اتوار، 8 جنوری، 2023

خدارا پاکستان کے جنگل بچاو



جنگلات کسی بھی ملک کے قدرتی ماحول کو خوش گوار رکھنے کے لیے ناگزیر ہیں ۔یہ آ پ جانتے ہی ہوں گے اس برس آم کے موسم سے قبل ہی شہر ملتان میں کئ لاکھ آ م کے بہترین فصل دینے والے درخت کاٹ کر وہاں ہاوسنگ سو سائٹیز کو تعمیرات کی اجازت دی گئ -کیا کسی نے سوچا ہم اتنے درخت کاٹ کر اپنے نسلوں کو کنکریٹ کے دہکتے جنگل بے دردی سے صرف اس لئے دے رہے ہیں کہ ہمارا سرمایہ بڑھے پاکستان میں ضرورت سے کم رقبہ پر جنگلات پائے جاتے ہیں اور اضافے کے بجائے دن بدن یہ کمی بڑتی جا رہی ہے یہی وجہ ہے کہ ہم موسموں کے عدم توازن کا شکار ہیں ۔ آذاد کشمیر میں جنگلات مالی وسائیل کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں ۔ جس کا ذیادہ تر انحصار نیلم ویلی کے جنگلات پر ہے 

۔ نیلم ویلی میں دنیا کا سب سے قیمتی دیودار پایا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ ان جنگلات میں برمی ، کائیل اور فر کے علاوہ چھور کے قیمتی درخت پاے جاتے ہیں لیکن یہ درخت بڑی تیزی سے کاٹے جا رہے ہیں اور ختم ہو رہے ہیں ۔ جس کے باعث علاقہ کی بے شمار ارضیات لینڈ سلائینڈنگ کا شکار ہو رہی ہیں اگر اس کا تدارک نہ ہوا تو لینڈ سلائیڈنگ کے باعث منگلا ڈیم اپنی مقررہ عمر سے پہلے ہی بھر جائے گا ۔ جس کے بڑے بھیانک نتائیج برآمد ہونگے ۔ نیلم ویلی کے جنگلات میں کبھی بے شمار جنگلی حیات موجود تھے لیکن چودہ سالہ انڈین گولہ باری کے باعث نیلم ویلی کے جنگلات کا مجموعی طور پر پندرہ ہزار ایکڑ رقبہ نذر آتش ہوا ۔آتش ذدگی کے علاوہ بڑھتی ہوئی آبادی تیزی سے جنگلات کو نقصان پہنچا رہی ہے اور اس طرح خوبصورت جنگلی حیات کا عر صہ حیات تنگ ہو رہا ہے ۔

 ان جنگلات میں بڑے پیمانے پر قیمتی جانور ناپید ہو رہے ہیں ۔ خوبصورت پرندوں میں دان گیر مرغ ذرین پہلے سے نایاب ہو چکے ہیں ، چکور بھی کم تعداد میں نظر آتے ہیں ۔ نیلم ویلی کے جنگلات میں بے شمار شفا بخش جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں جن کی بیرون ملک اور پاکستان میں بڑی مانگ ہے ان میں کٹھ ، پتریس ، مشک بالا ، رتن جوگ اور بٹ پھیوا وافر مقدار میں دستیاب ہے ۔ نیلم ویلی کے جنگلوں کی بلیک مشروم ( گچھی ) سیاہ زیرا کو بہت پسند کیا جاتا ہے ۔

ہمارے جنگل کنکریٹ میں دفن کیوں ہو ئے جا رہے ہیں ۔کبھی سوچا آپ نے ؟ نہیں کس کو فرصت ہےقرت کی اس معصوم مخلوق کی بقا کا سامان کریں نہ کہ فنا کا۔در حقیقت جنگلات کی کٹائی ایک خلاف فطرت عمل ہے اور دور حاضر میں جب پوری دنیا کو بدترین فضائی آلودگی اور موسمی حدت کا مسئلہ درپیش ہے،  ایسے میں درختوں کی کٹائی گویا پوری انسانیت کو تباہی کی طرف لے جانے کے مترادف ہے ۔ ہماری زمین بہت تیزی کے ساتھ جنگلات سے محروم ہو رہی ہے پاکستان میں اگرچہ ماحولیات کے تحفظ پر کافی بات ہورہی ہے  اور اقدامات بھی کیے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود جنگلات کی کٹائی  کئ صورتوں میں جاری ہے۔

 محققین کے مطابق گلگت بلتستان، کوہستان بشمول داریل تانگیر  اور وادی نلتر میں مختلف اقسام کے درخت پائے جاتے ہیں۔ اور دیامر کے علاقے بالخصوص گوہرآباد چلغوزے کے قیمتی جنگلات سے مالامال ہے اسی طرح ان علاقوں میں دیگر اقسام کے پیڑوں کی بھی بہتات نظر آتی ہے۔ تاہم گذشتہ دس پندرہ سال کے دوران ہزاروں کی تعداد میں درخت کاٹ کر مقامی افراد اور ٹمبر  مافیہ نے ان خوبصورت جنگلات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ جنگلات کے متعلقہ ادارے اگرچہ اس بربادی کی دہائیاں تو دیتے ہیں لیکن اس مسئلہ کو حل کرنے کی سنجیدہ کوشش کرتے نظر نہیں آتے۔ لیکن بھلا ہو پرائم منسٹر عمران خان نیازی کا جنہوں نے دس ارب درختوں کے نام سے ایک منصوبہ متعارف کروایا اس منصوبے میں نہ صرف جنگلات کی کٹائی کے خلاف بھرپور مہم کا آغاز کیا بلکہ ملک کے متعدد علاقوں میں تقریبا ایک ارب سے زائد درخت لگا کر ماحول دوستی کا ثبوت دیا ۔ میری جنگلات کے متعلقہ  اداروں سے یہ گزارش ہے کہ اس منصوبے کو بھرپور انداز میں  استعمال کریں اور زیادہ سے زیادہ درخت لگا کر ہمارے جنگلات کو بچائے

 یہ ایک حقیقت ہے کہ جنگلی حیات کسی بھی ملک کا سرمایہ ہوتی ہیں اور قدرت کی اس تخلیق کا تحفظ ہم سب کا فرض ہے تاہم یہ  بھی ایک تلخ سچائی ہے کہ دنیا میں جنگلی حیات کم ہوتی جارہی ہیں ۔سائنس دانوں کاکہناہے کہ دنیا میں بڑے جنگلی جانوروں کی آبادی کم ہو رہی ہے  یوں تو پوری دنیا میں  بیشمار تنظیمیں جنگلی حیات کے بچاؤ اور تحفظ کیلئے کام کررہی ہیں لیکن اس کے باوجود نایاب پرندوں اور جانوروں کی تعداد بتدریج کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے۔جنگلی حیات کو بچانے اور افرائش نسل کیلئے حکومتوں اور اداروں کی طرف سے اقدامات کے باوجود نایاب پرندوں کا شکار کسی صورت کم ہونے میں نہیں آرہا جس کی وجہ سے جنگلی حیات پر عرصہ حیات تنگ ہوتا جارہا ہے۔

جنگلی حیات صرف جنگل تک محدود نہیں بلکہ ہمارے آس پاس ہمارے معاشرے میں ہمارے قریب موجود ہے، مختلف جانور اور پرندے ہمیں وقتاً فوقتاً اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں، زمین، آسمان اور سمندر میں موجود آبی حیات انسان کی توجہ کی متقاضی ہیں۔انسان کی طرح جانور اور چرند پرند اور تمام جنگلی حیات کو زندہ رہنے کیلئے گھر اور کھانے کی ضرورت ہوتی ہے، ماحول کو انسان دوست بنانے میں جنگلی حیات کا بھی بڑا کردار ہے لیکن موجودہ دور میں انسان تیزی کے ساتھ جنگلی حیات پر اثر انداز ہورہے ہیں جس کی وجہ سے کئی نایاب جانوروں کی نسلیں معدوم ہوچکی ہیں۔

جانور نہ صرف ماحولیات کو متوازن رکھتے ہیں بلکہ قدرتی خوبصورتی کو بھی نمایاں کرتے ہیں، آج دنیا بھر میں نایاب پرندوں اور جانوروں کو بچانے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔جنگلی جانوروں  کے بچاؤ اور افزائش نسل کیلئے شکار پر پابندی لگائی جاتی ہے اس کے باوجود غیر قانونی شکار کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ غیر قانونی شکار، اسمگلنگ اور آگاہی نا ہونے کی وجہ سے پاکستان میں جنگلی حیات کو بہت سے خطرات درپیش ہیں اورمختلف اقسام کے جانوروں کی نسلیں ناپید ہونے کو ہیں۔

جنگلی حیات کا تحفظ صرف حکومت یا متعلقہ اداروں کی نہیں بلکہ ہر انسان کی بنیادی ذمہ داری ہے،عوام کی شمولیت اورمدد کے بغیر جنگلی حیات کے تحفظ کا کام نہیں کیاجاسکتا۔ہمیں اپنے بچوں کو بچپن سے ہی جنگلی حیات کے تحفظ کے بارے میں آگاہ کرنا چاہیے۔ہمیں اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں میں آگاہی کا سلسلہ شروع کرنا چاہیے ۔اور عوام کو جنگلی حیات پر جاری ظلم کو روکنے میں متعلقہ اداروں کا ساتھ دیناہوگاتاکہ قدرت کی اس تخلیق کا تحفظ یقینی بناکر ماحول کو بچایا جاسکے
پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان کے ضلع دیامر سے تعلق رکھنے والے اللہ دتّہ کو اس بات کا کوئی علم نہیں کہ ایک درخت کاٹنے سے کتنا نقصان ہو سکتا ہے۔ انھیں اگر فکر ہے تو اپنے پیٹ کی کیونکہ پہاڑوں میں رہتے ہوئے ان کے پاس نہ تو کوئی روزگار ہے اور نہ ایندھن کا کوئی دوسرا ذریعہ جس سے وہ اپنی ضروریات پوری کر سکیں۔لہٰذا ان کا یہ معمول ہے کہ ہر ہفتہ یا دس دنوں میں وہ اپنے گزر بسر کے لیے گاؤں کے پہاڑوں میں جاکر ایک درخت کاٹ کر گھر لاتا ہے جسے وہ ایندھن کے طورپر استعمال کرتا ہے یا پھر اسی درخت کو فروخت کردیتا ہے۔

جنگلات کسی بھی ملک کے قدرتی ماحول کو خوش گوار رکھنے کے لیے ناگزیر ہیں ۔ پاکستان اور آذاد کشمیر میں ضرورت سے کم رقبہ پر جنگلات پائے جاتے ہیں اور اضافے کے بجائے دن بدن یہ کمی بڑتی جا رہی ہے یہی وجہ ہے کہ ہم موسموں کے عدم توازن کا شکار ہیں ۔ آذاد کشمیر میں جنگلات مالی وسائیل کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں ۔ جس کا ذیادہ تر انحصار نیلم ویلی کے جنگلات پر ہے ۔ نیلم ویلی میں دنیا کا سب سے قیمتی دیودار پایا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ ان جنگلات میں برمی ، کائیل اور فر کے علاوہ چھور کے قیمتی درخت پاے جاتے ہیں لیکن یہ درخت بڑی تیزی سے کاٹے جا رہے ہیں اور ختم ہو رہے ہیں ۔ جس کے باعث علاقہ کی بے شمار ارضیات لینڈ سلائینڈنگ کا شکار ہو رہی ہیں اگر اس کا تدارک نہ ہوا تو لینڈ سلائیڈنگ کے باعث ہم بڑی آبادیوں والی زمین سے محروم ہو جائیں گے

ائےابو طالب اپنے خدا سے کہو وہ بارش برسا دے


کتنی حیرت کی بات ہے کہ کافر اپنی زبان سے کہ رہے ہیں کہ ابو طالب بارش کے لئے  اپنے خدا سے گزارش کریں کہ پانی برسا دے اور بے دین مسلمان کہ رہے ہیں کہ ابو طالب کافر تھے۔روایت ہے کہ شہر مکہ میں اتنا سخت قحط پڑ گیا کہ لوگوں نے ایک وقت کے کھانے کے عوض اپنے بچے تک فروخت کر دئے۔ایسے میں کفار مکہ اپنے بنائے ہوئے بتوں کے آ گے گڑ گڑانے لگے کہ وہ بارش برسا دیں ۔لیکن پتھر کے بت ساکن ہی رہے اور بارش نہیں برسی
تب وہ سب اجتماعی طور پر حضرت ابو طالب کے پاس آ ئے اور ان کہا کہ وہ اپنے خدا سے کہیں کہ وہ بارش برسا دے

تمام علمائے شیعہ اور اھل سنت کے بعض بزرگ علماء مثلاً ”ابن ابی الحدید“شارح نہج البلاغہ نے اور”قسطلانی“ نے اعتراف کیا ہے کہ شجرہٴ خبیثہٴ بنی امیّہ“ کی حضرت علی علیہ السلام کے مقام ومرتبہ کی مخالفت سے پیداهوئی ھے۔ کیونکہ یہ صرف حضرت ابوطالب کی ذات ھی نھیں تھی کہ جو حضرت علی علیہ السلام کے قرب کی وجہ سے ایسے حملے کی زد میں آئی هو ،بلکہ ھم دیکھتے ھیں کہ ھر وہ شخص جو تاریخ اسلام میں کسی طرح سے بھی امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام سے قربت رکھتا ھے ایسے 

 حملوں سے نھیں بچ سکا، حقیقت میں حضرت ابوطالب کا کوئی گناہ نھیں تھا سوائے اس کے وہ حضرت علی علیہ السلام جیسے عظیم پیشوائے اسلام کے باپ تھے۔

‌تاریخ  اسلام  میں دلائل میں سے جو واضح طور پر ایمان ابوطالب کی گواھی دیتے ھیں کچھ دلائل مختصر طور پر فھرست وار بیان کرتے ھیں ..۱۔ حضرت ابوطالب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت سے پھلے خوب اچھی طرح سے جانتے تھے کہ ان کا بھتیجا مقام نبوت تک پہنچے گا کیونکہ مورخین نے لکھا ھے کہ جس سفر میں حضرت ابوطالب قریش کے قافلے کے ساتھ شام گئے تھے تو اپنے بارہ سالہ بھتجے محمد کو بھی اپنے ساتھ لے گئے تھے ۔ اس سفر میں انهوں نے آپ سے بہت سی کرامات مشاہدہ کیں۔

‌ان میں ایک واقعہ یہ ھے کہ جو نھیں قافلہ ”بحیرا“نامی راھب کے قریب سے گزرا جو قدیم عرصے سے ایک گرجے میں مشغول عبادت تھا اور کتب عہدین کا عالم تھا ،تجارتی قافلے اپنے سفر کے دوران اس کی زیارت کے لئے جاتے تھے، توراھب کی نظریں قافلہ والوں میں سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر جم کررہ گئیں، جن کی عمراس وقت بارہ سال سے زیادہ نہ تھی ۔

‌بحیرانے تھوڑی دیر کے لئے حیران وششدر رہنے اور گھری اور پُرمعنی نظروں سے دیکھنے کے بعد کھا:یہ بچہ تم میں سے کس سے تعلق رکھتا ھے؟لوگوں نے ابوطالب کی طرف اشارہ کیا، انهوں نے بتایا کہ یہ میرا بھتیجا ھے۔

‌” بحیرا“ نے کھا : اس بچہ کا مستقبل بہت درخشاں ھے، یہ وھی پیغمبر ھے کہ جس کی نبوت ورسالت کی آسمانی کتابوں نے خبردی ھے اور میں نے اسکی تمام خصوصیات کتابوں میں پڑھی ھیں ۔

‌ابوطالب اس واقعہ اور اس جیسے دوسرے واقعات سے پھلے دوسرے قرائن سے بھی پیغمبر اکرم کی نبوت اور معنویت کو سمجھ چکے تھے ۔سال آسمان مکہ نے اپنی برکت اھل مکہ سے روک لی اور سخت قسم کی قحط سالی نے لوگوں کوگھیر لیاتو کفار مکہ ابوطالب کے گھر پر آئے اور ان سے کہا ائے ابو طالب اپنے خدا سے کہو وہ بارش برسا دے

ابھی حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم بہت چھوٹے سے تھے حضرت ابو طالب نے حضور پاک کو گود میں اٹھایا اور خانہ کعبہ کی دیوار سے متصل کر کے کھڑا کیا اور  حضور پاک کی شان میں  چالیس بند کا قصیدہ پڑھا ااور اس کے ساتھ ہی شہر مکہ میں اتنی موسلادھار دھار بارش ہوئئ کہ  کعبہ کی دیوار واں تک پانی آ گیا۔ تب حضرت ابو طالب ننھے بھتیجے کو اپنے شانو ں پر بٹھا کر گھر لے آئے ۔

‌اس کے بعد شھرستانی لکھتا ھے کہ یھی واقعہ جوابوطالب کی اپنے بھتیجے کے بچپن سے اس کی نبوت ورسالت سے آگاہ هونے پر دلالت کرتا ھے ان کے پیغمبر پر ایمان رکھنے کا ثبوت بھی ھے اور ابوطالب نے بعد میں اشعار ذیل اسی واقعہ کی مناسبت سے کھے تھے : و ابیض یستسقی الغمام بوجہہ ثمال الیتامی عصمة الارامل ” وہ ایسا روشن چھرے والا ھے کہ بادل اس کی خاطر سے بارش برساتے ھیں وہ یتیموں کی پناہ گاہ اور بیواؤں کے محافظ ھیں “

‌یلوذ بہ الھلاک من آل ھاشم

فھم عندہ فی نعمة و فواضل

” بنی ھاشم میں سے جوچل بسے ھیں وہ اسی سے پناہ لیتے ھیں اور اسی کے صدقے میں نعمتوں اور احسانات سے بھرہ مند هوتے ھیں ،،

‌ومیزان عدلہ یخیس شعیرة

‌ووزان صدق وزنہ غیر ھائل

” وہ ایک ایسی میزان عدالت ھے کہ جو ایک جَوبرابر بھی ادھرادھر نھیں کرتا اور درست کاموں کا ایسا وزن کرنے والا ھے کہ جس کے وزن کرنے میں کسی شک وشبہ کا خوف نھیں ھے “ قحط سالی کے وقت قریش کا ابوطالب کی طرف متوجہ هونا اور ابوطالب کا خدا کو آنحضرت کے حق کا واسطہ دینا شھرستانی کے علاوہ اور دوسرے بہت سے عظیم مورخین نے بھی نقل کیا ھے ۔“[20]

‌اشعار ابوطالب زندہ گواہ

‌۲۔اس کے علاوہ مشهور اسلامی کتابوں میں ابوطالب کے بہت سے اشعار ایسے ھیں جو ھماری دسترس میں ھیں ان میں سے کچھ اشعار ھم ذیل میں پیش کررھے ھیں :

‌والله ان یصلوالیک بجمعھم

‌حتی اوسدفی التراب دفینا

‌”اے میرے بھتیجے خدا کی قسم جب تک ابوطالب مٹی میںنہ سوجائے اور لحد کو اپنا بستر نہ بنالے دشمن ھرگز ھرگز تجھ تک نھیں پہنچ سکیں گے“

‌فاصدع بامرک ماعلیک غضاضتہ

‌وابشربذاک وقرمنک عیونا

‌”لہٰذا کسی چیز سے نہ ڈراور اپنی ذمہ داری اور ماموریت کا ابلاع کر، بشارت دے اور آنکھوں کو ٹھنڈا کر“۔ ودعوتنی وعلمت انک ناصحی ولقد دعوت وکنت ثم امینا ”تونے مجھے اپنے مکتب کی دعوت دی اور مجھے اچھی طرح معلوم ھے کہ تیرا ہدف ومقصد صرف پندو نصیحت کرنا اور بیدار کرنا ھے، تو اپنی دعوت میں امین اور صحیح ھے“

‌ولقد علمت ان دین محمد(ص)

‌من خیر ادیان البریة دیناً ” میں یہ بھی جانتا هوں کہ محمد کا دین ومکتب تمام دینوں اور مکتبوں میں سب سے بہتردین ھے“۔ اور یہ اشعار بھی انهوں نے ھی ارشاد فرمائے ھیں : الم تعلمواانا وجدنا محمد اً

‌رسولا کموسیٰ خط فی اول الکتب ” اے قریش ! کیا تمھیں معلوم نھیں ھے کہ محمد( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) موسیٰ (علیہ السلام) کی مثل ھیں اور موسیٰ علیہ السلام کے مانند خدا کے پیغمبر اور رسول ھیں جن کے آنے کی پیشین گوئی پھلی آسمانی کتابوں میں لکھی هوئی ھے اور ھم نے اسے پالیاھے“۔

‌وان علیہ فی العباد محبة

‌ولاحیف فی من خصہ اللہ فی الحب

‌” خدا کے بندے اس سے خاص لگاؤ رکھتے ھیں اور جسے خدا وندمتعال نے اپنی محبت کے لئے مخصوص کرلیا هو اس شخص سے یہ لگاؤبے موقع نھیں ھے۔“

‌ابن ابی الحدید نے جناب ابوطالب کے کافی اشعار نقل کرنے کے بعد (کہ جن کے مجموعہ کو ابن شھر آشوب نے ” متشابھات القرآن“ میں تین ہزار اشعار کھا ھے) کہتا ھے : ”ان تمام اشعار کے مطالعہ سے ھمارے لئے کسی قسم کے شک وشبہ کی کوئی گنجائش باقی نھیں رہ جاتی کہ ابوطالب اپنے بھتیجے کے دین پر ایمان رکھتے تھے“۔ ۳۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بہت سی ایسی احادیث بھی نقل هوئی ھیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ان کے فدا کار چچا ابوطالب کے ایمان پر گواھی دیتی ھیں منجملہ ان کے کتاب ” ابوطالب مومن قریش“ کے مولف کی نقل کے مطابق ایک یہ ھے کہ جب ابوطالب کی وفات هوگئی تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی تشیع جنازہ کے بعد اس سوگواری کے ضمن میں جو اپنے چچا کی وفات کی مصیبت میں آپ کررھے تھے آپ یہ بھی کہتے تھے:

‌”ھائے میرے بابا! ھائے ابوطالب ! میں آپ کی وفات سے کس قدر غمگین هوں کس طرح آپ کی مصیبت کو میں بھول جاؤں ، اے وہ شخص جس نے بچپن میں میری پرورش اور تربیت کی اور بڑے هونے پر میری دعوت پر لبیک کھی ، میں آپ کے نزدیک اس طرح تھا جیسے آنکھ خانہٴ چشم میں اور روح بدن میں“۔

‌نیز آپ ھمیشہ یہ کیا کرتے تھے :” مانالت منی قریش شیئًااکرھہ حتی مات ابوطالب “

‌”اھل قریش اس وقت تک کبھی میرے خلاف ناپسندیدہ اقدام نہ کرسکے جب تک ابوطالب کی وفات نہ هوگئی“۔

‌۴۔ ایک طرف سے یہ بات مسلم ھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ابوطالب کی وفات سے کئی سال پھلے یہ حکم مل چکا تھا کہ وہ مشرکین کے ساتھ کسی قسم کا دوستانہ رابطہ نہ رکھیں ،اس کے باوجود ابوطالب کے ساتھ اس قسم کے تعلق اور مھرو محبت کا اظھار اس بات کی نشاندھی کرتا ھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم انھیں مکتب توحید کا معتقد جانتے تھے، ورنہ یہ بات کس طرح ممکن هوسکتی تھی کہ دوسروں کو تو مشرکین کی دوستی سے منع کریں اور خود ابوطالب سے عشق کی حدتک مھرومحبت رکھیں۔

‌۵۔ان احادیث میں بھی کہ جو اھل بیت پیغمبر کے ذریعہ سے ھم تک پہنچی ھیں حضرت ابوطالب کے ایمان واخلاص کے بڑی کثرت سے مدارک نظر آتے ھیں، جن کا یھاں نقل کرنا طول کا باعث هوگا، یہ احادیث منطقی استدلالات کی حامل ھیں ان میں سے ایک حدیث چوتھے امام علیہ السلام سے نقل هوئی ھے اس میں امام علیہ السلام نے اس سوال کے جواب میں کہ کیا ابوطالب مومن تھے؟ جواب دینے کے بعد ارشاد فرمایا:

‌”ان ھنا قوماً یزعمون انہ کافر“ ، اس کے بعد فرمایاکہ: ” تعجب کی بات ھے کہ بعض لوگ یہ کیوں خیال کرتے ھیں کہ ابوطالب کا فرتھے۔ کیا وہ نھیں جانتے کہ وہ اس عقیدہ کے ساتھ پیغمبر اور ابوطالب پر طعن کرتے ھیں کیا ایسا نھیں ھے کہ قرآن کی کئی آیات میں اس بات سے منع کیا گیا ھے (اور یہ حکم دیا گیا ھے کہ ) مومن عورت ایمان لانے کے بعد کافر کے ساتھ نھیں رہ سکتی اور یہ بات مسلم ھے کہ فاطمہ بنت اسدرضی اللہ عنھا سابق ایمان لانے والوں میں سے ھیں اور وہ ابوطالب کی زوجیت میں ابوطالب کی وفات تک رھیں۔“ ]ابوطالب تین سال تک شعب میں[

‌۶۔ان تمام باتوں کو چھوڑتے هوئے اگرانسان ھر چیز میں ھی شک کریں تو کم از کم اس حقیقت میں تو کوئی شک نھیں کرسکتا کہ ابوطالب اسلام اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے درجہٴ اول کے حامی ومددگار تھے ، ان کی اسلام اور پیغمبر کی حمایت اس درجہ تک پہنچی هوئی تھی کہ جسے کسی طرح بھی رشتہ داری اور قبائلی تعصبات سے منسلک نھیں کیا جاسکتا ۔

‌اس کا زندہ نمونہ شعب ابوطالب کی داستان ھے۔ تمام مورخین نے لکھا ھے کہ جب قریش نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور مسلمانوں کا ایک شدید اقتصادی، سماجی اور سیاسی بائیکاٹ کرلیا اور اپنے ھر قسم کے روابط ان سے منقطع کرلئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واحد حامی اور مدافع، ابوطالب نے اپنے تمام کاموں سے ھاتھ کھینچ لیا اور برابر تین سال تک ھاتھ کھینچے رکھا اور بنی ھاشم کو ایک درہ کی طرف لے گئے جو مکہ کے پھاڑوں کے درمیان تھا اور ”شعب ابوطالب“ کے نام سے مشهور تھا اور وھاں پر سکونت اختیار کر لی۔

‌ان کی فدا کاری اس مقام تک جا پہنچی کہ قریش کے حملوں سے بچانے کےلئے کئی ایک مخصوص قسم کے برج تعمیرکرنے کے علاوہ ھر رات پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ان کے بستر سے اٹھاتے اور دوسری جگہ ان کے آرام کے لئے مھیا کرتے اور اپنے فرزند دلبند علی کو ان کی جگہ پر سلادیتے اور جب حضرت علی کہتے: ”بابا جان! میں تو اسی حالت میں قتل هوجاؤں گا “ تو ابوطالب جواب میں کہتے :میرے پیارے بچے! بردباری اور صبر ھاتھ سے نہ چھوڑو، ھر زندہ موت کی طرف رواںدواں ھے، میں نے تجھے فرزند عبد اللہ کا فدیہ قرار دیا ھے 

‌یہ بات اور بھی طالب توجہ ھے کہ جو حضرت علی علیہ السلام باپ کے جواب میں کہتے ھیں کہ بابا جان میرا یہ کلام اس بناپر نھیں تھا کہ میں راہ محمد میں قتل هونے سے ڈرتاهوں، بلکہ میرا یہ کلام اس بنا پر تھا کہ میں یہ چاہتا تھا کہ آپ کو معلوم هوجائے کہ میں کس طرح سے آپ کا اطاعت گزار اور احمد مجتبیٰ کی نصرت ومدد کے لئے آمادہ و تیار هوں۔ قارئین کرام ! ھمارا عقیدہ یہ ھے کہ جو شخص بھی تعصب کو ایک طرف رکھ کر غیر جانبداری کے ساتھ ابوطالب کے بارے میں تاریخ کی سنھری سطروں کو پڑھے گا تو وہ ابن ابی الحدید شارح نہج البلاغہ کا ھمصدا هوکر کھے گا :

‌ولولا ابوطالب وابنہ لما مثل الدین شخصا وقاما

‌فذاک بمکة آوی وحامی وھذا بیثرب جس الحماما

” اگر ابوطالب اور ان کا بیٹا نہ هوتے تو ھرگزمکتب اسلام باقی نہ رہتا اور اپنا قدسیدھا نہ کرتا ،ابوطالب تو مکہ میں پیغمبر کی مدد کےلئے آگے بڑھے اور علی یثرب (مدینہ) میں حمایت اسلام کی راہ میں گرداب موت میں ڈوب گئے“

‌ابوطالب کا سال وفات ”عام الحزن“

‌۷۔”ابوطالب کی تایخ زندگی، جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے ان کی عظیم قربانیاں اور رسول اللہ اور مسلمانوں کی ان سے شدید محبت کو بھی ملحوظ رکھنا چاہئے ۔ ھم یھاں تک دیکھتے ھیں کہ حضرت ابوطالب کی موت کے سال کا نام ”عام الحزن“ رکھا یہ سب باتیں اس امر کی دلیل ھیں کہ حضرت ابوطالب کو اسلام سے عشق تھا اور وہ جو پیغمبر اسلام کی اس قدر مدافعت کرتے تھے وہ محض رشتہ داری کی وجہ سے نہ تھی بلکہ اس دفاع میں آپ کی حیثیت ایک مخلص، ایک جاں نثار اور ایسے فدا کار کی تھی جو اپنے رھبر اور پیشوا کا تحفظ کررھا هو۔

منگل، 3 جنوری، 2023

دعائے کمیل بزبان مولا علی علیہ السّلام



۔ یہ مشہور و معروف دعاؤں میں سے ہے اور علامہ مجلسی فرماتے ہیں کہ یہ بہترین دعاؤں میں سے ایک ہے اور یہ حضرت خضرؑ کی دعا ہے۔ امیرالمومنینؑ نے یہ دعا، کمیل بن زیاد کو تعلیم فرمائی تھی جو حضرتؑ کے اصحاب خاص میں سے ہیں یہ دعا شب نیمہ شعبان اور ہر شب جمعہ میں پڑھی جاتی ہے۔ جو شر دشمنان سے تحفظ، وسعت و فراوانی رزق اور گناہوں کی مغفرت کا موجب ہے
,,
اے نورِ حقیقی ! اے پاک و پاکیزہ! اے سب پہلوں سے پہلے، اے سب آخروں سے آخر۔
اے اللہ!    میرے وہ سب گناہ معاف کر دے جو برائیوں سے محفوظ رکھنے والی پناہ گاہوں کو مسمار کر دیتے ہیں، اے اللہ!  میرے وہ سب گناہ معاف کر دےجو عذاب نازل ہونے کی وجہ بنتے ہیں،  اے اللہ!  میرے وہ سب گناہ معاف کر دے  جو نعمتوں کو بدل کر انھیں آفت بنا دیتے ہیں،  اے اللہ!  میرے وہ سب گناہ معاف کر دے جو دعائیں قبول نہیں ہونے دیتے،  اے اللہ!  میرے وہ سب گناہ معاف کر دے جن کی وجہ سے رحمت کی امید ختم ہو جاتی ہے، اے اللہ!  میرے وہ سب گناہ معاف کر دے جو مصیبتیں نازل کراتے ہیں، اے اللہ!  میرے وہ سب گناہ معاف کر دے جو میں نے جان بُوجھ  کر کئے اور ان ساری خطاؤں سے در گزر کر جو میں نے بھولے سے کیں۔
اے اللہ!  تجھے یاد کر کے تیرے قریب آنا چاہتا ہوں اور اس ذریعے سے میں تیرے حضور میں شفاعت کا امیدوار ہوں اور تیرے جودوکرم کا واسطہ دے کر تجھی سے التجا کرتا ہوں کہ مجھے اپنا قرب عطا کر،   مجھے ادائے شکر کی توفیق دے اور اپنی یاد میرےدل میں راسخ کر دے۔
اے اللہ!  میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس شخص کی مانند جو تیرے حضور گِڑگڑانے والا،  عاجزی کرنے والا، خضوع وخشوع کرنیوالا اور گریہ و زاری کرنےوالا ہو، کہ تو میری بھُول چوک معاف کر،   مجھ پر رحم فرما اور جو حصہ تو نے میرے لیے مقرر فرمایا ہے مجھے اس پر راضی، قانع اور مجھے ہر حال میں مطمئن رکھ۔
اے اللہ!  میں تیرے حضور سوال کرتا ہوں اس شخص کی مانندجس پر شدت ہو فاقوں کی، جو مصائب و شدائد سے تنگ تیرےحضور حاجات پیش کرتا ہوجو تیرے لطف و کرم کا زیادہ سے زیادہ خواہش مند ہو۔
اے اللہ! تیری سلطنت عظیم،  تیرا رتبہ بہت ارفع و اعلیٰ،   تیری تدبیرمخفی،  تیرا حکم صاف ظاہر،   تیرا قہر غالب،  تیری قدرت جاری و ساری اور تیری حکومت سے فرار ناممکن ہے۔
اے اللہ! میرے گناہ  بخشنے والا،   میرے عیب کی پردوہ پوشی کرنے والا اور میرے کسی برے عمل کواچھے عمل سے بدلنے والا،  تیرے سوا کوئی نہیں،  تیرے علاوہ اور کوئی معبود نہیں،   میں تیری پاکی کا ماننے والا اور  میں تیری حمد وثنا کرتا ہوں،   میں نے اپنے نفس پرظلم کیا اور اپنی نادانی کے باعث بڑی جراٴت کی اور یہ سوچ کر مطمئن ہو گیا کہ مجھ پر تیری نگاہِ کرم بہت پہلے تھی اور مجھ پر تیرے احسانات قدیم ہیں۔
اے اللہ اور میرے مالک!  تو نے میری کتنی ہی برائیوں کی پردہ پوشی کی،   تو نے مجھ پر سے کتنی ہی سخت بلاؤں کو ٹال دیا،     تو نے مجھے کتنی ہی لغزشوں کی رسوائی سے بچا لیا،  تو نے مجھ سے بے شمار ناگوار آفات کو دور کیا اور کتنی ہی ایسی خوبیاں جن کا میں اہل بھی نہ تھا ، لوگوں میں مشہور کر دیں۔
اے اللہ!  میری آزمائش بہت عظیم ہے،  میری بدحالی حد سے بڑھ گئی ہے،  میرے اعمال نے مجھے عاجز کر دیا ہے،  اپنے گناہوں کی وجہ سے میرے ہاتھ گردن سے بندھ گئے ہیں،  میری امیدوں کی درازی نے مجھے نفع سے محروم کر رکھا ہے،  دنیا نے اپنی جھوٹی چمک دمک سے مجھے دھوکہ دیا ہے اور میرے نفس نے اپنے گناہوں اور ٹال مٹول کے باعث فریب دیا ہے۔
اے میرے آقا!   تجھے تیری عزت کا واسطہ،  تجھ سے التجا کرتا ہوں کہ میری بداعمالیاں اور غلط کاریاں میری دعا کے قبول ہونے میں رکاوٹ نہ بنیں،  میرے جن بھیدوں سے تو واقف ہے تو ان کی وجہ سے مجھے رسوا نہ کرنا اور خلوتوں میں انجام دیئے گئے ان اعمال پر سزا دینے میں جلدی نہ کرنا جو میرے بُرے افعال، گستاخی، میری دائمی کوتاہی، جہالت، میری کثرت خواہشِ نفس اور غفلت ہیں۔
اے اللہ!   اپنی عزت کے طفیل مجھ پر ہر حال میں مہربان رہ اور میرے تمام معاملات میں اپنا لطف و کرم فرما۔
اے میرے معبو د و رب!    تیرے سوا کون ہے جس سے سوال کروں ،  اپنی مصیبت کو دفع کرنے کا اور اپنے کاموں میں نظرِ کرم کرنے کا۔
اے میرے معبو د و مولا!  تو نے میرے لئے جو حکم صادر فرمایا اس پر عمل کرنے میں ہوائے نفس کے تابع رہا اور میرے دشمن نے مجھے جو سنہری خواب دکھائے ،  میں ان سے اپنا بچاؤ نہ کر سکابالآخر اس  نے  مجھے میری خواہشات کا سہارا لے کر دھوکا دیا اور اس میں میری تقدیر نے بھی اس کی مدد کی،  اس طرح میں نے تیری مقرر کردہ بعض حدود سے تجاوز اور تیرے بعض احکامات کی نافرمانی کی۔
تمام حالات میں تیری تعریف مجھ پر واجب ہے،  میرے لئے تو نے جو فیصلہ کیا اور جو حکم اور آزمائش میرے لئے لازمی ہو گئی اس پر مجھے کسی احتجاج کا حق حاصل نہیں۔
اے میرے معبو د!   تیری بارگاہ میں حاضر ہوں اپنی کوتاہی اور اپنے نفس پر ظلم کرنے کے بعد  عذرخواہ ،  پشیمان،   دلِ شکستہ، کیے پر نادم، بخشش کا طلب گار، تیری طرف متوجہ، اقرار کرتا ہوں، مجھے تسلیم ہے، معترف ہوں کہ جوکچھ مجھ سے سرزد ہو چکا اس کے بعد اب میرے بچ نکلنے کے لئے نہ کوئی راہِ فرار ہے اور نہ کوئی پناہ گاہ پاتا ہوں جس کا اپنی اس پریشانی میں رخ کر سکوں سوائے اس کے کہ تو ہی میری عذر خواہی قبول فرمالے اور مجھے اپنے وسیع دامنِ رحمت میں جگہ دے دے۔
اے میرے معبو د!   میری معافی کی درخواست قبول کرلے،  میری تکلیف کی سختی پر رحم فرما اور میرے ہاتھ پاؤں کی اس سخت جکڑ سے مجھے رہائی بخش۔
اے میرے پروردگار!   رحم فرما  میرے جسم کی ناتوانی پر،  میری جلد ک

اتوار، 25 دسمبر، 2022

سر گنگا رام “ محسن لا ہور جنم گھڑی سے سمادھی کی راکھ تک ۔


 

سن ۱۸۵۱تھا اور تاریخ تھی 13 اپریل، جب ہندوستان کے ایک  شخص دولت رام  کے گھر میں ایک بچے نے جنم لیا۔ اس دن سکھوں میں بیساکھی کا تہوار منایا جارہا تھا۔ دولت رام نے اپنے بیٹے کا نام گنگا رام رکھا۔ کچھ عرصے بعد ایک پولیس مقابلے میں دولت رام نے کچھ ڈاکوؤں کو گرفتار کیا۔ ڈاکوؤں کے ساتھیوں نے دولت رام کو دھمکی دی کہ اگر اس نے گرفتار شدگان کو رہا نہ کیا تو وہ اسے بیوی بچے سمیت قتل کردیں گے۔ دولت رام نے فیصلہ کیا کہ اب اسے منگٹانوالا چھوڑ دینا چاہیے چنانچہ راتوں رات اپنے بیوی اور بچے کے ساتھ امرتسر پہنچ گیا 

امرتسر میں بھی اس نے اپنی قابلیت سے بڑی جلدی اپنی جگہ بنا لی اور ساتھ ہی بیٹے کی تعلیم و تربیت بھی کرتا رہا اب یہ بیٹا جوان ہو چکا تھا اس علم دوست انسان کا تعارف یہ ہے کہ 1921 میں سر گنگا رام نے لاہور کے وسط میں ایک زمین خریدی تھی جہاں انہوں نے ایک خیراتی ڈسپنسری قائم کی تھی۔ گنگا رام ٹرسٹ قائم ہوا تو انھوں نے اس ڈسپنسری کو ایک ہسپتال کا درجہ دے دیا جو صوبے کا سب سے بڑا خیراتی ہسپتال بن گیا۔ اب بھی اسے میو ہسپتال کے بعد لاہور کا سب سے بڑا ہسپتال تصور کیا جاتا ہے۔ اس ہسپتال کے زیر اہتمام لڑکیوں کا ایک میڈیکل کالج بھی قائم کیا گیا جو قیام پاکستان کے بعد فاطمہ جناح میڈیکل کالج کے قالب میں ڈھل گیا۔

ان کے علاوہ گورنمنٹ کالج لاہور کی کیمسٹری لیبارٹری، میو ہسپتال کا البرٹ وکٹر وارڈ، لیڈی میکلیگن ہائی سکول، لیڈی مینارڈ سکول آف انڈسٹریل ٹریننگ، راوی روڈ کا ودیا آشرم اورچند دیگر عمارتیں بھی انہی کی رہین منت ہیں۔ انھی نے 1920 کی دہائی میں ماڈل ٹاؤن لاہور کی پلاننگ کی اور انھی نے مال روڈ کو درختوں سے ٹھنڈک عطا کی جس کی وجہ سے آج بھی پرانے لاہوری مال روڈ کو ٹھنڈی سڑک کہتے ہیں۔سر گنگا رام نوجوانوں کے لیے تجارت کو بہت اہمیت  دیتتے تھے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے ایک کامرس کالج کا منصو حکومت کو دیا تو حکومت نے یہ کہہ کر جان چھڑانی چاہی کہ منصوبہ تو بہت اچھا ہے مگر ہمارے پاس اس کے لیے زمین اور عمارت موجود نہیں۔ گنگا رام اسی جواب کے انتظار میں تھے، انہوں نے فوری طور پر اپنا ایک گھر اس مقصد کے لیے پیش کردیا جہاں آج ہیلے کالج آف کامرس قاءم ہے ۔ایک مصنف  بی پی ایل بیدی کی کتاب ‘ہارویسٹ فرام دی ڈیزرٹ: دی لائف اینڈ ورک آف سر گنگا رام‘ (Harvest From The Desert: The Life and Work of Sir Ganga Ram) نظر آئی۔ 1940 میں شائع ہونے والی اس کتاب کی مدد سے سرگنگا رام کے تعارف کا مرحلہ سر ہوا۔ (اب اس کتاب کا اردو ترجمہ سر گنگا رام: صحرا کی فصل کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے۔)لیکن یہ ترجمہ کس نے کیا ہے یہ میرے علم میں نہیں ہے

لاہور کے مال روڈ کی بیشتر عمارات لاہور ہائی کورٹ، جی پی او، عجائب گھر، نیشنل کالج آف آرٹس، کیتھڈرل سکول، ایچیسن کالج، دیال سنگھ مینشن اور گنگا رام ٹرسٹ بلڈنگ انھی سر گنگا رام کی بنوائی ہوئی ہیں۔ان کے علاوہ گورنمنٹ کالج لاہور کی کیمسٹری لیبارٹری، میو ہسپتال کا البرٹ وکٹر وارڈ، لیڈی میکلیگن ہائی سکول، لیڈی مینارڈ سکول آف انڈسٹریل ٹریننگ، راوی روڈ کا ودیا آشرم اورچند دیگر عمارتیں بھی انہی کی رہین منت ہیں۔ انھی نے 1920 کی دہائی میں ماڈل ٹاؤن لاہور کی پلاننگ کی اور انھی نے مال روڈ کو درختوں سے ٹھنڈک عطا کی جس کی وجہ سے آج بھی پرانے لاہوری مال روڈ کو ٹھنڈی سڑک کہتے

ایک واقعہ تو یہ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ ایک دن ایک کنویں میں گر پڑے، اتفاقاً کسی شخص نے انھیں کنویں میں گرتا ہوا دیکھ لیا اور یوں انھیں بچالیا گیا۔ گنگا رام نے اس حادثے کو الہامی اشارے سے تعبیر کیا اور ان کے ذہن میں یہ خیال کوندا کہ انہیں کسی خاص مقصد کے لیے بچا یا گیا ہے

INDIAN  POSTS AND TELEGRAPH DEPARTMENT1922انگریزوں نے گنگا رام کو سر کا خطاب دیا  گنگا رام نے  پنے اپنے نام سے ایک ٹرسٹ قائم کیا جسے چلانے اور کنٹرول کرنے کے لیے انھوں نے بڑی رقوم عطیہ کیں اور اپنی کئی ذاتی عالی شان عمارتیں اور جائیداد ٹرسٹ کے حوالے کیں، جس کی آمدنی سے یہ ٹرسٹ مسلسل چلتا رہا اور 

چلتا رہے گا  جب تک یہ علمی درس گاہیں قائم و دائم رہیں گی سر گنگا رام کا نام بھی موجود رہے .علم کےسمندر میں سر گنگا رام کا بحری بیڑہ رواں دواں رہے گا  اور ہمارے محترم سیاستدانوں اور اشرافیہ کے بڑے بڑے محلات اور جزیرے جو انہوں نے عوام کا لہو نچوڑ کر بنائے ہیں اور خریدے ہیں ان کی قبروں کا مدفن بن جائیں گے۔ ۔یہ جاگیریں یہ محل ان کی اولاد کے بھی کام نہیں آئیں گے کیونکہ ان ان میں عوام کی بد دعاوں  کا گارا شامل ہے

  آئیے اب۔ لتے ہیں اس محس ن لاہور کی سمادھی تک  ۔وہ شحص جس نے لاہور کو جدید ہسپتال دیا آج اسکی سمادھی پر سالوں میں ڈسپنسری تک کی عمارت مکمل نہیں ہوئی. ہمیں گنگارام کی یاد میں کوئی عمارت تعمیر کرنی چاہیے مگر ہم تو اسکی بنائی ہوئی عمارتوں کے بھی نام تبدیل کر رہے ہیں. جس شخص کے متعلق لاہور کے بچے بچے کو معلوم ہونا چاہیے, جس کو نصاب کا حصہ ہونا چاہیے, آج اسکی سمادھی کھنڈر کا درجہ پانے کو ہے.

 گنگارام کی سمادھی لاہور میں کچا راوی روڈ پر ہے. یہاں جانا کچھ مشکل بھی نہیں اور ذیادہ آسان بھی نہیں. اگر رہنمائی لینی ہے تو آپ دو مرتبہ بلائنڈ کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کی درسگاہ بلائنڈ سکول کا پوچھ لیں. یہ سکول کافی معروف ہے. سمادھی سکول سے پہلے آتی ہے.

 گلیوں کے ہجوم میں ڈھونڈتے اور پھرتے ہوئے . لوہے کا دروازہ ملے گا۔دروازے سے داخل ہوں گے تو ایک وسیع میدان میں موجود سمادھی کا دروازہ ہے جہاں ویرانی ناچتی ملے گی

. محسن لاہور کی سمادھی میں تعمیراتی سامان پھینکا ہوا  بانس, ٹوٹی ہوئی لائٹیں, اینٹیں…معلوم ہوتا تھا کہ یہاں عرصہ دراز سے  صفائی نہیں کی گئی

اور  کیا کہوں ۔سر گنگا رام ہم تم سے شرمندہ ہیں

مضمون نگار 

سیّدہ زائرہ عابدی


منگل، 20 دسمبر، 2022

سنگا پور کی ترقّی کاراز

 ۔ سنگاپور کے شمال ميں ملیشيا واقع ہے جو اس کا واحد پڑوسی ہے۔ سنگاپور جو کے دنیا بھر سے آئے ہوئےتارکین وطن کا مرکز ہے- اس کا رقبہ کل ۶۸۳ مربع کلو میٹر ہے۔ سنگاپور میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں انگریزی، چینی، مالے اور انگریزی شامل ہیں، تاہم انگریزی تقریباً ہر کوئی سمجھ لیتا ہے۔ سنگاپور ایک ترقی یافتہ ملک ہے-اس کی ترقّی کا راز اس کے ایماندار حاکموں کے ہاتھ میں ہےجنہوں نے بہترین طرز حکمرانی کی پوری دنیا میں منفرد مثال قائم کی ہے
لیکن اس کی ترقّی کا اصل سفر سنہ ۱۹۶۰ سے شروع ہوا ہے جو اس وقت ایک پسماندہ سنگا پور ہوا کرتا تھا -پھر اس کو  بہترین حکومت ملی اور اس کے عوام کی تقدیر بدل گئ-سنگاپور نے پبلک کارپوریشنوں کو کامیابی سے چلا کر دنیا کو حیران کر دیا۔ یہ کامیابی میرٹ اور صرف میرٹ پر عمل کرنے کی بنا پر حاصل ہوسکی۔لیکوان نے سنگاپور میں ایسی مصنوعات تیار کرنے کیلئے صنعتیں لگائیں جن کو برآمد کیا جا سکے۔ آج سنگاپور اعلیٰ کوالٹی کی مصنوعات برآمد کرنے والا بڑا ملک بن چکا ہے۔ اسکی ترقی کا انحصار جدید ٹیکنالوجی ٹیکس کی کم شرح اور بیرونی سرمایہ کاری کیلئے انتہائی سازگار  ماحول ہےسنگا پور کے لوگ سبزہ کے دلدادہ ہیں -یہ اپنی زمین کے ہر قطعہ پر سبزہ لگاتے ہیں 

۔سنگاپور میں نیت دیانت اور محنت کے اصول پر عمل کیا جاتا ہے۔ ۔ اس طرح سنگاپور قانون پر عمل کرنے والا دنیا کا اہم ترین ملک بن چکا ہے۔لیکوان نے اپنے ملک کے شہریوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی اور ان میں نظم و ضبط پیدا کیا۔سنگاپور دنیا کا صاف ترین ملک ہے   سنگاپور ائرلائن کا شمار دنیا کی بہترین ایئرلائنز میں ہوتا ہے

سنگاپور ائرلائن پبلک سیکٹر میں ہے حکومت اس کو کامیابی کے ساتھ چلا رہی ہے۔سنگاپور میں انفراسٹرکچر پر بہت توجہ دی گئی ہے تاکہ لوگ آسانی کے ساتھ کم وقت میں مارکیٹوں اور دفتروں اور سکولوں تک پہنچ سکیں۔ سنگاپور میں بہترین انڈسٹریل پالیسی تشکیل دی گئی ہے ۔ کوالٹی یعنی معیار پر پوری توجہ دی جاتی ہے۔ لیبر کو مطمئن رکھا جاتا ہے سیونگ کی شرح بلند ہے بجٹ متوازن رہتا ہے۔ ٹیکس کم لگائے جاتے ہیں شرح سود بھی کم رکھی گئی ہے۔ سنگاپور کی معاشی پالیسی میں مہارت  استعداد اور پیداوار پر توجہ دی گئی ہے۔ سنگاپور میں نسلی امتیاز کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ بہترین لوکیشن کی وجہ سے سنگاپور دنیا کا ٹریڈ سینٹر بن چکا ہے اس کا اپنا دفاعی نظام ہے اور خوبصورتی کی وجہ سے ٹورسٹ کیلئے پر کشش ہے۔  چین سنگاپور کے کامیاب معاشی ماڈل کو فالو کر کے دنیا کی عظیم معاشی طاقت بن چکا ہے۔
چین اور سنگاپور دونوں ملکوں کی ترقی اور خوشحالی اس بات کا ٹھوس ثبوت ہے کہ جب   کسی ملک کا نظام صاف شفاف مساوی  ہوتا ہے اور جہاں  قانون کی حکمرانی  ہوتی ہے جہاں پر میرٹ کو ترجیح دی جاتی ہے وہ ملک کبھی نا کبھی ترقی یافتہ ملکوں کی صفوں میں کھڑے ہو سکتے ہیں کرسکتے ۔پاکستان کو اللہ تعالی نے ہر قسم کی نعمتیں عطا کر رکھی ہیں جو سنگاپور کے پاس نہیں تھیں۔ سنگا پور کی ترقّی کیسے ہوئ جو وہ  آج ایک ترقی یافتہ ملک ہے۔ یہ ایک پسماندہ ملک سے۔ اس کی کیا وجوہات ہیں؟ سوشل میڈیا پر کسی نے ایک کہانی شائع کی ہے جس میں اس راز سے پردہ ایک دلچسپ انداز سے اٹھایا گیا ہے-اس کے صدر نے اپنی کہانی لکھتے ہوئے بتایا
 ۔در حقیقت، سنگا پور میں، جہاں میں نے 31سال حکومت کی، توقع حیات مردوں کی 80سال اور عورتوں کی85 سال ہے۔اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ میں توقع حیات سے بھی11 سال زیادہ زندہ رہا۔ میری زندگی اچھی گذری جو میں نے اپنی قوم کی ترقی اور خوشحالی پر صرف کی۔ میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ میں جو کچھ کیا اپنی قوم کی بہتری اور بھلائی کے لیے کیا، اور اپنی ذاتی مفاد کے لیے نہیں،۔میں نے دنیاایک مطمئن شخص کی طرح چھوڑی، جس کا مجھے کوئی افسوس نہیں۔تو یہ اصل حقیقت ہے جس کی بناء پر آج دنیا میں سنگاپور کا نام احترام سے لیا جاتا ہے۔ ہم ایک چھوٹے سے ،مایوس کن جزیرہ تھے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ ہماری بقا نا ممکن تھی۔ہم نے 1963 میں ملایا اور دوسرے ملکوں کے ساتھ ملکر ایک اتحاد بنایا۔ کہ سنگا پور ترقّی کر سکے ہمارے پاس پینے کا پانی نہیں تھاجو باہر سے لانا پڑتا تھا۔کوئی قدرتی وسائل نہیں تھے۔ نہ تیل، نہ سونا، نہ معدنیات۔ کچھ بھی نہیں۔جو کچھ تھا وہ ہمارے عوام  اور بندرگاہیں، ہم نے ہمت نہیں ہاری۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم اسی سے شروعات کریں گے۔اور اپنی قسمت بدلیں گے۔

آج ہماری کہانی بالکل بدل چکی ہے او۔ہم ایشیا کے چار شہروں میں سے ایک ہیں، جو اپنی حیرت انگیز ترقی کی وجہ سے مشہور ہیں۔سنگا پور ایشیا کا واحد ملک ہے جس کی تمام کریڈٹ ایجنسیوں میں AAA کی ریٹنگ ہے۔ہم دنیا کا چوتھا سب سے بڑا مالی مرکز ہیں۔ ہمارا ملک دنیا کی پانچویں مصروف ترین بندرگاہ ہے ۔ صنعت کاری ہماری معیشت کا تیس فیصد حصہ ہے۔سنگاپور ، فی کس کل ملکی پیداوار کے حساب سے دنیا کا تیسرا سب سے بڑا ملک ہے اور سنگا پور ہر دن کی ہر گھڑی ترقّی کا سفر آگے ہی آگے طے کرتا جا رہا ہے-

پیر، 19 دسمبر، 2022

شہزادئ کونین( س )کا عملی تربیت کا انداز



 دین اسلام نے انسان کی پیدائش سے پہلے رشتہ ازواج کے وقت سے ہی اولاد کے اخلاق و کردار کو مد نظر رکھتے ہوئے قدم اٹھانے کی تاکید کی ہے اور تربیت اولاد کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہوئے اسے والدین پر فرض قرار دیا ہے۔

اب اس عظیم ذمہ داری کو نبھانے کے لئے ہمیں ایک آئیڈیل کی ضرورت ہے۔کائنات میں مولائے کائنات ؑ اور سیدہ کونین ؑ کے گھرانے سے بڑھ کر اور کس کا گھرانہ ہو سکتا ہے جو تربیت اولاد کے حوالے سے تمام اولین و آخرین کے لئے نمونہ عمل ہو۔ کیونکہ اس گھرانے میں مولی المتقین و ایمان کل علی ابن ابی طالب علیہ السلام جیسا فخر موجودات عالم باپ کا کردار ادا کر رہے ہیں تو سیدۃ النساء العالمین جیسی ہستی ماں کا کردار ادا کر رہی ہے۔ 

یہی وہ گھرانہ ہے جس سے امام حسن ؑ و امام حسین ؑ جیسے جوانان جنت کے سردار اور جناب زینب ؑ و ام کلثوم ؑجیسی عظیم ہستیاں افق عالم پر منور ہوئیں ۔ آج اگر والدین اپنی اولاد کی بہترین انداز میں تربیت کرنا چاہتے ہیں اور ان کو ایمان و اخلاق و نیک کردار میں کمال پر پہنچانا چاہتے ہیں تو در سیدہ کونین علیھا السلام سے ہی اولاد کی پرورش کے سنہرے اصولوں اور عملی نمونوں کو اخذ کر کے ان پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جناب فاطمہ زھراء س کی سیرت کا مطالعہ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؑ اولاد کی تربیت زبانی وعظ و نصائح سے زیادہ اپنے عمل و کردار سے کیا کرتیں تھیں۔

 ۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے "واما ابنتی فاطمۃ،فانھا سیدۃ نساء العالمین من الاولین و الآخرین "” بے شک میری بیٹی فاطمہؑ عالمین میں موجود اولین و آخرین کی تمام عورتوں کی سردار ہیں

حدیث کساءسے ہم کو درس ملتا ہے کہ ہم اپنے معصوم بچّوں سے کس طرح مخاطب ہوں- کہ جب امام حسن مجتبی و امام حسین علیھما السلام باری باری گھر تشریف لاتے ہیں اور آپ پر سلام کرتے ہیں۔ تو آپ کس خوبصورتی اور محبت بھرے انداز میں جواب دیتی ہیں ملاحظہ فرمائیں جو کہ جناب فاطمہ زھراء سے ہی روایت ہے۔

"اور پھر میرے بیٹے حسن ؑ تشریف لائے اور کہا مادر جان ! آپ پر سلام ہوِ،تو میں نے کہا تم پر بھی سلام ہو اے میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور میرا میوہ دل۔۔۔ اورجب میرے بیٹے حسین ؑ تشریف لائے اور کہا مادر جان ! آپ پر سلام ہوِ،تو میں نے کہا تم پر بھی سلام ہو اے میرے لخت جگر، میری آنکھوں کی ٹھنڈک اورمیرے میوہ دل۔۔”

جب آپ کے دونوں باری باری تشریف لاکر آپ کو سلام کرتے ہیں تو آپ نہ صرف سلام کا جواب دیتی ہیں بلکہ ان سے پیار و محبت کا اظہار بھی فرماتی ہیں۔ جیسے صرف و علیک السلام نہیں کہا بلکہ دونوں کے سلام کے جواب میں فرمایا وعلیک السلام اے میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور میوہ دل۔۔ 

آپ اپنے بچوں سے کس قدرمحبت کرتیں تھیں اس کا اندازہ ہم اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ  دین مقدس اسلام کی نگاہ میں ایمان و کردار کے لحاظ سے اولاد کی تربیت اور پرورش کس حد تک اہم ہے اور اس کی کس قدر ضرورت ہے اس کو واضح کرنے لئے ہم قرآن و حدیث سے چند نمونے یہاں پیش کرینگے۔ ۔ رسالتمآب ؐ نے ارشاد فرمایا: أدبوا أولادكم على ثلاث خصال: حب نبيكم، وحب أهل بيته، وقراءة القرآن

"اپنی اولاد کو تین خصلتوں کی تربیت دو: اپنے نبی کی محبت، اپنے نبی کے اہل بیت کی محبت اور تلاوت قرآن مجید”تربیت اولاد کس قدراہم ترین ذمہ داری ہے اور اس کی کس قدر ضرورت و اہمیت ہے ا سکا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سید الساجدین امام زین العابدین علیہ السلام جیسی ہستی اپنی دعاؤں میں اولاد کے حق میں دعا کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔

اللھم اعنّی علی تربیتھم و تادیبھم و برّھم

(اے اللہ! (میری اولاد) کی تربیت و تادیب اور ان سے اچھے برتاو میں میری مدد فرما”  

سیرت سیدہ کونین علیھا السلام میں تربیت اولاد کے عملی نمونے

کائنات میں سیدہ کونین جناب فاطمہ زھراء علیھا السلام کی ذات گرامی ان ہستیوں میں سے ایک ہیں جن کی حیات طیبہ کو حدود و قیود کے بغیر عالمین کی مخلوقات کے لئے نمونہ عمل قرار دیا ہے۔ خداون عالم ہم سب خواتین کو ہماری بیٹیوں کو اور آنے والی نسلوں کی بیٹیوں کو بہ بہ پاک سلام اللہ علیہا کے نقش مبارک پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین 

ہفتہ، 17 دسمبر، 2022

غریبوں کے کچّے گھروندے

  کیا عجب تماشہ ہے کہ ہمارے ارب پتی حاکمان پاکستان سیلاب زدگان کی داد رسی کے لئے جب ان کی جیب میں پھوٹی کوڑی بھی نہیں تھی جو سیلاب زدگان کی کچھ اشک شوئ ہو جاتی لیکن جب وہ ارب پتی حاکمان واپس گئے تو سیلاب زدگا ن جھولی پھیلا پھیلا کر انہیں بد دعائیں دے رہے تھے -ور پھر  خستہ حال  بے یارو مدد گاروں نے دیکھا  کہ بلوچستان میں سیلاب زدگان کی بحالی اور امداد کیلئے بیرون ممالک سے بھیجے گئے خیموں کوجے یو آئی کے جلسے میں بطور قالین استعمال کرنیکی فوٹوزاورویڈیو سوشل میڈیاپر وائرل ہوگئِں  ہے سوشل میڈیاکے صارفین کے مطابق سیاسی حکام کی اس حرکت سے نہ صرف سیلاب زدگان کی حق تلفی ہوئی ہے بلکہ بیرونی سطح پر پاکستان کی شدید بد نامی ہوئی ہے لیکن کسی کے اوپر کیا اثر ہونا ہے پاکستان کی نیک نا می یا بد نامی سے ان کو کیا لینا دینا ہے بس اپنی جیب کو گرم رہنا ہے

مولانا فضل الرحمن کے اس جلسے کی فوٹوز اور ویڈیو ز تین روز سے سوشل میڈیا پرٹاپ ٹرینڈ بنی رہی کیونکہ یو این ایچ سی آر کی جانب سے ممکنہ طورپربے گھر سیلاب زدگان کیلئے بھیجے گئے امدادی خیموں کو بطور قالین بچھایاگیا تھا حالانکہ بلوچستان میں ہزاروں کی تعداد میں خاندان بے گھر ہوئے ہیں اس وقت وہ کھلے آسمان میں پڑے ہوئے ہیں ان حالات میں مذکورہ متاثرین کی داد رسی کی بجائے خیموں کا جلسے میں استعمال  بذات خود ایک سوالیہ نشان ہے  ۔-

سیلاب زدگان کی امداد اور ہمارے حاکموں کی خیانت

پاکستان میں اس سال پھر سیلاب اور بارشوں سے بڑے پیمانے پر تباہی ہو رہی ہے اور جولائی سے اب تک ملک کے چاروں صوبوں میں سینکڑوں افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں جبکہ متعدد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ سیلاب سے سڑکوں، پلوں اور املاک کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ ان بارشوں اور سیلاب سے کہیں ہنستے بستے گھر پانی میں بہہ گئے اور کہیں مکانات پر پہاڑی تودے آ گرے جبکہ کچے مکانات  کی چھتیں گر پڑیں اس سال کے سیلاب نے تقریباً ہزاروں مکانا ت کو نابود کیا اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ بے گھر ہوکے رہ گئے۔ ہزاروں بستیاں صفحہء سے نابود ہو گئیں ، بھوک کی تڑپ کتنی ہولناک ہوتی ہے، زندگی کا سازوسامان اچانک بکھر جانے دکھ کیا ہوتا ہے؟ کوئی آج جا کے سیلاب زدہ لوگوں سے پوچھے۔ 

نہ جانے کتنے معصوم بچے اپنی ماؤں کی گود اجاڑ چکے، نہ جانے کتنے ماں باپ اپنے بچوں کو یتیم کر کے پانی کی بہاؤ کے ساتھ ہچکولے کھاتے ہوئے موت کی آغوش میں چلے گئے، نہ جانے کتنے بسے بسائے گھر یوں مٹ گئے جیسے کبھی ان کا وجود ہی نہیں تھا۔الحمد للہ! الکہف ایجوکیشنل ٹرسٹ اپنے ان غم زدہ بھائیوں کی خدمت میں پیش پیش ہے۔ الکہف ایجوکیشنل ٹرسٹ کے چیئرمین کی حیثیت سے میں نے بذاتِ خود اپنی ٹیم کے ہمراہ ڈیرہ غازی خان اور اس کے قریبی علاقوں میں سیلاب اور شدید بارشوں کے باعث ہونے والے نقصانات کا معائنہ کیا اور متاثرین کے لیے امدادی سرگرمیوں کے متعلق حکمت عملی بنا کر کام کا آغاز کیا دیا ہے۔الحمد للہ! جنوبی پنجاب ڈیرہ غازی خان اور دیگر قریبی علاقوں تونسہ شریف، مزید راجن پور، پل قمبرگاڈی موڑ، شادن لنڈ، بستی چھٹانی، کلیری، کھوسہ،چوٹی کا علاقہ لوہار والا، لشاری بستی،جھنڈا موڑ، درخواست جمال خان کا علاقہ میں الکہف ٹرسٹ کی انتظامیہ اپنی امدادی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔

 متاثرین سیلاب میں راشن، خیمے اور ادویات کی تقسیم جاری ہے۔ الکہف سیلاب متاثرین پروگرام کے تحت اس وقت تک پانچ سوراشن پیکج تقسیم کیے گئے۔ تین سوخیمے دیے گئے۔ شادن لنڈ کا علاقہ پل قمبر کے قریب میڈیکل کیمپ بھی لگایا گیا جس میں اب تک 1000افراد کا علاج اور ضروری دوائیں مہیا کی جا چکی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ کندھ کوٹ،جیکب آباد، نصیراباد، جعفراء باد گنداخہ باغ ہیڈمیں بھی امدادی سرگرمیاں تیزی سے جاری ہیں۔ 1000سے زائد خاندانوں میں لاکھوں روپے مالیت کے امدادی سامان تقسیم کیے گئے، جن میں خیمے، ٹینٹ، دریاں، کپڑے، غذائی راشن،آٹا،چاول، خوردنی تیل، چینی، چائے پتی، خشک دودھ، صاف پانی اور ادویات تقسیم کی گئیں۔ جبکہ ڈاکٹرز کی ٹیم نے میڈیکل کیمپ میں سینکڑوں متاثرین کا علاج کیا اور ادویات فراہم کیں۔ سینکڑوں خاندانوں کے لیے خوراک اور ادویات الکہف ٹرسٹ (کراچی زون) کے اہل خیر حضرات کے تعاون سے فراہم کیا گیا۔ 

سیلاب کے اسباب میں اس بات پر تو کوئی دوسری رائے نہیں ہو سکتی کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور ان قدرتی آفات میں سے ہے جنہیں روکنا کسی کے بس میں نہیں ہوتا، البتہ اس کے نقصانات کو کم سے کم تک محدود کرنے کے لیے تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں۔ لیکن اسباب سے آگے مسبب الاسباب کی طرف لوگوں کی توجہ کم ہے جو ہمارے لیے اجتماعی لمحہ فکریہ ہے۔ قدرتی آفات کے موقعہ پر ہمارا سب سے پہلا فریضہ یہ ہے کہ ہم اجتماعی توبہ و استغفار، اپنے جرائم اور بداعمالیوں کا احساس، اپنی زندگیوں کو بدلنے کی کوشش، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام، معاشرے میں برائیوں کو روکنے اور نیکیوں کو پھیلانے کی محنت اور دین کی طرف عمومی رجوع کا ماحول پیدا کریں۔اس کے بعد ہماری دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کریں، ان کی بحالی کے لیے کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں کہ یہ ہماری دینی اور قومی ذمہ داری ہے اور اس کا اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑا اجر ہے۔   

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر