جمعرات، 18 اگست، 2022

کزن میرج اور موروثی بیماریا ں

پاکستان میں خاندان میں یا کزنز کے درمیان شادیاں عام ہی نہیں بلکہ ترجیحاً کی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں جینیاتی بیماریوں کی شرح بہت زیادہ ہے۔اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 65 سے 75 فیصد شادیاں خاندان میں کی جاتی ہیں جن میں سے 80 فیصد شادیاں فرسٹ کزنز میں ہوتی ہیں۔ جن جوڑوں میں دونوں افراد کی ایک ایک جینز میں نقص ہو تو مرض پیدا ہونے والے بچوں میں منتقل ہونا یقینی ہے۔ یہ امراض موروثی یا جینیاتی طور پر منتقل ہونے والی بیماریاں کہلاتے ہیں اور ان کا فی الحال کوئی علاج ممکن نہیں ہے۔ موروثی بیماریوں میں پاکستان مین سب سے عام تھیلیسیمیا ہے۔ اس کے علاوہ ان میں ہیموفیلیا جیسی خون کی بیماریاں ہیں۔اسی طرح نیورولاجیکل بیماریاں اور ڈویلپمنٹل ڈس آرڈرز ہیں جو جینیاتی طور پر خاندانوں میں موجود ہوتے ہیں اور اگلی نسلوں میں منتقل ہوتی جاتے ہیں۔ ملک میں ایک کروڑ لوگ تھیلیسیمیا مائنر کی کیرئیر ہیں جو بذات خود بیماری نہیں مگر ایسے کیریئر کی شادی کسی اور تھیلیسیمیا مائینر سے ہوگئی تو ہر حمل میں پچیس فیصد چانس ہو گا کہ بچہ تھیلیسیمیا میجر پیدا ہو۔ طبی ماہرین کے مطابق جینیاتی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں کو قابو کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ جینز کے پھیلائو کو روکا جائے۔ موروثی بیماریاں وہ ہوتی ہیں جو جینز میں کسی گڑبڑ کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں. اس "گڑبڑ" کو ہم سائینسی زبان میں "میوٹیشن"(mutation) کہتے ہیں. میوٹیشنز کی بہت سی ممکنہ اقسام ہیں اور انتہائی پیچیدہ ہیں.. میوٹیشنز کی بہت سی ممکنہ اقسام ہیں اور انتہائی پیچیدہ ہیں. سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ میوٹیشنز آئی کہاں سے؟ یہ میوٹیشنز اچھی بھی ہو سکتی ہیں جو کسی نئی صلاحیت کا موجب بنتی ہیں لیکن زیادہ تر بری ہی ہوتی ہیں جو کسی بیماری کی وجہ بنتی ہیں. اب دوسری بات یہ سمجھیں کہ ہر جین(gene) کے دو حصے ہوتے ہیں جنہیں "الیلز"(alleles) کہا جاتا ہے. ایک الیل ماں سے آتا ہے اور ایک باپ سے. یوں بچے کا ہر جین والدین کے جینز کا حسین امتزاج ہوتا ہے. اسی طرح اکثر جینز میں ایک الیل اپنے ساتھی الیل کے مقابلے میں زیادہ قوی ہوتا ہے. اسے "ڈامینینٹ"(dominant allele) کہتے ہیں اور اسکے مقابلے میں کمزور والے کو "ریسیسو"(recessive allele). سمجھانے کا مقصد یہ ہے کہ فرض کریں کہ ایک خاندان میں کسی موروثی بیماری (مثلاً تھیلیسیمیا) کا ایک کیرئیر موجود ہے. اس کے 6 بچے ہیں جن میں سے 4 میں وہ اپنا بیمار الیل منتقل کر دیتا ہے اور بظاہر سب بچے صحت مند ہیں. ان بچوں کی خاندان میں ہی شادیاں ہوتی ہیں اور ہر بچہ آگے اپنے 3، 3 بچوں میں یہ الیل منتقل کرتا ہے. اب جب تیسری نسل میں بھی خاندان کے اندر کی شادیاں ہونگی تو لامحالہ دونوں ماں باپ کے کیرئیر ہونے کے امکانات بہت بڑھ جائیں گے. اگر انکے بچوں میں تھیلیسیمیا نہ بھی ہو تو بھی اب کیرئیر بچوں کی پیدائش کے امکانات پہلے سے دوگنا ہو جائیں گے. اور اگر کزن میرج کا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو چوتھی نسل میں کئی بچے تھیلیسیمیا کے مریض ہوں گے. اور تھیلیسیمیا کے ایک مریض کو سنبھالنا کتنا مشکل ہوتا ہے اسکا عام لوگ اندازہ بھی نہیں کر سکتے. اور خدانخواستہ کسی جوڑے کے دو بچے اس موذی مرض کا شکار ہو جائیں تو یہ زندگی انکے لیے کسی جہنم سے کم نہیں. ماہرین صحت نے نئی نسل کودرپیش اہم مسئلے سے خبردار کردیا، پاکستان میں خاندان میں یا کزنز کے درمیان شادیاں عام ہی نہیں بلکہ ترجیحاً کی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں جینیاتی بیماریوں کی شرح بہت زیادہ ہے۔اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 65 سے 75 فیصد شادیاں خاندان میں کی جاتی ہیں جن میں سے 80 فیصد شادیاں فرسٹ کزنز میں ہوتی ہیں۔ جن جوڑوں میں دونوں افراد کی ایک ایک جینز میں نقص ہو تو مرض پیدا ہونے والے بچوں میں منتقل ہونا یقینی ہے۔ یہ امراض موروثی یا جینیاتی طور پر منتقل ہونے والی بیماریاں کہلاتے ہیں اور ان کا فی الحال کوئی علاج ممکن نہیں ہے۔ موروثی بیماریوں میں پاکستان مین سب سے عام تھیلیسیمیا ہے۔ اس کے علاوہ ان میں ہیموفیلیا جیسی خون کی بیماریاں ہیں۔اسی طرح نیورولاجیکل بیماریاں اور ڈویلپمنٹل ڈس آرڈرز ہیں جو جینیاتی طور پر خاندانوں میں موجود ہوتے ہیں اور اگلی نسلوں میں منتقل ہوتی جاتے ہیں۔ ملک میں ایک کروڑ لوگ تھیلیسیمیا مائنر کی کیرئیر ہیں جو بذات خود بیماری نہیں مگر ایسے کیریئر کی شادی کسی اور تھیلیسیمیا مائینر سے ہوگئی تو ہر حمل میں پچیس فیصد چانس ہو گا کہ بچہ تھیلیسیمیا میجر پیدا ہو۔ طبی ماہرین کے مطابق جینیاتی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں کو قابو کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ جینز کے پھیلائو کو روکا جائے۔ ڈاکٹر ثاقب انصاری نے اپنے بھائی سے متعلق بتایا کہ جن کے خاندان میں دو مختلف جینیاتی بیماریاں سامنے آئیں۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر جوڑے کے ہاں ایسی اولاد پیدا ہو جو مختلف بیماریوں کا شکار ہے مگر یہ بھی حقیقیت ہے کہ کزنز کے درمیان شادی سے بچوں میں اسی بیماری کا چانس 35 فیصد ہے جبکہ خاندان سے باہر شادی کی صورت میں یہ پانچ فیصد ہو جاتا ہے۔ یہ تعداد ان افراد کی ہے جو پہلے سے ایک نقص والی جینز لیے ہوئے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ 'میرے بھائی کی شادی خالہ زاد بہن سے ہوئی، جب ان کے ہاں پہلی اولاد ہوئی تو بچے کے بلڈ سیل کام نہیں کرتے تھے۔ تو وہ بچہ یعنی عمیر فوت ہو گیا۔ دوسری پریگنینسی میں بچہ ٹھیک تھا۔ مگر تیسرے بچے میں ایک نئی جینیاتی بیماری تھی، اس طرح پیدا ہونے والی بچی ثنا بھی زندہ نہ رہ سکیں۔ ’یعنی ہمارے ایک خاندان میں دو جینیاتی بیماریاں آ گئی تھیں۔ انھی دو بچوں کے نام پر ہم نے عمیر ثنا فاونڈیشن کی بنیاد رکھی جو موروثی بیماریوں خاص طور پر تھیلیسیمیا پر کام کرتا ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں یہ قانون موجود ہے کہ شادی سے پہلے تھیلیسیمیا کا ٹیسٹ کیا جائے تو ہم نے یہ کہا کہ مرد حضرات کا ٹیسٹ کیا جائے تاکہ خواتین سٹگماٹائیز نہ ہوں۔ ’جو یہ جینز کیری کر رہے ہیں اس صورت میں ان کی ہونے والی دلہن کا بھی ٹیسٹ کر لیں۔ اس کے علاوہ فیملی اسکینگ کرائیں۔ یعنی جس بچے میں یہ بیماری ہے اس کے خون کے رشتے یعنی بہن بھائی، خالہ، پھپھو، چچا وغیرہ سے متعلق ایک فیملی ٹری بنا کر دیں تاکہ جب ان کی یا ان کے بچوں کی شادی ہو تو وہ بھی ٹیسٹ کروا لیں۔ ہم منع نہیں کر رہے کہ کزن میرج نہ کریں، اجتناب کریں تو بہتر ہے۔‘ متعلقہ عنوانات اور اپنے مستقبل کے بچوں پر رحم کریں.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر