بدھ، 22 مئی، 2024

بھنبھور کی قدیم مسجد

ِ

 


کھدائی شروع تو ہوئی مگر بات کچھ زیادہ آگے نہ بڑھ سکی اور کچھ عرصے بعد یہ کھدائی روک دی گئی۔ پاکستان بننے کے بعد سنہ 1951 میں محکمہ آثار قدیمہ کے ایک افسر لیزلی الکوک کی نگرانی میں یہ کام دوبارہ شروع ہوا۔الکوک صاحب نے سرسری کھدائیاں کیں اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ یہاں اسلامی زمانے سے پہلے کے کوئی آثار موجود نہیں و یہاں کی کسی چیز سے ثابت نہیں ہوتا کہ یہ وہی شہر دیبل ہے جسے محمد بن قاسم نے فتح کیا تھا۔

سنہ 1957 میں اس کام کی نگرانی پاکستان کے مشہور ماہر آثار قدیمہ ایف اے خان کے سپرد کر دی گئی جنھوں نے سنہ 1965 تک اس شہر کی کھدائی کا کام سرانجام دیا۔ ان کھدائیوں کے بعد ماہرین آثار قدیمہ نے بتایا کہ یہ شہر تقریباً دو ہزار سال قدیم ہے اور پہلی صدی عیسوی سے 13ویں صدی عیسوی تک اپنے عروج پر تھا۔سنہ 1966 میں شائع ہونے والے پاکستان محکمہ آثار قدیمہ کے کتابچے ’بنبھور‘ کے مطابق انھوں نے خیال ظاہر کیا کہ یہ وہی بندرگاہ تھی جہاں سکندر اعظم نے اپنی فوجوں کو تقسیم کیا تھا۔تازہ کھدائیوں کے بعد محققین نے دعویٰ کیا کہ لیزلی الکوک کا خیال غلط ہے اور یہ وہی شہر ہے جو عرب میں بنو امیہ کے دور حکومت کے وقت ہندوستان میں دیبل کے نام سے آباد تھا اور اس وقت سندھ کا تجارتی مرکز تھا۔ یہاں سے تاجروں کے قافلے سمندر اور خشکی کے راستے دنیا کے مختلف ممالک کا سفر کرتے تھے۔ یہی وہ شہر تھا جسے محمد بن قاسم نے 712 میں فتح کیا تھا۔رفتہ رفتہ اس شہر کی قدامت اور تہذیب کے مختلف پہلو سامنے آتے رہے اور تاریخ کے مختلف ادوار میں اس شہر کے وجود کی نشاندہی ہوتی رہی۔ کچھ محققین نے بتایا کہ یہی وہ شہر ہے جو محبت کی مشہور لوک داستان سسی پنوں کا مرکز تھا۔

محبت کی یہ داستان شاہ عبداللطیف بھٹائی نے اپنی کتاب ’شاہ جو رسالو‘ میں رقم کی اور یوں اسے لازوال بنا دیا۔ سسی پنوں کی داستان سے اندازہ ہوتا ہے کہ بنبھور ایک بہت ہی خوشحال اور بڑا شہر تھا۔ پنوں کیچ مکران کا شہزادہ تھا اور وہ تاجروں کے ایک قافلے کے ساتھ بنبھور آیا تھا۔دو مارچ 1958 کو بنبھور میں آثار قدیمہ کی کھدائی کا آغاز ہوا۔ ایف اے خان کو ان کھنڈرات میں دو اہم تعمیرات کا سراغ ملا، ایک تو مضبوط قلعہ بند شہر پناہ جو مشرق سے مغرب کی طرف 200 فٹ چوڑی اور شمال سے مغرب کی طرف 1200 فٹ طویل تھی۔محکمہ آثار قدیمہ کے کتابچے ’بنبھور‘ میں درج تفصیلات کے مطابق اس شہر پناہ کی تعمیر کا سراغ سنہ 1958 میں ملا، دو برس بعد 17 جون 1960 کو محکمہ آثار قدیمہ کو انھی کھنڈرات میں ایک مسجد کے آثار ملے جو محکمہ آثار قدیمہ کے بیان کے مطابق برصغیر میں تعمیر کی جانے والی پہلی مسجد کے آثار تھے۔مسجد سے برآمد ہونے والے کتبوں پر خط کوفی میں تحریر کی گئی ایک عبارت کے مطابق یہ مسجد 109 ھجری (سنہ 727) میں تعمیر ہوئی تھیاس مسجد کے ساتھ ہی کچھ کتبے بھی برآمد ہوئے جن پر خط کوفی میں تحریر کی گئی ایک عبارت کے مطابق یہ مسجد 109 ھجری (سنہ 727) میں تعمیر ہوئی تھی۔

اس تحریر کی برآمدگی کے بعد ماہرین آثار قدیمہ اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ مسجد برصغیر میں تعمیر ہونے والی اولین مسجد تھی جو محمد بن قاسم کے ساتھیوں نے تعمیر کروائی تھی۔ تاہم چیرامن کے مقام پر سنہ 628 میں تعمیر ہونے والی پہلی مسجد کے دعوے کے بعد بنبھور کی یہ مسجد برصغیر کی پہلی مسجد تو نہیں کہلائی جا سکتی البتہ اسے موجودہ پاکستان کی سرزمین پر تعمیر ہونے والی پہلی مسجد ضرور قرار دیا جا سکتا ہے۔ماہرین آثار قدیمہ کے اس دعوے کو مشہور مؤرخ اے بی راجپوت نے اپنی کتاب ’آرکیٹیکچر اِن پاکستان‘ میں بھی تسلیم کیا اور محکمہ آثار قدیمہ نے اپنی شائع کردہ مطبوعات خصوصاً ’بنبھور‘ نامی کتابچے میں مزید سند عطا کی۔بنبھور کے آثار قدیمہ سے برآمد ہونے والی اس پہلی مسجد کے آثار کی برآمدگی 23 ستمبر 1962 کو مکمل ہوئی۔ بتایا گیا کہ یہ مسجد کم و بیش مربع تھی۔ اس مسجد کا طول 122 فٹ اور عرض 120 فٹ تھا۔ اس کے چاروں طرف چونے کے پتھر کی اینٹوں کی ایک ٹھوس دیوار تھی جس کی موٹائی تین سے چار فٹ تھی۔ مسجد کے صحن کا طول 75 فٹ اور عرض 58 فٹ تھا، یہ صحن اینٹوں سے بنا ہوا تھا۔

مسجد کے تین اطراف میں دالان اور غلام گردشیں تھیں، جن کی چھت لکڑی کے قطار در قطار ستونوں پر قائم تھی۔ کھدائیوں سے ملنے والے آثار سے معلوم ہوا کہ یہ دالان چھوٹے چھوٹے حجروں میں تقسیم تھے اور ہر حجرہ نو سے گیارہ فٹ بڑا تھا۔مسجد کی مغربی جانب ایک وسیع ایوان تھا جس کی چھت 33 ستونوں پر قائم تھی۔ مسجد میں وضو کرنے کا ایک چبوترا بھی تھا جس پر چونے کا پلستر کیا گیا تھا۔یہ بھی اندازہ ہوا کہ آخری زمانے میں یہ چبوترا گودام کے طور پر استعمال ہوتا تھا -

یہ بھی اندازہ ہوا کہ آخری زمانے میں یہ چبوترا گودام کے طور پر استعمال ہوتا تھا جس پر مٹی کے چراغ رکھے جاتے تھے۔ فرش پر ان چراغوں کا ایک ڈھیر بھی برآمد ہوا۔ مسجد کے دو بڑے دروازے تھے جو مشرقی اور شمالی سمت میں واقع تھے اور ایک چھوٹا دروازہ مغرب میں تھا جس کے ساتھ سیڑھیاں بھی بنی ہوئی تھیں۔مشرقی دروازہ مسجد کا صدر دروازہ تھا جو ساڑھے پانچ فٹ چوڑا تھا۔ اس دروازے کے قریب ایک بڑے کتبے کے ٹکڑے بھی ملے جن پر خط کوفی میں تحریریں موجود ہیں۔یہ صدر دروازہ خاصی بری حالت میں ملا تاہم مسجد کا شمالی دروازہ نسبتاً اچھی حالت میں تھا۔ یہ دروازہ سات فٹ چوڑا تھا اور اس کے ساتھ سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں۔ اس دروازے کے اندرونی حصے میں بھی چوکھٹے اور دہلیز کے نشانات موجود تھے۔

ان چوکھٹوں پر لگی ہوئی لکڑی گل چکی تھی۔ اس مسجد میں کوئی محراب نہیں تھی اوراس کا نقشہ کوفہ اور واسط کی مساجد سے مشابہہ تھا اور انھی کا تسلسل لگتا تھا۔ کوفہ اور واسط کی مساجد بالترتیب 670 اور 702 میں تعمیر ہوئی تھیں اور ان میں بھی کوئی محراب نہیں تھی۔ بنبھور میں برآمد ہونے والی یہ مسجد تیرہویں صدی عیسوی تک قائم رہی۔بنبھور کی اس مسجد سے خط کوفی میں لکھے ہوئے کئی کتبات بھی برآمد ہوئے جو پتھروں پر کندہ تھے۔ یہ کتبات فن خطاطی کا بہت عمدہ نمونہ ہیں۔ یہ کتبات 109 ہجری (سنہ 727) اور 294 ہجری (سنہ 906) کے دوران تحریر کیے گئے تھے۔س مسجد کے شمال کی جانب ایک نہایت وسیع عمارت کے آثار بھی پائے گئے جس کے متعلق گمان کیا گیا کہ یا تو یہ مسجد سے ملحقہ مدرسہ ہے یا سرکاری نظم و نسق کی کوئی عمارت۔ اس عمارت کا دروازہ بہت شاندار تھا جو مسجد کے شمالی دروازے کے بالکل سامنے کھلتا تھا۔بنبھور کے آثار کی کھدائی مکمل ہونے کے بعد 14 مئی 1967 کو نیشنل بینک آف پاکستان کے مینیجنگ ڈائریکٹر ممتاز حسن نے اس مقام پر ایک تاریخی عجائب گھر کا افتتاح کیا جہاں وہ نوادرات رکھے گئے ہیں جو بنبھور کی کھدائی کے دوران برآمد ہوئے تھے اور بنبھور کی تاریخ کا پتا دیتے ہیں۔جس پر مٹی کے چراغ رکھے جاتے تھے۔ فرش پر ان چراغوں کا ایک ڈھیر بھی برآمد ہوا۔ مسجد کے دو بڑے دروازے تھے جو مشرقی

 

پیر علی محمد راشدی

 

پیر علی محمد راشدی سندھ دھرتی کے وہ بلند کردار فرزند ہیں جنہوں نے قیام پاکستان کے بعد جمہوریت کا جنازہ اپنی آنکھوں سے دفن ہوتے دیکھا اور وطن عزیز کے وہ واحد سیاست دان تھے جو کبھی حاکمان وقت کی نظر میں معتوب نہیں ہوئے نہ  ان کے خلاف  کوئ کیس داخل ہوا، نہ ایبڈو  قانون کی زد میں آئے اور نہ کبھی جیل میں گئے۔وہ قیام پاکستان کے ہراول دستے کے کارکن تھے اور رہے لیکن جب قیام پاکستان کے بعد وطن کی گردن پر خونیں چمگادڑوں کو خون چوستے دیکھا تو اپنا دامن بچا کر الگ   ہوگئے۔ قیام پاکستان کے لیے ان کردار اہم اور مثالی رہا۔ علی محمد راشدی قائد اعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھی اور تحریک پاکستان میں ان کے شانہ بشانہ رہے۔ خود قائد اعظم ان کے بہت معترف تھے۔ بعض موقعوں پر دونوں کے درمیان خط کتابت کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔ قرارداد پاکستان کی ڈرافٹنگ کمیٹی کے رکن بھی رہے۔ اسی سلسلے میں پیر علی محمد نے ایک سال تک لاہور میں قیام بھی کیاتھا۔ 


انھوں نے 1938ء میں کراچی میں مسلم لیگ کانفرنس کے انعقاد میں اہم کردار ادا کیا جس کی صدارت قائد اعظم محمد علی جناح نے کی۔ اس اجلاس میں ہندوستان کے بڑے مسلم لیگی رہنما شریک تھے۔ اسی اجلاس میں شیخ عبد المجید سندھی نے مسلمانوں کے لیے ایک علاحدہ وطن کا مطالبہ کیا تھا جس کے بعد قائد اعظم اور حاجی عبداللہ ہارون کی سربراہی میں ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنائی گئی اور علی محمد راشدی کو اس کمیٹی کا سیکریٹری بنایا گیا۔ بعد ازاں قائد اعظم نے آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے علی محمد راشدی کو لیگ کی فارن کمیٹی کا سیکریٹری مقرر کیا۔ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے صوبائی سیکریٹری بھی بنے۔ -میں نے اس مضمون میں گوگل حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو علی محمد راشدی قومی یکجہتی کا مکمل نمونہ تھے۔ وہ سچے محب وطن اور پکے مسلم لیگی تھے


علی محمد راشدی نے صحافتی زندگی کے ساتھ ادبی اور سیاسی زندگی کا آغاز بیک وقت کیا۔ سیاسی زندگی کی ابتدا انھوں نے 1924ء سے کی۔ جب انھوں نے حیدر آباد میں سندھی تعلیمی کانفرنس میں شرکت کی وہاں ان کی ملاقات جی ایم سید سے ہوئی۔ بعد میں انھوں نے انجمن سادات راشدیہ قائم کی اوراس کی ترجمانی کے لیے الراشد رسالہ جاری کیا۔ اس کے بعد وہ سندھ کے مسلمانوں کی واحد سیاسی تنظیم سندھ محمڈن ایسوسی ایشن کے رکن بن گئے۔ اس تنظیم کے صدر سر شاہنواز بھٹو اور سیکریٹری خان بہادر ولی محمد حسن تھے۔ 1927ء تک علی محمد راشدی اس تنظیم کے سیکریٹری بنے رہے۔ 1929ء میں سندھ کی بمبئی سے علاحدگی تحریک میں بھر پور حصہ لیا اور 1936ء تک، سندھ کی علاحدگی تک اپنا قلمی جہاد جاری رکھا۔


 1933ء میں لاڑکانہ ڈسٹرک اسکول بورڈ کے ارکان بنے۔ 1939ء میں سکھر میں مسجد منزل گاہ تحریک شروع ہوئی تو ہندو مسلم فسادات کے اسباب جاننے کے لیے جسٹس ویسٹن کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیشن بنا دیا گیا۔ جس کے سامنے علی محمد راشدی نے نہایت کامیابی کے ساتھ مسلمانوں کی وکالت کی۔ وہ خود رقم طراز ہیں کہ اسی اثناء میں سکھر میں منزل گاہ تحریک چلی تھی اور ایک زبردست ٹربیونل بیٹھا تھا۔ اس ٹربیونل کے سامنے بھی مسلم لیگ کی طرف سے میں نے وکالت کے تھی اور کیس جیتے تھے۔ 1934ء میں سر شاہنواز بھٹو کی لیڈر شپ میں پیپلز پارٹی وجود میں آئی تو اس میں علی محمد راشدی شریک ہوئے۔ 1936ء میں سر حاجی عبد اللہ ہارون کے ساتھ مل کر سندھ اتحاد پارٹی بنائی۔1940ء میں لاہور میں رہ کر اس اجلاس کا بندوبست کیا جس میں 23 مارچ 1940ء کی قرارداد پاکستان منظور کی گئی۔


1946ء میں مشترکہ ہندوستان کی مرکزی اسمبلی کے الیکشن میں مسلم لیگی امیدوار یوسف ہارون کے مقابلے میں کھڑے ہوئے مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ 1953ء میں بلا مقابلہ رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے۔ اور مالیات، صحت عامہ اور اطلاعات کے وزیر بنے۔ وزیر مالیات کی حیثیت سے 1954ء میں سندھ کی جاگیروں کا خاتمہ کیا اور زمین غریبوں میں تقسیم کی۔ صحت عامہ سے متعلق اداروں کو منظم کیا۔ جامشورو میں لیاقت میڈیکل کالج قائم کیا۔ لاڑکانہ، سکھر اور نواب شاہ میں سول اسپتال قائم کیے۔ سجاول میں زچہ خانہ اور کوٹری میں تپ دق کے مریضوں کے علاج کے لیے ادارہ قائم کیا۔ ۔ انھوں نے 1954ء میں سندھ اسمبلی کی جانب سے ون یونٹ میں شامل ہونے والی قرارداد منظور کرانے میں محمد ایوب کھوڑو کی سربراہی میں سرگرمی سے حصہ لیا۔ ون یونٹ کے بعد علی محمد راشدی 1956ء تک مرکزی حکومت میں نشر و اشاعت کے وزیر بنے۔ اسی دوران حیدرآباد میں ریڈیو اسٹیشن قائم کیا۔ پاکستان کے 1956ء کے آئین کو بنانے میں ان کا بڑا ہاتھ رہا۔ اینٹی ون یونٹ فرنٹ میں جی ایم سید کے ساتھ ون یونٹ ختم کروانے کے لیے کام کیا اور 1970ء میں ون یونٹ کاخاتمہ ہوا۔ 1970ء میں ہی سندھ اسمبلی کی نشست کے لیے سیہون-کوٹری حلقے سے الیکشن لڑے مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ 1972ء تا 1977ء ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں اطلاعات و نشریات کی وزارت میں مشیر رہے۔

ادبی خدمات- 1949ء میں راشدی صاحب آل پاکستان نیوزپیپرز ایڈیٹرز کانفرنس کے صدر منتخب ہوئے۔ 1951ء میں پاک بھارت کے ایڈیٹرز کی تنظیم جوائنٹ پریس کمیشن کے صدر منتخب ہوئے۔بعد ازاں وہ 1952ء میں اسٹیٹس مین اخبار جاری کر چکے تھے۔   اس کے بعد اخباری کالم نگاری تک محدود ہو گئے۔ روزنامہ جنگ میں ان کے کالم پوری آب و تاب سے شائع ہوتے رہے۔ وہ 23 سال مسلسل جنگ کے لیے کالم لکھتے رہے۔ انھوں نے ہانگ کانگ میں رہتے ہوئے 1963ء سے 1964ء تک روزنامہ جنگ کے لیے مکتوب مشرق بعید کے عنوان سے کالم لکھے۔ 1964ء سے 1978ء تک مشرق و مغرب عنوان کے تحت کالم لکھے۔ اسی دوران جنگ میں ہی مزاحیہ کالم وغیرہ وغیرہ لکھنا شروع کیا۔ 1967ء تا 1969ء تک روز نامہ سندھی اخبار عبرت میں  لکھتے رہےتصانیف

رودادِ چمن (اردو)

اھے ڈینھن اھے شینھن (سندھی)

فریاد سندھ (سندھی)

چین جی ڈائری (سندھی)

ون یونٹ کی تاریخ (اردو)

(بہ زبان انگریزی) SINDH: WAYS AND DAYS

وفات-پیر علی محمد راشدی 14 مارچ 1987ء کو کراچی، پاکستان میں وفات پاگئے۔ وہ کراچی میں واقع سندھی مسلم جماعت کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں-بشکریہ گو گل سرچ


منگل، 21 مئی، 2024

چاہ بہار منصوبہ اور ہم پارٹ 2



   ایرا ن بہت ہوشمندی سے اپنے پڑوسی ممالک سے تجارتی تعلقات بڑھا رہا ہے  اور چاہ بہار منصوبہ اسی  کی ایک کڑی ہے- چابہار منصوبے اور ایران کے روڈ ریل نیٹ ورک کے ذریعے، انڈیا چابہار سے افغانستان کراچی اور وسطی ایشیا، ترکی، آذربائیجان، جارجیا اور شام تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ بازرپاش نے انڈیا اور ایران کےدرمیان ایک مشترکہ شپنگ کمپنی کے قیام کا بھی اعلان کیابھارت کی جانب سے ایران کیساتھ چابہار بندرگاہ معاہدے پر امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے پریس بریفنگ کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا  کہ امریکا ایران سے تجارت کرنے والوں پر پابندیاں لگا سکتا ہے۔نائب ترجمان امریکی وزارت خارجہ ویدانت پٹیل نے کہا کہ بھارت کو پابندیوں سے کوئی استثنیٰ حاصل نہیں، بھارت بھی پابندیوں کی زد میں آ سکتا ہے، ایران پر پابندیاں ہیں اور رہیں گی، ایران سے تجارت کرنے والوں کو باخبر رہنا ہوگا۔یاد رہے کہ گزشتہ روز بھارت نے 10 سال کیلئے ایران کی چابہار بندر گاہ کا انتظام سنبھال لیا ہے،


 بھارت، ایران کے درمیان چابہار بندر گاہ کی تعمیر اور انتظامی امور کے معاہدے پر دستخط ہو گئے، دونوں ممالک کے درمیان معاہدے پر تہران میں دستخط ہوئے۔اس موقع پر ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ بھارت چابہار منصوبے کیلئے 30 ارب 88 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کرے گا، بھارت چابہار بندرگاہ کے ذریعے کراچی، گوادر بندرگاہوں سے گزرے بغیر وسط ایشیائی خطے تک جا سکتا ہے۔سربندا سونووال نے ایکس پر اس معاہدے کی تصاویر شائع کرتے ہوئے اسے دونوں ممالک کے تعلقات اور خطے کے لیے ایک ’تاریخی لمحہ‘ قرار دیانھوں نے لکھا کہ ’اس معاہدے سے نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مضبوط ہوں گے بلکہ یہ انڈیا کے لیے عالمی سپلائی چین اور میری ٹائم سیکٹر میں قدم جمانے کے لیے بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔‘وہ اس معاہدے کو انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کے ان تجارتی منصوبوں کا حصہ سمجھتے ہیں جن کے مطابق وہ ایران، افغانستان، یوریشیا اور وسطی ایشیائی ممالک تک رسائی کے لیے متبادل تجارتی راستہ بنانے کے خواہاں ہیں۔


ایرانی میڈیا رپورٹس کے مطابق چابہار بندرگاہ کو جدید بنانے کے لیے انڈیا ’سٹریٹجک آلات کی فراہمی میں 120 ملین ڈالر کے ساتھ ساتھ اس کے ٹرانسپورٹیشن انفراسٹرکچر کے لیے 250 ملین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کرے گا۔ایران عراق جنگ کے دوران آبنائے ہرمز اور خلیج فارس کے باہر بندرگاہ کی ضرورت کے پیشِ نظر 1983 میں شهید بہشتی بندرگاہ کو چابہار کی دوسری اہم ترین بندہ طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔مہرداد بازارپاش نے بھی اس معاہدے کو ’دونوں ممالک کے درمیان کاروباری تعلقات بڑھانے کے لیے بہت اہم‘ قرار دیا۔انھوں نے کہا کہ آج جس معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ چابہار ایران کی ترقی کا مرکز بنے گا اور چابہار-زاہدان ریلوے سیکشن کے آپریشن (جو اس سال کے آخر تک مکمل ہو جائے گا) کے ساتھ اس معاہدے کی قدر میں اضافہ ہو گا 

چابہار بندرگاہ انڈیا ایران فلیگ شپ منصوبہ قرا دیا جا رہا ہے جو افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارت کے لیے ایک اہم ٹرانزٹ پورٹ کے طور پر کام کرتا ہے۔ انڈیا چابہار بندرگاہ کی ترقی اور آپریشن میں کلیدی کردار ادا کرتا رہا ہے۔انڈین حکومت نے بندرگاہ کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کی ہے اور اسے افغانستان اور وسطی ایشیا جانے والے بھارتی سامان کے لیے ایک قابل عمل ٹرانزٹ روٹ بنانے والی سہولیات کو اپ گریڈ کرنے میں شامل ہے۔ایران کے ساتھ 2015 کے تاریخی جوہری معاہدے سے علیحدگی کے بعد امریکہ نے 2018 میں دوبارہ عائد کی جانے والی پابندیوں میں چھوٹ کے باوجود بندرگاہ کی ترقی رک گئی تھی۔2019 میں کوویڈ کا وبائی مرض پھیلنے سے پہلے دونوں ممالک نے انڈیا کے وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر کے تہران کے دورے کے بعد اس منصوبے کو تیز کرنے پر اتفاق کیا تھا۔


چابہار بندرگاہ پاکستان کی سرحد سے تقریبا 100 کلومیٹر (62 میل) مغرب میں بحر ہند میں واقع ہے۔ارنا کے مطابق ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان کے محکمہ جہازرانی وبندرگاہ کے اعلی عہدیدار ناصر روان بخش نے اپریل میں 20 مارچ 2024 کو ختم ہونے والے گذشتہ ہجری شمسی سال کے دوران چابہار بندرگاہ پر کنٹینروں کی لوڈنگ اور ڈی لوڈنگ کی رپورٹ پیش کی۔ انہوں نے بتایا کہ چابہار بندرگاہ سے چین، انڈیا اور متحدہ عرب امارات سےبراہ راست جہازوں کی آمد ورفت شروع ہونے اور اسی طرح بندرگاہ سے ملک کی دیگر بندرگاہوں کے لیے ٹرانشپ سروس شروع ہونے کے بعد، اس بندرگاہ کی کنٹینر سروسز میں تیزرفتار ترقی ہوئی اور گذشتہ سال ماضی کے مقابلے میں اس میں 155 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔انہوں نے بتایا کہ چابہار سے ملک کی دیگر بندرگاہوں کے لیے ٹرانشپ سروس جنوری 2024 میں شروع ہوئی اور دو مہینے میں اس بندرگاہ  اور ملک کی دیگر بندرگاہوں کے درمیان 8 ہزار سے زائد کنٹینروں کی ٹرانشپ سرانجام پائی تھی 

عاشق تعلیم و تعمیر-سر گنگا رام


 یہ سر گنگا رام پر میری دوسری  تحریر ہے -یہ تحریر میں نےب اس وقت کرغیز ستان میں اپنے وطن کے طالبعلموں کی حالت زار  دیکھتے ہوئے تحریر کی ہے -اگر پاکستان میں  ہماری گزشتہ حکومتوں نے وہ پیسہ  جو منی لانڈرنگ کے زریعہ اپنے بیرونی خزانوں میں جمع کیا ہے  اس سے اعلی  تعلیمی یونیورسٹیز بن گئ ہوتیں تو ہہمارے ہونہار طالب علم  دوسرے ملکوں میں خطرات میں گھرے یوں در دبدر نا ہوتے - چلئے تو سر گنگا رام  کا تعارف   دیکھتے ہیں -  سر گنگا رام 13اپریل 1851 کو پاکستانی پنجاب کے گاؤں مانگٹا والا میں پیدا ہوئے تھے، ان کی وفات 10جولائی1927 کو لندن میں ان کے گھر ہوئی تھی، اس عرصہ میں سرگنگا رام نے جو کارہائے سرانجام دیئے وہ ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تاریخ میں زندہ رکھیں گے، ان کی ہمت، جدوجہد، ان کے سوچنے ، کام کرنے کی صلاحیت اور منفرد انداز تخلیق اور تحقیق نے ان کو انسانیت کے ایک عظیم مرتبہ اور مقام پر فائز کردیا ہے ۔ ان کا تعلق ایک ہندو گھرانے سے تھا لیکن ان کے کاموں اور کارناموں سے ہر مذہب و ملت اور قوم کے ہزاروں ، لاکھوں افراد نے فیض پایا ۔ وہ پیدائشی طور پر انسانی ہمدردی اور انسانی دوستی کے علمبردار تھے ۔اس علم دوست انسان کا  علمی تعارف یہ ہے کہ 1921 میں  انہوں نے لاہور کے وسط میں ایک زمین خریدی تھی جہاں انہوں نے ایک خیراتی ڈسپنسری قائم کی تھی۔ گنگا رام ٹرسٹ قائم ہوا تو انھوں نے اس ڈسپنسری کو ایک ہسپتال کا درجہ دے دیا جو صوبے کا سب سے بڑا خیراتی ہسپتال بن گیا۔ اب بھی اسے میو ہسپتال کے بعد لاہور کا سب سے بڑا ہسپتال تصور کیا جاتا ہے۔ اس ہسپتال کے زیر اہتمام لڑکیوں کا ایک میڈیکل کالج بھی قائم کیا گیا جو قیام پاکستان کے بعد فاطمہ جناح میڈیکل کالج کے قالب میں ڈھل گیا۔

ان کے علاوہ گورنمنٹ کالج لاہور کی کیمسٹری لیبارٹری، میو ہسپتال کا البرٹ وکٹر وارڈ، لیڈی میکلیگن ہائی سکول، لیڈی مینارڈ سکول آف انڈسٹریل ٹریننگ، راوی روڈ کا ودیا آشرم اورچند دیگر عمارتیں بھی انہی کی رہین منت ہیں۔ انھی نے 1920 کی دہائی میں ماڈل ٹاؤن لاہور کی پلاننگ کی اور انھی نے مال روڈ کو درختوں سے ٹھنڈک عطا کی جس کی وجہ سے آج بھی پرانے لاہوری مال روڈ کو ٹھنڈی سڑک کہتے ہیں۔سر گنگا رام نوجوانوں کے لیے تجارت کو بہت اہمیت  دیتتے تھے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے ایک کامرس کالج کا منصو حکومت کو دیا تو حکومت نے یہ کہہ کر جان چھڑانی چاہی کہ منصوبہ تو بہت اچھا ہے مگر ہمارے پاس اس کے لیے زمین اور عمارت موجود نہیں۔ گنگا رام اسی جواب کے انتظار میں تھے، انہوں نے فوری طور پر اپنا ایک گھر اس مقصد کے لیے پیش کردیا جہاں آج ہیلے کالج آف کامرس قاءم ہے ۔

لاہور کے مال روڈ کی بیشتر عمارات لاہور ہائی کورٹ، جی پی او، عجائب گھر، نیشنل کالج آف آرٹس، کیتھڈرل سکول، ایچیسن کالج، دیال سنگھ مینشن اور گنگا رام ٹرسٹ بلڈنگ انھی سر گنگا رام کی بنوائی ہوئی ہیں۔ان کے علاوہ گورنمنٹ کالج لاہور کی کیمسٹری لیبارٹری، میو ہسپتال کا البرٹ وکٹر وارڈ، لیڈی میکلیگن ہائی سکول، لیڈی مینارڈ سکول آف انڈسٹریل ٹریننگ، راوی روڈ کا ودیا آشرم اورچند دیگر عمارتیں بھی انہی کی رہین منت ہیں۔ انھی نے 1920 کی دہائی میں ماڈل ٹاؤن لاہور کی پلاننگ کی اور انھی نے مال روڈ کو درختوں سے ٹھنڈک عطا کی جس کی وجہ سے آج بھی پرانے لاہوری مال روڈ کو ٹھنڈی سڑک کہتےانہوں نے زندگی بھر تعلیم ، زراعت اور صحت کے لئے عمارتوں کی اور ہسپتالوں کی تعمیر کی جس کی بدولت لاکھوں طلباء اور مریضوں اور انسانوں نے فائدہ اٹھایا ۔ چھ سال بعد2027 کو ان کی وفات کو ایک سو سال پورے ہو جائیں گے ۔ گنگا رام کو جدید لاہور کا بانی بھی کہا جاتا ہے، ان کو محسن لاہور بھی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔گنگا رام کے والد دولت رام اگروال کے پولیس اسٹیشن میں جونیئر سب انسپکٹر تھے، بعد میں وہ امرتسر شفٹ ہوگئے اور وہاں ایک دربار میں کاپی رائٹ ہوگئے تھے ۔ گنگا رام نے امرتسر سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور1869 میں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا،دو سال بعد1871 میں روڑکی کے تھامسن کالج آف سول انجینئرنگ سے سکالرشپ حاصل کیا ۔ دوسال بعد اسی کالج سے سونے کے تمغہ کے ساتھ سول انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کی اور ایک محکمہ میں اسسٹنٹ انجینئر لگ گئے،ان کی تعمیرات کی یادگاروں کا جال پھیلا ہوا ہے ۔ گنگا رام نے کھیتوں میں آبپاشی نظام کا نیا سلسلہ اپنے دور میں تعارف کراکر انقلاب برپا کردیا تھا ۔ گنگا رام نے 1900 کے ابتدائی سالوں میں نکاس آب اور واٹر ورکس کی ٹریننگ کے لئے انگلینڈ کا تعلیمی سفر کیا اور واپس آنے کے بعد لاہور میں ان کے تعمیراتی سنہری دور کا آغاز ہوا تھا ۔

موجودہ نوجوان نسل شاید گنگا رام ہسپتال کے حوالے سے ہی ان کو جانتی ہوگی لیکن یہ سچ نہیں ہے اور حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ۔ گنگا رام نے آج کے پورے جدید لاہور کی تعمیر کی تھی اور لاہور کو ایک نیا حسن بخشا تھا ۔ آج لاہور کی جو عمارتیں سیاست، ثقافت اور علم کا ورثہ ہیں ان سبھی کی تعمیر و تخلیق کے بانی سر گنگا رام ہی تھے ۔ لاہور کی تاریخ میں گنگا رام کے تعمیراتی سنہری کارناموں میں گنگا رام ہسپتال، گنگا رام فلیٹس اور گنگا رام بلڈنگز قابل ذکر ہیں ۔ 1919 میں انہوں نے مال روڈ پر گنگا رام بلڈنگ تعمیر کی جس میں ایک لفٹ لگائی گئی تھی، بعد میں یہ بلڈنگ بھی ایک ٹرسٹ کے سپرد ہو گئی تھی ۔ انہوں نے ذاتی خرچے سے بحالی معذوراں اور دیگر فلاحی ادارے قائم کئے تھے ۔ مثال کے طور پر لاہور کا عجائب گھر جو سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے، وہ عمارت گنگا رام نے تعمیر کرائی تھی ۔ ایچی سن کالج کی وسیع و عریض عمارت جس نے بڑے بڑے بیوروکروٹیس، سیاستدان وغیرہ پیدا کئے، اس کو بھی گنگا رام ہی نے ڈیزائن کیا تھا ۔ 1921ء میں لاہور کا معروف و مشہور ہسپتال گنگا رام ہسپتال تعمیر کیا تھا جو اس وقت550بیڈ پر مشتمل تھا ۔اس کے علاوہ مال روڈ اور اس کے نواح میں واقع تاریخی عمارتیں جن کو گنگا رام نے ڈیزائن اور تعمیر کروایا تھا ان میں عجائب گھر، جنرل پوسٹ آفس، ایچی سن کالج، میواسکول آف آرٹس، میو ہسپتال کا سر البرٹ وکٹر ہال، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کا کمسٹری ڈیپارٹمنٹ ان کے ڈیزائن کردہ ہیں جبکہ سر گنگا رام ہسپتال، اسلامیہ کالج سول لائن( اولڈڈی اے وی کالج)، سر گنگا رام گرلز اسکول( موجودہ لاہور کالج فار وومن)، ادارہ بحالی معذوراں فیروز پور روڈ وغیرہ انہوں نے اپنے ذاتی خرچہ پر تعمیر کروائے تھے ۔ اسی طرح آج بھارت میں بھی ان کی متعدد تاریخی یادگاریں موجود ہیں جن میں سر گنگا رام ہسپتال دہلی، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی روڑکی( گنگا بھون) قابل ذکر ہیں ۔ لاہور کا مشہور کامرس کا لج (ہیلی کالج آف کامرس) غریب طلباء کے لئے قائم کیا ۔ تعمیرات اور زراعت اور انسانی ہمدردی کی غیر معمولی کاموں کو دیکھتے ہوئے ان کو 1885ء میں رائے بہادر کا خطاب دیاگیا

سرگنگا رام نے زندگی کے آخری آیام لندن میں گزارے اور بالآخرمحسن اور معمار لاہور10 جولائی1927ء کو اپنے گھر میں انتقال کرگئے ۔ گنگا رام سے ایک بار ان کے کسی دوست نے ان کی دولت اور شہرت کےبارے استفسار کیا کہ کتنی ہے ؟ توانہوں نے جواب دیا کہ میں جب شہر آیا تھا تو میںنے ایک شراکت داری کی تھی جو پچاس پچاس فیصد کی تھی۔ اسی شراکت داری کے سبب مجھے یہ دولت ملی ہے۔ اس دوست نے حیرانی سے پوچھا کہ کس سے شراکت داری کی ؟ گنگا رام نے جواب دیا کہ بھگوان سے۔دوست نے حیرانی سے پوچھاکہ بھگوان سے ؟ انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ہاں !بھگوان سے۔انہوں نے بتایا کہ میںجو کچھ کماتا ہوں اس کا پچاس فیصد لوگوں پر خرچ کرتا ہوں ۔سرگنگا رام کی وفات کے بعد گنگا رام کی استھیاں دریائے راوی (بڈھا راوی) میں بہائیں گئیں تھیں اور بعد میں وہاں ایک انتہائی خوبصورت سمادھی تعمیر کردی گئی تھی جو اعلیٰ سنگ مرمر سے تعمیر کی گئی تھی اور یہ آج بھی دریائے راوی کےکنارے موجود ہے ۔ لیکن افسوس کہ کسی بھی حکومت  کی طرف سے اس عظیم انسان اور محسن لاہور کو کبھی بھی اس کے شان شایان کے طور پریاد نہیں کیا گیا۔میں نے ا ن کے علمی کاموں کا بہت ہی مختصر تعارف پیش کیا ہے ورنہ تو انکے علمی کارناموں پر پی ایچ ڈی کا مقالہ تیار ہو سکتا ہے   

اتوار، 19 مئی، 2024

بشکیک حملہ کیوں ہوا؟



کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک سے طلبا کو لانے والی پہلی پرواز لاہور پہنچ گئی۔اے آر وائی نیوز کے مطابق پرواز کے اے 571 لاہور ایئرپورٹ پر 180 سے زائد مسافروں کو لے کر پہنچی ہے، وزیر داخلہ محسن نقوی واپس آنے والے طلبا کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ پر موجود تھے۔چیف آپریٹنگ آفیسر لاہور ایئرپورٹ اور دیگر اعلیٰ حکام بھی ایئرپورٹ پر موجود تھے۔دوسری جانب پاکستانی طلبا پر حملوں کے معاملے پر وزیر اعظم شہباز شریف نے نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کو کرغزستان بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے، ان کے ہمراہ وفاقی وزیر امیر مقام بھی کرغزستان جائیں گے۔دونوں وزراء کل صبح خصوصی طیارے کے ذریعے بشکیک روانہ ہوں گے، وزیر خارجہ بشکیک میں اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کریںگے،وزیرخارجہ زخمی طلباء کو علاج کی سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائیں گے اور پاکستانی طلبا کی وطن واپسی کےمعاملات کا جائزہ لیں گے۔وزیرِ اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ کرغزستان میں غیر ملکی طلبا مخالف فسادات پر گہری تشویش ہے، مشکل وقت میں پاکستان کے بیٹے اور بیٹیوں کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔

 وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ پاکستانی سفارتخانہ زخمی طلبا کو علاج و معالجے کی بہترین سہولیات میں معاونت یقینی بنائے اور جو طالب علم پاکستان آنا چاہیں سرکاری خرچ پر ان کی فوری واپسی یقینی بنائیں۔بشکیک : کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک میں پاکستانی طلبا کے ہاسٹل پر مشتعل افراد نے حملے کیے، جس کے نتیجے میں متعدد طلباء زخمی ہوگئے۔تفصیلات کے مطابق کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک میں مقامی اور غیر ملکی طلباء کے درمیان کشیدگی میں پاکستانی طلباء بھی زد میں آگئے۔اس حوالے سے کرغزستان میں زیر تعلیم ڈاکٹر ورشا نے روتے ہوئے اے آر وائی نیوز کو بتایا کہ ہمارے ساتھ بہت برا ہوا ہے، کل عرب ممالک کے کچھ طلبہ سے مقامی لوگوں کا جھگڑا ہوا تھا۔انہوں نے بتایا کہ ہاسٹل پر حملہ کرنے والے بلوائی بہت بڑی تعداد میں تھے جنہوں نے آج یہاں بہت زیادہ توڑ پھوڑ کی اور پاکستانی طلبہ و طالبات کو تشدد کا نشانہ بنایا۔اکٹر ورشا نے بتایا کہ ہم نے باتھ روم میں چھپ کر اپنی جانیں بچائی، ہاسٹل میں 500کے قریب پاکستانی طلبہ و طالبات موجود ہیں۔

پاکستانی طالبہ نے بتایا کہ حملوں کے بعد کرغزستان کی فوج ہاسٹل کے باہر پہنچنا شروع ہوگئی ہے، محصور طلبہ کو تھوڑی دیر پہلے ریسکیو کرنے کا کام شرع کیا گیا ہے۔پاکستانی سفیر کا سوشل میڈیا پر پیغام-اس حوالے سے کرغزستان میں تعینات پاکستانی سفیر حسن علی ضیغم نے سوشل میڈیا پر پیغام جاری کیا ہے انہوں نے کہا کہ بشکیک میں موجود پاکستانی طلبہ حالات معمول پر آنے تک اپنے گھروں تک محدود رہیں۔پاکستانی سفیر کا کہنا ہے کہ ہم مقامی قانون نافذ کرنے والے اداروں سےرابطے میں ہیں اور طلبہ کی حفاظت یقینی بنانے کیلئے اقدامات کررہے ہیں، ایمرجنسی میں طلبہ 507567667-996پر رابطہ کریں پاکستانی طالبہ ڈاکٹر ورشا نے بھائی نے اے آر وائی نیوز کو بتایا کہ میری کچھ دوستوں سے بات ہوئی ہے، انہوں نے بتایا  بلوائیو ن نے  لڑکیوں کے کمروں میں بھی بہت زیادہ توڑ پھوڑ کی۔کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک کے ہاسٹل میں مقیم پاکستانی طلباء و طالبات پر اس وقت بڑی مشکل آن پڑی جب ان پر ڈنڈوں لاٹھیوں سے لیس مقامی انتہا پسندوں نے اچانک حملہ کردیا۔یہ پُرتشدد واقعہ کب کیسے اور کیوں پیش آیا؟ اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ 17 مئی کو پیش آنے والے واقعے کا تعلق 13 مئی کو ہونے والے ایک واقعے سے ہے۔گزشتہ روز 17مئی کو ہونے والے واقعے میں شام کے وقت تقریباً 300سے زائد مقامی طلبہ نے غیر ملکی طلباء کے ہاسٹل پر دھاوا بول دیا جس کے نتیجے میں 29 سے زائد طلبہ شدید زخمی حالت میں اسپتال پہنچائے گئے۔

بشکیک کے جن ہاسٹلز پر دھاوا بولا گیا ان میں زیادہ تر پاکستان بھارت اور بنگلہ دیش کے طلباء رہائش پذیر ہیں۔پس منظر کے حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ 13 مئی کو ایک کیفے میں بیٹھے چند مقامی اور غیر ملکی طلباء میں کسی بات پر تلخ کلامی ہوئی جو بعد ازں باقاعدہ لڑائی کی صورت اختیار کرگئی۔اس واقعے میں مقامی باشندوں کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ غیر ملکی طلبہ نے مقامی طلبہ پر تشدد کیا اور اس واقعے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی وائر ہوئیں۔بعد ازاں گزشتہ جمعہ کی رات متعدد شہری سڑکوں پر نکل آئے اور پولیس پر الزام عائد کیا کہ وہ لڑائی میں ملوث غیرملکی طلبہ سے نرمی برت رہی ہے جس کے برعکس پولیس کا کہنا ہے کہ لڑائی کی رپورٹس موصول ہونے کے بعد انہوں نے 3 افراد کو حراست میں لیا تھا۔س کے بعد ان مشتعل افراد نے میڈیکل یونیورسٹی کے ہاسٹلز پر حملہ کردیا جس میں پاکستانی، بھارتی اور بنگلہ دیشی طلبہ رہتے ہیں، ان مشتعل افراد نے لڑکوں کے ہاسٹل کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کے ہاسٹل پر بھی پرتشدد حملہ کیا۔

ایک ہاسٹل بشکیک میں جبکہ دیگر ہاسٹلز شہر سے 25 کلومیٹر کے فاصلے ہیں جہاں انتہا پسندوں نے وحشیانہ حملہ کیا۔اس حوالے سے صدر اسٹوڈنٹس کونسل ایشیئن میڈیکل انسٹی ٹیوٹ کرغزستان حسن شاہ آریانی نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کل سے ہم سب خوف کے باعث جاگے ہوئے ہیں اور اب تک کسی قسم کی یقین دہانی یا اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔بشکیک میں طلبا پر تشدد، کرغزستان کی وزارت خارجہ کا اہم بیان واضح رہے کہ کرغزستان کے تعلیمی ادارے ایم بی بی ایس کی تعلیم کے لیے طلبہ میں کافی مقبول ہیں یہاں میڈیکل کی معیاری تعلیم یورپ اور امریکا کی جامعات کے مقابلے میں انتہائی کم فیس ادا کرکے حاصل کی جا سکتی ہے۔کرغزستان کی جامعات میں تعلیم کے حصول کی ایک اور بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ معیاری تعلیم کی وجہ سے ان یونیورسٹیز کی ڈگری کو عالمی ادارہ صحت سمیت عالمی سطح پر تسلیم کیا جاتا ہے۔

جمعرات، 16 مئی، 2024

چا بہار ایرانی بندر گاہ کا منصوبہ اور ہم

 کس قدر بدبختی کا مقام ہے پاکستان کے لئے کہ آس پڑوس کے ممالک ترقّی کی شاہراہ پر گامزن ہیں اورہم ہیں اپنے قیمتی اثاثے کوڑیوں کے مول بیچ کر ریاست کی گاڑی کو دھکّا لگا رہے ہیں -اور دوسری جانب منی لانڈرنگ کا یہ عالم ہے کہ روزانہ کی بنیا د پر اربوں روپئے غیر ممالک کی جھولی میں جا رہے ہیں -اور عام آدمی کی مہنگائ سے کمر توڑی جارہی ہے- ایک اور خاص بات یہ ہے کہ پڑوسی ممالک ایک دوسرے کے تعاون اور دوستی سے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر آ گے ترقّی کا سفر طے کر رہے ہیں اور ہمارے اوپر پابندیوں کا کوڑا لٹک رہا ہے -آئیے چا بہار منصوبہ پر ایک غارانہ نظر ڈالتے ہیں انڈیا نے ایران کے ساحلی شہر چابہار میں واقع شہید بہشتی بندرگاہ کو چلانے کے لیے 10 سالہ معاہدہ کیا ہے جس کےتحت اس بندرگاہ کے کنٹینر ٹرمینل میں سامان کی نقل و حرکت کو جدید طرز پر لایا جائے گا۔ایران کے شہر تہران میں شہری ترقی کے وزیر مہرداد بازارپاش اور انڈیا کے جہاز رانی کے وزیر سرباندا سونووال نے اس معاہدے پر دستخط کیے

۔اور چابہار کے راستے اپنا تجارتی سامان ایران، وسطی ایشیائی ممالک اور افغانستان کو برآمد کرنے کا منصوبہ بنایا جا چکا ہے۔مہرداد بازارپاش کے مطابق گذشتہ سال تہران میں سہ فریقی اجلاس کے دوران انڈیا اور روس کو ’ایران راہ پروجیکٹ کا نقشہ‘ پیش کیا گیا تھا۔ا۔اس کے ساتھ ساتھ بازرپاش نے انڈیا اور ایران کےدرمیان ایک مشترکہ شپنگ کمپنی کے قیام کا بھی اعلان کیابھارت کی جانب سے ایران کیساتھ چابہار بندرگاہ معاہدے پر امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے پریس بریفنگ کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا ایران سے تجارت کرنے والوں پر پابندیاں لگا سکتا ہے۔نائب ترجمان امریکی وزارت خارجہ ویدانت پٹیل نے کہا کہ بھارت کو پابندیوں سے کوئی استثنیٰ حاصل نہیں، بھارت بھی پابندیوں کی زد میں آ سکتا ہے،

۔یاد رہے کہ گزشتہ روز بھارت نے 10 سال کیلئے ایران کی چابہار بندر گاہ کا انتظام سنبھال لیا ہے، بھارت، ایران کے درمیان چابہار بندر گاہ کی تعمیر اور انتظامی امور کے معاہدے پر دستخط ہو گئے، دونوں ممالک کے درمیان معاہدے پر تہران میں دستخط ہوئے۔اس موقع پر ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ بھارت چابہار منصوبے کیلئے 30 ارب 88 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کرے گا،۔سربندا سونووال نے ایکس پر اس معاہدے کی تصاویر شائع کرتے ہوئے اسے دونوں ممالک کے تعلقات اور خطے کے لیے ایک ’تاریخی لمحہ‘ قرار دیا۔انھوں نے لکھا کہ ’اس معاہدے سے نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مضبوط ہوں گے ۔‘وہ اس معاہدے کو انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کے ان تجارتی منصوبوں کا حصہ سمجھتے ہیں جن کے مطابق وہ ایران، افغانستان، یوریشیا اور وسطی ایشیائی ممالک تک رسائی کے لیے متبادل تجارتی راستہ بنانے کے خواہاں ہیں۔ایرانی میڈیا رپورٹس کے مطابق چابہار بندرگاہ کو جدید بنانے کے لیے انڈیا ’سٹریٹجک آلات کی فراہمی میں 120 ملین ڈالر کے ساتھ ساتھ اس کے ٹرانسپورٹیشن انفراسٹرکچر کے لیے 250 ملین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کرے گا۔‘

ایران عراق جنگ کے دوران آبنائے ہرمز اور خلیج فارس کے باہر بندرگاہ کی ضرورت کے پیشِ نظر 1983 میں شهید بہشتی بندرگاہ کو چابہار کی دوسری اہم ترین بندرگاہ کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔مہرداد بازارپاش نے بھی اس معاہدے کو ’دونوں ممالک کے درمیان کاروباری تعلقات بڑھانے کے لیے بہت اہم‘ قرار دیا۔انھوں نے کہا کہ آج جس معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ چابہار ایران کی ترقی کا مرکز بنے گا اور چابہار-زاہدان ریلوے سیکشن کے آپریشن (جو اس سال کے آخر تک مکمل ہو جائے گا) کے ساتھ اس معاہدے کی قدر میں اضافہ ہو گا-چابہار بندرگاہ انڈیا ایران فلیگ شپ منصوبہ قرا دیا جا رہا ہے جو افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارت کے لیے ایک اہم ٹرانزٹ پورٹ کے طور پر کام کرتا ہے۔۔

انڈین حکومت چابہار منصوبے کو افغانستان اور وسطی ایشیا جانے والے بھارتی سامان کے لیے ایک قابل عمل ٹرانزٹ روٹ بنانے والی سہولیات کو اپ گریڈ کرنے میں شامل ہے۔ایران کے ساتھ 2015 کے تاریخی جوہری معاہدے سے علیحدگی کے بعد امریکہ نے 2018 میں دوبارہ عائد کی جانے والی پابندیوں میں چھوٹ کے باوجود بندرگاہ کی ترقی رک گئی تھی۔2019 میں کوویڈ کا وبائی مرض پھیلنے سے پہلے دونوں ممالک نے انڈیا کے وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر کے تہران کے دورے کے بعد اس منصوبے کو تیز کرنے پر اتفاق کیا تھا۔چابہار بندرگاہ پاکستان کی سرحد سے تقریبا 100 کلومیٹر (62 میل) مغرب میں بحر ہند میں واقع ہے۔۔ انہوں نے بتایا کہ چابہار بندرگاہ سے چین، انڈیا اور متحدہ عرب امارات سےبراہ راست جہازوں کی آمد ورفت شروع ہونے اور اسی طرح بندرگاہ سے ملک کی دیگر بندرگاہوں کے لیے ٹرانشپ سروس شروع ہونے کے بعد، اس بندرگاہ کی کنٹینر سروسز میں تیزرفتار ترقی ہوئی اور گذشتہ سال ماضی کے مقابلے میں اس میں 155 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔انہوں نے بتایا کہ چابہار سے ملک کی دیگر بندرگاہوںکے لیے ٹرانشپ سروس جنوری 2024 میں شروع ہوئی اور دو مہینے میں اس بندرگاہ  اور ملک کی دیگر بندرگاہوں کے درمیان 8 ہزار سے زائد کنٹینروں کی ٹرانشپ سرانجام پائی/span>

بدھ، 15 مئی، 2024

بیجا پور میں عادل شاہی دور حکومت

بیجاپور قلعہ بھارتی ریاست کرناٹک کے بیجاپور ضلع کے بیجاپور شہر میں واقع ہے۔ بیجاپور قلعہ میں تعمیراتی اہمیت کی تاریخی یادگاروں کی بہتات ہے جو عادل شاہی خاندان کے دور میں تعمیر کی گئی تھی۔ بیجاپور میں تقریباً 200 سال تک حکمرانی کرنے والے عادل شاہی سلطانوں نے اپنی پوری طاقت صرف فن تعمیر اور متعلقہ فنون پر صرف کی تھی، ہر سلطان نے اپنے تعمیراتی منصوبوں کی تعداد، سائز یا شان میں اپنے پیشرو سے سبقت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ نتیجے کے طور پر، بیجاپور قلعہ اور قصبے کے اندر اور اس کے آس پاس نظر آنے والی عمارتوں کو بجا طور پر جنوبی ہندوستان کا آگرہ کہا جاتا ہےسلطان محمد شاہ بہمنی کے دورِ حکومت میں سلاطین عثمانیہ کا ایک جواں سال شہزادہ ایران سے دکن آیا اور وزیراعظم محمودگاوان کی وساطت سے ۱۴۸۱ء میں شاہی فوج کے سپاہیوں میں شامل کرلیا گیا، شہزادہ نہایت خوبرو، ذہن، بہادر اور اعلیٰ صلاحیتوں کا حامل تھا اور اسی سبب، تیزی سے ترقی کرتے ہوئے سلطان محمود شاہ بہمنی کا مقربِ خاص بن گیا۔ شہزادہ نہ صرف شاہی خطابات اور عنایات سے بہرہ ور ہوتا رہا بلکہ ۱۴۸۵ء میں عادل خان کے خطاب سے سرفراز ہونے کے بعد بہمنی سلطنت کے صوبۂ بیجاپور کا حاکم مقرر کیا گیا۔


سلطان محمود شاہ بہمنی کے دورِ حکومت میں بہمنی سلطنت اپنے زوال کی طرف تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ ملک میں فسادات اور خانہ جنگیوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ پھر حکومت کے قدم جمنے نہیں پائے۔ اس افراتفری میں بہمنی سلطنت کے مختلف صوبے آزاد ہونے لگے، چنانچہ6 ۱۴۹۰ء میں یوسف عادل شاہ نے اپنی مطلق العنانی کا اعلان کرتے ہوئے، بیجاپور میں عادل شاہی حکومت کی داغ بیل ڈالی۔سلطان یوسف عادل شاہ علماء اور اہل فن کا بڑا قدرداں تھا ، اس نے دور دراز کے ممالک سے اہل علم کو بیجاپور بلایا اور اُن کی ہمیشہ قدر و منزلت کرتا رہا۔ وہ خود بھی فارسی کا شاعر تھا۔ اس کا بیٹا سلطان اسمعٰیل عادل شاہ بھی نہایت علم دوست اور ہنر پرور تھا۔ اپنے باپ کی طرح اس نے بھی اہل علم و فن کی بڑی قدردانی اور سرپرستی کی۔ وہ بھی فارسی کا ایک اچھا شاعر تھا اور وفائی تخلص کرتا تھا۔ غرض عادل شاہی حکومت میں ابتدا ہی سے علم، ادب، شاعری اور فنونِ لطیفہ کو فیاضانہ سرپرستی حاصل رہی۔ یوسف عادل شاہ سے علی عادل شاہ ثانی تک بیجاپور کے جو چھ حکمرانگذرے ہیں، ان سبہوں نے شعر و ادب کی سرپرستی کو اپنا وطیرہ بنائے رکھا اور علم و ہنر کی اس قدردانی کے نتیجہ میں سرزمین بیجاپور کی ادبی فضاء اپنی ترقی کی معراج کو پہنچ گئی۔گجرات اور بیجاپور کا ادبی، تہذیبی ، ثقافتی اور مذہبی روایات کا تعلق ہمیشہ سے گہرا رہا ہے۔ دکنی زبان و ادب اپنے ابتدائی تشکیلی مرحلوں اور اس کے بعد گجری روایتوں سے گذر کر عادل شاہی دور میں داخل ہونے تک اپنی انفرادیت قائم کرچکی تھی۔

سلطنت بیجاپور کے قیام اور استحکام سے بہت پہلے گجرات کی ادبی روایات صوفیائے کرام کے ذریعہ بیجاپور پہنچ چکی تھیں۔ گجری زبان کے ذخیرۂ الفاظ ، طرزِفکر، مزاج ، لہجہ اور آہنگ پر سنسکرت اور ہندوی ادبی روایات کا بڑا گہرا رنگ اور اثر غالب رہا ہے، یہاں تک کہ فارسی طرز اور اس کے اثرات کا رنگ بھی تھا مدھم اور ماند پڑ گیا ہے، گویا گجری ادب اصل میں ہندوی اور سنسکرت کی ادبی روایات کی ایک طرح سے تجدید ہے۔ بہمنی دور کی ادبی اقدار اسی روایت کی ایک طرح سے توسیع ہے اور بیجاپور کا ادب بھی اس روایت اور مزاج کی تجدید اور توسیع مزید ہے لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ جیسے جیسے فارسی طرز اور انداز گہرا ہوتا گیا ، قدیم ہندوی رنگ رفتہ رفتہ ہلکا اور پھیکا پڑتا گیا۔ یہہ وہ دور ہے جب کہ دکنی زبان اپنے عبوری اور صوفیانہ دور سے گذر کر ادبی دور میں داخل ہوچکی تھی۔شاہانِ دکن نے ہر دور میں ہمیشہ دکنی زبان و ادب کی سرپرستی اور خدمت کی ہے۔ سلاطین بیجاپور نے اس زبان کو واحد قومی زبان کی حیثیت سے قبول کرلیا تھا اور ابراہیم عادل شاہ کے دور میں دفتری اُمور بھی اسی زبان میں انجام دیئے جانے لگے۔

اِن بادشاہوں کے دربار میں جہاں فارسی شعرأ کا طوطی بولتا تھا دکنی زبان کے شعرأ بھی ان کے دوش بدوش اپنی فنی شخصیت کا لوہا منوارہے تھے۔ نہ صرف یہہ بلکہ ابراہیم عادل شاہ ثانی، جو خاص و عام میں ’’ جگت گرو‘‘ کے نام سے معروف تھا، اس کے طبعزاد ’’ کتابِ نورس‘‘ اور علی عادل شاہ ثانی شاہی کے کلیات اس باتکے واضح ثبوت ہیں کہ ان سلاطین بیجاپور کا فارسی زبان سے جو خاندانی رشتہ تھا ، وہ کم و بیش منقطع ہوچکا تھا، اور دکنی ہی اُن کی اپنی زبان ہوگئی تھی۔یوں تو عادل شاہی دور میں فنونِ لطیفہ نے ترقی کے اونچے زینے طے کئے لیکن ابتدا ہی سے شاعری کو خاصی اہمیت دی جاتی رہی، بیجاپور کے اولین ادبی دور میں اگرچہ کہ ہمیں موضوعات کا تنوع ملتا ہے لیکن اس عہد کی کم و بیش ساری تحریروں پر مذہب اور تصوف کی گھری چھاپ موجود ہے،

اس دور کے صوفیائے کرام میں یوں تو بہت سارے نام ملتے ہیں لیکن ان میں قابل ذکر حضرت میراں جی شمس العاشق، حضرت برہان الدین جانم اور حضرت امین الدین اعلیٰ کے نام نامی ہیں۔مذہب اور تصوف کے دور کے بعد شاعری کے اظہار و بیان میں ایک طرح کی باقاعدگی اور موضوعات کا تنوع اُجاگر ہوتا گیا ۔ اخلاقی اقدار کی اہمیت شعرائے بیجاپور کے ہاں ہمیشہ اہم اور واضح رہی ، اظہار و ابلاغ کے اس انداز کو اجاگر کرنے میں انہوں نے محیرالعقول عناصر کو شامل کیا۔ تخیل کی بلند پروازی نہ صرف عشقیہ مثنویوں کی حد تک محدود رہی بلکہ اُن مذہبی قصوں میں بھی یہہ انداز اور طور واضح ہوتا گیا، جو روایتی انداز کے حامل ہیں۔ مقیمیؔ کی ’’ چندر بدن اور مہ یار‘‘ اور صنعتیؔ کی مثنوی ’’قصۂ بے نظیر‘‘ اس کی واضح مثالیں ہیں۔عشقیہ مثنویوں میں یہی انداز ہاشمیؔ کی ’’یوسف زلیخا‘‘ اور نصرتیؔ کی ’’ گلشنِ عشق‘‘ میں بھی موجود ہے۔ عاجزؔ کی ’’ یوسف زلیخا‘‘ اپنی منظر نگاری کے اعتبار سے بیجاپور کی ایک نمائندہ مثنوی

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر