اتوار، 14 اگست، 2022

میں چلا ہو ں علی سے ملاقات کو'آہ سبط جعفر،

.

آہ سبط جعفر،

.

موت اُن کے محبوّں کو آتی نہیں

آ بھی جائے تو پھر بچ کے جاتی نہیں

ہم تم کو نہیں بھولے تم بھی کوئ بھلا دینے والی شخصیت تھے مرثیے ' سوزو سلام کی مسند جاودانی ادارے کی شکل میں بچھا ئ اور

 دیکھتے' دیکھتے ہزاروں شاگردوں کو مثل پروانے جمع کر لیا لیکن طاغوت تو آپ کی گھات میں بیٹھ چکا تھا اور پھر 19 مارچ 2013

 جب امام عالی مقام 'مظلوم کربلا '- سید الشہداء کے ایک عظیم و بے لوث مدح خواں شہادت کے عظیم منصب پر فائز ہو کر خلد

-بریں کے سفر پر روانہ ہو گئے

 یہ بزم سیّدہ ہے چلے آو مہ رخوں

مسند بچھی ہے سوز و سلام مرثیہ و منقبت

تشریف لارہے ہیں مولائے کائنات و شافع اُمم

کیوں نا آئیں اس محفل و مجلس میں شاہ دیں

پڑھنے کو آئیں گے استاد سبط جعفر و ہم نشیں

سیّدہ زائرہ عابدی

مرقّع سادگی اتنا کہ پہلی نظر میں دیکھنے والے یہی  سمجھیں کہ بس ایک درمیانہ درجہ کے سفید پوش سے ملاقات کر رہے ہیں لیکن علمی قابلیت معلوم ہو تو حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں کہ کردار کی عظمت  کو بے اختیارجھک جائیں جی ہاں یہ خاکہ ہے سیّد سبط جعفر مرحوم کا - موٹر سائیکل پر سوار پورے شہر میں سر وعدہ پہنچنے والے شخص کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہ شخص ایڈووکیٹ، مصنف و شاعر اور سوز خوان و قومی سماجی کارکن ایک کالج کا پروفیسر، کئی مذہبی اور تعلیمی اداروں کا بانی، پاکستان میں فن سوز خوانی اور مرثیہ خوانی کے مؤثر ترین بلکہ واحد ادارے، ادارہ ترویج سوز خوانی کا سربراه اور ان سب باتوں سے بڑھ کر شاعر و مداح اہلبیت  تھا۔ ہزاروں شاگردوں کی مختلف میدانوں میں تربیت کرنے والے سبط جعفر کی شخصیت سادگی میں پر کاری کا مصداق تھی۔طبیعت کی سادگی نے مزاج کو اتنا شفیق کر دیا تھا کہ ہر ملاقات کرنے والا یہ سمجھتا تھا کہ استاد اسی سے اتنا قریب ہیں ۔ بچے بڑے کا فرق ان کی نظر میں کیا تھا بس احترام کرنا تھا ہر انسان کا اور وہ بھی عبادت جان کر۔ ہر وقت خوشگوار مزاج میں دوسروں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے کے مشاق ہر حال میں راضی برضائے الہی نظر آتے-وہ علم کے ایسے جویا تھے کہ دینی علم تھا یا دنیا وی 'وہ ہوش سنبھال کر اپنے علمی بستے سے ایسے وابستہ ہوئے کہ ہر منزل پر انہوں نے اپنی علمی قابلیت کا لوہا منوا لیا

مختلف علمی و سماجی و ثقافتی دینی، ادبی اداروں سے مختلف حیثیتوں میں وابستگی کے علاوہ دورانِ طالب علمی اسکول، کالج اور یونیورسٹی

 میں مختلف عہدوں پر منتخب ہوئے۔ کراچی یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کا کونسلر، FR چیئرمین پریس اینڈ پبلیکیشنز اور چیئرمین

 اسپورٹس بورڈ۔ اس دوران اعلٰی سطح پر کرکٹ اور ٹیبل ٹینس بھی کھیلی  انجمن محمدی قدیم   رجسٹرڈکے صدر اور انجمن سوز

 خوانان کراچی کے بھی عہدے دار رہے۔ انجمن محبان اولیاء کے مرکزی خادم، بانی رکن ہونے کے علاوہ کراچی بار ایسوسی ایشن

 اور سندھ پروفیسرز لیکچررز ایسوسی ایشن کی رکنیت کے علاوہ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی  کی تاحیات رکنیت حاصل تھی۔ نیز

 بین الاقوامی ادارہ تزویج سوز خوانی کے بانی ہونے کے علاوہ انجمن وظیفہ سادات و مومنین پاکستان رجسٹرڈ کے مرکزی صدر

 (2005ء تا 2008ء) ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ بطور شاعر و سوز خوان مختلف ممالک کی سیاحت و زیارت کا شرف حاصل

 ہوا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی نامور یونیورسٹیز بالخصوس ہارورڈ یونیورسٹی نے بطور ماہر فن خصوصی پذیرائی کی۔

1996ء پاکستان ٹیلی وژن نے صوتی علوم و فنونِ اسلامی پر “لحن عقیدت” کے نام سے دس خصوصی تحقیقی و معلوماتی پروگرام

 نشر کئے۔ بطور شاعر و سوز خوان تقریباً 50 آڈیو، ویڈیو کیسٹس اور سی ڈیز EMI، شالیمار، رضوی کیسٹس، زیدی پروڈکشن،

 یاسین اسٹوڈیو، جعفری کسیٹس، پنجتن کیسٹن، AB میوزک سینٹر، باب العلم کیسٹ لائبریری، عترت فاؤنڈیشن، پیام،

 ترابی کیسٹس لائبریری، شاہ جی اسلامک سی ڈی سینٹر وغیرہ نے جاری کئے۔

 اسی نظریہ کے پیش نظر ہزاروں جوانوں کے مربی اور مرد مومن استاد سبط جعفر کو ڈگری کالج لیاقت آباد کہ جس کالج میں وہ علم

 دوست جوانوں کو علم کی دولت سے مالا مال کیا کرتے تھے علم دشمنوں نے اپنے ہدف کا نشانہ بنایا اور وہ اس حملے میں شہید ہو گئے

 وہ خاص شاعری کا انداز کہ جس میں دنیا و آخرت کے لیے وہ قبل از موت اور بعد از موت کا منظر کس حسین انداز میں پیش کیا :

قبل از موت کی شاعری کا مفہوم سمجھئے: '

العجل جو کہتے ہیں آ گئے تو کیا ہو گا        

کیا ہے اپنی تیاری پیش ہم کریں گے کیا'

'بعد از وفات کی منظر کشی کا حسین منظر یوں سپرد شاعری کیا 

غسل میت نہ کہنا میرے غسل کو

اجلے ملبوس کو مت کفن نام دو

میں چلا ہوں علی ع سے ملاقات کو

جس کی تھی آرزو وہ گھڑی آگئ

ان کے اہل خانہ کا کہنا کہ سبط جعفر کو شہادت کی موت کی تمنّا اپنی آخری حد پر تھی کہ سرا پائے  عشق حسین  ,محبتوں کا ٹھاٹھیں

 مارتا ہوادریائے رواں  اپنی زندگی کو اور اپنے چاروں جانب کے لوگوں کو با مقصد زندگی کا درس دیتا ہوا مالک یزداں کے حضور تاج

 شہادت پہن کر سرخرو چلا گیا-ان کی آخری رسومات میں کراچی لاکھوں لوگوں نے شرکت کی جن میں شیعہ حضرات کے علاوہ بڑی

تعداد میں  اہل سنّت افراد نے بھی شرکت کی اور ان کی شہادت کو قوم اک ناقابل تلافی نقصان قرار دیا


خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر