منگل، 16 اگست، 2022

شیر نیستان حیدر “عباس

-بی بی سیّدہ سلام اللہ علیہا کی رحلت کے بعد جناب امیر کائنات سے جب    جناب عقیل  نے عقد ثانی کی درخواست کی تو حضرت علی علیہ السّلام نے جناب عقیل سے کہا مجھے شجاع اور دلیر قبیلے کی شریک زند گی چاہئے -چنانچہ جناب عقیل جو ایک نامور ماہر انساب تھے قبیلہ بنی کلاب کا انتخاب کیا اور پھر مولائے کائنات سے رشتہ دینے کی اجازت طلب کی -
اور اس طرح بی بی ا مّ البنین آپ کے عقد میں آئیں -اور پھر ایک روز باسعادت گھڑی میں جناب عبّاس قبیلہ بنو ہاشم میں مثل چاند کے اترے - یہ چار شعبان سن ۲۶ ہجری کی تاریخ تھی اور ۶۱ ہجری کو کربلا میں مقام شہادت پر فائز ہوئے۔  
حضرت عباس علیہ السلام بچوں کی سرپرستی، کمزوروں اور لاچاروں کی خبر گيری، تلوار بازی اور و مناجات و عبادت سے خاص شغف رکھتے تھے۔ ان کی تعلیم و تربیت خصو صاً کربلا کے لئے ہوئی تھی۔ لوگوں کی خبر گیری اور فلاح و بہبود کے لئے خاص طور پر مشہور تھے۔ اسی وجہ سے آپ کو باب الحوائج کا لقب حاصل ہوا۔ حضرت عباس کی نمایان ترین خصوصیت ”ایثار و وفاداری“ ہے جو ان کے روحانی کمال کی بہترین دلیل ہے۔ وہ اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے عاشق و گرویدہ تھے اورسخت ترین حالات میں بھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔

 لفظ وفا ان کے نام کے ساتھ وابستہ ہوگیا ہے اور اسی لئے ان کا ایک لقب شہنشاہِ وفا ہے ۔ صفین میں جنگ زوروں پر تھی جب اچانک ایک نقاب دار مثل حیدر کرّارمولا علی علیہ السلام کے لشکر سے جدا ہوا۔ اور اپنے گھوڑے کو ایڑ دیتے ہوئے مخالف لشکر کے سامنے آکر رکا اور ہل من مبارز کی صدا بلند کی۔ اس نوجوان کے مقابلے میں لشکر کے طاقتور ترین پہلوان ابو شعثاء کو بھیجا گیا اس نے میدان میں نکل کر اس نوجوان کو کہا: شام والے سمجھتے ہیں کہ میں ایک ہزار گھڑسوار شہسواروں کے برابر ہوں ؟ میں اپنے بجائے اپنے بیٹوں کو اس مقابلہ میں اتاروں گا میرے سات بیٹے ہیں جو اس اس نوجوان کوجواب دے سکتے ہیں چنانچہ اس نے اپنا ایک بیٹا میدان کارزار میں جناب عبّاس کے مقابل بھییجا جو چند ہی لمحوں میں نوجوان کے ہاتھوں اپنے ہی خون میں نہا گیا۔ ابو شعثاء نے بڑی حیرت سے یہ نظارہ دیکھا اور اپنا دوسرا بیٹا نئی ہدایات دے کر میدان میں اتارا لیکن نتیجہ وہی تھا اور یوں ابو شعثاء کے سات اس نوجوان کے ہاتھوں مارے گئے۔ آخر کار ابو شعثاء شاید سات بیٹوں کا بدلہ لینے نوجوان کا جواب دینے کے لئے میدان میں اترا لیکن وہ بھی چند ہی لمحوں میں اس نوجوان کی ایک کاری ضرب کا شکار ہوکر اپنے بیٹوں سے جا ملا۔ 

مزید مخالف کے لشکر میں کسی میں اس نوجوان کا جواب دینے کی جرأت نہ تھی یہ جوان کون ہے اور جنگ صفّین جو امیر شام کی جانب سے مولائے کائنات کے خلاف کی گئ تھی بدترین شکست کے ساتھ اختتام پذیر ہوئ لڑائ ختم ہونے بعد جب آپ نے لشکر سے کچھ دور جا کر نقاب الٹی تب لوگ سمجھے کہ جنگ مولا علی علیہ السّلام نہیں حضرت عبّاس علمدار کر رہے تھے کربلا کے میدان میں حضرت عباس علیہ السلام نے جس عزم وحوصلہ ، شجاعت وبہادری اور ثابت قد می کا مظاہرہ کیا اس کو بیان کرنے کا مکمل حق ادا کرنا نہ تو کسی زبان کے لئے ممکن ہے اور نہ ہی کسی قلم میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ اسے لکھ سکے۔ جناب عباس علیہ السلام نے اپنے مضبوط ترین ارادہ اور عزم و حوصلہ کے اظہار سے ابن زیاد ملعون کے لشکر کو نفسیاتی طور پر بالکل ایسے ہی بھاگنے پر مجبور کر دیا جیسے انھوں نے میدان جنگ میں تنہا ان ملعونوں کو اپنی تلوار اور شجاعت سے بھاگنے پر مجبور کردیا تھا۔

 حضرت علی علیہ السلام نے ان کی تربیت و پرورش کی تھی۔ حضرت علی علیہ السلام سے انھوں نے فن سپہ گری، جنگی علوم، معنوی کمالات، مروجہ اسلامی علوم و معارف خصوصا´ علم فقہ حاصل کئے۔ 14 سال کی معمولی عمر تک وہ ثانی حیدرکرّار کہلانے لگے۔ 

حضرت عباس علیہ السلام عظیم ترین صفات اور فضائل کا مظہر تھے شرافت ، شہامت ، وفا ، ایثار اور دلیری کا مجسم نمونہ تھے۔ واقعہ کربلا میں جناب عباس علیہ السلام نے مشکل ترین اور مصائب سے بھرے لمحات میں اپنے آقاومولا امام حسین علیہ السلام پر اپنی جان قربان کی اور مکمل وفا داری کا مظاہرہ کیا اور مصائب کے پہاڑوں کو اپنے اوپر ٹوٹتے ہوئے دیکھا لیکن ان کے عزم وحوصلہ، ثابت قدمی اور وفا میں ذرا برابر بھی فرق نہ پڑا اور یہ ایک یقینی بات ہے کہ جن مصائب کا سامنا جناب عباس علیہ السلام نے کیا ان پر صبر کرنا اور ثابت قدم رہنا فقط اس کے لئے ہی ممکن ہے کہ جو خدا کا مقرب ترین بندہ ہو اور جس کے دل کو خدا نے ہر امتحان کے لئے مضبوط بنا دیا ہو۔۔ 
حرم حسینؑ کےنگہدار، پرچم اسلام کے علمبردار، ثانیِ حیدرِ کرّار ، خاندانِ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ واٰ لہ وسلّم کے شیر دلیر ، قلزمِ علی کے نایاب گوہر، فاطمہ زہرا کے پسر، ثانیِ زہرا کے چہیتے برادر ،علمدار کربلا حضرتِ ابوالفضل العبّاس علیہ السلام ۔کسی کے قلم میں اتنی طاقت کہ انکی فضیلت کا احاطہ کر سکے جناب سیّدسجّاد علیہ السّلام فرماتے ہیں کہ خدا میرے چچا عباس پراپنی رحمت سایہ فگن کرے کہ جنہوں نے ایثار و فداکاری کرتے ہوئے اپنے بھائی پر فدا ہوگئے۔ یہاں تک کہ ان کے دونوں بازوں قلم ہو گئے پس خدا نے انہیں دو پردئے جن کے ذریعے وہ جنت میں ملائکہ کے ساتھ پرواز کرتے ہیں جیسا کہ جناب جعفر بن ابی طالب علیہ السلام کو دو پر دئے۔ عباس کا اللہ کے نزدیک ایسا رفیع مقام ہے جس پر دوسرے شہداء قیامت کے دن رشک کریں گے -

شب عاشور امام علیہ السلام نے اپنے اصحاب کو جمع کیا اور ایک خطبہ کے درمیان اپنے بیعت کو ان پر سے اٹھا کر فرمایا: آپ لوگ چلے جائیں ان کو صرف مجھ سے مطلب ہے۔ اس ہنگام سب سے پہلے جس نے اعلان وفاداری کیا حضرت عباس ہیں۔ انہوں نے عرض کیا: ہم ایسا کیونکر کریں۔ کیا اس لیے کہ آپ کے بعد زندہ رہیں؟ خدا کبھی ایسا دن نہ لائے۔ سقائے کربلا حضرت عباسؑ علمدار کی شہادت امام حسینؑ کیلئے اس قدر کٹھن تھی کہ آپ نے فرمایا کہ ’’ عباسؑ کی شہادت میری کمر توڑ گئی‘‘۔ بی بی سکینہ اور حضرت عبّاس علمدارحضرت عباسؑ علمدار عاشور کے دن خیمہ حسینی میں پیاس سے بلکتے بچوں کیلئے پانی لینے دریائے فرات پہنچے اور فوج اشقیا کو للکارا ۔ آپ نے مشک بھری اور واپس جانے لگے تو اس دوران گھات لگائے اشقیاء نے آپ کے دونوں ہاتھ قلم کرکے شہید کردیا۔
شہادت کے وقت آپ کی عمر مبارک ۳۴ سال تھی
 رو کر پکارے عترتِ اطہار، الوداع! عباس الوداع، اے علم دار الوداع اے زیبِ پہلوئے شہِ ابرار! الوداع! اے نام دارِ حیدرِ کرار، الوداع!

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر