پیر، 31 اکتوبر، 2022

گمشدگی سے بازیابی تک کا سفر

 

میری بیٹیوں دھو کے سے ہوشیار،


میں نے کراچی سے گمشدہ ہونے والی بچّیوں کے لئے قلم نہیں اٹھا یا  تھا -میں الحمد للہ خود بھی دو بیٹیوں کی ماں ہوں اورکسی بھی بیٹی کے لئے دوحرف بھی غلط کہنا انتہائ معیوب سمجھتی ہوں -لیکن اب جبکہ تمام بیٹیوں کے معاملات سلجھ گئے ہیں اس لئے اپنے معاشرے کی بیٹیوں کو بتانا چاہتی ہوں کہ خدارا کوئ بھی فیصلہ کرنے سے پہلے ہزار بار سوچئے گا کہ کہیں یہ قدم -مجھے کھائ میں تو نہیں لے جا رہے ہیں 

جیسا کہ میں نے کہا کہ جب لڑکے گھر بسانے کا ارادہ کرتے ہیں تو ایماندار ہوتے ہیں ،بلکل اسی طرح لڑکیاں بھی گھر بس  معاملے میں ایماندار ہوتی ہیں لیکن آ ج کے جدید دور نے اس نوجوان نسل کو گمراہی کی ان راہوں پر لگا دیا ہے کہ والدین کی زمّہ داری دوگنا ہو گئ ہے کہ وہ اپنی جوان اولاد کو اپنے سے اس قدر قریب کر کے رکھیّں کہ دنیا والے ان معصو موں کو آسانی سے اپنا شکار نا بنا لیں

جب بیٹی کے ہاتھ میں دن میں موبائل  ہو گا یا نیٹ بک ہو گی ۔دن تو دن رات کو  بھی اجنبی  لوگوں سے بات کرنے کی سہولت  ہو گی ہے اور ماں نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لی ہوں گی کہ بیٹی ابھی چھوٹی ہے تو پھر ،،آگے کیا ہوتا ،،مو بائل اور نیٹ سے پروان چڑھنے والے عشق نے زور کیا تو گھر سے شادی کی اجازت نہیں ملی،تب بنائے ہوئے پلان کے مطابق لڑکی نے گھر سے ماں کا زیور لیا اور لڑکے کی بتائ ہوئ جگہ پر پہنچ گئ س،لڑکا گاڑی لئے تیّار کھڑاتھا ،ور لڑکی کو بٹھا کر گاڑی چل پڑی ،شہر کی حدود ختم ہونے سے پہلے لڑکے نے ایک جگہ گاڑی روکی یہ گاڑیوں کی ایک ورک شاپ تھی ،لڑکے نے کہا زرا ٹہرو مجھے ایک ضروری کام یاد آگیا ہے یہ میرےf دوستو ں کی جگہ ہے ،تم پریشان مت ہونا میں ابھی آتا ہوں لڑکی کو گاڑی سے اتار کر ورکشاپ پر بٹھایا اور اپنے دوستوں سے کچھ کہ کر لڑکا زیور سمیت چلا گیا دو پہر جب سہ پہر ہو گئ تب لڑکی کو معلوم ہوا کہ وہ اپنے گھر سے کتنی دور نکل آئ ہے کہ اب واپسی ناممکن ہے

اورپھر جب لڑ کی کی آنکھ کھلی تو وہ بازار حسن میں ایک ایسی فروخت شدہ لڑکی تھی جس کو اپنی ہر رات اجنبی مہمانوں کو فروخت کرنا تھی ،اس لڑکی نے وہیں سے اپنے معاشرے کی لڑکیوں کو پیغام دیا تھا کہ خدارا شادی کا فیصلہ اپنے ماںباپ پر چھوڑ کر انتظار کریں اور محبّت کے دھوکے میں نا آ ئیں ورنہ میری طرح بازار حسن کی زینت بن کر زندگی گزارنی ہوگی،،،،

میری سمجھ کے مطابق،یہ لڑکا اگر شادی کر بھی لیتا تو بھی لڑکی کو فروخت لازمی کرتا کیونکہ اس کا پیشہ ہی یہی تھا کہ لڑکیوں کو جال میں پھانس کر ان کو فروخت کر دینا یہ کاروبار پورے پاکستان میں بہت تیزی سے پھیل رہا ہے ،حیدر آباد شہر میں پولیس کی ملکیت میں لڑکیوں کی سجی ہوئ منڈی تو آپ سب کی  نظروں سے بھی گزری ہو گی جس میں اقرار الحسن زخمی بھی ہوئے تھے۔

صادق آباد کے چنگی ناکے سے گزر کر گھوٹکی شہر میں آ نے والی ایسی انگنت کاریں ہوتی ہیں جن میں فروخت شدہ لڑکیا ں ہوتی ہیں ،ان میں کچھ اپنے ہوش و حواس میں ہوتی اور کچھ بے ہوش بھی ہوتی ہیں پولس کو معلوم ہوتا ہے کہ اندر کون ہے اس لئے مسکراتے ہوئے جانے کی اجا زت چند ہزار نوٹوں کے عوض مل جاتی ہے وہ اجازت نہیں دیں گے تو ان کی روزی چلی جائے گی کیو نکہ گاڑیا ں بہت اعلٰی درجے کے افراد سے وابستہ ہوتی ہیں

کراچی میں عا ئشہ منزل پر طاہر ولا کے پیچھے بلاک ڈ ی فیڈرل بی ایریا سے متصل علاقے میں ایک چھو ٹی سی کچّی بستی میں ،میں نے خود اپنی آنکھوں سے پولس موبائل کی سرپرستی میں لڑکیوں کی خرید و فروخت ہوتے دیکھی ہے ،خدا ہمارے معاشرے پر رحم کرے

میں نے یہ تحریر صدق دل سے بچیّوں کی بھلائ کے لئے لکھی ہے گھوٹکی شہر کی تو پوری تفصیل ایک موقر روزنامے میں آ چکی ہے اور کراچی کا تو کہنا ہی کیا ،بحر زخّار شہر میں جرائم کی سر پرستی کرنے والوں کو کون پوچھنے والا ہے جس کا جو جی چاہے کرے ،یہ محض ایک جگہ میری نظر میں آ گئ وہ بھی اتنے خوشحال علاقے میں ورنہ تو آج کی مضافاتی بستیاں تو ایسے جرائم کے دم سے لہلہا رہی ہیں ،

بس ا للہ ہر دم محفوظ و ما مون رکھّے

اللہ نگہبان

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر