جمعہ، 19 اپریل، 2024

ماضی کا حسین بھاولپور

 یک دفعہ کا ذکر ہے کہ نواب آف بہاولپور لندن میں ایک عام شہری کی طرح اپنا دیسی  لباس کرتا  پاجامہ پہن کر بازار گئے  ۔بازار میں   ؎ گاڑیوں  کے شوروم میں کھڑی رولز رائس کار بہت پسند آئی۔ وہ اندر گئے اور سیلز مین سے قیمت پوچھی۔ یہ سوچ کر کہ وہ ایک عام ایشیائی شہری ہے،شوروم میں موجود  آدمی نے  ان کی خوب بے عزتی کرتے ہوئے کہا  تم جیسا پھکڑ آدمی یہ گاڑی نہیں خرید سکتا ہے- نواب صاحب ہوٹل واپس آئے اور اگلے دن وہ پورے شاہانہ شان کے ساتھ ملازمین کی پوری فوج لے کر شوروم میں گئے اور  اسی  آدمی  سے پوچھا کہ  شو روم میں کتنی گاڑیاں موجود ہیں -آدمی نے جواب دیا چھ ہیں -اسی وقت نواب نے چھ رولس رائس گاڑیاں خرید کر ملازمین کو دیں اور  ان سے کہا کہ ان گاڑیوں کو فوری طور پر بہاولپور پہنچا کر بلدیہ کے حوالے کیا جائے اور انہیں شہر کی صفائی اور کچرا اٹھانے کا ٹاسک دیا جائے اور یہ اس وقت تک کیا گیا جب تک یہ بات پوری دنیا میں پھیل گئی اور رولس رائس کی مارکیٹ بن گئی۔ نیچے رولز رائس کا نام سن کر لوگ ہنستے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ وہی ہے جو ریاست بہاولپور میں شہر کا کچرا اٹھانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ کچھ عرصے بعد رولز رائس کمپنی کا مالک خود بہاولپور آیا اور نواب صاحب سے معافی مانگی اور چھ نئی رولز رائس گاڑیاں بھی بطور تحفہ دی اور درخواست کی کہ گاڑیوں کو اس گھناؤنے کام سے ہٹا دیا جائے۔ ان چھ نئی گاڑیوں میں سے ایک گاڑی قائداعظم کو نواب صاحب نے تحفے میں دی تھی، 

میں نے یہ چھوٹی سی سچی کہانی اپنے قارئین کے لیے وقف کی ہے تاکہ وہ جان سکیں کہ ماضی میں بھاولپور کے نوابوں کے پاس کتنی دولت تھی۔ کرتا نور محل کو نواب صادق محمد خان عباسی چہارم نے 1872 میں تعمیر کرنے کا حکم دیا تھا۔ انہوں نے یہ محل اپنی بیگم کے لیے بنوایا جو تین سال میں مکمل ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اس کی طرف منسوب ہے۔ سابق ریاست بہاولپور کے نوابوں نے دل کھول کر اپنی دولت کو اپنے علاقے کی ترقی کے لیے استعمال کیا اور اپنے عالی شان محلات بھی بنوائے۔ ریاست کا وجود نہیں تھا لیکن نوابوں کی تعمیر کردہ عمارتیں اس کی کہانی سنانے کے لیے موجود ہیں۔ جب آپ بہاولپور جاتے ہیں تو آپ کو صرف ایک 'دیکھنے والی آنکھ' کی ضرورت ہوتی ہے اور کچھ نہیں۔ وکٹوریہ ہسپتال، لائبریری، میوزیم، ڈرنگ اسٹیڈیم، ایجرٹن کالج جیسی تاریخی عمارتیں اگر آپ نور محل پہنچیں تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ریاست کے دوران تعمیر کی گئی سہولیات اس خطے کے لیے کافی جدید تھیں۔

 نور محل مغربی اور اسلامی طرز تعمیر کا حسین امتزاج ہے۔ اس کی آب و ہوا اور خوبصورتی آپ کو دور سے اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ نور محل نے اپنے اطراف میں سبز کمبل بچھا دیا ہے۔ آپ اس کے بالکل سامنے سرکلر لان پر  موجود ہلکی سرخ اور سفید عمارت سے پیار کر سکتے ہیں جو پہلی نظر میں دل کو موہ لیتی ہے۔ تقریباً 150 سال پرانا محل ان بہت سے محلوں میں سے ایک ہے جو 19ویں صدی میں تعمیر کیے گئے تھے۔ 20ویں صدی کے اواخر اور اوائل میں بہاولپور میں بنایا گیا۔ باقی محلات تو شاید اس سے زیادہ خوبصورت ہیں لیکن نور محل کے بارے میں کچھ الگ ضرور ہے۔ سابق ریاست بہاولپور کے آخری امیر نواب سر صادق محمد خان پنجم کے پوتے صاحبزادہ قمر الزمان عباسی نے بی بی سی کو بتایا کہ تعمیر کے سال کے علاوہ اس کہانی میں کوئی صداقت نہیں ہے۔

 نہ رہانے اور یہ محل نہ تو کسی بیگم کے لیے بنایا گیا تھا اور نہ ہی اس کے نام کی روشنی کسی بیگم کے نام پر ہے۔ ان دنوں بیگم کا نام لینا برا سمجھا جاتا تھا۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر بہاولپور کے تاریخی صادق ایجرٹن کالج کے شعبہ تاریخ کے سابق صدر ہیں اور سابق ریاست کی تاریخ پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ کسی بیگم سے نور محل کی تعمیر کا منصوبہ غلط ہے۔ اس وقت اس علاقے میں بیگم کے نام کا کھلے عام ذکر کرنا غلط سمجھا جاتا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ نواب صاحب کی  بیگمات  کا نام لینا منع ہے۔ یہ محل کسی بیگم کے نام پر نہیں ہے۔ قیام پاکستان کے بعد نور محل کچھ عرصے تک اوقاف کے پاس رہا اور پھر اسے پاکستانی فوج کو کرایہ پر دے دیا گیا جنہوں نے بعد میں اسے خرید لیا۔ ان دنوں یہ فوج کے زیر انتظام ہے۔ اس کی عمارت میں ریاست کی تاریخ اور خصوصاً نواب سر صادق محمد خان پنجم سے متعلق چیزیں رکھی گئی ہیں۔ آپ تھوڑی سی رقم میں ٹکٹ خرید کر اس کا دورہ کر سکتے ہیں۔

 اس محل کی تعمیر اس طرح کی گئی ہے کہ اس میں سورج کی روشنی داخل ہونے کے لیے خاص طریقے ہیں۔ محل کے مرکزی ہال میں نواب کے بیٹھے دربار کے بالکل اوپر شیشوں کی دیوار ہے۔ شیشوں کو اس طرح استعمال کیا گیا ہے کہ عمارت کے ہر کونے میں قدرتی روشنی ہو۔ اس کا اندازہ اس شیشے سے لگایا جا سکتا ہے جو نواب کے دربار کے عقب میں نصب ہے۔ ان دنوں یہاں ہفتے کے آخری دو دن لائٹ شو کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہ منظر قابل دید ہے جو نور محل کے حقیقی معنی کی عکاسی کرتا ہے۔ اس میں محل باہر کی روشنیوں سے منور ہے۔ اس کے گنبد پر نوابوں کی تصویریں بھی آویزاں ہیں۔ صاحبزادہ قمر الزمان عباسی کے مطابق نور محل ایک گیسٹ ہاؤس تھا۔ اس وقت کی بڑی ریاستوں کے نواب اس میں رہ چکے ہیں۔ بعد ازاں پاکستان کےسابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ فاطمہ جناح جیسی شخصیات نے بھی یہاں قیام کیا -یہاں نوابین کی یاد گاریں باقی ہیں لیکن نوابین دنیا سے کبھی کے جاچکے ہی-کیونکہ باقی رہے نام اللہ کا 

1 تبصرہ:

  1. تقریباً 150 سال پرانا محل ان بہت سے محلوں میں سے ایک ہے جو 19ویں صدی میں تعمیر کیے گئے تھے۔ 20ویں صدی کے اواخر اور اوائل میں بہاولپور میں بنایا گیا۔ باقی محلات تو شاید اس سے زیادہ خوبصورت ہیں لیکن نور محل کے بارے میں کچھ الگ ضرور ہے

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر