ہفتہ، 20 اپریل، 2024

صحیفہ ء سجادیہ ازامام زین العابدین علیہ السلام

 

 صحیفہ ء سجادیہ ازامام زین العابدین علیہ السلام -شیعیان اہل بیت کے چوتھے امام حضرت امام سجاد سے منقولہ 45 مناجاتوں و دعاؤں پر مشتمل کتاب کا نام ہے۔ صحیفہ سجادیہ قرآن و نہج البلاغہ کے بعد، اہل تشیّع کے ہاں اہم مرتبے والی کتاب مانی جاتی ہے اور زبور آل محمد و انجیل اہل بیت کے عناوین سے مشہور ہے۔آقا بزرگ تہرانی نے اپنی کتاب الذریعہ میں لکھا ہے کہ اس کتاب پر تقریبا 50 شرحيں لکھی گئی ہیں جن میں سب سے مشہور شرح کا نام ریاض السالکین ہے اور اس کے مؤلف سید علی خان شیرازی ہیں۔ صحیفہ کے تراجم انگریزی، فرانسیسی، ترکی، اردو، ہسپانوی، بوسنیایی، آلبانوی، تامل سمیت مختلف زبانوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ اہل تشیع کے ہاں اس کتاب کی منزلت بجائے خود، جبکہ اہل سنت کے علما نے بھی اس کی فصاحت و بلاغت کی تعریف کیامام س یہ نسخہ صحیفہ کی 54 دعاؤں کے علاوہ چار مزید دعاؤں پر مشتمل ہے پھر اسی کے لیے حمد و ثنا ہے۔ اس کی ہرہر نعمت کے بدلے میں جو اس نے ہمیں اور تمام گزشتہ و باقی ماندہ بندوں کو بخشی ہے،ان تمام چیزوں کے شمار کے برابر جن پر اس کا علم حاوی ہے اور ہر نعمت کے مقابلہ میں دوگنی چوگنی جو قیامت کے دن تک دائمی و ابدی ہو ۔ ایسی حمد جس کا کوئی آخری کنار اور جس کی گنتی کا کوئی شمار نہ ہو۔

جس کی حد نہایت دسترس سے باہر اور جس کی مدت غیر مختتم ہو۔ ایسی حمد جو اس کی اطاعت و بخشش کا وسیلہ، اس کی رضا مندی کا سبب، اس کی مغفرت کا ذریعہ، جنت کا راستہ، اس کے عذاب سے پناہ، اس کے غضب سے امان، اس کی اطاعت میں معین، اس کی معصیت سے مانع اور اس کے حقوق و واجبات کی ادائیگی میں مددگار ہو ۔ ایسی حمد جس کے ذریعہ ہم اس کے خوش نصیب دوستوں میں شامل ہو کر خوش نصیب قرار پائیں اور ان شہیدوں کے زمرہ میں شمار ہوں جو اس کے دشمنوں کی تلواروں سے شہید ہوئے ۔ بیشک وہی مالک و مختار اور قابل ستائش ہے بار پروردگارا! اہل بیت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر درود بھیج؛ جن کو تو نے حکومت کے لئے منتخب کیا، اور اپنے علوم کا خزینہ اور دین کے محافظ مقرر کیا اور روئے زمین پر انہیں خلیفہ اور اپنے بندوں پر حجت کے عنوان سے متعین کیا؛ انہیں اپنے ارادے سے، ہر پلیدی اور آلودگی سے پاک و منزہ قرار دیا اور انہیں اپنے ارادے سے ہر ناپاک کرنے والی شئے سے پاک کردیا اور انہیں اپنے مقام قرب اور بہشت بریں تک پہنچنے کا وسیلہ قرار دیا۔صحیفۂ سجادیہ، دعا نمبر 47 فقرہ 56۔امام سجاد اپنی دعاؤں کے آغاز میں اللہ کی حمد و ثناء بجا لاتے ہیں، بعد ازاں خاندان رسول(ص) پر درود و سلام بھیجتیے ہیں، یہاں تک کہ صحیفہ میں کم ہی کوئی دعا ہوگی جس میں لفظ صلوات سے استفادہ نہ ہوا ہو۔

  آپ(ع) آخر میں اللہ سے اپنی حاجت کی درخواست کرتے ہیں۔صحیفہ سجادیہ محض خدا کے ساتھ راز و نیاز اور اس کی بارگاہ میں حاجت کے بیان پر ہی مشتمل نہیں ہے، بلکہ بہت سے اسلامی علوم و معارف کا مجموعہ بھی ہے جن میں اعتقادی، ثقافتی و تعلیمی، معاشرتی اور سیاسی مسائل نیز بعض طبیعی قوانین اور شرعی احکام کو دعا کے سانچے میں بیان کیا گیا ہے۔خدا کے ساتھ ارتباط و تعلق کے سلسلے میں مختلف اوقات اور احوال کے تقاضوں کو مد نظر رکھ کر بعض دعائیں بیان کی گئی ہیں؛ بعض دعائیں ۔تمام تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں توبہ کی راہ بتائی کہ جسے ہم نے صرف اس کے فضل و کرم کی بدولت حاصل کیا ہے۔ تو اگر ہم اس کی بخششوں میں سے اس توبہ کے سوا اور کوئی نعمت شمار میں نہ لائیں تو یہی توبہ ہمارے حق میں اس کا عمدہ انعام، بڑا احسان اور عظیم فضل ہے۔

 اس لیے کہ ہم سے پہلے لوگوں کے لیے توبہ کے بارے میں اس کا یہ رویہ نہ تھا ۔ اس نے تو جس چیز کے برداشت کرنے کی ہم میں طاقت نہیں ہے، وہ ہم سے ہٹا لی اور ہماری طاقت سے بڑھ کر ہم پرذمہ داری عائد نہیں کی اور صرف سہل و آسان چیزوں کی ہمیں تکلیف دی ہے اور ہم میں سے کسی ایک کے لیے حیل و حجت کی گنجائش نہیں رہنے دی ۔ لہذا وہی تباہ ہونے والا ہے،جواس کی منشاء کے خلاف اپنی تباہی کا سامان کرے اور وہی خوش نصیب ہے، جو اس کی طرف توجہ و رغبت کرے-تمام تعریف اس اللہ کے لیے ہے، جس نے ہمارے ( جسموں میں) پھیلنے والے اعصاب اور سمٹنے والے عضلات ترتیب دیئے اور زندگی کی آسائشوں سے بہرہ مند کیا اور کار و کسب کے اعضاء ہمارے اندر ودیعت فرمائے اور پاک و پاکیزہ روزی سے ہماری پرورش کی اور اپنے فضل و کرم کے ذریعہ ہمیں بے نیاز کردیا اور اپنے لطف و احسان سے ہمیں ( نعمتوں کا) سرمایہ بخشا۔ پھر اس نے اپنے احکام اوامر کی پیروی کا حکم دیا تاکہ فرمانبرداری میں ہم کو آزمائے اور نواہی کے ارتکاب سے منع کیا تاکہ ہمارے شکر کو جانچے، مگر ہم نے اس کے حکم کی راہ سے انحراف کیا اور نواہی کے مرکب پر سوار ہولیے ۔ پھر بھی اس نے عذاب میں جلدی نہیں کی اور سزا دینے میں تعجیل سے کام نہیں لیا بلکہ اپنے کرم و رحمت سے ہمارے ساتھ نرمی کا برتاؤ کیا اور حلم و رافت سے ہمارے باز آ جانے کا منتظر رہا۔

تمام تعریف اللہ کے لیے ہے کہ اس نے اپنی ذات کو ہمیں پہنچوایا اور حمد و شکر کا طریقہ سمجھایا اور اپنی پروردگاری پر علم و اطلاع کے دروازے ہمارے لیے کھول دیئے اور توحید میں تنزیہ و اخلاص کی طرف ہماری رہنمائی کی اور اپنے معاملہ میں شرک و کجروی سے ہمیں بچایا ۔ ایسی حمد جس کے ذریعہ ہم اس کی مخلوقات میں سے حمدگزاروں میں زندگی بسر کریں اور اس کی خوشنودی و بخشش کی طرف بڑھنے والوں سے سبقت لے جائیں۔ ایسی حمد جس کی بدولت ہمارے لیے برزخ کی تاریکیاں چھٹ جائیں اور جو ہمارے لیے قیامت کی راہوں کو آسان کر دے اور حشر کے مجمع عام میں ہماری قدر و منزلت کو بلند کر دے ، جس دن ہر ایک کے کئے کا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر کسی طرح کا ظلم نہ ہوگا ۔ جس دن کوئی دوست کسی دوست کے کچھ کام نہ آئے گا اور نہ ان کی مدد کی جائے گی۔ایسی حمد جو ایک لکھی ہوئی کتاب میں ہے جس کی مقرب فرشتے نگہداشت کرتے ہیں،ہماری طرف سے بہشت بریں کے بلند ترین درجات تک بلند ہو۔ ایسی حمد جس سے ہماری آنکھوں میں ٹھنڈک آئے جبکہ تمام آنکھیں حیرت و دہشت سے پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی اور ہمارے چہرے روشن و درخشاں ہوں، جبکہ تمام چہرے سیاہ ہوں گے ۔ ایسی حمد جس کے ذریعہ ہم اللہ تعالیٰ کی بھڑکائی ہوئی اذیت دہ آگ سے آزادی پا کر اس کے جوارِ رحمت میں آجائیں ۔ ایسی حمد جس کے ذریعہ ہم اس کے مقرب فرشتوں کے ساتھ شانہ بشانہ بڑھتے ہوئے ٹکرائیں اور اس منزلِ جاوید و مقام عزت و رفعت میں جسے تغیر و زوال نہیں، اس کے فر ستادہ پیغمبروں کے ساتھ یکجا ہوں  


جمعہ، 19 اپریل، 2024

مہاجرنوجوان اور کوٹہ سسٹم کی تلوار

  

 قیام پاکستان کے فوراً بعد سے مہاجروں کے اوپر شب خون مارنے کا سلسلہ شروع کیا گیا اور مختلف حیلے بہانں سےچن چن کر مہاجر وفاقی حکومت سے نکال دئے گئے -دشمنی کی حد بڑھتے بڑھتے کوٹہ سسٹم تک آ گئ اور اب کیا صورتحال ہے آ پ اس مختصر تحریر میں ملاحظہ کیجئے ؁ ء میں ایم کیو ایم نے سابق مشرقی پاکستان میں محصور پاکستانیوں کو واپس لانے اور سندھ کے شہری علاقوں سے کوٹہ سسٹم کے خاتمے اور دیگر عوامی حقوق کے اصول کے لئے سیا ست کا آغاز کیا تھا لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد ایم کیو ایم نے بھی پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح روایتی سیاست اپنا کر نہ صرف اپنے بنیادی منشور اور نظریات کو بھلا کر اقتدار کو اپنی منزل قرار دیا اور یک کے بعد دیگرے حکومتوں کی اتحادی بنتی رہی اور پھر نہ اپنے وعدے یاد رہے اور نہ عوام کے بنیادی مسائل صرف اور صرف اقتدار کا حصول ہی تمام تر سیاسی جدو جہد کا محور بنا  اور آج عالم یہ ہے کہ موجودہ حکومت کی اتحادی ہونے کے باوجود وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان نے 19 اگست کو ایک ایس آر او 747 ون جاری کیا ہے اس ایس آر او کے مطابق وفاقی ملازمتوں میں جو کوٹہ سسٹم نافذ ہے اس میں لا متنا ہی توسیع کردی ہے وزیر اعظم عمران خان کا یہ کراچی اور اربن سندھ کے لوگوں پر ایک بہت ہی کاری وار ہے اور یہ شب خون مارنے کے مترادف ہے اور حیران کن بات یہ ہے کہ نواز شریف جو کام 2013 ؁ء سے 2018 ؁ء تک نہیں کر سکے عمران خان نے خاموشی اور رات کی تاریکی میں چپ چاپ ایس آر او جاری کردیا اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ کوٹہ سسٹم 1973 ؁ ء میں متعارف کرایا گیا تھا اور آئین کے مطابق یہ بات طے کی گئی تھی کہ وفاق کی ملازمتوں میں پورے ملک کا جو حصہ ہے اس میں سندھ کا بھی کوٹہ ہے سندھ کے کوٹے کوبھی دو حصوں میں تقسیم کیا جائے گا ا

اب مسئلہ یہ ہے کہ 2013 ؁ ء سے آج 2020 ؁ ء تک اس کوٹہ سسٹم کو خلاف قانون قائم رکھا گیا ہے یہ آئین کے مطابق 2013 ؁ ء میں ختم ہو گیا تھا آج 19 اگست 2020 کو وزیرِ اعظم عمران خان نے جو کام کیا ہے انہوں نے تو حد ہی کردی انہوں نے ایس آر او جاری کیا جس سول سروس پوائنٹ کے جو رول ہیں یعنی ٹرانسفر اور پروموشن کے انہوں نے ان میں بھی ترمیم کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ کوٹہ سسٹم جس کے لئے آئین میں ترمیم بہت ضروری ہے اسے ایک طرف رکھتے ہوئے کہا کہ اس آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں ہے اور اب یہ لامتنا ہی ہو گا اور اس کا کوئی ٹائم فریم نہیں ہو گا بلکہ غیر معینہ مدت تک نافذ العمل ہو گا اور اسی طرح چلتا رہے گا گویا  پی ٹی آئی نے کراچی سے اتنا بڑا مینڈیٹ لیا کراچی سے ان کے 14 ایم این اے 30 صوبائی اسمبلی کے ممبر کے علاوہ کراچی سے ان کے وزیر اور صدر مملکت بھی ہیں اور یہ کراچی کراچی کی اتنی بات کرتے ہیں کہ کراچی کے حالات کو سدھارنے کے لئے وفاق یہ کرے گا اور وہ کرے گا ابھی تو یہ بات بھی ان سے کوئی پوچھ نہیں رہا ہے کہ ملک کے 650 ارب کے بجٹ میں سے کراچی کو اب تک کیا دیا ہے کراچی کے لوگوں سے  کے الیکٹرک منافع میں سے بھی وفاقی حکومت اپنا حصہ وصول کر رہی ہے رات دن کراچی کراچی کرنے والوں نے کراچی کے نوجوانوں کے حقوق پر شب خون مارا ہے 


کوٹہ سسٹم کے ضمن میں جو بات سندھ کو دوسرے صوبوں سے الگ کرتی ہے وہ کوٹے کی یہ ہی شہری اور دیہی تقسیم ہے۔کوٹا سسٹم کے معماروں کے ذہن میں یہ بات لازماََ رہی ہو گی کہ جب کوٹے کے مقاصد حاصل ہو جائیں تو اِس کو ختم کر دیا جائے گا۔لیکن بد قسمتی سے نفاذِ اُردو کی طرح حکومتِ پاکستان کے مانگے ہوئے 6 ماہ کی طرح یہ 10 سال بھی شیطان کی آنت بن گئے۔ حالانکہ تاریخی طور پر کوٹا سسٹم کوئی بہت نئی بات نہیں۔قائد،اعظم ؒ کے مشہورِ زمانہ 14 نکات میں بھی مسلمانوں کی متناسب نمائندگی کی بات کی گئی تھی، اسی کی بنیاد پر انگریز نے 1926 میں مسلمانوں کے لئے سرکاری ملازمتوں کا 25%کا کوٹہ جاری کیا جو اُس وقت کی ضرورت اور مسلمانوں کی بڑی کامیابی تھی۔کوٹا سسٹم کی سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ سرکاری ملازمتوں میں محض 7%افراد اہلیت کی بنیاد پر لئے جاتے ہیں۔ باقی ’’کوٹہ سسٹم ‘‘ کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ۔جب انتہائی اہمیت کی حامِل سرکاری نوکریوں پر تقرری کی کسوٹی محض ڈومیسائل بنا دیا جائے تو پھر اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان کہاں جائیں گے؟

المیہ ملاحظہ فرمائیں کہ ملازمت کے امتحان میں کہیں کم نمبر لینے والا، اپنے سے زیادہ نمبر لینے والوں کو ایک طرف کرتے ہوئے کوٹہ کی بنیاد پر منتخب کرلیا جاتا ہے۔ کیا یہ بے انصافی نہیں؟ چلیں کچھ عرصہ کسی مصلحت یا صوبہ کے مفاد کی خاطر یہ کڑوے گھونٹ پی بھی لئے جائیںتو بھی آخر کب تک؟ یاد رہے کہ کوٹہ سسٹم کو وفاقی شرعی عدالت اور پاکستان سپریم کورٹ نے غیر قانونی قرار دے رکھا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 1973 میں کوٹہ سسٹم کو جو آئینی تحفظ فراہم کیا گیا تھا وہ خود اِسی آئین کے آرٹیکل 25 کی خلاف و رزی ہے۔ کوٹہ سسٹم میں بھی شروع میں کوئی قواعد و ضوابط رہے ہوں گے کہ تحریری امتحانات میں کم از کم اتنے نمبر حاصل کرنے والے سرکاری ملازمت کے اہل ہو سکتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہوا کہ اِس سے کئی ایک سیٹیں خالی رہیں کیوں کہ کوٹے میں آنے والے اُس کم از کم اہلیت یا قابلیت پر پورا نہیں اترتے تھے۔تب کم نمبر والے، اُس استبدادی قابلیت سے مبرا قرار دے دیے گئے۔اب جب آپ بہت ذمہ داری کی جگہ پر ایک نا اہل شخص کو بٹھا دیں گے تو اول تو وہ خود احساسِ کمتری کا شکار ہو گا دوم اپنے ماتحتوں کے زیرِ اثر ہو گا۔یہیں سے بگاڑ کا آغاز ہوا کرتا ہے، رشوت بد عنوانی خدا داد نہیں بلکہ اسی موذی ’’کوٹہ سسٹم ‘‘ کی ناجائز اولاد ہے۔وفاقی اسامیوں میں دیہی سندھ کا کوٹہ11.4فی صداور شہری سندھ کا حصہ محض 7.6فی صد ہے۔سندھ کے علاوہ باقی کسی صوبہ میں دیہی اور شہری آبادی کی کوٹہ کے نظام میں تخصیص نہیں ہے۔ اس نظام میں شہری سندھ کے لیے تین شہر شامل ہیں: کراچی، حیدرآباد اور سکھر۔ان ہی شہروں میں اردو بولنے والے سندھیوں کی اکثریت ہے۔کوٹہ نظام اور صنعتوں کوقومیائے جانے سے خصوصاً اردو بولنے والے تعلیم یافتہ اور تجارت اور صنعت سے وابستہ افراد کو معاشی اور سماجی طور پرنقصان پہنچا۔ نتیجہ کے طور پرسندھ میں آج ہم بڑے پیمانے پرکرپشن،اقرباپروری، نااہلی اور میرٹ کا قتلِ عام دیکھتے ہیں۔اس لیے نہ صرف اردو بولنے والے سندھی لوگوں کو متناسب نمائندگی نہیں ہی ملتی، بلکہ وہ رشوت، نااہلی اور اقرباپروری کی وجہ سے بھی دوہرے عتاب کا شکار ہوتے ہیں۔


کچھ اخباری اطلاعات کے مطابق شہری سندھ کا ڈومیسائل لینا نہایت آسان ہے۔ کراچی اور حیدرآ باد کے حکومتی اداروں میں جانے کا مشاہدہ کیجیے تو شاذونادر ہی اردو بولنے والے سندھی نظر آئیں گے۔نجی شعبہ کے بڑھنے سے کسی حد تک اردو بولنے والے سندھیوں کی معاشی بقا ممکن ہوپائی۔ مگر اس کے باوجود انہیں ہر جائز کام کے لیے بھی رشوت دینا پڑتی ہے۔ مقامی حکومتوں کانظام کراچی جیسے بڑے شہروں کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ جماعتِ اسلامی کے نعمت اللہ خان صاحب کادور مثالی سمجھاجاتا ہے۔ان کے دورِنظامت میں کئی ترقی یافتہ کام ہوئے۔اس کے بعد مصطفی کمال صاحب کے دورِنظامت میں بھی شہر میں کئی ترقیاتی کام تکمیل پائے۔انہیں فارن پالیسی کے جریدے نے دنیا کا بہترین میئر بھی شمار کیا۔ ان دونوں ادوارِنظامت میں شہرِکراچی پرامن بھی رہا۔موجودہ حالات میں کم ازکم سندھ کے اندر میرٹ کا امکان نظر نہیں آتا۔ سندھ پبلک سروس کمیشن کے گیارہ ارکان میں شہری سندھ سے کوئی نمائندگی نہیں۔ یہ ہی وہ خوفناک صورتحال جسے ایک بار سابق ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر کو بھی تسلیم کرنا پڑاکہ کوٹہ نظام میرٹ کا قتل عام ہے اور اسے فی الفور ختم ہوجانا چاہیے ۔وفاقی اردو یونیورسٹی کے علاوہ کراچی، حیدرآباد اور سندھ کے شہری علاقوں میں کوئی ایک بھی سرکاری یونیورسٹی پچھلے 45برسوں میں قائم نہیں ہوئی باوجود یہ کہ شہری سندھ کی آبادی تین کروڑتک پہنچ گئی ہے۔

ماضی کا حسین بھاولپور

 یک دفعہ کا ذکر ہے کہ نواب آف بہاولپور لندن میں ایک عام شہری کی طرح اپنا دیسی  لباس کرتا  پاجامہ پہن کر بازار گئے  ۔بازار میں   ؎ گاڑیوں  کے شوروم میں کھڑی رولز رائس کار بہت پسند آئی۔ وہ اندر گئے اور سیلز مین سے قیمت پوچھی۔ یہ سوچ کر کہ وہ ایک عام ایشیائی شہری ہے،شوروم میں موجود  آدمی نے  ان کی خوب بے عزتی کرتے ہوئے کہا  تم جیسا پھکڑ آدمی یہ گاڑی نہیں خرید سکتا ہے- نواب صاحب ہوٹل واپس آئے اور اگلے دن وہ پورے شاہانہ شان کے ساتھ ملازمین کی پوری فوج لے کر شوروم میں گئے اور  اسی  آدمی  سے پوچھا کہ  شو روم میں کتنی گاڑیاں موجود ہیں -آدمی نے جواب دیا چھ ہیں -اسی وقت نواب نے چھ رولس رائس گاڑیاں خرید کر ملازمین کو دیں اور  ان سے کہا کہ ان گاڑیوں کو فوری طور پر بہاولپور پہنچا کر بلدیہ کے حوالے کیا جائے اور انہیں شہر کی صفائی اور کچرا اٹھانے کا ٹاسک دیا جائے اور یہ اس وقت تک کیا گیا جب تک یہ بات پوری دنیا میں پھیل گئی اور رولس رائس کی مارکیٹ بن گئی۔ نیچے رولز رائس کا نام سن کر لوگ ہنستے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ وہی ہے جو ریاست بہاولپور میں شہر کا کچرا اٹھانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ کچھ عرصے بعد رولز رائس کمپنی کا مالک خود بہاولپور آیا اور نواب صاحب سے معافی مانگی اور چھ نئی رولز رائس گاڑیاں بھی بطور تحفہ دی اور درخواست کی کہ گاڑیوں کو اس گھناؤنے کام سے ہٹا دیا جائے۔ ان چھ نئی گاڑیوں میں سے ایک گاڑی قائداعظم کو نواب صاحب نے تحفے میں دی تھی، 

میں نے یہ چھوٹی سی سچی کہانی اپنے قارئین کے لیے وقف کی ہے تاکہ وہ جان سکیں کہ ماضی میں بھاولپور کے نوابوں کے پاس کتنی دولت تھی۔ کرتا نور محل کو نواب صادق محمد خان عباسی چہارم نے 1872 میں تعمیر کرنے کا حکم دیا تھا۔ انہوں نے یہ محل اپنی بیگم کے لیے بنوایا جو تین سال میں مکمل ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اس کی طرف منسوب ہے۔ سابق ریاست بہاولپور کے نوابوں نے دل کھول کر اپنی دولت کو اپنے علاقے کی ترقی کے لیے استعمال کیا اور اپنے عالی شان محلات بھی بنوائے۔ ریاست کا وجود نہیں تھا لیکن نوابوں کی تعمیر کردہ عمارتیں اس کی کہانی سنانے کے لیے موجود ہیں۔ جب آپ بہاولپور جاتے ہیں تو آپ کو صرف ایک 'دیکھنے والی آنکھ' کی ضرورت ہوتی ہے اور کچھ نہیں۔ وکٹوریہ ہسپتال، لائبریری، میوزیم، ڈرنگ اسٹیڈیم، ایجرٹن کالج جیسی تاریخی عمارتیں اگر آپ نور محل پہنچیں تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ریاست کے دوران تعمیر کی گئی سہولیات اس خطے کے لیے کافی جدید تھیں۔

 نور محل مغربی اور اسلامی طرز تعمیر کا حسین امتزاج ہے۔ اس کی آب و ہوا اور خوبصورتی آپ کو دور سے اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ نور محل نے اپنے اطراف میں سبز کمبل بچھا دیا ہے۔ آپ اس کے بالکل سامنے سرکلر لان پر  موجود ہلکی سرخ اور سفید عمارت سے پیار کر سکتے ہیں جو پہلی نظر میں دل کو موہ لیتی ہے۔ تقریباً 150 سال پرانا محل ان بہت سے محلوں میں سے ایک ہے جو 19ویں صدی میں تعمیر کیے گئے تھے۔ 20ویں صدی کے اواخر اور اوائل میں بہاولپور میں بنایا گیا۔ باقی محلات تو شاید اس سے زیادہ خوبصورت ہیں لیکن نور محل کے بارے میں کچھ الگ ضرور ہے۔ سابق ریاست بہاولپور کے آخری امیر نواب سر صادق محمد خان پنجم کے پوتے صاحبزادہ قمر الزمان عباسی نے بی بی سی کو بتایا کہ تعمیر کے سال کے علاوہ اس کہانی میں کوئی صداقت نہیں ہے۔

 نہ رہانے اور یہ محل نہ تو کسی بیگم کے لیے بنایا گیا تھا اور نہ ہی اس کے نام کی روشنی کسی بیگم کے نام پر ہے۔ ان دنوں بیگم کا نام لینا برا سمجھا جاتا تھا۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر بہاولپور کے تاریخی صادق ایجرٹن کالج کے شعبہ تاریخ کے سابق صدر ہیں اور سابق ریاست کی تاریخ پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ کسی بیگم سے نور محل کی تعمیر کا منصوبہ غلط ہے۔ اس وقت اس علاقے میں بیگم کے نام کا کھلے عام ذکر کرنا غلط سمجھا جاتا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ نواب صاحب کی  بیگمات  کا نام لینا منع ہے۔ یہ محل کسی بیگم کے نام پر نہیں ہے۔ قیام پاکستان کے بعد نور محل کچھ عرصے تک اوقاف کے پاس رہا اور پھر اسے پاکستانی فوج کو کرایہ پر دے دیا گیا جنہوں نے بعد میں اسے خرید لیا۔ ان دنوں یہ فوج کے زیر انتظام ہے۔ اس کی عمارت میں ریاست کی تاریخ اور خصوصاً نواب سر صادق محمد خان پنجم سے متعلق چیزیں رکھی گئی ہیں۔ آپ تھوڑی سی رقم میں ٹکٹ خرید کر اس کا دورہ کر سکتے ہیں۔

 اس محل کی تعمیر اس طرح کی گئی ہے کہ اس میں سورج کی روشنی داخل ہونے کے لیے خاص طریقے ہیں۔ محل کے مرکزی ہال میں نواب کے بیٹھے دربار کے بالکل اوپر شیشوں کی دیوار ہے۔ شیشوں کو اس طرح استعمال کیا گیا ہے کہ عمارت کے ہر کونے میں قدرتی روشنی ہو۔ اس کا اندازہ اس شیشے سے لگایا جا سکتا ہے جو نواب کے دربار کے عقب میں نصب ہے۔ ان دنوں یہاں ہفتے کے آخری دو دن لائٹ شو کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہ منظر قابل دید ہے جو نور محل کے حقیقی معنی کی عکاسی کرتا ہے۔ اس میں محل باہر کی روشنیوں سے منور ہے۔ اس کے گنبد پر نوابوں کی تصویریں بھی آویزاں ہیں۔ صاحبزادہ قمر الزمان عباسی کے مطابق نور محل ایک گیسٹ ہاؤس تھا۔ اس وقت کی بڑی ریاستوں کے نواب اس میں رہ چکے ہیں۔ بعد ازاں پاکستان کےسابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ فاطمہ جناح جیسی شخصیات نے بھی یہاں قیام کیا -یہاں نوابین کی یاد گاریں باقی ہیں لیکن نوابین دنیا سے کبھی کے جاچکے ہی-کیونکہ باقی رہے نام اللہ کا 

بدھ، 17 اپریل، 2024

شاہ ایران۔دائمی عبرت کا نشان




  ایران۔  ایران قدیم سے جدید کا سفر کرتے ہوئے بالآخر رضا شاہ پہلوی تک آ پہنچا ـ رضا شاہ ایرانی فوج کے ایک کم پڑھے لکھے سپاہی کے بیٹے تھے  معمولی تعلیم حاصل کی۔ نوجوانی میں فوج میں بھرتی ہو گئے اور جلد ہی اعلیٰ عہدے پر فائز ہو گئے۔ 1921ء میں حکومت کا تختہ الٹ دیا اور 1923ء میں وزیر اعظم کا عہدہ خود سنبھال لیا۔ انھوں نے فارس کو ایران کا نام دیا۔ 1925ء میں خاندان قاجار خاندان کے آخری بادشاہ احمد شاہ قاجار کو معزول کرکے خود بادشاہ بن گئے اور رضا شاہ پہلوی کا لقب اختیار کیا۔ایران میں 1925 سے 1941 تک رضا شاہ پہلوی کی حکومت کو جدید بنانے کی اہم کوششوں اور ایک آمرانہ حکومت کے قیام کے ذریعے نشان زد کیا گیا تھا۔ان کی حکومت نے سخت سنسر شپ اور پروپیگنڈے کے ساتھ ساتھ قوم پرستی، عسکریت پسندی، سیکولرازم اور اینٹی کمیونزم پر زور دیا۔   اس نے متعدد سماجی و اقتصادی اصلاحات متعارف کروائیں جن میں فوج، حکومتی انتظامیہ اور مالیات کی تنظیم نو شامل ہے۔  رضا شاہ کا دورِ حکومت اہم جدیدیت اور آمرانہ حکمرانی کا ایک پیچیدہ دور تھا، جس میں بنیادی ڈھانچے اور تعلیم دونوں کامیابیوں اور جبر اور سیاسی جبر کے لیے تنقید کا نشان تھا۔ان کے حامیوں کے نزدیک رضا شاہ کے دور کو نمایاں ترقی کے دور کے طور پر دیکھا گیا، جس کی خصوصیت امن و امان، نظم و ضبط، مرکزی اتھارٹی، اور جدید سہولیات جیسے اسکول، ٹرین، بسیں، ریڈیو، سینما اور ٹیلی فون شامل ہیں۔  تاہم، اس کی تیز رفتار جدید کاری کی کوششوں کو "بہت تیز" ہونے کی وجہ سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا  اور "سطحی" کچھ لوگوں نے اس کے دور حکومت کو جبر، بدعنوانی، حد سے زیادہ ٹیکس، اور صداقت کی کمی کے طور پر دیکھا۔

 .سخت حفاظتی اقدامات کی وجہ سے اس کی حکمرانی کو پولیس سٹیٹ سے بھی تشبیہ دی گئی  اس کی پالیسیاں، خاص طور پر جو اسلامی روایات سے متصادم ہیں، مسلمانوں   میں عدم اطمینان پیدا کیا، جس کے نتیجے میں نمایاں بدامنی پیدا ہوئی، جیسا کہ مشہد میں امام رضا کے مزار پر 1935 کی بغاوت۔بڑے بنیادی ڈھانچے کے منصوبے شروع کیے گئے، جن میں وسیع سڑک کی تعمیر اور ٹرانس ایرانی ریلوے کی عمارت شامل ہے۔تہران یونیورسٹی کے قیام نے ایران میں جدید تعلیم کو متعارف کرایا۔عورت کے پردے کا حق چھین لیا گیا  تیل کی تنصیبات کو چھوڑ کر جدید صنعتی پلانٹس کی تعداد میں 17 گنا اضافے کے ساتھ صنعتی ترقی کافی تھی۔ملک کا ہائی وے نیٹ ورک 2,000 سے 14,000 میل تک پھیلا ہوا ہے۔  رضا شاہ نے ڈرامائی طور پر فوجی اور سول سروسز میں اصلاحات کیں، 100,000 افراد پر مشتمل فوج کی بنیاد رکھی، قبائلی افواج پر انحصار سے منتقلی، اور 90,000 افراد پر مشتمل سول سروس قائم کی۔اس نے مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے مفت، لازمی تعلیم کا قیام عمل میں لایا اور پرائیویٹ مذہبی اسکولوں کو بند کر دیا — اسلامی، عیسائی، یہودی وغیرہ  تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور صنعتی منصوبوں کے طور پر۔   رضا شاہ کی حکمرانی خواتین کی بیداری (1936–1941) سے مماثل تھی، ایک تحریک جو کام کرنے والے معاشرے میں چادر کو ہٹانے کی وکالت کرتی تھی، یہ دلیل دیتی ہے کہ یہ خواتین کی جسمانی سرگرمیوں اور سماجی شرکت میں رکاوٹ ہے - اس اصلاحات کو مذہبی رہنماؤں کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔نقاب کشائی کی تحریک کا 1931 کے شادی کے قانون اور 1932 میں تہران میں مشرقی خواتین کی دوسری کانگریس سے گہرا تعلق تھا

۔مذہبی رواداری کے لحاظ سے، رضا شاہ یہودی برادری کا احترام کرنے کے لیے قابل ذکر تھے، وہ 1400 سالوں میں پہلے ایرانی بادشاہ تھے جنہوں نے اصفہان میں یہودی برادری کے دورے کے دوران ایک عبادت گاہ میں نماز ادا کی۔اس عمل نے ایرانی یہودیوں کی خود اعتمادی کو نمایاں طور پر بڑھایا اور رضا شاہ کو ان میں بہت زیادہ اہمیت دی گئی، سائرس اعظم کے بعد دوسرے نمبر پر۔اس کی اصلاحات نے یہودیوں کو نئے پیشوں کا پیچھا کرنے اور یہودی بستیوں سے باہر جانے کی اجازت دی۔ تاہم، ان کے دور حکومت میں تہران میں 1922 میں یہودی مخالف واقعات کے دعوے بھی کیے گئے تھے تاریخی طور پر، "فارس" کی اصطلاح   مغربی دنیا میں عام طور پر ایران کے لیے استعمال ہوتے تھے۔1935 میں، رضا شاہ نے درخواست کی کہ غیر ملکی مندوبین اور لیگ آف نیشنز رسمی خط و کتابت میں "ایران" کو اپنائیں - جو نام اس کے مقامی لوگ استعمال کرتے ہیں اور جس کا مطلب ہے "آریوں کی سرزمین"۔اس درخواست کی وجہ سے مغربی دنیا میں "ایران" کے استعمال میں اضافہ ہوا، جس نے ایرانی قومیت کے لیے عام اصطلاحات کو "فارسی" سے "ایرانی" میں بدل دیا۔بعد میں، 1959 میں، رضا شاہ پہلوی کے بیٹے اور جانشین شاہ محمد رضا پہلوی کی حکومت نے اعلان کیا کہ "فارس" اور "ایران" دونوں کو باضابطہ طور پر ایک دوسرے کے ساتھ استعمال کیا جا سکتا ہے۔اس کے باوجود مغرب میں ’’ایران‘‘ کا استعمال زیادہ ہوتا رہا۔خارجہ امور میں، رضا شاہ نے ایران میں غیر ملکی اثر و رسوخ کو کم کرنے کی کوشش کی۔اس نے برطانیہ کے ساتھ تیل کی رعایتوں کو منسوخ کرنے اور ترکی جیسے ممالک کے ساتھ اتحاد کے خواہاں جیسے اہم اقدامات کئے۔اس نے غیر ملکی اثر و رسوخ کو متوازن کیا، خاص طور پر برطانیہ، سوویت یونین اور جرمنی کے درمیان۔ ، اس کی خارجہ پالیسی کی حکمت عملی دوسری جنگ عظیم کے آغاز کے ساتھ ہی منہدم ہوگئی، جس کے نتیجے میں 1941 میں ایران پر اینگلو سوویت حملے اور اس کے بعد جبری دستبرداری ہوئی۔[  1979ء کو شاہ محمد رضا پہلوی ایران سے باہر جانے کے لیے اپنے خصوصی ہوائی جہاز میں داخل ہوئے تو وہ زار و قطار رو رہے تھے۔


وہ ایران کی سرزمین نہیں چھوڑنا چاہتے تھے لیکن  ملک سے باہر جانے کے لیے اس وقت کے وزیر اعظم شاہ پور بختیار نے آمادہ کیا۔ 11شاہ پور بختیار نے اندازہ لگا لیا ہو گا کہ اب ایرانی عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے-اور پھر یہی ہوا کہ فروری 1979 میں ایران کی شاہی حکومت کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ اس کے بعد وہ مختلف ملکوں میں پھرتے رہے۔ ۔ سب سے پہلے مصر کے شہر اسوان گئے، اس کے بعد مراکش کے شاہ حسن دوم کے مہمان رہے۔ مراکش کے بعد بہاماس کے پیراڈائز آئی لینڈ میں قیام پزیر ہوئے اور پھر میکسیکو سٹی کے قریب کورناواکا شہر میں میکسیکو کے صدر جوز لوزپیز پورٹیلو کے مہمان بنے۔ چھ ہفتے نیویارک کے ہسپتال کورنیل میڈیکل میں جراحتی علاج کرواتے رہے۔ قیام کے دوران ڈیوڈ ڈی نیوسم کے خفیہ نام کا استعمال کیا جو اس وقت کے نائب وزیر خارجہ برائے سیاسی امور کا اصل نام تھا۔ ایران میں امریکی سفارتی خانے کے جلائے جانے پر شاہ ایران کو امریکا سے جانا پڑا۔ فیڈل کاسترو کی وجہ سے میکسیکو نے دوبارہ میزبانی سے انکار کر دیا، مجبوراََ پانامہ کے تفریحی جزیرے اسلا کونتا دورا میں قیام کیا۔ پانامہ میں مقامی افراد کے ہنگاموں اور فوجی حکمران کے ناروا سلوک سے تنگ آ کر مارچ 1980 میں مصر کی سیاسی پناہ قبول کر لی۔ یہاں تک کہ 27 جولائی، 1980ء کو قاہرہ کے ایک اسپتال میں ان کا انتقال یہ وہ مطلق العنان شہنشاہ تھے جن کی  مرضی کے خلاف بولنے والوں کے مقدّر میں صرف دردنا ک موت ہی لکھی ہوتی تھی اور اس بے پناہ دولت سے وہ اپنے لئے زندگی نہیں خرید سکے نا ہی صحت کی دولت خرید سکے اور بالآخر بیماری کے ہاتھوں ایڑیاں رگڑ کر قبر میں اتر گئے(موت کے وقت شاہ کی جو دولت بیرونی بینکوں میں جمع تھی وہ دس ہزار ملین پونڈ سے بھی زیادہ تھی)

  ایران میں رہنا نصیب نہیں ہوا اس کے بعد خود شاہ کو سلطنت چھوڑ کر جلاوطن ہو جانا پڑا۔ شہنشاہ ايران محمد رضا پہلوی نے دنيا بھر كی ناياب اشياء  اپنے اس  نادر الوجود پیلس ميں جمع كيں اور دس سال بعد 1968ء ميں اس ميں رہائش پذير ہوئے۔ انقلاب ايران تک وہ اسی محل ميں اپنی ملكہ فرح پہلوی کے ہمراہ مقيم تھے اور يہیں سے انھیں ملک بدر ہونا پڑا۔ محل كی ہر چيز كو محفوظ کر ديا گيا ہے۔ اسی محل کے سا‍تھ ايک اور قديم محل موجود ہے جو قاچار خاندان كے زير استعمال رہا تھا اور بعد ميں شہنشاہ ايران نے اسے اپنے سركاری آفس میں تبديل كر ليا تھا۔ محل سے ملحقہ شہنشاہ ايران کے آفس میں دنيا كی عظيم شخصيات كی تصاوير ركھی گئی ہیں جن میں سابق وزيراعظم پاكستان ذو الفقار علی بھٹو كی تصوير بھی موجود ہے۔ 

جمعرات، 11 اپریل، 2024

سا نحہ اوجڑی کیمپ- پردے میں رہنے دو

 

   یہ مضمون  میں نے انٹر نیٹ سے 33 لیا ہے

   10 اپریل، 1988 کی صبح عام صبحوں کی طرح مشرق سے سورج نکلا۔ بظاہر یہ عام دنوں کی طرح کا ایک دن تھا، سردیاں تو رخصت ہو گئی تھیں لیکن ابھی گرمیوں نے پوری طرح سے جڑواں شہروں میں قدم نہیں جمائے تھے۔مری روڈ پر گاڑیاں رواں دواں تھیں۔ دفاتر میں آفیسر چائے کی چُسکیاں لے کر سوچ رہے تھے آج کس فائل کو پہلے کھولا جائے۔سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پہلا پیریڈ اختتام کے مراحل میں تھا، تاجر اپنی دکانیں کھول کر مال کو طے شدہ جگہ پر لگا رہے تھے کہ اچانک جڑواں شہر دھماکوں سے لرز اٹھے، شور اتنا زیادہ کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔دھویں اور غبار کے بادل نے آسمان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، لگاتار دھماکوں کی گونج سے جڑواں شہروں کے باسیوں نے سمجھا کہ بھارت نے حملہ کر دیا ہے۔دھماکوں نے لوگوں کے اوسان خطا کر دیے۔ انہی دھماکوں کے دوران اچانک ایک بہت بڑا دھماکہ ہوا جس سے جڑواں شہروں کے درودیوار لرز اُٹھے، لوگ گھروں سے باہر نکل آئے، اوجھڑی کیمپ کے اسلحہ ڈپو سے میزائل اُڑ اُڑ کر گلیوں اور محلوں میں تباہی پھیلا رہے تھے، موت چاروں اور رقص کناں تھی۔ ضعیف زن و مرد، نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اور مائیں اپنے شیرخوار بچوں کو چھوڑ کر افراتفری کے عالم میں جان بچانے کے لیے ادھر ادھر بھٹک رہی تھیں، لگ بھگ ایک گھنٹہ تک آسمان آتش و آہن کی بارش برساتا رہا۔ ایک گھنٹے بعد میزائل پھٹنا بند ہوئے مگر ہر سو تباہی کی داستان چھوڑ گئے۔ ریڈیو نے 12 بجے کی خبروں میں اتنا بتایا کہ شہر میں اسلحہ ڈپو میں آگ لگنے سے کچھ اسلحہ دھماکے سے پھٹ گیا مگر 'گھبرانے کی کوئی بات نہیں حالات مکمل کنٹرول میں آ گئے ہیں۔'

اس حادثے میں سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 103 لوگ ہلاک ہوئے جبکہ زخمی ہونے والوں کی تعداد لگ بھگ 1500 کے قریب تھی جبکہ آزاد ذرائع کا کہنا تھا کہ ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد کئی گُنا زیادہ تھی۔سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے والد خاقان عباسی بھی مری سے راولپنڈی واپس آتے ہوئے میزائل لگنے سے جان کی بازی ہار بیٹھے۔جس وقت اوجھڑی کیمپ آتش و آہن کی آگ برسا رہا تھا، وزیراعظم پاکستان محمد خان جونیجو سندھ اور صدر پاکستان جنرل ضیا الحق کویت کے دورے پر تھے۔دونوں نے اپنی مصروفیات ترک کر کے اسلام آباد کی راہ لی۔ جنرل ضیا نے قوم کو اعتماد میں لیتے ہوئے بتایا کہ ہم بڑا کام کر رہے تھے اور اس کی سزا ہمیں ملنا تھی وزیراعظم محمد خان جونیجو نے حقائق کی جانچ پرکھ کے لیے کورکمانڈر دہم لیفٹیننٹ جنرل عمران اللہ کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی۔ ساتھ ہی پانچ وزرا پر مشتمل ایک اور کمیٹی کی تشکیل کی گئی، جس نے جنرل عمران کی دی گئی رپورٹ کا جائزہ لے کر اپنی سفارشات مرتب کر کے وزیراعظم کو پیش کرنا تھی۔معروف صحافی اظہر سہیل اپنی کتاب ’سندھڑی سے اوجھڑی کیمپ تک‘ میں لکھتے ہیں: 'مذکورہ ڈپو آئی ایس آئی کے اس شعبے کی نگرانی میں چل رہا تھا جو افغانستان جہاد اور افغان پناہ گزینوں کے حوالے سے پاکستان کی ایما پر معاملات کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے تھے.'وہ مزید لکھتے ہیں کہ 'میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اس اسلحہ خانہ میں اس انداز میں بے احتیاطی کے ساتھ اسلحہ جمع کیا گیا تھا جیسے لکڑی کے ٹال پر فالتو لکڑیاں بکھری پڑی ہوں۔ بنیادی طور پر اس ڈپو میں تین اسلحہ خانے تھے۔ ان میں صرف راکٹ، پراجیکٹائل اور میزائل ہی موجود نہیں بلکہ بعض معلومات کے مطابق فاسفورس بم بھی تھے۔'

اس افسوس ناک واقعے کو گزرے لگ بھگ 33 سال ہونے کو ہیں۔ اس وقت کے وزیراعظم جونیجو نے حقائق جاننے کے لیے جس کمیٹی کی تشکیل کی تھی اُس نے مقررہ وقت پر رپورٹ پیش کی تھی، تاہم رپورٹ عوام کے سامنے پیش نہیں کی گئی اور اسے دبا دیا گیا۔اظہر سہیل لکھتے ہیں کہ 'جنرل عمران اللہ جب وزارتی کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے تو رانا نعیم محمود جو دفاع کے وزیر مملکت اور کمیٹی کے رکن تھے، انہوں نے جنرل سے تین سوال کیے۔ پہلا سوال یہ تھا کہ اس کیمپ کا قیام کس کی ذمہ داری تھی؟

’جنرل نے جواب دیا کہ 'اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی کی،' دوسرا سوال جنرل سے پوچھا گیا کہ کیا جنرل اختر عبدالرحمٰن جو اس وقت ڈی جی آئی ایس آئی تھے، کیا کیمپ بنانے کا فیصلہ ان کا تن تنہا تھا یا کسی سے منظوری لی گئی تھی تو جنرل نے جواب دیا کہ 'متعلقہ افسر کسی سے صلاح مشورہ کرنے کا پابند نہیں ہوتا۔'رانا نعیم محمود نے جنرل سے سوال و جواب کے بعد جو رپورٹ تیار کی اس میں لکھا کہ کیمپ کا قیام اور اس کا انتظام مکمل طور پر آئی ایس آئی کے سابق ڈی جی کی ذمہ داری تھا اور ہے، اس لیے سفارش کی جاتی ہے کہ سابق ڈی جی جنرل اختر عبدالرحمٰن اور موجودہ جنرل حمید گل کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اس رپورٹ پر قاضی عابد، ابراہیم بلوچ اور رانا نعیم محمود تینوں نے دستخط کیے اور رپورٹ وزیراعظم کے حوالے کر دی۔

وزیراعظم جونیجو چاہتے تھے کہ رپورٹ حسب وعدہ قوم کے منتخب نمائندوں کے سامنے پیش کی جائے بلکہ اس کی روشنی میں صدرمملکت جنرل ضیا الحق کو سفارش کی جائے گی کہ جنرل اختر عبدالرحمٰن کے خلاف کارروائی کریں۔جنرل حمید گل کے خلاف جونیجو خود کارروائی کرنے پر تیار ہو گئے تھے۔رپورٹس حاصل کرنے کے بعد جونیجو صاحب کوریا اور دیگر ممالک کے دورے پر روانہ ہو گئے۔ انہیں اپنی منتخب حثییت پر اتنا ناز اور یقین تھا کہ انہوں نے دورے پر روانہ ہونے سے قبل رپورٹس صدر مملکت کے سامنے رکھ دیں۔جب صدر مملکت نے پوچھا یہ کیا ہے تو وزیراعظم صاحب نے دھیمے لہجے میں جواب دیا کہ 'سائیں یہ کمیٹی کی رپورٹس ہیں۔ آپ ان پر غور کریں، وطن واپسی پر آپ کی مشاورت سے فیصلہ کروں گا۔'جنرل ضیا الحق نہیں چاہتے تھے کہ وہ ان رفقا کے خلاف کارروائی کریں جو ان کے اقتدار کی طوالت کا سبب رہے، یوں سانحہ اوجھڑی کیمپ وزیراعظم محمد خان جونیجو کے اقتدار کا سانحہ ثابت ہوا اور ان کے اقتدار کا اختتام اوجھڑی سے سندھڑی تک ہوا۔ 


بدھ، 10 اپریل، 2024

پا کستان میں خفیہ وڈیوز کی بیماری

 

پا کستان میں  خفیہ وڈیوز کی بیماری- مجھے اس موزی بیماری کا اس وقت پتا چلا جب لیبیا کے صدر قذّافی پاکستان کے دورے پر آئے اور ان کے بیڈروم میں خاص تواضع کے لئے سامان راحت فرام کیا گیا اور جب قذّافی واپس لیبیا گئے تب ان کے سامنے کچھ مطالبات رکھّے گئے -جب قزّافی نے ان مطالبات کو ماننے سے انکار کیا تو ان کے سامنے وہ خفیہ وڈیوز رکھّی گئیں جو خفیہ طور پر ان کے تخلیہ کے لمحات کی تھیں اور پھر قذافی نے خاموشی سے مطالبات مان لئے-یہ کہانی میں نے سنی تھی اللہ جانے سچ کہ جھوٹ-لیکن آج کل توایسے نت نئے طریقوں سے خواب گاہوں کی خفیہ ریکارڈنگز سامنے آ رہی ہیں کہ جن کے بارے میں صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ اللہ اپنی پناہ میں رکھّے -ان وڈیوز میں انتہائ اعلیٰ تعلیمی درسگاہوں کے معلمین بھی شامل ہیں تو قوم کے مسیحا بھی شامل ہیں -ایسی ہی ایک خفیہ وڈیو کہانی پھر منظر عام پر آئ -اسکول کے پرنسپل کی خفیہ وڈیوز-خواتین سے زیادتی کی ویڈیوز بھی بناتا تھا، (ایس ایس پی) ملیر حسن سردار کے مطابق ملزم کے دفتر سے ملنے والی زیادتی کی 25 ویڈیوز برآمد کرلی گئیں۔انہوں نے بتایاکہ ملزم خواتین کو نوکری کا جھانسہ دےکر زیادتی کا نشانہ بناتا تھا اور پھر زیادتی کی سی سی ٹی وی دکھاکر خواتین کو بلیک میل کرتا تھاان کا کہنا تھاکہ ملزم کے دفتر میں زیادتی کا نشانہ بننے والی 5 خواتین کی نشاندہی کر لی گئی جبکہ متاثرہ خواتین سے بھی معلومات حاصل کی جائیں گی۔دوسری جانب انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی) سندھ رفعت مختار نے واقعے کا نوٹس لے لیا اور ایس ایس پی ملیر سے تفصیلات طلب کرلیں۔انہوں نے ہدایت کی کہ غیرجانبدار اور شفاف انکوائری کو یقینی بناتے ہوئے کیس کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔اُدھر  نگران وزیرتعلیم سندھ رعنا حسین کی ہدایت پر4رکنی انکوائری کمیٹی قائم کرلی گئی ہے۔ایڈیشنلڈائریکٹررجسٹریشن کے مطابق کمیٹی ڈپٹی ڈائریکٹر قربان بھٹو کی سربراہی میں بنائی گئی ہے اور کمیٹی میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر ممتازقمبرانی، زید مگسی اور جاوید قاضی شامل ہیں۔انہوں نے بتایاکہ انکوائری کمیٹی کل اسکول کا دورہ کر کے تفصیلات حاصل کرے گی، حقائق اورکمیٹی کی سفارشات پر مزید کارروائی کی جائے گی۔


  پا کستان میں خفیہ وڈیوز کی بیماری کب شروع ہوئ فیصل آباد کے ہاسٹل کے واش روم میں طالبہ کی ویڈیو بنانے کا معاملہ پرائیویٹ ہاسٹلز کی مانیٹرنگ کا کوئی نظام ہی موجود نہیں: ثریا منظور سماجی کارکنابتدائی تفتیش میں ملزم پر ویڈیو بنانے کا الزام ثابت ہوا ہے: تفتیشی افسر-میرے ساتھ پیش آنے والا واقعہ اس قدر افسوس ناک ہے کہ اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ گھریلو اور معاشرتی پریشر الگ سے ہے کہ بے قصور ہونے کے باوجود یہاں لوگ متاثرہ لڑکی کو ہی باتیں سناتے ہیں اور اسے تماشا بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں نے جو قدم اٹھایا وہ اگرچہ آسان تو نہیں لیکن کسی لڑکی کی عزت ہی اس کا سب کچھ ہوتی ہے جس پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔"یہ کہنا ہے پنجاب کے شہر فیصل آباد کی جی سی یونیورسٹی میں چوتھے سمسٹر کی ایک طالبہ فرضی نام (ر) کا جن کے ساتھ حال ہی میں ایک ناخوش گوار واقعہ پیش آیا ہے جس پر قانونی کارروائی بھی کی جا رہی ہے

۔ تاہم (ر) مسلسل ذہنی اذیت سے گزر رہی ہے فیصل آباد کے ایک نجی گرلز ہوسٹل میں یونیورسٹی کی طالبہ کی خفیہ طور پر واش روم سے ویڈیو بنانے کا معاملہ سامنے آیا ہے جس پر پولیس نے ہاسٹل کی خاتون انچارج اور اس کے بھائی کو حراست میں لے لیا ہے۔ ملزم عمر پر الزام ہے کہ اس نے واش روم میں نہاتے ہوئے طالبہ کی اپنے موبائل فون پر ویڈیو بنائی۔ تھانہ ویمن فیصل آباد میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 354، 509، 292 اور 34 ت پ کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے اور پولیس نے ملزم عمر کے قبضے سے موبائل فون برآمد کر کے اسے فرانزک آڈٹ کے لیے پنجاب فرانزک لیب لاہور بھیج دیا ہے۔پولیس نے دونوں ملزمان کو عدالت میں پیش کیا جس پر عدالت نے ہاسٹل انچارج ہنزہ سلطانہ اور اس کے بھائی ملزم عمر کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیا ہے۔ہاسٹل انچارج کے بھائی نے میری نہاتے ہوئے ویڈیو بنائی: ایف آئی ار میں الزام تھانہ ویمن فیصل آباد میں درج ہونے والا یہ مقدمہ جی سی یونیورسٹی کی فورتھ سمسٹر کی طالبہ ( ر) کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے جو کہ ضلع بھکر کی رہائشی ہیں اور یہاں جی سی یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم ہیں۔"میں اپنے ہاسٹل کے واش روم میں نہا رہی تھی عمر نامی لڑکا ساتھ والے واش روم کے سوراخ سے میری ویڈیو بناتا رہا۔ سوراخ میں سیاہ کور والا موبائل میں نے خود دیکھا تھا جس سے وہ میری ویڈیو بنا رہا تھا، میں واش روم سے فوری طورپر باہر آئی اور شور مچایا۔"

مدعی مقدمہ کے مطابق جب ملزم عمر کی بہن ہاسٹل انچارج ہنزہ سلطانہ کو اس واقعے کے بارے میں آگاہ کیا تو اس نے بھی الٹا مجھے برا بھلا کہا اور میری بات کا یقین نہ کیا۔ یوں ملزم عمر نے اپنی بہن کے ایما پر ویڈیو بنا کر مجھے ذہنی اور جسمانی طور پر ہراساں کیا ہےابتدائی تفتیش میں ملزم پر ویڈیو بنانے کا الزام ثابت ہو گیا، تفتیشی آفیسرتھانہ ویمن فیصل آباد کی ایس ایچ او انسپکٹر مدیحہ ارشاد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انہوں نے ہاسٹل جا کر دونوں واش روم چیک کیے ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں قیام پذیر طالبات سے بھی بات چیت کی ہے جس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہاسٹل انچارج نے اپنے بھائی 27 سالہ عمر کو کاموں کے لیے ہاسٹل آنے کی اجازت دے رکھی تھی اور وہ یہاں باقاعدگی سے آتا جاتا رہتا تھا۔ ۔ لیکن ان کی ابتدائی تفتیش کے مطابق ملزم عمر قصور وار ہے جس نے ویڈیو بنائی لیکن طالبہ کی طرف سے شور مچانے اور دیگر طالبات کے احتجاج پر اس نے چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ویڈیو کلپ فوری طور پر ڈیلیٹ کر دیا۔"ملزم کے موبائل کو پنجاب فرانزک لیب لاہور بھجوادیا گیا ہے جہاں سے اس کا فرانزک آڈٹ ہو گا اور ملزم کی طرف سے موبائل کلپ بنانے یا نہ بنانے کے بارے میں حتمی رپورٹ آ جائے گی جس کی بنیاد پر ملزم کا چالان مرتب کر کے مجاز عدالت میں پیش کر دیا جائے گا جہاں مقدمہ چلے گا۔ وضو کرنے کے لیے واش روم گیا تھا

: ملزم کا ابتدائی بیان تھانہ ویمن فیصل آباد میں ملزم بہن بھائی کے بیانات بھی قلم بند کر لیے گئے ہیں۔زیرِ حراست ملزم عمر نے اپنے اوپر لگائے جانے والے الزام کی تردید کی اور پولیس کو بتایا کہ وہ تو وضو کرنے کے لیے واش روم گیا تھا۔ملزم کا کہنا تھا کہ اسے نہیں علم تھا کہ ساتھ والے واش روم میں کوئی طالبہ نہا رہی ہے، اس نے جب اپنا ہاتھ اوپر کیا تو اس کے ہاتھ میں موبائل فون تھا جس وجہ سے طالبہ یہ سمجھی کہ شاید میں اس کی ویڈیو بنا رہا ہوں۔ہاسٹل انچارج ہنزہ سلطانہ نے پولیس کو بتایا کہ وہ کئی برسوں سے اپنا ہاسٹل چلا رہی ہے اور کبھی کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا۔ بھائی کو ہاسٹل کے ضروری کاموں کے لیے رکھا ہوا ہے۔ خاتون کہتی ہیں کہ انہیں مقدمے میں ناجائز طور پر ملوث کیا گیا ہے۔جرم ثابت کرنا مشکل ہے: قانونی ماہرین-سائبر کرائم قوانین کے ماہر شہروز شبیر چوہان ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ اس نوعیت کے مقدمے میں ملزم کو آسانی سے ریلیف مل جاتا ہے اور مدعی کے لیے جرم ثابت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس معاملے میں تعزیرات پاکستان کی جو دفعات لگائی گئی ہیں ملکی قانون میں ان کی سزائیں کم ہیں۔

منگل، 9 اپریل، 2024

جب چوری ہوامیرا اجلا میاں


وہ  میرے گھر میلے کپڑے دھونے آئ تھی اور میرا اجلا میاں چراکرلے گئ- انیلہ کی جاب ایک نیوز ایجنسی میں رپورٹر کی تھی اس نے شہر کے ایک ریسٹورنٹ کے کچن کی  لائیو رپورٹ تیّار کر کے نیوز ایجنسی کو بھیجی ،،ریسٹورینٹ کے مالک نے اس رپورٹنگ کے لئے اسے خود بلایا تھا تاکہ عوام میں اس کے ریسٹورینٹ  کے مذیدارکھانوں  کی اوراچھّی سروس کی پبلسٹی ہو سکے -رپورٹ تیّار کرتے ہی انیلہ کو اپنی جاب پر پہنچنا تھا وہ جیسے ہی ریسٹورینٹ سے باہر آئ ریسٹورینٹ کا مالک بھی عجلت میں اس کے پیچھے ہی چلا آیا اور اس نے انیلہ سے درخواست کی کہ وہ چند منٹ کا توقّف کر لے اس کے ساتھ ہی ایک معقول قسم کی  خاتون ریسٹورینٹ سے باہر نکل کران کے قریب  آ گئیں ،،ریسٹورینٹ کے مالک نے کہا خالہ آپ ان کے ساتھ چلی جائیے یہ آ پ کو راستے میں اتار دیں گی ،انیلہ نے  خاتون کو دیکھا  اور سلام کر کے عزّت کے ساتھ ان کو کار میں بٹھایا ،کار جب سڑک پر رواں ہوئ تو انیلہ نے خاموشی توڑنے کے لئے خاتون سے پوچھا آ پ رہتی کہاں ہیں ،خاتون نے اپنا پتا بتایا اور پھر گویا ہوئین کہ   ریسٹورینٹ کا مالک ان کا بھتیجا ہے جس کے پاس وہ کبھی کبھی ملنے آتی ہیں اب  انیلہ کے تجسس نے سر ابھارا اور اس نے ان کے اپنے گھر بار کے لئے سوال و جواب کئے تو وہ خاتون جیسے دل کے پھپھو لے   پھوڑنے کو تیّار ہی بیٹھی تھیں -

پھر انہوں نے بتایا کہ  یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہمارے علاقے میں پانی کا قحط شروع ہوا میری اپنے سامنے گلی کے گھر سے اچھّی علیک سلیک تھی ہم اچھّا پکاتے تو ایک دوجے کو ضرور بھیجتے یہ تو میرے گمان میں بھی نہیں تھا کہ اتنا اعتبار بھی اپنا بھرم کھو دیتا ہے ،،بہر حال ہو یہ رہا تھا کہ گلی دو رویہ تھی ایک جانب پانی کی فراوانی تھی دوسری جانب قحط کا سماں تھا اس گھر میں ایک کنواری لڑکی تھی جو میرے بچّو ں کا بھی خیال کرتی تھی  بس وہ لڑکی میرے گھر پانی بھرنے کے لئے انے لگی کچھ دن تو کچھ بھی نہیں محسوس ہوا لیکن ایک دن جب میرے میاں گھر پر تھے وہ آ گئ اور اس نے آ کر پوچھا کیا میں تمھارے گھر میلے کپڑے دھونے آجاوں بڑا ڈھیر جمع ہو گیا ہے میں نے بہت خلوص سے کہا ہاں ہاں آ جاو وہ کپڑوں کا ایک بڑا سا گٹھّر لے کر آ گئ اور جب کپڑے دھو کر واپس جانے  لگی تو گیلے کپڑوں سے بھری بالٹی کا وزن زیادہ ہو چکا تھا ایسے میں میرے میاں   نے کمرے سے نکل کر اسے دیکھا اور لپک کر اس کے ہاتھ سے گیلے کپڑوں سے بھری بالٹی اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہنے لگے ارے یہ تو بہت بھاری ہے آپ کس طرح اٹھائیں گی اور پھر میرے میاں نے وہ بھری بالٹی اس کے گھر پہنچا دی -

اس دن کی پہلی ملاقات جانے کس طرح رنگ لائ کہ میرے میاں شا م کو زرا جلدی گھر آنے لگے اور گھر کی بالکونی میں دیر دیر تک کھڑ ے رہنے لگے پہلے پہلے تو م اس تبدیلی کو سمجھ نہیں سکی جب سمجھ آئ تو میں بھی ایک دن میاں جی کے برابر میں  جا کرکھڑی ہوگئ تو سامنے والی لڑکی گلی کے بچّوں کے ساتھ بیڈمنٹن کھیل رہی تھی  ،میرے بالکونی میں جاتے ہی میرے میاں وہاں سے ہٹ کر کمرے میں چلے گئے تھے تب میں سمجھی تھی کہ کوئ دال میں کالا ہے ،،پھر کچھ اور بھی تبدیلیاں ظاہر ہوئیں تھیں کہ  میرے میاں نت نئ خوشبو کی بوتلیں لا لا کر استعمال کر نے لگے تھے نئے نئے کلر کی شرٹس بھی ےبدل  بد ل کر پہننے   لگے تھے جبکہ اس سے پہلے وہ کہتے  تھے کہ مجھے صرف سفید رنگ ہی پسند ہے میں نے زیادہ کچھ کریدنا بہتر نہیں جانا تاکہ گھر کا ماحول پراگند ہ نا ہو لیکن ایک دن میرے بیٹے نے اپنے برابر میں کھڑے اپنے پاپا سے کہا پاپا آپ نے کاغذ کیوں نیچے پھینکا ؟ آپ ہمیں تو منع کرتے ہیں کہ گلی میں کوئ چیز ناپھینکو اور بیٹے کی بات پر میرے شوہر نے بے اختیار میری جانب دیکھا اور بیٹے کی بات ادھر ادھر کر کے اسے اپنے ساتھ وہاں سے ہٹا لے گئے،

یعنی اب بالکونی سے ان کی خط و کتابت کا آغاز بھی ہو چکا تھا ،،میں نے اپنے شوہرسے کچھ سوال جواب کئےتوبس اب ہمارے گھر طوفانو ں کی آمد کی ابتداء ہو گئ  ،یہی وہ وقت تھا جب میں اپنے شوہر کی محبّت جیتنے کے لئے کچھ سوچتی میں نے شوہر سے دو دو ہاتھ کرنے کی ٹھان لی اور بالآخر انہوں نے کہ دیا کہ اب وہ اس کے بغیر نہیں رہ سکتے ہیں اورشادی کا  فیصلہ کر چکے ہیں اب  یا تو مجھے اپنے ہاتھ سے لکھ کر دیدو کہ میں اپنے شوہر کو بخوشی دوسری شادی کی اجازت دے رہی ہوں  اس صورت میں ،میں تم کو تمھارا خرچہ پانی دیتا رہوں گا اور انصاف سے چلوں گا میں نے شوہر کی بات کے جواب میں خودکشی کی دھمکی دی انہوں نے کہا اگر تم کو حرام موت مرنے کا شوق ہے تو کل کی مرتی آج مر جاوُمیری  بلا سے اور کہ کر گھر سے نکل گئے اور پھر چند روز کے اندر مجھے طلاق نامہ بھیج دیا ،میں شوہر کے انتقام میں اتنی اندھی ہو چکی تھی کہ  میں نے اپنے تینوں معصوم  بچّوں کو رکشہ میں بٹھایا  اور لے جاکر ان کی بوڑھی دادی کے منہ پر یہ کہ کر مارا کہ تمھارے بیٹے کے بچّے ہیں میں میکے سے تو لائ  نہیں تھی ،میرا بڑا بیٹا سات برس کا بیچ والی بیٹی پانچ برس کی اور تیسرا بیٹا چاربرس کاتھا جب میں ان کی دادی کے گھر سے نکل رہی تھی میرا چار برس کا بیٹا میرے پیچھے روتا ہوا بھاگا تھا اور میں نے بے رحمی سے دروازہ بند کیا اور پھر پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا گھر حالانکہ میرے شوہر کے نام تھا لیکن شوہر نے گھر سے بیدخل نہیں کیا-

پھرکچھ  برس بعد میرے دل مِیں بچّوں کی مامتا جاگی اور میں نے اسکول جاکر ملنے کی کوشش کی تو وہ  بے  سود ثابت ہوئ پھر بارہ برس پہلے بچّوں کی دادی کا انتقال ہوا تب مین نے ان کی دادی کے جنازے میں شرکت چاہی تو مجھے بتایا گیا کہ دادی کی و صیّت ہے کہ مجھے ان کے جنازے میں شامل نا کیا جا ئَے  دادی کے مرنے کے بعد بچّون کے چچا اور چچی نے  ان کی پرورش کا فریضہ انجام دیابس اس کے بعد پھر اب تو اٹھّارہ برس بیت گئے ہیں سوکن آج بھی میرے شوہر کے ساتھ خوش و خرّم زندگی گزار رہی ہے کئ بچّے ہو چکے ہیں اورمیں جنم جلی اپنے ہاتھوں اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کے پیچھے تنہا تنہا جی رہی ہوں دو برس پہلے میری بیٹی کی شادی ہوچکی ہے ،بڑے بیٹے کی منگنی اس کے چچا نے اپنی بیٹی سے کر دی ہے چھوٹا بیٹا ابھی حال میں پڑھائ سے فارغ ہوا ہے وہ بچّہ جو میرے بغیر ایک گھڑی نہیں رہتا تھا-اسے تو اب میری شکل سے نفرت ہے اور بڑے بھائ سے کہتا ہے کہ امّی ملنے آئیں تو مجھے کمرے سے باہر نہیں بلانا ہے ،بڑے بیٹے کوکچھ خوف خدا ہے تو   مجھ سے ملنے بھی آجاتا ہے اور اپنے فلیٹ پر بھی بلا لیتا ہے اس نے شادی کرنے سے پہلے ہی اپنا زاتی فلیٹ لے لیا ہے،میں اسی فلیٹ پر جا کر اس سے مل لیتی ہوں   خاتون خاموش ہو گئیں تو انیلہ نے ان سے سوال کیا کیا آپ معاشرے کی خواتین کو کوئ پیغام دینا چاہیں گی-خاتون نے کہا ہاں ضرور دوسری شادی مرد کا جائز اور اللہ کا مقّررکردہ حق ہے جبکہ وہ انصاف سے چلنے کی بات بھی کر رہا ہو اس لئے ایسی صورت میں اس کو دوسری شادی کی اجازت ضرور دے دینی چاہئے -خاتون  کی منزل آچکی تھی اور وہ اتر کر چلی گئیں اور انیلہ کو اس کی نئ کہانی کا عنوان دے گئین تھیں  اور انیلہ شام کو جب تھکی ہاری واپس گھر آئ تب بستر پر لیٹ کر اسے ان خاتون کا خیال آیا اور ان کے الفاظ یاد آئے ،،،دوسری شادی مرد کا جائز حق ہے  اسے خوشی خوشی اجازت دے دینی چاہئے ورنہ وہ جبریہ چھین لیتا ہے

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر