شہادت بی بی سکینہ سلام اللہ علیہا
خاتم ا لانبیأ حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے چھوٹے اور لاڈلے نواسے ، نورِ
عین شافع محشر حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ سکینہ میری نمازِ شب کی دعاؤں
کا ثمر ہے ۔ اما م حسین علیہ السّلام دعا کرتے تھے کہ یا رب مجھے ایسی بیٹی عطا کر جو مجھ سے
بے پناہ محبّت کرتی ہو اور میں بھی اس سے بے پناہ محبّت کرتا ہوں -اللہ تعالیٰ نے امام
مظلوم 'سیّد الشّہداء کو سکینہ کی صورت ویسی ہی بیٹی عطا کی
سکینہ سلام اللہ علیہ ۲۰ رجب ۵۶ ھجری میں اس جہانِ فانی میں متولد ہوئیں سکینہ کے
معنی ہیں قلبی و ذہنی سکون۔ پر یہ بچی سکون سے نہ رہ سکی نازونعم سے پلی، باپ کے سینے پر
سونے والی اپنی پھپیوں کی چہیتی پیاری سکینہ 4 سال ہی میں یتیمہ ہو گئی -رات جو گزری اور دن آیا تو سکینہ نے کہا: پھوپھی جان! کیا یہاں
دن نہیں نکلے گا؟یہاں تو روشنی ہے ہی نہیں؟میں گھٹ کر مرجاؤں گی۔ جنابِ زینب سمجھاتی رہیں، یہاں تک کہ جب دوسری شام آگئی تو سکینہ کچھ اتنی زیادہ گھبراگئیں کہ اب جتنا سمجھاتی ہیں جنابِ زینب ، اس بچی کو قرار نہیں آتا۔مسلسل رو رہی ہے۔ بابا!ارے جب آپ گئے تھے تو مجھ سے فرماگئے تھے کہ میں تمہیں لینے کیلئے آؤں گا، آپ کہاں چلے گئے؟ میں کیا کروں؟میں اس جگہ کیسے رہ سکتی ہوں؟میری روح نکل رہی ہے، بابا! آئیے
تقریباً آدھی رات تک یہ بچی روتی رہی۔ اس کے بعد کبھی جنابِ زینب گود میں لیتی تھیں، کبھی امام زین العابدین گودمیں لیتے تھے، کبھی جنابِ رباب گود میں لیتی تھیں۔جنابِ رباب کے دوبچے تھے، ایک جنابِ سکینہ اور ایک جنابِ علی اصغر ۔سکینہ کو کسی کی گود میں قرار نہیں آتا تھا۔ آخر تھک کر کچھ آنکھ بند ہوئی، تھوڑی دیر تک سوئیں، ایک مرتبہ جو اٹھیں تو اُنہوں نے آواز دی:پھوپھی جان! میرے بابا آئے ہوئے تھے، مجھے چھوڑ کر پھر کہاں چلے گئے؟ابھی ابھی مجھے گود میں لئے ہوئے تھے، مجھے پیارکررہے تھے، وہ کہاں چلے گئے ہیں مجھے چھوڑ کر؟
یہ جو باتیں شروع کیں تو اہلِ بیت میں ایک کہرام برپا ہوگیا۔ بے اختیار ہوکر بیبیاں رونے لگیں۔ جب آوازیں بلند ہوئیں تو محل سرائے یزید تک یہی گریہ و بکا پہنچا۔ یہ ملعون جاگ اُٹھا۔ کسی سے کہا کہ پوچھ کر آؤ کہ یہ کیسا شور ہے؟ امام زین العابدین نے کہا کہ بچی یتیم ہے، اُس نے خواب میں اپنے باپ کو دیکھا ہے اور اب وہ پکار رہی ہے،یہ تمام بیبیاں اسی لئے رو رہی ہیں۔
یزید نے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے اس کو بتایا گیا کہ ایک چھوٹی بچی اپنے بابا کو یاد
کر کے رو رہی ہے ۔۔۔ یزید ملعون نے اپنے حواریوں سے پوچھا کہ اس کو کس طرح
خاموش کیا جائے یزید کو بتایا گیا کہ اگر سرِ حسین علیہ السلام زندان میں بجھوادیں تو یہ بچی
خاموش ہوجائے گی ، پھر ایسا ہی ہوا سرِ امام حسین علیہ السلام زندان میں لایا گیا اک حشر
برپا ہوا ، تمام بیبیاں احتراماً کھڑی ہوگئیں
سید سجاد طوق و زنجیر سنبھالے بابا حسین کے سر کو لینے آگے بڑھے سکینہ کی گود میں جب
بابا کا سر آیا بیچینی سے لرزتے ہونٹ امامِ عالی مقام کے رخسار پر رکھ دیے ، کبھی ماتھا
چومتی کبھی لبوں کا بوسہ لیتیں روتی جاتیں اور شکوے کرتی جاتیں
بابا ۔بابا مجھے طمانچے مارے گئے بابا میرے کانوں سےگوشوارے چھینے گئے ۔ میرے
کان زخمی ہوگئے میرے دامن میں آگ لگی بابا نہ آپ آئے نہ عمو آئے نہ بھائی اکبر آئے
۔ بابا ہمیں بازاروں میں گھمایا گیا بابا اس قید خانے میں میرا دم گھٹتا ہے ۔ پیاسی سکینہ روتی
رہی ہچکیوں کی آواز بتدریج مدھم ہوتی گئی ۔ پھربالآخر خاموشی چھاگئی-سید سجاد کھڑے ہو گئے پھوپی زینب کو سہارا دیا اور بلند آواز میں فرمایا
انا للہِ وانا الیہِ راجعون
سکینہ ہمیشہ کے لیئے خاموش ہو گئی
شام میں یزید کے محل کے ساتھ اس چھوٹے سے قید خانہ میں ہی اس معصوم بچی کو اسی
خون آلود کرتے میں دفنا دیا گیا جو لوگ شام میں زیارات کے لیے جاتے ہیں اس بی بی کے
مزار پر ضرور دیا جلاتے ہیں
بی بی سکینہ قید خانے میں اپنے گھر کو بہت یاد کرتی تھیں اورہر دن بی بی زینب سے سوال
کرتی تھیں پھپھی اماّں ہم مدینے اپنے گھر کب جائیں گے
وائے افسوس کہ بی بی کو گھر جانا نصیب نا ہوا