صحیفہ ء سجادیہ ازامام زین العابدین علیہ السلام -شیعیان اہل بیت کے چوتھے امام حضرت امام سجاد سے منقولہ 45 مناجاتوں و دعاؤں پر مشتمل کتاب کا نام ہے۔ صحیفہ سجادیہ قرآن و نہج البلاغہ کے بعد، اہل تشیّع کے ہاں اہم مرتبے والی کتاب مانی جاتی ہے اور زبور آل محمد و انجیل اہل بیت کے عناوین سے مشہور ہے۔آقا بزرگ تہرانی نے اپنی کتاب الذریعہ میں لکھا ہے کہ اس کتاب پر تقریبا 50 شرحيں لکھی گئی ہیں جن میں سب سے مشہور شرح کا نام ریاض السالکین ہے اور اس کے مؤلف سید علی خان شیرازی ہیں۔ صحیفہ کے تراجم انگریزی، فرانسیسی، ترکی، اردو، ہسپانوی، بوسنیایی، آلبانوی، تامل سمیت مختلف زبانوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ اہل تشیع کے ہاں اس کتاب کی منزلت بجائے خود، جبکہ اہل سنت کے علما نے بھی اس کی فصاحت و بلاغت کی تعریف کیامام س یہ نسخہ صحیفہ کی 54 دعاؤں کے علاوہ چار مزید دعاؤں پر مشتمل ہے پھر اسی کے لیے حمد و ثنا ہے۔ اس کی ہرہر نعمت کے بدلے میں جو اس نے ہمیں اور تمام گزشتہ و باقی ماندہ بندوں کو بخشی ہے،ان تمام چیزوں کے شمار کے برابر جن پر اس کا علم حاوی ہے اور ہر نعمت کے مقابلہ میں دوگنی چوگنی جو قیامت کے دن تک دائمی و ابدی ہو ۔ ایسی حمد جس کا کوئی آخری کنار اور جس کی گنتی کا کوئی شمار نہ ہو۔
جس کی حد نہایت دسترس سے باہر اور جس کی مدت غیر مختتم ہو۔ ایسی حمد جو اس کی اطاعت و بخشش کا وسیلہ، اس کی رضا مندی کا سبب، اس کی مغفرت کا ذریعہ، جنت کا راستہ، اس کے عذاب سے پناہ، اس کے غضب سے امان، اس کی اطاعت میں معین، اس کی معصیت سے مانع اور اس کے حقوق و واجبات کی ادائیگی میں مددگار ہو ۔ ایسی حمد جس کے ذریعہ ہم اس کے خوش نصیب دوستوں میں شامل ہو کر خوش نصیب قرار پائیں اور ان شہیدوں کے زمرہ میں شمار ہوں جو اس کے دشمنوں کی تلواروں سے شہید ہوئے ۔ بیشک وہی مالک و مختار اور قابل ستائش ہے بار پروردگارا! اہل بیت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر درود بھیج؛ جن کو تو نے حکومت کے لئے منتخب کیا، اور اپنے علوم کا خزینہ اور دین کے محافظ مقرر کیا اور روئے زمین پر انہیں خلیفہ اور اپنے بندوں پر حجت کے عنوان سے متعین کیا؛ انہیں اپنے ارادے سے، ہر پلیدی اور آلودگی سے پاک و منزہ قرار دیا اور انہیں اپنے ارادے سے ہر ناپاک کرنے والی شئے سے پاک کردیا اور انہیں اپنے مقام قرب اور بہشت بریں تک پہنچنے کا وسیلہ قرار دیا۔صحیفۂ سجادیہ، دعا نمبر 47 فقرہ 56۔امام سجاد اپنی دعاؤں کے آغاز میں اللہ کی حمد و ثناء بجا لاتے ہیں، بعد ازاں خاندان رسول(ص) پر درود و سلام بھیجتیے ہیں، یہاں تک کہ صحیفہ میں کم ہی کوئی دعا ہوگی جس میں لفظ صلوات سے استفادہ نہ ہوا ہو۔
آپ(ع) آخر میں اللہ سے اپنی حاجت کی درخواست کرتے ہیں۔صحیفہ سجادیہ محض خدا کے ساتھ راز و نیاز اور اس کی بارگاہ میں حاجت کے بیان پر ہی مشتمل نہیں ہے، بلکہ بہت سے اسلامی علوم و معارف کا مجموعہ بھی ہے جن میں اعتقادی، ثقافتی و تعلیمی، معاشرتی اور سیاسی مسائل نیز بعض طبیعی قوانین اور شرعی احکام کو دعا کے سانچے میں بیان کیا گیا ہے۔خدا کے ساتھ ارتباط و تعلق کے سلسلے میں مختلف اوقات اور احوال کے تقاضوں کو مد نظر رکھ کر بعض دعائیں بیان کی گئی ہیں؛ بعض دعائیں ۔تمام تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں توبہ کی راہ بتائی کہ جسے ہم نے صرف اس کے فضل و کرم کی بدولت حاصل کیا ہے۔ تو اگر ہم اس کی بخششوں میں سے اس توبہ کے سوا اور کوئی نعمت شمار میں نہ لائیں تو یہی توبہ ہمارے حق میں اس کا عمدہ انعام، بڑا احسان اور عظیم فضل ہے۔
اس لیے کہ ہم سے پہلے لوگوں کے لیے توبہ کے بارے میں اس کا یہ رویہ نہ تھا ۔ اس نے تو جس چیز کے برداشت کرنے کی ہم میں طاقت نہیں ہے، وہ ہم سے ہٹا لی اور ہماری طاقت سے بڑھ کر ہم پرذمہ داری عائد نہیں کی اور صرف سہل و آسان چیزوں کی ہمیں تکلیف دی ہے اور ہم میں سے کسی ایک کے لیے حیل و حجت کی گنجائش نہیں رہنے دی ۔ لہذا وہی تباہ ہونے والا ہے،جواس کی منشاء کے خلاف اپنی تباہی کا سامان کرے اور وہی خوش نصیب ہے، جو اس کی طرف توجہ و رغبت کرے-تمام تعریف اس اللہ کے لیے ہے، جس نے ہمارے ( جسموں میں) پھیلنے والے اعصاب اور سمٹنے والے عضلات ترتیب دیئے اور زندگی کی آسائشوں سے بہرہ مند کیا اور کار و کسب کے اعضاء ہمارے اندر ودیعت فرمائے اور پاک و پاکیزہ روزی سے ہماری پرورش کی اور اپنے فضل و کرم کے ذریعہ ہمیں بے نیاز کردیا اور اپنے لطف و احسان سے ہمیں ( نعمتوں کا) سرمایہ بخشا۔ پھر اس نے اپنے احکام اوامر کی پیروی کا حکم دیا تاکہ فرمانبرداری میں ہم کو آزمائے اور نواہی کے ارتکاب سے منع کیا تاکہ ہمارے شکر کو جانچے، مگر ہم نے اس کے حکم کی راہ سے انحراف کیا اور نواہی کے مرکب پر سوار ہولیے ۔ پھر بھی اس نے عذاب میں جلدی نہیں کی اور سزا دینے میں تعجیل سے کام نہیں لیا بلکہ اپنے کرم و رحمت سے ہمارے ساتھ نرمی کا برتاؤ کیا اور حلم و رافت سے ہمارے باز آ جانے کا منتظر رہا۔
تمام تعریف اللہ کے لیے ہے کہ اس نے اپنی ذات کو ہمیں پہنچوایا اور حمد و شکر کا طریقہ سمجھایا اور اپنی پروردگاری پر علم و اطلاع کے دروازے ہمارے لیے کھول دیئے اور توحید میں تنزیہ و اخلاص کی طرف ہماری رہنمائی کی اور اپنے معاملہ میں شرک و کجروی سے ہمیں بچایا ۔ ایسی حمد جس کے ذریعہ ہم اس کی مخلوقات میں سے حمدگزاروں میں زندگی بسر کریں اور اس کی خوشنودی و بخشش کی طرف بڑھنے والوں سے سبقت لے جائیں۔ ایسی حمد جس کی بدولت ہمارے لیے برزخ کی تاریکیاں چھٹ جائیں اور جو ہمارے لیے قیامت کی راہوں کو آسان کر دے اور حشر کے مجمع عام میں ہماری قدر و منزلت کو بلند کر دے ، جس دن ہر ایک کے کئے کا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر کسی طرح کا ظلم نہ ہوگا ۔ جس دن کوئی دوست کسی دوست کے کچھ کام نہ آئے گا اور نہ ان کی مدد کی جائے گی۔ایسی حمد جو ایک لکھی ہوئی کتاب میں ہے جس کی مقرب فرشتے نگہداشت کرتے ہیں،ہماری طرف سے بہشت بریں کے بلند ترین درجات تک بلند ہو۔ ایسی حمد جس سے ہماری آنکھوں میں ٹھنڈک آئے جبکہ تمام آنکھیں حیرت و دہشت سے پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی اور ہمارے چہرے روشن و درخشاں ہوں، جبکہ تمام چہرے سیاہ ہوں گے ۔ ایسی حمد جس کے ذریعہ ہم اللہ تعالیٰ کی بھڑکائی ہوئی اذیت دہ آگ سے آزادی پا کر اس کے جوارِ رحمت میں آجائیں ۔ ایسی حمد جس کے ذریعہ ہم اس کے مقرب فرشتوں کے ساتھ شانہ بشانہ بڑھتے ہوئے ٹکرائیں اور اس منزلِ جاوید و مقام عزت و رفعت میں جسے تغیر و زوال نہیں، اس کے فر ستادہ پیغمبروں کے ساتھ یکجا ہوں