'
لیکن جب چھوٹے بچّے کو ہوش آیا تب اس نے پولیس کو بتایا کہ فرج سے کھانا نکال کر کھانے کی سزا میں لوہے کی سلاخوں سے مارا گیا ہے-
غربت ،،بھوک ،بیگار ظلم، تشدد اور موت۔۔۔ اور یہ بہیمانہ موت اس کو اپنی اذّیت بھری زندگی کا جنگل پار کروا گئ ۔ گیارہ برس کی عمرکیا ہوتی ہے یہ سوال ۔زندگی ابھی بچپنے کی دہلیز پر بے فکری کی جھولے میں کھیلتی ہے۔اسے رب کی نعمتوں میں سے سب کچھ میسر ہے، پسند کے کھانے کھلونے ، آرام اور آسائش سے بھری زندگی کام کیا ہوتا ،ہے اس کی خبر نہیں۔اس عمر میں بچوں کو بھوک لگی رہتی ہے۔
مگر ہائے وہ کم قسمت بچے جو غربت کے گہوارے میں پلتے ہیں۔ بھوک ان کی سدا کی سنگی ساتھی ہوتی ہے۔ان پہ بچپن کبھی آتا ہی نہیں کہ جھونپڑیوں میں ہر اک تلخی پیدا ہوتے مل جاتی اسی لیے تو وقت سے پہلے طفل سیانے ہوجاتے ہیں ۔ گیارہ سال کا کامران ،جو اپنے ماں باپ کی غربت کاٹنے اپنے سے بھی پانچ برس چھوٹے بھائی کے ساتھ لاہور کے ایک خوشحال گھر میں نوکری کرنے آیا تھا
یہ سانحہ عید الاضحی کے موقع پر ہوا جب اس شہر میں اربوں روپے کے جانور خرید و فروخت کئے گئے ۔اور اللہ کی راہ میں قربان کیے گئے۔ ان کا گوشت بھی ڈیپ فریزروں میں بھر دیا گیا اور پھر اس گوشت کے نت نئے پکوان سجاکر دسترخوانوں کو سجا دیا گیا۔گنجائش سے عاری معدوں میں ان کھانوں کو ٹھونس کر اس طرح بھرا گیا کہ گویا کل کچھ میسر نہیں آنے وال
سو ایک ایسے وقت میں جبکہ پوری قوم کھانے اور مزید کھانے کی سرگرمی میں مصروف تھی لاہور شہر کے خوشحال پوش علاقے میں دو گھریلو مزدور بچے بھوک سے نڈھال تھے۔
خوفناک معاشی تقسیم کے اس ظالم دنیا کاالمیہ یہی ہے کہ یہاں تمام ضابطے بھوکوں کو آداب کے سانچے میں ڈھالنے کی ایک لایعنی کوشش ہے۔ورنہ یہ سوال تو ہم پوچھنے کی جرأت رکھتے ہیں کہ اس پاک سرزمین پر پیدا ہونے والے کامران نے اپنی زندگی کے گیارہ برس غربت اور مسلسل غربت ،بھوک اور مزید بھوک میں کیوں گزار دیئے۔ اس ریاست کا آئین و قانون نے اسے ایک بہتر زندگی کا حق کیوں نہ دیا۔اس ملک کے آئین کے مطابق چائلڈ لیبر منع ہے لیکن اس کے باوجود کم سن بچے گھروں ،فیکٹریوں اور کارخانوں میں کام کرتے ہیں۔
قانون کی عملداری ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔کامران اور رضوان کے ساتھ ہونے والا وحشیانہ ظلم اس ملک کا پہلا سانحہ نہیں۔ اس سے پہلے بھی گھریلو ملازم بچے بدبخت مالکوں کے وحشیانہ تشدد سے موت کے گھاٹ اترتے رہے ہیں۔بھوک غربت اور ظلم کی تاریک راہوں میں مارے جانے والی ان بچوں کے مرنے سے کار ریاست پر کچھ فرق نہیں پڑتا ۔عدل و انصاف کے ایوانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔بس
مالکوں سے چھ چھ مہینے کا اکٹھا معاوضہ وصول کرکے پلٹ کر بچوں کی خبر نہیں لیتے۔کامران کو موت کے گھاٹ اتارنے والے ڈی ایچ اے تھری کے رہائشی محمود ،اس کے والد نصر اللہ، اس کی ماں پولیس کی حراست میں ہیں جبکہ گھر کے دو مکین فرار ہوچکے ہیں
کم سن بچوّں سے بیگار کروانا بھی تشدد کے زمرے م
یں آنا چاہیے۔ اس پر ان کے والدین کو جرمانہ ہونا چاہیے۔ملک میں چائلڈ لیبر لاز کا اطلاق گھریلو ملازم بچوں پر کیوں نہیں ہوتا؟چیف جسٹس آف پاکستان اس کیس پر خصوصی توجہ دیں اس پر سوموٹو لیں اور بدبخت مجرم کو قرار واقعی سزا سنائیں۔
یہ سب ظلم تم نے پاک سر زمین پر سہا جہاں کا قانون تمہاری زندگی اور تمہارے حقوق کا تحفظ کرنے میں ناکام رہا۔غربت ،بھوک ،بیگار، ظلم ،تشدد اور موت۔۔۔ اذیت اور کرب کے یہ صحرا اس نے صرف گیارہ سال کی عمر میں پار کرلیے۔۔
ان فرشتوں کی کہانی پڑھ کر مجھے سولہ برس کی وہ معصوم کلی یاد آگئ جس نے اسٹیل کے چمچے سے کھانا نکال کر کھا لیا تھا اور یہ جرم اتنا بڑا تھا کہ اسی چمچے سے اس کے چہرے پر مار مار کرچہیرہ زخمی کر کے بگاڑ دیا گیا تھا اور انتے دن بھوکا رکھّا تھا کہ اس پر عالم نزع طاری ہوگیا تب اس کو کچھ کھلایا گیا لیکن وہ بچّی جان کی بازی ہار گئ تب اس کی لاش گندے نالے میں بہا کرقاتل ماں بیٹی اور ان کی سہولت کار عورت نے اپنے پیٹ کے دوزخ بھرے -کاش اسلامی جمہوریہ کہلانے والے اس ملک میں واقعئ ایسی مہربان حکومت آجائے جہاں کسی غریب کا کوئ جگر کا ٹکڑا کھانا مانگ کر نا کھاءے اپنے ماں باپ کی کمائ کا کھانا کھائے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں