سن ۱۸۵۱تھا اور تاریخ تھی 13 اپریل، جب ہندوستان کے ایک شخص دولت رام کے گھر میں ایک بچے نے جنم لیا۔ اس دن سکھوں میں بیساکھی کا تہوار منایا جارہا تھا۔ دولت رام نے اپنے بیٹے کا نام گنگا رام رکھا۔ کچھ عرصے بعد ایک پولیس مقابلے میں دولت رام نے کچھ ڈاکوؤں کو گرفتار کیا۔ ڈاکوؤں کے ساتھیوں نے دولت رام کو دھمکی دی کہ اگر اس نے گرفتار شدگان کو رہا نہ کیا تو وہ اسے بیوی بچے سمیت قتل کردیں گے۔ دولت رام نے فیصلہ کیا کہ اب اسے منگٹانوالا چھوڑ دینا چاہیے چنانچہ راتوں رات اپنے بیوی اور بچے کے ساتھ امرتسر پہنچ گیا
امرتسر میں بھی اس نے اپنی قابلیت سے بڑی جلدی اپنی جگہ بنا لی اور ساتھ ہی بیٹے کی تعلیم و تربیت بھی کرتا رہا اب یہ بیٹا جوان ہو چکا تھا اس علم دوست انسان کا تعارف یہ ہے کہ 1921 میں سر گنگا رام نے لاہور کے وسط میں ایک زمین خریدی تھی جہاں انہوں نے ایک خیراتی ڈسپنسری قائم کی تھی۔ گنگا رام ٹرسٹ قائم ہوا تو انھوں نے اس ڈسپنسری کو ایک ہسپتال کا درجہ دے دیا جو صوبے کا سب سے بڑا خیراتی ہسپتال بن گیا۔ اب بھی اسے میو ہسپتال کے بعد لاہور کا سب سے بڑا ہسپتال تصور کیا جاتا ہے۔ اس ہسپتال کے زیر اہتمام لڑکیوں کا ایک میڈیکل کالج بھی قائم کیا گیا جو قیام پاکستان کے بعد فاطمہ جناح میڈیکل کالج کے قالب میں ڈھل گیا۔
ان کے علاوہ گورنمنٹ کالج لاہور کی کیمسٹری لیبارٹری، میو ہسپتال کا البرٹ وکٹر وارڈ، لیڈی میکلیگن ہائی سکول، لیڈی مینارڈ سکول آف انڈسٹریل ٹریننگ، راوی روڈ کا ودیا آشرم اورچند دیگر عمارتیں بھی انہی کی رہین منت ہیں۔ انھی نے 1920 کی دہائی میں ماڈل ٹاؤن لاہور کی پلاننگ کی اور انھی نے مال روڈ کو درختوں سے ٹھنڈک عطا کی جس کی وجہ سے آج بھی پرانے لاہوری مال روڈ کو ٹھنڈی سڑک کہتے ہیں۔سر گنگا رام نوجوانوں کے لیے تجارت کو بہت اہمیت دیتتے تھے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے ایک کامرس کالج کا منصو حکومت کو دیا تو حکومت نے یہ کہہ کر جان چھڑانی چاہی کہ منصوبہ تو بہت اچھا ہے مگر ہمارے پاس اس کے لیے زمین اور عمارت موجود نہیں۔ گنگا رام اسی جواب کے انتظار میں تھے، انہوں نے فوری طور پر اپنا ایک گھر اس مقصد کے لیے پیش کردیا جہاں آج ہیلے کالج آف کامرس قاءم ہے ۔ایک مصنف بی پی ایل بیدی کی کتاب ‘ہارویسٹ فرام دی ڈیزرٹ: دی لائف اینڈ ورک آف سر گنگا رام‘ (Harvest From The Desert: The Life and Work of Sir Ganga Ram) نظر آئی۔ 1940 میں شائع ہونے والی اس کتاب کی مدد سے سرگنگا رام کے تعارف کا مرحلہ سر ہوا۔ (اب اس کتاب کا اردو ترجمہ سر گنگا رام: صحرا کی فصل کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے۔)لیکن یہ ترجمہ کس نے کیا ہے یہ میرے علم میں نہیں ہے
لاہور کے مال روڈ کی بیشتر عمارات لاہور ہائی کورٹ، جی پی او، عجائب گھر، نیشنل کالج آف آرٹس، کیتھڈرل سکول، ایچیسن کالج، دیال سنگھ مینشن اور گنگا رام ٹرسٹ بلڈنگ انھی سر گنگا رام کی بنوائی ہوئی ہیں۔ان کے علاوہ گورنمنٹ کالج لاہور کی کیمسٹری لیبارٹری، میو ہسپتال کا البرٹ وکٹر وارڈ، لیڈی میکلیگن ہائی سکول، لیڈی مینارڈ سکول آف انڈسٹریل ٹریننگ، راوی روڈ کا ودیا آشرم اورچند دیگر عمارتیں بھی انہی کی رہین منت ہیں۔ انھی نے 1920 کی دہائی میں ماڈل ٹاؤن لاہور کی پلاننگ کی اور انھی نے مال روڈ کو درختوں سے ٹھنڈک عطا کی جس کی وجہ سے آج بھی پرانے لاہوری مال روڈ کو ٹھنڈی سڑک کہتے
ایک واقعہ تو یہ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ ایک دن ایک کنویں میں گر پڑے، اتفاقاً کسی شخص نے انھیں کنویں میں گرتا ہوا دیکھ لیا اور یوں انھیں بچالیا گیا۔ گنگا رام نے اس حادثے کو الہامی اشارے سے تعبیر کیا اور ان کے ذہن میں یہ خیال کوندا کہ انہیں کسی خاص مقصد کے لیے بچا یا گیا ہے
INDIAN POSTS AND TELEGRAPH DEPARTMENT1922انگریزوں نے گنگا رام کو سر کا خطاب دیا گنگا رام نے پنے اپنے نام سے ایک ٹرسٹ قائم کیا جسے چلانے اور کنٹرول کرنے کے لیے انھوں نے بڑی رقوم عطیہ کیں اور اپنی کئی ذاتی عالی شان عمارتیں اور جائیداد ٹرسٹ کے حوالے کیں، جس کی آمدنی سے یہ ٹرسٹ مسلسل چلتا رہا اور
چلتا رہے گا جب تک یہ علمی درس گاہیں قائم و دائم رہیں گی سر گنگا رام کا نام بھی موجود رہے .علم کےسمندر میں سر گنگا رام کا بحری بیڑہ رواں دواں رہے گا اور ہمارے محترم سیاستدانوں اور اشرافیہ کے بڑے بڑے محلات اور جزیرے جو انہوں نے عوام کا لہو نچوڑ کر بنائے ہیں اور خریدے ہیں ان کی قبروں کا مدفن بن جائیں گے۔ ۔یہ جاگیریں یہ محل ان کی اولاد کے بھی کام نہیں آئیں گے کیونکہ ان ان میں عوام کی بد دعاوں کا گارا شامل ہے
آئیے اب۔ لتے ہیں اس محس ن لاہور کی سمادھی تک ۔وہ شحص جس نے لاہور کو جدید ہسپتال دیا آج اسکی سمادھی پر سالوں میں ڈسپنسری تک کی عمارت مکمل نہیں ہوئی. ہمیں گنگارام کی یاد میں کوئی عمارت تعمیر کرنی چاہیے مگر ہم تو اسکی بنائی ہوئی عمارتوں کے بھی نام تبدیل کر رہے ہیں. جس شخص کے متعلق لاہور کے بچے بچے کو معلوم ہونا چاہیے, جس کو نصاب کا حصہ ہونا چاہیے, آج اسکی سمادھی کھنڈر کا درجہ پانے کو ہے.
گنگارام کی سمادھی لاہور میں کچا راوی روڈ پر ہے. یہاں جانا کچھ مشکل بھی نہیں اور ذیادہ آسان بھی نہیں. اگر رہنمائی لینی ہے تو آپ دو مرتبہ بلائنڈ کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کی درسگاہ بلائنڈ سکول کا پوچھ لیں. یہ سکول کافی معروف ہے. سمادھی سکول سے پہلے آتی ہے.
گلیوں کے ہجوم میں ڈھونڈتے اور پھرتے ہوئے . لوہے کا دروازہ ملے گا۔دروازے سے داخل ہوں گے تو ایک وسیع میدان میں موجود سمادھی کا دروازہ ہے جہاں ویرانی ناچتی ملے گی
. محسن لاہور کی سمادھی میں تعمیراتی سامان پھینکا ہوا بانس, ٹوٹی ہوئی لائٹیں, اینٹیں…معلوم ہوتا تھا کہ یہاں عرصہ دراز سے صفائی نہیں کی گئی
اور کیا کہوں ۔سر گنگا رام ہم تم سے شرمندہ ہیں
مضمون نگار
سیّدہ زائرہ عابدی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں