حضرت رابعہ بصری سے کون واقف نہیں 'یہ
عابدہ و زاہدہ
بصرہ شہر کے رہنے والے ایک درویش صفت عابد و
زاہد شخص اسمٰعیل کے گھر میں چوتھی بیٹی کی حیثیت سے پیدا ہوئیں - روائت ہے کہ شب
ولادت گھر میں اشیائے ضروری بھی نہیں تھیں چنانچہ جناب اسمٰعیل کی اہلیہ نے کہا
پڑوسی سے تیل ادھار مانگ لائیں وہ پڑوسی کے دروازے پر جاتے ہوئے بہت شرمسار تھے کیونکہ
وہ کبھی بھی کسی سے کے آگے دست سوال دراز نا کرتے تھے سوئے اتّفاق کہ پڑوسی نے
دروازہ ہی نہیں کھولا جناب اسمٰعیل تھکے قدموں سے واپس آئے اور اہلیہ کو بتا دیا
کہ پڑوسی دروازہ نہیں کھولتا ہے اسی افسردگی کے عالم میں آنکھ لگ گئ تو خواب میں
جناب رسول خدا حضرت محمّد مصطفٰے صلیّ اللہ علیہ واٰ لہ وسّلم کے دیدار کا شرف
حاصل ہوا کہ آپ فرما رہے ہیں
ائے اسمٰعیل 'تمھاری یہ بیٹی اندھیروں
میں روشن چراغ ہے
تم امیرِ بصرہ کے پاس جاؤ اوراُس کو
ہمارا پیغام دوکہ تم (امیرِ بصرہ) ہر روز رات کو سو (100) دفعہ اور جمعرات کو چار
سو (400) مرتبہ درود کا نذرانہ بھیجتے ہو لیکن پچھلی جمعرات کو تم نے درود شریف نہ
پڑھا، لہذٰا اس کے کفارہ کے طور پر چار سو (400) دینار یہ پیغام پہنچانے والے کو
دے دو۔ رابعہ بصری کے والد اُٹھے اور امیرِ بصرہ کے پاس پہنچے اس حال میں کہ خوشی
کے آنسو آپ کی آنکھوں سے جاری تھے۔ جناب اسمٰعیل نے اپنا خواب ایک پرچہ پر تحریر
کر کے والئ بصرہ کے پاس بھیج دیا جب امیرِ بصرہ کو رابعہ بصری کے والد کے ذریعے
حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کاپیغام ملا تو یہ جان کر انتہائی خوش ہوا کہ
اس کے نزرانہء درود و سلام کی قدروقیمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی
نظروں میں ہے۔ اُس نے شکرانے کے طور پر فوراً ایک ہزار (1,000) دینار غرباء میں
تقسیم کرائے اور چار سو (400) دینار رابعہ بصری کے والد کو دینے کے لئے ادا کئے لیکن
پھر فوراً ارادہ بدل کر کہنے لگا میں ایسے نیک اور عابد شخص کے پاس خود چل کر جاوں
گا اور درہم کا نذرانہ اپنے ہاتھوں سے پیش کروں گا جس نے آقائے دوجہاں کی زیارت کا
شرف حاصل کیا ہے پھر وہ جناب اسمٰعیل کے پاس خود آیا اوربا ادب نذرانہ پیش کیا اور
جاتے ہوئے کہنے لگا یہ میری درخواست قبول کیجئے کہ آپ کوجب جس کی احتیاج ہو بلا
جھجھک کہلوا دیجئے گا
رابعہ بصری کے بچپن کے دن گزرے ہی تھے
کہ آپ کے والد ین یکے بعد دیگرے انتقال کر گئے اورانہی دنوں میں بصرہ کو سخت قحط
نے اپنی لپیٹ میں لے لیا، اس قحط کے دوران رابعہ بصری اپنی بہنوں سے بچھڑ گئیں ۔ ایک
دفعہ رابعہ بصری ایک قافلے میں جارہی تھیں کہ قافلے کو ڈاکوؤں نے لوٹ لیا اور
ڈاکوؤں کے سرغنہ نے رابعہ بصری کو اپنی تحویل میں لے لیا اور آپ کو لوٹ کے مال کی
طرح بازار میں لونڈی بنا کر بیچ دیا۔ آپ کا آقا،آپ سے انتہائی سخت محنت و مشقت کا
کام لیتا تھا۔ اس کے باوجود آپ دن میں کام کرتیں اور رات بھر عبادت کرتی رہتیں اور
دن میں بھی زیادہ تر روزے رکھتیں ۔ اتفاقاً ایک دفعہ رابعہ بصری کا آقا آدھی رات
کو جاگ گیا اور کسی کی گریہ و زاری کی آوازسُن کر دیکھنے چلا کہ رات کے اس پہر کون
اس طرح گریہ وزاری کر رہا ہے۔ وہ یہ دیکھ کرحیران رہ گیاکہ رابعہ بصری اللہ کے
حضور سر بسجود ہیں اور ایک نور آپ کے سر پر فروزاں ہے اور نہایت عاجزی کے ساتھ کہہ
رہی ہیں -اے اللہ! اگر میرے بس میں ہوتا تو ہمہ وقت تیری عبادت میں گزار دیتی لیکن
تو نے مجھے غیر کا محکوم بنا دیا ہے اس لئے تیری بارگاہ میں دیر سے حاضر ہوتی
ہوں اپنی کنیز کا یہ کلام اور عبادت کا یہ
منظر دیکھ کر رابعہ بصری کامالک خوفِ خدا سے لرز گیا اور یہ فیصلہ کیا کہ بجائے اس
کے کہ ایسی اللہ والی کنیز سے خدمت کرائی جائے بہتر یہ ہو گا کہ اس کی خدمت کی
جائے۔ اس نے
صبح ہوتے ہی آپ کو آزاد کر دیا-
رابعہ بصری نے گوشہ نشینی اور ترک دنیا
کے شوق کے پیش نظر آزادی ملنے کے بعد دن رات معبودِ حقیقی کی یاد میں محو ہو گئیں۔
غربت، نفی اور عشقِ الٰہی اُن کے ساتھی تھے ۔ وہ تمام رات عبادت و ریاضت میں گزار
دیتی تھیں اوراس خوف سے نہیں سوتی تھیں کہ کہیں عشق الٰہی سے دور نہ ہو جائیں ۔ جیسے
جیسے رابعہ بصری کی شہرت بڑھتی گئی ویسے ویسے بصرہ اور کوفہ کے صاحبان علم حضرت
رابعہ بصری کے علم و عرفان کے گرویدہ ہوتے گئے یہاں تک کہ حضرت خواجہ حسن بصری جیسے
قلندر بھی ان کے ایسے معتقد ہوئَے کہ جب تک حضرت رابعہ بصری ان کے درس میں شامل
ہونے کے لئے حاضر نا ہوتیں وہ درس کی ابتداء نہیں کرتے تھے
رابعہ بصری کے حصول علم کے اشتیاق کا یہ
عالم تھا کہ آپ نے اپنے ظالم آقا سے آزادی ملنے بعد اپنی حیات کا لمحہ لمحہ یا
حصول علم میں گزارا یا پھر یاد الٰہی کے استغراق میں گزارا ،،یہاں تک کہ آپ نے بہت
ہی مختصر عرصہ میں علم دین 'فقہ و حدیث 'اور علوم اسلامی پر دسترس حاصل کی ،امام
مالک بن دینار'امام ثفیان ثوری 'امام بلخی جیسے بزرگان جو خدا شناس بھی تھے اور
زہد و تقویٰ میں بھی باعمل تھے حضرت رابعہ بصری کے ہم نشین کہلانے پر فخر کرتے تھے
-حضرت
رابعہ بصری جو صاحب کشف و کرامت ولئ ء کاملہ تھین ان سے بہت سی کرامات منسوب ہیں
جن سے ان کے بلند مرتبہ کا پتا چلتا ہے-ایک مرتبہ ایک چور اس خیال سے آپ کے گھر میں
داخل ہوا کہ یہاں بڑے بڑے امراء حاضری دیتے ہیں ضرور نذر و نیاز کی خطیر رقم جمع ہو گی۔ گھر کا کونا کونا دیکھنے
کے بعد اسے کچھ نہ ملا تو اس نے غصے میں وہ چادر کھینچ لی جسے حضرت رابعہؒ اوڑھے
ہوئے تھیں۔ چور نے بھاگنے کا ارادہ کیا تو اسے دروازہ دکھائی نہ دیا بلکہ ہر سمت دیوار
نظر آئی۔ پریشان ۔ پریشان اور خوف زدہ ہو کر اس نے معافی مانگی۔ حضرت رابعہؒ نے اس
کے لئے دعا کی: اے میرے رب! اس شخص کو میرے گھر سے کچھ نہیں ملا لیکن میں اسے تیرے
در پر لے آئی ہوں۔ تو اسے خالی نہ لوٹا-
اس چور کی
ماہیت قلب ہو گئی اور اللہ تعالیٰ کے انعام و اکرام سے مالا مال ہو گیا۔اسی طرح ایک
دفعہ کا زکر ہےدو درویش آپ کے گھر مہمان ہوئے۔ اس وقت گھر میں صرف دو روٹیاں تھیں۔
حضرت رابعہؒ نے ارادہ کیا کہ وہی دو روٹیاں مہمانوں کے سامنے رکھ دیں گی۔ اسی
دوران دروازے پر کوئی سائل آ گیا۔ حضرت رابعہؒ نے سائل کو زیادہ مستحق سمجھتے ہوئے
وہ روٹیاں اسے دے دیں اور خود اللہ پر توکل کر کے بیٹھ گئیں۔ کچھ دیر گزری تھی کہ
بصرہ کی کسی رئیس خاتون نے اپنی کنیز کے ہاتھوں کھانے کا ایک خوان بھیج دیا۔ حضرت
رابعہؒ نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے وہ خوان مہمانوں کے آگے پیش کر دیا
زندگی کے آخری
ایام میں آپؒ حد درجہ عبادت و ریاضت میں مشغول ہو گئیں۔ غذا بھی بہت کم ہو گئی تھی۔
زیادہ تر پانی پر گزارا کرتی تھیں۔ ضعف کا یہ عالم ہو گیا تھا کہ نماز پڑھتے ہوئے
گر جاتی تھیں۔ یوں لگتا تھا کہ مادی جسم محب و محبوب کے درمیان ایک پردہ بن گیا
ہے۔ جب آپ زیادہ ضعیف اور بیمار ہوئیں تو عقیدت مند کثرت سے عیادت و مزاج پرسی کے
لئے حاضر ہونے لگے۔ حضرت رابعہؒ کی خواہش تھی کہ ان کو عام لوگوں کی طرح سپرد خاک
کیا جائے اور قبر کو امتیازی اہمیت نہ دی جائے۔ ایک دن آپ طالبات اور طلباء کو درس
دے رہی تھیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلاوا آ گیا۔ حضرت رابعہؒ نے اپنے شاگردوں
سے فرمایا کہ باہر چلے جائیں اور خود خلوت نشین ہو کربستر پرچلی گئیں۔ کچھ ہی
لمحوں میں ان کی روح خدائےذوالجلال
والاکرام کی بارگاہ کی جانب سفر آخرت اختیار کیا
آسماں تیری
لحد پر شبنم افشانی کرے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں