قیام پاکستان کے فوراً بعد سے مہاجروں کے اوپر شب خون مارنے کا سلسلہ شروع کیا گیا اور مختلف حیلے بہانں سےچن چن کر مہاجر وفاقی حکومت سے نکال دئے گئے -دشمنی کی حد بڑھتے بڑھتے کوٹہ سسٹم تک آ گئ اور اب کیا صورتحال ہے آ پ اس مختصر تحریر میں ملاحظہ کیجئے ء میں ایم کیو ایم نے سابق مشرقی پاکستان میں محصور پاکستانیوں کو واپس لانے اور سندھ کے شہری علاقوں سے کوٹہ سسٹم کے خاتمے اور دیگر عوامی حقوق کے اصول کے لئے سیا ست کا آغاز کیا تھا لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد ایم کیو ایم نے بھی پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح روایتی سیاست اپنا کر نہ صرف اپنے بنیادی منشور اور نظریات کو بھلا کر اقتدار کو اپنی منزل قرار دیا اور یک کے بعد دیگرے حکومتوں کی اتحادی بنتی رہی اور پھر نہ اپنے وعدے یاد رہے اور نہ عوام کے بنیادی مسائل صرف اور صرف اقتدار کا حصول ہی تمام تر سیاسی جدو جہد کا محور بنا اور آج عالم یہ ہے کہ موجودہ حکومت کی اتحادی ہونے کے باوجود وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان نے 19 اگست کو ایک ایس آر او 747 ون جاری کیا ہے اس ایس آر او کے مطابق وفاقی ملازمتوں میں جو کوٹہ سسٹم نافذ ہے اس میں لا متنا ہی توسیع کردی ہے وزیر اعظم عمران خان کا یہ کراچی اور اربن سندھ کے لوگوں پر ایک بہت ہی کاری وار ہے اور یہ شب خون مارنے کے مترادف ہے اور حیران کن بات یہ ہے کہ نواز شریف جو کام 2013 ء سے 2018 ء تک نہیں کر سکے عمران خان نے خاموشی اور رات کی تاریکی میں چپ چاپ ایس آر او جاری کردیا اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ کوٹہ سسٹم 1973 ء میں متعارف کرایا گیا تھا اور آئین کے مطابق یہ بات طے کی گئی تھی کہ وفاق کی ملازمتوں میں پورے ملک کا جو حصہ ہے اس میں سندھ کا بھی کوٹہ ہے سندھ کے کوٹے کوبھی دو حصوں میں تقسیم کیا جائے گا ا
اب مسئلہ یہ ہے کہ 2013 ء سے آج 2020 ء تک اس کوٹہ سسٹم کو خلاف قانون قائم رکھا گیا ہے یہ آئین کے مطابق 2013 ء میں ختم ہو گیا تھا آج 19 اگست 2020 کو وزیرِ اعظم عمران خان نے جو کام کیا ہے انہوں نے تو حد ہی کردی انہوں نے ایس آر او جاری کیا جس سول سروس پوائنٹ کے جو رول ہیں یعنی ٹرانسفر اور پروموشن کے انہوں نے ان میں بھی ترمیم کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ کوٹہ سسٹم جس کے لئے آئین میں ترمیم بہت ضروری ہے اسے ایک طرف رکھتے ہوئے کہا کہ اس آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں ہے اور اب یہ لامتنا ہی ہو گا اور اس کا کوئی ٹائم فریم نہیں ہو گا بلکہ غیر معینہ مدت تک نافذ العمل ہو گا اور اسی طرح چلتا رہے گا گویا پی ٹی آئی نے کراچی سے اتنا بڑا مینڈیٹ لیا کراچی سے ان کے 14 ایم این اے 30 صوبائی اسمبلی کے ممبر کے علاوہ کراچی سے ان کے وزیر اور صدر مملکت بھی ہیں اور یہ کراچی کراچی کی اتنی بات کرتے ہیں کہ کراچی کے حالات کو سدھارنے کے لئے وفاق یہ کرے گا اور وہ کرے گا ابھی تو یہ بات بھی ان سے کوئی پوچھ نہیں رہا ہے کہ ملک کے 650 ارب کے بجٹ میں سے کراچی کو اب تک کیا دیا ہے کراچی کے لوگوں سے کے الیکٹرک منافع میں سے بھی وفاقی حکومت اپنا حصہ وصول کر رہی ہے رات دن کراچی کراچی کرنے والوں نے کراچی کے نوجوانوں کے حقوق پر شب خون مارا ہے
کوٹہ سسٹم کے ضمن میں جو بات سندھ کو دوسرے صوبوں سے الگ کرتی ہے وہ کوٹے کی یہ ہی شہری اور دیہی تقسیم ہے۔کوٹا سسٹم کے معماروں کے ذہن میں یہ بات لازماََ رہی ہو گی کہ جب کوٹے کے مقاصد حاصل ہو جائیں تو اِس کو ختم کر دیا جائے گا۔لیکن بد قسمتی سے نفاذِ اُردو کی طرح حکومتِ پاکستان کے مانگے ہوئے 6 ماہ کی طرح یہ 10 سال بھی شیطان کی آنت بن گئے۔ حالانکہ تاریخی طور پر کوٹا سسٹم کوئی بہت نئی بات نہیں۔قائد،اعظم ؒ کے مشہورِ زمانہ 14 نکات میں بھی مسلمانوں کی متناسب نمائندگی کی بات کی گئی تھی، اسی کی بنیاد پر انگریز نے 1926 میں مسلمانوں کے لئے سرکاری ملازمتوں کا 25%کا کوٹہ جاری کیا جو اُس وقت کی ضرورت اور مسلمانوں کی بڑی کامیابی تھی۔کوٹا سسٹم کی سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ سرکاری ملازمتوں میں محض 7%افراد اہلیت کی بنیاد پر لئے جاتے ہیں۔ باقی ’’کوٹہ سسٹم ‘‘ کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ۔جب انتہائی اہمیت کی حامِل سرکاری نوکریوں پر تقرری کی کسوٹی محض ڈومیسائل بنا دیا جائے تو پھر اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان کہاں جائیں گے؟
المیہ ملاحظہ فرمائیں کہ ملازمت کے امتحان میں کہیں کم نمبر لینے والا، اپنے سے زیادہ نمبر لینے والوں کو ایک طرف کرتے ہوئے کوٹہ کی بنیاد پر منتخب کرلیا جاتا ہے۔ کیا یہ بے انصافی نہیں؟ چلیں کچھ عرصہ کسی مصلحت یا صوبہ کے مفاد کی خاطر یہ کڑوے گھونٹ پی بھی لئے جائیںتو بھی آخر کب تک؟ یاد رہے کہ کوٹہ سسٹم کو وفاقی شرعی عدالت اور پاکستان سپریم کورٹ نے غیر قانونی قرار دے رکھا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 1973 میں کوٹہ سسٹم کو جو آئینی تحفظ فراہم کیا گیا تھا وہ خود اِسی آئین کے آرٹیکل 25 کی خلاف و رزی ہے۔ کوٹہ سسٹم میں بھی شروع میں کوئی قواعد و ضوابط رہے ہوں گے کہ تحریری امتحانات میں کم از کم اتنے نمبر حاصل کرنے والے سرکاری ملازمت کے اہل ہو سکتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہوا کہ اِس سے کئی ایک سیٹیں خالی رہیں کیوں کہ کوٹے میں آنے والے اُس کم از کم اہلیت یا قابلیت پر پورا نہیں اترتے تھے۔تب کم نمبر والے، اُس استبدادی قابلیت سے مبرا قرار دے دیے گئے۔اب جب آپ بہت ذمہ داری کی جگہ پر ایک نا اہل شخص کو بٹھا دیں گے تو اول تو وہ خود احساسِ کمتری کا شکار ہو گا دوم اپنے ماتحتوں کے زیرِ اثر ہو گا۔یہیں سے بگاڑ کا آغاز ہوا کرتا ہے، رشوت بد عنوانی خدا داد نہیں بلکہ اسی موذی ’’کوٹہ سسٹم ‘‘ کی ناجائز اولاد ہے۔وفاقی اسامیوں میں دیہی سندھ کا کوٹہ11.4فی صداور شہری سندھ کا حصہ محض 7.6فی صد ہے۔سندھ کے علاوہ باقی کسی صوبہ میں دیہی اور شہری آبادی کی کوٹہ کے نظام میں تخصیص نہیں ہے۔ اس نظام میں شہری سندھ کے لیے تین شہر شامل ہیں: کراچی، حیدرآباد اور سکھر۔ان ہی شہروں میں اردو بولنے والے سندھیوں کی اکثریت ہے۔کوٹہ نظام اور صنعتوں کوقومیائے جانے سے خصوصاً اردو بولنے والے تعلیم یافتہ اور تجارت اور صنعت سے وابستہ افراد کو معاشی اور سماجی طور پرنقصان پہنچا۔ نتیجہ کے طور پرسندھ میں آج ہم بڑے پیمانے پرکرپشن،اقرباپروری، نااہلی اور میرٹ کا قتلِ عام دیکھتے ہیں۔اس لیے نہ صرف اردو بولنے والے سندھی لوگوں کو متناسب نمائندگی نہیں ہی ملتی، بلکہ وہ رشوت، نااہلی اور اقرباپروری کی وجہ سے بھی دوہرے عتاب کا شکار ہوتے ہیں۔
کچھ اخباری اطلاعات کے مطابق شہری سندھ کا ڈومیسائل لینا نہایت آسان ہے۔ کراچی اور حیدرآ باد کے حکومتی اداروں میں جانے کا مشاہدہ کیجیے تو شاذونادر ہی اردو بولنے والے سندھی نظر آئیں گے۔نجی شعبہ کے بڑھنے سے کسی حد تک اردو بولنے والے سندھیوں کی معاشی بقا ممکن ہوپائی۔ مگر اس کے باوجود انہیں ہر جائز کام کے لیے بھی رشوت دینا پڑتی ہے۔ مقامی حکومتوں کانظام کراچی جیسے بڑے شہروں کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ جماعتِ اسلامی کے نعمت اللہ خان صاحب کادور مثالی سمجھاجاتا ہے۔ان کے دورِنظامت میں کئی ترقی یافتہ کام ہوئے۔اس کے بعد مصطفی کمال صاحب کے دورِنظامت میں بھی شہر میں کئی ترقیاتی کام تکمیل پائے۔انہیں فارن پالیسی کے جریدے نے دنیا کا بہترین میئر بھی شمار کیا۔ ان دونوں ادوارِنظامت میں شہرِکراچی پرامن بھی رہا۔موجودہ حالات میں کم ازکم سندھ کے اندر میرٹ کا امکان نظر نہیں آتا۔ سندھ پبلک سروس کمیشن کے گیارہ ارکان میں شہری سندھ سے کوئی نمائندگی نہیں۔ یہ ہی وہ خوفناک صورتحال جسے ایک بار سابق ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر کو بھی تسلیم کرنا پڑاکہ کوٹہ نظام میرٹ کا قتل عام ہے اور اسے فی الفور ختم ہوجانا چاہیے ۔وفاقی اردو یونیورسٹی کے علاوہ کراچی، حیدرآباد اور سندھ کے شہری علاقوں میں کوئی ایک بھی سرکاری یونیورسٹی پچھلے 45برسوں میں قائم نہیں ہوئی باوجود یہ کہ شہری سندھ کی آبادی تین کروڑتک پہنچ گئی ہے۔
سندھ سیکرٹیریٹ سے جڑے تمام ڈپارٹمنٹ میں 1 سے 15 گریڈ کے ۹۹ فیصد لوگ غیر مقامی بھرتی کیئے گئے یہی حال17 سے 21 گریڈ کے افسران کا ہے 99 فیصد غیر مقامی ہیں - ہائیکورٹ، سٹی کورٹ و دیگر ڈسٹرک کورٹ میں 80 فیصدی ملازم غیر مقامی بھرتی کیئے ہیں
جواب دیںحذف کریں