حضرت لقمان اللہ تعالیٰ کے ایک پسندیدہ
انسان تھے -ان میں ایسی خوبیاں موجود تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو منصب نبوّت
سونپنے کا ارادہ کیا -لیکن پہلے حضرت لقمان سے ان کی مرضی دریافت کرنے کے لئے
فرشتہ بھیجا -حضرت لقمان اس وقت قیلولہ کر رہے تھے کہ ندائے غیبی آئ کہ اللہ تعالیٰ
آپ کو منصب نبوّت عطا کرنا چاہتا ہے جس کے لئے آپ کی مرضی معلوم کروائ ہے حضرت
لقمان فرشتہ کی آواز سن کر چوکنّا ہو گئے
ادھر ادھر دیکھا لیکن فرشتہ نظر نہیں
آیا لیکن فرشتہ کی اپنے قریب موجودگی کو انہوں نے محسوس کر کے جواب دیا کہ اللہ نے
میری مرضی طلب کی ہے یا مجھے حکم دیا ہے ،فرشتے نے کہا آ پ کی رضا طلب کی ہے،حضرت
لقمان رحمۃ اللہ علیہ نے جواب میں فرمایا کہ اللہ تعالٰی سے کہنا کہ میں اپنے آپ
کو نبوّت کا گراں بار منصب اٹھا نے کا اہل نہیں پاتا ہوں چنانچہ فرشتے حضرت لقمان کا جواب لے کر واپس
چلے گئے ،اور پھر اللہ تعالٰی نے حضرت موسٰی علیہ السّلام سے علم حکمت واپس لے کر
وہ علم حضرت لقمان رحمۃ اللہ علیہ کو دیا اور منصب نبوّت پر حضرت موسٰی علیہ
السّلام کو سرفراز کیا۔اس سے پہلے علم حکمت حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے پاس تھا-یاد
رہے کہ دنیا کے پہلے حکیم و طبیب حضرت موسٰی علیہ السّلام تھے
"محسن کے احسان کا بدلہ "
حضرت لقمان رحمۃ اللہ علیہ ایک پاک
نفس انسان تھے۔وہ دن رات اپنے آقا کی خدمت
میں کمر بستہ رہتے۔ ان کا آقا بھی ان کی رائے اور مشورہ کے بغیر کوئی کام نہ کرتا۔
وہ انہیں اپنے بیٹوں کی طرح عزیز رکھتا تھا۔ بس یوں سمجھئے کہ وہ محض نام کے غلام
تھے۔ درحقیقت ان کے آقا نے ان کے مرتبہ کو پہچان لیا تھا۔ اس لیے وہ ان کے ساتھ
کمال محبت کا سلوک کرتا تھا۔ یہاں تک کہ جو کھانا بھی اس کے لیے لایا جاتا وہ حضرت
لقمان وہ کے بغیر نہ کھاتا۔ وہ ان کا چھوڑا ہوا کھانا ،کھانا فخر سمجھتا تھا۔ جس
کھانے کو حضرت لقمان نہ کھاتے ،وہ اسے مکروہ سمجھ کر نہ کھاتا اور اگر کھاتا تو
بہت بے دلی کے ساتھ کھاتا۔ ایک دن اتفاقاً کہیں سے ایک خربوزہ بطور تحفہ آیا۔
آقا نے لقمان رحمۃ اللہ علیہ کو
کھلانا چاہا، مگر وہ وہاں موجود نہ تھے۔ کسی کو بھیج کر فوراً بلایا۔ جب حضرت
لقمان آگئے تو مالک نے چھری لے کر خربوزے کی ایک پھانک کاٹ کر انہیں دی۔ حضرت
لقمان نے بڑے مزے سے چٹخارے لے لے کر کھائی۔ آقا نے انہیں خوش دیکھ کر دوسری پھانک
دی، جسے انہوں نے اور بھی رغبت اور خوشی سے کھایا حتیٰ کہ نوبت سترھویں پھانک تک
جاپہنچی۔ جب صرف ایک پھانک باقی رہ گئی تو آقا نے کہا؛ اب میں بھی تو دیکھوں کہ یہ
خربوزہ کس قدر مزے دار ہے جسے حضرت لقمان نے اتنے مزے سے کھایا ہے۔ جونہی اس نے اس
قاش کو منہ لگایا اس کی کڑواہٹ سے منہ کے اندر آگ ہی لگ گئی۔ زبان پر آبلے پڑ گئے۔
اور حلق جلنے لگا۔ کچھ دیر تو اس کی تلخی سے بے خود رہا۔ ذرا سنبھلا تو کہنے لگا
؛اے عزیز، ایسی کڑوی چیز کو تم نے کیسے کھایا؟ تمہارے صبر کی بھی حد ہوگئی۔ اگر
انکار کرتے شرم آتی تھی تو کوئی حیلہ بہانہ ہی کردیا ہوتا۔ حضرت لقمانرحمۃ اللہ علیہ
نے جواب دیا؛میں نے آپ کے نعمتیں بخشنے والے ہاتھوں سے اس قدر لذیذ نعمتیں کھائیں
ایک اگر کڑوی مل گئی تو انکار کیسے کرتا۔ محسن کے احسان کا لحاظ نہایت ضروری ہے۔ میں
تو آپ کے احسانات سے پرورش ہوا ہوں، پھر ایک تلخ چیز آپ کے ہاتھ سے مجھے ناگوار کیوں
گزرتی
حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو نصیحتیں-یہ
حکیمانہ اقوال قرآن کریم میں نقل کئے گئے تاکہ قیامت تک آنے والے انسان ان سے
فائدہ اٹھاکر اپنی زندگی خوب سے خوب تر بنا سکیں-اللہ تعالیٰ نے سورۃ لقمان میں
حضرت حکیم لقمان رحمۃ اللہ علیہ کی اُن قیمتی نصیحتوں کا ذکر فرمایا ہے جو انہوں
نے اپنے بیٹے کو مخاطب کرکے بیان فرمائی تھیں۔ یہ حکیمانہ اقوال اللہ تعالیٰ نے اس
لئے قرآن کریم میں نقل کئے ہیں تاکہ قیامت تک آنے والے انسان ان سے فائدہ اٹھاکر
اپنی زندگی کو خوب سے خوب تر بنا سکیں اور ایک اچھا معاشرہ وجود میں آسکے۔