بدھ، 3 اگست، 2022

لخت جگر حسین' شبیہ پیمبر علی اکبر

 

بعد از وصال نبی حضرت محمّد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسّلم اکثر بہت مغموم و محزون رہا کرتے تھے کہ خداوند عالم نے فرزند نبی اما م حسین

 علیہ السّلام کے گھر میں ' شبیہ رسول کو بھیج کر سب کے دلوں کو قرار عطا کر دیا -باغ نبوّت کے اس غنچہء نوروز نے شعبان المعظم

 کی ۱۱ تاریخ کو صحن نبوّت  میں  آنکھ کھولی اور علی اکبر کا نام لوح محفوظ سے آیا 

۔ آپ کی والدہ گرامی لیلی بنت ابی مرّہ بن عروۃ بن مسعود ثقفی ہیں -علی اکبر علیہ السلام شکل و صورت میں اور رفتار و کردار میں

 سب سے زیادہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ سے مشابہ تھے، آپ کے اخلاق اور چال چلن کو دیکھ کر لوگوں کو پیغمبر یاد آ جاتے

 تھے اور جب بھی اہلبیت علیھم السلام، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کی زیارت کے مشتاق ہوتے تھے تو جناب علی اکبر کا دیدار

 کرتے تھے-

آپ عالم، پرہیزگار، رشید اور شجاع جوان تھے اور انسانی کمالات اور اخلاقی صفات کے عظیم درجہ پر فائز تھے۔ آپ کے زیارت

 نامہ میں وارد ہوا ہے:"سلام ہو آپ پر اے صادق و پرہیزگار، اے پاک و پاکیزہ انسان، اے اللہ کے مقرب دوست ... کتنا عظیم

 ہے آپ کا مقام اور کتنی عظمت سے آپ اس کی بارگاہ میں لوٹ آئے ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا نے راہ حق میں آپ کی

 مجاہدت کی قدردانی کی اور اجر عظیم  میں اضافہ کیا اور آپ کو بلند مقام عنایت فرمایا اور بہشت کے اونچے درجات پر فائز فرمایا۔

جیسا کہ اس نے پہلے سے آپ پر احسان کیا اور آپ کو اہلبیت میں سے قرار دیا کہ رجس اور پلیدی کو ان سے دور کرے اور انہیں ہر

 طرح کی آلودگیوں سے پاک رکھے"۔

علی اکبر  علیہ السلام کربلا کی تحریک میں اپنے بابا کے قدم با قدم رہے۔ مقام قصر بنی مقاتل سے امام حسین علیہ السلام نے رات

 کے عالم میں حرکت کی۔ گھوڑے پر تھوڑی دیر کےلیے آپ کی آنکھ لگ گئی تھوڑی دیر کے بعد آنکھ کھلی تو زبان پر کلمہ استرجاع

 " انا للہ و انا الیہ راجعون " جاری تھا۔

جناب علی اکبر  علیہ السلام نے اس کا سبب پوچھا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی سوار یہ کہہ رہا تھا: یہ

 کاروان موت کی طرف بڑھ رہا ہے!! جناب علی اکبر نے پوچھا: بابا کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ فرمایا: کیوں نہیں بیٹا!

کہا: جب ہم حق پر ہیں تو راہ خدا میں مرنے سے کوئی خوف نہیں ہے۔

سپاہ حسين علیہ السلام میں صبح  عا شورکا منظر

ادھر سپیدہ سحری نمودار ہوئی اور ادھر لشکر نور میں خورشید عاشورا امام حسین علیہ السلام نے آسمان کی طرف اپنے ہاتھ بلند کرکے

 دعا کی :'' اللّٰھم أنت ثقت فی کل کرب و رجائ ف کل شدة و أنت ل فی کل أمر نزل ب ثقة و عدّة ، کم من ھم یضعّف فیہ الفؤاد ، و

 تقلّ فیہ الحیلة ، و یخذل فیہ الصدیق ویشمت فیہ العدوّ، أنزلتہ بک و شکوتہ الیک ، رغبة من عمن سواک ، ففرّجتہ ، و کشفتہ ، فأنت ولّ

 کل نعمة، صاحب کل حسنة ومنتھی کل رغبة''خدا یا! توہی کرب و تکلیف میں میری تکیہ گاہ اور ہر سختی میں میری امید ہے۔ ہر وہ

 مصیبت جو مجھ پر نازل ہوئی اس میں تو ہی میری تکیہ گاہ اور پناہ گاہ ہے ؛ کتنی ایسی مصیبتیں اورکتنے ایسے غم و اندوہ ہیں جس میں دل

 کمزور اور راہ چارہ و تدبیر مسدود ہوجاتی ہے، دوست وآشنا تنہا چھوڑ دیتے ہیں اور دشمن برا بھلا کہتے ہیں لیکن میں ان تمام مصیبتوں 

 میں تیری بارگاہ میں حاضر ہوں  -

ازان علی اکبر روز عاشورہ

تمام رات خیام اہلبیت میں مطہرات کربلا اور جاں نثاران امام عالی مقام شب بیداری اور تسبیح و تحلیل میں مصروف رہے اور جب

 فجر کے وقت امام عالی مقام نے حضرت علی اکبر سے فرمایا بیٹا ازان فجر دو -ادھر ازان مکمّل ہوئ ادھر اللہ قادروقدیر کی جماعت

 ریت کے مصلّے پر نماز کے لئے کھڑی ہو گئ-

امام صادق علیہ السلام کی ایک روایت کے مطابق، جناب علی اکبر علیہ السلام کی قبر امام حسین علیہ السلام کی قبر کے پائینی طرف

 ہے۔ زیارت ناحیہ میں جناب علی اکبر  علیہ السلام  کی زیارت کا ایک فراز یہ ہیں:« السَّلامُ عَلَيْكَ يا اوَّلَ قَتيلٍ مِنْ نَسْلِ خَيْرِ سَليلٍ

 مِنْ سُلالَةِ ابْراهيمِ الْخَليلِ عليه السلام » سلام ہو آپ پر اے شہید اول، اولاد ابراہیم کی بہترین ذریت میں سے۔

علامه ابوالفرج اصفہانی نے حضرت امام محمد باقر علیه السلام کی اسناد سے لکها ہے کہ شہید اول حضرت علی اکبر ہیں اور زیارت ناحی

ہ میں بهی امام آخر الزمان ؑنے اول قتیل کہ کر سلام کیا ہے : السلام علیک یا اول قتیل من نسل خیر سلیل من سلالۃ ابراهیم الخلیل،

 میرا سلام ہو اس شہید پر جو نسل ابراہیمی میں سب سے پہلے شہید ہوا اس سے واضح ہوتا ہے کہ مظلوم کربلا نے سب سے پہلے اپنے

 ہی لخت جگر کو قربان کیا تاکہ  دوسروں کے لیے حجت قرارپائے ۔



بعد عاشور جو گزری آل نبی پر

قتل گاہ کربلا میں پیہم سلگتے ہوئے خیموں سے کچھ فاصلے پرگرم ریت کے اوپر شب غم بسر کرنے کے بعد زندہ بچ جانے والوں کی ایک اور صبح غم طلوع ہوئ اور آتشیں آگ برساتے ہوئےسورج کے طلوع ہونے کے ساتھ فوج اشقیاء کے سپاہیوں نے ہاتھوں میں تازیانے اور رسیّاں لئے ہوئے لٹے ہوئے قافلے کے قریب آ کر حکم دیا کہ قیدی اپنے اپنے ہاتھ پس گردن بندھوالیں اور اسی لمحے بی بی زینب سلام اللہ علیہا جو اب حضرت عبّاس کی جگہ جان نشین اور سالار قافلہ تھیں للکار کر فوج اشقیاء سے مخاطب ہوئیں ہم آل رسول( صلّی اللہ علیہ وسلّم )ہیں کوئ غیر ہمیں ہاتھ لگانے کی جراءت نہیں کرے 
اور پھر بی بی زینب سلام اللہ علیہانے رسّیان اپنے ہاتھ میں لے کر ایک بی بی کے ہاتھ فوج اشقیاء کے حکم سے پس گردن بندھوائے ( زیارت ناحیہ میں اما م زمانہ علیہالسّلام فرمارہے ہیں ،، سلام ہو میری دادی زینب پر جن کے ہاتھ پس گردن بندھے ہوئے تھے )اور بے کجاوا اونٹوں پر ایک دوسرے کو سوار کروایا ،، اور اب اونٹوں کے قافلے کی مہا ر بحیثیت سارباں,,امام سیّد سجّاد کے ہاتھ میں دے کر حکم دیا گیا کہ قیدی) سیّد سجّاد علیہ السّلام (اپنے قافلے کی مہا ر پکڑ کر ساربانی کرے گا ،

،میرا بیمار امام جب مہار تھام کر دو قدم چلا تو فوج اشقیاء کی جانب سے حکم ملا کہ قافلہ کربلا کی قتل گاہ سے گزارا جائے نیزوں پر بلند سر ہائے شہداء کو قافلے کے آگے آگے رہنے کا حکم دیا گیا ،اور اس طرح سے آل محمّد کے گھرانے کےمعصوم بچّے اور باپردہ بیبیا ں بے ردائ کے عالم میں اونٹوں پر سوار پہلے مقتل کربلا لائے گئے تاکہ اپنے پیارون کے بے گورو کفن سر بریدہ لاشے دیکھیں ،پس سیّد سجّاد کی نظر جو اپنے بابا کے سر بریدہ بے گورو کفن لاشے پر پڑی آ پ کے چہرے کا رنگ متغیّر ہوگیا اور بی بی زینب سلام اللہ علیہا جو وارث امامت اپنے بھتیجے سے پل بھر کو بھی غافل نہیں تھیں ان کی نظر جو اما م وقت پر گئ آپ سلام اللہ علیہا نےخیال کیا کہ کہیں امام سجّاد کو صدمے سے کچھ ہو ناجائے اور اسی لمحے بی بی زینب سلا م اللہ علیہا نے اپنے آپ کو کھڑے ہوئے اونٹ کی پشت سے نیچے زمین پر گرا دیا

 امام زین العابدین سکتے کے عالم میں اپنے بابا حسین کے سر بریدہ خون میں ڈوبے ہوئے اور لاتعداد پیوستہ تیروں سے آراستہ لاشے کو دیکھ رہئے تھے بی بی زینب سلام اللہ علیہا کے زمین پر گرتے ہی پھو پھی کی جانب جلدی سے آگئے اور اپنے نحیف ہاتھوں سے بی بی زینب سلام اللہ علیہا کو سہارا دیتے ہوئے سوال کیا پھو پھی ا مّاں کیا ہوا ?بی بی زینب نے جناب امام سجّاد کو جواب دیا ،بیٹا سجّاد تم امام وقت ہو ،خدائے عزّو جل تمھین اپنی امان میں رکھّے تمھارا عہد اما مت بہت ہی کڑی منزلون سے شروع ہوا ہئے ،،اپنے آپ کو سنبھالو اور اپنے بابا حسین کے حسینی مشن کی تکمیل کے لئے تیّار ہو جاؤ - تمھیں یاد ہوگا کہ بھائ حسین نے کہا تھا کربلا کے دو حصّے ہون گے ایک حصّے کی تکمیل کے لئے ان کی شہادت کی ضرورت ہو گی اور دوسرے حصّے کی تکمیل ہمیں کرنی ہوگی بھائ حسین شہادت کی اولٰی و اعلٰی منزل پر پہنچ کر اپنا فریضہ ادا کر کے جاچکے ہیں اب کربلا کی تکمیل کا دوسرا حصّہ شروع ہوا ہئے جس کے مکمّل کرنے کےلئے ہماری باری ہئے
 
اپنی چاہنے والی پھوپھی کی زبان سے یہ باتین سن کر جناب سیّد سجّاد نے اپنی لہو روتی آنکھیں صاف کیں اور اپنے بابا کو سلام آخر کیا ،اسّلام علیک یا ابا عبداللہ،پھر انتہائ پیارے چچا کو مخاطب کیا پیارے چچا الوداعی سلام لیجئے،،پھر بھائیوں سے مخاطب ہوئے اے میرے کڑیل جوا ن بھائ علی اکبر ننھا علی اصغر بھی تمھارے ساتھ ہئے,, پیارے چچامسلم کے بیٹون ,,،میری چاہنے والی پھوپھی کے بیٹون ,,،میرا سلام لو ،،،ائے ہمارے بابا کے انصاران باوفا خداحافظ,مقتل میں اپنے تمام شہید پیاروں کو الوداعی سلام کرکے جناب سیّد سجّاد نےپھر ایک بار قافلہ سالاری کے لئے اونٹوں کی مہار تھام لی, اور اسی طرح اپنے پیاروں کی لاشوں پر بین کرتی بیبیوں کا قافلہ جانب کوفہ اس طرح سے ہنکا یا گیا کہ کربلا سے کوفے تک ستّاون میل کا فاصلہ جو عام کیفیت میں اونٹ ڈھائ سے تین دن میں طے کرتے تھے انہوں نے تیز تیز ہنکائے جانے کے باعث صرف ایک دن میں طے کیا,اس طویل اور اندوہ گیں سفر کےدوران اونٹوں پر سوار ننھے بچّو ن کو اس بیدردی سے ہنکائے جانے کے سبب کربلا سے کوفے تک لاتعداد بچّے اونٹون سے گر ،گر کر شہید ہوتے رہے ،

اگرکسی گر جانے والے بچّے پر بی بی زینب کی نظر پڑ جاتی تھی تو بی بی زینب اپنے آپ کو خود اونٹ سے گرادیتی تھیں اس طرح فوج اشقیاء کے کہنے سےدوڑتے ہوئے اونٹ زبردستی روکے جاتے تھے ،ورنہ بچہ اونٹ کے پیروں تلے آکر کچل کر شہید ہو جاتا تھا بالآخر شہر کوفہ جب چند کوس کے فاصلے پر رہ گیا اس وقت عمر بن سعد نے آل اطہار کے لٹے ہوئے قافلے اور فوج اشقیاء کو وہیں ٹہرنے کا حکم دیا کہ ابھی خوشیاں منانے کے لئے شہر کی آئینہ بندی ہو رہی تھی

منگل، 2 اگست، 2022

الوداع فاطمہ صغرا الوداع

روایت میں منقول ہے کہ ایک رات جب امام حسین علیہ السلام مسجد نبوی میں بعد نماز عشاء تعقیبات میں مشغول تھے  اتنے میں قاصد حاکم مدینہ کا  پروانہ لے کر آیا امام عالی مقام نے قاصد سے کہا میں تعقیبات  ختم کر کے آتا ہوں قاصد واپس تو گیا لیکن زراسی دیر میں پھر واپس آ گیا اور حاکم مدینہ کا حکم نامہ دہرایا امام عالی مقام قاصد کے تیسری مرتبہ آنے پر مسجد نبوی سے اپنے کاشانے تشریف لائے اور زینب سلام اللہ علیہا سے کہا بہن مجھے نا نا کا عمامہ اور عبا لادو تو بی بی زینب نے گھبرا کربھائ کا بازو تھام لیا اور بے چین ہوکر کہا بھائ مجھے ان لوگو ں کا اعتبار نہیں ہئے ،ہاشمی جوان آ پ کے ہمراہ جائیں گے میں آپ کو تنہا تو ہرگز نہیں جانے دوں گی ,پھر بی بی زینب نے اپنے ہاتھوں سے امام عالی مقام کو عمامہ اورعبا زیب تن کروائ اورعصا دست مبارک میں دیا ، امام عالی مقام گورنر مدینہ کے دربار میں جوانان بنی ہاشم ,علی اکبر و جناب عبّاس ،مسلم ابن عقیل ،جناب قاسم ،عون محمّد کے جلو میں دار الامّارہ پہنچے امام عالی مقام نے جوانان بنی ہاشم کو دربار کے باہرقیام کرنے کو کہا اور پھر فرمایا اگر دربار سے میری آواز بلند ہو تو فی الفور اندر آجانا 
میں جب دارلامّارہ پہنچا تو وہاں ولید بن عتبہ نے فرما ن یزید پڑھ کر اما م عالی مقام کو آگاہ کیا کہ یا تو امام عالی مقام یزید کی بیعت کر لیں ورنہ امام کا سر کاٹ کر یزید کے روبرو پیش کیا جائے ,اما م عالی مقام نے ولید بن عتبہ کو جواب دیا کہ جب مجمع عام میں اپنے خلیفہ کی وفات کا اعلان کر کے یذید کی خلافت کا اعلان کرو گے تب مجھ سے یہ سوال کرنا ،ابھی تمھارا یہ تقاضہ بے وقت ہئے ،پھر امام علیہ السّلام نے بی بی زینب سے فرمایا کہ دربار سے میری واپسی کے وقت میں نے مروان بن الحکم کی آواز سنی کہ ائے ولید کیا کرتا ہئے ،،،حسین دارلامّارہ سے ہرگزجانے نا پائیں جب تک یذید کی بیعت نا کر لیں یہی وقت ہے حسین کو گرفتار کرلے یا قتل کردے ،،اس وقت میں نے دربار میں للکار کر کہا ،کسی کی کیا مجال ہئے جو مجھے قتل کر سکے ،اور اس کے ساتھ جوانان بنی ہاشم دربار میں اپنی تلواریں بے نیام کر کے داخل ہوئے لیکن امام عالی مقام نے جوانان بنی ہاشم سے فرمایا تلواریں نیام میں رکھ لو ہم لڑنے نہیں آئے ہیں اور آپ بیت الشّرف واپس تشریف لائے
 دار لامّارہ سے امام عالی مقام کی واپسی تک جناب زینب سلام اللہ علیہا کاشانہ اما م عالی مقام کے دروازے کےقریب ہی منتظر رہیں-اور جیسے اما م عالی مقام واپس تشریف لائے آپ اما م علیہالسّلام کے نزدیک آ گئیں اور آپ علیہ السّلام سے سوال کیا بھائ ولید کیا کہتا ہئے توامام عالی مقام نے بی بی زینب کو بتایا  پھر اما م نے فرمایا کہ ہم خاندان رسالت کے لوگ ہیں ،ہم رحمت الٰہی کےخزینے ہیں ،ہمارا گھر ملائکہ کا مسکن ہئے،،اور یذ ید ایک فاسق و فاجر شخص ہئے جس کی بدکاری زمانے پر آشکار ہئے ،میں اس بدکار شخص کی بیعت ہرگز نہیں کروں گا -
،پھر آپ علیہ السّلام نے جناب عبّاس کو طلب کیا اور جناب عبّاس علیہ السّلام سے فرمایا کہ کوچ کا سامان کرو اب مدینہ ہمارے رہنے کے قابل نہیں رہا- اس منزل پر جناب زینب سلام اللہ علیہا نے امام حسین سے فرمایا کہ خدا کے نازل کردہ بہترین دین کی حفاظت کے لئے آپ اپنی بہن زینب کو اپنے شانہ باشانہ پائیں گے ،اور پھربالآخر قافلہ کی روانگی کی گھڑی آن پہنچی -محلّہ بنو ہاشم میں قناتیں لگا دی گئیں تاکہ عماریوں پر بیٹھتی ہوئ بیبیوں کی بے پردگی نا ہونے پائے اور امام عالی مقام گھر کے صدر دروازے پر کرسی پر تشریف فرما ہوئے اور ہر سوار ہونے والے کی ہمّت افزائ کرتے رہے-لیکن آپ علیہ السّلام نے بی بی سغرا سے ایک مرتبہ بھی نہیں کہا کہ وہ بھی قافلہ کے ساتھ چلیں-
 بی بی صغرا نے یہ ماجرا دیکھا تو ایک ایک فرد کی ہمراہی میں امام حسین علیہ السّلام سے قافلہ کے ساتھ چلنے کی اجازت چاہی-لیکن آقا ہر ایک سے کہتے رہے کہ عماریوں میں جگہ نہیں ہے- پھر سب سے آخر میں حضرت زینب سلام اللہ علیہا بی بی صغرا سے رخصت کے لئے آئیں تو بی بی صغرا نے بی بی زینب کی عبایا کا دامن تھام لیا اور کہنے لگیں پھوپھی امّی بابا جان آپ کی بات کبھی نہیں ٹالتے ہیں آپ بابا جان سے کہئے وہ مجھے بھی ساتھ لے چلیں - چنانچہ بی بی زینب سلام للہ علیہا نے بی بی صغرا کا ہاتھ تھام لیا اور آہستہ آہستہ امام حسین علیہ السّلام کی جانب بڑھنے لگیں امام حسین علیہ السّلام نے جیسے ہی بی بی زینب کو دیکھا آپ علیہ السّلام نے فرمایا زینب وہیں ٹہر جاو- صغرا کو میرے باس مت لانا اور امام حسین علیہ السّلام نے سر جھکا لیا 
اور بی بی صغرا سلام اللہ علیہا روتی ہوئ اپنے حجرے میں جاکر بیٹھ گئیں -بی بی زینب سلام اللہعلیہا تب حضرت امام حسین علیہ السّلام کے پاس آئیں اور انہوں نے آپ علیہ السّلام سے دریافت کیا کہ بی بی صغرا کو ساتھ لے جانے میں کیا امر مانع ہے-امام عالی مقام نے فرمایا زینب میری ہر اولاد میرے کسی نا کسی سلف پر گئ ہے اور میری یہ بیٹی میری ماں کے فاطمہ زہرا سے مشابہ ہے میں نہیں چاہتا ہوں کہ روز عاشورہ میری ماں کا چہرہ مجمع اغیارمیں بے پردہ ہو اور پھر قافلہ مدینہ سے کوچ کر گیا

جمعرات، 28 جولائی، 2022

دو بھوکے معصوم فرشتے اور پانچ پیٹ بھرے حیوان ،

، یہ ہمارے سماج کے معصوم فرشتے جن کو زندگی کی خوشی سے مطلب ہوتا اور نا ہی ان کو اپنے دل کی کہانی کسی سے کہنے کی اجازت ہو تی ہے -میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ ان بھوکے معصوموں کی ہلاکت کے قصّے کا سرا کہاں سے پکڑوں جو اپنے گھر کی غربت کو کم کرنے کے لئے محض چھ سال اور گیارہ سال س کی عمر میں گھر یلو ملازم کے طور پر رکھوائے گئے ۔کام کرتے کرتے بھوک بھی لگ گئ ہوگی دونوں بھائِوں نے فرج کھول کر کچھ کھالیا اوریہ کھانا اتنا بڑا جرم بن گیا کہ لوہے کی سلاخوں سے دونوں معصوموں کو اتنا مارا گیا کہ بڑا بھائ جان کی بازی ہار گیا جبکہ چھ سال والا شدید زخمی ہوکر بے ہوش گیا تب دونوں بچّوں کو ظالمین نے ہسپتال پہنچایا اور ہسپتال میں بیان دیا کہ دونوں بھائ آپس میں لڑ پڑے تھے 

' لیکن جب چھوٹے بچّے کو ہوش آیا تب اس نے پولیس کو بتایا کہ فرج سے کھانا نکال کر کھانے کی سزا میں لوہے کی سلاخوں سے مارا گیا ہے- غربت ،،بھوک ،بیگار ظلم، تشدد اور موت۔۔۔ اور یہ بہیمانہ موت اس کو اپنی اذّیت بھری زندگی کا جنگل پار کروا گئ ۔ گیارہ برس کی عمرکیا ہوتی ہے یہ سوال ۔زندگی ابھی بچپنے کی دہلیز پر بے فکری کی جھولے میں کھیلتی ہے۔اسے رب کی نعمتوں میں سے سب کچھ میسر ہے، پسند کے کھانے کھلونے ، آرام اور آسائش سے بھری زندگی کام کیا ہوتا ،ہے اس کی خبر نہیں۔اس عمر میں بچوں کو بھوک لگی رہتی ہے۔ مگر ہائے وہ کم قسمت بچے جو غربت کے گہوارے میں پلتے ہیں۔ بھوک ان کی سدا کی سنگی ساتھی ہوتی ہے۔ان پہ بچپن کبھی آتا ہی نہیں کہ جھونپڑیوں میں ہر اک تلخی پیدا ہوتے مل جاتی اسی لیے تو وقت سے پہلے طفل سیانے ہوجاتے ہیں ۔ گیارہ سال کا کامران ،جو اپنے ماں باپ کی غربت کاٹنے اپنے سے بھی پانچ برس چھوٹے بھائی کے ساتھ لاہور کے ایک خوشحال گھر میں نوکری کرنے آیا تھا یہ سانحہ عید الاضحی کے موقع پر ہوا جب اس شہر میں اربوں روپے کے جانور خرید و فروخت کئے گئے ۔اور اللہ کی راہ میں قربان کیے گئے۔ ان کا گوشت بھی ڈیپ فریزروں میں بھر دیا گیا اور پھر اس گوشت کے نت نئے پکوان سجاکر دسترخوانوں کو سجا دیا گیا۔گنجائش سے عاری معدوں میں ان کھانوں کو ٹھونس کر اس طرح بھرا گیا کہ گویا کل کچھ میسر نہیں آنے وال

 سو ایک ایسے وقت میں جبکہ پوری قوم کھانے اور مزید کھانے کی سرگرمی میں مصروف تھی لاہور شہر کے خوشحال پوش علاقے میں دو گھریلو مزدور بچے بھوک سے نڈھال تھے۔ خوفناک معاشی تقسیم کے اس ظالم دنیا کاالمیہ یہی ہے کہ یہاں تمام ضابطے بھوکوں کو آداب کے سانچے میں ڈھالنے کی ایک لایعنی کوشش ہے۔ورنہ یہ سوال تو ہم پوچھنے کی جرأت رکھتے ہیں کہ اس پاک سرزمین پر پیدا ہونے والے کامران نے اپنی زندگی کے گیارہ برس غربت اور مسلسل غربت ،بھوک اور مزید بھوک میں کیوں گزار دیئے۔ اس ریاست کا آئین و قانون نے اسے ایک بہتر زندگی کا حق کیوں نہ دیا۔اس ملک کے آئین کے مطابق چائلڈ لیبر منع ہے لیکن اس کے باوجود کم سن بچے گھروں ،فیکٹریوں اور کارخانوں میں کام کرتے ہیں۔ قانون کی عملداری ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔کامران اور رضوان کے ساتھ ہونے والا وحشیانہ ظلم اس ملک کا پہلا سانحہ نہیں۔ اس سے پہلے بھی گھریلو ملازم بچے بدبخت مالکوں کے وحشیانہ تشدد سے موت کے گھاٹ اترتے رہے ہیں۔بھوک غربت اور ظلم کی تاریک راہوں میں مارے جانے والی ان بچوں کے مرنے سے کار ریاست پر کچھ فرق نہیں پڑتا ۔عدل و انصاف کے ایوانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔بس مالکوں سے چھ چھ مہینے کا اکٹھا معاوضہ وصول کرکے پلٹ کر بچوں کی خبر نہیں لیتے۔کامران کو موت کے گھاٹ اتارنے والے ڈی ایچ اے تھری کے رہائشی محمود ،اس کے والد نصر اللہ، اس کی ماں پولیس کی حراست میں ہیں جبکہ گھر کے دو مکین فرار ہوچکے ہیں کم سن بچوّں سے بیگار کروانا بھی تشدد کے زمرے م

یں آنا چاہیے۔ اس پر ان کے والدین کو جرمانہ ہونا چاہیے۔ملک میں چائلڈ لیبر لاز کا اطلاق گھریلو ملازم بچوں پر کیوں نہیں ہوتا؟چیف جسٹس آف پاکستان اس کیس پر خصوصی توجہ دیں اس پر سوموٹو لیں اور بدبخت مجرم کو قرار واقعی سزا سنائیں۔ یہ سب ظلم تم نے پاک سر زمین پر سہا جہاں کا قانون تمہاری زندگی اور تمہارے حقوق کا تحفظ کرنے میں ناکام رہا۔غربت ،بھوک ،بیگار، ظلم ،تشدد اور موت۔۔۔ اذیت اور کرب کے یہ صحرا اس نے صرف گیارہ سال کی عمر میں پار کرلیے۔۔ ان فرشتوں کی کہانی پڑھ کر مجھے سولہ برس کی وہ معصوم کلی یاد آگئ جس نے اسٹیل کے چمچے سے کھانا نکال کر کھا لیا تھا اور یہ جرم اتنا بڑا تھا کہ اسی چمچے سے اس کے چہرے پر مار مار کرچہیرہ زخمی کر کے بگاڑ دیا گیا تھا اور انتے دن بھوکا رکھّا تھا کہ اس پر عالم نزع طاری ہوگیا تب اس کو کچھ کھلایا گیا لیکن وہ بچّی جان کی بازی ہار گئ تب اس کی لاش گندے نالے میں بہا کرقاتل ماں بیٹی اور ان کی سہولت کار عورت نے اپنے پیٹ کے دوزخ بھرے -کاش اسلامی جمہوریہ کہلانے والے اس ملک میں واقعئ ایسی مہربان حکومت آجائے جہاں کسی غریب کا کوئ جگر کا ٹکڑا کھانا مانگ کر نا کھاءے اپنے ماں باپ کی کمائ کا کھانا کھائے

بدھ، 27 جولائی، 2022

اجمیر کے راجہ 'خواجہ معین الدّین چشتی

اجمیر کے راجہ 'خواجہ معین الدّین چشتی <

 

 

ہزاروں برس قبل کرّہ ء ارض پر  خطّہ ء برِّ صغیر میں ہندوستان  کے آباد ہونے کی روائت  یہ ہے کہ حضرت نوح علیہ السّلام  کی نسل

 میں ایک بیٹے کا نام  سام تھا سام کی نسل سے   دو بیٹوں کےنام ہندو اور سندھو تھے  ہندو نے جب اپنے رہنے بسنے کے لئے  اپنی  جگہ

 منتخب کی تو اس جگہ  کانام ہندوستان رکھدیا  اور دوسرے بیٹے  سندھو نے اپنے لئے  دریائے سندھ کے کنارے پر آ باد

 ہونے کے لئے سندھ کی زرخیز سرزمین  کا نتخاب کیا  ،یاد رہے کہ دریائے  سندھ پہلے سندھو دریا کے نام سے معروف تھا جو بعد میں

 مخفّف ہو کر  دریائے سندھ رہ گیا ،جبکہ سندھ کا محلِّ وقوع بھی کافی وسیع و عریض ہوا کرتا تھا جس میں امتدادِ زمانہ کے ساتھ

 تخفیف ہوتی گئ  بہر حال  حضرت نوح علیہ السّلام کی زُرِّیت  میں ایک نبی  علیہ السّلام حضرت ادریس علیہ السّلام گزرے ہیں

 ،روائت ہے کہ جب حضرت ادریس علیہ السّلام کو اللہ تعالٰی نے اپنے پاس بلا لیا تو ان کا  سب  سے بڑا

  بیٹا اپنے باپ کی جدائ کے سبب بے حد رنجیدہ اور ملول رہنے لگا  تب ایک دن شیطان اس کے پاس آیا اور اس سے بہت پیار

 بھرے لہجے میں مخاطب ہوا کہ دیکھو تم کو اپنے باپ سے کتنی محبّت تھی ،اور دیکھو اب تو وہ واپس آ نہیں سکتےہیں  لیکن میں ان کی

 ایسی مورت بنا کر تم کو دے سکتا ہوں جو تمھارے والد کی ہو بہو ہو گی جب تم اس کو دیکھو گے تو اپنے قلب میں تسکین پاؤ گے

 ،بس وہ بیٹا شیطان کے جھانسے میں آ گیا اور پھر شیطان  نے  جب مورت بنا کر اس بیٹے کو دی تو    وہ اس مورت کے قدموں میں گر

 پڑا اور گریہ و زاری کرنے لگا  یہ

> ہندوستان میں بت پرستی کی ابتداء تھی  اس کی دیکھا دیکھاور لوگوں بھی اپنی  اپنی پسندیدہ شخصیتوں کی مورتیاں بنوائیں اور انکی

 پرستش میں اس حد تک آگے نکل گئے کہ تمام قوم  بت پر ستی میں مبتلا ہو گئ  جب اللہ تعالٰی نے ان کی  گمراہی کو دیکھا تو بندگانِ 

معرفت میں سے ایک ایسی ہستی کو  اس کفرستان کی سرزمین پر بھیجا جو  مشنِ الہٰی  لے کر میدانِ عمل میں مستقیم ہو گئے  اس  پیکرِ

 معرفت کا نام خواجہ معین الدین   حسن تھا

 سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ ’’  اثنا ء عشری سادا ت میں نجیب الطرفین سید‘‘

ہیں نجیب الطّرفین کے معنی  والدہ کا بھی اہلِ سادات سے تعلّق ہونا اور والد کا بھی سیّد ہونا اس طرح آپ حسنی اور حسینی سیّد

  والدین کی  اولاد ہیں ۔آپ کاسلسلہ نسب تیرھویں پشت پر جا کر سلطان ِ اولیاء مولائے کائنات امیرالمؤمنین حضرت علی  علیہ السّلام

 سے جاملتاہے۔آپ کا سلسلہ نسب  اپنے آبائے کرام سے سے اس طر ح متوسّط ہے

 سید ابراہیم بن امام علی رضا  علیہا السّلام

 بن  حضرت امام مو سیٰ کا ظم علیہ السّلام

بن حضرت امام جعفرِصادق علیہ السّلام

بن حضرت امام محمد باقر علیہ السّلام

  بن امام زین العابدین  علیہ السّلام

 بن   حضرت امام حسین  علیہ السّلام

بن حضرت علی علیہ  السّلام  سے جا ملتا ہے_

 رجب المرجب536ھ/1141ء کوپیرکے دن ایران کے ایک قصبہ سنجر یا ’’سجستان‘‘ میں متولد ہوئے۔یہی وجہ ہے کہ

 آپ کے نامِ نامی کے ساتھ سنجر ی بھی لگیا جاتا ہے،،آپ کے والدمحترم حضرت سیدناخواجہ غیاث الدین رحمۃ اللہ علیہ بھی اپنے

 وقت کے ایک عالم و فاضل یکتائے روزگار،اپنے عہدکے بہت برگزیدہ اور ولئ کامل  تھے۔جب کہ  والدۂ محترمہ حضرت بی بی ماہِ

 نوررحمۃ اللہ علیہابھی اپنے وقت کی بڑی عابدہ وزاہدہ خاتون اورولیۂ کاملہ تھیں۔ان کو خواجہ جی رحمۃ اللہ علیہ کے دنیا میں آنے سے

 پہلے ہی اپنے  شکم مبارک میں ایک ولئ کامل بچّہ محسوس ہوتا تھا  جبکہ اللہ کریم نے ان کو قبل از پیدائش بشارت سے بھی فیض یاب

 کیا تھا

- کفر کے اندھیروں میں حق پرستی کی شمع جلانے کے واسطے بحکم پروردگار عالم آپ وارد ِ ہند ہوئے اور بستی سے کچھ فاصلے پر  ایک

 ویرانے میں جھیل اناساگر کے پہلو میں ایک پہاڑ ی پر گوشہ نشین ہو گئے ،یہ ہندوستان میں راجہ پرتھوی راج کا دور تھا اور اسی کی

 سلطنت کا ہندوستان  کی عظیم الشّان حکومت میں  چار دانگ عالم ڈنکا بج رہا تھا ،ایسے میں ناجانے  کس طرح ایک درویش کی کٹیا کا

 کیونکر  شہرِ میں شہرہ ہوا کہ پرتھوی راج کے محل  مین عوام الناّ س کی حاضری کم ہونےلگی راجہ نے اپنے خدّام سے پوچھ گچھ ک

ی تو معلوم ہوا کہ شہر سے باہر ایک درویش نے اپنا فقیرانہ آشیانہ جب سے بنایا ہے عوام کا ہجوم صبح ہوتے ہی اسی درویش کی کٹیا  کی

 جانب چلا جاتا ہے  بس یہیں سے راجہ پرتھوی راج کے زوال کا وقت شروع ہو گیا کیونکہ اس نے خواجہ جی رحمۃ اللہ علیہ کو شہر بدر

 کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اپنے سپاہیوں کو بھیجا کہ فقیر سے کٹیا خالی کروا کر اسےاس کی سلطنت بدر کیا کر کے  جنگل میں بھیجا جائے

 جب سپاہی راجہ کا حکم لے کر آئے تو خواجہ جی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ میں تمھارے راجہ کے لئے خطرہ نہیں ہوں لیکن اگر مجھے

 یہاں سے ہٹایا گیا تو یہ تمھارے راجہ کے لئے اچھّا نہیں ہو گا ،سپاہیوں نے جب خواجہ جی کا پیغام راجہ کو پہنچایا لیک اس نے

 سپاہیوں سے کہا کہ فقیر کو ہر صورت ہٹانا ہے اس بار جب سپاہی خواجہ جی  رحمۃ اللہ علیہ کے پاس راجہ کا حکم نامہ لے کر آئےتب

 خواجہ جی نے ان سے کہااچھّا مجھے جھیل سے ایک کٹوراپانی لے لینے دو آپ پہاڑی سے اتر کر جھیل تک آئے اور جونہی پا نی کا کٹوارا

 بھرا جھیل کاپانی مکمّل خشک ہو گیا یہ منظر دیکھ کر سپاہی خوفزدہ ہو کر واپس لوٹ گئے اور راجہ پھر سے خواجہ جی رحمۃ اللہ علیہ کو شہر

 بدر کرنے کی ترکیبیں سوچنے لگا اور آپ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیرچمنستان اسلام  کی آبیاری میں لگے رہے ، آپ اپنی  مخالفت  اور

 ناسازگار ہوائے زمانہ کی پرواہ کئے بغیر،بدسے بدتراورسخت سے سخت تر حالات میں بھی مشنِ تبلیغِ اسلام سے شمّہ بھر بھی پیچھ

ے نہیں ہٹےاوربالآخر کامیابی  آپ ہی کی رکابِ قدم ہوئ۔چنانچہ کچھ ہی عرصے میں راجہ پرتھوی راج کے سب سے بڑے

 مندرکا

 سب سے بڑا پجاری ’’سادھورام‘‘سب سے پہلے مشرف بہ اسلام ہوا۔اس کے بعد اجمیرکے مشہور جوگی’’جے پال‘‘نے بھی

 اسلام قبول کرلیااوریہ دونوں قبولِ اسلام کے ساتھ ہی خواجہ جی کے ساتھ اسلامی مشن میں ہاتھ بٹانے لگے اور پھر

 ہندوستان کے کفرستان میں سینکڑوں سال سے بڑے بڑے تاجدار  شہنشاہوں، بادشاہوں و گداؤ ں کے دلوں پر بلا تفریق  مذ ہب

 و مسلک راج کرنے والا بے تاج  بادشاہ تاجدار ہند جنہوں نے اپنے کاملہ اخلاق سے ہندوستان کے کفرستان میں علم ِ دین کا کبھی نا

 بجھنے والا ایسا چراغ جلایا کہ آج تک کوئ اس کو گل کرنے کی ہمّت بھی نہیں پیدا کر سکا

سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے مقتدائے زمانہ ہستیوں سے علومِ دینیہ یعنی علم قرآن،علم

 حدیث،علم تفسیر،علم فقہ ، علم منطق اورعلم فلسفہ اور دیگر علوم ظاہری وباطنی کی تعلیم حاصل کی۔آپ نے علمِ حصولی کے حصول 

کی خاطر  اپنی عمرِعزیز کے  تقریباًچونتیس برس صرف کیے،جب کہ علوم دینیہ کے حصول سے فارغ ہونے کے بعدعلم معرفت

 وسلوک کی تمناآپ کوایک جگہ سے دوسری جگہ کُشاں کشاں لے جاتی رہی۔

چنانچہ  سرزمین   عجم میں پہنچ کرعلمِ معرفت وسلوک کی تحصیل کے لیےآپ نے اپنے علم ِ معرفت کی خاطر مرشدکامل کو تلاش کیا

 اور بالآخرآپ کونیشاپورکے قصبہ ’’ہاروَن‘‘میں مل گیا۔جہاں آپ حضرت خواجہ شیخ عثمان ہاروَنی رحمۃ اللہ علیہ ایسے عظیم

 المرتبت اورجلیل القدربزرگ کی خدمت میں حاضرہوئے اورآپ کے دست مبارک پرشرف ِبیعت سے فیض یاب ہوئے۔

حضرت شیخ عثمان ہارونی علیہ الرحمۃ نے نہ صرف آپ کودولت بیعت سے نوازابلکہ آپکوخرقۂ خلافت کے ساتھ ساتھ آپ

 کواپناخاص مصلّٰی، عصااورپاپوش مبارک بھی د یا

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی انقلاب آفرین شخصیت ہندوستان کی تاریخ میں ایک نہایت ہی زریں با

 ب کی حیثیت رکھتی ہے ۔ آپ کے اس دور میں جہاں ایک طرف آپ کی توجہ اور تبلیغی مسا عی سے ظلمت کدہ ہند میں شمع ِ اسلام

 کی روشنی پھیل رہی تھی ، دلوں کی تاریکیاں ایمان و یقین کی روشنی میں تبدیل ہو رہی تھیں ، لو گ جو ق در جوق حلقہ اسلام میں

 داخل ہو رہے تھے۔ تودوسری طرف ہندوستان میں مسلمانوں کا سیاسی غلبہ بھی بڑھ رہاتھا۔حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ

 علیہ کے عقیدت مندوں اور مریدوں میں شامل سلطان شہاب الدین غوری اوراُن کے بعدسلطان قطب الدین ایبک اور سلطان

 شمس الدین التمش ایسے با لغ نظر ، بلند ہمت اور عادل حکمران سیاسی اقتدار کو مستحکم کر رہے تھے ۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے تبلیغ اسلام ، احیائے دین و ملت ، نفاذِ شریعت اور تزکیۂ قلوب واذہان کا

 اہم ترین فریضہ جس موثر اور دل نشین انداز میں انجام دیا ، وہ اسلامی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے۔ آپ کی

 تشریف آوری کے بعد تو اس ملک کی کا یا ہی پلٹ گئی ۔ لا کھوں غیر مسلم آپ کے دست مبارک پر اسلام لائے۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی حیاتِ مبارکہ قرآن و سنت کا قابل رشک نمونہ تھی ۔آپ کی تمام زندگی

 تبلیغ اسلام ، عبادت و ریاضت اور سادگی و قناعت سے عبارت تھی۔ آپ ہمیشہ دن کو روزہ رکھتے اور رات کو قیام میں گزارتے

 تھے ۔ آپ مکارمِ اخلاق اور محاسن اخلاق کے عظیم پیکر اوراخلاقِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مکمل نمونہ تھے ۔

حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ غرباء اور مساکین کے لیے سرا پا ر حمت و شفقت کا مجسمہ تھے اور غریبوں سے بے مثال

 محبت و شفقت کی وجہ سے دنیا آپ کو ’’غریب نواز‘‘کے عظیم لقب سے یا د کر تی ہے ۔دنیا سے بے رغبتی اورزہد و قناعت کا یہ

 عالم تھا کہ آپ کی خدمت عالیہ میں جو نذرانے پیش کیے جا تے وہ آپ اسی وقت فقراء اور غرباء میں تقسیم فر ما دیتے تھے۔ سخاوت

 و غریب نوازی کا یہ حال تھا کہ کبھی کوئی سائل آپ کے در سے خالی ہا تھ نہ جا تا تھا۔ آپ بڑے حلیم و بر د بار ، منکسر المزاج اور

 بڑے متوا ضع تھے۔

آپ کے پیش نظر زندگی کا اصل مقصد تبلیغ اسلام اور خدمت خلق تھا۔آپ کے بعض ملفوظاتِ عالیہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ

 بڑے صاحب دل،وسیع المشرب اور نہایت دردمند انسان تھے۔ آپ عمیق جذبہ انسانیت کے علمبردار تھے۔ آپ اپنے مریدین 

، معتقدین اور متوسلین کو یہ تعلیم دیتے تھے کہ وہ اپنے اندر دریا کی مانند سخاوت و فیاضی، سورج ایسی گرم جوشی و شفقت اور زمین 

ایسی مہمان نوازی اور تواضع پیدا کیاکریں۔اسی طرح آپ فرماتے ہیں کہ : ’’جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو اپنا دوست بناتا ہے 

تو اس کو اپنی محبت عطا فرماتا ہے اور وہ بندہ اپنے آپ کو ہمہ تن اور ہمہ وقت اس کی رضا وخوشنودی کے لیے وقف کر دیتا ہے تو خد

اوند قدوس اس بندے کو اپنیرحمتِ خاص سے نواز دیتا ہے  یہاں تک کہ وہ صفات الٰہی کا خودمظہر بن جاتا ہے اور آپ حقیقت میں 

اس کا عملی نمونہ بن گئے تھے ‘۔

تبلیغ و اشاعت دین

تاجدارِ ہند حضرت خواجہ معین الدین  حسن چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ جب علم وعرفاں اورمعرفت وسلوک کے منازل طے

 کرچکے اوراپنے شیخ طریقت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمۃ کے علمی وروحانی فیضان سے فیض یاب ہوئے توپھراپنے وطن واپس 

تشریف لے گئے۔وطن میں قیام کئے ابھی تھوڑی ہی مدت ہوئی تھی کہ آپ کے دل میں بیت اللہ اورروضہ نبوی صلی اللہ علیہ 

وسلم کی زیارت کے لئے تڑپ پیدا ہوئی۔چنانچہ اسی وقت آپ اس مقدس سفرکے لئے چل پڑے۔حرمین طیبین پہنچنے کے

 بعداپنے دل کی مرداپائی اور قلب کوتسکین حاصل ہوئی۔ حضورسیدعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اقدس کے پاس کئی دنوں

 تک عبادت و ریاضت اورذکروفکرمیں مشغول رہے۔(آپ کی اجمیر آمد )آپ ایک دن اسی طرح عبادت اورذکرو فکر میں

 مستغرق تھے کہ روضہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سعادت افروزآوازآئی:

’’اے معین الدین!توہمارے دین کامعین ومددگار ہے،ہم نے تمھیں ہندوستان کی ولایت پرفائزکیاہے، لہٰذااجمیرجاکر اپناقیام

 کروکیوں کہ وہاں کفرو شرک اورگمراہی وضلالت کی تاریکیاں پھیلی ہوئی ہیں اور تمھارے وہاں ٹھہرنے سے کفروشرک کا اندھیر

ادور ہوگااوراسلام وہدایت کے سورج کی روشنی چہارسوپھیلے گی‘‘۔ابھی آپ یہ سوچ ہی رہے تھے کہ ہندو ستان میں اجمیرکس 

جگہ پر ہے کہ اچانک اونگھ آگئی اور حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے شرف یا ب ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے

 مشرق تا مغرب اور شمال تا جنوب تمام ہندوستان کی سیر کر ادی اور اجمیر کا پہاڑ بھی دکھا دیا۔

اجمیر شریف علم وعرفان کا مرکز

اجمیرشریف!وسطیٔ ہندکاایک مشہورشہرہے۔جس طرح یہ شہرمرکزِ سلطنت بننے کیلئے موزوں تھا،اسی طرح یہ

 شہرتوحیدورسالت کے انوارو تجلیات اور علم وعرفاں کاروحانی مرکزومنبع بننے کیلئے بھی بے حد مناسب تھا۔

حضرت ِوالانے ایک   جگہ منتخب کرکے اس کواپنامسکن بنالیااور ذکروفکراوریادخداوندی میں مشغول ہوگئے

۔لوگوں نے جب آپ کے سیرت وکردار،علم وفضل اورذکروفکر کے اندازو اطور کودیکھ

اتووہ خودبہ خودآپ کی طرف متوجہ ہوتے گئے۔چنانچہ اجمیر کا جوبھی آدمی ایک مرتبہ آپ کی خدمت ِعالی

میں حاضرہوجاتاوہ اسی وقت آپ کا مریدو معتقد اور گرویدہ ہو جاتا۔تھوڑے ہی عرصہ میں ہزاروں

 بلکہ لاکھوں لوگوں نے آپ کی صحبت کیمیا اثراورآپ کے عظیم اخلاق وکردارکے باعث اسلام قبول گیا

۔چنانچہ ایک مشہورروایت کے مطابق تقریباًنوے لاکھ (90لاکھ) غیر مسلم اسلام کی دولت سے فیض یاب ہوکرمسلمان ہوئے۔

ہندوستان میں اسلام کی روشن کرنیں-حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے مقام و منصب کا اندازہ اس بات

 سے بہ خوبی لگا یا جا سکتا ہے کہ آپ کو با ر گاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے ’’قطب المشائخ‘‘کا لقب عطا ہوا۔آپ نے دین 

حق کی تبلیغ کا مقدس فریضہ نہایت شاندار طریقے سے سر انجام دیا۔ آج ہندوستان کا گوشہ گوشہ حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ 

اللہ علیہ کے فیوض و برکات سے ما لامال ہے ۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مریدین و معتقدین

 کو اشاعت اسلام اور رشد و ہدایت کی مشعل روشن کر نے کے لئے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں روانہ کیاتا کہ ہندوستان کا 

گوشہ گوشہ اسلام کی ضیاء پا شیوں سے روشن و  تاباں ہو جائے ۔ آپ نے اپنے عظیم کر دار اور اچھے اخلاق سے بہت جلد غیر

 مسلموں کو اپنا گرویدہ بنا لیا اور وہ فوج در فوج اسلام قبول کر نے لگے اور یوں انتہائی قلیل مدت میں اجمیر شریف اسلامی آبادی کا 

عظیم مر کز بن گیا اور آپ کے حسنِ اخلاق سے آپ کی غریب نو ازی کا ڈنکا چہار دا نگِ عالم بجنے لگا۔ حضرت خواجہ معین الدین چش

تی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اثر آفرین جدو جہد سے اس وسیع و عریض ملک کے باشندوں کو کفر و شرک اور گمراہی و ضلالت 

کے زنداں سے آزاد فر ما یا ۔ تبلیغ دین حق کے لئے آپ سراپا عمل بن کر میں میدان میں آئے اور استقامت کا بے نظیر ثبوت دیا ا

ور لو گوں کو اسلام ، حق و صداقت اور علم و عمل کی دعوت دی ، لا کھوں افراد آپ کی طرف متوجہ ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و 

کرم سے اُن کے دل درست عقائد، عملِ صالح اور پا کیزہ اخلاق  سے سیراب ہو  گئے اور اصلاحِ معاشرہ کی تحریک کو روز افزوں استح

کام نصیب ہوا۔ یوں تو ہزاروں کرامتیں آپ سے ظہور پذیر ہوئیں اور آفتاب و مہتاب بن کر نمایاں ہوئیں لیکن آپ کی سب

 سے بڑی کرامت یہ ہے کہ آپ کے انقلاب آفرین جدو جہد اور اثر آفرین تبلیغ اسلام کے طفیل ہندوستان میں دین ِ اسلام کی حقانیت 

و صداقت کا بو ل با لا ہوا۔سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ  نے عوام النّاس کے قلوب کو اپنی اخلا ق اور

 حلم سے سنوارا   اور شہر اجمیر کو  اجمیر  شریف کا لقب دے کر  جنت ِمعرفت بنا دیا۔ آپ کے فیضِ با طنی سے اسلام کا آفتاب

 ہندوستان میں طلوع ہوا تو لاکھوں غیر مسلم آپ کی توجہ سے مشرف بہ اسلام ہوئے ۔تقریباً 45برس تک آپ اجمیر شریف

 میں حیات ظاہری کے ساتھ مخلوقِ خدا کو فیض یاب فر ما تے رہے ۔ہندوستان میں اشاعتِ اسلام اور رشد وہدایت کی شمع روشن کر

 نا آپ کا سب سے تاریخی او ر عظیم کا ر نا مہ ہے  آپ فرماتے تھےجس نے اسلام میں کسی نیک کا م کی ابتداء کی اوراس کے بعد اس پر

 عمل کیا گیا تو اس کے نامہ اعمال میں بھی اس طرح اجر لکھ دیا جائے گا جیسا کہ عمل کرنے والے کے اعمال نامہ میں لکھاجائے

 گا‘‘)چنانچہ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق آپ کی دعوت وتبلیغ، سیرت و کردار کی برکت سے دنیامیں جس قدر

 مسلمان ہو ئے اور آئندہ قیامت تک جتنے مسلمان ہوں گے اور اُن مسلمانوں کے ہاں جو مسلمان اولاد پیدا ہو گی، اُن سب کا اجر و

 ثواب حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی روحِ پر انوار کو پہنچتا رہے گا،کیونکہ یہ ایک ایسا صدقہ جاریہ ہے کہ

 جس کا اجروثواب قیامت تک ملتا رہے گا۔

   راجہ پرتھوی راج کاستانا اور اس کا بد انجام

اجمیرکاراجہ پرتھوی راج روزانہ نت نئے طریقوں سے خواجہ جی کو تکلیف پہنچانے اور پریشان کرنے کی کوششیں کرتا رہتا  تھا لیک

ن اللہ تعالٰی  کے فضل و کرم اور عنائت سے اس کی ہر تدبیر الٹی ہو جاتی تھی اکبر بادشاہ نے اپنے یہاں اولادِ نرینہ کی دعاء حضرت

 خواجہ معین الدّین سے کروائ تھی اور ساتھ ہی منّت مانی تھی کہ اگر بیٹا ہو گیا تو وہ م آستانہ پر ننگے پاؤں حاضری دے گا اور چار من 

چاول کی دیگ چڑھائے گا جب اس کی منّت پوری ہوئ تب وہ پاپیادہ دیگ لے حاضر آستانہ ہوا اور آستانہ ء مبارک پر اس دیگ

 میں چاول پکائے جانے لگے اللہ کی مخلوق ان چاولوں سے فیضیاب ہونے لگی راجہ پرتھوی راج نے اپنے سپاہی بھیج کر خواجہ جی کو

 پیغام بھیجا کہ اس طرح رعایا کی عادتیں خراب ہوتی ہیں اور آستانے پر چاول پکانے اور کھلانے کا ،سلسلہ موقوف کیا جائے

خواجہ جی نے راجہ کو جواب میں کہلوایا کہ جس روز میرا اللہ مجھ کو چاول دینا بند کر دے گا میں اس کی مخلوق کو کھلانا بند کر دوں گا

-پھر ایک دن خواجہ جی نے اپنے مریدین سے با اطمینان کہا

’’میں نے پرتھوی راج کوزندہ سلامت لشکراسلام کے سپردکردیا‘‘۔

چنانچہ آپ کافرمان درست ثابت ہوااورتیسرے ہی روزفاتح ہند سلطان شہاب الدین غوری رحمۃ اللہ علیہ نے ہندوستان کوفتح

 کرنے کی غرض سے دہلی پرزبردست لشکرکشی کی۔راجہ پرتھوی راج لاکھوں کا لشکر لے کرمیدان جنگ میں پہنچا اور معرکہ

 کارزارگرم کردیا۔کفرواسلام اورحق وباطل کے درمیان زبردست معرکہ جاری تھا اوردست بہ دست لڑائی اپنے عروج پرتھ

ی کہ سلطان غوری نے پرتھوی راج اوراس کے لشکرکوشکستِ فاش دے کرپرتھوی راج کوزندہ گرفتارکرلیا اوربعدازاں وہ قتل

 ہوکرواصلِ جہنم ہوگیا۔ راجہ پرتھوی کے عبرت ناک قتل اور ذلت آمیزشکست اور سلطان شہاب الدّین غوری کے لشکراسلام

 کی عظیم الشان اور تاریخی فتح کے نتیجے میں ہزاروں لوگ فوج درفوج اسلام قبول کرنے لگے۔یوں اجمیر شریف میں سب سے

 پہلے پرچم  اسلام سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ  کے دستِ حق پرست سے بلند ہو ا۔

شہر کراچی آج اپنی بے بسی پر فریاد کناں ہے

  

 

کراچی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کو بارش کے نام پر ملتوی کردیا گیا۔ اگر شہر کو ایک منظم بلدیاتی نظام میسر ہوتا تو بارش

 رحمت کے بجائے زحمت نہ بنتی۔ نہ شہر کی سڑکیں تالاب بنتیں، نہ نشیبی بستیاں زیرآب آتیں۔ بارش کے باوجود معمولی سے کمی

 بیشی کے ساتھ معمولات زندگی چلتے رہتے اور بلدیاتی انتخابات کی تاریخ آگے بڑھانے کی نوبت بھی نہ آتی۔ بلدیاتی انتخابات پیپل

ز پارٹی نے پھربارشوں کا بہانہ بنا کر ملتوی کر دئے گئے ہیں -24 جولائی کو منعقد ہونے والے بلدیاتی انتخابات شہریوں کے لیے

 روشنی کی کرن تھے، جس سے اس بات کی امید کی جاتی تھی کہ شہریوں کو یہ تو معلوم ہوجائے گا کہ وہ اپنے شہر کے مسائل کے

 بارے میں کس سے سوال کریں، لیکن اچانک بلدیاتی انتخابات کے التوا کا اعلان کردیا گیا۔ کراچی میں بلدیاتی انتخابات کو کم از کم

 ڈھائی سال قبل ہونا تھا، لیکن مختلف وجوہ کی بنا پر ان انتخابات کو ٹالا جاتا رہا۔ صوبائی حکومت نے اپنے اختیارات کو استعمال کرتے

 ہوئے بیشتر بلدیاتی اور شہری اداروں پر اپنا کنٹرول بھی حاصل کرلیا، صوبائی حکومت کے ہاتھ میں بلدیاتی اور شہری اداروں کے

 جانے کے بعد ان اداروں کی کارکردگی میں بہتری ہونے کے بجائے اور خرابی پیدا ہوگئی۔ عملاً یہ شہر ناقابل رہائش بن چکا ہے۔

 ایک وقت یہ تھا کہ اس شہر کو دہشت گردوں کے حوالے کردیا گیا تھا، امن وامان سب سے بڑا مسئلہ تھا، اس شہر کی بے امنی کی

 ذمے دار سیاسی قیادت اور قانون نافذ کرنے والے تمام ادارے تھے، اسی دوران شہری اور بلدیاتی اداروں کی تباہی کے عمل کا

 آغاز ہوا، اس تباہی کی رفتار کو سندھ حکومت نے تیز کردیا۔ اس وجہ سے بااختیار شہری اور بلدیاتی حکومت کا قیام لازمی اور

 ضروری ہوگیا ہے، لیکن جب سے ملک پر بڑی سیاسی جماعتوں کا کنٹرول ہوا ہے انہیں بلدیاتی اداروں کو اختیارات دینے سے کوئی

 دلچسپی نہیں ہے۔ کراچی اور صوبے پر ماضی میں اپنے پورے اختیارات کے ساتھ حکومت کرنے والی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی

 اور ایم کیو ایم نے ثابت کردیا ہے کہ ان کی ناقص کارکردگی شہر کی تباہی کی ذمے دار ہے۔ اس پس منظر میں کراچی میں ہونے

 والے بلدیاتی انتخابات اور اس کے نتائج پر پورے ملک کی نظر تھی۔ یہ صاف نظر آرہا تھا کہ صوبائی حکمراں پاکستان پیپلز پارٹی اور

 اس کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم بلدیاتی انتخابات کو اپنے لیے خطرے کی گھنٹی سمجھ رہے ہیں، ایم کیو ایم عدالت میں بلدیاتی

 انتخابات کے التوا کی درخواست لے کر گئی لیکن اسے عدالت سے یہ سہولت نہیں ملی۔ ایم کیو ایم کے وکیل اپنی درخواست کو لے

 کر عدالت عظمیٰ میں گئے ہوئے ہیں، وہاں سے بھی اس بات کی امید نہیں رہ گئی تھی کہ انہیں سہولت ملے گی۔ اچانک اس سلسلے

 میں الیکشن کمیشن متحرک ہوگیا، چیف سیکرٹری سندھ کی جانب سے ایک درخواست آ گئی۔ محکمہ موسمیات سے موسم کے بارے

 میں رپورٹ منگوالی گئی اور بارش کی پیش بینی کا بہانہ کرتے ہوئے الیکشن سے محض تین دن قبل بلدیاتی انتخابات  کو ملتوی کردیا گیا

 ہم پاکستانی عوام کی بدقسمتی  ہے کہ قیام پاکستان کو  سات دہائیاں پوری ہوچکی  ہیں اورہماری تقریباً،ہر جمہوری حکومت نے گلے میں

سازش کا طوق پہنا ہوا ہے کہ اس نے عوام کو جمہوریت کے ثمرات سے فیض یاب کرنے کے بجائے اپنی اپنی من پسند شخصیات کو

 نوازنے کی خاطر ہمیشہ بلدیاتی انتخابات کروانے سے حتّی الامکان گریز کیا ۔

ہمارے ہی وطن  میں یہ سازش تسلسل سے کیوں جاری و ساری ہے ،،اس کی وجہ بلکل صاف ظاہر ہے کہ ہمارے یہاں اب تک

 موروثی سیاست کے مہرے ہی ہر بار الٹ کر اور پلٹ کر اپنی خاندانی سیاست کو جاگیر کی طرح استعمال کر رہے ہیں ان سیاسی

 باشاہوں کے پاس عوام کی بہبود کا کوئ پروگرام ہوتا ہی نہیں ہے یہ صرف اپنے خزانوں کو مذ ید بڑھاوا دینے کے لِئے آتے ہیں اور

 پہلے سے بچھائ ہوئ اپنی سیاسی بساط  اپنے موروثی جان نشینوں کے سپرد کر کےچلے جاتے ہیں

چونکہ کمشنر عوام کے سامنے نہیں بلکہ صوبائی حکمرانوں کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں، لہٰذا فطری طور پر ان کی وفاداریاں صوبائی

   حکمرانوں کے ساتھ ہوتی ہیں ۔ لہٰذہ عوام کے سروں پر مسلّط سیاسی وڈیرے  چند کمشنرزاور ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز کو خوش

 رکھ کراور اپنے عوام کو ہر سہولت سے محروم رکھ کر طویل ،طویل عرصے تک خوش اسلوبی سے بر سر اقتدار رہتے ہیں ۔

 کمشنر،ڈپٹی کمشنر،اسسٹنٹ کمشنر ،اور ان عہدے داروں تک عوام کی رسائ نہیں ہوتی ہے وہ مارے مارے پھرتے رہتے ہیں جبکہ بلدیاتی انتخابات کسی بھی ملک کے عوام کے درمیان اختیارات کی تقسیم کےعلاوہ سیاسی شراکت کے ساتھ ساتھ   ۔ بلدیاتی نمائندے عوام کے مقامی مسائل حل کرنے کرنے کی بنیاد فراہم کرتے ہیں ،دوسرا بڑا فائدہ یہ ہے کہ بلدیاتی نمائندے ہی سیاسی نرسری کی پنیریاں تیار کر کے اگلی نسل کے لئے سیاسی نمائندے فراہم کرتے  ہیں ۔ نچلی بلدیاتی سطح سے سیاسی قیادت کے سامنے آنے سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جو نمائندہ جس سطح سے آتا ہے وہ اپنے گرد کے مسائل سے باخبر ہوتا ہے اس لئے اس کی گرفت بھی اچھّی ہوتی ہے ،

 یہاں سے عوامی خدمات کی بنیاد بناتے ہوئے جو بلدیاتی نمائندہ جتنا ہر دلعزیز ہوتا ہے وہ آگے چل کر سیاستدان بننے کا استحقاق رکھتا

 اور یہی وہ مقام ہے جہاں ہمارے وطن کے قوم پرست اور سیاسی جاگیردار سب اپنے اختلافات بالائے طاق رکھ کر ہاتھ میں ہاتھ

 ڈال کر کھڑے ہوئے کہتے نظرآتے ہیں کہ ہم کو انگریز کا کمشنری نظام چاہئے  س لحاظ سے تو ہمارے فوجی حکمرانون نے ہی بلدیاتی

 انتخاب کرواکے عوام کی بھلائ چاہی ،ویسے تو صدر ایّوب خان نے بھی بلدیاتی انتخابات کروائے تھے جس کے ثمرات عوام تک

 پہنچے لیکن دوسری مرتبہ صدر پرویز مشرّف نے عوام کو  بہترین نمائندوں  کا سسٹم دیا ،اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر شہر

 کے عوام اپنے حقوق کی خاطر میدان عمل میں آ کر مطالبہ کریں کہ ان کو ایک شفّاف بلدیاتی الیکشن کے زریعے بلدیاتی نمائندوں کی ضرورت ہے۔

کراچی میں سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کا نظام 2001 میں متعارف کرایا گیا۔ جماعت اسلامی کے نعمت اللہ خان اس نظام کے تحت

 پہلے ناظم منتخب ہوئے۔ مختلف فلائی اوورز کی تعمیر کا آغاز اور کراچی انسٹیٹوٹ آف ہارٹ ڈیزیز بھی نعمت اللہ خان کے دور میں

 بنایا گیا۔جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے عبدالستار افغانی وہ میئر تھے جو لیاری میں پیدا ہوئے اور میئر بننے کے بعد بھی وہیں

 رہائش پذیر رہے۔ افغانی صاحب نے شہر کو لیاری جنرل اسپتال دیا، جو عام لوگوں کو علاج کی سہولت فراہم کرنے کا بڑا ذریعہ

 ہے۔ کراچی میں بلدیاتی نمائندوں کی ضرورت جتنی آج ہے پہلے کبھی نا تھی-کاش   پارٹی    بلدیاتی  نمائندوں سےاختیارات نا

 چھینتی تو شہر کا کم از کم یہ حال نا ہوتا

لیکن آج اس عظیم الشّان شہر کی کیفیت یہ ہے کہ بااختیار حلقے کسی طور بھی کراچی کو اس کا جائز حق اور شہریوں کو وہ سہولتیں

 دینے کےلیے تیار نہیں جو پاکستان کے شہری ہونے کے ناتے ان کا حق ہیں۔ ملک کی معیشت میں سب سے زیادہ حصہ ڈالنے وال

ا شہر آج اپنی بے بسی پر فریاد کناں ہے


اتوار، 24 جولائی، 2022

تمام عالم اسلام کے مومنین جن و انس کو عید مباہلہ مبارک ہو

تمام عالم اسلام کے مومنین جن و انس کو عید مباہلہ مبارک ہو


تمام عالم اسلام کے مومنین جن و انس کو 

عید مباہلہ مبارک ہو

یہ ۹ ھجری تھا جب  عیسائی صرف چہرے دیکھ کر کسی پس و پیش کے بغیر مباہلہ سے ہٹ گئے تھے اور ثابت کر دیا کہ حضور او

ر حضرت محمّد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم  اور ان کے اہلبیت علیہم السّلام حق پر ہیں اور ان کے مقابلے پر آنے والے باطل ہیں-

24ذی الحجہ عید مباہلہ کا دن ہےاس دن رسول خدا

حضرت محمّد صلّی اللہ علیہ والہ وسلّم  نے نصاریٰ نجراں سے مباہلہ کیا اور اسلام کو عیسایت پر کامیابی عطا کی۔فتح مکہ کے بعد پیغمبر

 اسلام  حضرت محمّد صلّی اللہ علیہ والہ وسلّم  نے نجران کے نصاریٰ کی طرف خط لکھا جس میں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔

 نصاریٰ نجراں نے اس مسئلہ پر کافی غور و فکر کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ ساٹھ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو

 حقیقت کو سمجھنے اور جاننے کے لئے مدینہ روانہ ہو۔نجران کا یہ قافلہ بڑی شان و شوکت اور فاخرانہ لباس پہنے  مسجد میں داخل ہوتا

 ہے ۔پیغمبر نے نجران سے آئے افراد کے نسبت بے رخی ظاہر کی ، جو کہ ہر ایک کیلئے سوال بر انگیز ثابت ہوا ۔ ظاہر سی بات ہے

کارواں کے لئے بھی ناگوار گذرا کہ پہلے دعوت دی اب بے رخی دکھا رہیں ہیں ! آخر کیوں؟

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی علی(ع) نے اس گتھی کو سلجھایا ۔ عیسائیوں سے کہا کہ آپ تجملات اور سونے جواہرات کے بغیر، عادی

 لباس میں آنحضرت  حضرت محمّد صلّی اللہ علیہ والہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہو جائیں، آپ کا استقبال ہو گا۔اب کارواں عادی

 لباس میں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ اس وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ نے ان کا گرم جوشی سے استقبال کیا اور

 انہیں اپنے پاس بٹھایا ۔میر کارواں ابوحارثہ نے گفتگو شروع کی : آنحضرت کا خط موصول ہوا ، مشتاقانہ آپ کی خدمت میں حاضر

 ہوئے تاکہ آپ سے گفتگو کریں۔

-جی ہاں وہ خط میں نے ہی بھیجا ہے اور دوسرے حکام کے نام بھی خط ارسال کرچکا ہوں اور سب سے ایک بات کے سوا کچھ نہیں

 مانگا ہے وہ یہ کہ شرک اور الحاد کو چھوڑ کر خدای واحد کے فرمان کو قبول کرکے محبت اور توحید کے دین اسلام کو قبول کریں۔

اگر آپ اسلام قبول کرنے کو ایک خدا پر ایمان لانے کو کہتے ہو تو ہم پہلے سے ہی خدا پر ایمان رکھتے ہیں۔

اگر آپ حقیقت میں خدا پر ایمان رکھتے ہو تو عیسی کو کیوں خدا مانتے ہو اور سور کے گوشت کھانے سے کیوں اجتناب نہیں کرتے۔

اس بارے میں ہمارے پاس بہت سارے دلائل ہیں؛ عیسی مردوں کو زندہ کرتے تھے ۔ اندھوں کو بینائی عطا کرتے تھے ، پیسان

 سے مبتلا بیماروں کو شفا بخشتے تھے۔

آپ نے عیسی علیہ السلام کے جن معجرات کو گنا وہ صحیح ہیں لیکن یہ سب خدای واحد نے انہیں ان اعزازات سے نوازا تھا اس لئے

 عیسی کی عبادت کرنے کے بجائے اسکے خدا کی عبادت کرنی چاہئے-پادری یہ جواب سن کے خاموش ہوا۔ اور اس دوراں کارواں

 میں شریک کسی اور نے ظاہرا شرحبیل نے اس خاموشی کو توڑ :

عیسی، خدا کا بیٹا ہے کیونکہ انکی والدہ مریم نے کسی کے ساتھ نکاح کئے بغیر انہیں جنم دیا ہے۔اس دوران اللہ نے اپنے حبیب کو

 اسکا جواب وحی فرمایا: عیسی کی مثال آدم کے مانند ہے؛کہ اسے(ماں ، باپ کے بغیر)خاک سے پیدا کیا گیا۔إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِندَ اللّهِ

 كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثِمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ{آل عمران /59}

اس پر اچانک خاموشی چھا گئی اور سبھی بڑے پادری کو تک رہیں ہیں اور وہ خود شرحبیل کے کچھ کہنے کے انتظار میں ہے اور خود

 شرحبیل خاموش سرجھکائے بیٹھا ہے۔

آخر کار اس رسوائی سے اپنے آپ کو بچانے کیلئے بہانہ بازی پر اتر آئے اور کہنے لگے ان باتوں سے ہم مطمئن نہیں ہوئےہیں اس

 لئے ضروری ہے کہ سچ کو ثابت کرنے کے لئے مباھلہ کیا جائے ۔ خدا کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہو کے جھوٹے پر عذاب کی درخواست کریں۔

مشہور محدّثین نے اپنی کتابں میں مستند روایات کے مطابق تحریر کیا ہے کہ مباہلہ کا دن وہ  دن ہے جب بی بی فاطمہ زہرا  کو جنگ

 کے علاوہ گھر سے نکلنا پڑا۔ نجران کے عیسائی جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ملنے آئے اور بحث کی کہ حضرت عیسیٰ علیہ

 السلام اللہ کے بیٹے ہیں اور کسی طرح نہ مانے تو اللہ نے قرآن میں درج ذیل آیت نازل کی:


فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللّهِ

 عَلَى الْكَاذِبِينَ{آل عمران/61}

ترجمہ

اے پیغمبر! علم کے آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند, اپنی اپنی

 عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں۔ سورۃ آل عمران آیۃ 61

اس کے بعد مباہلہ کا فیصلہ ہوا کہ عیسائی اپنے برگزیدہ لوگوں کو لائیں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آیۂ مباہلہ پر عمل

 کریں گے اور اسی طریقہ سے فیصلہ ہوگا.

اس پرطے یہ ہوا کہ کل سورج کے طلوع ہونے کے بعد شہر سے باہر (مدینہ کے مشرق میں واقع)صحرا میں ملتے ہیں ۔ یہ خبر

 سارے شہر میں پھیل گئ ۔ لوگ مباھلہ شروع ہونے سے پہلے ہی اس جگہ پر پہنچ گئے ۔ نجران کے نمایندے آپس میں کہتے تھے

 کہ : اگر آج محمد صلی اللہ علیہ وآلہ اپنے سرداروں اور سپاہیوں کے ساتھ میدان میں حاضر ہوتے ہیں ، تو معلوم ہوگا کہ وہ حق پ

ر نہیں ہے اور اگر وہ اپنے عزیزوں کو لے آتا ہے تو وہ اپنے دعوے کا سچا ہے۔

ہر ایک کی نظریں شہر کے دروازے پر ٹکی ہیں اور پھر سورج کی پہلی سنہری کرنوں میں نجران کے داخلی درّہ پر عیسائ راہبوں نے

 دیکھا کہ کُل پانچ نفوس نجران کے میدان میں داخل ہو رہے ہیں ان میں تین بڑے ہیں اور دو معصوم ہیں جنمیں سے ایک ہادئ

 دوجہاں کی آغوش مبارک میں ہے اور دوسرا آپ کی انگلی تھامے ہوئے ہے اس منظرنے جس سے دیکھنے والوں کی حیرت میں

 اضافہ ہوا ، جو کچھ دیکھ رہے تھے اسکا تصور بھی نہیں کرتے تھے  ۔ آنحضرت کے پیچھے پیچھے انکی دختر گرامی سیدۃ النساء العالمین

 حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا چل رہی ہیں اور ان سب کے پیچھے آنحضرت کے عم زاد بھائی ، حسنین امامین کریمین کے والد اور

 خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے شوہر علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔

ان لوگوں کو دیکھتے ہی عیسائی مغلوب ہو گئے اور ان کے سردار نے کہا کہ میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر خدا سے بد دعا کریں

 تو روئے زمین پر ایک بھی عیسائی سلامت نہ رہ جائے گا

پھر ہادئ دوجہاں اور عیسائیوں کے درمیان  جزیہ کی بابت ایک باقاعدہ دستاویزی معاہدہ ہوا-یہ جیت ہر مسلمان کی جیت ہے اور

 رہتی دنیا تک آیت مباہلہ فتح ونصرت کی نشانی ہے .

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر