ا للہ تعالیٰ نے پاکستان کے گوشے گوشے کو اپنی قدرت کے بیش بہا خزانے عطا کئے ہیں لیکن یہ عوام کی بد قسمتی ہے کہ ان کو حکومت کی جانب سے کوئ بھی ریلیف نہیں ملتا نتیجہ میں وہ اپنے محدود وسائل کو استعمال کرتے ہیں اور موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔جس کی ایک اندوہناک مثال جنوری کے مہینہ کی آخری تاریخوں میں ہونے والا تاندہ ڈیم کا دلخراش حادثہ ہے۔خیبر پختونخوا کے ضلع کوہاٹ کے تاندہ ڈیم میں 29 جنوری کو کشتی حادثے کا شکار ہو گئ خیبر پختونخوا کے ضلع کوہاٹ کے تاندہ ڈیم میں شکار ہونے والے تمام بچو ں کی ۵۲میتوں کو پانی سے نکال لیا گیا جبکہ چھ افراد کو زندہ بچا لیا گیا تھا۔ دستیاب معلومات کے مطابق کشتی میں کل 58 افراد سوار تھے بعض حادثات انسان کی اپنی غفلت اور کوتاہیوں کا نتیجہ ہوتے ہیں مزید نقصانات سے بچنے اور ان کے سدبا ب اور حادثات کے اسباب و عوامل کا تعین کرناضروری ہوتا ہے ایسا نہ کرنا مجرمانہ غفلت اور کوتاہی کے زمرے میں آتاہے ۔
ا یسی ہی غفلت کا مظاہرہ شہر کوہاٹ نے چندروز قبل29 جنوری کی صبح شہر کے جنوب مغرب میں واقع واحد تفریحی مقام تاندہ ڈیم کے مقام پر ایک دلخراش سانحے کی صورت میں دیکھاجوگنجائش سے زیادہ بچوں کو ایک کشتی میں بٹھانے بلکہ لادنے کی وجہ سے رونما ہو ا۔ اس روز ایک مقامی مدرسے کا مہتمم مدرسے کے امتحانات ختم ہونے پر بچوں کو سیر کی غرض سے ڈیم کی دوسری جانب واقع ایک چھوٹے سے جزیرے پر لے جا رہاتھا۔ سیاحت کو سہولیات کیوں نہیں دی تھیں -حادثے کے بعد دو دن تک نہ تو مدرسہ اور نہ ہی پولیس ناموں کی مکمل فہرست جاری کرسکی تھی۔ دوسری جانب عوام اس بات پر بھی برہم دکھائی دیے کہ آخر ضلعی انتظامیہ یا کسی محکمے نے تاندہ ڈیم میں کشتی کی سیاحت کو سہولیات کیوں نہیں دی تھیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ اس جھیل میں صرف دو کشتیاں ہی تھیں، جن میں ایک ماہی گیروں کی اور دوسری حادثے کا شکار ہونے والی حفیظ اللہ ملاح کی تھی، جو کا فی عرصے سے یہاں کشتی چلا کر گزر بسر کر رہے تھے۔
عمر رسیدہ حفیظ اللہ خود بھی اس حادثے کا شکار ہوئے-حادثے کا شکار ہونے سے قبل کشتی کم وبیش سترہ بچوں کوپکنک کے سامان اور لوازمات سمیت مذکورہ جزیرے پر بحفاظت چھوڑ کر باقی بچوں کو لینے واپس آئی اور مہتمم مدرسہ کی نگرانی میں ایک ایسی کشتی جس میں سیفٹی معیار کے مطابق آ ٹھ سے دس بالغ افراد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی اس میںساٹھ کے قریب بچوں کو بٹھا دیا گیا۔ابھی بمشکل آدھا ہی سفر طے ہوا تھا کہ بدقسمت بچوں سے لدی کشتی اچانک الٹ گئی اور ملاح سمیت کشتی میں سوار تمام بچے ڈیم کے منفی ڈگری سینٹی گریڈ پانی میں گر گئے۔خیبر پختونخوا کے ضلع کوہاٹ کے تاندا ڈیم میں ڈوبنے والے بچوں کی لاشیں نکالنے کا عمل منگل کو بھی جاری ہے اورڈی پی او کوہاٹ کے مطابق آج مزید 20 لاشیں نکالی گئی ہیں جس کے بعد اس حادثے میں ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد 50 ہو گئی ہے۔اتوار کو میر باش خیل اور سلیمان تالاب نامی دیہات کے بچے پکنک منانے تاندہ ڈیم گئے تھے جہاں وہ کشتی الٹ گئی جس پریہ بچے سوار تھے۔ کوہاٹ کے قریب میر باش خیل گاؤں کے قریب واقع تاندہ ڈیم مقامی لوگوں کے لیے ایک اہم پکنک پوائنٹ ہے۔ اس علاقے میں بیشتر افراد اچھے تیراک ہیں اور سماجی کارکن شاہ محمود بھی ان میں شامل ہیں۔جب انھیں تاندہ ڈیم میں مدرسے کے طلبا کی کشتی الٹنے کی اطلاع ملی تو وہ بھی موقع پر پہنچے اور پانی سے بچوں کو نکالنے کی کوششوں میں شامل ہو گئے۔وہ چھ، سات بچوں کو پانی سے نکال چکے تھے جب انھیں معلوم ہوا کہ ڈوبنے والوں میں ان کے اپنے بچے بھی شامل ہیں۔الٹنے والی کشتی یں شاہ محمود کے دو بیٹے، چار بھتیجے، دو کزن اور ایک رشتہ دار سوار تھے لیکن انھیں اس کا علم نہیں تھا۔ وہ تو انسانی ہمدردی کے تحت بچوں کو ڈیم کے گہرے پانی سے نکالنے کی کوشش کر رہے تھے۔ماہر تیراک جس کے اپنے بچے بھی پانی کی نذر ہو گئےشاہ محمود چھ سات بچوں کو پانی سے نکال چکے تھے تب انھیں معلوم ہوا کہ ڈوبنے والوں میں ان کے اپنے بچے بھی شامل ہیں۔
شاہ محمود نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ڈیم میں جب پہلی نظر پڑی تو بچوں کے سر نظر آ رہے تھے وہ پانی میں ہاتھ مار رہے تھے، بچے جیسے تڑپ رہے تھے۔ میں پانی میں کود گیا تھا اور کچھ دیر میں ہم نے مل کر چھ سات بچے نکال لیے تھے۔‘جب باہر آیا تو پولیس انسپکٹر نے بچوں کی فہرست دی، میں اس فہرست کو غور سے دیکھ رہا تھا کہ پانچ نمبر پر میرے بیٹے کا نام اور ولدیت میں میرا نام لکھا تھا، میرے پیروں تلے سے جیسے زمین ہی نکل گئی۔۔۔‘شاہ محمود بتاتے ہیں ’اس کے بعد دیکھا تو میرے دوسرے بیٹے کا نام میری حالت غیر ہو رہی تھی۔۔۔ اتنے میں دیکھا کہ میرے چار بھتیجوں کے نام بھی لکھے تھے اور ولدیت میں میرے بھائیوں کے نام تھے، یہی نہیں اس کے بعد میرے دو کزن اور ایک سالے کا نام بھی اسی فہرست میں تھا۔تاندہ ڈیم میں کشتی الٹنے سے 11 امواتشاہ محمود نے بتایا کہ ان کے ایک بیٹے کی عمر تقریباً ساڑھے چار سال اور دوسرے کی عمر آٹھ سال کے لگ بھگ ہے جبکہ بھتیجوں کی عمریں بھی چار سے پانچ سال کے قریب ہیں۔شاہ محمود کہتے ہیں ’میں ہر بچے کو اپنا بچہ سمجھ کر نکالتا ہوں اور اب تو میرے اپنے بچے بھی اسی پانی کی نذر ہو گئے ہیں۔‘شاہ محمود تاندہ ڈیم پر موجود تھے جہاں اب ریسکیو کے ادارے کے اہلکار اور سیکیورٹی فورسز کے ماہرین ڈیم میں ڈوبے بچوں کو تلاش کر رہے تھے۔ پہلے روز جب یہ واقعہ پیش آیا تو مقامی افراد جن میں شاہ محمود، دو پولیس اہلکار اور ہوٹل پر کام کرنے والا ایک نوجوان اور چند دیگر افراد نے 17 افراد کو پانی سے نکال لیا تھا مگر ان میں دس بچے دم توڑ چکے تھے۔
شاہ محمود نے بتایا کہ انھوں نے جن بچوں کو نکالا انھیں فوری طور پر طبی امداد فراہم کی ’کچھ ایسے بچے بھی تھے جن کی سانس بمشکل چل رہی تھی، ان کی سانسیں مصنوعی سانس سے بحال کی گئیں اور فوری طور پر انھیں ہسپتال پہنچایا گیا۔‘دونوں بیٹوں کے زندہ ہونے کا اب کوئی چانس نہیں مگر ان کی ماں کے پاس تو بچوں کو لے جاؤں کہ اسے تسلی ہو‘تاندہ ڈیم پر سرچ آپریشن پر نظر رکھے کئی بچوں کے والد اور بھائی بے چین نظر ائے۔۔۔ اس حادثے کے بعد وہاں بڑی تعداد میں مقامی لوگ پہنچ گئے تھے ۔دولت خان کا کہنا تھا کہ ان کے دو بیٹے اس کشتی میں سوار تھے جن کا اب تک کچھ پتہ نہیں ہے۔دولت خان کہہ رہے تھے کہ ’دونوں بیٹوں کے زندہ ہونے کا اب کوئی چانس نہیں ہے لیکن ان کی ماں کے پاس تو بچوں کو لے جاؤں تاکہ اسے تسلی ہو کیونکہ وہ تو ایسی ہے کہ نہ زندہ ہے اور نا ہی مردہ ہے بس بچوں کو یاد کر رہی ہے۔‘دولت خان کے ساتھ اسی علاقے سے تعلق رکھنے والے سرکاری کالج کے پرنسپل پروفیسر مکمل خان نے بتایا کہ وہ اسی علاقے کے رہنے والے ہیں اور وہ چھ سال کے تھے جب سے وہ اس ڈیم میں تیراکی کرتے آئے ہیںانھوں نے بتایا کہ انھیں معلوم ہے کہ اس ڈیم کے نیچے کہاں ریت ہے، کہاں مٹی ہے اور کہاں جھاڑیاں ہیں اس لیے انھیں اجازت دی جائے تاکہ وہ بچوں کو نکال سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب تک جن 18 بچوں کو نکالا گیا ہے وہ سب مقامی لوگوں نے نکالا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اس حادثے میں ڈوبنے والے دولت خان کے دو بچوں کے علاوہ ان کے بھتیجے اور بھانجے بھی شامل ہیں۔پروفیسر مکمل خان کا کہنا تھا کہ ’ان کے گھروں میں ماتم ہے، خواتین سخت صدمے سے دوچار ہیں۔ انھیں یہ امید ہے کہ بچے ڈیم سے زندہ نکل آئیں گے اور اسی امید پر وہ جی رہے ہیں۔‘سلمان تالاب گاؤں کے ہر گھر میں صفِ ماتم بچھی ہے‘-کم از کم میں اس حادثہ کا تجزیہ کرتے ہوءے سوچ رہی ہوں کہ جنوری کے مہینہ میں پانی کی پکنک ہونی ہی نہیں چاہئے تھی -والدین کو اس پکنک کی شدید مخالفت کرنی چاہئے تھی کہ موسم کے بہتر ہونے پر وہ اپنے بچوں کو پکنک پر بھیجیں گے-انتہائ ناقص کشتی پر گنجائش سے کہیں زیادہ بچے کشتی میں بٹھائے گئے اور کسی کو لائف جیکٹ بھی نہیں پہنائ گئ -اللہ پاک ہمارے سماج کو بھی عقل سلیم عطا فرمائے آمین