن سے کہا، جنابِ شَیْبَۃِالْحَمْد آپ کوعدیم النظیر، سرچشمہء رشد وہدایت مکرم فرزندکے عظیم الشان شرف و مجد کی بشارت ہو ۔دادا حضور حضرت عبدالمُطّلب ؑ کے انتقالِ پر ملال کے بعد نورِ رسالتؐ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کے لیے سیدنا ابو طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ؑ کمربستہ ہوگئے - فضائل و مناقب اور شان و عظمت محسنِ اسلام سیدنا ابو طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ:* سیدنا ابو طالب   کی رفاقت و نصرت اسلام کا محکم حصار بن گئی- سیدنا ابو طالب ؑ ،جنہوں نے شجر اسلام کی آبیاری کی۔جن کی قربانیوں سے محسنِ انسانیت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بازو مضبوط ہوئے۔سیدنا ابو طالب   ؑ ،جن کے آہنی ارادوں اور کارگزاریوں سے جمعیتِ کفار و مشرکین لرزہ براندام رہی- سیدنا ابو طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ؑ ،جن کی حکمتِ عملی سے کفار کی نیندیں حرام تھیں -سیدنا ابو طالب ؑ جو گلشنِ رسالت کی حفاظتی دیوار تھے۔سیدنا حضرت ابو طالب جو حضور ؐ کے شفیق تایااور کفیل تھے۔ سیدنا ابو طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو مولائے کائنات علی مرتضیٰ ؑ شیر خدا ،جعفر طیّا ر ؑ اور عقیل ؑ کے والد تھے۔سیدنا ابو طالب ،جو سید الشہدا امیر حمزہ ؑ ،شیر رسالت کے بھائی تھے۔

 طیبہ طاہرہ شہزادئ کونین حضرت خاتون جنت بی بی فاطمتہ الزہرہ سلام اللہ   جن کی بہو ھیں۔ سیدنا ابو طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہؑ ،جو حسنین کریمین ؑ۔ سیدنا ابو طالب   جن کی اولاد نسبِ رسول ؐ ہے۔ سیدنا ابو طالب جنہوں نے  اپنے فرزند اسلام پہ قربان کر دیے۔ وہ فرزندجو حافظِ قرآن و حدیث،شب بیدار،تہجدگزار،عابد،زاہد،عالم،فقیہ،محدث اور مفسر قرآن و شارح اسلام تھے۔ جن کی آغوش کو ذاتِ قدرت نے  پناہ قرار دیا وہ سوائے سیدنا ابو طالب ؑ کے اور کون ہے؟ سیدنا ابو طالب رضی نے آنحضرت ؐ کے لیے جو جانثاری فرمائی ،اس سے کون انکار کر سکتا ہے۔اپنے جگر گوشے آپ ؐ پہ نثار کر دیے ۔آپ ؐ کی محبت میں تمام عرب دشمن بنالیافاقےاٹھائے،شہر بدر ہوئے،تین برس تک آب و دانہ بند رہا۔ مقاطعہ قریش میں حصارِ رسالتؐ کے لیے شعبِ ابی طالب ؑ سے کون واقف نہی اور  پیارے مصطفٰی ؐ کے بستر پر حضرت علی مرتضٰی ؑ شیرِخُدا اور حضرت جعفرطیار کو سلا کردشمنانِ اسلام کی تلواروں کے سامنے اپنے لختِ جگر پیش کرنے والے سیدنا ابو طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ؑ کے علاوہ اور کون ہیں۔  شہنشاہِ انبیا و مرسلین ؐ کے غمگسار و محافظ،سیدنا ابوطالب ؑ کے فضائل و مناقب اور شان و عظمت کون بیان کر سکتا ہے؟

* ناصر رسولؐ ونکاح خوانِ رسالتؐ حضور نبی کریم حضرت محمد صلّی اللہ علیہ وا ٰ لہ وسلّم حضور نبی کریم ؐ کادنیاوی سن اقدس پچیس برس ہوا تو آپ ؐ نے مَلِیْکَۃُالْعَرَبْ،اُمّ الْزَّھْراؑ ،اُمَّ الْمُؤمِنِیْن سیدہ خُدَیْجَۃُالْکُبْریٰ صلوٰۃاللہ و سلامہ علیہا سے عقد فرمایا۔جناب ابو طالب  نے نکاح کے خطبے کا ایسے آغاز کیا:تمام تعریف اس خدا کے لیے ہے کہ جس نے ہمیں نسل ابراہیم اور اسماعیل کی اولاد سے قرار دیا ہے اور ہمارے لیے ایسے گھر (خانہ کعبہ) کو قرار دیا ہے کہ جس  گرد لوگ طواف کرتے ہیں اور وہ پر امن حرم قرار دیا ہے کہ تمام دنیا سے نعمتیں اسکی طرف لائی جاتی ہیں اور ہمیں اپنے دیار میں لوگوں پر حاکم قرار دیا ہے، پھر کہا: یہ میرا بھتیجا محمّد ابن عبد اللَّه ابن عبد المطّلب ہے، اسکا قریش میں جس کسی سے بھی موازنہ کیا جائے گا تو یہ اس  سے بہتر ہو گا اوراس شادی کا  حق مہر جو بھی ہو گا، وہ میرے ذمہ پر ہو گا، چاہے وہ مہر نقد ہو یا ذمہ پر ہو، اس طرح بی بی خدیجہ سلام اللہ علیہا حضور انور حضرت محمد صلّی اللہ علیہ وا ٰ لہ وسلّم کے عقد میں آئیں

جناب ابو طالب، رسول خدا سے اتنی زیادہ محبت و مودت کا اظہار فرماتے کہ اپنی اولاد سے بھی اتنی محبت نہیں کرتے تھے۔ آنحضرت کو اپنے پاس سلاتے اور جب کہیں باہر جاتے تو انھیں بھی ساتھ لے جاتے اور آپ  سے اس درجہ محبت کرتے کہ کسی اور سے اتنی محبت نہ کرتے اور آپ  کے لئے بہترین غذا کا انتظام کرتے تھے۔  ابن عباس اور دیگر اصحاب کا بیان ہے کہ جناب ابو طالب رسول خدا سے بے حد محبت کرتے تھے اور آنحضرت کو اپنے بچوں سے زیادہ دوست رکھتے اور آپ کو ان پر مقدم کرتے تھے۔ اسی لئے آنحضرت سے دور نہ سوتے اور جہاں بھی جاتے تو آپ  کو بھی اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔  علامہ مجلسی(رح) نقل کرتے ہیں: جب رسول خدا اپنے بستر پر سو جاتے اورگھر کے سارے افراد بھی سوجاتے تھے تو جناب ابو طالب- آپ و آہستہ سے جگاتے اور آنحضرت کو حضرت علی کے بستر پر لٹاتے اور آپ  کو نبی کریم کے بستر پر سلاتے۔ جناب ابو طالب اپنے فرزند اور بھائیوں کو رسول خدا کی حفاظت پر لگاتے تھے۔ 

یعقوبی کا بیان ہے: رسول خدا سے مروی ہے کہ جناب ابو طالب   کی زوجہ محترمہ، جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا بنت اسد،  جو ایک مسلمان اور عظیم المرتبت خاتون تھیں ان کی وفات پر آپ  نے فرمایا: ’’الیوم ماتت امی‘‘ آج میری ماں نے وفات پائی ہے۔ اور آپ نے انہیں اپنے پیراہن کا کفن دیا اور قبر میں اترے۔ کچھ دیر لحد میں سوئے۔ جب وہاں موجود لوگوں نے آپ سے اس کا سبب دریافت کیا کہ آپ  جناب فاطمہ  بنت اسد کی وفات پر کیوں اتنے مغموم و محزون ہیں؟ تو آپ  نے فرمایا: وہ واقعاً میری ماں تھیں اس لئے کہ وہ اپنے بچوں کو بھوکا رکھ کر مجھے سیر کرتی تھیں۔ انہیں غبار آلود رہنے دیتی اور مجھے صاف ستھرا اور پاکیزہ رکھتی تھیں وہ واقعاً میری ماں تھیں۔  جناب ابو طالب، رسول خدا کی پچاس سال تک ہر لمحہ آپ کی نصرت و حمایت کرتے رہے اور ہر احتمالی خطروں سے رسول خدا کی حفاظت میں اپنے فرزندوں کی جان کی بازی لگا دی اور اتنی فدا کاری و قربانی دی کہ ملائکہ اور جبرئیل بھی اس پر فخر و مباہات کرتے تھے۔

اتوار، 27 اگست، 2023

لاوڈ اسپیکر کی دہشت گردی


 سنا ہے جس بندے کی گستاخ تحریراور تصویر ملی ہے وہ بیچارہ ان پڑھ ہے جس کو پڑھنا نہیں آتا وہ لکھنا کیاجانے -اب یہ جنونی وحشی ہجوم کو کون سمجھائے-کیونکہ سمجھایا تو انسانوں کو جاتا ہے وحشیوں اور جنونیوں کو نہیں اور اب ہم ایک جنگلی اور وحشی ہجوم ہیں -ہم نے جڑنوالہ کی بے گناہ لوگوں کے گھر املاک اور زندگی بھر کی جمع پونجی خاکستر کر کے پکی اسلامی  قوم بن گئے ہیں -ہم سے ملک کے طول و عرض کا  پولیس جیسا محافظ ادارہ بھی اس قدر ڈرتا ہے کہ وہ جلائ جانے والی بستی کی حفاظت کے بجائے بستی والوں سے کہتا ہے کہ جانیں بچانا ہے تو آدھے گھنٹے میں بستی خالی کر دو اور پھر وحشی ہجوم خواتین کو دوپٹّے اور پاوں کی جوتی بھِی لینے کی مہلت نہیں دیتا ہے اوروحشی ہجوم  ہلّہ بول دیتا ہے اور خواتین جوتی اور دوپٹّے کے بغیر بچّے لے کر بستی سے بھاگتی ہیں -یہاں پولیس شاباش کی مستحق ہے جس نے جانیں بچانے کا اہتمام تو کیا -اب جنونی ہجوم ہے پٹرول کے ڈبّے ہیں اور اس بستی کو بھسم کرنا ہے جو صبح سے لے کر رات گئے تک رزق حلال کماتا ہے اور بال بچوّں کا پیٹ بھرتا ہے اب بستی بھسم ہو چکی ہے جنونی فاتح اسلامی ہجوم شہروں -شہروں بستیاں  بھسم کر کے فتح کا جشن منانے جا چکا ہے اور مجبور بے بس جلی ہوئے مکانوں کے مکین کھیتوں میں زمین پر زمینی حشرات کے ساتھ  بیٹھے اپنی بے بسی پر ماتم کناں ہیں ناجانے ان کو کھانا ملا کہ نہیں پینے کو پانی ملا کہ نہیں -پولیس نے جانیں بچانے کا فرض تو پورا ہی کر دیا تھا اب پولیس نے کسی اجڑے ہوئے کے کھانے پانی کا ٹھیکہ تو نہیں لیا ہوا ہے 

ابھی عوام بھولے تو نہیں ہوں گے -احمد پور شرقیہ کے نزدیک الٹنے والے آئل ٹینکرجو 40 ہزار لیٹر پیٹرول سے لدا ہوا احمد پور شرقیہ ہی میں آئل ٹینکر الٹنے کے بعد دھماکے سے پھٹ گیا تھا، اس حادثے میں  معلوم ڈھائ سو افراد جھلس کر جاں بحق ہو گئے تھے۔ اورٹینکر ایسی جگہ الٹا جہا ں سڑک کے ساتھ نشیبی زمین تھی   بس اسی نشیب میں تمام پٹرول جمع ہو گیا اور پھر علاقے کے ملّا جی نے مسجد سے پٹرون کا تالاب بھرے جانے کے علاقے کے لوگوں کو اطّلاع دیتے ہوئے اعلان کیا کہ اپنے اپنے برتن لے آو اور پٹرول لے جاو بس پھر عورتیں بچّے بڑے جس سے جو ہوسکا وہ پٹرول کے تالاب کی جانب دوڑ پڑےبعض خواتین گود کے بچّے اور برتن سمیت پٹرول کی بہتی گنگا سے اپنا حصّہ وصول کرنے آئ تھیں جب مجمع لگ بھگ ڈھائ سو کے قریب پہنچ گیا تب وہا ں ایک انسان کے روپ میں موت کا فرشتہ آں پہنچا -سڑک کے کنارے آکر اس نے سگرٹ جلائ اور ماچس کی جلتی تیلی پٹرول کے تالاب میں بے نیازی سے پھینک دی- بس  سرخ آگ کا ایک بڑا شعلہ لپکا اور قیامت خیز چیخو ں کی آواز چند سیکنڈ میں فضاوں میں گم ہو گئیں شعلہ بجھ گیا پٹرول کے تالاب کے مقام پرڈھائ سو جلی ہوئ مسخ شدہ چھوٹی بڑی لاشیں تھیں اوراعلان کرنے والا ملّا ناجانے کہاں جا چکا تھا-

اب لاوڈ اسپیکر کی ایک اور دہشت گردی  ایک شہر میں شیعہ خاتون کا انتقال ہو گیا جنازہ ہوا اور قبرستان کی منزل پر پہنچا دیا گیا -قبرستان سے واپسی پرمسجد سے ملّا جی اعلان کیا جس 'جس نے شیعہ عورت کا جنازہ پڑھا ہے اس کا نکاح ختم ہو چکا ہے -اور پھر بستی کے پچاس لوگوں نے شام تک دوبارہ نکاح پڑھوائے -مسجد سے اعلان کرنے والے ملّا کوپکڑ کر قرار واقعئ سزا دی جاتی تو آگے کا راستہ بند ہوسکتا تھا 

لاوڈ اسپیکر کی  دہشت گردی

ایک بات اور بتاتی چلوں جب جڑانوالہ میں گھر جل رہے تھے، پاکستان کی آزادی والی ٹی شرٹ پہنے بچہ ماں کو تسلی دے رہا تھا، جب ہم پھاڑ کے رکھ دیں گے کہ ترانے چلا رہے تھے تو کسی سیانے نے کہا چلو تحریک لبیک نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کر دیا۔میں بھی لاوڈ اسپیکر کی دہشت گردی کی بات کرتے ہوئے کہا ں نکل گئ -ایک مسیحی کا کہنا ہے ہر چیز بلکل ٹھیک جا رہی تھی کہ علی الصبح فجر کے وقت مسجد سے اعلان ہوا کہ قران کے اوراق جلائے گئے ہیں -اور پھر عوام کی غیرت کو للکارا بس پھر کیا تھا ان کا کہنا تھا کہ 'فجر کی نماز کے بعد اس واقعے کی اطلاع ملنے پر مشتعل افراد کی بڑی تعداد علاقے میں جمع ہو گئی اور توڑ پھوڑ شروع کر دی۔‘عینی شاہد کے مطابق مظاہرین نے نہ صرف اس بستی میں موجود گرجا گھروں کو نذر آتش کیا بلکہ کالونی کے ان گنت  مکانات اور ان کے اندر موجود اثاہ کو بھی جلا ڈالا جو بچ گیا وہ دھاوے والے لوٹ کر لے گئے۔انھوں نے بتایا کہ اس واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس نے کرسچین کالونی کے مکینوں کو یہ علاقہ خالی کرنے کو بھی کہا۔ صحافی کے مطابق بھاری نفری تعینات ہونے کے باجود پولیس مظاہرین کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی۔ 

ایک عینی شاہد نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ شہر کے متاثرہ علاقوں میں کرسچین کالونی، ناصر کالونی، عیسیٰ نگری، مہاراوالا، چک نمبر 120 گ ب شامل ہیں۔ان کا کہنا تھا کے شہر کے وسط میں قائم کرسچین کالونی کی آبادی گھروں کو چھوڑ کر جا چکی ہے۔جڑانوالہ کے گرجا گھروں کے انچارج فادر خالد مختار نے بی بی سی کے عماد خالق سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ مجموعی طور پر شہر میں چھ گرجا گھر جلائے گئے جبکہ ان کی اپنی رہائش گاہ ’پیرش پاسٹر ہاؤس‘ کو بھی نذر آتش کر دیا گیا ہے۔فادر خالد مختار کے مطابق ’کرسچین کالونی میں سب سے زیادہ ہنگامہ آرائی ہوئی ہے۔‘انھوں نے بتایا کہ کرسچین کالونی کا گرجا گھر نذر آتش کرنے کے بعد ایک گروہ نے ناصر کالونی میں واقع ان کی رہائش گاہ پیرش ہاؤس کا رخ کیا اور دو گھنٹے سے زیادہ وہ اس کے باہر جمع ہو کر احتجاج کرتے رہے۔ فادر خالد مختارنے بتایا  کہ وہ خود بھی مشتعل ہجوم کے نرغے میں آ گئے تھے اور تقریباً دو گھنٹے سے زائد وقت تک اپنے اہلخانہ کے ہمراہ ناصر کالونی میں واقع گھر میں محصور رہنے کے بعد جان بچا کر نکلنے میں کامیاب ہوئے۔فادر خالد مختار کے مطابق اس دوران انھوں نے متعدد مرتبہ پولیس کی ہیلپ لائن پر مدد کے لیے کال کی لیکن پولیس ان کی مدد کو نہیں آئی۔وہ بے چارے جانتے نہیں ہوں گے کہ پولیس کا تعلّق بھی شائد اسی مذہبی جماعت ہو جن کے اوپر ریاست نے اقلّیتوں کے جان و مال کی لوٹ مار حلال کر دی ہےشنیدنی ہے بستی کے ایک شخص پرویز مسیح سے اے باہر بھضوانے کے لئے  ایک مسلمان آدمی نے چار لاکھ کی رقم لی تھی باہر وہ بھجوا نہیں سکا تو اب پرویز مسیح نے اپنی رقم کی واپسی کا تقاضہ کیا جس کے جواب میں مسلمان آدمی نے اسے سبق سکھانے کے لئے یہ سارا ڈرامہ رچا کر پوری مسیحی قوم کو پیغام دیا ہے کہ آئندہ پاکستان میں جینا ہوتو غلام بن کر جینا ہے

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر