منگل، 29 اگست، 2023

حضرت ” ابو طالب “ رئیس بطحا

   جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  دنیا میں تشریف لآئے تو والد بزرگوار کا سایہ تو پہلے اٹھ چکا تھا ۔ ولادت کے چھ سال بعد مہربان ماں حضرت بی بی آمنہ  کا بھی سایہ سر سے اٹھ گیا توحضرت  ”عبد المطلب نے “ حضرت محمّد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم  کو اپنی مہربان آغوش میں سمیٹ لیا  لیکن ابحی آپ کی عمر مبارک آٹھ برس ہوئ تھی  ھضرت عبد المطلب  کا بھی انتقال ہو گیا -اور پھر آپ ھضرت ابو طالب کی  سایہ عاطفت میں آ گئے-ھضرت ابو طالب  ھضرت عبد اللہ کے حقیقی بڑے بھائ تھے -آپ کا تمام قبیلہ اور خود آپ قبیلہ قریش کے انتہائ امیر کبیرشخصیت تھے یہاں تک کہ آپ کا لقب ہی رئیس بطحا ء ہو گیاتھا  ۔حضرت  عبد اﷲ کا انتقال حضرت رسول خدا کی ولادت سے پہلے حضرت عبد المطلب کی زندگی میں ہوا تھا  -یہاں سوچنے کا مقام ہے کہ فرعون کے گھر میں  جناب موسیٰ پہنچتے ہیں تو بی بی آسیہ جیسی مومنہ کی آغوش عطا ہوتی ہے تو اللہ کا محبوب نبی نعوز باللہ ایک کافر کی گود میں دے دیتا ہے '-یہ سب بنو امیّہ کا وہ پھیلایا ہوا پروپیگنڈا تھا جس کی برسہا برس اس طرح تشہیر کی گئ جس نے سچ کو جھوٹ کے پردے میں ڈھانپ دیا - آپ کی حفاظت کی ذمہ داری حضرت ابو طالب نے سنبھالی اور آخری سانس تک آپ کا ساتھ دیا ۔ ہر مشکل وقت میں مشکلات کے آگے آپ کے لئے سپر بنے رہے ۔ فقط خود یہ کام انجام نہ دیا بلکہ اپنے بھائیوں اور بیٹوں کو بھی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی حفاظت کرنے کی نصیحت کرتے تھے ۔ 

 اور سیدنا حضرت ابو طالب   ؑ نے آپ ؐ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت و خدمت گزاری کا حق ادا کر دیا۔اپنے بچوں سے بڑھ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیار فرمایا۔ایک لمحہ بھی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیا۔رات اپنے پہلو میں سلایا۔کھانے کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؐ سے پہلے کسی کو کھانا نہ کھانے دیا۔قلتِ خوراک ہوئی تو اپنی اولاد کو بھوکا رکھا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سیر فرمایا۔ قادرِ مطلق نے اسی آغوشِ سیدنا حضرت ابو طالب   ؑ کا قرآنِ مجید میں ذکر فرماتےہوئے  اپنی آغوشِ رحمت سے تشبیہ دی ہے۔  ۔ آپ (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت باسعادت سے پہلے سید العرب حضرت عبدالمطلب  کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشارت دی گئی

’’ اَنَّ عَبْدُالْمُطَّلِبْ رَأیٰ فِیْ مَنَامِہٖ کَانَ قَاءِلاً یَقُوْلَ لَہُ: اِبْشِرْ یا شَیْبَۃِالْحَمْد بِعَظِیْمِ الْمَجْدِ بِاَکْرَمِ وُلْدٍ، مِفْتَاحُ الْرُّشْدِ،لَیْسَ لِلْاَرْضِ مِنْہُ مَنْ بِدُّ‘‘دادا حضور حضرت عبدالمُطّلب ؑ  نے بعالمِ رؤیا ملاحظہ فرمایا کہ کہنے والے نے اُن سے کہا، جنابِ شَیْبَۃِالْحَمْد آپ کوعدیم النظیر، سرچشمہء رشد وہدایت مکرم فرزندکے عظیم الشان شرف و مجد کی بشارت ہو ۔دادا حضور حضرت عبدالمُطّلب ؑ کے انتقالِ پر ملال کے بعد نورِ رسالتؐ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کے لیے سیدنا ابو طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ؑ کمربستہ ہوگئے - فضائل و مناقب اور شان و عظمت محسنِ اسلام سیدنا ابو طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ:* سیدنا ابو طالب   کی رفاقت و نصرت اسلام کا محکم حصار بن گئی- سیدنا ابو طالب ؑ ،جنہوں نے شجر اسلام کی آبیاری کی۔جن کی قربانیوں سے محسنِ انسانیت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بازو مضبوط ہوئے۔سیدنا ابو طالب   ؑ ،جن کے آہنی ارادوں اور کارگزاریوں سے جمعیتِ کفار و مشرکین لرزہ براندام رہی- سیدنا ابو طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ؑ ،جن کی حکمتِ عملی سے کفار کی نیندیں حرام تھیں -سیدنا ابو طالب ؑ جو گلشنِ رسالت کی حفاظتی دیوار تھے۔سیدنا حضرت ابو طالب جو حضور ؐ کے شفیق تایااور کفیل تھے۔ سیدنا ابو طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو مولائے کائنات علی مرتضیٰ ؑ شیر خدا ،جعفر طیّا ر ؑ اور عقیل ؑ کے والد تھے۔سیدنا ابو طالب ،جو سید الشہدا امیر حمزہ ؑ ،شیر رسالت کے بھائی تھے۔

 طیبہ طاہرہ شہزادئ کونین حضرت خاتون جنت بی بی فاطمتہ الزہرہ سلام اللہ   جن کی بہو ھیں۔ سیدنا ابو طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہؑ ،جو حسنین کریمین ؑ۔ سیدنا ابو طالب   جن کی اولاد نسبِ رسول ؐ ہے۔ سیدنا ابو طالب جنہوں نے  اپنے فرزند اسلام پہ قربان کر دیے۔ وہ فرزندجو حافظِ قرآن و حدیث،شب بیدار،تہجدگزار،عابد،زاہد،عالم،فقیہ،محدث اور مفسر قرآن و شارح اسلام تھے۔ جن کی آغوش کو ذاتِ قدرت نے  پناہ قرار دیا وہ سوائے سیدنا ابو طالب ؑ کے اور کون ہے؟ سیدنا ابو طالب رضی نے آنحضرت ؐ کے لیے جو جانثاری فرمائی ،اس سے کون انکار کر سکتا ہے۔اپنے جگر گوشے آپ ؐ پہ نثار کر دیے ۔آپ ؐ کی محبت میں تمام عرب دشمن بنالیافاقےاٹھائے،شہر بدر ہوئے،تین برس تک آب و دانہ بند رہا۔ مقاطعہ قریش میں حصارِ رسالتؐ کے لیے شعبِ ابی طالب ؑ سے کون واقف نہی اور  پیارے مصطفٰی ؐ کے بستر پر حضرت علی مرتضٰی ؑ شیرِخُدا اور حضرت جعفرطیار کو سلا کردشمنانِ اسلام کی تلواروں کے سامنے اپنے لختِ جگر پیش کرنے والے سیدنا ابو طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ؑ کے علاوہ اور کون ہیں۔  شہنشاہِ انبیا و مرسلین ؐ کے غمگسار و محافظ،سیدنا ابوطالب ؑ کے فضائل و مناقب اور شان و عظمت کون بیان کر سکتا ہے؟

* ناصر رسولؐ ونکاح خوانِ رسالتؐ حضور نبی کریم حضرت محمد صلّی اللہ علیہ وا ٰ لہ وسلّم حضور نبی کریم ؐ کادنیاوی سن اقدس پچیس برس ہوا تو آپ ؐ نے مَلِیْکَۃُالْعَرَبْ،اُمّ الْزَّھْراؑ ،اُمَّ الْمُؤمِنِیْن سیدہ خُدَیْجَۃُالْکُبْریٰ صلوٰۃاللہ و سلامہ علیہا سے عقد فرمایا۔جناب ابو طالب  نے نکاح کے خطبے کا ایسے آغاز کیا:تمام تعریف اس خدا کے لیے ہے کہ جس نے ہمیں نسل ابراہیم اور اسماعیل کی اولاد سے قرار دیا ہے اور ہمارے لیے ایسے گھر (خانہ کعبہ) کو قرار دیا ہے کہ جس  گرد لوگ طواف کرتے ہیں اور وہ پر امن حرم قرار دیا ہے کہ تمام دنیا سے نعمتیں اسکی طرف لائی جاتی ہیں اور ہمیں اپنے دیار میں لوگوں پر حاکم قرار دیا ہے، پھر کہا: یہ میرا بھتیجا محمّد ابن عبد اللَّه ابن عبد المطّلب ہے، اسکا قریش میں جس کسی سے بھی موازنہ کیا جائے گا تو یہ اس  سے بہتر ہو گا اوراس شادی کا  حق مہر جو بھی ہو گا، وہ میرے ذمہ پر ہو گا، چاہے وہ مہر نقد ہو یا ذمہ پر ہو، اس طرح بی بی خدیجہ سلام اللہ علیہا حضور انور حضرت محمد صلّی اللہ علیہ وا ٰ لہ وسلّم کے عقد میں آئیں

جناب ابو طالب، رسول خدا سے اتنی زیادہ محبت و مودت کا اظہار فرماتے کہ اپنی اولاد سے بھی اتنی محبت نہیں کرتے تھے۔ آنحضرت کو اپنے پاس سلاتے اور جب کہیں باہر جاتے تو انھیں بھی ساتھ لے جاتے اور آپ  سے اس درجہ محبت کرتے کہ کسی اور سے اتنی محبت نہ کرتے اور آپ  کے لئے بہترین غذا کا انتظام کرتے تھے۔  ابن عباس اور دیگر اصحاب کا بیان ہے کہ جناب ابو طالب رسول خدا سے بے حد محبت کرتے تھے اور آنحضرت کو اپنے بچوں سے زیادہ دوست رکھتے اور آپ کو ان پر مقدم کرتے تھے۔ اسی لئے آنحضرت سے دور نہ سوتے اور جہاں بھی جاتے تو آپ  کو بھی اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔  علامہ مجلسی(رح) نقل کرتے ہیں: جب رسول خدا اپنے بستر پر سو جاتے اورگھر کے سارے افراد بھی سوجاتے تھے تو جناب ابو طالب- آپ و آہستہ سے جگاتے اور آنحضرت کو حضرت علی کے بستر پر لٹاتے اور آپ  کو نبی کریم کے بستر پر سلاتے۔ جناب ابو طالب اپنے فرزند اور بھائیوں کو رسول خدا کی حفاظت پر لگاتے تھے۔ 

یعقوبی کا بیان ہے: رسول خدا سے مروی ہے کہ جناب ابو طالب   کی زوجہ محترمہ، جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا بنت اسد،  جو ایک مسلمان اور عظیم المرتبت خاتون تھیں ان کی وفات پر آپ  نے فرمایا: ’’الیوم ماتت امی‘‘ آج میری ماں نے وفات پائی ہے۔ اور آپ نے انہیں اپنے پیراہن کا کفن دیا اور قبر میں اترے۔ کچھ دیر لحد میں سوئے۔ جب وہاں موجود لوگوں نے آپ سے اس کا سبب دریافت کیا کہ آپ  جناب فاطمہ  بنت اسد کی وفات پر کیوں اتنے مغموم و محزون ہیں؟ تو آپ  نے فرمایا: وہ واقعاً میری ماں تھیں اس لئے کہ وہ اپنے بچوں کو بھوکا رکھ کر مجھے سیر کرتی تھیں۔ انہیں غبار آلود رہنے دیتی اور مجھے صاف ستھرا اور پاکیزہ رکھتی تھیں وہ واقعاً میری ماں تھیں۔  جناب ابو طالب، رسول خدا کی پچاس سال تک ہر لمحہ آپ کی نصرت و حمایت کرتے رہے اور ہر احتمالی خطروں سے رسول خدا کی حفاظت میں اپنے فرزندوں کی جان کی بازی لگا دی اور اتنی فدا کاری و قربانی دی کہ ملائکہ اور جبرئیل بھی اس پر فخر و مباہات کرتے تھے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر