جمعرات، 3 نومبر، 2022

قدرت کی ایک پیاری نعمت زعفران

 

 

قدرت نے بنی نوع انسان کے لئے کیا کیا نعمتیں کن کن شکلوں میں اتاری ہیں زرا سا غور کیجئے تو لا متناہی نعمتوں کی قطار نظر آئے گی -ان بیش بہا نعمتوں میں زعفران بھی شامل ہے

زعفران کا بیج ایک پیاز کی گٹھی کے برابر ہوتا ہے۔ یاد رکھیے زعفران کے بیج دانے دار یا کسی اور شکل میں نہیں ہوتے۔ جب درجہ حرارت 15-20 سنٹی گریڈ سے کم آتا ہے تو پھول آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ہر علاقے میں پھول نکلنے کا موسم مختلف پایا گیا ہے۔ یاد رہے کہ پھول آنے کے لیےبلب(زعفران کے بیج کو بلب کہا جاتا ہے) دسمبر اور کچھ علاقوں میں جنوری تک لگائے جا سکتے ہیں۔ جبکہ پودوں کو مارچ تک مذید بیج بنانے کے لیے لگائے جا سکتے ہیں۔

زعفران کے بلب اگست سے لے کر دسمبر تک کسی بھی موسم میں لگائے جا سکتے ہیں۔ زعفران کے بلب لگاتے وقت مندرجہ زیل باتوں کا خیال رکھا جائے زعفران کے لئے معتدل موسم والے علاقے بہترین ہیں۔زعفران کا بلب 40 سینٹی گریڈ سےمنفی20 سینٹی گریڈ تک کے موسم میں ٹھیک حالت میں رہتا ہے۔چونکہ گرم موسم میں زعفران کا بلب سو جاتا ہے۔ اور جونہی ٹھنڈا موسم شروع ہوتا ہے پھول نکلناشروع ہو جاتے ہیں۔ سردی میں زعفران کا بلب بڑھنا شروع ہو جاتا ہے, زعفران کا بلب بہت تیزی سے زمین میں بڑھتا ہے۔ یہ 2 سے 4، 4 سے 8 اور 8 سے 16 اور فر 32 ھو جاتا ہے۔ ہر 2 یا 3 سال بعد ان کو نکال کر اور جگہ پر لگانا پڑتا ہے۔ یاد رکھیں اگر مناسب حفاظت کی جائے تو زعفران کا بیج 20 سال تک چلتا ہے۔ اور اس کے اگے ہزاروں بلب پیدا کرتا ہے۔

زعفران کی فصل

کم از کم 12 بلب خریدیں۔ عام طور پر چھ چھ بلب اکھٹے گچھے کی صورت میں اگائے جاتے ہیں۔ گچھے کی صورت میں اگانے سے پھول زیادہ آتے ۔ پر آپ ان کو علیحدہ علیحدہ بھی اگا سکتے۔ درمیان میں فاصلہ کم از کم چھ سینٹی میٹر ہونا چاہیے۔زعفران بلب اگست سے جنوری تک لگائے جا سکتے ہیں۔ ایسی زمیں جس پر برف باری ہو، اس پر برف باری سے چھ سے آٹھ ہفتے پہلے بلب لگائے جا سکتے ہیں۔ایسے جگہ کا انتخاب کریں جہاں زیادہ ڈاریکٹ سورج کی روشنی آتی ہو۔زمیں میں چھوٹا سا گڑھا بنائیں اور تقریبا بارہ سے سولہ انچ تک اچھی طرح مٹی کو نرم کر لیں۔ اور پھر بارڈر پر زعفران کے بلب لگا دیں۔اس بات کا خیال رکھیں کے پانی زمین میں اکھٹا نہیں ہونا چاہیے۔ ریتلی مٹی کا استعمال بہتر ہے۔ تاکہ نمی قائم رہے۔آٹھ انچ یا 20 سنٹی میٹر کا کا گڑھا بنایں اور اس میں زعفران کا بلب لگا دیں۔ 

مختلف کھادوں اور کیمیکل کا مرکب آپ کھاد کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ یا آپ کھاد کا پیکٹ بایئو ٹیک سے بھی منگوا سکتے ہیں۔بلب کو لگاتے ہوئے خیال رکھیں کے اس کا پتلا یا منہ والا حصہ اوپر کو رکھیں-زعفران بلب لگانے کے بعد اچھی طرح زمیں کو پانی لگائیں -زعفران بلب کو زیادہ پانی مت لگایں۔ سردیوں کی بارش کی وجہ سے پانی کی مناسب مقدار ملتی رہتی ہے۔زعفران کا بلب بہت تیزی سے پھیلتا ہے، اور سردیوں میں پھول نکلنے کے بعد اس سے چھوٹے چھوٹے بے شمار بلب نکلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ان علیحدہ کر کے مزید ٖفصل کو بڑھایا جا سکتا ہے یا مارکیٹ میں فروخت کیا جا سکتا ہے۔ئیے اب آپ کو بتاتے ہیں کہ زعفران کی فصل سے فی کنال کتنی پیداوار حاصل ہو سکتی ہے؟زعفران کی فی کنال پیداوار کا حساب لگانے کے لئے ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ایک ایکڑ میں زعفران کے کتنے پودے لگائے جاتے ہیں.

سیدھا حساب یہ ہے کہ ایک کنال رقبے پر زعفران کے تقریباََ 10 ہزار پودے لگائے جاتے ہیں اگر ایک پودا اوسطاََ تین پھول بھی نکالے تو 10 ہزار پودوں سے 30 ہزار پھول حاصل ہوتے ہیں.زعفران کے 150 پھولوں سے ایک گرام خالص زعفران حاصل ہوتا ہے تو اس طرح 30 ہزار پھولوں سے 200 گرام خالص زعفران حاصل ہو گا واضح رہے کہ زعفران کا ایک پودا سیزن میں 3 پھولوں سے لیکر 15 پھول نکالتا ہے. لیکن ہم نے کم سے کم یعنی 3 پھولوں کو سامنے رکھتے ہوئے پیداوار کا حساب لگایا ہے

زعفران کے بیج کو بلب کہتے ہیں.

زعفران کے بیج یعنی بلب کی شکل لہسن کی پوتھی جیسی ہوتی ہے

واضح رہے کہ زعفران کا ایک ہی بیج یعنی بلب بار بار لگایا جاتا ہے اور وہ 10 سال تک استعمال ہو سکتا ہے.-دلچسپ بات یہ ہے کہ زعفران کا ایک بلب جب زمین میں لگایا جاتا ہے تو ایک سال کے اندر اندر وہ زمین میں اپنے جیسے کئی اور بلب بنا لیتا ہے عام طور پر زعفران کا ایک بلب ایک سال میں اپنے جیسے کم از کم 5 بلب پیدا کر لیتا ہے اس طرح سے خالص زعفران کی پیداوار کے ساتھ ساتھ کسان کو زعفران کا اضافی بیج بھی حاصل ہوتا ہے.

ایک پودا اگر پانچ بلب پیدا کرے تو ایک کنال میں موجود 10 ہزار پودے 50 ہزار نئے بلب پیدا کریں گے اور اسی حساب سے اپنی آمدنی میں اضافہ کر سکیں گے

تحریر و تلخیص،

سیّدہ زائرہ،

بریمپٹن ،

کینیڈا۔

ہم اور ہمارے ارادوں کی تکمیل

 

مولائے کائنات حضرت علی علیہ السّلام کا ارشاد ہے کہ میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹ جانے سے اپنے رب کو پہچانا -میری زندگی کاا یک  اہم واقعہ یہ  کہ جب اللہ پاک نے اپنے کرم سے پنجتن پاک کے صدقے مین صاحبزادے کو سعودی عرب میں برسرروزگار کر دیا تب ایک دن  میں نے سوچا میری عمر تو گزر تی جارہی ہے  ,,,میں علم معرفت کب حاصل کر سکوں گی ،وقت کہاں سے نکالوں پس میں نے سوچا بیٹے اور شوہر کی کمائ سے کفائت میں گھر چلاؤں گی اور اپنا وقت اپنے لئے حصول علم میں صرف کروں گی میں نےانوار صاحب سے اپنے ارادے کا زکر کیا تو انہون نے سہولت سے جواب دیا جو چاہو کرو  -

بچّوں کے سالانہ امتحانات سر پر تھے میں نے پوری تندہی سے بچّوں کو تیاری کروا کر امتحان دلوائے اور پھر گرمیوں کی چھٹّیاں

 شروع ہو گئیں تھین اور میرا پکّا  پکّا ارادہ تھا کہ چھٹّیون کے بعد جب اسکول کھلیں گے میں بچّوں کو گلی میں موجود دوسرے ٹیوٹرز

 کے پاس بھیج دونگی ،لیکن بھلا ہم کہاں کچھ چاہ سکتے ہیں جب تک وہ نا چاہے ،بس ایک دن میں حسب معمول تین بجے سہ پہر کو

 گھر آئ انوار صاحب کہنے لگے ایک لڑکی تم سے ملنے آئ تھی ،اپنے بچّوں کو ٹیوشن پڑھوانا چاہ رہی ہے

،مین نے اس سے بتا دیا ہے کہ اب وہ پڑھانے کا ارادہ نہیں رکھتی ہیں پھر بھی وہ کہ کر گئ ہے کہ کل آئے گی ،خیر بات آئ گئ ہوگئ

 لیکن وہ تو اگلے دن میرے گھر آنے سے پہلے ہی میرے گھر پر بچّون کے ہمراہ موجود تھی ،بیٹی کی عمر تیرہ برس جبکہ ،بڑا بیٹا د

س برس تک اور چھوٹا سات برس کی عمر تک تھا اس نے مجھے سلام کیا میں اسے جواب دے کر اس کے مقابل بیٹھ گیئ تو وہ

 مسکراتے ہوئےکہنے لگی یہ میرے بچّے ہیں بیکن ہاؤس میں پڑھتے ہیں ا ور مین نے سنا ہئے کہ آپ بہت اچّھا ٹیوشن پڑھاتی ہیں اور میں آپ کو بہت اچھّا ہدیہ دوں گی لیکن ان کواب آپ ہی پڑھائیں گی

مین نے بھی مسکرا کر اس سے پوچھا کہ اس ‘‘اب ‘‘کا کیا مطلب ہئے تو کہنے لگی کہ ان کا استاد گھر پر پڑھانے آرہاتھا ،لیکن اب یہاں ہم نے گھر خریدا اور استاد یہاں آنے کو تیّار نہیں ہے اسے اپنے گھر سے ہمارا گھر بہت دور پڑ رہا ہے ،اور میں بچّوں کی چھٹیّان بھی ضائع نہیں کرنا چاہتی ہوں اس لئے کل سے ٹیوشن شروع کروانا چاہتی ہوں ،

،،میں نے اس کی پوری بات سن کر کہا بیٹی ،کیونکہ میں اب نے ٹیوشن پڑھانے کا ارادہ ترک کر دیا ہئے اوریہ کہ اس گلی میں ایک این ای ڈی کا اسٹوڈنٹ ،اور ایک دوسرے گھر میں کراچی یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹ بھی ٹیوشن پڑھاتی ہئے،میری بات سن کر وہ بلکل سنجیدہ ہو گئ اور کہنے لگی کہ میرے شوہر نے سختی سے کہا ہے کہ کسی اور جگہ بچّوں کو بٹھانے کی ضرورت نہیں ہئے کیونکہ بیٹی سیانی ہورہی ہے بتائیے میں کہاں جاؤں پھر جو میری نظر اس کی آنکھوں پر گئ تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے اور اسی لمحے مجھ پر ادراک کا دروازہ کھلا جس میں اللہ تعالٰی مجھ سے ناراض لہجے میں کہ رہا تھا کہ او بد بخت جب تجھ کو اپنی غرض تھی تب تو کس طرح خوشی خوشی بچّے پڑھاتی رہی اور اب جب میری مخلوق کو تیری ضرورت ہئے تو کس طرح بے مروّتی دکھا رہی ہے ،بس میں نے اس سے کہا کل سے بچّے ساڑھے چار بجے لے آنا اس لڑکی کی خوشی اسوقت دیدنی تھی ،

یہ واقعہ میرے لئے اس لئے اہم ثابت ہوا کہ اس وقت لے کر اب تک میں الحمد للہ مسلسل پڑھا رہی ہوں اور یہی میرے مالک کی مرضی تھی- ،میرے علم معرفت جس کا مجھے شوق تھا وہ تشنہ ہے کوشش لگاتار کرتی رہتی ہوں ،دینا یا دینا اس کے اختیار میں ہئے ،اور میرےرب نے میرا ارادہ کی تکمیل نہیں ہونے دی-

اکثر ملنے جلنے والے لوگ حیران ہوتے ہیں کہ الحمدللہ دو صاحب حیثیت بیٹوں کی کمائ کے باوجود بھی میں کیوں ٹیوشن پڑھاتی ہوں ،میں کسی سے کیا بتاؤں کہ کیوں پڑھاتی ہوں کہ یہ معاملہ میرے اور میرے رب کے درمیان وعدے وعید کا ہے-

سرخ رنگ جوش ولولے کی علامت مانا جاتا ہے-

 سرخ رنگ جوش ولولے کی علامت مانا جاتا ہے-عمومی طور پر قربانی، خطرات اور جرأت سے وابستہ کیے جانے والا سرخ رنگ رخ رنگ:دنیا بھر میں پسند کیا جاتا ہے۔ اگر رنگوں کو نفسیات کی نظر سے دیکھا جائے تو سرخ رنگ انتہائی دلچسپ ہے۔ اس کے بارے میں یہ خیال ہے کہ سرخ رنگ طاقت کی علامت ہے۔یہ رنگ جذبات کو بر انگیختہ کرتا ہے یہی وجہ کہ بُل فائٹنگ میں فائٹر بل کو سرخ رنگ کا رومال لہرا کر انہیں چیلنج دیا جاتا ہے

آنکھوں کو بھلا لگنے والا یہ رنگ پہننے والے کی شخصیت کے حوالے سے بھی مختلف خیالات کا باعث بنتا ہے۔ اسی رومانویت سے منسلک کیا جاتا ہے۔ جیسے سرخ گلاب دنیا میں محبت کے اظہار کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ 
 اسی طرح عروسی ملبوسات میں ہمیشہ سرخ کا انتخاب کرنے کے پیچھے بھی رومانوی خیالات بیدار کرنے کا اہتمام کرنا مقصود ہوتا ہے۔ خصوصی طور پر جنوب مشرقی ایشیاء میں دلہن کے لیے سرخ لباس کو ہی چنا جاتا ہے اور اسے سہاگن ہونے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔۔ سرخ رنگ جہاں بہت سی خواتین کے حسن کو دوبالا کردیتا ہے اور خاص موقعوں پر ان کی کشش بڑھا دیتا ہے -
 یہ کچھ مواقع پہ پہننا موزوں نہیں جیسے کی جاب پہ پہننے کے لیے یہ رنگ آنکھوں کو بھلا لگنے کے بجائے برا لگتا ہے اور ایک نارمل لک دینے کا کام بالکل نہیں کرتا جوکہ کسی بھی جاب کرنے والے مرد یا خاتون کے لیے درست امر نہیں۔ رنگوں کی نفسیات میں سرخ رنگ شدت کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کا مقصد دوسروں کو اپنی جانب متوجہ کرنا ہے۔ آپ کی نظر سے ایسے بہت سے برانڈ گزرے ہوں گے جن کا سرخ رنگ آپ کو اپنی جانب کھینچتا ہوگا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سرخ رنگ بھوک کو بڑھتا ہے 


کمزور بدن اور خون کی کمی والے لوگوں کو ان کے طبیب کھانوں میں سرخ رنگ کی چیزوں کا استعمال بتاتے ہیں جیسے چقندر'انار'بڑا گوشت'کلیجی ٹماٹر اور خون بنانے والی سبزیاں وغیرہ'وغیرہ-جن افراد کو غصّہ زیادہ آتا ہو انہیں چاہئے کہ وہ اپنے گھروں میں سرخ رنگ کا فرنیچر نا رکھّیں 
کینسر کا مرض کیونکہ سرخ رنگ کے خلیات کو کھاجاتا ہے اس لئے مریض کے کمرے میں سرخ رنگ کا بلب جلائیں اور مریض کے بستر کی چادر کھڑکیوں کے پردے بھی سرخ ہونے چاہئے ،

پیر، 31 اکتوبر، 2022

گمشدگی سے بازیابی تک کا سفر

 

میری بیٹیوں دھو کے سے ہوشیار،


میں نے کراچی سے گمشدہ ہونے والی بچّیوں کے لئے قلم نہیں اٹھا یا  تھا -میں الحمد للہ خود بھی دو بیٹیوں کی ماں ہوں اورکسی بھی بیٹی کے لئے دوحرف بھی غلط کہنا انتہائ معیوب سمجھتی ہوں -لیکن اب جبکہ تمام بیٹیوں کے معاملات سلجھ گئے ہیں اس لئے اپنے معاشرے کی بیٹیوں کو بتانا چاہتی ہوں کہ خدارا کوئ بھی فیصلہ کرنے سے پہلے ہزار بار سوچئے گا کہ کہیں یہ قدم -مجھے کھائ میں تو نہیں لے جا رہے ہیں 

جیسا کہ میں نے کہا کہ جب لڑکے گھر بسانے کا ارادہ کرتے ہیں تو ایماندار ہوتے ہیں ،بلکل اسی طرح لڑکیاں بھی گھر بس  معاملے میں ایماندار ہوتی ہیں لیکن آ ج کے جدید دور نے اس نوجوان نسل کو گمراہی کی ان راہوں پر لگا دیا ہے کہ والدین کی زمّہ داری دوگنا ہو گئ ہے کہ وہ اپنی جوان اولاد کو اپنے سے اس قدر قریب کر کے رکھیّں کہ دنیا والے ان معصو موں کو آسانی سے اپنا شکار نا بنا لیں

جب بیٹی کے ہاتھ میں دن میں موبائل  ہو گا یا نیٹ بک ہو گی ۔دن تو دن رات کو  بھی اجنبی  لوگوں سے بات کرنے کی سہولت  ہو گی ہے اور ماں نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لی ہوں گی کہ بیٹی ابھی چھوٹی ہے تو پھر ،،آگے کیا ہوتا ،،مو بائل اور نیٹ سے پروان چڑھنے والے عشق نے زور کیا تو گھر سے شادی کی اجازت نہیں ملی،تب بنائے ہوئے پلان کے مطابق لڑکی نے گھر سے ماں کا زیور لیا اور لڑکے کی بتائ ہوئ جگہ پر پہنچ گئ س،لڑکا گاڑی لئے تیّار کھڑاتھا ،ور لڑکی کو بٹھا کر گاڑی چل پڑی ،شہر کی حدود ختم ہونے سے پہلے لڑکے نے ایک جگہ گاڑی روکی یہ گاڑیوں کی ایک ورک شاپ تھی ،لڑکے نے کہا زرا ٹہرو مجھے ایک ضروری کام یاد آگیا ہے یہ میرےf دوستو ں کی جگہ ہے ،تم پریشان مت ہونا میں ابھی آتا ہوں لڑکی کو گاڑی سے اتار کر ورکشاپ پر بٹھایا اور اپنے دوستوں سے کچھ کہ کر لڑکا زیور سمیت چلا گیا دو پہر جب سہ پہر ہو گئ تب لڑکی کو معلوم ہوا کہ وہ اپنے گھر سے کتنی دور نکل آئ ہے کہ اب واپسی ناممکن ہے

اورپھر جب لڑ کی کی آنکھ کھلی تو وہ بازار حسن میں ایک ایسی فروخت شدہ لڑکی تھی جس کو اپنی ہر رات اجنبی مہمانوں کو فروخت کرنا تھی ،اس لڑکی نے وہیں سے اپنے معاشرے کی لڑکیوں کو پیغام دیا تھا کہ خدارا شادی کا فیصلہ اپنے ماںباپ پر چھوڑ کر انتظار کریں اور محبّت کے دھوکے میں نا آ ئیں ورنہ میری طرح بازار حسن کی زینت بن کر زندگی گزارنی ہوگی،،،،

میری سمجھ کے مطابق،یہ لڑکا اگر شادی کر بھی لیتا تو بھی لڑکی کو فروخت لازمی کرتا کیونکہ اس کا پیشہ ہی یہی تھا کہ لڑکیوں کو جال میں پھانس کر ان کو فروخت کر دینا یہ کاروبار پورے پاکستان میں بہت تیزی سے پھیل رہا ہے ،حیدر آباد شہر میں پولیس کی ملکیت میں لڑکیوں کی سجی ہوئ منڈی تو آپ سب کی  نظروں سے بھی گزری ہو گی جس میں اقرار الحسن زخمی بھی ہوئے تھے۔

صادق آباد کے چنگی ناکے سے گزر کر گھوٹکی شہر میں آ نے والی ایسی انگنت کاریں ہوتی ہیں جن میں فروخت شدہ لڑکیا ں ہوتی ہیں ،ان میں کچھ اپنے ہوش و حواس میں ہوتی اور کچھ بے ہوش بھی ہوتی ہیں پولس کو معلوم ہوتا ہے کہ اندر کون ہے اس لئے مسکراتے ہوئے جانے کی اجا زت چند ہزار نوٹوں کے عوض مل جاتی ہے وہ اجازت نہیں دیں گے تو ان کی روزی چلی جائے گی کیو نکہ گاڑیا ں بہت اعلٰی درجے کے افراد سے وابستہ ہوتی ہیں

کراچی میں عا ئشہ منزل پر طاہر ولا کے پیچھے بلاک ڈ ی فیڈرل بی ایریا سے متصل علاقے میں ایک چھو ٹی سی کچّی بستی میں ،میں نے خود اپنی آنکھوں سے پولس موبائل کی سرپرستی میں لڑکیوں کی خرید و فروخت ہوتے دیکھی ہے ،خدا ہمارے معاشرے پر رحم کرے

میں نے یہ تحریر صدق دل سے بچیّوں کی بھلائ کے لئے لکھی ہے گھوٹکی شہر کی تو پوری تفصیل ایک موقر روزنامے میں آ چکی ہے اور کراچی کا تو کہنا ہی کیا ،بحر زخّار شہر میں جرائم کی سر پرستی کرنے والوں کو کون پوچھنے والا ہے جس کا جو جی چاہے کرے ،یہ محض ایک جگہ میری نظر میں آ گئ وہ بھی اتنے خوشحال علاقے میں ورنہ تو آج کی مضافاتی بستیاں تو ایسے جرائم کے دم سے لہلہا رہی ہیں ،

بس ا للہ ہر دم محفوظ و ما مون رکھّے

اللہ نگہبان

بدھ، 26 اکتوبر، 2022

فرزند نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم (امام جعفر صادق علیہ السلام )


  
فرزند نبی حضرت محمّد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم ( امام  ششتم ) 83ھ میں 17 ربیع الاول کوگلستان نبوّت میں جلوہ افروز ہوئے ۔ اس وقت آپ کے جد بزرگوارحضرت امام زین العابدین علیہ السلام بھی حیات  تھے۔ آپ کے والد حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام کی عمر اس وقت چھبیس برس تھی۔ خاندان آلِ محمد میں آ پ کی ولادت کا انتہائی خوشی سے استقبال کیا گیا۔اور آ پا کانام نامی جو بارگاہ ربُ العالمین کے یہاں لوح محفوظ میں درج تھا وہی نام رکھّا گیا 

 آپ نے جب ہوش سنبھالا اس وقت بنو اُمیّہ اور بنو عبّاس دونوں جانب اقتدار کی ہوس میں چھینا جھپٹی ہو رہی تھی ایسے وقت میں وہ حسب معمول امام ِ وقت حضرت جعفرِ صادق علیہ السّلام  کی جانب  ان کودیکھنے کا موقع نہیں مل سکا اور اس طرح امام جعفرِ صادق علیہ السّلام اپنے دیگر آبائے طاہرین کی نسبت فروغِ علم کے لئے کام کرنے کا بہتر موقع میسّر آیا اور اسی دور میں آپ علیہ السّلام نے اپنی مشہورِ زمانہ جعفریہ یونیورسٹی کی بنیاد رکھ کر اس کو ایک ایسے درخشان مرکز، علم کا درجہ دےدیا جس کی روشنی تا قیامت ماند نہیں ہو سکتی ہے

آپ کا یہ دوراس لحاظ سے بہت فکر انگیز تھا کہ جب ایک جانب مسلمانوں کےبیرونی دنیا سے تعلّقات میں وسعت ہو رہی تھی تو دوسری جانب انہی بڑھتےہوئے روابط کے نتیجے میں بیرونی دنیا کے فکری نظریات اور علوم، اسلامین نظریاتی فکر سے متصادم ہوتے نظر آرہے تھے ،،یہ اُ س وقت کے بیرونی سماج کی وہ فکری یورش تھی جو کہ دین اسلام کے نظریاتی اساس کے لئےنقصان دہ تھی-امام علیہ السّلام نے محسوس کر لیا کہ اس مہلک یلغار سے اسلامی سماج کابچاؤ صرف اپنے علم اور اپنی فکری اساس کے بچاؤ سے ہی ممکن ہے-
چنانچہ امام جعفرِ صادق علیہ السّلام اپنے سرِ مبارک پر دستارِ امامت کےساتشہرِمدینہ کی مسندِ علمی پر جلوہ افروز ہو گئے اور پھر آپ علیہ السّلام نے اسلام کی کماحقّہ خدمت کا بیڑا جو اٹھا یا تو آپ کے علم کاشہرہ شہرِ مدینہ سے نکل کر دنیا کے گوشے گوشے میں پھیل گیا 'اور ناصرف پھیلا بلکہہر مسلک کے طلباء آپ کی علمی درسگاہ میں اپنی علمی پیاس بجھانے کے لئے آنے لگے-دنیا کے مایہ ناز کیمیا داں جابر بن حیّان نے کیمسٹری کا مضمون آپ سے براہ راست پڑھا تھا -

امام جعفرِ صادق علیہ السّلام نے اپنے علم و عمل کی روشنی سے جو عظیم
الشّان کار ہائے نمایاں انجام دے کر ایسے مسلمان سائنسدان تیّار کئے وہ
علم کی شمعیں جلا کر دنیا کے افق پر چھا گئے اور آپ کے شاگردوں کی تصانیف کئ سو سال کے لئے یورپ کی درسگاہوں کی کلید ی کتابوں کا درجہ اختیار کر گئیں لیکن بالآخرمنصور دوانقی آپ کے وجود کو برداشت نہیں کر سکا اور اس ملعون کے حکم پر آپ علیہ السّلام کو زہر دے کر شہید کر دیا گیا  اور مینار ہ ء  امامت وبحرالعلوم کوچہء یزداں کی جانب عازم سفر ہو گئے
تحریرو تلخیص
سیّدہ زائرہ
بریمپٹن کینیڈا,


دریائے نیل تاریخ کے آئینہ میں





دریائے نیل دنیا کا سب سے طویل دریا ہے۔ اس کا طول تقریباً 6670 کلو میٹر ہے۔ یہ افریقہ کی سب سے بڑی جھیل وکٹوریہ جھیل سے نکلتا ہے۔ اس علاقے میں بارش بہت ہوتی ہے، لہٰذا بہت گھنے جگلات پائے جاتے ہیں، ان جنگلات میں ہاتھی، شیر، گینڈے، جنگلی بھینسے، ہرن، نیل گائے اور دریائی گھوڑے، مگرمچھ اور گھڑیال وغیرہ پائے جاتے ہیں۔ اس علاقے کو “نیشنل پارک” کا درجہ حاصل ہے۔

جب یہ دریا سوڈان میں داخل ہوتا ہے تو اس کی رفتار بہت سست ہوجاتی ہے، کیوں کہ دریا  دنیا کے سب سے بڑا دلدل سے گزرتا ہے یعنی 700 کلو میٹر ۔ یہاں ایک قسم کی گھاس پاپائرس پائی جاتی ہے، جو پورے دلدل پر چھائی رہتی ہے۔ یہ اتنی گھنی اور مضبوط ہے   دریا کا پانی گھاس کے نیچے نیچے بہتا ہے۔ پتا نہیں چلتا کہ پانی کہاں ہے۔ یہاں سارس، بگلے اور پانی میں رہنے والی مختلف چڑیاں بکثرت پائی جاتی ہیں۔ 

دریائے نیل کے سارے معاون دریا، حبشہ کے پہاڑوں سے نکل کر اس میں شامل ہوتے ہیں۔ یہ دریا حبشہ میں جھیل تانا سے نکلتا ہے اور فوراً بعد آبشار کی صورت میں ایک نہایت گہرے کھڈ میں گرتا ہے اور بہتا ہوا خرطوم کے مقام پر دریائے نیل میں مل جاتا ہے۔ خرطوم کے بعد اتبارا کے مقام پر اتبارا نام کا ایک اور دریا، دریائے نیل میں شامل ہوتا ہے۔ یہ بھی حبشہ کے پہاڑوں سے جھیل تانا کے قریب سے نکلتا ہے۔خرطوم کے بعد دریائے نیل میں  تقریباً چھے مقامات پر نشیب آتے ہیں۔ دریا کی تہہ میں بڑی مضبوط اور نوکیلی چٹانیں ہیں۔ ان کو دریائے نیل کی رکاوٹیں کہا جاتا ہے۔ ان مقامات سے کشتیاں یا موٹر بوٹس نہیں گزر سکتے۔

سوڈان میں مصر کی سرحد پر دریائے نیل انسان کی بنائی ہوئی دنیا کی سب سے بڑی جھیل  ناصر میں داخل ہوتا ہے۔ یہاں اسوان کے مقام پر اسوان بند باندھا گیا ہے۔ اس بند سے دریا کا پانی رک گیا ہے اور ایک جھیل بن گئی ہے۔ اس بند سے آب پاشی کے لیے نہریں نکالی گئی ہیں اور پانی کو سرنگوں سے گزار کر اس پانی سے بجلی پیدا کی گئی ہے۔
دریائے نیل دنیا کا سب سے طویل دریا ہے۔ اس کا طول تقریباً 6670 کلو میٹر ہے۔ یہ افریقہ کی سب سے بڑی جھیل وکٹوریہ جھیل سے نکلتا ہے۔ اس علاقے میں بارش بہت ہوتی ہے، لہٰذا بہت گھنے جگلات پائے جاتے ہیں، ان جنگلات میں ہاتھی، شیر، گینڈے، جنگلی بھینسے، ہرن، نیل گائے اور دریائی گھوڑے، مگرمچھ اور گھڑیال وغیرہ پائے جاتے ہیں۔ اس علاقے کو “نیشنل پارک” کا درجہ حاصل ہے۔
جب یہ دریا سوڈان میں داخل ہوتا ہے تو اس کی رفتار بہت سست ہوجاتی ہے، کیوں کہ دریا  دنیا کے سب سے بڑا دلدل سے گزرتا ہے یعنی 700 کلو میٹر ۔ یہاں ایک قسم کی گھاس پاپائرس پائی جاتی ہے، جو پورے دلدل پر چھائی رہتی ہے۔ یہ اتنی گھنی اور مضبوط ہے   دریا کا پانی گھاس کے نیچے نیچے بہتا ہے۔ پتا نہیں چلتا کہ پانی کہاں ہے۔ یہاں سارس، بگلے اور پانی میں رہنے والی مختلف چڑیاں بکثرت پائی جاتی ہیں۔ 
۔ یہ دریا
سوڈان میں مصر کی سرحد پر دریائے نیل انسان کی بنائی ہوئی دنیا کی سب سے بڑی جھیل  ناصر میں داخل ہوتا ہے۔ یہاں اسوان کے مقام پر اسوان بند باندھا گیا ہے۔ اس بند سے دریا کا پانی رک گیا ہے اور ایک جھیل بن  ہے۔ اس بند سے آب پاشی کے لیے نہریں نکالی گئی ہیں اور پانی کو سرنگوں سے گزار کر اس پانی سے بجلی پیدا کی گئی ہے۔ اسوان بند کی نہروں سے دریائے نیل کے دونوں طرف 50 میل تک کاشت کاری ہوتی ہے  
اس سے اُندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مصر نے اپنی سر زمین آنےپرکو کس  طرح کاشتکاری اور بجلی پیدا کرنےلیے استعمال کیا ہے

اتوار، 23 اکتوبر، 2022

انشا جی کے دیس میں

script async src="https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-4942806249941506" crossorigin="anonymous">

اِنشاء جی کا شُمار بلا شبہ پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے اُردو اَدب کے اُن مایہ ناز اور بلند پایہ  قَلم کاروں میں ہوتا ہے جِنہوں نے نظم ونثر دونوں میدانوں میں اپنے کمالِ فن کے جَھنڈے گاڑے ہیں۔ اُن کی ہَمہ گِیر اور ہَمہ جِہت شَخصِّیت میں ایک شاعِر بھی موجُود ہے، ایک کالم نویس بھی، بَچّوں کا ادیب بھی اپنی موجُودگی کا اِحساس دِلاتا ہے، سفرنامہ نِگار اور مُتَرَجِم بھی پا یا جاتا ہے۔ غرض یہ کہ وہ ہر صِنفِ اَدب میں ایک اَلگ دبستان ہیں اور اپنے اُسلُوب کے مَؤجِد بھی ہیں ۔

اِبنِ اِنشاء کا اصل نام شیر مُحَمّد خان تھا۔  انہوں نے قلمی نام (اِبنِ اِنشاء) اِختیار کیا۔ جمیلُ الدین عالی نے اِبنِ اِنشاء کو "اِنشاء جی" کہا جِس کی وجہ سے اِبنِ اِنشاء "اِنشاء جی" ہی ہو گئے
اِنشاء جی 15 جون 1927ء کو مُوضع تھلہ، تحصیل پھلور، ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد کا نام چوہدری مُنشی خان اور والدہ کا نام مریم تھا۔ اِنشاء جی نے 1942ء میں لُدھیانہ ہائی سکول سے دَرجہ اَوّل میں میٹرک کا اِمتحان پاس کیا۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد وہ انبالہ چھاؤنی میں مِلٹری اکاؤنٹس میں بطَورِ کلرک بھرتی ہو گئے۔ کم آمدنی، گھریلو اُلجھنوں اور دفتری مَصرُوفیات کے باوجُود اُنہوں نے تعلیمی سِلسِلہ مُنقطع نہیں ہونے دیا، چُنانچہ 1944ء میں مُنشی فاضِل کا اِمتحان پاس کرنے کے بعد اُنہوں نے 1946ء میں جامِعہ پنجاب سے بی اے کی ڈِگری حاصِل کی۔

 گریجویشن کرنے کے بعد اِنشاء جی نے مِلٹری اِکاؤنٹس کی مُلازمت کو خیر باد کہا اور دہلی جا کر امپیریل کونسل آف ایگریکلچر میں بھرتی ہو گئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ لاہور آئے اور 1947ء سے 1949ء تک ریڈیو پاکستان لاہور میں کام کرتے رہے۔ جُولائی 1949ء میں وہ ریڈیو پاکستان کی مُلازمت کے سِلسِلے میں کراچی مُنتَقِل ہو گئے جہاں اُنہوں نے اُردو کالِج کراچی میں داخلہ لیا اور 1953ء میں اُردو زُبان وادب میں ایم اے کیا۔

 وہ 1959ء میں پاکستان رائٹرز گلڈ کے رُکن بنے اور 1962ء میں نیشنل بُک کونسل (اب اِس اِدارے کو نیشنل بُک فاؤنڈیشن کہا جاتا ہے) کے ڈائریکٹر مُقرَّر ہوئے اور طویل مُدّت تک اِس عُہدے پر تعیّنات رہے۔ اِبنِ اِنشاء ٹوکیو بُک ڈویلپمنٹ پروگرام کے وائس چیئرمین اور ایشین کوپبلیکیشن پروگرام ٹوکیو کی مرکزی مَجلِسِ اِدارت کے رُکن بھی تھے۔ زندگی کے آخری اَیّام میں حُکُومتِ پاکستان نے اُنہیں اِنگلستان میں تعیّنات کر دیا تھا تاکہ وہ اپنا عِلاج کروا سکیں لیکن سرطان کے بے رحم ہاتھوں نے اُردو اَدب کے اِس مایہ ناز ادیب اور بنجارے شاعِر کو اُن کے لاکھوں مَدّاحوں سے جُدا کرکے ہی دَم لیا۔

اِبنِ اِنشاء کو بَچپن ہی سے شِعر گُوئی کا شُوق تھا۔ زمانہِ طالِب عِلمی میں اُنہوں نے "اصغر، قیصر، مایُوس اور مایُوس صِحرائی" تَخَّلُص اَپنائے تھے۔ اپنی ذاتی زندگی میں اُنہیں کئی سانِحات اور مَحرُومیوں (بِالخُصُوص پِہلی شادی میں ناکامی) کا سامنا کرنا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی شاعِری میں فَلاکَت، درد وغم، حُزنُ ومَلال اور اُداسی وپُژمُردگی کی بازگَشت بَکثرت سُنائی دیتی ہے۔ اُن کی بہت سی غزلیں اور نظمیں اُن کی ذہنی کیفیات کی غَمَّاز وعَکَّاس ہیں۔ وہ خُود کِہتے ہیں کہ: "میری نظموں میں وَحشَت، سُپُردگی اور ربودگی میری زندگی ہے۔" اِنشاء جی نے بھرپُور شاعِری کی ہے جِس میں جوگ بَجوگ کی کہانیاں اور ویرانئی دل کی حَسرت ومَاتم کی حکایتیں ہیں۔ اُن کی شاعِری میں فقر، طنطنہ، وارفتگی اور آزارگی پائی جاتی ہے۔

 اِنشاء جی کا پِہلا مجمُوعہ کلام 1955ء میں "چاند نِگر" کے نام سے شائع ہُوا۔
 اِس کے عِلاوہ اُن کے شِعری مجمُوعوں میں "اِس بستی کے اِک کُوچے میں

 (1976ء) اور دلِ وحشی (1985ء) شامِل ہیں۔ اِنشاء جی نے بَچّوں کے لیے بھی نظمیں کہی ہیں۔

۔ اُن کے سفرناموں میں "چلتے ہو تو چین کو چلیے (1967ء)، آوارہ گرد کی ڈائری (1971ء)، دُنیا گُول ہے (1972ء)، ابنِ بطوطہ کے تعاقُب میں (1974ء) اور نَگری نَگری پِھرا مُسافِر (1989ء)" شامِل ہیں۔ عِلاوہ ازیں اُن کی دیگر کِتابوں میں "اُردو کی آخری کتاب (1971ء)، آپ سے کیا پردہ، خُمارِ گندم (1980ء) باتیں اِنشاء جی کی اور قِصّہ ایک کنوارے کا" قابلِ ذکر ہیں۔ 
ابن انشاء کا خوبصورت انشائیہ ’’خطبہ صدارت حضرت ابن انشاء‘‘ کے اقتباسات ملاحظہ فرمائیے اور ان کی بہترین انشاء پردازی کا اندازہ لگائیے۔

            ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک زمانہ تھا ہم قطب بنے گھر میں بیٹھے رہتے تھے اور ہمارا ستا رہ گردش میں رہا کرتا تھا۔ پھر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ہم خود گردش میں رہنے لگے اور ہمارے ستارے نے کراچی میں بیٹھے بیٹھے آب و تاب سے چمکنا شروع کیا۔ پھر اخبار شاعر میں ’’آج کا شاعر‘‘ کے عنوان سے ہماری تصویر اور حالات چھپے۔ چونکہ حالات ہمارے کم تھے لہٰذا ان لوگو ں کو تصویر بڑی کرا کے چھاپنی پڑی اور قبول صورت، سلیقہ شعار، پابند صوم و صلوٰۃ اولادوں کے والدین نے ہماری نوکری، تنخواہ اور چال چلن کے متعلق معلومات جمع کرنی شروع کر دیں۔ یوں عیب بینوں اور نکتہ چینوں سے بھی دنیا خالی نہیں۔ کسی نے کہا یہ شاعر تو ہیں لیکن آج کے نہیں۔ کوئی بے درد بولا آج کے تو ہیں لیکن شاعر نہیں۔ ہم بد دل ہو کر اپنے عزیز دوست جمیل الدین عالی کے پاس گئے۔ انہوں نے ہماری ڈھارس بندھائی اور کہا دل میلا مت کرو۔ یہ دونوں فریق غلطی پر ہیں۔ ہم تو نہ تمہیں شاعر جانتے ہیں نہ آج کا مانتے ہیں۔ ہم نے کسمسا کر کہا۔ یہ آپ کیا فرما رہے ہیں ؟ بولے میں جھوٹ نہیں کہتا اور یہ رائے میری تھوڑی ہے سب ہی سمجھدار لوگوں کی ہے۔

اِنشاء جی ایک مُتَرَجِم کی حیثِیّت سے بھی بُلند مُقام پر فائز ہیں۔ اُنہوں نے کثیر تعداد میں منثُور ومنظُوم کِتابوں کو اُردو کے قالب میں ڈھالا-خمار گندم سے لیا گیا سبق
اِبنِ اِنشاء نام ہم نے نہ جانے کَب رکھا تھا اور کیوں رکھا تھا۔  نَیا نام رکھنے کا فائِدہ یہ ہُوا کہ لوگ سَیّد اِنشاءالله خاں اِنشاء کی رِعایَت سے ہمیں بھی سَیّد لِکھنے لگے یعنی گھر بیٹھے ہماری تَرَقِّی ہو گئی۔  لکھنؤ والوں نے اَلبَتّہ ہماری زُبان کے نَقائِص کے لیے اِسی کو بَہانا بَنا لیا کہ ہاں دِلّی والے ایسی ہی زُبان لِکھا کرتے ہیں۔ پِھر ایک روز ایسا ہُوا کہ ایک صاحِب نے آکر ہمارا ہاتھ اَدب سے چُوما اور کہا: والله! آپ تو چُھپے رُستم نِکلے۔ آپ کا کَلام پَڑھا اور جِی خُوش ہُوا۔ ہم نے اِنکِسار بَرتا کہ ہاں کُچھ ٹُوٹا پُھوٹا کِہہ لیتے ہیں۔ آپ نے کون سِی غزل دیکھی ہماری۔ حافظے پر زور ڈال کر کہنے لگے پھر کبھی سناو ں گا آپ ابھی اپنا تازہ کلام سناِئے  

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر